بجٹ 2025-26، نان فائلرز کے لیے نقد رقم نکالنے کی حد 75 ہزار روپے مقرر

مالی سال 2025-26 کے بجٹ تجاویز کے تحت نان فائلرز کے لیے بینک سے نقد رقم نکالنے کی حد پچاس ہزار روپے سے بڑھا کر 75 ہزار روپے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ قومی اسمبلی کی مالیاتی کمیٹی کی منظوری کے بعد بجٹ تجاویز میں شامل کیا گیا ہے۔ سرکاری دستاویزات اور روزنامہ جنگ و دی نیوز میں شائع رپورٹس کے مطابق، اس نئی حد سے زائد نقد رقم نکالنے پر نان فائلرز سے 0.8 فیصد ایڈوانس ٹیکس وصول کیا جائے گا، جو گزشتہ مالی سال میں نافذ 0.6 فیصد سے زیادہ ہے۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق، “یہ اقدام ٹیکس نیٹ سے باہر افراد پر مالی نظم و ضبط قائم کرنے اور ٹیکس آمدن بڑھانے کے لیے تجویز کیا گیا ہے۔” اس کے ساتھ بجٹ تجاویز میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اشتہارات سے حاصل ہونے والی آمدنی پر سخت محصول عائد کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ مجوزہ اقدام کا مقصد ڈیجیٹل معیشت سے وابستہ آمدنی کو باقاعدہ ٹیکس نظام میں لانا ہے۔ علاوہ ازیں، سب سے زیادہ آمدنی والے افراد پر لاگو انکم ٹیکس سرچارج میں 9 فیصد تک کمی کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اس تجویز کو کاروباری طبقے کو ریلیف فراہم کرنے کی پالیسی کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ تمام تجاویز پارلیمان میں بجٹ کی منظوری کے بعد نافذالعمل ہوں گی۔ فی الوقت ایف بی آر، اسٹیٹ بینک یا وزارت خزانہ کی جانب سے ان تجاویز پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ ماہرین کے مطابق، اگر ان تجاویز کو منظوری ملتی ہے تو نان فائلرز کے لیے نقد لین دین مہنگا ہو جائے گا، جبکہ فائلرز کے لیے موجودہ رعایات برقرار رہیں گی۔
پیٹرولیم مصنوعات پر نئے ٹیکس کی تجویز، وزارت توانائی نے ترمیمی سمری وفاقی کابینہ کو ارسال کر دی

وزارت توانائی کے پیٹرولیم ڈویژن نے وفاقی کابینہ کو ایک سمری ارسال کی ہے، جس میں پیٹرولیم لیوی آرڈیننس 1961 میں ترمیم کی منظوری طلب کی گئی ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے پیٹرول، ڈیزل اور فرنس آئل پر نئے ٹیکس یعنی لیویز عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ یہ پیش رفت (2025-2026) کے مالی سال کے لیے مجوزہ مالیاتی بل کا حصہ ہے، اور انڈیا مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبیلیٹی فیسلٹی (آر ایس ایف) پروگرام کے تحت پاکستان کی وابستگیوں کی تکمیل کے لیے کی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ ماہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے لیے اس سہولت کے تحت تقریباً 1.4 ارب ڈالر کی منظوری دی تھی، جس کا مقصد ماحولیاتی خطرات اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے معاشی پائیداری کو فروغ دینا ہے۔ وزارت توانائی کی جانب سے تجویز کردہ ترامیم کے مطابق، پیٹرول اور ڈیزل پر دو سالہ مرحلہ وار کاربن لیوی نافذ کی جائے گی۔ اس کا آغاز مالی سال (2025-26) میں (2.5) روپے فی لیٹر سے ہوگا، جو مالی سال (2026-27) میں بڑھا کرپانچ روپے فی لیٹر کی جائے گی۔ سمری میں مزید بتایا گیا ہے کہ فرنس آئل پر یکم جولائی 2025 سے 77 روپے فی لیٹر (82,077 روپے فی میٹرک ٹن) کی پیٹرولیم لیوی عائد کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ، فرنس آئل پر 2.5 روپے فی لیٹر (2,665 روپے فی میٹرک ٹن) کی کاربن لیوی بھی لگائی جائے گی، جسے آئندہ مالی سال میں دوگنا کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ترمیمی مسودے میں وفاقی حکومت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ پیٹرولیم لیوی کی شرح، نفاذ کی تاریخ، اور عمل درآمد کے طریقہ کار کا تعین کرے۔ یہ تمام امور وزارت خزانہ اور وزارت توانائی نے مشترکہ طور پر آئی ایم ایف کے ساتھ مشاورت کے بعد طے کیے ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق، یہ اقدام پاکستان کی معاشی اصلاحات اور ماحولیاتی پالیسی کے اہداف کے حصول کی کوششوں کا حصہ ہے۔ تاہم، توانائی کے شعبے سے وابستہ حلقوں کی جانب سے مہنگائی کے ممکنہ اثرات پر تحفظات کا اظہار بھی سامنے آیا ہے۔ ابھی تک حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی باضابطہ عوامی بیان جاری نہیں کیا گیا، تاہم وزارت توانائی اور وزارت خزانہ اس قانون سازی کے نفاذ کے لیے کابینہ اور پارلیمنٹ سے منظوری کے مراحل پر کام کر رہے ہیں۔
خیبرپختونخوا کا بجٹ حقیقت پسندانہ ہے، ترقیاتی ترجیحات واضح ہیں، مزمل اسلم

خیبرپختونخوا کے مشیر خزانہ مزمل اسلم نے کہا ہے کہ آئندہ مالی سال (2024-25) کے بجٹ میں زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ترقیاتی اور مالیاتی ترجیحات طے کی گئی ہیں۔ یہ بات انہوں نے ہفتے کو بجٹ کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ “گزشتہ مالی سال کے دوران خیبرپختونخوا کو وفاق کی ٹیکس وصولیوں میں کمی کے باعث 90 ارب روپے کم موصول ہوئے۔” ان کے مطابق وفاقی بجٹ میں خیبرپختونخوا کے لیے مختص ترقیاتی فنڈز سندھ اور پنجاب کے مقابلے میں کم رکھے گئے ہیں۔ مزمل اسلم کا کہنا تھا کہ “وفاق نے کبھی این ایف سی ایوارڈ اور اے ڈی پی کی مکمل رقم فراہم نہیں کی۔” انہوں نے دعویٰ کیا کہ رواں مالی سال کے دوران صوبہ (93 ارب روپے) کا اپنا ہدف حاصل کر سکتا ہے۔ مشیر خزانہ نے بتایا کہ قبائلی اضلاع کے لیے سال 2024 میں (20 ارب روپے) اے آئی پی کی مد میں اور (47 ارب روپے) کرنٹ بجٹ سے صوبے نے خود فراہم کیے۔ ان کے مطابق موجودہ بجٹ میں سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) کا حجم 153 ارب روپے تک بڑھا دیا گیا ہے، جس کے تحت 419 ارب روپے مالیت کی اسکیمیں مکمل کی جا چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “آئندہ مالی سال میں 810 نئے ترقیاتی منصوبے شامل کیے گئے ہیں جن کی مجموعی لاگت پانچ سو ارب روپے سے زائد ہے۔” مزمل اسلم نے کہا کہ نئے مالی سال میں کوئی نیا قرضہ نہیں لیا جا رہا، تاہم اگر کوئی بڑا منصوبہ شروع کرنا ہو تو قرض لینے کی گنجائش موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “قرضوں کی ادائیگی کے لیے ایک سو پچاس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جس سے روزانہ چھ کروڑ روپے منافع حاصل ہو رہا ہے۔” انہوں نے بتایا کہ وفاق پہلی مرتبہ اگلے مالی سال میں خیبرپختونخوا کو 70 ارب روپے کی مکمل ادائیگی کرے گا، جب کہ پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں ماہانہ 3 ارب روپے جاری کیے جا رہے ہیں۔ سرکاری ملازمین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “خیبرپختونخوا کے سرکاری ملازمین تقریباً 30 مختلف الاؤنسز لے رہے ہیں۔ سیکرٹریٹ سے باہر کے ملازمین کے لیے 30 فیصد ڈیسپیرٹی الاؤنس مقرر کیا گیا ہے۔ پولیس اہلکاروں کی تنخواہیں پنجاب پولیس کے برابر کر دی گئی ہیں اور ان میں مزید 10 فیصد اضافہ بھی شامل ہے۔” مزمل اسلم نے کہا کہ “خیبرپختونخوا حکومت مالی نظم و ضبط، عوامی فلاح، اور پسماندہ علاقوں کی ترقی کو اپنی ترجیحات میں اولین رکھے گی۔”
نئے مالی سال کے لیے سندھ اسمبلی میں بجٹ پیش: ‘غربت نہیں بلکہ غریب کے خاتمے کا بجٹ ہے’

سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے مالی سال 2025-26 کے لیے 3,451.87 ارب روپے کا صوبائی بجٹ پیش کیا، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 12.9 فیصد زیادہ ہے۔ پیش کردہ بجٹ کو جامع بجٹ قرار دیتے ہوئے وزیرِاعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ یہ بجٹ سماجی بہتری، بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور اقتصادی خودمختاری کے اہداف لیے ہوئے ہے، یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ مجھے مسلسل گیارہویں بار بجٹ پیش کرنے کا موقع ملا ہے۔ بجٹ تقریر کے دوران وزیراعلیٰ سندھ نے تنخواہوں، پنشن، تعلیم، صحت، انفرااسٹرکچر، پولیس اصلاحات، سماجی فلاح، زراعت اور کراچی کی ترقی کے منصوبوں کی تفصیلات بیان کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گریڈ 1 سے 16 کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 12 فیصد، گریڈ 17 سے 22 کے ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشن میں 8 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے۔ سندھ حکومت نے آئی ایم ایف کی پابندیوں کے باوجود صحت اور تعلیم کے شعبوں میں ریکارڈ ترقیاتی کام کیے۔ سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ اس سال صحت کے لیے 326.5 ارب روپے اور تعلیم کے لیے 523.7 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ این آئی سی وی ڈی، ایس آئی یو ٹی، گمبٹ انسٹیٹیوٹ، ایس آئی سی ایچ اور جے پی ایم سی میں صحت کی سہولیات کو وسعت دی گئی ہے۔ کراچی میں 50 نئی الیکٹرک بسوں کا اعلان بھی کیا گیا ہے، جب کہ ریڈ لائن بی آر ٹی منصوبہ 50 فیصد مکمل ہو چکا ہے۔ کورنگی کاز وے پل اور شاہراہ بھٹو سمیت مختلف ترقیاتی منصوبے بھی شامل کیے گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے پولیس اصلاحات، نوجوانوں کے لیے آئی ٹی ٹریننگ، معذور افراد کی فلاح، تعلیم میں ڈیجیٹل اقدامات اور کسانوں کے لیے سبسڈی جیسے نکات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عوام نے حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی پر اعتماد کا اظہار کیا اور یہ بجٹ سندھ کی غیر استعمال شدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ واضح رہے کہ بجٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن کی جانب سے شدید ہنگامہ آرائی بھی دیکھنے میں آئی۔ اپوزیشن اراکین نے بجٹ کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے نعرے بازی کی اور ایوان میں شور شرابا کیا۔ اس دوران اپوزیشن جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی محمد فاروق نے سندھ بجٹ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ محمد فاروق کا کہنا تھا کہ یہ غربت نہیں بلکہ غریب کے خاتمے کا بجٹ ہے۔ کراچی ملک کو سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے لیکن اسے مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ بجٹ میں کراچی کے لیے کوئی میگا پروجیکٹ شامل نہیں کیا گیا اور شہر پر صرف ٹیکس عائد کیے جا رہے ہیں، سہولیات مہیا نہیں کی جا رہیں۔ انہوں نے بجٹ کو وفاق کی طرز پر عوامی امنگوں کے خلاف قرار دیا اور کہا کہ سندھ میں احتجاج کرنے والی ایم کیو ایم وفاق میں اقتدار کا حصہ ہوتے ہوئے بھی کراچی کے لیے کچھ حاصل نہ کر سکی۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور ن لیگ کراچی کے ساتھ مسلسل زیادتیوں کا ذمہ دار ہیں۔ محمد فاروق نے کہا کہ 20 سال گزرنے کے باوجود کراچی کے پانی کا مسئلہ حل نہیں کیا جا سکا۔ انہوں نے بجٹ کو مہنگائی کا طوفان قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔ صحت، تعلیم اور انفرااسٹرکچر کے شعبوں کو نظر انداز کیا گیا ہے اور یہ بجٹ متوسط اور مزدور طبقے پر کاری ضرب ہے۔ بجٹ اجلاس کے دوران ماحول خاصا گرم رہا اور ایوان میں اپوزیشن اور حکومتی بینچوں کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا، تاہم وزیراعلیٰ سندھ نے اپنی تقریر مکمل کی اور حکومتی ارکان نے بجٹ کو ترقی کا ضامن قرار دیا۔ صوبائی وزیر اطلاعات و نشریات شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا گٹھ جوڑ واضح طور پر سامنے آ چکا ہے، جو جماعتیں ماضی میں سیٹوں پر ایک دوسرے کے خلاف لڑتی تھیں، وہ آج اسمبلی کے فلور پر ایک ساتھ کھڑی نظر آئیں۔ یہ اتحاد ایک نیا پیغام ضرور ہے، لیکن پیپلز پارٹی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کی سیاست سب پر عیاں ہے، یہ جماعت ہمیشہ بلدیاتی انتخابات سے بھاگتی رہی ہے کیونکہ عوام میں ان کی کوئی مقبولیت باقی نہیں رہی۔ سندھ کے عوام نے ہمیشہ پیپلز پارٹی کو مینڈیٹ دیا ہے۔ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے کراچی سے غنڈہ گردی، بوری بند لاشوں، بھتہ خوری اور کھالوں کی سیاست کا خاتمہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم نے آج جو طرزِ عمل اسمبلی میں اختیار کیا، وہ احساسِ محرومی کا نتیجہ ہے۔ ایران پر حملے کا بہانہ بنا کر جو ڈرامہ رچایا گیا، وہ بھی بے نقاب ہو چکا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنی تقریر کی ابتدا ایران پر بزدلانہ حملے کی مذمت سے کی، لیکن اپوزیشن نے اس موقع پر بھی منفی سیاست کا مظاہرہ کیا۔
ایران اسرائیل کشیدگی، عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ

ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق اسرائیل کی جانب سے ایران پر فضائی حملے کے بعد تیل کی عالمی قیمتوں میں 7 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں اچانک بڑھ گئیں۔ یہ اضافہ اسرائیلی حملوں کے بعد سامنے آیا، جس کی اطلاع مختلف عالمی میڈیا اداروں نے کو دی۔ عالمی میڈیا کے مطابق، پیش رفت ایران اور اسرائیل کے درمیان ہوئی، جبکہ اس کے اثرات عالمی سطح پر تیل کی منڈی میں دیکھے گئے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور عسکری کارروائیوں کے خدشے کے باعث سرمایہ کاروں میں بے چینی پیدا ہوئی، جس کے نتیجے میں تیل کی طلب میں اضافہ اور رسد کے ممکنہ متاثر ہونے کے خدشے نے قیمتوں کو اوپر کی جانب دھکیل دیا۔ مزید پڑھیں: ایران پر اسرائیل کا حملہ، اسلامی ممالک کہاں کھڑے ہیں؟ رپورٹس کے مطابق برینٹ خام تیل کی قیمت میں 7.4 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد اس کی نئی قیمت 74.46 امریکی ڈالر فی بیرل ہو گئی ہے۔ اسی طرح امریکی کروڈ آئل کی قیمت میں 5.7 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور اب یہ 73.15 امریکی ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہے۔ توانائی کے ماہرین کے مطابق خطے میں کشیدہ صورتحال کے باعث آئندہ دنوں میں تیل کی قیمتوں میں مزید اتار چڑھاؤ کا امکان ہے۔ مارکیٹ میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر صورتحال مزید خراب ہوئی تو تیل کی رسد متاثر ہو سکتی ہے۔ تاحال کسی عالمی ادارے یا حکومت کی جانب سے تیل کی رسد متاثر ہونے کی باضابطہ تصدیق نہیں کی گئی، تاہم مارکیٹ میں غیر یقینی صورتحال برقرار ہے۔
ایران، اسرائیل کشیدگی، ایشیائی اسٹاک مارکیٹس میں مندی، سونے کی قیمت میں اضافہ

ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کے اثرات عالمی مالیاتی منڈیوں پر ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ایشیائی اسٹاک مارکیٹس میں نمایاں مندی دیکھی گئی ہے جبکہ سرمایہ کار سونے جیسے محفوظ اثاثوں کی جانب منتقل ہو رہے ہیں، جس کے نتیجے میں سونے کی قیمت میں غیرمعمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ اثرات خاص طور پر ایشیائی مالیاتی منڈیوں میں محسوس کیے گئے ہیں۔ جاپان، جنوبی کوریا اور ہانگ کانگ کی اسٹاک مارکیٹس میں قابلِ ذکر کمی دیکھی گئی ہے، جبکہ سونے کی قیمت میں اضافہ عالمی سطح پر رپورٹ کیا گیا ہے۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی اور کسی ممکنہ وسیع تر جنگ کے خدشات کے پیشِ نظر سرمایہ کار غیر یقینی صورتحال سے بچنے کے لیے محفوظ سرمایہ کاری کے متبادل تلاش کر رہے ہیں۔ اسی باعث سونے کی عالمی مانگ میں اضافہ ہوا ہے جبکہ اسٹاک مارکیٹس دباؤ کا شکار ہیں۔ جاپانی اسٹاک مارکیٹ میں نکئی 225 انڈیکس میں ایک فیصد سے زائد کمی ریکارڈ کی گئی، جو کہ سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی کی عکاسی کرتی ہے۔ جنوبی کوریا کا کوسپی انڈیکس بھی ایک فیصد سے زائد نیچے آیا۔ ہانگ کانگ کی ہینگ سینگ مارکیٹ میں بھی تقریباً ایک فیصد کی کمی دیکھی گئی۔ عالمی سونے کی قیمت میں قابلِ ذکر اضافہ ہوا ہے اور فی اونس قیمت بڑھ کر 3421 امریکی ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ یہ اضافہ سرمایہ کاروں کے سونے کو محفوظ سرمایہ کاری کے طور پر اختیار کرنے کی نشاندہی کرتا ہے۔ عالمی مالیاتی تجزیہ کاروں کے مطابق، سیاسی عدم استحکام کے دور میں سرمایہ کاروں کا جھکاؤ روایتی طور پر سونے اور دیگر محفوظ اثاثوں کی طرف ہوتا ہے۔ بلوم برگ اور رائٹرز جیسے اداروں نے بھی موجودہ رجحان کو مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورتحال سے منسلک قرار دیا ہے۔ تاحال جاپانی، جنوبی کوریائی یا چینی مالیاتی حکام کی جانب سے اس حوالے سے کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا۔ تاہم مختلف مرکزی بینک اور مالیاتی ادارے صورتحال کا قریبی جائزہ لے رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ، اگر مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا تو اس کے اثرات عالمی سطح پر دیگر شعبوں اور منڈیوں میں بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ ایسی کسی بھی پیش رفت کی صورت میں مالیاتی استحکام متاثر ہو سکتا ہے، جس کے لیے حکومتوں اور مالیاتی اداروں کو پیشگی اقدامات کی ضرورت ہو سکتی ہے۔
پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں نیا ریکارڈ قائم، 100 انڈیکس 126028 پوائنٹس تک پہنچ گیا

پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروباری ہفتے کے دوران تیزی کا رجحان برقرار ہے، اور جمعرات کے روز مارکیٹ نے اپنی نئی بلند ترین سطح عبور کر لی۔ 100 انڈیکس میں 1675 پوائنٹس کے مجموعی اضافے کے بعد انڈیکس 126028 پوائنٹس کی سطح پر بند ہوا، جو کہ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔ بدھ کے روز بھی مارکیٹ میں نمایاں تیزی دیکھنے میں آئی تھی، جب انڈیکس 2328 پوائنٹس کے اضافے کے ساتھ 124352 پر بند ہوا تھا۔ ماہرین کے مطابق آئندہ مالی سال کے بجٹ کے بعد سرمایہ کاروں کی مثبت توقعات اس تیزی کی بڑی وجہ ہیں۔ جمعرات کو کاروبار کے آغاز پر ہی 100 انڈیکس میں 1233 پوائنٹس کا نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جس کے بعد انڈیکس 125585 کی سطح تک پہنچا۔ کاروبار کے دوران سرمایہ کاروں کی دلچسپی جاری رہی، جس کے نتیجے میں مزید تیزی آئی اور انڈیکس نے 126028 کی حد عبور کرلی ۔ مزید پڑھیں: پاکستان کے ترسیلات زر میں نمایاں اضافہ، مجموعی حجم کہاں تک پہنچ گیا؟ سرمایہ کاروں کا اعتماد آئندہ بجٹ میں ممکنہ طور پر کاروبار دوست اقدامات اور ٹیکس اصلاحات کی توقعات سے جڑا ہوا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق مارکیٹ میں حالیہ تیزی مالیاتی پالیسیوں کے استحکام اور غیر یقینی صورتحال میں کمی کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی انتظامیہ یا وزارت خزانہ کی جانب سے تاحال کسی باضابطہ ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت سرمایہ کاروں کے لیے سازگار ماحول برقرار رکھنے میں کامیاب رہی تو مارکیٹ میں یہ رجحان آئندہ دنوں میں بھی برقرار رہ سکتا ہے۔ مزید براں، بیرونی سرمایہ کاروں کی دلچسپی اور مقامی ادارہ جاتی سرمایہ کاری بھی اس تیزی میں معاون ثابت ہو رہی ہے، جو ملکی مالیاتی مارکیٹ میں بحالی کے اشارے دے رہی ہے۔
پاکستان کے ترسیلات زر میں نمایاں اضافہ، مجموعی حجم کہاں تک پہنچ گیا؟

مئی 2025 میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی ترسیلات زر 3.68 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جو سالانہ بنیاد پر 13.67 فیصد اور اپریل کے مقابلے میں 16 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ترسیلات زر میں مسلسل اضافے کا رجحان پاکستان کے بیرونی کھاتے کو سہارا دینے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ مالی سال 2024-25 کے ابتدائی گیارہ ماہ (جولائی تا مئی) کے دوران ترسیلات زر کا مجموعی حجم 34.89 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے، جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں موصول ہونے والی 27.09 ارب ڈالر کی رقم کے مقابلے میں 28.79 فیصد زیادہ ہے۔ مئی 2025 کے دوران سب سے زیادہ ترسیلات زر سعودی عرب (913.95 ملین ڈالر)، متحدہ عرب امارات 75 کروڑ سے زائد ڈالر، برطانیہ 58 کروڑ سے زائد ڈالر اور امریکہ 31 کروڑ سے زائد ڈالر سے موصول ہوئیں، جو مجموعی ترسیلات کا 70 فیصد سے زائد حصہ بنتی ہیں۔ یہ اعداد و شمار مشرق وسطیٰ اور مغربی ممالک پر پاکستان کے مسلسل انحصار کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ اضافہ مارچ 2025 کی ریکارڈ سطح کے بعد دیکھنے میں آیا، جب رمضان اور عید سے متعلق ترسیلات، رسمی بینکاری ذرائع کے زیادہ استعمال اور خلیجی ممالک میں بہتر لیبر مارکیٹ کی وجہ سے ترسیلات زر 4.05 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی تھیں۔ یہ بھی پڑھیں:وفاقی بجٹ 2025-26، زبانی جمع خرچ، جھوٹے وعدے اور اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ماہرین کے مطابق، ترسیلات کو باضابطہ ذرائع سے بھیجنے کی نگرانی میں بہتری اور حکومتی مراعات بھی اس سال کے دوران مسلسل اضافے کا باعث بنے۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے مالی سال 2025-26 کے بجٹ خطاب میں کہا کہ رواں مالی سال کے اختتام تک ترسیلات زر 37 سے 38 ارب ڈالر کے درمیان پہنچنے کی توقع ہے، جو پاکستان کی تاریخ کی بلند ترین سطح ہوگی۔ مزید پڑھیں:بجٹ 2025-26 کے بعد آٹا، پیٹرول، بجلی، گیس، تعلیم کا خرچ کتنا بڑھے گا؟ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ترسیلات زر، بہتر کرنٹ اکاؤنٹ مینجمنٹ کے ساتھ، اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے میں مدد دیں گی، جن کی مالیت ایک ارب ڈالر تک پہنچنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
پاکستان کا معیشت پر مثبت اثرات کا دعویٰ، یورپی برآمدات میں کتنا اضافہ ہوا؟

مالی سال 2024-25 کے ابتدائی دس ماہ کے دوران پاکستان کی یورپی ممالک کو برآمدات میں 8.6 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق جولائی 2024 سے اپریل 2025 کے درمیان یورپی منڈیوں کو برآمدات کا حجم 7.55 ارب امریکی ڈالر رہا، جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 6.95 ارب ڈالر تھا۔ یہ اضافہ تقریباً 600 ملین ڈالر کا بنتا ہے۔ برآمدات میں اس اضافے کی بنیادی وجوہات میں ٹیکسٹائل، ملبوسات اور تیار مصنوعات کے شعبے میں بڑھتی ہوئی طلب کو قرار دیا گیا ہے۔ متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلٹیشن کونسل (ایس ائی ایف سی) کی پالیسی معاونت اور سہولت کاری کے اقدامات نے اس پیش رفت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ایس ائی ایف سی کے ایک ترجمان کے مطابق، کونسل نے برآمدی صنعتوں کو درپیش رکاوٹیں کم کرنے، کسٹمز کے عمل کو تیز بنانے اور یورپی تجارتی اداروں سے رابطے بڑھانے پر توجہ مرکوز کی۔ ان اقدامات سے یورپی منڈیوں تک رسائی میں بہتری آئی اور برآمدکنندگان کی لاگت میں کمی واقع ہوئی۔ وفاقی وزارت تجارت کے مطابق، یورپی یونین کے ساتھ جی ایس پی پلس اسٹیٹس کے تحت پاکستانی مصنوعات کو ٹیرف میں رعایت حاصل ہے، جس سے ٹیکسٹائل، ہوم ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ مزید پڑھیں: صحافیوں کے بائیکاٹ کے بعد وفاقی وزیرخزانہ کی پریس کانفرنس جاری: ’چھوٹے کسانوں کو قرضے دیے جائیں گے‘ ماہرین اقتصادیات کے مطابق، برآمدات میں اضافہ زرمبادلہ کے ذخائر کو بہتر بنانے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنے اور روزگار کے مواقع میں اضافے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) کے مطابق، برآمدی صنعت کی بہتری کا اثر نجی شعبے میں سرمایہ کاری کے رجحان پر بھی مثبت پڑ سکتا ہے۔ اس پیش رفت کو عالمی تجارتی ماحول میں پاکستانی مصنوعات کی مسابقتی حیثیت میں بہتری کا عندیہ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ لاہور، فیصل آباد، اور کراچی کے صنعتی حلقوں میں اس اضافے کو خوش آئند قرار دیا گیا ہے، تاہم کچھ برآمدکنندگان نے طویل مدتی پالیسی تسلسل کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔
وزیر خزانہ نے مالی گنجائش کے مطابق ریلیف دینے کی وضاحت کردی

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ کے بعد ہونے والی پہلی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ حکومت کی کوشش ہے کہ تنخواہ دار طبقے اور پنشنرز کو ریلیف فراہم کیا جائے، تاہم موجودہ مالی صورتحال میں فیصلے صرف دستیاب وسائل کے مطابق ہی ممکن ہیں۔ پریس کانفرنس اسلام آباد میں وزارتِ خزانہ کے دفتر میں ہوئی جس میں سیکریٹری خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر بھی شریک تھے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پینشن اور تنخواہوں میں اضافے کے لیے مہنگائی کو بطور معیار مدنظر رکھا گیا ہے۔ ان کے مطابق، مہنگائی کی موجودہ شرح ساڑھے سات فیصد ہے، اور دنیا بھر میں تنخواہوں کا تعین اسی پیمانے پر کیا جاتا ہے۔ وزیر خزانہ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ خسارے کی بلند سطح کی وجہ سے بہت سے اخراجات قرض کی بنیاد پر پورے کیے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی اخراجات میں کمی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں نے پارلیمنٹیرینز اور وزراء کی تنخواہوں میں اضافے پر سوالات اٹھائے۔ محمد اورنگزیب کا جواب تھا کہ وزراء کی تنخواہوں میں آخری مرتبہ 2016 میں ترمیم کی گئی تھی، اور اگر اس میں سالانہ اضافہ ہوتا تو موجودہ اضافہ نمایاں نہ لگتا۔ وزیر خزانہ نے بجٹ میں شامل ٹیرف اصلاحات کی تفصیلات بھی بیان کیں۔ ان کے مطابق، سات ہزار میں سے چار ہزار ٹیرف لائنز کو صفر کیا گیا ہے تاکہ برآمدات کو فروغ دیا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ رواں مالی سال میں حکومت نے انفورسمنٹ کے ذریعے 400 ارب روپے سے زائد کا ٹیکس جمع کیا ہے۔ ایف بی آر کی جانب سے زراعت پر اضافی ٹیکس نہ لگانے کی تجویز پر بھی گفتگو ہوئی۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ اس حوالے سے بورڈ کے ساتھ مشاورت کی گئی ہے، اور چھوٹے کسانوں کو قرضے فراہم کیے جائیں گے تاکہ انہیں ریلیف مل سکے۔ پریس کانفرنس کے آغاز پر اُس وقت تناؤ کی صورت حال پیدا ہوئی جب صحافیوں نے بجٹ پر تکنیکی بریفنگ نہ دینے پر احتجاجاً بائیکاٹ کیا۔ صحافیوں کا کہنا تھا کہ گزشتہ 20 برس سے بجٹ کے بعد تکنیکی بریفنگ دی جاتی رہی ہے، جسے اس سال نظرانداز کیا گیا۔ بعد میں وزیر خزانہ نے متعلقہ حکام کو صحافیوں سے بات چیت کی ہدایت دی۔