
ہیلو، میں غلام شبیر ہوں۔ کون غلام شبیر؟ آپ کا ہم جماعت، میٹرک میں اکٹھے پڑھتے تھے۔ اچھا اچھا مجھے یاد آگیا، کس حال میں ہو۔ کیسے یاد کیا؟ روتے ہوئے بولا، بھائی ہمارے گھرڈوب چکے ہیں، چار مکانات گر چکے ہیں اور ہم اس وقت جڑالہ سٹیشن پر کھلے
قدرتی آفات کا ایک سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ یہ صرف وقتی تباہی نہیں لاتیں بلکہ ان کے اثرات برسوں تک قائم رہتے ہیں۔ سیلاب پانی کے بہاؤ کے ساتھ گھروں، کھیتوں اور سڑکوں کو تباہ کرتا ہے لیکن اس کے بعد جو مشکلات سامنے آتی ہیں وہ
کچھ اچھا کرنا ہے تو ضرور کریں مگر براہ کرم سیلاب متاثرہ کسان سے مذاق مت کریں،اپنے فوٹوسیشن کے چکر میں،اپنی ٹک ٹاک کے چکر میں،اپنے ویوز کے چکر میں اور سوشل میڈیا پر اپنی واہ واہ کے چکر میں لاچارکسانوں سےمذاق مت کریں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جب
یہ کیسا موسم ہے کہ بارش کا پہلا قطرہ خوشی دیتا ہے اور پھر اگلے ہی لمحے وہی پانی زندگیوں کو ڈبو دیتا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے میدان آج بھیگے نہیں، ڈوبے ہوئے ہیں۔ کچے مکانوں کی دیواریں گر چکی ہیں، کھڑی فصلیں زمین میں دفن ہو چکی
صدی کا تباہ کن سیلاب کشمیر، گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبوں کو روندتا ہوا بحیرہ عرب کی جانب بڑھ رہا ہے، لاکھوں افراد کو بے گھر کرنے والا بے رحم پانی بڑے بڑے جاگیرداروں، رئیسوں، وقت کے فرعونوں کی طاقت کا مذاق اڑاتا چھوٹی چھوٹی ”جھگیوں“ والوں کو بھی ساتھ لے
اللہ رب العزت کا شکر ہے کہ اس نے ایسے لوگ پیدا کیے جو اپنی زندگی کے ہر لمحے کو دوسروں کی بھلائی کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ وہ لوگ جو اپنی ذات کی فکر چھوڑ کر انسانیت کی خدمت میں جیتے ہیں،معاشرے میں امید اور روشنی کے چراغ
ویسے تو ملک بھر میں طوفانی بارشوں اور سیلاب سے تباہی ہورہی ہیں مگر دریائے چناب میں تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب نے کسانوں کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، سیالکوٹ، گجرات، وزیرآباد، منڈی بہاؤالدین، حافظ آباد، پنڈی بھٹیاں، جھنگ، چنیوٹ اور دیگر علاقے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
ہر قوم اور ہر تحریک کی تاریخ میں کچھ ایسے دن آتے ہیں جو سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہی میں سے ایک دن یومِ تاسیسِ جماعتِ اسلامی ہے، جو برصغیر کی سیاسی، سماجی اور فکری تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہ دن نہ صرف ایک تنظیم
تعلیم ہر معاشرے کی ترقی کی بنیاد ہے۔ مگر ہمارے ہاں تعلیم کا مقصد علم و آگاہی اور کردار سازی کے بجائے صرف نمبر حاصل کرنے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ جب بھی میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کے نتائج آتے ہیں تو پورے ملک میں ایک عجیب سی فضا
کراچی, وہ شہر جو پاکستان کی سانسوں کی ڈوری ہے۔ جس کی بندرگاہ پر دنیا کے جہاز لنگر انداز ہوتے ہیں، جس کی فیکٹریوں سے انجن کی طرح ملک کی مشینری چلتی ہے، جہاں کے مزدور دن رات اپنا خون پسینہ بہاتے ہیں تاکہ اسلام آباد کی روشنیاں کبھی مدھم