دوسرے صوبوں سے تین ججوں کی اسلام آباد منتقلی: لاہور ہائی کورٹ بار کا احتجاج

اسلام آباد کی تینوں بار کونسلز نے لاہور، بلوچستان اور سندھ ہائی کورٹس سے تین ججوں کی اسلام آباد ہائی کورٹ منتقلی کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ اور ماتحت عدالتوں میں ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ بار کونسلز کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ججوں کی منتقلی کا نوٹیفیکیشن واپس لیا جائے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ بار، اسلام آباد بار کونسل اور ڈسٹرکٹ کورٹس ایسوسی ایشن کی مشترکہ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے اس خط کے ساتھ ہیں جس میں ملک کی دوسری ہائی کورٹس سے ججوں کو اسلام آباد ہائی کورٹ ٹرانسفر کرنے کی مخالفت کی گئی ہے۔ خط میں کہا گیا تھا اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سے ہی لگایا جائے۔ واضح رہے کہ صدر آصف علی زرداری نے دو روز قبل لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹ سے ایک، ایک جج کا اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلہ کر دیا تھا جبکہ اس سے ایک روز قبل ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں نے دوسری ہائی کورٹ سے جج لا کر اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس بنانے کی خبروں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ صدر زرداری نے آئین کے آرٹیکل 200 کی شق (ون) کے تحت تینوں ججوں کے تبادلے کیے ہیں جس کا نوٹی فکیشن وزارت قانون و انصاف کی جانب سے جاری کر دیا گیا ہے۔ نوٹی فکیشن کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر، سندھ ہائی کورٹ سے جسٹس خادم حسین سومرو اور بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس محمد آصف کا اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلہ کیا گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 200 کے مطابق صدر ہائی کورٹ کے کسی بھی جج کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں منتقل کر سکتے ہیں، لیکن جج کو ان کی رضامندی اور صدر کی طرف سے چیف جسٹس آف پاکستان اور دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کی مشاورت کے بعد منتقل کیا جائے گا۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسڑار آفس کی جانب سے جاری ججز روٹا کے مطابق ٹرانسفر ہونے والے ججز آج مختلف مقدمات کی سماعت کریں گے۔ جسٹس سرفراز ڈوگر سینیئرز میں دوسرے نمبر ہر آگئے ہیں جبکہ جسٹس محسن اختر کیانی اب سینیئرز میں تیسرے نمبر پر چلے گئے ہیں۔ دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ بار نے ججوں کے اسلام آباد ہائی کورٹ ٹرانسفر پر ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ بار کا کہنا ہے کہ ‏وکلا ارجنٹ کیسز کے بعد عدالتوں میں پیش نہیں ہوں گے۔

عالمی بینک کا داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے لیے 1 ارب ڈالر قرض کی فراہمی کا اعلان

عالمی بینک نے پاکستان کے داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے 1 ارب ڈالر قرض کی منظوری دے دی، قرض کی یہ رقم داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے استعمال کی جائے گی۔ نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق وزارت برائے اقتصادی امور (ای اے ڈی) کے سینئر عہدیدار نے دی نیوز کو بتایا کہ ورلڈ بینک باضابطہ طور پر داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے پہلے مرحلے کے لیے ایک ارب ڈالر کا نیا قرض فراہم کرے گا۔ یہ قرض 1.7ٹریلین روپے کی لاگت سے ترمیم شدہ پی سی 1 کی منظوری کے بعد دیا جائے گا، جس میں نئے ٹائم لائنز شامل کیے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق زمینی حصول میں تاخیر، سکیورٹی خدشات اور امریکی ڈالر کی قدر میں اضافے سے منصوبے کے پہلے مرحلے کی لاگت190.1فیصد اضافے کے ساتھ 586 ارب روپے سے بڑھ کر 1700ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔   واضح رہے کہ پہلے مرحلے کا یہ منصوبہ 2160 میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا، جب کہ منصوبے کے دوسرے مرحلے کی تکمیل کے بعد یہ4320 میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا۔ دوسری جانب واپڈا نے منصوبے کا ترمیم شدہ پی سی 1 تیار کر لیا ہے، جو اب وزیر برائے آبی وسائل کے پاس موجود ہے اور جلد ہی منظوری کے لیے پلاننگ کمیشن کو بھیجا جائے گا۔ یاد رہے کہ اس رقم سے پن بجلی کی فراہمی میں اضافہ ہوگا، جو کہ داسو ہائیڈرو پراجیکٹ کے فیز ون پر خرچ کی جائے گی۔ اس منسوبے سے سستی بجلی پیدا ہو گی، کیونکہ بجلی کی پیداوار کا سب سے سستا طریقہ پانی کے ذریعے بجلی پیدا کرنا ہے، اس طرح سستی بجلی حاصل کرنے کے لیے دریاؤں پر ڈیم بنائے جاتے ہیں۔ ملک میں اس وقت 3 بڑے منصوبوں جیسے دیامر بھاشا ڈیم، مہمند ڈیم اور داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر کام جاری ہے۔ خیال رہے کہ داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع اپر کوہستان میں چین کے تعاون سے زیر تعمیر بجلی کی پیداوار کا سب سے بڑا قومی منصوبہ ہے، جس سے 4320 سے 5400 میگاواٹ تک بجلی پیدا کی جائے گی۔ یہ منصوبہ مالی سال 2023-24 میں مکمل ہونا تھا، لیکن زمین کے حصول میں رکاوٹوں اور کورونا کی وبا کے باعث کام تاخیر کا شکار ہو گیا، اب اس کی تکمیل 2026-27 میں متوقع ہے۔

ٹوٹے پھوٹے ’عروس البلاد‘ میں نئے قبرستان بنیں گے

وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ” کراچی میں نئے قبرستان بنائے جائیں گے اور ان کے انتظام کو بہتر بنانے کے لئے سندھ حکومت ایک اتھارٹی بھی بنا رہی ہے۔ تعلیم اور صحت کی ذمہ داری بلاشبہ ریاست کی ہے لیکن ہم وسائل کی کمی کی وجہ سے یہ سہولیات نہیں دے پارہے ہیں اور المصطفی ویلفیئر سوسائٹی جیسے فلاحی ادارے اس میں ہماری بھرپور مدد کررہے ہیں جو قابل ستائش ہیں”۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کے روز المصطفی ویلفیئر سوسائٹی کے تحت سرد خانے کی افتتاح کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب سے المصطفی ویلفیئر سوسائٹی کے سرپرست اعلٰی سابق وفاقی وزیر حاجی محمد حنیف طیب، رکن سندھ اسمبلی آصف موسی و دیگر نے بھی خطاب کیا۔ قبل ازیں صوبائی وزیر سعید غنی نے 19 میتوں کی گنجائش والے جدید سرد خانے کا افتتاح کیا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا کہ “المصطفیٰ ویلفئیر سوسائٹی طویل عرصے سے فلاحی کام کر رہی ہے۔ ان کے سرپرست اعلی حاجی محمد حنیف طیب کی کاوشوں اور انتھک شب و روز محنت کے سبب یہ ادارہ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں پاکستانی فلاحی کاموں کےلیے مشہور ہیں”۔ انہوں نے کہا کہ “اس ادارے کے تحت جو سہولیات فراہم کر رہے ہیں وہ معیاری ہیں۔ آج المصطفیٰ سرد خانے کا افتتاح کیا گیا ہے، جس میں بیک وقت 19 میتوں کو رکھنے کی گنجائش ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ اس کے علاوہ اس سوسائٹی کے تحت شہر میں 5 اسپتال اور 15 کلینک،  22 اسکول چلائی جارہی ہیں، بزرگ شہریوں کے لئیے بھی رہائش کے لئے سنئیر سیٹیزن ہوم بنایا گیا ہے تاکہ انہیں چھت مل سکے۔ یہ تمام سہولت بھی یہاں تقریبا مفت ہے”۔ سعید غنی نے کہا کہ “المصطفیٰ ویلفئیر سوسائٹی والوں کا یہ ایک چھوٹا سا حصہ ہے، جو وہ اس شہر اور ملک کے لئے کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے بتایا ہے کہ انہیں قبرستان اور اسپتال کے لئے زمین کی ضرورت ہے۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ آپ ہمارا ہاتھ بٹا رہے ہیں حکومت آپ کی مدد کرے گی، اسپتال یا قبرستان کی زمین کے لئے درخواست جمع کرادی ہے تو اس پر کارروائی ہوگی اور اگر نہیں کرائی تو بھی جمع کرادیں ہم ان کو بھرپور ساتھ دیں گے”۔ سعید غنی نے کہا کہ “وزیر اعلٰی سندھ سید مراد علی شاہ نے اس سلسلے میں ہمیشہ ہماری مدد فرمائی ہے اور ان سے بات کرکے ان کو زمین کے لئے ضرور مدد کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس شہر میں نئے قبرستان بنائے جائیں گے اور ان کے انتظامات کو بہتر انداز میں چلانے کے لئے ایک اتھارٹی بھی بنائی جائے گی۔ انہوں نے حاجی محمد حنیف طیب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو ہماری جس مدد کی ضرورت ہوگی تو مدد کریں گے۔ ہم اپنے حصے کا کام اگر ٹھیک طرح نہیں کر پائے تو یہ کام آپ لوگ کر رہے ہیں اور ہماری مدد کررہے ہیں”۔ سعید غنی نے مزید کہا کہ “تعلیم اور صحت کے شعبے میں یہ جو کام کر رہے ہیں وہ ریاست اور حکومت کی ہے کہ شہریوں کو یہ سہولیات فراہم کرے، ہم وسائل کی کمی کی وجہ سے یہ سہولیات نہیں دے پارہے ہیں،  المصطفی ویلفیئر سوسائٹی جیسے ادارے جو سہولیات فراہم کر رہے ہیں وہ معیاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں اتنے سرد خانے نہیں ہیں”۔

“دریائے سندھ سے نہریں نکالی گئیں تو پیپلز پارٹی شہباز شریف کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کرے گی” ترجمان سندھ حکومت

پاکستان پیپلز پارٹی نے دریائے سندھ سے کینال نکالنے پر وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی دھمکی دے دی، کہا گیا کہ اگر دریائے سندھ سے کینال نکالی گئی تو وفاقی حکومت سے الگ ہو جائیں گے۔ نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ترجمان سندھ حکومت نادر گبول نے کہا ہے کہ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی حکومت کو واضح کر دیا ہے کہ اگر دریائے سندھ سے کینال نکالے گئے تو وفاقی حکومت سے الگ ہو جائیں گے۔ ترجمان سندھ حکومت نادر گبول کے مطابق اگر دریائے سندھ سے کینال نکالے گئے تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی یہ حکومت نہیں رہے گی۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے وزیرِ اعظم شہباز شریف کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جائے گی، جیسا کہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف 2022 میں عدم اعتماد کی تحریک چلائی گئی تھی۔ مزید یہ کہ سندھ کا کوئی شخص دریائے سندھ سے کینال نکالے جانے کو قبول نہیں کرے گا، کسی کو بھی سندھ کے پانی پر ڈاکا ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ خیال رہے کہ گزشتہ برس وفاقی حکومت نے گرین پاکستان انیشی ایٹیو کے تحت پاکستان ایریگیشن نیٹ ورک کے ٹیلی میٹری سسٹم کے نفاذ، ارسا پالیسی کی از سرِ نو تشکیل اور چھ نئی اسٹریٹیجک نہروں کی تعمیر کا فیصلہ کیا تھا۔ مجوزہ نہروں میں سندھ میں رینی نہراور تھر نہر، پنجاب میں چولستان نہر، گریٹر تھل نہر، بلوچستان میں کچھی نہر اور خیبر پختونخوا میں چشمہ رائٹ بینک کینال (سی آر بی سی) شامل ہیں۔ اس منصوبے کے خلاف گزشتہ برس سے سندھ میں سراپا احتجاج جاری ہے، کئی ریلیاں روزانہ کی بنیاد پر نکالی جا رہی ہیں۔ ترجمان سندھ حکومت نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز بس سروس کے کرایوں میں اضافہ ناگزیر تھا، فیصلہ کیا گیا ہے کہ صحافیوں اور طلبا کے مفت سفر کو یقینی بنایا جائے گا۔ نادر گبول نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کی اب سیاست دم توڑ گئی، وہ اب خود کو میڈیا میں زندہ کرنا چاہ رہے ہیں، اسی لیے وہ بنا کسی وجہ کے پیپلز پارٹی پر تنقید کر رہے ہیں اور ایم کیو ایم کا پیشہ تو بوری بند لاشیں اور قتل و غارت رہا ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں کئی بار ملک میں عدم اعتماد کی تحریکیں چلائی گئیں، جس سے حکومت کا تختہ الٹ گیا۔ 2022 میں ملک کی بڑی جماعتوں کی جانب سے مہنگائی اور معاشی بدانتظامی کی وجہ تحریک عدم اعتماد چلائی گئی، جس سے پی ٹی آئی حکومت نے اپنا اختیار کھو دیا۔ دوسری طرف 1989 میں بے نظیر بھٹو کے خلاف ملک کی بڑی جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد کی، مگر وہ ناکام ہو گئی۔ واضح رہے کہ پاکستان میں تحریکِ عدم اعتماد کا طریقہ کار 1973 کے آئین میں وضع کیا گیا تھا۔

“پیکا ایکٹ میں ایک شق بتا دیں جو متنازع یا قابل اعتراض ہو” عطا تارڑ کا تقریب سے خطاب

