برطانیہ: یورکشائر میں اسٹرابیری مون کا دلکش نظارہ، اسٹرابیری مون کیا ہے؟

Moon

برطانیہ کے شہر یورکشائر میں شہریوں نے بدھ کی رات ایک دلکش فل مون، جسے’اسٹرابیری مون’ کہا جاتا ہے، کا شاندار نظارہ کیا، یہ خوبصورت منظر تقریباً دو دہائیوں بعد اپنی سب سے واضح اور دلکش شکل میں نمودار ہوا، جس نے نہ صرف یورکشائر بلکہ پورے برطانیہ کے آسمان کو روشن کر دیا۔  شہریوں نے اس نایاب اور دل موہ لینے والے منظر کو اپنے کیمروں میں محفوظ کیا اور سوشل میڈیا پر اس کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کیں۔ منگل کی رات چاند افق کے قریب انتہائی نیچے دکھائی دیا، جس کے باعث وہ معمول سے بڑا محسوس ہوا، جبکہ بدھ کے روز جب یہ چاند ایک اہم قمری زاویے، جسے ‘لونا اسٹینڈاسٹل’ کہا جاتا ہے، کے قریب پہنچا تو اس نے نارنجی اور سرخ رنگ کی خوبصورت جھلک اختیار کر لی۔ مزید پڑھیں:برطانیہ 2034 تک دفاعی اخراجات کو جی ڈی پی کے تین فیصد تک پہنچا دے گا، برطانوی وزیر دفاع جون کے مہینے کے فل مون کو ‘اسٹرابیری مون’ کا نام امریکی مقامی قبائل کی اس روایت سے ملا ہے جو اسے موسم گرما کے آغاز اور اسٹرابیری کی فصل کی کٹائی سے منسلک کرتے ہیں۔  ماہرین فلکیات کے مطابق چاند کا افق کے اس قدر قریب اور نیچے نظر آنا ایک نایاب مظہر ہے، جسے دوبارہ دیکھنے کے لیے لوگوں کو اب مزید 18 سال انتظار کرنا پڑے گا۔

برطانیہ 2034 تک دفاعی اخراجات کو جی ڈی پی کے تین فیصد تک پہنچا دے گا، برطانوی وزیر دفاع

Uk based

 برطانیہ کے وزیر دفاع جان ہیلی نے کہا ہے کہ کوئی شک نہیں کہ برطانیہ 2034 تک دفاعی اخراجات کو مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے تین فیصد تک بڑھا دے گا۔ عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق رواں سال فروری میں وزیر اعظم سر کیئر اسٹارمر نے اعلان کیا تھا کہ اپریل 2027 تک دفاعی اخراجات کو 2.5 فیصد تک بڑھایا جائے گا اور معاشی حالات اجازت دینے کی صورت میں 2034 تک یہ شرح تین فیصد تک لے جانے کا ارادہ ہے۔ بی بی سی کے ذرائع کے مطابق وزیر دفاع کو مکمل اعتماد ہے کہ یہ ہدف اگلی پارلیمان کے دوران حاصل کر لیا جائے گا۔ حکومت پیر کو اسٹریٹجک دفاعی جائزہ رپورٹ جاری کرے گی جس میں آئندہ برسوں کے لیے فوجی اور سیکیورٹی اخراجات کی ترجیحات شامل ہوں گی۔ وزارت دفاع نے اعلان کیا ہے کہ 1.5 ارب پاؤنڈ سے زائد اضافی فنڈنگ فوجی رہائش گاہوں کی بہتری پر خرچ کی جائے گی، جس میں ہنگامی مرمت، جیسے خراب بوائلرز کی درستگی اور پھپھوندی کا علاج، شامل ہے۔ مزید پڑھیں:پاکستانی وفد ’تجارتی مذاکرات‘ کے لیے اگلے ہفتے امریکا کے دورے پر آئے گا، ڈونلڈ ٹرمپ یہ اقدام پارلیمنٹ کی دفاعی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد کیا جا رہا ہے، جس میں بتایا گیا تھا کہ دو تہائی فوجی خاندانوں کے مکانات کو جدید معیار پر لانے کے لیے وسیع مرمت یا ازسرنو تعمیر کی ضرورت ہے۔ لبرل ڈیموکریٹس نے حکومتی اقدام کا خیر مقدم کیا اور مطالبہ کیا کہ فوجی رہائش گاہوں کو ’ڈیسنٹ ہومز اسٹینڈرڈ‘ پر لایا جائے، جو سوشل ہاؤسنگ کے لیے مقرر کردہ کم از کم معیار ہے۔

پاکستان، انڈیا جنگ کے بعد مغرب چین سے خوفزدہ ہونے لگا ہے؟

Osama shafiq

چینی صدرشی جن پنگ امریکی فوجی بالادستی کو کمزور کر رہے ہیں، چین کی افواج میں تیزی سے توسیع پر خدشات بڑھ رہے ہیں کہ یہ ملک امریکہ کے لیے وجودی خطرہ بن سکتا ہے۔ چین نے نہایت جارحانہ انداز میں ایک بڑی فوج تشکیل دی ہے جس کا مقصد ہماری طاقتوں کو زائل کرنا ہے۔ جب پاکستان کے ایک چینی ساختہ جنگی طیارے نے کشمیر کے پہاڑوں کے اوپر ایک میزائل داغا اور انڈیا کے فرانسیسی ساختہ رافال لڑاکا طیارے کو مار گرایا، تو مغربی حکام چونک گئے۔ یہ پہلا موقع تھا جب مغرب نے چینی JC-10 طیارے اور PL-15 میزائل کو عملی جنگ میں استعمال ہوتے دیکھا۔ اس کے بعد مغربی ماہرین نے اس جھڑپ کی تفصیلات کا بغور جائزہ لیا کہ آیا چین کی عسکری صلاحیتیں مغرب کے برابر آچکی ہیں یا نہیں۔ گزشتہ 25 برسوں میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی (PLA) ایک چھوٹی اور زرعی آمدنی پر انحصار کرنے والی فوج سے دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور افواج میں تبدیل ہو چکی ہے۔ امریکی فضائیہ کے بریگیڈیئر جنرل ڈگ وکرٹ کے مطابق: ’’چین آج تک کے سب سے زیادہ طاقتور مقام پر ہے۔ اس نے خاصی جارحیت کے ساتھ ایک بہت بڑی فورس بنائی ہے جس کا مقصد ہمارے دفاعی نظام کو چیلنج کرنا ہے۔‘‘ آج PLA کے پاس امریکہ سے تقریباً دس لاکھ زیادہ سپاہی اور ایک ہزار سے زائد اضافی ٹینک ہیں۔ اس کی بحریہ دنیا کی سب سے بڑی بحریہ بن چکی ہے، جس میں تقریباً 400 جنگی جہاز شامل ہیں، اور فضائیہ میں تقریباً 2,000 لڑاکا طیارے موجود ہیں۔ بیجنگ نے اپنی انٹیلی جنس صلاحیتوں میں بھی غیر معمولی اضافہ کیا ہے۔ سی آئی اے کے نائب ڈائریکٹر مائیکل ایلس کے مطابق چین اب ایسا وجودی خطرہ بن چکا ہے جس کا امریکہ نے ماضی میں کبھی سامنا نہیں کیا۔ تاہم، اگرچہ چین آج ماضی کی نسبت کہیں زیادہ طاقتور ہے، لیکن اس کی اصل صلاحیتوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ PLA ابھی بھی مہارت اور تجربے میں پیچھے ہے اور اکثر اپنے حریف سے ایک قدم پیچھے رہتی ہے۔ جنرل وکرٹ کے مطابق: ’’اعداد و شمار پوری کہانی نہیں بتاتے۔ چین کی فوج تعداد اور تکنیکی ترقی دونوں میں بڑھی ہے، لیکن بعض شعبوں میں ہم اب بھی ٹیکنالوجی میں برتری رکھتے ہیں۔‘‘ ہر سال چین میں مختلف نمائشیں اور دفاعی شوز ہوتے ہیں، جن میں دنیا کی سب سے خفیہ افواج میں سے ایک کی ٹیکنالوجی پیش کی جاتی ہے۔ مزید پڑھیں: جنگ کے بعد پاکستان اور انڈیا سفارتی محاذ پر، کیا نتائج آ سکتے ہیں؟ نومبر میں، چین نے ژوہائی ایئر شو میں J-20 اسٹیلتھ فائٹر طیارے پیش کیے، جو امریکہ کے F-35 لائٹننگ II طیاروں کے حریف سمجھے جاتے ہیں، اور جو PL-15 جیسے میزائل لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حال ہی میں، ورلڈ ریڈار ایکسپو میں چین نے نیا JY-27V ریڈار پیش کیا، جسے چینی ریاستی میڈیا نے F-35 جیسے پانچویں نسل کے امریکی اسٹیلتھ طیاروں کا سراغ لگانے کی صلاحیت والا قرار دیا۔ چین کی بحریہ بھی مبینہ طور پر ایک نیا سپر کیریئر تیار کر رہی ہے، جو USS Gerald Ford جیسا ہوگا۔ جبکہ فوج ایک نئی چوتھی نسل کے ہلکے ٹینک پر کام کر رہی ہے، جس کے توپ خانے مختلف قسم کے گولے داغنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم، امریکا کے لیے سب سے زیادہ تشویشناک پہلو چین کی جوہری طاقت میں تیز رفتار اضافہ ہے۔ 2023 سے 2024 کے درمیان چین نے اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد 500 سے بڑھا کر 600 کر دی، اور اندازہ ہے کہ 2030 تک یہ تعداد 1,000 سے تجاوز کر جائے گی۔ اگرچہ امریکہ کے پاس اب بھی 3,700 جوہری ہتھیاروں کے ساتھ برتری حاصل ہے، لیکن بیجنگ کی رفتار نے واشنگٹن کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ رینڈ کارپوریشن کے دفاعی محقق اور چین کے ماہر، ٹموتھی ہیتھ کے مطابق: چین کی یہ پیش رفت دراصل ایک “روک تھام کی حکمت عملی” کا حصہ ہے۔ ان کے بقول: ’’یہ اس بات کی علامت ہے کہ چین امریکہ سے روایتی جنگ سے بچنا چاہتا ہے۔‘‘ ہیتھ کے مطابق ہائپرسونک میزائل کا میدان ایک ایسا شعبہ ہو سکتا ہے جہاں چین نے تکنیکی لحاظ سے امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ چین فوجی ڈرونز کے عالمی بازار میں بھی نمایاں کھلاڑی بن چکا ہے، حالانکہ جنرل وکرٹ جیسے ماہرین اس سے اتفاق نہیں کرتے کہ چین کسی بھی شعبے میں امریکہ سے آگے نکل چکا ہے۔ چینی فوجی ترقیات تائیوان کے ممکنہ تنازع کے تناظر میں سب سے زیادہ باعثِ تشویش ہیں، کیونکہ یہ وہ واحد منظرنامہ ہے جہاں امریکہ اور چین آمنے سامنے آ سکتے ہیں۔ جو بائیڈن نے واضح کیا ہے کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو امریکہ اس کا دفاع کرے گا، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاملے پر کوئی واضح مؤقف نہیں اپنایا۔ ہیتھ کے مطابق چین کی تائیوان کے قریب موجودگی اسے برتری دیتی ہے، کیونکہ بیجنگ کو اپنے زمینی نظام تک فوری رسائی حاصل ہوگی، جب کہ امریکہ کو سمندر پار سے اپنی طاقت پہنچانی پڑے گی۔ واشنگٹن نے چین کی سائبر جنگی صلاحیتوں پر بھی خطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔ کیلیفورنیا کی ایک یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے جنرل وکرٹ نے انکشاف کیا کہ چین نے امریکہ کے بجلی کے نظام میں داخل ہو کر میلویئر نصب کیا ہے، جو بجلی، پانی اور گیس جیسے بنیادی ڈھانچے کی نگرانی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’چین نے ان نظاموں تک رسائی حاصل کی اور ان کا نقشہ تیار کیا، جو یقیناً تشویش کا باعث ہے۔ یہ دراصل جنگی اقدام سمجھا جاتا ہے۔‘‘ 1990 کی دہائی میں PLA اتنی مضبوط نہیں تھی۔ جب مغربی ممالک اربوں ڈالر اپنی افواج پر خرچ کر رہے تھے، PLA کے پاس اتنا بجٹ بھی نہیں تھا کہ وہ اپنے اخراجات پورے کر سکے۔ سنگاپور میں ایس راجارٹنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے سینیئر فیلو اور امریکی محکمہ دفاع میں سابق ڈائریکٹر برائے چین، ڈریو تھامسن کے مطابق: ’’فوج کے پاس سرکاری بجٹ نہ ہونے کے باعث اسے اپنی آمدنی خود پیدا کرنی پڑتی تھی۔ یہ کارخانے، سروسز، لاجسٹک بزنس میں

برطانیہ: میچ جیتنے کی خوشی میں گاڑی شائقین پر چڑھا دی، 45 افراد زخمی

Car

لیورپول میں فٹ بال میچ کی جیت کی خوشی میں ایک شخص نے گاڑی ہجوم پر چڑھا دی، جس کے نتیجے میں 45 افراد زخمی ہو گئے۔ یہ واقعہ پیر کی شب اس وقت پیش آیا جب لوگ پریمیئر لیگ چیمپیئن شپ کی فتح کا جشن منانے کے لیے سڑکوں پر جمع تھے۔ حکام کے مطابق، 53 سالہ مقامی برطانوی شہری کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جس نے ایک گرے وین کے ذریعے یہ حملہ کیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے یہ واضح ہوا ہے کہ یہ واقعہ کسی منظم منصوبہ بندی یا دہشت گردی کا حصہ نہیں بلکہ ملزم کا انفرادی اقدام ہے۔ ایمرجنسی سروسز فوری طور پر موقع پر پہنچ گئیں۔ ایمبولینس سروس کے سربراہ ڈیو کچن نے بتایا کہ 27 افراد کو ہسپتال منتقل کیا گیا، جن میں دو کی حالت نازک ہے، جبکہ دیگر کو موقع پر ہی طبی امداد فراہم کی گئی۔ زخمیوں میں کم از کم چار بچے بھی شامل ہیں۔ چار بالغ افراد اور ایک بچہ گاڑی کے نیچے پھنس گئے تھے، جنہیں فائر فائٹرز نے گاڑی اٹھا کر نکالا۔ یہ بھی پڑھیں :دورہ ایران: شہبازشریف کی ایرانی سپریم لیڈر، صدر سے ملاقاتیں، اہم امور پر تبادلہ خیال عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جب فنکشن ختم ہوا تو لوگ باہر نکل رہے تھے، اسی دوران گاڑی ہجوم کی طرف مڑی اور لوگوں کو روندنا شروع کر دیا۔ ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گاڑی پہلے ایک شخص کو ٹکر مارتی ہے، پھر تیزی سے ہجوم میں داخل ہو جاتی ہے۔ موقع پر موجود شہری ہیری رشید، جو اپنی بیوی اور بیٹیوں کے ساتھ وہاں موجود تھے، نے بتایا کہ ڈرائیور کو روکنے کی کوشش کی گئی، مگر اس نے گاڑی نہ روکی اور موقع سے فرار ہونے کی کوشش کی۔ سٹی کونسل کے رہنما لیام رابنسن نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ یہ واقعہ شہر کے لیے ایک بڑے صدمے کا باعث ہے اور ایک خوشی کے دن کو سوگ میں بدل دیا ہے۔ پولیس اور مقامی انتظامیہ واقعے کی مکمل تحقیقات کر رہے ہیں تاکہ اس کی اصل وجوہات اور محرکات کا تعین کیا جا سکے۔

دورہ انگلینڈ کے لیے انڈین ٹیسٹ اسکواڈ میں سائی سدرشن اور کرون نائر کی شمولیت متوقع

