کرکٹ، کرکٹرز اور سوشل میڈیا کا آپس میں گہرا تعلق بن چکا ہے، سوشل میڈیا پر آئے روز کرکٹ اور کرکٹرز کے حوالے سے کوئی نہ کوئی نئی بحث چھڑ جاتی ہے، جس میں دنیا بھر سے صارفین شامل ہوتے ہیں۔
کبھی کھلاڑیوں کی فٹنس زیرِ بحث آتی ہے تو کبھی ان کی کارکردگی اور اکثر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کون سا کرکٹر کس سے بہتر ہے۔ کبھی بابر اور ویراٹ تو کبھی شاہین اور بمرا کا مقابلہ ہوتا ہے، ان بحثوں میں مقابلے بازی، طنز اور تنقید عام ہیں۔
حال ہی میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ریڈیٹ پر ایک صارف نے ایک دلچسپ پوسٹ کی، جس میں اس نے کہا کہ اگر بین اسٹوکس پاکستانی ہوتے تو ہم ان کا مستقبل کب کا تباہ کر چکے ہوتے۔
اس ایک جملے نے نیچے تبصروں کا طوفان برپا کر دیا۔ ایک صارف نے بات کو یوں آگے بڑھایا کہ پاکستانی کھلاڑیوں کو برا بھلا کہنے سے پہلے یہ یاد رکھیں کہ آج کے دور کا کوئی بھی انٹرنیشنل کرکٹر چاہے وہ آرچر ہو، اسٹوکس، ووکس، جڈیجہ، بُمرا، پنت یا سراج ، اگر یہ سب پی سی بی کے سسٹم کے تحت کھیل رہے ہوتے تو یا تو برباد ہو چکے ہوتے، یا شائقین کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہو چکے ہوتے۔ مسئلہ ٹیلنٹ کا نہیں، سسٹم کا ہے۔ سفید گیند کے چند اینکرز کے سوا، آج کا کوئی کامیاب کرکٹر پاکستان جیسے ماحول میں نہیں ٹک سکتا۔
اسی تبصرے میں دلچسپ اضافہ یہ بھی تھا کہ صرف کے ایل راہول ہی شاید پاکستان میں چل سکتا تھا۔ ایک اور صارف نے فوراً سوال اٹھایاکہ صرف کے ایل راہول کیوں؟ جواب ملا کہ کیونکہ وہ ٹیم میں رہنے کے لیے کم از کم کچھ تو کارکردگی دکھاتا ہے۔

یہ بحث یہیں تک نہیں رکی بلکہ مزید آگے بڑھی۔ ایک صارف نے کہاکہ بین اسٹوکس اگر پاکستان میں ہوتے تو دو خراب ٹیسٹ یا ایک سیریز کے بعد ڈراپ کر دیے جاتے اور پھر دس سال تک کوئی ان کا نام بھی نہ لیتا۔ اگر کبھی 35 سال کی عمر میں واپس آتے، تو ایک سیریز اچھی کھیلنے کے بعد پھر غائب کر دیے جاتے اور تو اور شائقین ان کی کارکردگی سے پہلے ان کے وجود سے چڑنے لگتے۔ قسم سے، شائقین پی سی بی سے بھی دس گنا زیادہ ظالم ہیں۔
اگر ماضی میں ہونے والے واقعات کو دیکھیں تو یہ بات کسی حد تک درست بھی لگتی ہے۔ پاکستانی شائقین ایک لمحے میں کھلاڑی کو آسمان پر بٹھا دیتے ہیں اور اگلے ہی لمحے زمین پر دے مارتے ہیں۔ حسن علی کی مثال لے لیں۔ ایک کیچ کیا ڈراپ ہوا، اس کا کیریئر ہی ڈراپ ہو گیا۔
ان کے برعکس 2016 کے فائنل میں بین اسٹوکس کو چار چھکے لگے، پھر بھی ٹیم نے اس پر اعتماد قائم رکھا اور نتیجہ یہ نکلا کہ اسی اسٹوکس نے انگلینڈ کو 2019 اور 2022 کے بڑے ٹائٹلز جتوائے۔
اسی تناظر میں ایک اور صارف نے لکھا کہ ہم تو بین اسٹوکس کو 2016 کے فائنل کے بعد ہی چھوڑ چکے ہوتے۔ یہاں کے شائقین اسے اتنی نفرت بھیجتے کہ وہ کھیل ہی چھوڑ دیتا۔ حسن علی نے ایک کیچ چھوڑا اور دیکھیں کیا کچھ سننا پڑا اسے۔ آپ صرف تصور کریں کہ کوئی پاکستانی کھلاڑی ورلڈ کپ کے آخری اوور میں 4 چھکے کھا جائے، یہاں تو شائقین حد پار کر جاتے ہیں۔
ایک اور صارف نے حسن علی کی کارکردگی پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا کہ حسن علی 2017 کے بعد وہ بولر نہیں رہے جو پہلے تھے۔ وہ محنت نہیں کر سکے جو عالمی معیار پر پہنچنے کے لیے ضروری تھی۔ اظہر محمود کی کوچنگ نے بھی ان کی مدد کے بجائے شاید نقصان کیا۔
اس پر حسن علی کے حق میں ایک تبصرہ آیاکہ وہ پاکستان کے سب سے زیادہ محنتی فاسٹ بولر ہیں۔ چوٹوں نے ان کا کیریئر متاثر کیا۔ پھر بھی انہوں نے دو بار ڈومیسٹک کرکٹ میں کارکردگی دکھا کر واپسی کی۔

دوسری جانب ایک اور صارف نے ان کی محنت پر سوال اٹھایا کہ اگر وہ واقعی محنتی ہوتے تو وہ محنت نظر بھی آتی۔ ان کی رفتار کم ہو چکی ہے، نئی گیند بازی کی ورائٹی نہیں اور اوورز کے دوران وہ مستقل لائن و لینتھ بھی نہیں رکھتے۔ اگر محنت کی ہے تو کس چیز پر؟
ایک اور صارف نے بڑا گہرا جملہ لکھاکہ اگر اسٹوکس انڈیا، پاکستان یا بنگلہ دیش میں پیدا ہوتا تو 2016 کے بعد نہ صرف ڈراپ ہو چکا ہوتا بلکہ لوگ اسے سوشل میڈیا پر جیتے جی مار چکے ہوتے۔
مزید پڑھیں: انڈیا کو 22 رنز سے شکست، لارڈز ٹیسٹ انگلینڈ کے نام
واضح رہے کہ پاکستان میں میرٹ کا حال سب کے سامنے ہے۔ ٹیم میں دھڑے بازی ہے، کسی کو بار بار موقع دیا جاتا ہے اور کوئی ایک بار کی ناکامی پر ہمیشہ کے لیے نظر انداز ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس آسٹریلیا اور انگلینڈ جیسے ملکوں میں کھلاڑیوں کو سپورٹ، تحفظ اور اعتماد دیا جاتا ہے ۔