 وفاقی وزیر عطا تارڑ نے لاہور میں اے پی پی ایمپلائز یونین پنجاب کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے صحافی بھائی احتجاج کر رہے ہیں لیکن پیکا قانون کو روکنے کا کیا جواز ہے؟ کیا غلط خبر چلانا بند نہیں ہونا چاہیے۔” مجھے ایک شق بتا دیں جو متنازع یا قابل اعتراض ہے۔ جس کا جو دل چاہے وہ کہہ دیتا ہے کہ فلاں بندہ ہم سے مخالف نظریات رکھتا ہے تو اس پر حملہ کر دو۔ مجھے بتائیں کہ کیا سائبر کرائمز کا کوئی ادارہ ایسے واقعات” کو روک سکتا ہے”؟”   انہوں نے کہا جو لوگ ایسا غلط خبریں پھیلاتے ہیں احتساب تو دور کی بات ہے کوئی پوچھ بھی نہیں سکتا۔ ہم نے صرف ایک فورم دیا ہے کہ جاؤ اور اپنی شکایت بتاو”۔ ہم نے یہ قانون اس لیے بنایا ہے وہ واقعات جن میں مذہبی وجوہات پر لوگ قتل کر دیے جاتے ہیں ایسے واقعات کو روکیں۔ کیا یہ معاشرہ اسی طرح چلے گا”۔” لاپور میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “دہشت گرد بھی یہی سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔ ٹی ٹی پی بھی استعمال کرتی ہے۔ جس کا جو دل کرے کسی کو نقصان پہنچاتا ہے”۔ یہ صحافیوں کی حفاظت کے لیے ہیں۔ اور ہم اس کی ضمانت دیتے ہیں۔ ہم آگے کی مشاورت بیٹھ کر کر سکتے ہیں”۔” ہمیں بتائیں تو سہی کہ کوئی شق قابل اعتراز کیوں ہے۔ کوئی بھی یہ نہیں کہے گا کہ ہمارے بچوں کو حفاظت نہ دیں۔ یہ قانون آپ کے اور آپ کے بچوں کی حفاظت کا قانون ہے”۔” جب صحافیوں کے نمائندے اس میں شامل ہیں تو کیسے صحافیوں کا استحصال ہوسکتا”۔”

’آگے کا راستہ واشنگٹن میں دیکھتے ہیں‘ اسرائیلی وزیراعظم ٹرمپ سے ملاقات کریں گے

غزہ میں جنگ بندی کو توسیع دینے کے لیے نیتن یاہو ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔ حالانکہ انہیں جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے لیے وفد بھیجنے کی ضرورت ہے۔ معاہدے کی شرائط کے تحت جنگ بندی یکم مارچ کو ختم ہونے والی ہے۔  اگلے مرحلے پر بات چیت سوموار کے بعد شروع ہونے والی ہے۔ لیکن اسرائیلی حکومت نے ابھی تک مذاکرات کے لیے مذاکراتی ٹیم کا اعلان نہیں کیا ہے، حماس اس ہفتے کو مصر یا قطر میں اپنا  وفد بھیج رہی ہے۔مذاکرات کے لیے اسرائیل کو بھی اپنا وفد بھیجنے کی ضرورت ہے۔ مذاکرات میں ثالث کے طور پر کام کرنے والے قطر کے وزیر اعظم نے اتوار کو کہا کہ “مذاکرات کب اور کیسے شروع ہوں گے اس بارے میں کوئی واضح تفصیلات نہیں ہیں”۔ دوحہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران محمد بن عبدالرحمن الثانی نے کہا کہ “ہمیں آنے والے دنوں میں کچھ تحریک دیکھنے کی امید ہے”۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے واضح کیا ہے کہ “وہ آگے کا راستہ دوحہ یا قاہرہ میں نہیں بلکہ واشنگٹن میں دیکھتے ہیں”، جہاں وہ اس ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے باضابطہ ملاقات کرنے والے پہلے غیر ملکی رہنما بن جائیں گے۔ نیتن یاہو کے دفتر نے ان کی روانگی کے موقع پر کہا کہ “انہوں نے ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی کے ساتھ اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ یرغمالیوں کے معاہدے کے دوسرے مرحلے پر بات چیت ان کی واشنگٹن میں ملاقات سے شروع ہو گی جس کے دوران وہ اسرائیل کے موقف پر تبادلہ خیال کریں گے”۔   جنوری کو جنگ بندی کے بعد سے حماس اور اس کے اتحادیوں نے غزہ میں قید 18 یرغمالیوں کو رہا کر دیا ہے۔ اس کے بدلے میں، اسرائیلی حکومت نے حراست میں رکھے گئے 583 فلسطینیوں کو رہا کیا ہے ،  ان میں 19 افراد ایسے بھی شامل ہیں جن پر مبینہ طور پر ‘سنگین جرائم‘ کا الزام ہے۔ اسرائیل میں بہت سے ایسے بہت سے بچے بھی ہیں جو بغیر کسی الزام کے جیلوں میں قید کاٹ رہے ہیں۔ جنگ بندی کے نتیجے میں غزہ کے آبادی کے مراکز سے اسرائیلی افواج کے انخلاء، امدادی کارروائیوں میں اضافے اور گزشتہ سال مئی کے بعد پہلی بار مصر کے ساتھ سرحد پر رفع کراسنگ کو زخمیوں کے انخلاء کے لیے کھولنا دیکھا گیا ہے۔ لیکن جنگ بندی کا پہلا مرحلہ صرف 42 دن کے لیے تھا۔ دوسرے مرحلے کے لیے بات چیت سوموار کے روز، جنگ بندی کے 16ویں دن شروع ہونی چاہیے، اس کا مطلب ہے کہ نیتن یاہو پہلے ٹرمپ سے بات کر کے معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ اس دوسری مدت کے دوران، اسرائیلی فوج غزہ سے مکمل طور پر نکل جائے گی اور تمام زندہ یرغمالیوں، فوجی اور سویلین کو مزید فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کر دیا جائے گا۔ اس ہفتے نیتن یاہو وہی چاہیں گے جو ٹرمپ چاہتے ہیں۔ جنگ بندی مذاکرات کے پہلے دور میں امریکی صدر ابھی تک عہدے پر نہیں تھے، حالانکہ ان کی ٹیم نے اسرائیل کو معاہدے کی طرف دھکیلنے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔

“امریکیوں کو کچھ دیر پریشانی ہو سکتی ہے” ٹرمپ نے خبردار کر دیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ میکسیکو، کینیڈا اور چین پر لگائے گئے بڑے ٹیرف امریکیوں کے لیے کچھ عرصے کی تکلیف کا باعث بن سکتے ہیں کیونکہ عالمی منڈیوں نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ ٹیکسز ترقی کی شرح کو کمزور کر سکتے ہیں اور افراط زر کو دوبارہ بڑھا سکتے ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ پیر کو کینیڈا اور میکسیکو کے رہنماؤں کے ساتھ بات کریں گے، جنہوں نے اپنے طور پر جوابی ٹیرف کا اعلان کیا ہے، لیکن توقعات کا اظہار کم کیا کہ وہ اپنا ذہن بدل لیں گے”۔ فلوریڈا میں اپنی ماراےلاگو اسٹیٹ سے واشنگٹن واپس آتے ہوئے ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا، ’’مجھے کسی ڈرامائی چیز کی توقع نہیں ہے۔ ان ممالک پر بہت زیادہ رقم واجب الادا ہے، اور مجھے یقین ہے کہ وہ ادا کرنے جا رہے ہیں”۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ “ٹیرف یورپی یونین کے ساتھ یقینی طور پر ہوں گے” ،لیکن یہ نہیں بتایا کہ کب ہوں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ریپبلکن صدر کا کینیڈا اور میکسیکو پر 25فیصد اور چین پر 10فیصد ٹیرف لگانے کا منصوبہ عالمی ترقی کو سست کر دے گا اور امریکیوں کے لیے قیمتیں بلند کر دے گی۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انہیں امیگریشن اور منشیات کی اسمگلنگ کو روکنے اور گھریلو صنعتوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ “ہمیں کچھ وقت تھوڑا نقصان ہو سکتا ہے، اور لوگ اسے سمجھتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد امریکا کو اس کا بہت فائدہ ہو سکتا ہے”۔ شمالی امریکہ کی کمپنیوں نے نئی ڈیوٹی لگائی جو صنعتوں کو آٹوز اور کنزیومر گڈز سے لے کر انرجی تک بڑھا سکتی ہے۔ آئی این جی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے ٹیرف تمام امریکی درآمدات کا تقریباً نصف احاطہ کریں گے اور اس فرق کو پورا کرنے کے لیے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو اپنی مینوفیکچرنگ آؤٹ پٹ کو دوگنا کرنے کی ضرورت ہوگی جو کہ قریب ترین مدت میں ایک ناقابل عمل کام ہے۔ تجزیہ کاروں نے اتوار کو کہا، “معاشی طور پر، تجارتی تناؤ میں اضافہ تمام ممالک کے لیے نقصان دہ صورت حال ہے”۔ دوسرے تجزیہ کار نے کہا کہ ٹیرف کینیڈا اور میکسیکو کو ترقی کے وقفے میں ڈال سکتے ہیں اور گھر وں میں مہنگائی ،  بلند افراط زر، کمزور اقتصادی ترقی اور بیروزگاری کا آغاز کر سکتے ہیں۔

“حکومت اور اپوزیشن آئین کی دھجیاں نہ بکھیریں” وکلا کا 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف مارچ اور ہڑتال کا اعلان

وکلا برادری کی جانب سے 26 آئینی ترمیم کے خلاف پیر کے روز اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کیا گیا ہے، مارچ کا اعلان لاہور ہائی کورٹ بار کے زیر اہتمام ہونے والے وکلاء کنونشن میں کیا گیا۔ اتوار کو لاہور میں ہونے والے آل پاکستان وکلا کنونشن کی صدارت لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر اسد منظور بٹ نے کی۔ لاہور ہائی کورٹ بار کے تحت ہونے والے آل پاکستان وکلا کنونشن کے مشترکہ اعلامیے میں سپریم جوڈيشل کونسل کا اجلاس فوری منسوخ کرنے، 26 ویں ترمیم کے خلاف درخواستوں پر فل کورٹ تشکیل دینے اور ترمیم کے خلاف درخواست پر سماعت براہِ راست نشر کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گيا ہے کہ جب تک 26 ویں ترمیم کا فیصلہ نہیں ہوتا اس وقت تک نئی تعیناتیاں نہ کی جائیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج کو ہی چیف جسٹس بنایا جائے۔ لاہور ہائی کورٹ بار وکلا کنونشن میں حال ہی میں پاس کیے گئے پیکا ایکٹ کی بھی مذمت کی گئی۔ لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر اسد منظور بٹ نے کہا ہے کہ صحافیوں کی جدوجہد کا مکمل ساتھ دیتے ہیں۔ وکلا کنویشن سے خطاب میں وکیل رہنما حامد خان نے کہا کہ وکلا کی تحریک شروع ہوچکی ہے، یہ 26 ویں ترمیم کو بہا لے جائے گی۔ صحافیوں کی آزادی ختم کرنے کے لیے پیکا ایکٹ میں ترمیم کی گئی، وکلا ہر فورم پر صحافیوں کے ساتھ ہیں۔ دوسری طرف اسلام آباد کی تینوں بارز  نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دیگر ہائی کورٹس سے ججز کی منتقلی کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کل ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ اسلام آباد کی تینوں نمائندہ بار کونسلز کے مشترکہ اجلاس نے تین ججز کے اسلام آباد ہائی کورٹ منتقلی کا نوٹیفکیشن واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پیکا ایکٹ کے ذریعے میڈیا کو فتح کرلیا گیا اور اب اسلام آباد ہائی کورٹ کو فتح کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بار کونسلز تین ججز کے اسلام آباد ہائی کورٹ منتقل ہونے کا نوٹیفکیشن ہرفورم پرچیلنج کریں گی۔ جوڈیشل کمیشن کا سپریم کورٹ کے ججزکی تعیناتی کے لیے 10 فروری کا اجلاس مؤخرکیا جائے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ تین فروری 11 بجے تمام بارکونسلز کے زیر اہتمام وکلا کنونشن کا انعقاد کیا جائےگا، اسلام آباد ہائی کورٹ اور ماتحت عدالتوں میں 3تین فروری کو وکلا ہڑتال کریں گے۔ صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ریاست علی آزاد نے کہا کہ سینئر موسٹ جج کو چیف جسٹس بنانا تھا، 26 ویں آئینی ترمیم میں بھی یہی لکھا ہے، آئینی ترمیم بھی بدنیتی پر مبنی تھی، اس کے باوجود ٹرانسفر کیے جا رہے ہیں۔ وکلا تحریک آج بھی چل رہی ہے، لیکن کچھ لوگ اقتدار میں بیٹھ کرفائدہ لے رہے ہیں۔ صدر اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار نعیم علی گجر  نے کہا کہ جب قانون پاس ہونا ہو یا کوئی آئین شکنی ہوتو وکلا ہی سامنے آتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں جب اقتدار میں آتی ہیں تو ماضی بھول جاتی ہیں، ہم کسی جج یا شخصیت کے ساتھ نہیں، عدلیہ اور آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ تین سینئر ججز میں سے ایک کو چیف جسٹس بنایا جائے۔ نعیم علی گجر نے کہا کہ وکلا باہر سے آنے والے ججز کے خلاف بھرپور احتجاج اور مزاحمت کریں گے۔

