ہمارے معاشرے میں لوگ عموماً اپنی ناکامیوں کو چھپاتے ہیں اور صرف کامیابیوں کا ذکر کرتے ہیں،مرتضیٰ وہاب

کراچی کے مئیر مرتضیٰ وہاب نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میں آج یہاں ہوں لیکن یہ سب آسانی سے نہیں آیا۔ میری زندگی کی ایک کہانی ہے جسے بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ میری زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے ہیں، میں سیدھا مئیر نہیں بن گیا۔ انہوں نے کہا میں جب نو سال کا تھا تو میرے والد کا انتقال ہوگیا۔ اس وقت میں بہت مایوس ہو سکتا تھا کہ میرے والد نہیں رہے لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔ میں نے محنت کی اچھے اسکولوں میں پڑھا، کالج ختم کیا اور پھر یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی کوشش کی، لیکن وہاں بھی فیل ہوگیا۔ اس وقت بھی میں مایوس ہو سکتا تھا لیکن میں نے ہمت سے کام لیا، قانون کی تعلیم حاصل کی اور وکیل بننے کا فیصلہ کیا۔ یاد ہے کہ میں جس یونیورسٹی میں جانا چاہتا تھا وہاں میرا داخلہ نہیں ہوا، جس سے میں مایوس ہو گیا تھا لیکن میری ماں نے مجھے سمجھایا کہ یہ زندگی کا حصہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے پھر قانون کے شعبے کو منتخب کیا اور یہاں تک پہنچا۔ ہمارے معاشرے میں لوگ عموماً اپنی ناکامیوں کو چھپاتے ہیں اور صرف کامیابیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ مزید پڑھیں: حکومت بجلی سستی کرنے میں ناکام: کیا حکمران ’اعلان بغاوت‘ کے منتظر ہیں؟ ہمیں اپنے ماضی پر فخر کرنا چاہیے چاہے ہم کہاں تھے اور آج کہاں ہیں۔ معاشرے میں بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے محنت سے اپنی زندگی بدل کر کامیابی حاصل کی ہے۔ اگر ہم یہ باتیں اپنے معاشرتی سطح پر شیئر کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ بہت سے وزرا اور افسران ہیں جن کا پس منظر بہت سادہ تھا لیکن انہوں نے محنت سے کامیابی حاصل کی۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ میں خود جب لندن سے پڑھ کر واپس آیا تو میں نے سوچا تھا کہ وہاں سے آ کر بہت پیسہ کماؤں گا، لیکن میری پہلی نوکری میں صرف پانچ ہزار روپے تنخواہ ملی۔ تاہم، میری اصل حوصلہ افزائی یہ تھی کہ اگر مجھے زیادہ پیسہ کمانا ہے تو محنت اور جدوجہد کرنا ہوگی۔ آج میں اس مقام پر ہوں اور مجھے پورا یقین ہے کہ آپ بھی اس مقام تک پہنچ سکتے ہیں۔ آپ بھی میری طرح محنت کر کے وہ سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں جو آپ چاہتے ہیں۔ ضرور پڑھیں:مراکش کشتی حادثے میں بچ جانے والے پاکستانی نوجوانوں کی وطن واپسی
مراکش کشتی حادثے میں بچ جانے والے پاکستانی نوجوانوں کی وطن واپسی

مراکش کے ساحل پر 16 جنوری کو پیش آنے والا سانحہ ایک خوفناک داستان بن کر سامنے آیا ہے۔ ایک کشتی جو 2 جنوری کو موریتانیا سے اسپین جانے کے لیے روانہ ہوئی تھی بحیرۂ روم کی گہرائیوں میں ڈوب کر 86 تارکین وطن کی زندگیوں کو لے گئی۔ اس کشتی میں 66 پاکستانی بھی سوار تھے جن میں سے آٹھ نے معجزاتی طور پر جان بچا لی۔ یہ لوگ اسلام آباد کی پرواز QR614 کے ذریعے وطن واپس پہنچے لیکن ان کے ساتھ ایک دردناک کہانی بھی تھی۔ ان افراد کی عمریں 21 سے 41 سال کے درمیان تھیں اور ان کا تعلق پاکستان کے مختلف شہروں سے تھا جیسے کہ شیخوپورہ، سیالکوٹ، منڈی بہاؤالدین، گجرات، اور جہلم۔ مزید پڑھیں: پندرہ ماہ کی جنگ نے غزہ کو کس طرح تباہ کیا، بحالی میں کتنا وقت درکار؟ یہ لوگ ایک خواب کی تکمیل کے لیے غیر قانونی طور پر اسپین پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن وہ ایک ایسے سفر پر روانہ ہوئے جس میں انسانی اسمگلرز نے انہیں نہ صرف دھوکہ دیا بلکہ ان کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیں۔ حکام کے مطابق ان افراد نے اسپین جانے کے لیے بھاری رقم انسانی اسمگلرز کو دی تھی۔ اسمگلر ان لوگوں کو پہلے دبئی لے گئے پھر ایتھوپیا اور سینیگال کے راستوں سے اسپین روانہ کرنے کے لیے ایک خطرناک کشتی میں سوار کیا۔ یہ کشتی جو سینیگال سے اسپین کی طرف بڑھ رہی تھی ایک ایسی بھیانک شام کی علامت بن گئی جب وہ مراکش کے ساحل کے قریب غرق ہو گئی۔ دھند اور طوفان میں ڈوبتی ہوئی کشتی اور اس پر سوار 86 افراد میں سے صرف 36 بچ پائے۔ ان میں سے آٹھ پاکستانیوں نے اپنے جانیں بچانے کی ایک شدید جدوجہد کے بعد، کسی طرح مراکش کے ساحل تک پہنچ کر زندہ رہنے کا معجزہ کیا۔ بچ جانے والے افراد نے بتایا کہ اسمگلروں نے نہ صرف ان سے بھاری رقم وصول کی تھی بلکہ انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بنایا تھا۔ جبکہ پاکستانی حکام نے اس سانحے کے بعد فوری طور پر تحقیقات کا آغاز کیا۔ یہ بھی پڑھیں: چنگاری سے راکھ تک:لاس اینجلس میں کتنا نقصان ہوچکا؟ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے اس انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورک کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی ہیں جو پنجاب کے مختلف علاقوں میں کام کر رہا تھا۔ ایف آئی اے کے ذرائع کے مطابق اسمگلرز نے ان افراد کو انتہائی خطرناک راستوں پر روانہ کیا اور ان کی زندگیوں کو گہری مشکلات میں ڈال دیا۔ یہ سانحہ صرف ایک حادثہ نہیں تھا بلکہ ایک نشاندہی ہے کہ پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورک کس قدر مضبوط اور خطرناک ہیں۔ حکام نے پاکستانی شہریوں کو غیر قانونی ہجرت کے راستوں سے بچنے کی ہدایت کی ہے اور انہیں سرکاری سفارتخانوں کے ذریعے اپنے سفر کی تصدیق کرنے کی اپیل کی ہے۔ اس واقعے کے بعد وزیرِاعظم شہباز شریف کی منظوری سے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل احمد اسحاق جہانگیر کو انتظامی ناکامیوں کے باعث عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا، کیونکہ انسانی اسمگلنگ کے معاملات میں ایف آئی اے کی سست ردعمل پر شدید تنقید کی جا رہی تھی۔ پاکستانی حکام اب اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس سانحے کے بعد نہ صرف ان لوگوں کو انصاف ملے بلکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں۔ ضرور پڑٰھیں: ’یہاں صرف ملبے کے ڈھیر ہیں‘ غزہ لوٹنے والا کا دل ٹوٹ گیا ان زندہ بچ جانے والوں کی کہانی ایک پیغام ہے کہ غیر قانونی ہجرت کبھی بھی سرفراز نہیں کرتی بلکہ انسان کو زندگی اور موت کے درمیان ایک خوفناک معرکے میں ڈال دیتی ہے۔
بلوچستان میں فورسز کی کارروائیوں میں 23 دہشتگرد ہلاک

پاک فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان کے مختلف 2 مختلف علاقوں میں آپریشنز کیے گئے۔ ان کارروائیوں کے دوران 23 دہشتگرد ہلاک ہوگئے ہیں۔ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کی جانب سے ہفتہ کو جاری کردہ بیان کے مطابق ان آپریشنز کے دوران دہشتگردوں کے حملے میں پاک فوج کے 18 جوان مارے گئے ہیں۔ 31جنوری اور یکم فروری کی درمیانی شب دہشت گردوں نے بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے منگوچر میں روڈ بلاک کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں سیکیورٹی فورسز نے ان کے خلاف کارروائی کی۔ مقابلے کے دوران پاکستانی فورسز کے 18 اہلکار مارے گئے ۔ آئی ایس پی آر کا دعویٰ ہے کہ سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جوابی کارروائی میں آپریشن کرتے ہوئے 12 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق 31 جنوری اور یکم فروری کی رات دہشتگردوں نے روڈ بلاک کرنے کی کوشش کی، سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے فوری متحرک ہوئے اور سکیورٹی فورسز نے دہشتگردوں کے مذموم عزائم کو کامیابی سے ناکام بنایا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا کہنا ہے کہ گھناؤنے بزدلانہ فعل کے مرتکب اور سہولتکاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے، قلات کے علاقے منگوچر میں ہونے والی کارروائی کے تناظر میں ہرنائی میں کلیئرنس آپریشن کیا گیا جس میں مزید 11 دہشتگردوں کو ہلاک کیا گیا۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز بلوچستان کا امن سبوتاژ کرنےکی کوششیں ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں، ہمارے بہادر سپاہیوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔ بیان کے مطابق مقامی آبادی کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے 12 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا، دشمن قوتوں کی ایما پر دہشتگردی کا مقصد بلوچستان کا پُرامن ماحول خراب کرنا تھا۔ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے اس حملے کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ قوم دہشت گردی کے خلاف پاکستانی فوج کے ساتھ ہے۔ صدرمملکت آصف علی زرداری نے بلوچستان واقعے کی مذمت کرتے ہوئے پاکستانی فورسز کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
پاکستان اور سربیا میں قربتیں بڑھنے لگیں

پاکستان اورسربیا کے درمیان دوطرفہ سیاسی مشاورت کا پانچواں دور دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد ہوا، جس میں دونوں ممالک نے اپنے تعلقات کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ اس اہم موقع پر پاکستانی وفد کی قیادت ایڈیشنل سیکرٹری برائے یورپ، شفقت علی خان نے کی، جب کہ سربیا کے وفد کی قیادت وزیر خارجہ، دمجان جووک نے کی۔ ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان سیاسی، تجارتی، اقتصادی اور ثقافتی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ پاکستانی اور سربین رہنماؤں نے نہ صرف دوطرفہ تعلقات کے اہم پہلوؤں پر گفتگو کی بلکہ عوامی سطح پر تعلقات کو فروغ دینے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنانے پر بھی زور دیا۔ یہ اجلاس اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ اپنے روابط کو مزید پائیدار بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ دونوں فریقین نے باہمی تعلقات میں ترقی کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کیا اوراتفاق کیا کہ مزید تعاون کے راستے تلاش کیے جائیں گے، خاص طور پرسفارتی، اقتصادی اور ثقافتی میدان میں تعاون کا فروغ دیا جائے گا۔ پاکستان اور سربیا نے اہم علاقائی اور بین الاقوامی امور پر بھی اپنے خیالات کا تبادلہ کیا اور اس بات کا عہد کیا کہ عالمی سطح پر اپنی شراکت داری کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ دونوں ممالک نے اپنے مشترکہ مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی راہوں کو تلاش کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ تعاون کی اس نئی لہر سے دونوں ممالک کو فوائد حاصل ہوں گے۔ اس مشاورت کے دوران، دونوں فریقین نے اپنے تعلقات کو باہمی احترام کی بنیاد پر اپنے روابط کو مزید مستحکم کرنے کا عزم کیا۔ اس ملاقات سے دونوں ممالک کے درمیان نئے مواقع کی توقعات وابستہ ہو چکی ہیں جو نہ صرف سیاسی بلکہ اقتصادی اور ثقافتی سطح پر بھی کامیاب ثابت ہوں گے۔
چوہوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی انسانوں کے لیے وبال جان بن گئی

دنیا بھر میں چوہوں کا پھیلاؤ ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف شہری انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ صحت کے لیے بھی خطرات پیدا ہو رہے ہیں۔ حالیہ تحقیق نے یہ واضح کیا ہے کہ چوہوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا تعلق صرف زیادہ آبادی یا کھانے کی کمی سے نہیں بلکہ ایک اور سنگین عنصر آب و ہوا کی تبدیلی سے ہے۔ یونیورسٹی آف رچمنڈ کے پروفیسر جوناتھن رچرڈسن نے دنیا میں چوہوں کے بڑھتے ہوئے رجحانات پر تحقیق شروع کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے بتایا کہ ان کی ٹیم نے امریکا کے 200 بڑے شہروں سے چوہوں کے اعداد و شمار جمع کیے لیکن صرف 13 شہروں میں طویل المدت ڈیٹا دستیاب تھا جو ان کی تحقیق کے لیے ضروری تھا۔ اس کے بعد تحقیق میں بین الاقوامی شہروں ٹورنٹو، ٹوکیو اور ایمسٹرڈیم کو بھی شامل کیا گیا تاکہ جغرافیائی تنوع حاصل کیا جا سکے۔ مزید پڑھیں:مصر میں 5 ہزار سال بعد اسپوٹڈ ہائینا کی واپسی، ماہرین کو حیرت میں مبتلا کردیا اس تحقیق کے نتائج شائع ہونے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ دنیا کے 16 میں سے 11 شہروں میں چوہوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جن میں واشنگٹن ڈی سی، سان فرانسسکو، نیو یارک، ٹورنٹو اور ایمسٹرڈیم جیسے شہر میں شامل ہیں۔ رپورٹس کتے مطابق ان شہروں چوہوں کی تعداد میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ جبکہ صرف تین شہروں میں کمی دیکھنے کو ملی جن نیو اورلینز، لوئس ویل اور ٹوکیو شامل ہیں۔ رچرڈسن نے کہا کہ یہ چوہے چھوٹے ممالیہ جانور ہیں جو سردیوں میں پناہ لینے کے لئے محدود ہوتے ہیں لیکن گرم درجہ حرارت، خاص طور پر موسم سرما میں، ان کی افزائش کو بڑھا دیتا ہے۔ رچرڈسن کے بقول، گرم موسم چوہوں کو سال بھر افزائش نسل کا موقع فراہم کرتا ہے اور اس کے علاوہ یہ موسم انہیں شکار سے محفوظ رکھنے کے لیے زیادہ وقت دیتا ہے۔ اس کے علاوہ ماہر ماحولیات اور جنگلی چوہوں کے ماہر ‘مائیکل پارسنز’ نے کہا کہ گرم موسم چوہوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا سبب بن سکتا ہے۔ جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو چوہے کھانے کے ذرائع اور پناہ گاہوں کے لیے مزید مواقع حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ موسم کی گرمی سے کھانے اور کچرے کی بو دور تک پھیلتی ہے جس سے چوہے آسانی سے شہروں میں پھیل جاتے ہیں۔ شہری چوہوں کی بڑھتی ہوئی تعداد شہر کے لیے بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ چوہے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچاتے ہیں، کھانے کو آلودہ کرتے ہیں اور تاروں کو کاٹ کر آگ بھی لگا سکتے ہیں، اس سے امریکا میں ہر سال 27 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ چوہے مختلف بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بھی بنتے ہیں۔ کارنیل یونیورسٹی کے ماہر انسیکٹس ‘میٹ فرائی’ کے مطابق چوہے 50 سے زائد جراثیموں کو منتقل کرتے ہیں جن میں لیپٹوسپائروسس جیسے سنگین امراض شامل ہیں جو انسانوں میں گردے اور جگر کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور علاج کے بغیر موت کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں پولیو کے کیسز میں اضافہ، ویکسی نیشن ٹیموں پر حملے بھی بڑھ گئے واشنگٹن ڈی سی میں چوہوں پر قابو پانے کی مہم کے ذمہ دار ‘جیرارڈ براؤن’ کہتے ہیں کہ کوڑے دان میں کھانا نہ ڈالنے سے چوہوں کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سردی کے موسم میں چوہوں کی تعداد میں کمی آتی ہے اور یہی وہ وقت ہے جب چوہوں کی آبادی پر قابو پانے کی کوششیں کامیاب ہو سکتی ہیں۔ رچرڈسن اور ان کی ٹیم نے تحقیق کے دوران یہ نتیجہ اخذ کیا کہ شہروں کو چوہوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے حکام کو مشورہ دیا کہ وہ مہلک کنٹرول کے بجائے چوہوں کی افزائش کو روکنے کے لیے مناسب تدابیر اختیار کریں، جیسے کھانے کے فضلے اور کچرے تک رسائی کو کم کرنا۔ اگر شہروں نے چوہوں کے بڑھتے ہوئے مسئلے پر قابو نہ پایا تو یہ بات صاف ظاہر ہے کہ صورتحال بدتر ہو جائے گی۔
آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 : کون سا میچ کب اور کہاں ہوگا؟

آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 کا شیڈول جاری کردیا گیا، ایونٹ کا آغاز19 فروری کو کراچی میں ہوگا جبکہ اختتام 9 مارچ کو ہوگا، چیمپنئز ٹرافی کا میزبان پاکستان ہے، انڈین ٹیم کے پاکستان نہ آنے سے انڈیا کے تمام میجز دبئی میں ہوں گے ۔ بقیہ میچز پاکستان کے شہروں لاہور، کراچی اور راولپنڈی میں ہوں گے۔ گروپ میچز کے بعد، اگر انڈیا سیمی فائنل یا فائنل میں پہنچتا ہے تو انڈیا کے ساتھ تمام میچز دوبئی میں ہوں گے اور اگر انڈیا ناک آؤٹ میچز میں نہیں پہنچ پاتا ہے تو سارے میچز پاکستان میں کھیلے جائیں گے۔ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 کا شیڈول: وقت مقام میچ دن دن 2 بجے نیشنل اسٹیڈیم کراچی پاکستان بمقابلہ نیوزی لینڈ گروپ اے 19 فروری دن 1 بجے دبئی انٹرنیشنل اسٹیڈیم بنگلہ دیش بمقابلہ انڈیا گروپ اے 20 فروری دن 2 بجے نیشنل اسٹیڈیم کراچی افغانستان بمقابلہ ساؤتھ افریقہ گروپ بی 21فروری دن 2 بجے قذافی اسٹیڈیم لاہور آسٹریلیا بمقابلہ انگلینڈ گروپ بی 22 فروری دن 1 بجے دبئی انٹرنیشنل اسٹیڈیم پاکستان بمقابلہ انڈیا گروپ اے 23 فروری دن 2 بجے راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم بنگلہ دیش بمقابلہ نیوزی لینڈ گروپ اے 24 فروری دن 2 بجے راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم آسٹریلیا بمقابلہ ساؤتھ افریقہ گروپ بی 25 فروری دن 2 بجے قذافی اسٹیڈیم لاہور افغانستان بمقابلہ انگلینڈ گروپ بی 26 فروری دن 2 بجے راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم پاکستان بمقابلہ بنگلہ دیش گروپ اے 27 فروری دن 2 بجے قذافی اسٹیڈیم لاہور افغانستان بمقابلہ آسٹریلیا گروپ بی 28 فروی دن 2 بجے نیشنل اسٹیڈیم کراچی ساؤتھ افریقہ بمقابلہ انگلینڈ گروپ بی 1 مارچ دن 1 بجے دبئی انٹر نیشنل اسٹیڈیم نیوزی لینڈ بمقابلہ انڈیا گروپ اے 2 مارچ دن 1 بجے – پہلا سیمی فائنل (اے1 بمقابلہ بی2) 4 مارچ دن 2بجے – دوسرا سیمی فائنل(بی1 بمقابلہ اے2) 5 مارچ دن2:30بجے – فائنل 9 مارچ
مصر میں 5 ہزار سال بعد اسپوٹڈ ہائینا کی واپسی، ماہرین کو حیرت میں مبتلا کردیا

مصر کے علاقے وادی یہمب کے ایک دور دراز گاؤں میں ہونے والا ایک غیر متوقع واقعہ، ماہرین کو حیرت میں مبتلا کرگیا ہے۔ اس گاؤں کے رہائشیوں نے اپنی مویشیوں کو بچانے کے لیے ایک جانی دشمن کو پکڑ کر مار ڈالا۔ یہ دشمن کوئی اور نہیں بلکہ وہ جانور تھا جس کا نام آج سے 5000 سال پہلے مصر سے معدوم ہو چکا تھا، یہ ہائینا گاؤں میں موجود دو بکریوں کو مار کر فرار ہو گیا تھا، اور مقامی لوگ اپنی مویشیوں کو بچانے کے لیے پک اپ ٹرک میں اس کا پیچھا کرتے ہوئے اسے آخرکار ہلاک کر دیا۔ جب عبدالله ناجی، جو کہ قاہرہ کی الازہر یونیورسٹی میں جانوروں کے ماہر ہیں ان کو اس واقعے کی ویڈیو ملی تو وہ اس پر یقین نہیں کر پائے۔ انہوں نے اپنے دوست سے مذاق سمجھا اور کہا “یہ کہاں ہو رہا ہے؟ یہ جانور تو ہمارے ملک میں موجود ہی نہیں ہے کیا تم نے سوڈان میں جا کر کچھ ایسا دیکھ لیا ہے؟” بعد ازاں جب مزید تصاویر موصول ہوئیں تو یہ انکشاف ہوا کہ یہ ایک اسپوٹڈ ہائینا تھا، جو مصر کے جنوبی سرحد کے قریب سوڈان کے علاقے سے تقریباً 300 میل دور تک آ پہنچا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسپوٹڈ ہائینا کا مصر میں 5000 سال بعد آنا ایک نیا ریکارڈ ہے۔ اس سے پہلے مصر میں صرف دو دوسرے قسم کے ہائینا ملتے تھے یعنی اسٹرائپڈ ہائینا اور آرڈ ولف، مگر اسپوٹڈ ہائینا اس ملک سے ہمیشہ کے لیے غائب ہو چکا تھا۔ اس جانور کا مصر میں دوبارہ آنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ماحول میں تبدیلیاں آ چکی ہیں جو اس کے لیے رہنے کے قابل بناتی ہیں۔ ڈاکٹر ناجی اور ان کے ساتھیوں نے اس واقعے کے بارے میں تحقیقی مقالہ مملیہ (Mammalia) نامی جریدے میں شائع کیا ہے۔ جب ڈاکٹر ناجی نے اس کا پہلا ویڈیو دیکھا، تو وہ حیران کن طور پر اس کو جھوٹ سمجھ بیٹھے۔لیکن جب مزید تصویری شواہد سامنے آئے، تو انہوں نے اپنے ذہن میں حقیقت کو تسلیم کیا۔ اسپوٹڈ ہائینا کو اکثر مردار کھانے والا سمجھا جاتا ہے، لیکن در حقیقت یہ زیادہ تر شکار خود ہی کرتے ہیں۔ یہ جانور ایک پیچیدہ سماجی ڈھانچے میں رہتے ہیں جسے کلین کہا جاتا ہے، جو کہ ممالیہ کے کچھ جانداروں کی طرح ہے، جیسے کہ بندر۔ ان کا گروہ زیادہ تر قوتِ ارادی کی بدولت اپنی بقاء کے لیے مختلف حالات میں جیت جاتا ہے۔ ہائینا کی ماہر ‘ڈاکٹر کرسٹین وِلکنسن’ نے کہا کہ اسپوٹڈ ہائینا انتہائی لچکدار جانور ہے اور وہ کسی بھی ماحول میں زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ جانور دراصل افریقی علاقے میں بڑے شکاریوں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب ہو رہے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ ان کی ایڈاپٹیو صلاحیت ہے۔ ڈاکٹر ناجی اور ان کے ساتھیوں نے اس معاملے کی تحقیقات کی تو پتہ چلا کہ اس علاقے میں حالیہ برسوں میں بارشوں کی کمی اور خشکی کا دور ختم ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں اس علاقے میں نباتات کی بڑھوتری ہوئی ہے، اور اب یہاں گزالوں جیسے جانداروں کی تعداد بڑھ گئی ہے، جو اسپوٹڈ ہائینا کے لیے شکار کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ یہ واقعہ ایک تلخ حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ جہاں ایک طرف ہائینا نے اپنے قدرتی ماحول میں واپس آنا شروع کیا ہے، وہیں دوسری طرف انسانوں کے ساتھ تنازعات کا سامنا بھی کر رہے ہیں۔ جب ہائینا مویشیوں کو شکار کرتے ہیں تو مقامی افراد ان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں کیونکہ ان کے لیے اپنے جانوروں کی حفاظت زیادہ ضروری ہوتی ہے۔ ڈاکٹر وِلکنسن نے کہا کہ “جب ہائینا مویشیوں کو مارے تو لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے مال کی حفاظت کے لیے انہیں مارنا ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، اور اس کا حل نکالنا بہت ضروری ہے۔“ اگرچہ اس اسپوٹڈ ہائینا کی مصر میں واپسی کا اختتام قتل پر ہوا، لیکن اس کا جسم اب بھی علم و تحقیق کا ذریعہ بنے گا۔ ڈاکٹر ناجی نے گاؤں کے لوگوں سے درخواست کی ہے کہ وہ اس جانور کو دفن کر دیں تاکہ اس کی لاش کا مطالعہ کیا جا سکے۔ وہ آئندہ ماہ گاؤں کا دورہ کر کے اس ہائینا کی ہڈیوں کو اپنے یونیورسٹی کے میوزیم میں لے جائیں گے تاکہ اس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی جا سکیں۔ یہ واقعہ صرف مصر کے لیے نہیں بلکہ دنیا بھر کے لیے ایک سبق ہے کہ قدرتی ماحول میں ہونے والی تبدیلیاں کس طرح جانداروں کو نئے علاقوں کی طرف کھینچ لاتی ہیں اور کس طرح انسان اور جانوروں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی ماحولیات کے لیے ایک سنگین مسئلہ بن سکتی ہے۔
حماس نے 183 فلسطینیوں کے بدلے مزید تین اسرائیلی رہا کر دیے

فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس نے تین اسرائیلی یرغمالیوں کو اسرائیل کے حوالے کر دیا جبکہ اسرائیل کی جانب سے 183 قیدیوں کو حماس کے حوالے کیا گیا ہے۔ رغمالیوں کو اسرائیلی حکام کے حوالے کرتے ہوئے کے مناظر کو براہ راست ٹی وی پر دکھایا گیا۔ فلسطینی قیدیوں کے یرغمالیوں کے مرحلہ وار تبادلے کے تازہ ترین مرحلے میں فرانسیسی اور اسرائیلی دہری شہریت رکھنے والا اوفر کالڈیرون اور یارڈن بیباس کو جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں ریڈ کراس کے ایک اہلکار کے حوالے کیا گیا۔ اسی طرح امریکی اور اسرائیلی دہری شہریت رکھنے والے کیتھ سیگل کو بھی ہفتے کے روز ہی اسرائیل کے حوالے کیا گیا ہے۔ رہا ہونے والا بیباس دو سب سے کم عمر یرغمالیوں کا والد ہے۔ اس کا بیٹا کفیر صرف 9 ماہ کا تھا جب اسے 7 اکتوبر 2023 کو گرفتار کیا گیا۔ دوسرا بیٹیا ایریل طوفان الاقصی کی کارروائی کے وقت چار سال کا تھا۔ حماس نے نومبر 2023 میں بتایا تھا کہ لڑکے اور ان کی ماں شیری، جنہیں ایک ہی وقت میں گرفتار کیا گیا تھا، اسرائیلی فضائی حملے میں مارے گئے تھے۔ اس کے بعد سے ان پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ تین اسرائیلیوں کے بدلے تل ابیب نے 183 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا ہے۔ ہفتہ کو غزہ سے مصر جانے والے پہلے فلسطینیوں کو دوبارہ کھولی گئی رفح کراسنگ کے ذریعے دیکھنے کی بھی توقع ہے۔ اسے ابتدائی طور پر 50 زخمی عسکریت پسندوں اور 50 زخمی شہریوں کے لیے کھولا جائے گا، اس کے ساتھ ساتھ ان کو لے جانے والے لوگوں کے ساتھ، مزید 100 افراد کے ساتھ، زیادہ تر ممکنہ طور پر طالب علموں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جانے کی اجازت دی گئی ہے۔ جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں رہا ہونے والے 33 یرغمالیوں میں سے سترہ کو اب 400 فلسطینی قیدیوں اور نظربندوں کے بدلے رہا کر دیا گیا ہے۔ معاہدے کے دوسرے مرحلے میں باقی 60 سے زائد یر غمالیوں کی رہائی اور غزہ سے اسرائیلی فوجیوں کے انخلاء کے معاہدوں پر منگل تک مذاکرات شروع ہونے والے ہیں۔ ابتدائی چھ ہفتے کی جنگ بندی، مصری اور قطری ثالثوں کے ساتھ متفق تھی اور جسے امریکہ کی حمایت حاصل تھی، اب تک متعدد واقعات کے باوجود راستے پر قائم ہے جس کی وجہ سے دونوں فریق ایک دوسرے پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگا رہے ہیں۔ اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور 250 سے زائد کو یرغمال بنایا گیا۔ فلسطینی محکمہ صحت کے حکام کے مطابق جواب میں اسرائیل کی مہم نے گنجان آباد غزہ کی پٹی کو تباہ کر دیا ہے اور 47,000 سے زیادہ فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا ہے
لاکھوں افراد کے ڈیٹا چوری کے پیچھے پاکستانی: امریکی حکام نے گرفتار کر لیا

امریکا اور ہالینڈ کے حکام نے جمعرات کو پاکستان میں ہیکنگ اور دھوکہ دہی کے آلات فروخت کرنے والے غیر قانونی آن لائن ویب سائٹس کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والی کارروائی کے دوران، جسے آپریشن ہارٹ بلاکر کا نام دیا گیاتھا، 39 ویب سائٹس اور ان سے منسلک سرورز ضبط کیے گئے۔ تقریباً پانچ سالوں سے، یہ ویب سائٹس صائم رضا اور ہارٹ سینڈر کے نام سے مشہور ایک دھمکی آمیز اداکار کے ذریعے چلائی جا رہی تھیں، اور انہیں ہیکنگ کی سہولت فراہم کرنے کے طور پر اشتہار دیا جاتا تھا۔ دو ہزار بیس سے صائم رضا جرائم کرنے والے گروہوں کو فشنگ ٹول کٹس، جعلی پیجز، ای میل نکالنے، اور کوکی گرابرز فروخت کر رہے ہیں، جنہوں نے ان کا استعمال کرتے ہوئے امریکہ میں متاثرین کو 3 ملین ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچایا۔ امریکی محکمہ انصاف کا کہنا ہے کہ”کھلے انٹرنیٹ پر فراڈ کرنے والے ٹولز دستیاب کرائے گئےاور جرائم پیشہ افراد کو ان کے استعمال کے بارے میں ہدایات اور تربیت فراہم کی گئی، یہ سائبر جرائم پیشہ افراد کے لیے دستیاب کرائے جو زیادہ مہارت نہیں رکھتے تھے”۔ ان ٹولز کی تشہیر اس طرح کی گئی جس سے سائبر کرائم کے ادارے پتا نہ لگا سکے۔ اس کے علاوہ، ٹولز نے دھمکی دینے والے ہیکرزکو صارفین کی اسناد چوری کرنے کی اجازت دی، جو کہ فراڈ سکیموں کے حصے کے طور پر استعمال کیے گئے تھے۔ ڈچ پولیس نے جمعرات کو بتایا کہ دنیا بھر میں ہزاروں شرپسندوں نے بڑی تعداد میں جعلی اور غلط پیغامات بھیجنے اور متاثرین کی اسناد چرانے کے لیے صائم رضا کے ٹولز خریدے۔ غیر قانونی بازاروں پر، لوگ ہیک شدہ انفراسٹرکچر، جیسے ویب سرورز، سرورز، اور ورڈپریس اکاؤنٹس بھی خرید سکتے ہیں۔ حکام نے ٹولز کے خریداروں کی ایک بڑی تعدادکا سراغ لگایا ہےجن میں نیدرلینڈ کے افراد بھی شامل ہیں۔ پکڑے جانے کے بعد صائم رضا کے ڈیٹا سیٹس سے دنیا بھر میں لاکھوں افراد کے ڈیٹا ریکارڈز بھی ملے اور ڈچ پولیس نے ایک ویب سائٹ قائم کی ہے جہاں صارفین اپنا ای میل ایڈریس درج کر کے یہ جان سکتے ہیں کہ آیا ان کی اسناد کے ساتھ غیر قانونی کام کیا گیا ہے۔ ڈچ پولیس کا کہنا ہے کہ جن صارفین کو اپنا ایڈریس درج کرنے کے بعد ای میل موصول ہوتی ہے، انہیں فوری طور پر اپنے لاگ ان اسناد کو تبدیل کرنا چاہیے، اور جعلی ای میلز سے ہوشیار رہنا چاہیے جو کہ ہیکنگ کی کوششیں ہو سکتی ہیں۔
بریک ڈانس ہوگا یا کرکٹ کا کھیل؟ آسٹریلیا کے منفرد لمحے کا سب کو انتظار

کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ایک بریک ڈانسر کرکٹ کھیلتے ہوئے نظر آئے؟ رپورٹس کے مطابق آسٹریلوی بریک ڈانسنگ سٹار رےگن نے کرکٹ میدان میں قدم رکھنے کی تیاری کرلی ہے اور ان کی پہلی کرکٹ پرفارمنس واقعی شائقین کے لیے ایک حیرانی کا سبب بننے والی ہے۔ وہ اپنے کرکٹ ڈیبیو کے لیے وزیرِ اعظم انتھونی البانی کے گھر کری بلی ہاؤس میں ہونے والے ایک خصوصی دعوتی میچ میں حصہ لیں گی جو ایک آل سلیبرٹی لائن اپ کا حصہ ہے۔ یہ سالانہ چیریٹی کرکٹ میچ ایک منفرد انداز میں منعقد کیا جاتا ہے جس میں مشہور شخصیات اپنی کرکٹ کی مہارتیں آزمانے کے لیے ایک دوسرے کے مد مقابل آتی ہیں۔ اس بار اس دلچسپ میچ میں کرکٹ کی دنیا کے علاوہ شوبز موسیقی، اور کھیل کے میدان سے بڑی شخصیات حصہ لے رہی ہیں۔ رےگن، جو بریک ڈانسنگ کی دنیا میں اپنی منفرد پہچان بنا چکی ہیں ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی کرکٹ نہیں کھیلی لیکن اب وہ اس چیلنج کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ “میں سخت محنت اور تیاری کرنے جا رہی ہوں اور اس موقع پر اپنے کرکٹ کے ہنر کو آزمانا چاہتی ہوں۔” اس میچ میں سابق کرکٹر بریٹ لی، مشہور موسیقار ایمی شارک، اولمپک سپرنٹر میٹ شرونگٹن، اور نیشنل رگبی لیگ (این آر ایل) کے کھلاڑی ڈیمین کک جیسے بڑے نام بھی حصہ لیں گے۔ اس چیریٹی میچ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ رونالڈ میکڈونلڈ ہاؤس کے لیے رقم جمع کرنے کا ذریعہ بنے گا جس کا مقصد بچوں کے لیے طبی سہولتیں فراہم کرنا ہے۔ میزبان فٹزی اور وِپا کی جانب سے اس میچ کو ایک سالانہ روایت بنایا گیا ہے جس میں کیٹ رچی ایک طرف کے کپتان ہوں گے جبکہ لڑکے دوسرے طرف کے مشترکہ کپتان ہوں گے۔ رےگن کی شرکت اس میچ کو مزید رنگین بنا دے گی، یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ بریک ڈانسنگ کی چمکدار مہارت کرکٹ میدان میں کس طرح نظر آتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کرکٹ کی پچ پر رےگن کا بریک ڈانس ہوگا یا کرکٹ کا کھیل؟ دونوں کا امتزاج ممکن ہے۔