پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اقتصادی تعاون کے 2 معاہدے طے

وزیر اعظم شہباز شریف اور سعودی فنڈ فار ڈویلپمنٹ (ایس ایف ڈی)کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سلطان عبدالرحمن المرشد نے پاکستان اور سعودی فنڈ فار ڈویلپمنٹ کے درمیان 1.61 بلین ڈالر کے دو اہم معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ نجی ٹی وی ایکسپریس نیوز کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ اقتصادی تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے لیے معاہدوں پر دستخط کیے گے۔ ان میں سعودی عرب سے 1.20 بلین ڈالر مالیت کے تیل کی درآمدات کے لیے موخر ادائیگی کی سہولت شامل ہے،جس کی ادائیگی ایک سال کے دوران کی جائے گی اور اس کے ساتھ خیبرپختونخوا میں مانسہرہ میں گریویٹی فلو واٹر سکیم کی تعمیر کے لیے رعایتی قرض کا معاہدہ ہوا جس کی رقم 41 ملین ڈالر ہے۔ معاہدوں پر اقتصادی امور ڈویژن کے سیکرٹری ڈاکٹر کاظم نیاز اور ایس ایف ڈی کے سی ای او سلطان عبدالرحمن المرشد نے اپنی اپنی حکومتوں کی طرف سے دستخط کئے۔ تقریب میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار سمیت وفاقی وزراء اور پاکستان میں سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی نے شرکت کی۔ وزیر اعظم شہباز نے آئل امپورٹ فنانسنگ فیسیلٹی کی منظوری کا اظہار کیا جس سے پاکستان ایک سال کے لیے موخر ادائیگیوں پر تیل حاصل کر سکے گا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ معاہدہ مالیاتی دباؤ کو کم کرتے ہوئے مستحکم پٹرولیم سپلائی کو محفوظ بنا کر پاکستان کی اقتصادی لچک کو مضبوط کرے گا۔ ایس ایف ڈی مانسہرہ میں گریوٹی فلو واٹر سپلائی سکیم کے لیے 41 ملین ڈالر بھی فراہم کرے گا، جس سے ایک لاکھ 50 ہزار رہائشیوں کے لیے پینے کے صاف پانی تک رسائی میں بہتری آئے گی۔ توقع ہے کہ یہ منصوبہ 2040 تک خطے میں پانی کی طلب کو پورا کرے گا، جس سے 2 لاکھ سے زائد افراد مستفید ہوں گے اور صحت عامہ اور معیار زندگی میں اضافہ ہوگا۔ ان معاہدوں پر دستخط سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے اقتصادی تعاون میں ایک اہم پیش رفت کی نشاندہی کرتے ہیں، دونوں منصوبوں کا مقصد ضروری خدمات کی فراہمی اور ملک کے معاشی استحکام کو مضبوط بنانا ہے۔
“فوج بھی میری اور ملک بھی میرا” عمران خان کی جانب سے آرمی چیف کو لکھے گئے خط کا متن بھی سامنے آگیا

سابق وزیراعظم عمران خان نے چیف آف آرمی سٹاف کو خط لکھ کر ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اس خط میں عمران خان نے فوج اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی کچھ بنیادی وجوہات بیان کی ہیں، جنہوں نے پاکستان کے قومی استحکام کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ عمران خان نے سب سے پہلی وجہ 2024 کے انتخابات میں ہونے والی ‘تاریخی دھاندلی’ کو قرار دیا ہے جس نے عوامی مینڈیٹ کی سرعام چوری کی ہے۔ ان کے مطابق 17 نشستوں پر کامیاب ہونے والی ایک سیاسی جماعت کو اقتدار سونپنے کا عمل ملک کی جمہوریت کے لیے سنگین دھچکا ثابت ہوا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے ایجنسیوں کی مدد سے سیاسی انجینئرنگ کی جس کے نتیجے میں عوام کا اعتماد ٹوٹ گیا۔ دوسری اہم وجہ چھبیسویں آئینی ترمیم کو بتایا جس میں عدلیہ کو کنٹرول کرنے کے لیے آئین و قانون کی دھجیاں اُڑائی گئیں۔ یہ بھی پڑھیں: 8 فروری لاہور جلسہ کی اجازت، پی ٹی آئی کی درخواست منگل کو سماعت کیلیے مقرر عمران خان نے کہا کہ ‘پاکٹ ججز’ کے ذریعے ان کے مقدمات کو مخصوص ججز کے پاس منتقل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ انصاف کے تقاضوں کو نظرانداز کیا جا سکے اور ان کے خلاف فیصلے من پسند ججز سے کروائے جا سکیں۔ اس خط میں تیسری وجہ انہوں نے ‘پیکا’ کے قانون کو قرار دیا ہے جس کے تحت سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر قدغن لگانے کا عمل جاری ہے۔ عمران خان نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ اس قانون کی وجہ سے پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری کو اربوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے اور نوجوانوں کے کیریئر تباہ ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ عمران خان نے چوتھی وجہ ملک میں ریاستی دہشتگردی کے مسلسل جاری رہنے کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ان کی جماعت تحریک انصاف کے کارکنان اور رہنماؤں کے خلاف 100,000 سے زائد چھاپے مارے گئے ہیں اور 20,000 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس دوران تحریک انصاف کے حامیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں، جس سے عوامی جذبات میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ اس خط میں پانچویں اہم وجہ ملک کی معاشی بدحالی اور سیاسی عدم استحکام کو بتایا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ ملک کی معیشت بے قابو ہو چکی ہے اور لوگ اپنے سرمائے سمیت بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں۔ ان کے مطابق سرمایہ کاری صرف تب آتی ہے جب ملک میں عوامی امنگوں کی ترجمان حکومت ہو، جس کا فی الحال پاکستان میں کہیں دور دور تک نشان نہیں مل رہا۔ انکا کہنا تھا کہ بحیثیت سابق وزیراعظم میرا مقصد اس قوم کی فلاح کے لیے ان مسائل کی نشاندہی کرنا ہے جن کی وجہ سے فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میری پالیسی کا آغاز ہی سے ایک ہی اصول پر مبنی ہے فوج بھی میری ہے اور ملک بھی میرا۔ ملکی استحکام اور سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ فوج اور عوام کے درمیان جو فرق بڑھ رہا ہے، اسے کم کیا جائے۔ اس کے لیے ایک ہی حل ہے کہ فوج کو اپنی آئینی حدود میں واپس جانا ہوگا، سیاست سے خود کو الگ کرنا ہوگا، اور اپنی مخصوص ذمہ داریوں کو مکمل کرنا ہوگا۔ اگر فوج نے خود یہ قدم نہیں اٹھایا تو یہی بڑھتا ہوا فرق قومی سلامتی کے لیے خطرے کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ مزید پڑھیں: “خیبرپختونخوا کی کارگردگی دیگر صوبوں سے بہتر ہے” علی امین گنڈا پور کی پریس کانفرنس
سعودی عرب نے تجارتی مقاصد کیلئے ’مکہ اور مدینہ‘ الفاظ کے استعمال پر پابندی لگادی

سعودی عرب میں مقدس شہروں کے ناموں پر اپنی مصنوعات کے نام رکھنا، برانڈنگ اور تشہیر سے پہلے مجاز اتھارٹی سے اجازت لینا لازمی ہوگا۔ بصورت دیگر بھاری جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ عرب میڈیا کے مطابق سعودی عرب نے مصنوعات کی مارکیٹنگ کے حوالے سے نئے قوانین متعارف کرائے ہیں،جس کے تحت سعودی عرب، مکہ، مدینہ اور دیگر مقدس شہروں کے ناموں پر پراڈکٹس کے نام نہیں رکھے جا سکیں گے۔ مذہبی، سیاسی یا فوجی ناموں کو استعمال کرنے سے قبل بھی اجازت لینا لازمی ہوگا بصورت دیگر 11 لاکھ 15 ہزار پاکستانی روپے جرمانہ ہوگا۔ پہلے سے رجسٹرڈ نام کو چرا کر اپنی پراڈکٹس کے لیے استعمال کرنے پر بھی ساڑھے 7 لاکھ پاکستانی روپے سے زائد جرمانہ عائد ہوگا،اسی طرح کسی سرکاری ادارے سے مماثلت رکھنے والے ناموں کے استعمال پر بھی پابندی ہوگی۔ ان خلاف ورزیوں پر جرم کی نوعیت کے اعتبار سے 76 ہزارپاکستانی روپوں سے پونے چار لاکھ پاکستانی روپے تک کا جرمانہ ہوسکتا ہے۔ اس قانون کے تحت غیر سنگین خلاف ورزیوں پرایک ہزار ریال (76 ہزارپاکستانی روپے) سے 5 ہزار ریال (پونے چار لاکھ پاکستانی روپے سے زائد) کے درمیان جرمانہ عائد ہوتا ہے۔ ان میں کاروباری دستاویزات، خط و کتابت، یا تشہیری مواد پر تجارتی نام ظاہر کرنے میں ناکامی، اسٹور فرنٹ یا کاروباری احاطے پر تجارتی نام ظاہر کرنے میں ناکامی، پچھلے نام کو حذف کرنے کے بعد قانونی ٹائم فریم کے اندر نیا تجارتی نام رجسٹر کرنے میں ناکامی، اور تجارتی نام کو گمراہ کن یا غیر قانونی طریقے سے استعمال کرنا شامل ہیں۔ وزارت تجارت سعودی عرب نے تجارتی نام سے متعلق خدمات کے لیے فیس مقرر کی ہے، عربی میں تجارتی نام حاصل کرنے کی قیمت 200 سعودی ریال (تقریباً 15 ہزار پاکستانی روپے) ہے، جب کہ انگریزی میں ایک نام مختص کرنے کی قیمت 500 سعودی ریال (38 ہزار روپے سے زائد) ہے۔ ریزرویشن کی مدت میں توسیع یا تجارتی نام کی ملکیت منتقل کرنے کی فیس 100 ریال (7 ہزار 600روپے) ہے۔ ایک جائزہ کمیٹی تجارتی نام کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کرے گی، اور جرمانے عائد کرے گی، جس میں جرم کی شدت اور اس میں شامل کاروبار کے سائز کی بنیاد پر جرمانے کو ایڈجسٹ کرنے کا اختیار ہوگا۔
امریکی ٹیرف وار:ٹرمپ ایک ماہ کے لیے میکسیکو پر محصولات کو روکنے پر راضی ہوگئے

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 1 فروری کو متوقع 25 فیصد ٹیرف کے نفاذ سے صرف دو دن پہلے میکسیکو کے ساتھ ایک “دوستی پر مبنی” بات چیت کے بعد اعلان کیا کہ وہ ایک مہینے کے لیے ان ٹیرفز کو مؤخر کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے یہ بیان اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ٹروتھ سوشل” پر جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ میکسیکو کے صدر کلاؤڈیا شینباوم کے ساتھ بات چیت انتہائی دوستانہ رہی اور شینباوم نے فوری طور پر 10,000 فوجی امریکی سرحد پر تعینات کرنے پر اتفاق کیا۔ ٹرمپ نے اس بات کا انکشاف کیا کہ یہ فوجی خاص طور پر میکسیکو اور امریکا کی سرحد پر منشیات کی اسمگلنگ، خاص طور پر فینٹینائل، اور غیر قانونی مہاجرین کو روکنے کے لیے تعینات کیے جائیں گے۔ یہ فیصلہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور سیکیورٹی کی بحالی کے حوالے سے اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ دونوں ممالک نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ وہ ایک مہینے تک ٹیرفز کو معطل رکھیں گے اور اس دوران اعلیٰ سطح کی مذاکراتی ٹیمیں مذاکرات کریں گی، جس میں امریکہ کی وزارتِ خارجہ کے وزیر مارکو روبیو، وزارتِ خزانہ کے سکریٹری اسکاٹ بیسنٹ، اور وزارتِ تجارت کے سکریٹری ہوؤرڈ لٹنک شامل ہوں گے۔ ٹرمپ نے ان مذاکرات میں خود شرکت کا وعدہ کیا اور کہا کہ ان کی کوشش ہوگی کہ ایک معاہدہ کیا جائے جس سے دونوں ممالک کو فائدہ ہو۔ میکسیکو کی صدر کلاؤڈیا شینباوم نے بھی اپنے سوشل میڈیا پر اس معاہدے کا اعلان کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ وہ اور ٹرمپ دونوں سیکیورٹی اور تجارت کے شعبے میں اہم معاہدوں تک پہنچے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت میکسیکو اپنی سرحد پر فوری طور پر 10,000 قومی محافظ تعینات کرے گا، جبکہ امریکہ نے وعدہ کیا کہ وہ میکسیکو کو اعلیٰ طاقتور ہتھیاروں کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے تعاون فراہم کرے گا۔ دوسری جانب امریکی معیشت پر ان ٹیرفز کا اثر فوراً دیکھا گیا اور 1 فروری کو اسٹاک مارکیٹ میں 600 پوائنٹس کی گراوٹ ہوئی۔ ٹرمپ نے ہفتے کے روز اعلان کیا تھا کہ وہ میکسیکو، کینیڈا اور چین پر 25 فیصد ٹیرف عائد کریں گے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں امریکی کاروباروں اور عالمی منڈیوں میں شدید بے چینی پھیل گئی تھی۔ اس کے بعد ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا جس میں امریکہ کے تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے سخت اقدامات کرنے کی بات کی۔ اس آرڈر کے مطابق امریکی حکومت کے مختلف ادارے موجودہ تجارتی معاہدوں اور پالیسیوں کا جائزہ لیں گے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا ان معاہدوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ امریکی صدر نے اپنے دوسرے دورِ حکومت کے لیے عالمی سطح پر تجارتی پالیسیاں ترتیب دینے کی بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو ‘امریکہ فرسٹ’ کے اصول پر مبنی تجارتی پالیسیاں اپنانی چاہئیں جو امریکی کاروباری افراد، کسانوں، اور صنعت کاروں کے مفاد میں ہوں۔ یہ اقدامات میکسیکو کے ساتھ تجارتی تعلقات میں ایک نئی پیچیدگی پیدا کر سکتے ہیں کیونکہ ممکنہ طور پر اس کے نتیجے میں امریکہ میکسیکو کے ساتھ طے پائے گئے USMCA معاہدے کی بعض شقوں کو نظرانداز کر سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات میں دراڑ آ سکتی ہے جو عالمی تجارتی میدان میں ایک نیا بحران پیدا کر سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ نے USMCA کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کی تو مستقبل میں دیگر ممالک ایسے معاہدے کرنے سے گریز کریں گے، جہاں انہیں تجارتی تعلقات کی پائیداری پر شک ہو۔ ٹرمپ کے اس اقدام سے عالمی سطح پر تجارتی تعلقات میں عدم استحکام کی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے، اور امریکہ کی معیشت پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آیا میکسیکو اور امریکہ کے درمیان ہونے والی یہ مذاکراتی بات چیت ایک مستحکم اور دیرپا معاہدے کی طرف لے جاتی ہے یا یہ محض ایک وقتی ٹال مٹول ثابت ہوگی۔ مزید پڑھیں: عالمی تناؤ میں اضافہ: یورپی ممالک کے ساتھ بھی امریکہ کے تعلقات کشیدگی کا شکار
“خیبرپختونخوا کی کارگردگی دیگر صوبوں سے بہتر ہے” علی امین گنڈا پور کی پریس کانفرنس

خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صوبے کو متاثر کرنے والے کئی اہم مسائل پر روشنی ڈالی۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے صوبے کے تحفظات کو دور کرنے میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے اہم کردار پر زور دیتے ہوئے کہا کہ چیف آف آرمی سٹاف (سی او اے ایس) کے ساتھ خاص طور پر نیشنل فنانس کمیشن(این ایف سی)ایوارڈ کے حوالے سے اور سیکیورٹی سسٹم پر بات چیت جاری ہے۔ گنڈا پور نے تصدیق کی کہ آرمی چیف نے انہیں یقین دلایا ہے کہ این ایف سی کے معاملے کو حل کرنے کے لیے ایک میٹنگ بلائی جائے گی، جس کی وجہ سے صوبائی حکومت عارضی طور پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے سے گریز کرے گی۔ انہوں نے نئے این ایف سی ایوارڈ میں تاخیر پر تنقید کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ خیبر پختونخوا زیادہ فنڈز کا حقدار ہے، خاص طور پر فاٹا کے سابقہ علاقوں کے انضمام کی وجہ سے۔ نئے این ایف سی ایوارڈ سے صوبے کو 130 سے 150 ارب روپے اضافی مختص کیے جا سکتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ خیبر پختونخوا دیگر صوبوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ صوبے نے نمایاں ترقی کی ہے، جبکہ دیگر صوبے کرپشن کے الزامات سے دوچار ہیں۔ گنڈا پور نے ناقدین کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کی ترقی واضح ہے، اور دیگر صوبائی حکومتوں کی کارکردگی سے موازنہ کرنے پر زور دیا،ہمارے صوبے میں کوئی بدعنوانی نہیں ہے، اور چیف سیکرٹری کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی کو بھی تحقیقات کر کے جوابدہ ٹھہرائے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے پی ٹی آئی کی جاری کوششوں بالخصوص آئندہ سیاسی جلسوں اور جلسوں کے حوالے سے اپنی فعال شرکت کی تصدیق کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں عمران خان کی رہائی اور اپنی پارٹی کے مستقبل کے لیے لڑتا رہوں گا۔ وزیراعلیٰ نے تین صوبائی وزراء پر کرپشن کے الزامات کا بھی جواب دیا، عوام کو یقین دلایا کہ اگر کسی غلط کام کی تصدیق ہوئی تو تمام تفصیلات منظر عام پر لائی جائیں گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ قاضی انور، صوبے کے ایک اہم عہدیدار، ان کے دائرہ اختیار میں نہیں ہیں اور کسی بھی شکایت کا براہ راست متعلقہ حکام سے ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ گنڈا پور نے وفاقی حکومت پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ انہوں نے چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل آف پولیس جیسے اہم عہدوں کے لیے امیدواروں کو نامزد کیا تھا، لیکن ان کی تجاویز پر عمل نہیں کیا گیا
وسیم اکرم نے محسن نقوی پر تنقید کرنے والے ‘مپنٹس’ کو آڑے ہاتھوں لیا

پاکستان کرکٹ کے عظیم فاسٹ بولر وسیم اکرم نے ان افواہوں کو مسترد کر دیا ہے جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین محسن نقوی کی قیادت اور ٹیم سلیکشن پر تنقید کی۔ ان افواہوں نے کرکٹ کی دنیا میں سنسنی پیدا کر دی تھی اور اس کے بعد وسیم اکرم نے فوری طور پر سوشل میڈیا پر ان افواہوں کو جھوٹ قرار دیا اور کہا کہ وہ کسی صورت میں محسن نقوی کے بارے میں منفی رائے نہیں رکھتے۔ وسیم اکرم نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا کہ “محسن نقوی کے بارے میں جعلی خبریں گردش کر رہی ہیں، بس کر دیں، اب اور نہیں، اور اس طرح کی باتوں پر کان نہ دھریں!”، اس کے ذریعے انہوں نے ان افواہوں کو بالکل بے بنیاد قرار دیا۔ یہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ وسیم اکرم نے محسن نقوی کی قیادت پر سوالات اٹھائے اور کہا کہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 کے لیے منتخب کی گئی 15 رکنی ٹیم کی کارکردگی بہت مایوس کن ثابت ہو گی۔ اس میں خاص طور پر فہیم اشرف، خوشدل شاہ اور طیب طاہر جیسے کھلاڑیوں کی شمولیت پر سوال اٹھائے گئے جب کہ عام طور پر آمر جمال اور عرفان خان نیا زی کی عدم موجودگی نے کرکٹ کے حلقوں میں بحث چھیڑ دی تھی۔ وسیم اکرم نے ان تمام افواہوں کو سختی سے رد کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب جھوٹ اور غلط بیانی پر مبنی ہے اور ان کا کسی بھی شکل میں محسن نقوی کی سلیکشن یا قیادت پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ چیمپئنز ٹرافی 2025 کے لیے پاکستان کی ٹیم کا انتخاب ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے جس پر کرکٹ شائقین اور ماہرین کی آراء میں اختلافات ہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی اب شائقین کی نظریں جیتنے کے لیے اہم ہے کیونکہ ٹورنامنٹ شروع ہونے میں صرف چند ہفتے باقی ہیں۔ پاکستان کرکٹ کا سفر اب محض افواہوں سے آگے بڑھ چکا ہے اور اب اس پر اصل توجہ میدان میں ٹیم کی پرفارمنس اور کامیابی پر مرکوز ہو گی۔ یاد رہے کہ وسیم اکرم پاکستان کے عظیم فاسٹ باولر اور سابق کپتان رہے ہیں جنہیں “سونگ کے سلطان” کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے۔ وسیم اکرم نے 1992 کے کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان کو کامیابی دلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور ان کی باؤلنگ کی مہارت نے انہیں عالمی سطح پر شہرت دی ہے۔ اب سوال یہ پیدا پوتا ہے کہ کیا پاکستان کرکٹ کی عظمت دوبارہ بحال ہو سکے گی؟ یہ سوال اب صرف میدان میں کھلاڑیوں کی کارکردگی کے ذریعے ہی جواب ملے گا۔
سابق برطانوی فوجی ایرانی جاسوس نکلا: عدالت نے 14 سال تین ماہ کی سزا سنا دی

برطانیہ کے سابق فوجی، ڈینیئل خلیفہ کو آج ویلوچ کراؤن کورٹ میں ایران کے لیے جاسوسی کرنے اور جیل سے فرار ہونے کے الزامات میں مجموعی طور پر 14 سال اور 3 ماہ کی سزا سنا دی گئی۔ خلیفہ کی سزا ایک انتہائی سنجیدہ مقدمے کا نتیجہ تھی جس میں نہ صرف اس کی فوجی حیثیت کا غلط استعمال کیا گیا بلکہ اس نے اپنی ذاتی خواہشات اور شہرت کے لئے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالا۔ 18 ماہ قبل، ڈینیئل خلیفہ نے برطانیہ بھر میں ایک ہنگامی تلاش کا آغاز کرایا تھا جب وہ وانڈز ورتھ جیل سے فرار ہو گیا تھا۔ اس کے بعد پولیس نے تین دن کے اندر اس کو مغربی لندن کے ایک ٹوپاتھ پر گرفتار کر لیا تھا، لیکن اس کی گرفتاری کے دوران سامنے آنے والے حقائق نے انکشاف کیا کہ اس کا جرم صرف جیل سے فرار تک محدود نہیں تھا۔ وہ دراصل ایران کے لیے حساس فوجی معلومات فراہم کر رہا تھا اور اس کے ساتھ ہی اس کے پاس ایسی معلومات تھیں جو برطانوی فوج کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی تھیں۔ آج عدالت میں اس کے مقدمے کی آخری سماعت کے دوران جج جسٹس ‘چیما-گرب’ نے خلیفہ کو ‘ایک خطرناک بیوقوف’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنی فوجی ذمہ داریوں کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ دشمن ریاست کو اہم معلومات فراہم کر کے برطانوی فوج کے اہلکاروں کو سنگین خطرات میں ڈالا۔ جج نے کہا کہ “جب آپ نے فوج میں شمولیت اختیار کی تھی تو آپ میں ایک بہترین سپاہی بننے کی صلاحیت تھی، لیکن آپ نے اپنی حماقتوں کے ذریعے اپنے وطن کے ساتھ غداری کی۔” خلیفہ کی کہانی ایک پیچیدہ سازش کا حصہ تھی۔ 23 سالہ خلیفہ نے 2017 میں برطانوی فوج میں شمولیت اختیار کی تھی اور اس کا ارادہ تھا کہ وہ ایک مثالی سپاہی بنے گا۔ تاہم، اس کا طرز عمل جلد ہی ایک نیا رخ اختیار کر گیا۔ عدالت میں پیش کی گئی شہادتوں کے مطابق خلیفہ نے اپنے ایرانی ورثے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایرانی ایجنٹس سے رابطہ کیا اور حساس فوجی معلومات فراہم کیں۔ جج چیما-گرب نے کہا کہ خلیفہ نے فوجی تربیت کے دوران حساس مواد کو فوٹوگرافی کر کے ایران کے ایجنٹس کو بھیجا، جنہوں نے اس سے قیمتی معلومات حاصل کیں۔ اس نے نہ صرف فوجی اہلکاروں کے نام اور تفصیلات فراہم کیں بلکہ کچھ معلومات تو وہ بھی ہو سکتی تھیں جو برطانوی فوج کی آپریشنل سیکیورٹی کے لیے خطرہ بن سکتی تھیں۔ جج نے مزید کہا کہ “آپ نے معلومات کو ایران کے ایجنٹس تک پہنچانے کے لئے اس قدر جرات دکھائی کہ یہ نہ صرف آپ کی بیوقوفی بلکہ ہمارے نظام کے لئے ایک سنگین خطرہ تھا۔” خلیفہ کے جیل سے فرار ہونے کے بعد پولیس کی تحقیقات نے اس کے ایران کے ساتھ تعلقات کا پردہ فاش کیا۔ وہ نہ صرف ایران کے ایجنٹس سے رابطے میں تھا بلکہ اس نے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ جیل سے فرار کے دوران اس نے ایران کو ایک پیغام بھیجا جس میں کہا کہ “میں انتظار کر رہا ہوں۔” یہ پیغام ایک نیا سوال اٹھاتا ہے کہ آیا وہ دوبارہ ایران سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ بھی پڑھیں: سمجھ نہیں آتا جشن منائیں یا ماتم کریں’ شامی شہر حماۃ میں خوفناک قتل عام کے 43 برس عدالت میں پیش کی گئی شہادتوں کے مطابق خلیفہ نے ایران سے ایک ہزار پاؤنڈ کی رقم بھی وصول کی تھی جس کا مقصد ایران کے ایجنٹس کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرنا تھا۔ اس نے ایک قبرستان میں اس رقم کو وصول کیا جہاں اس کا ایرانی رابطہ اس سے ملنے آیا تھا۔ اس کے علاوہ خلیفہ نے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں ایک گمنام ای میل بھی بھیجی تھی جس میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ایک ‘ڈبل ایجنٹ’ بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کا مقصد ایران کی معلومات حاصل کرنا تھا تاکہ وہ برطانیہ کے مفادات کے لیے کام کرے مگر حقیقت میں اس نے دشمن ریاست کے مفادات کو ترجیح دی۔ جج چیما-گرب نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ خلیفہ نے اپنی فوجی خدمات کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال کیا اور برطانیہ کے مفادات کو نقصان پہنچایا۔ جج نے کہا کہ “آپ نے ایک خطرناک راستہ اختیار کیا اور اس کا خمیازہ اب آپ کو بھگتنا پڑے گا۔” خلیفہ کی سزا کا اعلان کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ اس کی حرکتوں سے نہ صرف برطانیہ کی سیکیورٹی بلکہ فوجی اہلکاروں کی زندگیوں کو بھی خطرہ لاحق ہوا۔ جج نے اس کی سزا کا تعین کرتے ہوئے کہا کہ خلیفہ کو مجموعی طور پر 14 سال اور 3 ماہ کی سزا دی گئی ہے۔ اس میں چھ سال کی سزا ‘آفیشل سیکریٹس ایکٹ’ کی خلاف ورزی کے الزام میں چھ سال کی سزا ‘دہشت گردی ایکٹ’ کے تحت اور دو سال تین ماہ کی سزا جیل سے فرار کے الزام میں شامل ہے۔ پولیس کے کمانڈر ڈومینک مرفی نے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ “یہ سزا اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ برطانوی سیکیورٹی کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کے لئے سزا کتنی سخت ہوگی۔” انہوں نے مزید کہا کہ “ایران جیسے دشمن ملکوں سے تعلقات قائم کرنے اور برطانوی سیکیورٹی کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔” ڈینیئل خلیفہ کا کیس ایک سبق بن کر سامنے آیا ہے کہ ریاست کے اندر جاسوسی اور غداری کی کوشش کرنے والوں کے لئے کوئی معافی نہیں ہو گی۔ اس کی سزا نے یہ ثابت کر دیا کہ قومی مفادات کو خطرے میں ڈالنا اور فوجی راز افشا کرنا کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ مزید پڑھیں: امریکی اسلحہ: افغانستان کے بازاروں میں بکنے لگا
