روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کو عالمی سطح پر اپنا سفارتی کردار دوبارہ اجاگر کرنے کا موقع قرار دیا ہے۔ پیوٹن کی جانب سے ثالثی کی پیشکش ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب روس یوکرین میں جاری تین سالہ جنگ کے باعث یورپی یونین اور مغربی ممالک میں سفارتی تنہائی کا شکار ہے۔
ڈان کی رپورٹ کے مطابق روسی صدر پیوٹن نے حالیہ دنوں میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اور ایرانی صدر مسعود پژشکیان سے رابطہ کیا اور اپنے ثالثی کردار کی پیشکش کی ہے۔
کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس سے وابستہ تجزیہ کار نکول گراژوسکی نے کہا کہ “ماسکو خود کو ناگزیر ثالث کے طور پر پیش کر کے یورپ میں اپنی تنہائی کے باوجود سفارتی اہمیت دوبارہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ روس تہران میں حکومت کی تبدیلی نہیں چاہتا، خاص طور پر اگر اس کے نتیجے میں کوئی مغرب نواز حکومت برسراقتدار آئے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ روس اور ایران کے درمیان رواں سال جنوری میں ایک اسٹریٹجک شراکت داری کا معاہدہ ہوا تھا جس کا مقصد دفاعی تعاون کو وسعت دینا ہے۔ یوکرین اور اس کے اتحادیوں کا الزام ہے کہ ایران روس کو ڈرونز اور قلیل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل فراہم کر رہا ہے۔
فرانسیسی ادارے انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز سے وابستہ تاتیانا کاستویوا نے ڈان کو بتایا کہ شام میں حکومت کی تبدیلی نے روس کے اثر و رسوخ کو کم کیا، اور اب ماسکو مشرق وسطیٰ میں اپنی پوزیشن بحال کرنا چاہتا ہے۔” ان کے مطابق، کریمیا کے الحاق کے بعد روس نے شام میں بشار الاسد کی حمایت اور 2015 کے ایران جوہری معاہدے کے ذریعے عالمی سطح پر دوبارہ خود کو قابل ذکر قوت کے طور پر پیش کیا تھا۔
روس کی ایران سے قربت اب اس کے ثالثی کردار کو ناقابل قبول بنا رہی ہے۔ روسی تجزیہ کار کونستانتین کالاچوف کے مطابق، “جب ایک ثالث کسی فریق کا اتحادی ہو اور اس کے ساتھ اسٹریٹجک معاہدہ موجود ہو، تو اس پر یورپ یا اسرائیل میں اعتماد نہیں کیا جا سکتا، ایک ثالث کو غیر جانب دار ہونا چاہیے۔”

فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے بھی ڈان سے بات کرتے ہوئے پیوٹن کی ثالثی کی تجویز پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا، “میں نہیں سمجھتا کہ روس، جو اب خود ایک بھرپور جنگ میں مصروف ہے اور کئی سالوں سے اقوام متحدہ کے چارٹر کا احترام نہیں کر رہا، ثالثی کر سکتا ہے۔”
واشنگٹن انسٹیٹیوٹ سے وابستہ تجزیہ کار آنا بورشچوسکایا نے ڈان کو بتایا، “ایسے وقت میں جب روس یورپی سرزمین پر دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑی جارحانہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہے، اس کا ثالثی کردار اسے ایک بڑی طاقت کے طور پر تسلیم کروانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔”
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے بتایا کہ ماسکو نے تاحال اسرائیل سے ثالثی کی پیشکش پر کوئی باضابطہ ردعمل نہیں سنا۔ ڈان کے مطابق، پیوٹن کی ثالثی کی پیشکش صرف مشرق وسطیٰ تک محدود نہیں بلکہ یہ امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ تعلقات کو نئے تناظر میں پیش کرنے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ بیان میں پیوٹن کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا، “اس نے واقعی ثالثی کی پیشکش کی، میں نے کہا کہ، پہلے اپنے ملک میں ثالثی کرو۔ میں نے کہا، ولادیمیر، پہلے روس کا مسئلہ حل کرو، پھر یہ دیکھ لینا۔”