ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ وہ عدالت کے وفاقی حکومت میں بڑے پیمانے پر چھانٹیوں اور ایجنسیوں کی تنظیم نو کو روکنے کے حکم کو معطل کر دے۔
یہ اقدام ٹرمپ کی حکومت کی اس وسیع مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد وفاقی اداروں کا سائز کم کرنا اور ان کی ساخت کو دوبارہ ترتیب دینا ہے۔
22 مئی کو سان فرانسسکو کی ڈسٹرکٹ جج سوسن ایلسٹن نے ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے انتظامیہ کو ان اقدامات سے روک دیا تھا۔ اس فیصلے کی درخواست ان یونینز، غیر منافع بخش اداروں اور مقامی حکومتوں کے ایک گروہ نے کی تھی جنہوں نے اس منصوبے کو عدالت میں چیلنج کیا۔
مزید پڑھیں: بی جے پی کی ریپ کیسز پر خاموشی کیوں؟ انڈین اپوزیشن نے سوال اٹھادیا
جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ صدر اس طرح کے اقدامات صرف اسی صورت میں کر سکتے ہیں جب کانگریس کی منظوری حاصل ہو۔ انہوں نے کہا کہ تاریخی طور پر صدر وفاقی ایجنسیوں کی تنظیم نو کانگریس کی اجازت کے بغیر نہیں کر سکتے۔
ٹرمپ نے جنوری میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد متعدد ایجنسیوں کو فوری طور پر ختم کرنے کی تیاری کرنے کی ہدایت کی تھی۔ ان میں زراعت، تجارت، صحت، خزانہ، اور دیگر اہم وفاقی ادارے شامل ہیں۔

ٹرمپ کے مطابق یہ اختیارات انہیں امریکی آئین کے آرٹیکل دو کے تحت حاصل ہیں، اور اس کے لیے انہیں کانگریس کی اجازت درکار نہیں۔
محکمہ انصاف نے عدالت کو بتایا کہ ایجنسیوں پر کنٹرول صدر کے اختیارات کا بنیادی حصہ ہے اور صدر کو آئینی طور پر اس اختیار کے استعمال کی اجازت ہے۔ تاہم نویں سرکٹ کورٹ آف اپیلز نے انتظامیہ کی اس اپیل کو مسترد کر دیا کہ جج کے فیصلے کو روکا جائے۔
عدالت نے کہا کہ انتظامیہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے کہ اگر فیصلہ برقرار رہا تو اس سے ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
سپریم کورٹ نے اب مقدمے میں مخالف فریق کو 9 جون تک جواب داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس مقدمے سے یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ صدر کو وفاقی ایجنسیوں میں کتنی آزادی حاصل ہے اور ان کی اختیارات کی آئینی حدیں کہاں تک جاتی ہیں۔
نچلی عدالتوں کے فیصلے سے ٹرمپ انتظامیہ کی متعدد پالیسیوں کو چیلنج کیا گیا ہے اور انتظامیہ مسلسل سپریم کورٹ سے ریلیف لینے کی کوشش کر رہی ہے۔