Follw Us on:

زیرو مائلج گاڑیوں کی فروخت پر کمپنی مالکان کی طلبی: کیا چین اپنی’آٹو پالیسی‘ بدل رہا ہے؟ 

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Cars

چین کی وزارتِ کامرس نے ملک کی مشہور گاڑی ساز کمپنیوں جیسے بی وائی ڈی اور ڈونگ فینگ موٹر کو ایک خاص اجلاس کے لیے منگل کی دوپہر کو بلایا ہے۔ اس اجلاس میں ان گاڑیوں پر بات ہوئی جو کبھی استعمال نہیں ہوئیں، لیکن پھر بھی پرانی گاڑیوں (یوزڈ کارز) کے طور پر بیچی جا رہی ہیں۔

یہ قدم اُس وقت اُٹھایا گیا ہے جب گریٹ وال موٹرز کے چیئرمین وی جیانجن نے پچھلے ہفتے ایک انٹرویو میں کہا کہ چین میں ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے جسے انہوں نے “زیرو مائلیج سیکنڈ ہینڈ کارز” کہا۔ ان کے مطابق، ایسی گاڑیاں جو رجسٹر ہو چکی ہیں اور جن پر نمبر پلیٹ لگ چکی ہے، یعنی کاغذوں میں وہ “فروخت شدہ” مانی جاتی ہیں، لیکن حقیقت میں وہ کبھی سڑک پر نہیں چلی ہوتیں۔

وی جیانجن نے بتایا کہ ایسی گاڑیاں بڑی تعداد میں آن لائن پرانی گاڑیوں کی مارکیٹ میں بیچی جا رہی ہیں، اور اندازہ ہے کہ کم از کم 3,000 سے 4,000 دکاندار اس طرح کی گاڑیاں بیچ رہے ہیں۔

Us cars

ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ کمپنیاں اور گاڑیوں کے ڈیلر یہ طریقہ اس لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ اپنی نئی گاڑیوں کی فروخت کا ہدف پورا کر سکیں اور یہ ظاہر ہو کہ گاڑیاں بک رہی ہیں، حالانکہ وہ اصل میں اسٹاک میں رہتی ہیں۔

اس اجلاس میں جن دوسرے اداروں کو بلایا گیا ہے اُن میں چائنا ایسوسی ایشن آف آٹوموبائل مینوفیکچررز، چائنا آٹوموبائل ڈیلرز ایسوسی ایشن، اور کچھ بڑی آن لائن کار خرید و فروخت کی ویب سائٹس شامل ہیں۔

ابھی تک وزارتِ کامرس، بی وائی ڈی، ڈونگ فینگ موٹر اور (سی اے ڈی اے) نے اس پر کوئی جواب نہیں دیا، جبکہ گریٹ وال اور (سی اے اے ایم) نے تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
جیسے ہی یہ خبر آئی، چینی گاڑیوں کی کمپنیوں کے شیئرز نیچے گرنے لگے۔ بی وائی ڈی اور لیپ موٹر کے شیئرز میں تقریباً 3.1 فیصد کمی ہوئی، جبکہ ہانگ کانگ کے گاڑیوں کے شیئرز کا انڈیکس بھی 2 فیصد سے زیادہ نیچے چلا گیا۔

یہ اجلاس اس وقت ہوا جب چینی کار انڈسٹری پہلے ہی سخت مسابقتی قیمتوں اور زائد اسٹاک کے دباؤ کا شکار ہے۔ ماہرین کے مطابق، اگر “زیرو مائلیج” سیکنڈ ہینڈ کارز کے رجحان کو روکا نہ گیا تو اس سے مارکیٹ کی شفافیت، صارفین کا اعتماد اور مجموعی آٹو سیکٹر متاثر ہو سکتا ہے۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس