امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ کا دورہ سوشل میڈیا صارفین کے لیے اس وقت دلچسپی کا باعث بنا جب وہ سعودی عرب ، قطر اور عرب امارات کے شاہی محلوں میں پہنچے، تینوں ممالک میں ٹرمپ کا روایتی انداز میں استقبال کیا گیا۔
متحدہ عرب امارات میں ان کے استقبال کا ایک ایسا منظر سوشل میڈیا پر وائرل ہورہا ہے جس نے عالمی سطح پر بحث چھیڑ دی ہے۔
اس واقعے میں سفید لباس پہنے مقامی لڑکیاں اپنے لمبے بال لہراتے ہوئے ایک مخصوص رقص کرتی نظر آئیں اور ان کے بیچ سے گزرتے ہوئے ٹرمپ کو خوش آمدید کہا گیا۔
جہاں اس منظر کو روایتی ثقافت کا مظاہرہ قرار دیا گیا، وہیں سوشل میڈیا پر تنقید کا طوفان بھی اٹھ کھڑا ہوا۔
یہ مخصوص رقص دراصل ‘العیالہ’ ثقافتی مظاہرے کا حصہ ہے جو کہ متحدہ عرب امارات اور شمال مغربی عمان کی قدیم بدو تہذیب سے جڑا ہوا ہے۔
العیالہ ایک روایتی جنگی پرفارمنس ہے جس میں مرد فنکار بانس کی چھڑیوں کے ساتھ قطاروں میں کھڑے ہو کر ڈف کی دھن پر رقص کرتے اور گیت گاتے ہیں۔
اس کے بیچوں بیچ موسیقار ڈھول، ڈف اور تھالیاں بجاتے ہیں۔
اس روایت میں خواتین کا حصہ ‘النشاعت’ کہلاتا ہے جس میں وہ اپنے لمبے بالوں کو ایک جانب سے دوسری جانب لہراتی ہیں۔ ماضی میں یہ رقص مردوں کے تحفظ کے بدلے اظہار اعتماد کا علامتی مظہر تھا۔
تاہم، جب اس روایتی رقص کو ٹرمپ کے استقبال کے موقع پر استعمال کیا گیا تو سوشل میڈیا پر سوالات اٹھنے لگے۔

پاکستان سمیت متعدد اسلامی ممالک کے صارفین نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ “ایک اسلامی ملک میں اس طرح کا منظر نا مناسب ہے”۔
ایک صارف نے کہا “یہ بدقسمتی ہے کہ روایات کی آڑ میں اس قسم کی پرفارمنس دی جا رہی ہے”۔
دوسری جانب کچھ تجزیہ کاروں اور عرب ثقافت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پرفارمنس درحقیقت ایک تاریخی اور ثقافتی عمل ہے جسے جدید دور میں بھی زندہ رکھا جا رہا ہے۔

یونیسکو نے بھی العیالہ کو اماراتی اور عمانی ثقافت کا قیمتی اثاثہ قرار دیا ہے۔
اماراتی محکمہ ثقافت و سیاحت کے مطابق العیالہ کو ہر عمر، جنس اور طبقے کے افراد پرفارم کر سکتے ہیں اور اس کا مقصد صرف تفریح نہیں بلکہ ورثے کو محفوظ رکھنا بھی ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک اور تنقید سامنے آئی کہ “جب مغربی خواتین رہنما ان ممالک کا دورہ کرتی ہیں تو ان سے حجاب پہننے کی توقع کی جاتی ہے لیکن ایک مغربی مرد رہنما کے لیے اماراتی خواتین بغیر سر ڈھانپے رقص کر رہی ہیں”۔
اشوک سوائن نامی صارف نے کہا “یہ دوہرا معیار ہے جو خلیجی ممالک مغرب کے لیے اپناتے ہیں”۔

دوسری طرف کچھ صارفین نے اس تنقید کو لاعلمی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ “یہ رقص ایک ثقافتی روایت ہے نہ کہ کوئی فیشن شو یا مغربی طرز کی پرفارمنس”۔
ان کے مطابق اس تقریب کا مقصد عرب روایات کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنا تھا اور متحدہ عرب امارات اس حوالے سے کئی سالوں سے سرگرم ہے۔
متحدہ عرب امارات میں یہ روایتی رقص عام طور پر شادیوں، قومی تقریبات اور تہواروں کے موقع پر پیش کیا جاتا ہے۔ مگر جب یہی روایت عالمی شخصیات کے استقبال میں شامل ہو تو اس کا مفہوم اور تاثر مختلف زاویے اختیار کر لیتا ہے۔
مزید پڑھیں: انڈیا کی پاکستان کو ایک بار پھر دھمکیاں: کیا ’آپریشن سندور‘ ابھی ختم نہیں ہوا؟