عالمی تناؤ میں اضافہ: یورپی ممالک کے ساتھ بھی امریکہ کے تعلقات کشیدگی کا شکار

امریکہ کی میکسیکو، کنیڈا اور چائنہ کے ساتھ ساتھ یورپئن ممالک کے ساتھ بھی تجارتی کشیدگی مزیدبڑھتی جا رہی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ نے ان ممالک کو منگل سے ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی دی ہوئی ہے جس کے باعث عالمی منڈیوں میں کمی دیکھنے کو ملی ۔ عالمی خبر ارساں ادارہ رائٹرز کے مطابق عالمی اسٹاک مارکیٹس اور کرنسیاں ان خدشات پر گر گئیں کہ محصولات معاشی طور پر نقصان دہ تجارتی جنگ کو متحرک کریں گی۔ایشیاء اور یورپی بازاروں میں سال کے سب سے بڑے یومیہ نقصانات کی وجہ سے وال سٹریٹ کے ایس اینڈ پی 1.7 فیصد سے زیادہ گر گے۔ ٹرمپ نے اتوار کو فلوریڈا میں خطاب کرتے ہوئے اشارہ کیا کہ 27 ممالک پر مشتمل یورپی یونین فائر لائن میں اگلے نمبر پر ہو گی، لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ فائر لائن کب ہوگی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین کے 27 ممالک ہماری کاریں نہیں لیتے، ہماری فارم کی مصنوعات نہیں لیتے، تقریباً کچھ بھی نہیں لیتے اور ہم ان سے سب کچھ لیتے ہیں۔ پیر کو برسلز میں ہونے والی ایک غیر رسمی سربراہی اجلاس میں یورپی یونین کے رہنماؤں نے کہا کہ اگر امریکہ ٹیرف لگاتا ہے تو یورپ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو گا، لیکن رہنماؤں کی طرف سے اس کی وجہ اور مذاکرات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ اگر یورپی یونین پر اس کے تجارتی مفادات پر حملہ کیا گیا تو اسے خود کو عزت دینا اور اس طرح ردعمل کا اظہار کرنا پڑے گا،اگر کسٹم پالیسی اب اس کو مشکل بناتی ہے تو یہ امریکہ کے لیے برا ہوگا۔ جرمنی کے چانسلر اولاف شولز نے کہا کہ اگر ضروری ہو تو بلاک امریکہ کے خلاف اپنے محصولات کے ساتھ جواب دے سکتا ہے،لیکن دونوں کے لیے تجارت پر معاہدہ تلاش کرنا بہتر ہے۔ امریکہ یورپی یونین کا سب سے بڑا تجارتی اور سرمایہ کاری پارٹنر ہے ۔ یوروسٹیٹ کے 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق، امریکہ کو سامان کی تجارت میں یورپی یونین کے ساتھ 155.8 بلین یورو ($161.6 بلین) کا خسارہ تھا، جو خدمات میں 104 بلین یورو کے سرپلس سے پورا ہوا۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کاجا کالس نے کہا کہ تجارتی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہے، اور اگر یورپ اور امریکہ کے درمیان کوئی جنگ چھڑ جاتی ہے، تو پھر ہنسنے والا چین ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ پیر کو کینیڈا اور میکسیکو کے رہنماؤں کے ساتھ بات کریں گے ، جنہوں نے اپنے طور پر جوابی ٹیرف کا اعلان کیا ہے، لیکن ان توقعات کو کم کیا کہ وہ اپنا ذہن بدل لیں گے۔ وائٹ ہاؤس کی نیشنل اکنامک کونسل کے ڈائریکٹر کیون ہیسیٹ نے مشورہ دیا کہ واشنگٹن کینیڈا کے مقابلے میکسیکو کے ردعمل سے زیادہ مطمئن ہے میکسیکو صدر ٹرمپ کے کہنے کے بارے میں بہت سنجیدہ دکھائی دیتا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ کینیڈین ایگزیکٹو آرڈر کی سادہ زبان کو غلط سمجھتے ہیں۔ ماہرین اقتصادیات نے کہا کہ ریپبلکن صدر کا کینیڈا اور میکسیکو پر 25فیصد محصولات اور چین پر 10فیصد محصولات عائد کرنے کا منصوبہ عالمی ترقی کو سست کر دے گا اور امریکیوں کے لیے قیمتیں بلند کر دے گی۔ پیر کو مالیاتی منڈی کے رد عمل نے تجارتی جنگ کے نتیجے میں ہونے والے خدشات کی عکاسی کی، ٹوکیو میں حصص دن کے اختتام پر تقریباً 3 فیصد کم ہوئے اور آسٹریلیا کا بینچ مارک 1.8 فیصد گر گیا۔ چینی یوآن، کینیڈین ڈالر اور میکسیکن پیسو سب بڑھتے ہوئے ڈالر کے مقابلے میں گر گئے۔ کینیڈا اور میکسیکو کے ساتھ امریکی خام تیل کی درآمد کے اعلی ذرائع امریکی تیل کی قیمتوں میں 1فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا، جبکہ پٹرول کے مستقبل میں تقریباً 3فیصد اضافہ ہوا۔ رائٹرز کے مطابق آئی این جی کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے محصولات تمام امریکی درآمدات کا تقریباً نصف احاطہ کریں گے اور اس فرق کو پورا کرنے کے لیے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو اپنی مینوفیکچرنگ آؤٹ پٹ کو دوگنا سے زیادہ کرنے کی ضرورت ہوگی ، جو کہ قریب ترین مدت میں ایک ناقابل عمل کام ہے۔
ماسکو میں دہشت کی لہر:یوکرین نے رہائشی کمپلیکس میں زبردست دھماکہ کر دیا

ماسکو میں ایک زبردست بم دھماکے میں پرو-روسی فوجی رہنما آرمن سرکِسیان ہلاک ہوگئے جنہیں یوکرین میں مشرقی علاقے ڈونیسک میں روسی فورسز کے لئے جنگ لڑنے کا الزام تھا۔ دھماکہ ماسکو کے مشہور رہائشی کمپلیکس “علیہ پارسا” میں پیر کی صبح ہوا، جو کرملن سے صرف 12 کلومیٹر (7 میل) کے فاصلے پر واقع ہے۔ روسی خبر رساں ادارے تاس کے مطابق دھماکے کی شدت اتنی تھی کہ سرکِسیان کو ہسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ یہ حملہ یوکرین کے جاری جنگی محاذ پر ایک اور سنگین واقعہ ہے جس میں نہ صرف روسی افسران بلکہ پرو-روسی شخصیات کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ روسی حکام نے اس دھماکے کو “قتل کی کوشش” قرار دیتے ہوئے اس کے پیچھے ایک سوچی سمجھی سازش کا شبہ ظاہر کیا ہے۔ تاس کے مطابق اس دھماکے میں سرکِسیان کے ساتھ ایک اس کے محافظ بھی ہلاک ہوگئے۔ یوکرین نے سرکِسیان کو ایک ‘مجرم’ اور ‘جرائم پیشہ’ قرار دیا ہے جس پر یوکرین کے سابق صدر ویکٹر یانوکووچ کے ساتھ گہرے تعلقات رکھنے اور 2014 کے میدان انقلاب میں قتل عام کے الزام ہیں۔ یوکرین کے سیکیورٹی ادارے SBU کے مطابق سرکِسیان نے مشرقی یوکرین میں روس کی حمایت سے علیحدگی پسند فورسز کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا، اور وہ وہاں جنگی سامان کی خریداری میں بھی ملوث تھا۔ یوکرین کی جانب سے اس دھماکے پر فوری طور پر کوئی ردعمل نہیں آیا، تاہم اس سے پہلے یوکرین کی خفیہ ایجنسیوں نے بھی ماسکو میں ہونے والے دیگر حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ ادھر یوکرین میں بھی ایک اور بحران جنم لے رہا ہے۔ یوکرینی افواج کو بڑھتی ہوئی بھرتیوں کے لئے مشکلات کا سامنا ہے اور اس دوران ملک بھر میں فوجی بھرتی مراکز اور افسران پر حملے شروع ہوگئے ہیں۔ ہفتے کے روز مشرقی پولٹاوہ علاقے میں ایک فوجی کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا جبکہ مغربی شہر ریونے میں ایک دھماکے کے نتیجے میں سات افراد زخمی ہوگئے۔ یوکرین کے کمانڈر انچیف، اولیکسانڈر سیرسکی نے ان حملوں کو ‘شرمناک’ قرار دیتے ہوئے ان کی تحقیقات کرنے کی اپیل کی۔ سیرسکی کا کہنا تھا کہ “فوجی اہلکاروں پر حملہ ناقابل برداشت ہے اور اس کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ضروری ہے۔” ماسکو میں سرکِسیان کی ہلاکت کے بعد یوکرین کی فضائیہ نے ایک اور بڑا حملہ کیا۔ ہفتہ کو روس کے کرسک علاقے میں ایک اسکول پر فضائی حملہ کیا گیا جس میں کئی افراد کی ہلاکت کی خبریں سامنے آئیں۔ یوکرین اور روس دونوں نے ایک دوسرے پر یہ حملہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے لیکن کوئی بھی فریق اس کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اس کے بعد یوکرین نے پیر کی رات روسی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لئے اپنے ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ یوکرین کے جنرل اسٹاف نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے روس کے وولگوگراد اور آستراخان علاقوں میں واقع آئل ریفائنریز اور دیگر صنعتی یونٹس کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: ایران کا بحری دفاع کے لیے زیر زمین اینٹی شپ کروز میزائل لانچ کرنے کا اعلان یوکرین کی یہ حکمت عملی روسی فوجی لاجسٹکس کو نقصان پہنچانے کے لئے ہے تاکہ جنگی سامان کی فراہمی میں مشکلات آئیں اور روس کے تیل کی برآمدات پر اثر پڑے۔ یوکرین کے لئے یہ سب کچھ آسان نہیں ہے۔ ملک کی جنوبی اور مشرقی سرحدوں پر شدید لڑائیاں جاری ہیں اور روس آہستہ آہستہ ان علاقوں پر اپنا کنٹرول بڑھا رہا ہے۔ یوکرین کے لئے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ اسے جنگ کے محاذ پر مسلسل شکست کا سامنا ہے۔ دوسری جانب صدر ولادی میر زیلنسکی پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ روس کے ساتھ مذاکرات کی طرف قدم بڑھائیں، لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کو مزید فوجی امداد دینے میں ہچکچاہٹ کا اظہار کیا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے اس جنگ کے خاتمے کے لئے بات چیت کی ضرورت پر زور دیا ہے لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا کہ ان مذاکرات کا آغاز کب اور کیس ے ہوگا۔ روس کے صدر ولادی میر پوتن نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ یوکرین کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہیں، لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ زیلنسکی کے ساتھ بات چیت نہیں کریں گے کیونکہ انہیں وہ ‘غیر قانونی’ سمجھتے ہیں۔ ماسکو اور کیف کے درمیان اس خونریز جنگ کی شدت میں کمی آنا مشکل نظر آتی ہے۔ بمباری، فضائی حملے، اور بار بار کی قتل و غارت نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اور دونوں طرف سے خونریزی کی صورتحال میں کوئی کمی نہیں آ رہی۔ جو کچھ بھی ہو یہ ایک طویل اور دردناک جنگ کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں انسانی جانوں کا ضیاع اور علاقائی استحکام کی قیمت چکائی جا رہی ہے۔ ضرور پڑھیں: امریکی اسلحہ: افغانستان کے بازاروں میں بکنے لگا