Inidian crickter

انڈیا کے دورہ انگلینڈ کے لیے ٹیسٹ اسکواڈ میں ممکنہ تبدیلیوں کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے، جن میں حالیہ ڈومیسٹک سیزن میں بہترین کارکردگی دکھانے والے بیٹرز سائی سدھارسن اور کرون نائر کو شامل کیے جانے کا قوی امکان ہے۔ اسکواڈ کا باضابطہ اعلان 24 مئی، ہفتے کے روز متوقع ہے۔ کرکٹ سے متعلق خبروں کی ویب سائیٹ کرک بز کے مطابق کرون نائر نے رنجی ٹرافی کے نو میچوں میں 863 رنز اور وجے ہزارے ٹرافی کی آٹھ اننگز میں 779 رنز اسکور کیے، جو ان کی مستقل اور شاندار کارکردگی کا ثبوت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں ممکنہ طور پر سینئر ٹیم کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ چند نئے ناموں کے علاوہ، ٹیم تقریباً وہی ہوگی جو نومبرجنوری میں بارڈرگواسکر ٹرافی کے لیے آسٹریلیا گئی تھی۔ روہت شرما اور ویرات کوہلی، جنہوں نے حال ہی میں ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا، اسکواڈ میں شامل نہیں ہوں گے۔ ودربھ کے بیٹر، جنہوں نے ٹیم کو رنجی ٹرافی جیتنے اور وجے ہزارے ٹرافی میں دوسرے مقام تک پہنچانے میں مرکزی کردار ادا کیا، پہلے ہی انڈیا اے اسکواڈ میں شامل ہو چکے ہیں جو کچھ دنوں میں انگلینڈ روانہ ہو گا۔ ان کی سینئر ٹیم میں شمولیت بھی متوقع ہے۔ 23 سالہ سدھارسن، جو اس وقت آئی پی ایل میں 638 رنز کے ساتھ سرفہرست بیٹر ہیں، کو بھی اسکواڈ میں شامل کیے جانے کی امید ہے۔ انہیں انگلینڈ لائنز کے خلاف دوسرے انڈیا اے میچ کے لیے پہلے ہی منتخب کیا جا چکا ہے، اور کرکٹ حلقوں میں ان کی ٹیم انڈیا میں متوقع شمولیت پر چرچے کیے جا رہے ہیں۔ تمل ناڈو سے تعلق رکھنے والے بائیں ہاتھ کے بیٹر کی شاندار تکنیک اور پُرسکون مزاج کی تعریف خود انگلش کپتان جوس بٹلر جیسے کھلاڑی بھی کر چکے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں:انڈین کرکٹ بورڈ کی ایشیا کپ سے دستبرداری سے متعلق خبروں کی تردید اگرچہ سدھارسن نے جاری آئی پی ایل میں شبمن گل کے ساتھ کامیاب اوپننگ پارٹنرشپ قائم کی ہے، لیکن وہ انگلینڈ میں اوپننگ نہیں کریں گے۔ سمجھا جاتا ہے کہ ہیڈ کوچ گوتم گمبھیر نے کے ایل راہول کو غیر رسمی طور پر آگاہ کیا ہے کہ وہ اوپر بیٹنگ کریں گے۔ اگر یہ منصوبہ برقرار رہا، تو راہول، یشسوی جیسوال کے ساتھ اوپننگ کریں گے، اور گل چوتھے نمبر پر آئیں گے۔ اس صورت میں تیسرا نمبر سدھارسن یا نائر کو مل سکتا ہے۔ سلیکٹرز کے درمیان چیتشور پجارا کو واپس لانے کی بھی باتیں ہو رہی ہیں لیکن تاثر یہی ہے کہ ٹیم انتظامیہ اب ماضی کی طرف نہیں دیکھنا چاہتی۔ سرفراز خان کے اسکواڈ میں شامل ہونے کا بھی امکان ہے، لیکن دیودت پڈیکل، جو بی جی ٹی اسکواڈ میں تھے، ابھی مکمل طور پر فٹ نہیں ہیں۔ مزید پڑھیں:’14 سال وائٹ جرسی پہننا اعزاز کی بات رہی‘، وراٹ کوہلی کا ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان محمد شامی کی غیر موجودگی میں تیز گیند بازوں میں جسپریت بمراہ، محمد سراج، پرسادھ کرشنا، آکاش دیپ اور ہرشت رانا شامل ہوں گے۔ رویندر جڈیجا اور واشنگٹن سندر اسپنرز کے طور پر آل راؤنڈر کردار ادا کریں گے۔ نیتیش کمار ریڈی اور شاردل ٹھاکر کے لیے بھی جگہ بننے کا امکان ہے۔ وکٹ کیپنگ کی ذمہ داریاں رشبھ پنت اور دھروو جورل سنبھالیں گے، اور کلدیپ یادو واحد اسپیشلسٹ اسپنر ہوں گے۔ ممکنہ اسکواڈ میں شبمن گل، یشسوی جیسوال، کے ایل راہول، کرون نائر، سائی سدھارسن، سرفراز خان، رویندر جڈیجا، واشنگٹن سندر، نیتیش کمار ریڈی، رشبھ پنت، دھروو جورل، جسپریت بمراہ، محمد سراج، پرسادھ کرشنا، آکاش دیپ، ہرشت رانا، شاردل ٹھاکر اور کلدیپ یادو شامل ہوں گے۔

برطانیہ: زچگی اسپتال میں آگ بھڑک اٹھی، نومولود بچے بریسٹل یونیورسٹی منتقل

England

برطانیہ کے شہر بریسٹل میں واقع سینٹ مائیکل زچگی اسپتال میں جمعرات کی شام اچانک آگ بھڑک اٹھی، جس کے باعث ہنگامی طور پر بچوں، خواتین اور عملے کو عمارت سے نکالنا پڑا اور نومولود بچوں کو فوری طور پر بریسٹل یونیورسٹی کی لائبریری منتقل کر دیا گیا۔ عالمی ‘خبررساں ادارے میل آنلائن’ کے مطابق سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیوز میں اسپتال کی چھت پر بلند ہوتے شعلے اور سیاہ دھویں کے بادل دیکھے جا سکتے ہیں، آگ نے چھت پر نصب سولر پینلز کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ آگ تقریباً شام 4:30 بجے لگی اور Avon Fire & Rescue Service کے مطابق اب اسے مکمل طور پر بجھا دیا گیا ہے، تاہم متاثرہ علاقے کو فی الحال بند کر دیا گیا ہے۔ اسپتال کے مڈوائف عملے نے نہایت تیزی سے حاملہ خواتین کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا، خواتین کو دودھ، پھل اور کمبل بھی فراہم کیے گئے۔ ایک فزیالوجسٹ جارجینا ہیکیٹ نے ‘میل آن لائن’ کو بتایا کہ پولیس کی درخواست پر وہ بچوں کے لیے کمبل لے کر پہنچیں۔ 22 سالہ جیس ہچنسن، جن کے ہاں بچے کی پیدائش متوقع تھی، نے عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا کہ”چھت پر آگ لگنے کی آواز سننا بہت خوفناک تھا۔” اسی طرح میتھیو برڈن، جو اپنی بیوی کے ساتھ اسپتال میں موجود تھے، نے بتایا میں کھانے کے لیے نکلا تھا، واپس آیا تو الارم بج رہا تھا۔ سب لوگ جلدی جلدی فائر ایگزٹ کی طرف جا رہے تھے، باہر آیا تو ہر طرف دھواں اور آگ دیکھی۔ Avon Fire & Rescue Service کے مطابق آگ کی وجوہات کی تفتیش کی جا رہی ہے۔ فی الحال کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی، تاہم St Michael’s Hill کو آمد و رفت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ Avon and Somerset Police نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ علاقے میں جانے سے گریز کریں۔ واضح رہے کہسینٹ مائیکل اسپتال نہ صرف بریسٹل کا اہم زچگی مرکز ہے بلکہ یہ ایک ٹیچنگ اسپتال بھی ہے، جس میں بچوں کا آڈیالوجی یونٹ بھی شامل ہے۔

