چین کی آٹو انڈسٹری کو شدید بحران کا سامنا ہے، جو دنیا بھر کی کار ساز کمپنیوں اور ان سے جڑی کیمیکل مارکیٹ کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
چین دنیا کی سب سے بڑی آٹو مارکیٹ بن چکا ہے اور مغربی آٹو کمپنیوں کے منافع کا اہم ذریعہ بھی رہا ہے، مگر اب اس کا مستقبل غیر یقینی نظر آ رہا ہے۔
چینی حکومت نے الیکٹرک گاڑیوں کو فروغ دینے کے لیے گزشتہ برسوں میں 230 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی، مگر اس کے باوجود آٹو سیکٹر میں مقابلہ اس قدر شدید ہے کہ 169 کمپنیوں میں سے آدھی سے زیادہ کا مارکیٹ شیئر 0.1 فیصد سے بھی کم ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال امریکا کی آٹو انڈسٹری کے ابتدائی دور جیسی ہے، جب سینکڑوں کمپنیاں آخرکار چند بڑی فرموں میں ضم ہو گئی تھیں۔

گریٹ وال موٹرز کے چیئرمین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آٹو انڈسٹری بھی چین کی پراپرٹی مارکیٹ کی طرح بحران کا شکار ہو سکتی ہے، جیسا کہ ایورگرینڈ گروپ کے ساتھ ہوا، جس پر 300 ارب ڈالر سے زائد کا قرض تھا۔
غیر ملکی آٹو کمپنیوں کو بھی شدید نقصان ہو رہا ہے۔ ان کا چین کی آٹو مارکیٹ میں حصہ 2019 میں 61 فیصد تھا، جو گزشتہ سال کم ہو کر صرف 35 فیصد رہ گیا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں الیکٹرک گاڑیاں: ماحولیاتی آلودگی کا حل تو ہیں مگر عمل کیسے ہو؟
جرمن کمپنیوں کا حصہ 24 فیصد سے گھٹ کر 15 فیصد، جاپانی کمپنیوں کا 21 سے 11 فیصد، جبکہ امریکی اور کورین کمپنیوں کا حصہ سنگل ہندسے تک محدود ہو گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ کمپنیاں تیزی سے بدلتی صورتحال کا ادراک کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ دنیا ایک بار پھر ٹیکنالوجی کی بڑی تبدیلی سے گزر رہی ہے، جیسا کہ سو سال قبل ہوا تھا جب گھوڑوں کی جگہ پٹرول انجن والی گاڑیوں نے لی۔
اب پٹرول گاڑیوں کی جگہ الیکٹرک وہیکل لے رہی ہیں، اور آٹو سیکٹر میں سافٹ ویئر ٹیکنالوجی کا کردار بڑھتا جا رہا ہے۔

یہ تبدیلی ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب دنیا تجارتی جنگوں، ٹیرف میں اضافے، اور عالمی سطح پر معاشی غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہی ہے۔ چین میں اس وقت گاڑیوں کی فروخت کا 55 فیصد EVs پر مشتمل ہے اور اندازہ ہے کہ 2030 تک یہ شرح 100 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔
ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر چین کی آٹو انڈسٹری کا بحران شدت اختیار کرتا ہے تو یہ ملک کی معیشت، روزگار اور عالمی تجارت پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔ اس کے ساتھ روبوٹک ٹیکنالوجی اور سستی نقل و حرکت کے نئے طریقے تیزی سے مقبول ہو سکتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بحران عالمی سطح پر 2008 کی طرز کی کساد بازاری میں بھی بدل سکتا ہے، کیونکہ چین کا معاشی ماڈل بھی 2008 کے بعد امریکا کی سب پرائم ہاؤسنگ مارکیٹ جیسا رہا ہے، جو بالآخر شدید بحران کا باعث بنی تھی۔
اس صورتحال میں ماہرین کا مشورہ ہے کہ کمپنیاں صرف انتظار کرنے کے بجائے فوری طور پر بدلتے حالات کے مطابق اپنی حکمت عملی تیار کریں، ورنہ انہیں بڑے نقصانات کا سامنا ہو سکتا ہے۔