برطانوی یہودی اخبار جیوش کرانیکل نے رپورٹ کیا ہے کہ ایران کے آخری شاہ کی پوتی ایمان پہلوی کی ایک یہودی نژاد امریکی کاروباری شخصیت بریڈلے شرمین سے شادی ہوگئی ہے جسے سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بنایا جا رہا ہے۔
شادی کی تقریب نیویارک میں سول میرج کے بعد پیرس میں منعقد ہوئی، جس میں ایمان کے والد اور جلاوطن ایرانی ولی عہد شہزادہ رضا پہلوی بھی شریک ہوئے۔
یہ شادی نہ صرف ایک نجی تقریب تھی بلکہ سیاسی اور علامتی اہمیت بھی رکھتی تھی۔ مختلف حلقوں، خصوصاً بادشاہت کے حامیوں اور جلاوطن ایرانی کمیونٹی نے اس تقریب کو ایران کی موجودہ اسلامی حکومت کے خلاف ایک خاموش احتجاج اور بین المذاہب ہم آہنگی کی علامت کے طور پر دیکھا۔ تقریب میں یہودی روایتی رقص “ہورا” کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر نمایاں رہی۔
It’s another historical Royal wedding between a Persian Royal Family member with a Jewish person.
— 𝗡𝗶𝗼𝗵 𝗕𝗲𝗿𝗴 ♛ ✡︎ (@NiohBerg) June 9, 2025
While Iranians both inside and outside Iran are celebrating this special and memorable occasion, the mullahs are angry.
Princess Iman Pahlavi ❤️ Bradley Sherman
Mazel tov 🎉🩵👑 pic.twitter.com/MQjEM7zEcX
ایرانی یہودی بلاگر نیوہ برگ نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ یہ شادی اسلامی جمہوریہ کے لیے ناپسندیدہ موقع تھی اور اس نے حکومت کی ناراضی کو نمایاں کیا۔ اسی طرح کینیڈین-ایرانی سیاستدان گولڈی غماری نے اس شادی کو ایران کی بادشاہت کے نظریے کی مضبوطی اور مستقبل کی امید سے تعبیر کیا۔
ایمان پہلوی کے والد رضا پہلوی، جو کہ شاہِ ایران کے بیٹے اور ایران کے جلاوطن ولی عہد ہیں، ایران کی موجودہ حکومت کے سخت ناقد ہیں۔ وہ بارہا بین الاقوامی برادری سے اپیل کر چکے ہیں کہ وہ ایک ایسا ایران تصور کریں جو جوہری بلیک میلنگ، پراکسی جنگوں، انتہا پسندی اور دہشت گردی سے پاک ہو۔
This wedding photo of Princess Iman Pahlavi with her father HRH @PahlaviReza symbolizes hope, legacy, and over 2500 years of Iranian history.
— Goldie Ghamari, JD | گلسا قمری (@gghamari) June 8, 2025
Despite all efforts by the Islamic Republic, the Iranian Royal family is thriving and is more beloved by Iranians than ever.#جاویدشاه pic.twitter.com/XuIfhv6OqA
اپنے نوروز کے حالیہ پیغام میں رضا پہلوی نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ کے بغیر ایک نیا ایران اب محض خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت بن رہا ہے، جو ایرانی عوام خود تخلیق کر رہے ہیں۔
یہ شادی اور اس کے گرد پیدا ہونے والی علامتی و سیاسی بحث، ایران کے اندر اور بیرون ملک جمہوریت اور بادشاہت کے حامیوں کے بیچ جاری نظریاتی کشمکش کو مزید اجاگر کرتی ہے، جو اسلامی جمہوریہ کے مستقبل پر مسلسل سوالات اٹھا رہی ہے۔