وزیراعظم پیتونگتارن کو عبوری طور پر عہدے سے ہٹایا گیا۔ یہ فیصلہ 36 سینیٹرز کی طرف سے دائر ایک درخواست کے بعد آئینی عدالت نے سنایا ہے۔ جس میں پیتونگتارن پر بددیانتی اور اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا جب کمبوڈیا کے سابق وزیرِاعظم ہن سین کے ساتھ پیتونگتارن کی ایک نجیTelephone عام پر آئی، جس میں انہوں نے ایک سرحدی کشیدگی کے دوران تھائی فوجی کمانڈر پر تنقید کی اور ہن سین کے سامنے نرمی کا مظاہرہ کیا۔
اس گفتگو کے منظرِ عام پر آنے کے بعد ملک میں شدید عوامی ردعمل سامنے آیا اور ان کی اتحادی حکومت کو ایک بڑی جماعت کے علیحدہ ہونے کے بعد پارلیمان میں معمولی اکثریت باقی رہ گئی ہے۔

پیتونگتارن نے عدالتی فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے اس گفتگو پر معذرت کی۔ ان کا کہنا تھاکہمیری اس گفتگو میں 100 فیصد نیت ملک کی خودمختاری کا تحفظ اور اپنے فوجی جوانوں کی زندگیاں بچانا تھا۔
سینتیس سالہ پیتونگتارن، جو تھائی لینڈ کی تاریخ کی سب سے کم عمر وزیرِاعظم بنی تھیں، گزشتہ سال اپنے اتحادی سرتھا تھاویسن کی برطرفی کے بعد اقتدار میں آئیں۔ وہ شیناواترا خاندان کی چوتھی فرد ہیں جو ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہوئیں۔
حکومت میں صرف دس ماہ کے دوران ہی انہیں سیاسی بحران، معاشی سست روی اور مقبولیت میں شدید کمی جیسے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک حالیہ عوامی جائزے کے مطابق، ان کی مقبولیت مارچ میں 30.9 فیصد سے کم ہو کر جون میں 9.2 فیصد رہ گئی ہے۔
ان کی عارضی معطلی کے بعد نائب وزیراعظم سوریا جوانگرونگروانگکت نے قائم مقام وزیراعظم کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں، جبکہ پیتونگتارن کو کابینہ میں ثقافت کی وزیر کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ ان کے پاس عدالت میں جواب جمع کرانے کے لیے پندرہ دن کا وقت ہے۔

پیتونگتارن کے والد اور سابق وزیرِاعظم تھاکسن شینا بھی ان دنوں قانونی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ 75 سالہ تھاکسن پر سنگین الزامات عائد ہیں کہ انہوں نے 2015 میں بیرون ملک دیے گئے ایک انٹرویو میں تھائی بادشاہت کی توہین کی تھی یہ الزام اگر ثابت ہوا تو انہیں 15 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
تھاکسن ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں اور متعدد مواقع پر بادشاہت سے اپنی وفاداری کا اعادہ کر چکے ہیں۔
تھاکسن 2023 میں وطن واپس آئے تھے تاکہ مفادات کے ٹکراؤ اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر سنائی گئی سزا کاٹ سکیں، لیکن وہ چھ ماہ تک ایک اسپتال میں زیرِ علاج رہے اور پھر پیرول پر رہا کر دیے گئے۔ سپریم کورٹ رواں ماہ ان کی اسپتال میں طویل قیام کا جائزہ لے گی اور اگر بدعنوانی یا خلاف ضابطہ اقدام ثابت ہوا تو انہیں دوبارہ جیل بھیجا جا سکتا ہے۔
اس معاملے پر اب تک تھائی حکومت کی جانب سے کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلہ اور احتجاجی دباؤ حکومت کی بقا کو مزید خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ اپوزیشن اور سول سوسائٹی کی جانب سے نئے انتخابات کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