برطانیہ کا جیلوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک ہزار سے زائد قیدیوں کی رہائی کا اعلان

England

برطانیہ میں جیلوں کی شدید گنجائشِ بحران کے پیش نظر حکومت نے 1,400 سے زائد قیدیوں کو قبل از وقت رہا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب حکام نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ پانچ ماہ میں قیدی رکھنے کی جگہ ختم ہو جائے گی۔ عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق برطانیہ کی جسٹس سیکریٹری شبانہ محمود نے اعلان کیا کہ ایک سے چار سال کی سزائیں پانے والے قیدی، جو اپنی ضمانت کی شرائط توڑنے پر واپس جیل لائے گئے تھے، اب 28 دن بعد رہا کر دیے جائیں گے۔ شبانہ محمود کا کہنا تھا کہ حکومت 4.7 ارب پاؤنڈ کی سرمایہ کاری سے نئی جیلیں تعمیر کرے گی، لیکن صرف نئی جیلیں بنا کر بحران پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ یہ اقدام ہمیں وقت دے گا تاکہ ہم ایک ایسے نظام میں اصلاحات کر سکیں جو بکھرنے کے دہانے پر ہے۔ وزارتِ انصاف کی سینئر اہلکار ایمی ریس نے خبردار کیا ہے کہ موجودہ صورتحال برقرار رہی تو نومبر 2025 تک انگلینڈ میں بالغ مرد قیدیوں کے لیے تمام جگہ ختم ہو جائے گی۔ عام طور پر اس قسم کے قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے پیرول بورڈ کی منظوری درکار ہوتی ہے، لیکن حکومت نے یہ کہہ کر کہ اگر پیرول بورڈ کا بیک لاگ نہ ہوتا تو یہ قیدی پہلے ہی رہا ہو چکے ہوتےاس مرحلے کو نظرانداز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ سہولت ان افراد کے لیے دستیاب نہیں ہو گی، جنہوں نے سنگین جرائم دوبارہ کیے ہوں یا جنہیں عوام کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں :برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟ برطانیہ میں اس وقت 88,087 قیدی موجود ہیں، جب کہ کل آپریشنل گنجائش 89,442 ہے، یعنی صرف 1,355 قیدیوں کی جگہ باقی ہے۔ حکومت کی رپورٹ کے مطابق 2029 تک قیدیوں کی تعداد 95,700 سے 105,200 تک پہنچنے کا امکان ہے، 13,583 قیدی ایسے ہیں جو ضمانتی شرائط توڑنے پر دوبارہ جیل لائے گئے ہیں۔ شیڈو جسٹس سیکریٹری رابرٹ جینرک نے اس اقدام کو “عوامی تحفظ کے لیے ناکام فیصلہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج حکومت نے ان مجرموں کو جلدی چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے جنہوں نے دوبارہ خلاف ورزی کی۔ پرزن آفیسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین مارک فیئرحرسٹ نے کہا کہ نئی جیلیں بنانے سے بحران حل نہیں ہو گا، بلکہ حکومت کو چاہیے کہ وہ پرانی جیلوں کی بحالی، پروبیشن سروس کو بہتر بنانے، ذہنی صحت کے مراکز اور مضبوط متبادل سزاؤں پر توجہ دے۔ خیال رہے کہ گزشتہ سال بھی، جب جیلوں میں گنجائش ختم ہونے کے قریب تھی ہزاروں قیدیوں کو ہنگامی طور پر قبل از وقت رہا کیا گیا تھا۔

برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟

Keir starmer

برطانیہ کے وزیر اعظم سر کیر سٹارمر نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ملک کے امیگریشن کے ٹوٹے ہوئے نظام کو درست کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایسا نیا نظام متعارف کرانا چاہتے ہیں جو منصفانہ، منتخب اور مکمل کنٹرول میں ہو۔ اس نظام میں کئی بڑی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔ سب سے اہم تجویز یہ ہے کہ برطانیہ میں مستقل سکونت (سیٹلمنٹ) حاصل کرنے کے لیے تارکین وطن کو اب پانچ سال کے بجائے دس سال تک انتظار کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ تمام ویزا درخواست دہندگان اور ان کے ساتھ آنے والے بالغ افراد کے لیے انگلش زبان کا معیار مزید سخت کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟ سر کیر نے موجودہ نظام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کئی صنعتیں برطانوی نوجوانوں کی تربیت اور ان میں مہارت پیدا کرنے کے بجائے بیرونِ ملک سے سستی مزدوری لانے کو ترجیح دیتی ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر انجینئرنگ کے شعبے کی مثال دی، جہاں ویزا کی منظوریوں میں اضافہ ہوا ہے، لیکن مقامی سطح پر تربیتی مواقع، یعنی اپرنٹس شپس میں کمی آئی ہے۔ سر کیر سٹارمر کا کہنا ہے کہ ایسا امیگریشن نظام ہونا چاہیے جو برطانوی نوجوانوں کو نظر انداز نہ کرے بلکہ ان کی تربیت اور مستقبل کی راہ ہموار کرے۔ ان کے مطابق موجودہ نظام نے مقامی نوجوانوں کو وہ مواقع نہیں دیے جن کے وہ حقدار تھے۔ دوسری جانب شیڈو ہوم سیکریٹری کرس فلپ نے لیبر پارٹی کی امیگریشن پالیسی کو ایک “مذاق” قرار دیا ہے اور حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں امیگریشن پر باقاعدہ کیپ (حد بندی) نافذ کرے۔ یہ تمام بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب برطانیہ امیگریشن سے متعلق اپنی “وائٹ پیپر” رپورٹ جاری کرنے والا ہے، جس میں آنے والی پالیسیوں کی تفصیل دی جائے گی۔ یہ ایک اہم سیاسی اور سماجی موضوع ہے جو نہ صرف تارکین وطن بلکہ برطانوی عوام کی روزگار، تربیت اور معیشت سے بھی براہ راست جڑا ہوا ہے۔

برطانیہ اور انڈیا کے درمیان تاریخی تجارتی معاہدہ طے پا گیا

Uk & india

تین سال کی بار بار رکی ہوئی مذاکراتی کوششوں کے بعد بالآخر برطانیہ اور انڈیا کے درمیان تاریخی تجارتی معاہدہ طے پا گیا، جس کے تحت برطانوی کمپنیوں کے لیے انڈین مارکیٹ میں وسعت حاصل کرنا آسان ہو گا، جب کہ انڈیا کے ملبوسات اور جوتوں کی برآمدات پر عائد ٹیکسوں میں نمایاں کمی کی جائے گی۔ عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں امیگریشن پالیسی یا انڈیا سے آنے والے طلبہ کے ویزا قوانین میں کوئی تبدیلی شامل نہیں ہے۔ برطانوی وزیرِ صنعت جوناتھن رینولڈز نے اس معاہدے کو برطانوی کاروبار اور صارفین کے لیے ‘انتہائی فائدہ مند’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں معیشتوں کے لیے ترقی کا نیا باب ثابت ہو گا۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سال 2023 میں برطانیہ اور انڈیا کے درمیان تجارت کا حجم 41 ارب پاؤنڈ تھا اور اب اس نئے معاہدے کی بدولت 2040 تک تجارت میں سالانہ 25.5 ارب پاؤنڈ کا مزید اضافہ متوقع ہے۔ یہ معاہدہ گزشتہ ہفتے لندن میں وزیر رینولڈز اور ان کے انڈین ہم منصب پیوُش گوئل کے درمیان ملاقات کے بعد حتمی شکل اختیار کر گیا۔ تاہم، اس پر عملدرآمد میں ایک سال تک کا وقت لگ سکتا ہے۔ برطانوی محکمہ تجارت کے مطابق جب یہ معاہدہ نافذ العمل ہو گا تو انڈین مصنوعات پر عائد ٹیرف کم ہونے سے برطانوی صارفین کو براہِ راست فائدہ ہو گا۔ مزید یہ کہ برطانوی کمپنیوں کو انڈیا میں برآمدات بڑھانے کے مواقع ملیں گے، جو کہ روزگار کی فراہمی اور اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ واضح رہے کہ پیشگوئی کی جارہی ہے کہ انڈیا آئندہ چند برسوں میں دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے جا رہا ہے، جب کہ انڈین وزیرِاعظم نریندر مودی کی حکومت کا ہدف 2030 تک برآمدات کو ایک کھرب ڈالر تک پہنچانا ہے۔ لازمی پڑھیں: برطانوی انسدادِ دہشت گردی پولیس نے چار ’ایرانی شہریوں‘ سمیت پانچ افراد کو گرفتار کر لیا سابق حکومتی تجارتی مشیر ایلی رینسن کا بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ “برطانیہ کے بریکسٹ کے بعد کے معاہدوں کے یہ معاہدہ انڈیا کے معاشی حجم، تیز رفتار ترقی اور اس کی مارکیٹ تک رسائی میں موجود بلند رکاوٹوں کی وجہ سے برطانیہ کے لیے سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔” انہوں نے کہا کہ “اگرچہ ان مذاکرات کو کئی سال سے متعدد رکاوٹوں کا سامنا رہا، لیکن موجودہ حکومت نے ان مسائل کو حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور ایسا لگتا ہے کہ یہ حکومت انہیں حل کرنے کی خواہشمند تھی۔” یاد رہے کہ انڈیا اور برطانیہ کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت کا آغاز جنوری 2022 میں ہوا تھا اور یہ معاہدہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد برطانیہ کی آزاد تجارتی پالیسی کے لیے امید کی علامت بن گیا تھا۔

برطانیہ جانے والوں میں پاکستانی سرفہرست، مزید کتنی درخواستیں زیرالتوا ہیں؟

England1

برطانیہ میں پناہ کی درخواستوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور 2024 میں ایک لاکھ آٹھ ہزار درخواستیں دائر کی گئیں، جو اب تک سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہیں  اور پاکستانی اس میں سہرفرست ہیں۔ پاکستان سے 10,542 افراد نے درخواست دی، اس کے بعد افغانستان 8,508، ایران 8,099، بنگلہ دیش 7,225 اور شام 6,680رہے۔ یہ پانچ ممالک مجموعی طور پر گزشتہ سال کی تمام پناہ کی درخواستوں کا 38 فیصد بنتے ہیں۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ ان خوشحال مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے دی جانے والی پناہ کی درخواستیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ برطانیہ ایک نرم ہدف بن چکا ہے۔ 2024 میں، امریکہ سے 99، اٹلی سے 22، پرتگال سے 20، فرانس سے 17 اور آسٹریلیا سے 10 افراد نے برطانیہ میں پناہ کی درخواست دی۔ علاوہ ازیں، تیل سے مالا مال ریاستوں جیسے کویت (1,936)، بحرین (203) اور سعودی عرب (202) کے شہریوں نے بھی درخواستیں دیں۔ سیاحتی جنت سمجھے جانے والے کیریبیئن ممالک، جیسے ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو (444)، سینٹ ونسنٹ اینڈ گریناڈائنز (102) اور اینٹیگوا و باربودا (16) سے بھی درخواستیں موصول ہوئیں۔ برطانوی ہوم آفس کے مطابق، پناہ کے اہل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ درخواست دہندہ اپنے ملک کو کسی ظلم و ستم یا خطرے کے باعث چھوڑ چکا ہو اور واپسی سے قاصر ہو۔ ہوم آفس ایسے افراد کی بنیادی شہریت یا ترجیحی شہریت کو مدنظر رکھتا ہے۔ اگر شہریت پر اختلاف ہو تو وہی شہریت درج کی جاتی ہے جو حکام کو درست معلوم ہو۔ پناہ گزین کا درجہ یا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تحفظ حاصل ہونے کے بعد ہی کسی فرد کو برطانیہ میں کام، تعلیم اور یونیورسل کریڈٹ جیسے فوائد حاصل کرنے کی اجازت ملتی ہے۔ 2024 میں امریکہ سے کی گئی ابتدائی درخواستوں میں سے 13 منظور ہوئیں اور 45 مسترد کر دی گئیں، یعنی منظوری کی شرح صرف 22 فیصد رہی۔ ان میں سے چار کو انسانی تحفظ کا درجہ اور نو کو پناہ گزین کا درجہ دیا گیا۔ اعداد و شمار کے مطابق، 2024 میں پناہ کی درخواست دینے والوں میں تین چوتھائی مرد تھے، اور ان میں دو تہائی کی عمر 30 سال سے کم تھی۔ صرف چار فیصد افراد 50 سال سے زائد عمر کے تھے۔