Follw Us on:

ہر سال اعلٰی تعلیم یافتہ اورہنرمند نوجوانوں کاپاکستان چھوڑنامستقل رجحان یاصورتحال بدل سکتی ہے؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
ہرسال لاکھوں افراد پاکستان چھوڑ جاتے ہیں(فوٹو:پکسا بے)

“میرا بیٹا باہر جا رہا ہے” یار! میں تو بس ویزہ کے انتظار میں ہوں جیسے ہی بات بنی نکل جاؤں گا”، “اچھا ایجنٹ مل گیا، اب رکنا نہیں ہے بھئی۔” کا تذکرہ ہو یا ” جینا ہے تو پاکستان سے زندہ بھاگ۔” “پانچ برس میں 33 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ چکے،” “برین ڈرین،” “ہر تیسرا پاکستانی ملک چھوڑنا چاہتا ہے” ہم میں سے ہر ایک روزانہ نہیں تو وقتاً فوقتاً اپنے دائیں، بائیں کچھ ایسا سننا  پڑتا ہے۔

گھر اور اپنوں کو چھوڑ کر پردیس جانے کا یہ سلسلہ ایسا ہے کہ بظاہر رکنے کا نام نہیں لیتا، لگتا یوں ہے کہ پورا ملک ہی “باہر” نکل جانے کے چکر میں ہے۔

اوورسیز ایمپلائمنٹ کے شعبے سے وابستہ ماہرین کے مطابق مہنگائی، بے روز گاری اور معاشی بحران سے تنگ آکر ہر عمر کا پاکستانی، باالخصوص نوجوان بہتر مستقبل کی امید میں وطن چھوڑنا چاہتے ہیں۔ کسی کی منزل خلیجی ملک ہوتے ہیں تو کوئی یورپ، امریکا یا کینیڈا کا ارادہ بنا لیتا ہے۔

یہ رجحان نیا نہیں بلکہ گزشتہ 50 برسوں سے مسلسل جاری ہے۔ کبھی کم، کبھی زیادہ کر کے اب تک ایک کروڑ سے زائد پاکستانی دنیا کے مختلف حصوں کا رخ کر چکے ہیں۔ ان میں سے کئی واپس آتے ہیں جب کہ کئی وہیں مستقل ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔

پاکستان  بیورو آف ایمیگریشن کے مطابق 1970 سے لے کر اب تک ایک کروڑ 30 لاکھ افراد پاکستان سے دوسرےممالک میں ہجرت کر چکے ہیں۔ 2024میں سات لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے بہتر مستقبل کی امید میں بیرون ملک خصوصاً یورپین اور خلیجی ممالک کا رخ کیا۔ سرکاری اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ 2015 میں سب سے زیادہ افراد نے ملک چھوڑا، اس سال تقریباًساڑھے 9 لاکھ کے قریب لوگوں نے بیرونی دنیا کا رخ کیا۔

 

ٹاپ ٹیلنٹ نے ریکارڈ تعداد (فائل فوٹو)میں ملک چھوڑا

وفاقی ادارہ برائے شماریات کے مطابق پاکستان میں 30 برس سے کم عمر افراد کل ملکی آبادی کا تقریباً70فیصد ہیں۔ 24 کروڑ میں سے تقریبا 17 کروڑ کی یہ آبادی جہاں امکانات کی دنیا رکھتی ہے وہیں خدشات کے سائے میں پل بڑھ رہی ہے۔

سرکاری سطح پر دستیاب ڈیٹا کےمطابق پاکستان میں ہر سال 220 جامعات سے 445,000 سے زائد اسٹوڈنتس فارغ التحصیل ہوتے ہیں، ان میں سے 31 فیصد سے زائد بے روزگار رہ جاتے ہیں۔ پاکستانی گریجوایٹس سے متعلق رپورٹس بتاتی ہیں کہ ان کی نصف سے زائد تعداد متعلقہ انڈسٹری کو مطلوب مہارتیں نہیں رکھتی، کبھی یہ صلاحیت کی کمی اور کبھی مواقع نہ ہونا ہر سال یونیورسٹیز سے فارغ ہونے والے 31 فیصد یعنی تقریباً ڈیڑھ لاکھ نوجوانوں کو بیروزگاررکھتا ہے۔ باقی یا تو کچی پکی ملازمتیں کرتے ہیں یا بہتر زندگی کی تلاش میں ملک چھوڑ جاتے ہیں۔

پاکستان بیورو آف امیگریشن کے مطابق 2023 میں آٹھ لاکھ 60 ہزارافراد بیرون ملک گئے۔ان میں ہنرمند نوجوانوں میں سے 5534 انجینئر، 18000 الیکٹریکل ایسوسی ایٹ انجینئر، 2600 زراعت کے ماہر، 1600 نرسزاور 21 ہزار سے زائد دیگر ہنرمند نوجوانوں نے پاکستان کو خیرباد کہا۔

ہنرمند افراد کے پاکستان چھوڑنے کا تناسب گزشتہ 14 برس میں دو فیصد ہوتا تھا، جو 2022 سے 2024 کے دوران بڑھ کر پانچ فیصد ہوا ہے۔

ماہرین کے مطابق بیروزگاری کے سوا، امن وامان کی صورتحال، ناکافی آمدن، مہنگائی، کرپشن وناانصافی اور بیڈگورننس بھی ایسے مسائل ہیں جو پڑھے لکھے یا ان پڑھ، ہر دو قسم کے پاکستانیوں کو بیرون ملک جانے پر مجبور کرتے ہیں۔

امریکی ادارے بلومبرگ کے مطابق حالیہ برسوں میں ہونے والی مہنگائی کی وجہ سے ملک کے “ٹاپ ٹیلنٹ نے ریکارڈ تعداد میں ملک چھوڑا” ہے۔

Boat insident
فائل فوٹو / گوگل

ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پڑھے لکھے اور ہنرمند ہوں یا ان پڑھ اور بغیر ہنر کے پاکستانی، کیا سبھی یا بڑی تعداد ملک چھوڑنے کا پکا فیصلہ کر چکی ہے؟

دستیاب اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ صورتحال اس نوبت کو نہیں پہنچی ہے۔ ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ ملک چھوڑنے کی وجہ بننے والے مسائل کو حل کر لیا جائےیا ان کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات شروع ہو جائیں تو پاکستانیوں کی بڑی تعداد ملک میں ٹھہرنا چاہتی ہے۔

رائے عامہ کے جائزوں سے متعلق ادارے گیلپ پاکستان کی جولائی 2024 میں شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق “حالات کتنے ہی بدتر کیوں نہ ہوں، اگر مواقع میسر ہوں تو ہر 10 میں سے سات پاکستانی چاہتے ہیں کہ وہ ملک میں ہی رہیں۔”

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس