اسرائیل کی جانب سے ایران پر حالیہ فضائی حملوں میں اس کے اہم جوہری تنصیبات کو شدید نقصان پہنچا ہے، جن میں نتنز اور پائلٹ فیول اینرچمنٹ پلانٹ شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے عالمی جوہری توانائی ایجنسی کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، ان حملوں کے اثرات انتہائی تشویشناک ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق عالمی جوہری توانائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ ایران نے 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر رکھی ہے، جو عام طور پر صرف وہی ممالک کرتے ہیں جن کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہوتے ہیں۔
اس حوالے سے ماہر بین الاقوامی امور پروفیسر ڈاکٹر عرفان علی نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یورینیم کی 60 فیصد افزودگی کا مطلب یہ ہے کہ ایران بم بنانے کی تکنیکی سطح کے قریب تر ہے کیونکہ جوہری ہتھیار کے لیے 90 فیصد افزودگی درکار ہوتی ہے۔ اگر موجودہ رفتار جاری رہی تو ایران ایک سال کے اندر اندر جوہری ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کر سکتا ہے۔
مغربی طاقتوں کا موقف ہے کہ ایران کے پاس اس سطح کی افزودگی کا کوئی پرامن جواز نہیں، جب کہ ایران کا دعویٰ ہے کہ وہ جوہری توانائی کو صرف پرامن مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے ۔
پروفیسر ڈاکٹر عرفان علی نے پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران کا مؤقف ہے کہ جوہری ٹیکنالوجی کا مقصد توانائی و دفاعی تحفظ ہے لیکن مغرب اسے علاقائی بالادستی کی کوشش سمجھتا ہے۔ اگر ایران جوہری ہتھیار بناتا ہے تو یہ خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ کو جنم دے گا لیکن جوہری ہتھیار بنانا ایرانی دفاع کے لیے نہایت ضروری ہے۔ پاکستان جیسے ممالک پر حالیہ کشیدگی کے اثرات تیل کی قیمتوں میں اضافے، سیکورٹی اور سفارتی توازن میں بگاڑ کی صورت میں مرتب ہو سکتے ہیں۔

مغربی طاقتیں دعویٰ کرتی ہیں کہ ایران کسی بھی طرح سے جوہری ہتھیار نہیں بنا سکتا کیونکہ وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے ( این پی ٹی) کا پابند ہے۔
اس حوالے ڈاکٹر عرفان علی نے کہا کہ ایران نے ابھی تک جوہری عدم پھیلاؤ معاہدے سے علیحدگی اختیار نہیں کی لیکن عالمی جوہری توانائی ایجنسی کی رپورٹس میں شفافیت کی کمی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اگر ایران پابندیوں سے بچنا چاہتا ہے تو اسے معاہدے کی شفاف شرائط پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر اسے عالمی تنہائی کا سامنا ہو سکتا ہے۔
13 جون کے اسرائیلی حملوں سے قبل ایران کے تین یورینیم افزودگی پلانٹس فعال تھے۔ ان میں سب سے اہم نتنز میں واقع ایندھن کی افزودگی کا پلانٹ (ایف ای پی) ہے، جو زیرِ زمین واقع ہے اور جہاں تقریباً 17,000 سینٹری فیوجز نصب تھے۔ ان میں سے 13,500 فعال طور پر یورینیم کو 5 فیصد تک افزودہ کر رہے تھے۔ عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافائل گروسی نے رائٹرز کو بتایا کہ اسرائیلی حملے میں نتنز کا الیکٹریکل سب اسٹیشن، مرکزی بجلی کا نظام، ہنگامی پاور سپلائی اور بیک اپ جنریٹرز تباہ ہو گئے، جس کے باعث سینٹری فیوجز کو شدید نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔
عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے مطابق مصنوعی سیاروں کی تصاویر سے یہ اندازہ ہوا ہے کہ نتنز کے زیر زمین افزودگی ہالز کو بھی براہ راست نقصان پہنچا ہے، تاہم حملوں کے بعد ادارے کو ان تنصیبات کے معائنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
اسرائیلی حملوں میں مکمل طور پر تباہ ہونے والی ایک اور تنصیب پائلٹ فیول اینرچمنٹ پلانٹ ہے، جو تحقیق و ترقی کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ یہ تنصیب زمین پر واقع تھی اور اس میں 60 فیصد تک افزودگی کے لیے دو مکمل کاسکیڈز اور 2 فیصد تک کے لیے 201 سینٹری فیوجز کام کر رہے تھے۔
فورڈو ایندھن کی افزودگی کا پلانٹ، جو ایک پہاڑ کے اندر واقع ہے، ان حملوں میں کسی بڑے نقصان سے محفوظ رہا ہے۔ یہاں 2,000 سینٹری فیوجز کام کر رہے تھے اور یہ تنصیب ایران کی 60 فیصد تک کی افزودگی کا مرکزی مقام ہے۔
جوہری توانائی ایجنسی کے مطابق، اصفہان کے جوہری کمپلیکس کی چار عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا ہے، جن میں یورینیم کنورژن کی سہولت (یو سی ایف) اور یورینیم دھات پر کام کرنے والی تنصیبات شامل ہیں۔ یورینیم کی دھات میں تبدیلی جوہری ہتھیار بنانے کے عمل کا ایک اہم مرحلہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر یو سی ایف غیر فعال ہو گئی ہے تو ایران کے پاس افزودگی کے لیے خام مواد کی فراہمی رک سکتی ہے، جب تک کہ کوئی بیرونی ذریعہ دستیاب نہ ہو۔

کاراج اور تہران میں دو سینٹری فیوج ورکشاپس کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے، جو پہلے جوہری توانائی ایجنسی کی نگرانی میں تھیں۔ ادارہ اس وقت یہ نہیں جانتا کہ ایران کے پاس کتنی سینٹری فیوج تیار کرنے والی ورکشاپس باقی ہیں۔
خلیج کے ذرائع کے مطابق، اسرائیلی حملوں میں کم از کم 14 ایرانی جوہری سائنسدان ہلاک ہوئے ہیں، جن میں کچھ کار بم حملوں میں مارے گئے۔ اسرائیلی فوج نے ان میں سے نو سائنسدانوں کے نام جاری کیے اور انہیں ایران کے جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوششوں میں کلیدی کردار کا حامل قرار دیا۔ اس دعوے کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہو سکی۔
سیاسات کے پروفیسر ڈاکٹر میاں ارسلان نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اس حوالے سے کہا کہ ایرانی جوہری سائنسدانوں کی ہلاکت اسرائیل کا نفسیاتی وار ہے تاکہ ایران کی پیش رفت کو روکا جا سکے۔ یہ وقتی رکاوٹیں تو ڈال سکتی ہیں لیکن ایران نے اس سے پہلے بھی نئے سائنسدان تیار کیے ہیں۔ تاہم ان حملوں نے ایران کو مزید سخت گیر اور خفیہ پالیسی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران اسرائیل جنگ چھٹے روز میں داخل، کیا امریکا بھی شامل ہونے جا رہا ہے
جوہری توانائی ایجنسی کے اندازے کے مطابق، ایران کے پاس 60 فیصد تک افزودہ یورینیم کی مقدار نو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے کافی ہے، جب کہ 20 فیصد اور 5 فیصد کی سطح پر بھی متعدد بموں کے لیے مواد موجود ہے۔ یہ مواد زیادہ تر اصفہان میں زیر زمین ذخیرہ کیا گیا ہے، جو تاحال متاثر نہیں ہوا، تاہم جوہری توانائی ایجنسی نے کہا ہے کہ نتنز کے حوالے سے بھی ابتدائی اندازوں کے برعکس، بعد میں نقصان کے اشارے ملے ہیں۔
ڈاکٹر میاں ارسلان کا کہنا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام ان حملوں کے باوجود جاری ہے لیکن کچھ اہم مقامات پر سست روی دیکھی گئی ہے۔ ایرانی حکومت نے کئی تنصیبات زیرِ زمین منتقل کر دی ہیں تاکہ حملوں سے بچا جا سکے۔ اس صورتحال میں ایران اپنی پیش رفت کو محفوظ بنانے کی نئی حکمت عملی پر عمل کر رہا ہے۔
مزید پڑھیں:سیز فائر سے انکار، تہران خالی کرنے کا مطالبہ کیا جنگ کو مزید شدت دے گا؟
ایران اسرائیل کشیدگی کے حوالے سے میاں ارسلان نے مزید کہا کہ عالمی سطح پر ایران، اسرائیل کشیدگی پر شدید تشویش پائی جاتی ہے، یورپی یونین اور چین دونوں فریقین کو تحمل کا مشورہ دے رہے ہیں۔ امریکی پالیسی سخت رویہ اختیار کرنے کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے۔ اگر کشیدگی بڑھی تو اقوامِ متحدہ ایران کے خلاف مزید پابندیاں عائد کر سکتی ہے جس سے پاکستان جیسے ممالک بھی متاثر ہوں گے۔