شام کے عبوری صدر احمد الشرع پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب پہنچ گئے

شام کے عبوری صدر احمد الشرع اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب پہنچ گئے ہیں جہاں ان کا استقبال ریاض کے نائب گورنر محمد بن عبد الرحمان بن عبد العزیز نے کیا۔ اس موقع پر احمد الشرع کے ساتھ شام کے عبوری وزیر خارجہ اسد الشیبانی بھی موجود تھے۔ سعودی عرب کا یہ دورہ احمد الشرع کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو گا، کیونکہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ان کی متوقع ملاقات شام کے مستقبل کے حوالے سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ دورہ اس لیے بھی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ شام میں حالیہ دنوں میں ایک نیا سیاسی منظرنامہ ابھر کر سامنے آیا ہے جس نے پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ شام کے آئین کو منسوخ کرنے کے بعد احمد الشرع کو عبوری صدر منتخب کیا گیا ہے اور ان کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں ایک نیا سیاسی آغاز ہو چکا ہے۔ شام کی تاریخ میں یہ ایک انتہائی غیر متوقع اور دل دہلا دینے والا موڑ تھا۔ بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے والی شامی باغی فورسز نے اس وقت کامیابی حاصل کی جب انہوں نے دمشق پر قبضہ کیا اور اس کے بعد بشار الاسد اور ان کے خاندان کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ یاد رہے کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد نئی شامی انتظامیہ کے ساتھ سعودی عرب کی جانب سے پہلا باضابطہ رابطہ کیا گیا تھا جس میں دو طرفہ تعلقات سمیت دیگر امور کو بہتر انداز سے بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔ سعودی میڈیا کے مطابق سعودی شاہی مشیر کی قیادت میں وفد نے شام میں پیپلز پیلس میں نئی شامی انتظامیہ کے سربراہ احمد الشعر سے ملاقات کی تھی جس میں مستقبل میں تعلقات کو بہتر بنانے اور دیگر امور کو بہتر انداز سے آگے بڑھانے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ بشار الاسد کی حکومت کے بعد شامی عوام کے لیے یہ لمحہ ایک نیا عہد تھا، جس میں انہیں امید کی کرن نظر آنا شروع ہوئی۔ مزید پڑھیں: غزہ میں جنگ بندی کے بعد اسرائیل کے مغربی پٹی پر حملے، کئی عمارتیں منہدم، متعدد شہادتوں کا خدشہ ماضی میں جب شام پر 5 دہائیوں تک بشار الاسد خاندان کی حکمرانی تھی ملک میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کا فقدان تھا اور عوام کو مسلسل ظلم و ستم کا سامنا تھا۔ مگر اس حالیہ تبدیلی نے پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور عالمی سیاست میں نئی صف بندیاں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ شامی باغیوں نے جیت کی خوشی میں سرکاری ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ تمام قیدیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہیں اور شام میں انتقامی کارروائیوں سے گریز کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ احمد الشرع، جنہیں ابو محمد الجولانی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، وہ حیات تحریر الشام کے سربراہ ہیں، اور ان کی قیادت میں شامی باغیوں نے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان کے عبوری صدر منتخب ہونے کے بعد شام کی سیاست میں ایک نئی توانائی آ چکی ہے۔ احمد الشرع کا کہنا تھا کہ شام میں آئندہ انتخابات میں 4 سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے اس دوران ایک عبوری قانون ساز کونسل تشکیل دی جائے گی جو نئے آئین کی منظوری تک کام کرے گی۔ دوسری جانب احمد الشرع نے سعودی میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ کہا کہ سعودی عرب شام کے مستقبل میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب میں سرمایہ کاری کے مواقعوں پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ وہ سعودی عرب میں ہی پیدا ہوئے اور اپنے ابتدائی 7 برس وہاں گزارے ہیں۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ان کی ملاقات شام کی اکانومک ترقی اور سیاسی استحکام کے حوالے سے اہم ہو گی۔ یہ دورہ اس بات کا اشارہ ہے کہ سعودی عرب شام کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنا چاہتا ہے اور شام کی معیشت کو دوبارہ نئی زندگی دینے کے لیے ممکنہ سرمایہ کاری کے دروازے کھولنے کی کوشش کر رہا ہے۔ شام میں جاری اس سیاسی تبدیلی نے نہ صرف خطے کی سیاست کو متاثر کیا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی کئی ممالک کی پالیسیوں میں تبدیلیاں لائی ہیں۔ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام میں نیا سیاسی منظرنامہ تشکیل پا رہا ہے، جس کا اثر پورے مشرق وسطیٰ پر پڑ سکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا احمد الشرع کے عبوری صدر بننے کے بعد شام میں کوئی بڑا سیاسی استحکام آ سکے گا؟ کیا سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک اس تبدیلی کے ساتھ کھڑے ہوں گے؟ اور کیا شامی عوام کو آخرکار وہ آزادی اور ترقی ملے گی جس کا وہ طویل عرصے سے انتظار کر رہے ہیں؟ یہ تمام سوالات اس وقت پورے خطے میں اہمیت رکھتے ہیں اور یہ تیزی سے بدلتے حالات آنے والے دنوں میں ایک نیا سیاسی دھارا تشکیل دے سکتے ہیں۔ مزید پڑھیں:  سمجھ نہیں آتا جشن منائیں یا ماتم کریں’ شامی شہر حماۃ میں خوفناک قتل عام کے 43 برس

کرم میں قیام امن کے لیے اسلام آباد میں گرینڈ جرگہ، سوشل میڈیا کے منفی استعمال کی روک تھام پر اتفاق

کرم میں قیام امن کے لئے اسلام آباد میں منعقد ہونے والا گرینڈ جرگہ اختتام پذیر ہو گیا، جس میں فریقین نے سوشل میڈیا کا غلط استعمال روکنے پر اتفاق کر لیا۔ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں قیامِ امن کے لیے آج اسلام آباد میں سینیٹر سجاد سید میاں کے گھر پر گرینڈ جرگے کا انعقاد کیا گیا۔ سجاد سید میاں نے عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جرگے کا انعقاد قیامِ امن کے لیے عمائدین کو قریب لانے کے لیے کیا گیا ہے، جس کا مقصد کرم میں امن لانا ہے، کرم کے عوام امن کے لیے ترس رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق گرینڈ جرگہ میں سوشل میڈیا کے غلط استعمال کی روک تھام سمیت قیام امن کے لئے ضروری اقدامات پر بات چیت ہوئی،دونوں فریقین میں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ نجی ٹی وی چینل ایکسپریس کے مطابق جرگہ ممبر سید رضا حسین نے کہا ہے کہ دونوں فریقین کے عمائدین کے جرگے کی دوسری نشست کل پشاور میں ہوگی۔ واضح رہے کہ طویل بدامنی کے دوران پہلی بار جرگے کی بدولت عمائدین آپس میں بیٹھے، گلے شکوے کئے۔ جرگے میں طے کیا گیا ہے کہ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھا جائے گا اور فریقین ایک دوسرے کے مقدس مقامات کا احترام کریں گے۔ مزید یہ کہ جرگے میں فریقین کی جانب سے مستقبل میں ایسے جرگوں کے انعقاد اور جنگ بندی کے لیے 14 نکات پر مشتمل لائحہ عمل تیار کیا گیا۔ یاد رہے کہ خیبر پختونخوا گزشتہ ایک عرصے سے بدامنی کا شکار ہے،تاریخی طور پر اس علاقے میں ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں، مگر 21 نومبر 2024 کو ضلع کرم میں ایک بار پھر فرقہ ورانہ جھڑپ ہوئی، جس میں 76 سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے۔ کرم میں جاری کشیدگی کے باعث گزشتہ چار ماہ سے آمد و رفت کا سلسلہ بند ہے، جس کی وجہ سے پانچ لاکھ سے زائد افراد اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ نجی خبررساں ادارے ڈیلی پاکستان کے مطابق کرم میں اب تک 157 بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ 31 دسمبر کو دونوں فریقین نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کیے، جس میں امن معاہدہ طے پا گیا۔ کوہاٹ میں منعقدہ اس گرینڈ جرگے میں دونوں فریقین کے 45، 45 نمائندوں نے شرکت کی اور معاہدے پر دستخط کیے۔ معاہدے کے نکات میں اسلحہ جمع کرانا، شاہراہوں کی حفاظت، فرقہ وارانہ جھڑپوں کا خاتمہ، امن کمیٹیوں کا قیام اور کالعدم تنظیموں کی حوصلہ شکنی شامل تھی۔ پہلے کی طرح یہ معاہدہ بھی زیادہ دیر چل نہ سکا اور دونوں فریقین میں کئی جھڑپیں ہوئیں، جس میں متعدد افراد ہلاک ہو گئے۔ اس وقت ضلع کرم میں دفعہ 144 نافذ ہے، جس کے مطابق اسلحے کی نمائش اور 5 سے زائد افراد کا اکٹھے جمع ہونا منع ہے۔