روس نے یوکرین کو امن مذاکرات کے دوران سخت شرائط پیش کی ہیں جن کے تحت جنگ ختم کرنے کی شرط یوکرین کی جانب سے بڑے علاقوں کی قربانی اور فوج کی تعداد پر پابندی ہے۔ یہ مطالبات روسی میڈیا کی رپورٹ کردہ ایک یادداشت میں شامل ہیں جسے مذاکرات کے دوران پیش کیا گیا۔
مذاکرات کی یہ دوسری باضابطہ نشست تھی جو مارچ (2022) کے بعد ہوئی۔ ملاقات ایک گھنٹے سے بھی کم وقت تک جاری رہی جس میں جنگ بندی پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ دونوں فریقوں نے قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق کیا، خاص طور پر کم عمر اور شدید زخمی قیدیوں کے، اور (12) ہزار ہلاک فوجیوں کے اجساد کی واپسی کا وعدہ کیا گیا۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے اس ملاقات کو “بہت اہم” قرار دیا اور کہا کہ وہ روس کے صدر ولادی میر پوتن، یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ترکی میں ملاقات کرانے کی کوشش کریں گے۔
تاہم، یوکرین، یورپی اتحادیوں اور واشنگٹن کی طرف سے روس پر زور دیا جا رہا تھا کہ وہ جنگ بندی کا اعلان کرے، لیکن اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ ماسکو کا کہنا ہے کہ وہ جنگ کو وقتی طور پر روکنے کی نہیں بلکہ مستقل حل کی خواہش رکھتا ہے جبکہ کیو کی ر کا مؤقف ہے کہ پوتن امن میں سنجیدہ نہیں ہیں۔
ْیوکرین کے دفاعی وزیر رستم عمرؤوف نے کہا کہ یوکرین نے روس کی پیش کردہ دستاویز کا جائزہ لیا، اور فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ یوکرین نے جون کے آخر تک مزید مذاکرات کی تجویز پیش کی ہے، مگر ان کے بقول زیلنسکی اور پوتن کے درمیان براہ راست ملاقات کے بغیر تمام مسائل حل نہیں ہو سکتے۔
یوکرین کے صدر زیلنسکی نے کہا کہ انہوں نے روس کو 400 بچوں کی فہرست دی ہے جنہیں روس نے اغوا کیا ہے، مگر روسی وفد نے صرف 10 بچوں کی واپسی پر اتفاق کیا ہے۔ روس کا موقف ہے کہ بچوں کو جنگ زدہ علاقوں سے محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔
روس کی یادداشت کے مطابق جنگ ختم کرنے کے لیے کرائمیا کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حیثیت اور چار دیگر یوکرینی علاقوں کو روسی علاقہ تسلیم کیا جانا ضروری ہے۔ یوکرین کو ان تمام علاقوں سے اپنی فوجی دستے واپس لینے ہوں گے۔ اس کے علاوہ، روس چاہتا ہے کہ یوکرین غیر جانبدار ملک بنے، نیٹو میں شمولیت نہ کرے، روسی زبان کو سرکاری زبان بنایا جائے، روسی بولنے والوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے، اور نازی ازم کی ترویج پر قانونی پابندی عائد کی جائے۔ یوکرین نازی ہونے کے الزام کو مضحکہ خیز قرار دیتا ہے اور روسی بولنے والوں کے خلاف امتیاز کو مسترد کرتا ہے۔
روس نے دو ممکنہ جنگ بندی کے آپشن بھی پیش کیے ہیں جن میں سے کوئی بھی یوکرین کے لیے قابل قبول نہیں۔ پہلا آپشن یوکرین کی طرف سے مکمل فوجی انخلا ہے خاص طور پر لوہانسک، ڈونٹسک، زاپوریژیا اور خیرسون علاقوں سے، جہاں روس مکمل یا جزوی کنٹرول رکھتا ہے۔ دوسرا آپشن فوجی نقل و حرکت بند کرنا، غیر ملکی فوجی امداد روکنا، مارشل لا ختم کرنا اور (100) دن کے اندر صدارتی و پارلیمانی انتخابات کروانا ہے۔
روس کے مذاکراتی وفد کے سربراہ ولادیمیر میڈنسکی نے کہا کہ ماسکو نے خاص محاذوں پر دو سے تین روزہ محدود جنگ بندی کی تجویز بھی دی ہے تاکہ ہلاک فوجیوں کے اجساد کی واپسی ممکن ہو۔
یوکرین نے اپنی امن منصوبہ بندی میں فوجی طاقت پر کوئی پابندی نہ رکھنے، روس کے زیر قبضہ علاقوں کی حاکمیت کو تسلیم نہ کرنے اور معاوضہ کا مطالبہ کیا ہے۔
دونوں جانب لڑائی شدت اختیار کر چکی ہے۔ روس نے مئی میں اپنی سب سے بڑی ڈرون حملے کی کوشش کی اور میدان جنگ پر تیز پیش رفت کی۔ یوکرین نے بھی اپنے جوابی حملوں میں روس کے دور دراز بمبار طیاروں کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں کو مغربی فوجی ماہرین نے جنگ کی سب سے جرات مندانہ کارروائی قرار دیا ہے۔
صدر زیلنسکی نے کہا کہ یوکرین ہار نہیں مانے گا اور نہ ہی روسی مطالبات کو قبول کرے گا، مگر امن کی خواہش رکھتا ہے۔