ٹرمپ کے اقدامات سے ایشیائی مارکیٹوں میں شدید مندی، یورپ نے بھی امریکا کو دھمکی دے دی

دنیا بھر میں تجارتی جنگ کے شعلے بھڑکنے لگے ہیں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے تازہ ترین اقدام سے اس میں تیزی پیدا کر دی ہے۔ ٹرمپ کی طرف سے کینیڈا، چین اور میکسیکو پر نئے تجارتی محصولات کی تعمیل کے اعلان کے بعد ایشیائی مارکیٹوں میں سخت مندی دیکھنے کو ملی ہے۔ ہانگ کانگ، جاپان اور جنوبی کوریا کی اسٹاک مارکیٹس میں دو فیصد سے زیادہ کی کمی ریکارڈ کی گئی، اور چین کی کرنسی یوآن کی قیمت میں بھی کمی آئی ہے۔ ٹرمپ کے متنازعہ اقدامات نے عالمی تجارتی صورتحال کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور یہ عالمی معیشت کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا بن سکتا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے اعلان میں کہا ہے کہ وہ چین سے 10 فیصد، اور کینیڈا و میکسیکو سے 25 فیصد محصولات عائد کریں گے۔ ان اقدامات کا فوری اثر خود امریکی مارکیٹ پر بھی پڑا ہے اور تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ امریکی صدر کے اعلان کے فوراً بعد جاپان کی ٹویوٹا اور نسان جیسے بڑے آٹو میکرز جو میکسیکو سے امریکا کو گاڑیاں برآمد کرتے ہیں، شدید متاثر ہوئے اور ان کے شیئرز میں پانچ فیصد سے زیادہ کی کمی آئی۔ یہ بھی پڑھیں: بھارتی دفاعی بجٹ میں اضافے کی سفارش: کیا یہ طاقتور فوجی انقلاب کی بنیاد ہے؟ جنوبی کوریا کی کمپنی کییا موٹرز کی اسٹاک قیمتوں میں سات فیصد سے زیادہ کی گراوٹ آئی۔ ٹرمپ کے اس اقدام کا اثر صرف آٹو انڈسٹری تک محدود نہیں رہا بلکہ تائیوان کی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر بھی پڑا ہے۔ فاکسکان، کوانٹا اور انوینٹیک جیسے بڑے ادارے جن کے میکسیکو میں پیداواری یونٹس ہیں، ان کے شیئرز بھی دس فیصد تک گر گئے۔ ٹرمپ کے اس سخت فیصلے کے بعد، کینیڈا اور میکسیکو نے بھی امریکی مصنوعات پر اضافی محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا۔ دوسری جانب کینیڈا نے 25 فیصد کے محصولات کے ساتھ تقریباً 155 ارب ڈالر مالیت کی امریکی مصنوعات پر پابندیاں عائد کر دیں۔ میکسیکو نے بھی امریکی مصنوعات پر جوابی ٹیکس لگانے کا عندیہ دیا ہے جس سے مزید کشیدگی کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ امریکی صدر نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ محصولات مقامی امریکی صنعتوں اور ملازمتوں کو بچانے کے لیے ضروری ہیں۔ ٹرمپ نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ابتدائی طور پر امریکی عوام کو کچھ مشکل کا سامنا ہو سکتا ہے لیکن ان کے بقول یہ تمام اقدامات آخرکار “قیمت کے قابل” ہوں گے۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ یورپی یونین کے خلاف بھی جلد ہی تجارتی محصولات عائد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے یورپ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یورپ امریکی مصنوعات کو کافی حد تک نہیں خرید رہا اور اس کی وجہ سے امریکی صنعتوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ یورپی کمیشن اور مختلف یورپی ممالک کے حکام نے اس اقدام کے خلاف شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے الجزیرہ کے مطابق یورپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر امریکا نے یورپ کے خلاف تجارتی محصولات عائد کیے تو وہ بھی جوابی کارروائی کریں گے۔ یورپی حکام نے ٹرمپ کے اس اقدام کو عالمی تجارتی اصولوں کے خلاف قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس سے عالمی اقتصادی بحران کا آغاز ہو سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے اس فیصلے کا عالمی معیشت پر سنگین اثر پڑ سکتا ہے۔ عالمی سطح پر طلب میں کمی، تجارتی تعلقات میں کشیدگی اور قیمتوں میں اضافے کے امکانات کے پیش نظر، عالمی منڈیوں میں شدید اتار چڑھاؤ آ سکتا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس اقدام سے عالمی ترقی کی رفتار سست ہو سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں بے روزگاری اور معاشی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس حالیہ فیصلے نے دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ اگر یہ تنازعات بڑھتے ہیں تو عالمی معیشت کو شدید نقصان ہو سکتا ہے اور یہ اقدامات نہ صرف امریکا بلکہ عالمی سطح پر تجارت کے مستقبل کو غیر یقینی بنا سکتے ہیں۔ مزید پڑھیں: امریکی اسلحہ: افغانستان کے بازاروں میں بکنے لگا