
کبھی کبھی لفظوں کے بدن پر ایسی وردی پہنا دی جاتی ہے کہ وہ’ نعرہ ‘بن جاتے ہیں، وہی نعرہ جو قوموں کو جنگ میں دھکیل سکتا ہے یا پھر کسی ایک شخص کے ماتھے پر فاتح کا تمغہ چسپاں کر سکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب
چند ہفتے قبل، ہندوستانی سنیما نے فلم “اسٹیٹ آف ایمرجنسی” پیش کی، جو بھارت کی انجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی زندگی اور ان کے سیاسی کیریئر میں ان کی ذاتی اور خاندانی زندگی کا ایک پہلو بیان کرتی ہے۔ فلم میں ڈرامے کی شدت اور اندرا گاندھی اور ان
ماؤں کا دن منانے کا آغاز ایک امریکی خاتون اینا ہاروس کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ اینا ہاروس چاہتی تھیں کہ اس دن کو ایک مقدس دن کے طور پر سمجھا اور منایا جائے۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں دس مئی 1914 کو امریکا کے صدر ووڈرو ولسن نے
دلی سرکار کی ہٹ دھرمی اور غیر ذمہ دارانہ رویے نے ایک بار پھر جنوبی ایشیا کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ پلوامہ کے سائے سے نکلنے سے انکار، پہلگام کے افسوسناک واقعے پر غیر سنجیدہ ردعمل اور اس کے بعد سرحد پار کارروائی کی جلد بازی اس
سیز فائر تو ہوگیا مگر انڈیا اور پاکستان کے درمیان اس جنگ کے بعد ایک نیا خاکہ بھی اب تشکیل پائے گا۔ پاکستان کے لیے جس میں شاندار مواقع ہوسکتے ہیں۔ انڈیا ایک نئے پاگل پن کے ساتھ اپنی صفیں درست کرنے کی کوشش کرے گا، جس سے یہ خطہ
چاندنی راتوں میں جب بوسنیا کی پہاڑیاں خاموش ہو جاتی ہیں، تب زمین کی تہہ سے وہ سسکیاں اٹھتی ہیں جنہیں انسانوں کی دنیا نے دفن کر دیا تھا۔۔۔۔۔وہ آہیں، وہ چیخیں، وہ التجائیں جو جولائی 1995 میں فضا میں بلند ہوئیں، آج بھی پہاڑوں سے ٹکرا کر لوٹتی ہیں۔۔۔۔۔
14 اپریل سال 1848 گورے انجینئیر نے پہاڑوں کی کھدائی کا کام شروع کروایا۔ یہ دنیا کا واحد انجنئیر تھا جو پہاڑی کی چوٹی پہ چڑھ کر کام کے سال، دن اور ٹائم کا دعویٰ کرتا تھا اور اس کا ہر دعویٰ سچ ثابت ہو جاتا تھا۔ ایسا ہی دعویٰ
دنیا کے مختلف خطوں کو دہشت گردی اور جنگی صورتحال کا سامنا ہے۔ ایک طرف فلسطینی عوام کی نسل کشی کی جا رہی ہے دوسری طرف اس آگ کو مشرقِ وسطیٰ میں بھی پھیلایادیا گیا ہے۔ جس کی مثال امریکہ کی طرف سے یمن میں کی گئی تباہی ہے جس
’ہم محنت کرتے کرتے تھک گئے مگر حالات نہیں بدل رہے، اب حالت یہ ہے کہ قرضوں میں ڈوب چکے ہیں، فصل ہمارے لیے امید ہوتی ہے کہ بچوں کی شادی کریں گے مگر حالت یہ ہے کہ بچے بوڑھے ہورہے ہیں‘ آنکھوں میں آنسو لیے خانیوال کا اللہ دتہ
وسیم بھٹی صاحب لگتا ہے کسی نے دھوکے سے آپ کو گئو متر پلادیا ہے یا آپ نے خود جوش عقیدت میں نوش فرمالیا ہے جس کے اثرات ظاہر ہورہے ہیں۔ جس ہندوتوا اور سومناتھ مندر کی آپ بات کررہے ہیں یہ آریاؤں کا تخلیق کردہ مذہب تھا اور آریا