انسان نے زمین پر اپنے گھر بنانے کے بعد اب سمندر کی گہرائی میں بھی اپنی زندگی کا آغاز کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔
ایک برطانوی کمپنی ‘ڈیپ’ نے ایک انقلابی منصوبہ تیار کیا ہے جس کے تحت انسان سمندر کے اندر ایک بیس میں رہ سکیں گے اور طویل عرصے تک پانی کی گہرائی میں زندگی گزار سکیں گے۔
اس منصوبے کی کامیابی کے بعد انسان کی زیر سمندر زندگی کا نیا باب شروع ہو گا، جو نہ صرف سائنس کے لیے ایک نیا سنگ میل ثابت ہو گا بلکہ انسانیت کی تاریخ میں بھی ایک اہم مقام حاصل کرے گا۔
ڈیپ کمپنی نے اپنے منصوبے کی تفصیلات میں بتایا ہے کہ یہ زیر سمندر بیس سطح سمندر سے 200 میٹر نیچے واقع ہو گی، جہاں چھ یا اس سے زائد افراد بآسانی رہ سکیں گے۔
یہ بیس انسانوں کو سمندر کی گہرائی میں رہنے کی ایک نئی دنیا فراہم کرے گا، اور اس کے ذریعے ہم سمندر کے غیر دریافت شدہ حصوں تک رسائی حاصل کر سکیں گے۔
اس منصوبے کا موازنہ بین الاقوامی خلائی سٹیشن سے کیا جا رہا ہے، جو خلا میں انسانوں کی طویل مدت تک موجودگی کی پہلی مثال ہے۔
ڈیپ کمپنی کا کہنا ہے کہ سمندر زمین کا دو تہائی حصہ ہے اور وہ آکسیجن فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں لیکن ابھی تک ہم نے سمندر کے اندر کی دنیا کے بارے میں بہت کم جانا ہے۔
یہ بیس سمندر کی گہرائیوں میں انسانی زندگی کے امکانات کو دریافت کرنے کا ایک سنہری موقع فراہم کرے گی۔ اس کے ذریعے ہم نہ صرف سمندر کے راز کھول سکیں گے بلکہ بحری جہازوں کے ملبے کا جائزہ لے کر ہنگامی امدادی آپریشنز کے لیے نئے طریقے بھی دریافت کر سکیں گے۔
کمپنی کے مطابق ان کی کوشش ہے کہ 2027 تک یہ بیس سمندر کے اندر مکمل ہو جائے گی۔
اس منصوبے کی کامیابی کے بعد انسان پہلی بار سمندر کی گہرائی میں طویل عرصے تک رہنے کے قابل ہو گا۔

(گوگل/فائل فوٹو)
ضرور پڑھیں: آپ کی ایک گوگل سرچ بھی ماحول کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ مگر کیسے؟
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پانی کے اندر انسان کا رہنا ممکن ہو گا کیونکہ خلا میں بھی انسان برسوں تک بغیر ہوا کے رہنے کے قابل ہو چکا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سمندر میں زندگی گزارنا بھی ممکن ہے بشرطیکہ ضروری حفاظتی تدابیر اختیار کی جائیں۔
تاہم، اس کا ایک بڑا چیلنج پانی کا دباؤ ہے جو سمندر کی گہرائی میں بڑھ جاتا ہے اور کسی انسان کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ لیکن سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس دباؤ کے اثرات کو کم کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور حفاظتی تدابیر موجود ہیں، جو اس نئے تجربے کو ممکن بنائیں گی۔
ان کا کہنا ہے کہ، جیسے خلا میں انسان کا جسم بغیر ہوا کے زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتا ہے، ویسے ہی سمندر کی گہرائی میں بھی جسم پانی کے دباؤ کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جائے گا۔
سائنس کے ڈائریکٹر ‘ڈان کیرناگس’ نے اس حوالے سے تفصیل سے بات کی اور بتایا کہ جب کوئی غوطہ خور ایک خاص گہرائی میں رہتا ہے تو اس کا جسم پانی میں حل شدہ گیسوں کو جذب کر لیتا ہے جس سے اس کی جسمانی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ دباؤ کو بہتر طریقے سے برداشت کر سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کی تحقیق سمندر کے بارے میں ہمارے علم میں مزید اضافہ کرے گی اور ہمیں سمندری حیات کے بارے میں نئی معلومات حاصل ہوں گی۔
یہ منصوبہ نہ صرف انسانیت کی تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہو گا بلکہ سائنسدانوں کے لیے بھی ایک انقلابی کامیابی ہو گی۔

(فائل فوٹو/گوگل)
اس کے ذریعے ہمیں سمندر کی گہرائیوں میں رہنے کے بارے میں نئی بصیرت ملے گی اور ایک نیا دور شروع ہو گا جہاں انسان اور سمندر کا تعلق ایک نئے انداز میں قائم ہو گا۔
ڈیپ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کی کامیابی کے بعد سمندر میں رہنا ایک روز معمول بن جائے گا، اور یہ ایک نیا چیلنج بھی ہو گا۔ جو لوگ اس تجربے کا حصہ بنیں گے وہ نہ صرف نئی دنیا کا حصہ ہوں گے بلکہ انسانیت کی تاریخ کے ایک انقلابی لمحے کے گواہ بھی بنیں گے۔
مستقبل قریب میں سمندر کی گہرائی میں انسانی زندگی ممکن بننا ایک خواب کی طرح لگتا ہے لیکن سائنس کی تیز رفتار ترقی اور نئی ٹیکنالوجیز کی مدد سے یہ خواب حقیقت میں بدل سکتا ہے۔
جیسے جیسے یہ منصوبہ آگے بڑھے گا دنیا بھر کے لوگ اس کا مشاہدہ کریں گے اور ممکن ہے کہ مستقبل میں سمندر کی گہرائی میں زندگی گزارنا انسانیت کے لیے ایک عام بات بن جائے۔
مزید پڑھیں: پاکستانی خاندان کی منفرد صلاحیت سے واقف محقیقین کی دوا ایف ڈی اے نے منظور کر لی