Follw Us on:

انس جمال محمود الشریف: ’یہاں سے نکلا تو سیدھا جنت جاؤں گا‘

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Whatsapp image 2025 08 11 at 8.50.30 pm (1)
کیمرے بند کر کے نکل جاؤ، تم مزاحمت کاروں کے ساتھی ہو۔ (فوٹو: فائل)

وہ تین دسمبر 1996 کو جبالیہ کے مہاجر کیمپ میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ کیمپ 1948 میں مقامی افراد کی جبری بےدخلی کے بعد وجود میں آیا تھا۔ گھر میں، محلے کی مسجد میں، مقامی اسکول میں پڑھتا بچہ الاقصیٰ یونیورسٹی جا پہنچتا ہے۔

اس نے اپنی آنکھوں سے ہزار نہیں لاکھوں تصاویر کھینچ کر یا مناظر کی وڈیوز بنا کر دل کے نہاں خانوں کے مختلف فولڈرز میں محفوظ کر رکھی ہیں۔ وہ جو دیکھتا ہے، پلک جھپکتا ہے اور مناظر اس کے ٹارگٹڈ فولڈرز میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔ اب تو اس کا اپنا کیمرہ ہے اور اس کا سیل فون بھی مکمل پراڈکشن ہاؤس بن چکا ہے۔

حیرت ہے جنگ اور بھوک کے اس ماحول میں یونیورسٹی آ کر اس نوجوان کو ماس کمیونیکشن پڑھنی ہے، ریڈیو اور ٹیلی وژن میں صحافت کرنا ہے۔ شاید وہ ہجرت کا سوچتا لیکن اس نے کہا ایک ہجرت کافی ہے، جو اس کے دادا نے کی تھی۔ اب انس نے دنیا کو بتانا ہے کہ اس کے اردگرد کیا ہو رہا ہے، کیوں ہو رہا ہے، کون کر رہا ہے اور کیسے کر رہا ہے؟

آپ نے الجزیرہ کی خبروں میں عربی زبان میں بیپر دیتا ایک نوجوان دیکھا ہو گا۔ اردگرد بم پھٹ رہے ہیں اور وہ پریس کی نیلی جیکٹ پہنے’ ہاتھ میں مائیک پکڑے مسلسل بولے چلا جا رہا ہے۔ وہ شعلوں سے گزر جاتا ہے، وہ آسمان سے ہوتی کارپٹ بمبازی میں بغیر ہیلمٹ دوڑتا بھاگتا اپنا “کام” کرتا نظر آتا ہے۔ ان س ال ش ریف ۔۔۔ آپ نے تصاویر اور وڈیوز میں کریڈٹس کے طور پر یہ لفظ تو دیکھا ہو گا۔

حیرت ہے موت سے نہیں ڈرتا۔ بندوق نہیں کیمرہ اٹھاتا ہے اور دنیا بھر کو بتاتا ہے، دکھاتا ہے کہ بچے عورتیں اور بوڑھے کس طرح، کبھی یکدم کبھی رفتہ رفتہ موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں۔ انسانیت کا دشمن اس کے کیمرے کو اسلحہ قرار دیتا ہے، اسے مزاحمت کاروں کا ساتھی کہہ کر پکارتا ہے “یہاں سے نکل جاو” ۔۔۔ واٹس ایپ چیٹ میں اس نے کہا کہ یہاں سے نکلا تو سیدھا جنت جاؤں گا، ایک ہی رستہ ہے ایک منزل ہے۔

اسے پتہ ہے کہ ظلم رپورٹ کرنا، مزاحمت کو زندہ رکھتا ہے۔ اس نے کربلا لاشوں کے درمیان سے حضرت زینبؓ کی گرفتاری کے منظر کی تصویر بھی دل کے فولڈر میں محفوظ کر رکھی ہے۔ اس کو دمشق کے بازار اور یزید کے دربار کے خطاب منہ زبانی اس لئے یاد ہیں کہ اس کی وڈیوز بھی انہی فولڈرز میں محفوظ ہیں۔

اسپتال کے باہر خیمہ لگا کر وہ اور اس کے چار کولیگز کافی دن سے لمحے لمحے کی خبر وہ قطر ہیڈآفس بھیج رہے تھے، ان کو باقاعدہ تھریٹ تھی کہ کیمرے بند کر کے نکل جاؤ، تم مزاحمت کاروں کے ساتھی ہو۔

اس نے کہا کہ ہم حضرت زینبؓ کے بھائی اور بیٹے ہیں۔ سات اکتوبر کے بعد سے ہم نے دو سو زینبی صحافی سیدھے جنت جاتے دیکھے ہیں۔ ہماری منزل بھی وہی ہے۔

کل دس اگست کو پانچوں دوست اپنی منزل کو روانہ ہو گئے۔ پاکستانی کے لاکھوں صحافی اور یوٹیوبرز اپنے رول ماڈل انس جمال محمود ال شریف کو خدا حافظ کہہ رہے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر معروف صحافی فاروق بھٹی کی فیس بک وال سے لی گئی ہے، ادارے کا بلاگر کی ذاتی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ ایڈیٹر

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس