Follw Us on:

پاکستان، انڈیا کشیدگی: ’اے آئی ہتھیاروں کے بڑھتے استعمال سے جنگ کی نوعیت بدل رہی ہے‘

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Ai wapons
اے آئی خودمختار ہتھیار جنگ کی نوعیت میں انقلابی تبدیلی لا رہے ہیں، ایئر کمانڈر (ر) زاہد الحسن( فائل فوٹو)

ریٹائرڈ ایئر ایئر کموڈور زاہد الحسن کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت( اے آئی )پر مبنی مہلک خودمختار ہتھیاروں کے نظام دنیا بھر میں جنگ کی نوعیت کو تیزی سے تبدیل کر رہے ہیں، جس سے نہ صرف فیصلہ سازی میں مشینوں کا کردار بڑھ رہا ہے بلکہ انسانی جانوں کو لاحق خطرات میں بھی بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔

زائد الحسن کا کہنا ہے کہ اگرچہ جنگ کی بنیادی نوعیت جو تشدد، موقع اور عقلیت پر مبنی ہے  صدیوں سے تبدیل نہیں ہوئی، تاہم جنگ کا کردار وقت، ٹیکنالوجی، جیو پولیٹکس اور سماجی اصولوں کے اثرات سے مسلسل تبدیل ہو رہا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ اے آئی پر مبنی ہتھیار اب میدان جنگ میں خودمختار طور پر اہداف کی شناخت، لاک اور تباہی کی صلاحیت رکھتے ہیں، جو کہ روایتی انسانی کنٹرول کو کمزور کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ ان خودمختار نظاموں کی بے قابو ترقی نہ صرف اخلاقی سوالات کو جنم دے رہی ہے بلکہ عالمی سطح پر بےقابو جنگوں کے خدشات کو بھی بڑھا رہی ہے۔

زاہد الحسن نے اقوام متحدہ اور عالمی تحقیقی اداروں کے حوالوں سے کہا کہ کئی ممالک اور ان کے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے اے آئی پر مبنی ہتھیاری نظاموں میں سبقت حاصل کرنے کی دوڑ میں شریک ہیں۔ ان کے مطابق 2017 میں اقوام متحدہ نے ایسی ہی پیشرفت کی نشاندہی کی تھی، جو بالآخر بےقابو جنگ کے حقیقی خطرے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

انہوں نے غزہ کی حالیہ جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی دفاعی افواج (اے ڈی ایف)نے اے آئی پر مبنی ٹارگٹنگ سسٹم کا استعمال کرتے ہوئے دسمبر 2023 میں ایک ہی دن میں 100 سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں کے نتیجے میں 360,000 عمارتیں تباہ ہوئیں اور 50ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔ یہ اقدام بین الاقوامی قوانین، خاص طور پر 1949 کے جنیوا کنونشن، کی کھلی خلاف ورزی تصور کیا جا رہا ہے۔

ریٹائرڈ ایئر ایئر کموڈورزاہد الحسن نے کہاکہ امریکہ، چین، اور دیگر ٹیکنالوجی سے مالامال اقوام اے آئی کو ایک اسٹریٹجک ٹیکنالوجی قرار دے کر عسکری برتری کے لیے بھرپور سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ چین نے 2030 تک اے آئی میں عالمی رہنما بننے کا ہدف مقرر کیا ہے، جب کہ امریکہ نے تیسری آفسیٹ حکمت عملیکے تحت خودمختار ہتھیاروں اور ڈرون سوارمز کی تیاری کا منصوبہ شروع کیا ہے۔

زاہد الحسن کے مطابق یہ پیشرفت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ جنگ کے میدان میں انسانی کردار محدود ہوتا جا رہا ہے اور مشینی خودمختاری کی بنیاد پر جنگی فیصلے کیے جا رہے ہیں، جو عالمی امن و استحکام کے لیے انتہائی خطرناک رجحان ہے۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس