Follw Us on:

چین میں ایمرجنسی کی افواہیں: حقیقت یا پروپیگنڈا؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
کورونا وبا کے دوران مریض اسٹریچر پر لیٹا ہوا ہے۔ / گوگل

حالیہ دنوں میں چین میں وائرسز کے تیز پھیلاؤ سے متعلق سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبروں نے دنیا بھر میں تشویش پیدا کر دی ہے۔ سوشل میڈیا پر دعوے کیے جا رہے ہیں کہ چین نے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا ہے، ہسپتال مریضوں سے بھر چکے ہیں، ادویات کی قلت ہو گئی ہے اور صورتحال دن بدن خراب ہو رہی ہے۔ تاہم چین کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن (سی ڈی سی ) اور دیگر عالمی اداروں نے ان دعوؤں کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔

واضح رہے کہ فیس بک سمیت مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر 2 جنوری 2025 کو ایسی تصاویر شیئر کی گئیں جن میں ہسپتالوں میں رش اور مریضوں کی حالت زار دکھائی گئی۔ پوسٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ چار اقسام کے وائرسزچین میں بہت تیزی سے پھیل رہے ہیں، جن میں انفلوئنزا اے، ہیومن میٹا نیومو وائرس  (ایچ ایم پی وی) ، مائیکوپلاسما نیومونیا اور کووڈ-19 شامل ہیں۔ ان وائرسسز نے  چین کے بڑے شہروں بیجنگ، شنگھائی اور گوانگژو کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

ایک پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ان وائرسز کے باعث چین میں ادویات کی قلت پیدا ہو گئی ہے اور مردہ خانوں میں بھیڑ لگ چکی ہے۔ مزید کہا گیا کہ عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او) نے بھی وائرس کے تیز پھیلاؤ پر تشویش ظاہر کی ہے اور تمام ممالک کو اس نئی وبا کے خلاف تیاری کا مشورہ دیا ہے۔

ان وائرسسز نے  چین کے بڑے شہروں بیجنگ، شنگھائی اور گوانگژو کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ (فوٹو: گوگل)

چین کے سی ڈی سی نے 9 جنوری 2025 کو اپنی ہفتہ وار رپورٹ جاری کی، جس میں واضح کیا گیا کہ ملک میں وائرسز کی موجودگی معمول کی بات ہے اور یہ کسی نئی وبا کا اشارہ نہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ موسمی فلو، ایچ ایم پی وی اور مائیکوپلاسما نیومونیا کے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں، جبکہ کورونا وائرس کی شدت کم وبائی سطح پر موجود ہے۔

رپورٹ میں کسی بھی قسم کی ایمرجنسی کے اعلان یا خطرناک وبا کی موجودگی کی تردید کی گئی۔ چین کے حکام نے واضح کیا کہ سانس کے وائرسز کے پھیلاؤ پر مکمل کنٹرول ہے اور صورتحال معمول کے مطابق ہے۔

اگر وائرل تصاویر کی بات کی جائے تو فیس بک پر شیئر کی گئی تصاویر حقیقت میں 2022 اور 2023 کے دوران کووڈ-19 کی وبا کے عروج کی ہیں۔پہلی تصویر جس میں مریض آکسیجن سلنڈر کے ساتھ ہسپتال کی راہداری میں نظر آ رہے ہیں، وہ  4 جنوری 2023 کو روئٹرز کے ذریعے شائع کی گئی تھی۔ یہ تصویر شنگھائی کے ژونگشان ہسپتال کی ہے، جہاں کووڈ-19 کے کیسز میں اضافے کے دوران رش دیکھنے میں آیا تھا۔

دوسری تصویر جس میں ایک مریض اسٹریچر پر لیٹا ہوا ہے، اے ایف پی کے فوٹوگرافر نوئل سیلس نے دسمبر 2022 میں کھینچی تھی۔ یہ تصویر چانگ چن شہر کے ایک ہسپتال کی ہے، جہاں کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز کے باعث مشکلات پیدا ہو رہی تھیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ موسمی فلو، ایچ ایم پی وی اور مائیکوپلاسما نیومونیا کے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ (فوٹو: گوگل)

یہ تصاویر خاص طور پر فلپائن کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گمراہ کن دعوؤں کے ساتھ شیئر کی گئیں۔ ایک فیس بک پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ چین میں وائرسز کے خطرناک پھیلاؤ کے باعث ہسپتالوں میں مریضوں کی بھرمار ہے اور ایک نئی وبا دنیا کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

اس پوسٹ کے بعد کئی صارفین نے سخت ردعمل ظاہر کیا۔ ایک صارف نے لکھا کہ ہمیں چین کے شہریوں کو فلپائن آنے سے روک دینا چاہیے جب کہ دوسرے نے کہا کہ لاک ڈاؤن کا ایک نیا سیزن شروع ہونے والا ہے۔

فلپائن کے محکمہ صحت نے فوری طور پر ان افواہوں کی تردید کی۔ 3 جنوری کو فیس بک پر جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ نہ چین اور نہ ہی عالمی ادارہ صحت نے کسی قسم کی ایمرجنسی کی تصدیق کی ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ تصاویر اور دعوے بے بنیاد ہیں اور عوام کو چاہیے کہ وہ مستند ذرائع سے معلومات حاصل کریں۔

3 جنوری کو فیس بک پر جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ نہ چین اور نہ ہی عالمی ادارہ صحت نے کسی قسم کی ایمرجنسی کی تصدیق کی ہے۔(فوٹو:گوگل)

یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ ایسی گمراہ کن معلومات سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی ہوں۔ دسمبر 2022 اور جنوری 2023 میں جب چین نے اپنی زیرو کووڈ پالیسی ختم کی تھی تو کووڈ-19 کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوا تھا۔ اس وقت ہسپتالوں میں رش اور مردہ خانوں کی صورتحال سنگین ہو گئی تھی۔ لیکن حالیہ دنوں میں پھیلائی جانے والی تصاویر اسی دور کی ہیں، جنہیں اب گمراہ کن دعوؤں کے ساتھ شیئر کیا جا رہا ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے حالیہ رپورٹس میں واضح کیا ہے کہ چین میں وائرسز کا پھیلاؤ معمول کے مطابق ہے اور اس سے کسی نئی وبا کے خطرے کی نشاندہی نہیں ہوتی۔ موسمی فلو اور دیگر سانس کی بیماریاں موسم کی تبدیلی کے ساتھ دنیا کے مختلف حصوں میں عام ہیں۔

عوام کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر پھیلنے والی گمراہ کن معلومات پر فوری یقین نہ کریں۔ ایسی خبریں اکثر بغیر تحقیق کے شیئر کی جاتی ہیں اور عوام میں بلاوجہ خوف پیدا کرتی ہیں۔ مستند معلومات کے لیے حکومتی اداروں اور عالمی صحت کے اداروں پر اعتماد کریں۔ چین میں ایمرجنسی کے دعوے سراسر بے بنیاد ہیں اور ان کا مقصد صرف سنسنی پھیلانا ہے۔ پرانی تصاویر کا گمراہ کن استعمال اور غیر مصدقہ دعوے نہ صرف عوام میں الجھن پیدا کرتے ہیں بلکہ صحت کے شعبے میں غلط فہمیوں کو بھی جنم دیتے ہیں۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس