Follw Us on:

صحافیوں کے بائیکاٹ کے بعد وفاقی وزیرخزانہ کی پریس کانفرنس : ’مالی گنجائش کے مطابق ہی ریلیف دے سکتے ہیں‘

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Aurangzeb
اصلاحات سے ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ہوا

بجٹ پر ٹیکنیکل بریفنگ نہ ملنے پر صحافیوں نے وزیر خزانہ کی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کا بائیکاٹ کردیا۔

اسلام آباد میں وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب جب پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرنے پہنچے تو ان کے ہمراہ سیکرٹری خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر بھی موجود تھے تاہم صحافیوں نے بجٹ پر ٹیکنیکل بریفنگ نہ ملنے پر پریس کانفرنس کا بائیکاٹ کردیا۔

صحافیوں نے کہا کہ 20 سال سے بجٹ کے بعد صحافیوں کو ایک ٹیکنیکل بریفنگ دی جاتی ہے لیکن اس بار حکومت کی جانب سے اس روایت کو توڑا گیا ہے۔

بعد ازاں وزیر خزانہ نے متعلقہ حکام کا صحافیوں کو منانے ٹاسک دے کر بھیجا۔ 

وزارت خزانہ کے حکام کی منت سماجت کے بعد تمام صحافی واپس لوٹ آئے۔

پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں عائد کیے گئے ٹیکسز سے متعلق اہم تفصیلات سامنے لانے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ صحافیوں کے مطابق حکومت کی جانب سے معلومات کے اس فقدان سے شفافیت متاثر ہو رہی ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں بجٹ 2025-26 پیش کیا گیا، جس میں اہم شعبوں پر تفصیلی بات کی گئی۔ انرجی ریفارمز اور پنشن سسٹم کی بہتری پر بھرپور توجہ دی گئی ہے، جب کہ ٹیکس ریفارمز کے حوالے سے چیئرمین ایف بی آر تفصیلی بریفنگ دیں گے۔

مزید پڑھیں: بجٹ 2025-26: عوام، دفاع، پنشن اور سبسڈی، کس کے حصے میں کتنی رقم آئی؟

انہوں نے کہا کہ ٹیرف اصلاحات نہایت اہمیت کی حامل ہیں، اور یہ اقدامات ملکی معیشت کی سمت درست کرنے کی کوشش کا حصہ ہیں۔ وزیر خزانہ نے اعلان کیا کہ 4 ہزار سے زائد ٹیرف لائنز پر کسٹم ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے تاکہ برآمدات پر مبنی معیشت کو فروغ دیا جا سکے۔

محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ اس نوعیت کی اصلاحات گزشتہ 30 برسوں میں پہلی بار کی گئی ہیں، جن کا مقصد صنعتی پیداوار اور عالمی مسابقت میں بہتری لانا ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ معاشی اصلاحات لا کر ملک کو اقتصادی طور پر آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو ممکنہ حد تک ریلیف فراہم کیا ہے۔

پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے بتایا کہ سپر ٹیکس میں کمی کا آغاز کر دیا گیا ہے، جبکہ چھوٹے کسانوں کو آسان شرائط پر قرضے فراہم کیے جائیں گے تاکہ زرعی شعبہ مستحکم ہو۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ کنسٹرکشن سیکٹر پر کافی بات ہو رہی ہے اور کوشش ہے کہ اس شعبے میں ٹرانزیکشن کاسٹ کم کی جائے تاکہ اس کی ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔

مزید پڑھیں: تنخواہ بڑھے گی یا کم ہوگی؟ بجٹ تجاویز سامنے آگئیں 

زراعت سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ رواں سال کھاد اور پیسٹی سائیڈز پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز تھی، تاہم وزیراعظم کی ہدایت پر ان اشیاء پر ٹیکس نہ لگانے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ کسانوں پر بوجھ نہ پڑے۔ وزیر خزانہ نے زور دیا کہ معاشی بحالی کے لیے مربوط اصلاحات ناگزیر ہیں اور حکومت اس سمت میں عملی اقدامات کر رہی ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ موجودہ مالی صورتحال کے باعث اضافی ٹیکسز لگانا مجبوری بن چکا ہے، تاہم حکومت نے پنشن میں مہنگائی کے تناسب سے بہتری کی کوشش کی ہے اور ریلیف صرف مالی گنجائش کے مطابق دیا جا سکتا ہے۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار طبقے میں زیادہ آمدن والوں پر بھاری ٹیکس سلیب نافذ کی گئی ہے، جبکہ 2 ہزار 700 ٹیرف لائنز میں کسٹم ڈیوٹی کم کر دی گئی ہے۔ گزشتہ سال بھی اضافی ٹیکسز کی شکایات تھیں، مگر اس کی بڑی وجہ انفورسمنٹ کا فقدان تھا۔ بین الاقوامی ادارے ماننے کو تیار نہیں تھے کہ پاکستان میں قوانین کا نفاذ ممکن ہے، کیونکہ ہم قوانین ہونے کے باوجود ان پر عمل درآمد نہیں کرا پا رہے تھے، لیکن رواں سال عملی انفورسمنٹ کی ہے۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ رواں سال ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 10.3 فیصد تک پہنچ جائے گی جبکہ آئندہ سال اسے 10.9 فیصد تک لے جانے کا ہدف ہے۔ رواں مالی سال 2.2 ٹریلین روپے کی ٹیکس وصولی میں سے 312 ارب روپے اضافی ٹیکسز کی مد میں ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں ایوانوں میں قانون سازی کے عمل کو آگے بڑھایا جائے گا تاکہ ایڈیشنل ٹیکسز کی ضرورت نہ پڑے۔ اگر قانون سازی ہو جائے تو سسٹم میں موجود لیکیجز کو روکا جا سکتا ہے، اور یہی راستہ ہے کہ یا تو ہم مؤثر انفورسمنٹ کریں یا اضافی ٹیکس لگانے پر مجبور ہوں۔

مزید پڑھیں: بجٹ 2025-26 کے بعد آٹا، پیٹرول، بجلی، گیس، تعلیم کا خرچ کتنا بڑھے گا؟

انہوں نے اپیل کی کہ پارلیمان قانون سازی میں حکومت کا ساتھ دے تاکہ عوام پر بوجھ کم کیا جا سکے اور پائیدار معیشت کی بنیاد رکھی جا سکے۔

صحافیوں کی جانب سے وزراء اور پارلیمنٹیرینز کی تنخواہوں میں ہُوشربا اضافے کے سوال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ ضرور دیکھ لیں کہ وزراء اور پارلیمنٹیرینز کی سیلری کو کب ایڈجسٹ کیا گیا تھا، 2016 میں کابینہ کے وزراء کی تنخواہ بڑھائی گئی تھی، ہر سال پارلیمنٹرینز کی تنخواہوں میں 5 یا ساڑھے 5 فیصد اضافہ ہونا چاہیئے اگر ہر سال تنخواہ بڑھتی رہتی تو ایک دم بڑھنے والی بات نہ ہوتی۔

وزیر خزانہ نے واضح کیا ہے کہ وفاقی حکومت محدود مالی گنجائش کے تحت قرض لے کر عوام کو ریلیف فراہم کر رہی ہے، تاہم اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ پاؤں اتنے ہی پھیلانے چاہییں جتنی چادر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پنشن اور تنخواہوں کے تعین کے لیے ایک بینچ مارک ہونا چاہیے، کیونکہ دنیا بھر میں یہ مہنگائی کی شرح سے منسلک ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی رفتار نیچے آئی ہے، اسی تناسب سے تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہر مالی فیصلہ صوبوں کی مشاورت سے کیا جا رہا ہے، اور وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ اگست میں نیا این ایف سی ایوارڈ طلب کیا جائے گا تاکہ وسائل کی تقسیم پر شفاف اور مشترکہ پالیسی بنائی جا سکے۔

کیش اکانومی کو دستاویزی معیشت بنائیں گے، وفاقی وزیر خزانہ

محمد اورنگزیب نے تسلیم کیا کہ یہ بات درست ہے کہ ٹیکس بڑھانے کے بجائے حکومتی اخراجات کم ہونے چاہئیں۔ ان کے بقول رواں سال وفاقی حکومت کے اخراجات میں صرف دو فیصد اضافہ ہوا ہے، جو کفایت شعاری کی پالیسی کا عکاس ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ پنشن سسٹم کو اب سی بی آئی (Contributory Based Index) سے منسلک کر دیا گیا ہے تاکہ یہ زیادہ پائیدار اور قابل عمل بن سکے۔ انہوں نے اس امر پر بھی روشنی ڈالی کہ پاکستان میں 9.4 ٹریلین روپے کیش اکانومی موجود ہے جسے اب ڈاکیومنٹڈ معیشت کی جانب لانے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ریونیو، اسٹرکچرل اور گورننس اصلاحات کے تینوں نکات پر ہم نے عملی اقدامات اٹھائے ہیں اور دستخط بھی کیے ہیں۔ کچھ حکومتی اخراجات میں اضافہ ضروری تھا، مگر اس کے باوجود بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر سرکاری اخراجات کم کیوں نہیں ہو رہے؟ اس حوالے سے کئی تجاویز زیر غور ہیں جن پر کام جاری ہے۔

محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ معاشی استحکام کے لیے صرف ٹیکس کا بوجھ بڑھانا کافی نہیں بلکہ حکومتی ڈھانچے میں شفافیت، اصلاحات اور وسائل کے مؤثر استعمال کی ضرورت ہے۔

وزیر خزانہ نے چھوٹے گھروں کے لیے قرض اسکیم جلد متعارف کرانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی کو اپنا گھر بنانا ہے اور خاص طور پر 5 مرلے سے چھوٹا گھر بنانا ہے تو اس میں مورگیج فنانسنگ کی بات بہت اہم ہے، اسٹیٹ بینک کے ساتھ مل کر طے کیا جائے گا کہ کتنا قرض فراہم کرنا ہے، پھر اس اسکیم کو جلد لانچ کرنے والے ہیں۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس