Follw Us on:

’باغی قوتوں کی واپسی یا آزاد خیال حکومت‘، جنوبی کوریا کے انتخابات میں جیت کس کی ہوگی؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
South korea election
ملک بھر میں 14,295 پولنگ اسٹیشنز پر صبح 6 بجے سے ووٹنگ کا آغاز ہوا جو رات 8 بجے تک جاری رہا۔ (فوٹو: رائٹرز)

جنوبی کوریا میں سابق صدر یون سک یول کی برطرفی کے بعد لاکھوں افراد آج ایک نئے صدر کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈال رہے ہیں۔ یون ایک قدامت پسند رہنما تھے، اب مارشل لاء کے مختصر نفاذ پر بغاوت کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں، جس سے ملک میں سیاسی ہلچل مچ گئی ہے۔

ان کے اقدامات نے عوامی سطح پر قدامت پسندوں کے خلاف غصے کو ہوا دی، جس کا فائدہ لی جے میونگ جیسے آزاد خیال امیدوار کو ہوتا نظر آ رہا ہے۔ قبل از انتخابات سروے بھی لی جے میونگ کی ممکنہ کامیابی کی نشاندہی کر رہے ہیں، جو عوامی مایوسی کی لہر پر سوار ہو کر انتخابات میں ایک مضبوط پوزیشن میں ہیں۔

پیپلز پاور پارٹی سے تعلق رکھنے والے مرکزی قدامت پسند امیدوار کم مون سو غیر جانبدار ووٹروں کو قائل کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ پارٹی اندرونی اختلافات کا شکار ہے۔

ان اختلافات کی بڑی وجہ یون کے مارشل لاء کے فیصلے پر مختلف آراء ہیں۔ اس انتخاب کو جنوبی کوریا کی جمہوریت کی ایک اہم آزمائش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ سیاسی تقسیم کے مزید گہرے ہونے کا بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، جو نئے صدر کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔

South korea election.
ملک میں کل 4 کروڑ 44 لاکھ ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔ (فوٹو: رائٹرز)

یون کی برطرفی کے بعد ملک میں قیادت کا خلا پیدا ہوا، جس سے نہ صرف مالیاتی منڈیاں متاثر ہوئیں بلکہ عالمی سفارتی سرگرمیوں پر بھی اثر پڑا۔ عوامی ردِعمل بھی شدید رہا، اور گزشتہ چھ مہینوں میں لوگوں نے سڑکوں پر آکر یون کی حمایت یا مخالفت میں مظاہرے کیے۔

نئے صدر کو اگلے ہی دن حلف اٹھانا ہوگا، بغیر کسی عبوری مدت کے، اور وہ پانچ سال کے لیے منصب سنبھالے گا۔ اس کے فوری بعد انہیں کئی سنگین مسائل کا سامنا کرنا ہوگا، جن میں معیشت کی سست روی، امریکا کی “امریکا فرسٹ” پالیسی، اور شمالی کوریا کے جوہری خطرات شامل ہیں۔

ملک بھر میں 14,295 پولنگ اسٹیشنز پر صبح 6 بجے سے ووٹنگ کا آغاز ہوا جو رات 8 بجے تک جاری رہا۔ شام 4 بجے تک 1.6 کروڑ سے زائد افراد نے ووٹ ڈالے تھے، جبکہ ابتدائی ووٹنگ میں 1.5 کروڑ افراد نے پہلے ہی اپنا ووٹ استعمال کر لیا تھا، جس کے نتیجے میں ووٹر ٹرن آؤٹ 71.5 فیصد تک پہنچ چکا تھا۔ ملک میں کل 4 کروڑ 44 لاکھ ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔ مبصرین کے مطابق فاتح امیدوار کا اعلان آدھی رات تک متوقع ہے۔

South korea election..
شام 4 بجے تک 1.6 کروڑ سے زائد افراد نے ووٹ ڈالے تھے۔ (فوٹو: رائٹرز)

لی جے میونگ نے انتخابی دن فیس بک پر اپنی پوسٹ کے ذریعے ووٹروں سے اپیل کی کہ وہ قدامت پسندوں کے خلاف سخت فیصلہ کریں، اور اس عمل کو یون کے مارشل لاء کے خلاف عوامی ردعمل کے طور پر دیکھیں۔ اپنی انتخابی مہم کی آخری تقریر میں لی نے کہا کہ اگر کم منتخب ہو گئے تو یہ “باغی قوتوں کی واپسی” ہوگی، اور ملک کی جمہوریت و انسانی حقوق کو خطرہ لاحق ہوگا۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ معیشت کو بحال کریں گے، معاشی عدم مساوات کم کریں گے اور قومی اتحاد کو فروغ دیں گے۔

دوسری طرف کم مون سو نے خبردار کیا کہ اگر لی کو اقتدار ملا تو وہ قانون سازی کے ذریعے غیر معمولی اختیارات حاصل کر لیں گے، جس سے ان کے مخالفین کے خلاف سیاسی انتقامی کارروائیوں کا خدشہ پیدا ہوگا۔ انہوں نے لی پر آمریت قائم کرنے کی کوشش کا الزام بھی لگایا اور کہا کہ وہ تمام طاقت پر قبضہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔

لی، جو ماضی میں ایک مزدور کے طور پر کام کر چکے ہیں اور ایک متاثر کن جدوجہد کے بعد سیاست میں آئے، خود کو اصلاحات کا علمبردار سمجھتے ہیں۔ ان کی تنقیدی آواز، خاص طور پر قدامت پسند اشرافیہ کے خلاف، اور جنوبی کوریا کی خودمختار خارجہ پالیسی کی حمایت نے انہیں مقبول بنایا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ وہ ملک کی بدعنوانی اور معاشی ناانصافی کو ختم کر سکتے ہیں، لیکن ساتھ ہی وہ ایک متنازعہ شخصیت بھی رہے ہیں جو قوم کو ایک نئی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں یا مزید تقسیم کا شکار کر سکتے ہیں۔

Author

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس