تحریر: سید امجد حسین بخاری
ضلع حویلی فارورڈ کہوٹہ آزاد کشمیر میں اتوار کی سہ پہر محکمہ جنگلات کی ایک گاڑی کو حادثہ پیش آتا ہے۔ اس گاڑی میں دو افراد فاریسٹ آفیسر اور ڈرائیور طاہر راٹھور( میرا کلاس فیلو، پڑوسی اور دوست) سوار تھے۔
گاڑی نیلفری چراگاہ سے آرہی تھی، حادثے کے بعد پانچ سے چھ سو فٹ کھائی میں جاگری، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ علاقے میں چراگاہیں جہاں لوگ گرمیوں میں مال مویشی لیکرجاتے ہیں، مرد علی الصبح اس علاقے سے قصبے اور شہر میں کام کی غرض سے جاتے ہیں اور شام کے بعد واپس آتے ہیں۔
یہاں دن بھر خواتین اور کم سن بچے ہوتے ہیں، حادثے کے وقت بھی علاقے میں صرف خواتین موجود تھیں۔ جنہوں نے جونہی گاڑی کھائی میں جاتی دیکھی تو دوڑ کر جائے حادثہ پر پہنچیں ، زخمیوں کو نکالا، جب انکی نظر ڈرائیور پر پڑی تو حیران رہ گئیں کہ وہ تو ان کے اپنے قصبے کا نوجوان ہے۔
خواتین نے فوراً ڈرائیور کے موبائل سے اس کے اہلخانہ کا نمبر نکال کر حادثے سے متعلق اطلاع دی، گھروں سے چارپائیاں نکالیں اور زخمیوں کو لیکر چل پڑیں، تین سے پانچ کلومیٹر تک خواتین زخمیوں کو لیکر چلتی رہیں۔
اسی دوران قصبے سے دیگر گاڑیاں اور مرد بھی آگئے، لیکن حیران کن طور پر سرکاری ایمبولینس پکی سڑک سے آگے نہیں آئی جب زخمیوں کو ایمبولینس میں منتقل کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس میں آکسیجن تک نہیں تھی۔
واضح رہے کہ زخمی ہونے والا ڈرائیور طاہر راٹھور برادری سے تعلق رکھتا تھا جب کہ ریسکیو کرنیوالی خواتین کا تعلق گجر برادری سے تھا اور یہ دونوں برادریاں شدید سیاسی حریف سمجھی جاتی ہیں۔ لیکن خواتین کے طرز عمل سے جہاں انسانیت اور ہمت کی عظیم مثال قائم ہوئی، وہیں ضلعی انتظامیہ کے ناقص ریسکیو نظام کے باعث ہمارے بھائی طاہر راٹھور کی جان چلی گئی۔
علاقے میں ایک ماہ کے دوران یہ تیسرا ٹریفک حادثہ ہے اور تینوں حادثات میں ضلعی انتظامیہ اور
ریسکیو عمل پر کئی سوالات کھڑے ہورہے ہیں۔
نوٹ : یہ تحریر بلاگر کی فیس بک وال سے لی گئی ہے۔ ادارے کا رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ ایڈیٹر