امریکا میں سات دن میں دوسرا حادثہ ، کیا امریکی فضائی حدود غیر محفوظ ہوگئیں؟

امریکا ہوائی حادثات کی زد میں ہے ایک ہفتے میں دو حادثات ہوچکے ہیں ۔ان حادثات میں 73 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ ہوا بازی کی دنیا یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے کہ واشنگٹن میں مسافر طیارے اور فوجی ہیلی کاپٹر کے درمیان فضا میں ہونے والا مہلک تصادم کیسے ہوا۔ ایک ماہر کے مطابق یہ حادثہ ’دنیا کی سب سے زیادہ کنٹرول شدہ فضائی حدود‘ میں ہوا ہے، یعنی یہاں پرواز کرنے پر کڑی سختیاں ہیں۔ امریکی فوج کا بلیک ہاک ہیلی کاپٹر واشنگٹن نیشنل ایئرپورٹ پر اترنے سے چند سیکنڈ قبل امریکن ایئر لائنز کے طیارے سے ٹکرا گیا جس میں 64 افراد سوار تھے۔ دونوں جہاز بدھ کی رات یخ بستہ پوٹومیک دریا میں جا گرے۔ اگرچہ ہیلی کاپٹر کا بلیک بوکس برآمد کر لیا گیا ہے تاہم حادثے کی اصل وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکی ہے۔ فروری 2009 کے بعد سے امریکی مسافر بردار ہوائی جہاز کا کوئی جان لیوا حادثہ نہیں ہوا، لیکن حالیہ برسوں میں ہونے والے واقعات کی ایک سیریز نے حفاظت کے سنگین خدشات پیدا کر دیے ہیں۔ این بی سی نے اطلاع دی ہے کہ “چار افراد کو دریائے پوٹومیک سے زندہ نکالا گیا ہے”۔ یو ایس فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن نے کہا کہ “پی ایس اے ایئر لائنز کا علاقائی جیٹ ریگن کے قریب پہنچتے ہوئے ہیلی کاپٹر سے درمیانی ہوا میں ٹکرا گیا”۔ دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ متعدد ایجنسیاں ہوائی اڈے سے متصل دریائے پوٹومیک میں تلاش اور بچاؤ کے آپریشن میں شامل تھیں۔ ہوائی اڈے کے حکام نے بدھ کے روز کہا کہ “تمام ٹیک آف اور لینڈنگ روک دی گئی ہیں کیونکہ ہنگامی عملے نے ہوائی جہاز کے واقعے پر ردعمل ظاہر کیا”۔ نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ نے کہا کہ” وہ اس واقعے کے بارے میں مزید معلومات اکٹھا کر رہیں”۔ امریکی ائیر لائن کی جانب سے سوشل میڈیا پر کہا گیا کہ”وہ ان اطلاعات سے آگاہ ہے کہ ای ایس اے 5342 پروازایک حادثے کا شکار ہوئی ہے۔ View this post on Instagram A post shared by NBC4 Washington (@nbcwashington) امریکن ایئر لائنز نے کہا کہ “وہ مزید معلومات فراہم کرے گی جیسے ہی یہ کمپنی کو ملتی ہیں ۔ پچھلے دو سالوں کے دوران، واقعات کی ایک سیریز نے امریکی ایوی ایشن کی حفاظت اور فضائی ٹریفک کنٹرول آپریشنز پر دباؤ کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔ ایف اے اے ایڈمنسٹریٹر مائیک وائٹیکر نے 20 جنوری کو استعفیٰ دے دیا تھا اور ٹرمپ انتظامیہ نے کسی متبادل کا نام نہیں لیا ہے – یہ بھی ظاہر نہیں کیا ہے کہ کون عبوری بنیادوں پر ایجنسی چلا رہا ہے۔ امریکہ میں کمرشل ہوائی جہاز کے ساتھ آخری مہلک بڑا حادثہ 2009 میں ہوا تھا، جب کولگن ایئر کی پرواز میں سوار 49 افراد ریاست نیویارک میں گر کر تباہ ہو گئے تھے۔ ایک شخص کی موت بھی ہوئی۔ وزیراعظم پاکستان محمد شہبازشریف نے جانی نقصان پر اظہار افسوس کیا ہے۔ ایکس پر ایک پیغام میں انہوں نے کہا کہ ’اس مشکل میں ہماری ہمدردیاں اور دعائیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی عوام کے ساتھ ہیں۔‘
“اسٹیڈیم کی بروقت تعمیر سے کئی لوگوں کے خواب ٹوٹے ہیں” محسن نقوی کی پریس کانفرنس

پی سی بی چیئرمین محسن نقوی نےقذافی اسٹیڈیم لاہور میں میڈیا سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ دیکھا جاسکتاہے کہ اسٹیڈیم کا تمام کام مکمل ہوچکا ہے، اسٹیڈیم کی بروقت تعمیر سے کئی لوگوں کے خواب ٹوٹے ہیں۔ پی سی بی چیئرمین محسن نقوی نے قذافی اسٹیڈیم لاہور کا دورہ کیا اور تمام معاملات کا جائزہ لیا ہے۔ اسٹیڈیم میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ چیمپئن ٹرافی کے ا سکواڈ کا اعلان آج تھوڑی دیر بعد کیا جائے گا۔ قذافی اسٹیڈیم کے کام کے حوالے سے انھوں نے کہا ہے کہ اسٹیڈیم کا تمام کام مکمل ہوچکا ہے۔ وہ تمام لوگ جو ایونٹ کو باہر لے کر جانا چاہتے تھے، اسٹیڈیم کے بروقت کام مکمل ہونے سے ان کے خواب ٹوٹے ہیں۔ اسٹیڈیم میں کی گئی نصب کرسیوں پر بات کرتے ہوئے پی سی بی چیئرمین نے کہا کہ اسٹیڈیم میں نصب کی گئی تمام کرسیاں چین سے منگوائی گئی ہیں، جو پرانی کرسیوں سے 5 گنا سستی ہیں۔ اسٹیڈیم میں نصب کی گئی تمام کرسیاں معیاری ہیں اور ان کی بیس سال کی وارنٹی ہے۔ اس کے علاوہ سیٹوں کے معیار پر کسی طرح کا کمپرومائز نہیں کیا گیا اور سرحد پار بھی بات کی گئی ہے۔ قذافی اسٹیڈیم کی تعمیر میں خرچ ہونے والے پیسوں کے حوالے سے انھوں نے کہا ہے کہ جو بجٹ مقرر کیا گیا تھا، اسی کے اندر رہتے ہوئے تمام کام مکمل کیا گیا ہے اور مقررہ بجٹ میں مین بلڈنگ شامل نہیں تھی۔ مزید یہ کہ کرکٹ بورڈ ایک آزاد اور خودمختار ادارہ ہے، حکومت سے نہ ہی پیسے لیتے ہیں اور نہ ہی گرانٹ لیتے ہیں۔ کرکٹ بورڈ کا اپنا پیسہ ہے اور خود خرچ کرسکتے ہیں۔ قذافی اسٹیڈیم لاہور کے نام کی تبدیلی پر بات کرتے ہوئے پی سی بی چیئرمین نے کہا ہے کہ ابھی اسٹیڈیم کا نام یہی رہے گا اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ وزیرِاعظم پاکستان شہباز شریف 7 فروری کو اسٹیڈیم کا افتتاح کریں گے اور افتتاح سے قبل اسٹیڈیم کی تعمیر کا تمام چھوٹا بڑا کام مکمل ہوجائے گا۔اسٹیڈیم کی تعمیر کا کام اکتوبر سے جاری ہے۔ میڈیا کو مخاطب کرتے ہوئے پی سی بی چیئرمین نے کہا کہ اتنے چکر میرے یہاں اسٹیڈیم میں نہیں لگے جتنے آپ لوگوں کے لگے ہیں۔ قذافی اسٹیڈیم کی تعمیر مکمل کرنے کا وعدہ 31 جنوری کا کیا تھا اور وعدہ پورا ہوگیا ہے۔ دوسری جانب نیشنل اسٹیڈیم کراچی کے افتتاح کے حوالے سے انھوں نے کہا ہے کہ صدر آصف علی زرداری 11 فروری کو نیشنل اسٹیڈیم کا افتتاح کریں گے۔ انھوں نے ناقدین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تعمیری تنقید پر سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ محسن نقوی نے کہا ہےکہ چیمپئن ٹرافی کی تقریب کا انعقاد 16 فروری کو آئی سی سی کے ساتھ مل کر کریں گے۔ ہم آئی سی سی سے مسلسل رابطے میں ہیں اور آئی سی سی سے صاف کہا ہے کہ پاسز نہیں ٹکٹس لیں گے۔ چیمپئن ٹرافی کے لیے پاکستان تشریف لانے والی تمام ٹیموں کا ویلکم کریں گے۔ ٹیم سلیکشن پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ چیمپئن ٹرافی کے لیے اسکواڈ کا اعلان تھوڑی دیر میں کردیا جائے گا، ٹیم کا انتخاب سلیکشن کمیٹی کرے گی، کھلاڑیوں کی ٹیم میں شمولیت میرٹ کی بنیاد پر کی جائے گی۔ پاکستانی اوپننگ بلے باز صائم ایوب کےحوالے سے بات کرتے ہوئے محسن نقوی نے کہا ہے کہ صائم کے ڈاکٹر سے مسلسل رابطے میں ہوں، صائم کی طبیعت اب کافی بہتر ہے پلستر بھی اتر گیا ہے، جلد وہ ٹیم میں شامل ہوں گے۔ یاد رہے کہ چیمپئن ٹرافی 2025 کی مہمان نوازی پاکستان کو سونپی گئی ہے، جس کے لیے مقررہ اسٹیڈیمز کی تعمیر اوربحالی کا کام کیا جارہا ہے۔چیمپئن ٹرافی 19 فروری سے 9 مارچ تک پاکستان میں کھیلی جائے گی، تاہم اس کے چند میچز دبئی میں کھیلے جائیں گے، کیونکہ انڈیا نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان میں میچز کھیلنے سے انکار کردیا ہے۔
شام کی نئی حکومت کی پالیسی: ایک تہائی ملازمین برطرف کر دیے

شام کے نئے اسلام پسند رہنما ملک کی ٹوٹی پھوٹی معیشت کی بنیاد پر نظر ثانی کر رہے ہیں، جس میں سرکاری شعبے کے ایک تہائی ملازمین کو برطرف کرنے اور اسد خاندان کے اقتدار کے دوران بننے والی سرکاری کمپنیوں کی نجکاری کے منصوبے شامل ہیں۔ بدعنوانی کے خلاف اعلان کردہ کریک ڈاؤن کی رفتارنے حکومتی کارکنوں کے احتجاج کو جنم دیا ہے ۔ جنہوں نے 8 دسمبر کو باغیوں کی جانب سے اسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے چند ہفتوں بعد ہی پہلی برطرفی دیکھی ہے ، جس میں فرقہ وارانہ ملازمتوں کے خاتمے کے خدشات بھی شامل ہیں۔ اسد اور اس کے والد کے دور میں، شام کو ایک عسکری، ریاستی قیادت والی معیشت کے طور پر منظم کیا گیا تھا جو اتحادیوں اور خاندان کے ارکان کے ایک اندرونی حلقے کی حمایت کرتا تھا، جس میں خاندان کے علوی فرقے کے افراد کی عوامی شعبے میں بہت زیادہ نمائندگی تھی۔ شام کے نئے وزیر اقتصادیات، 40 سالہ سابق توانائی کے انجینئر باسل عبدل حنان نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اب ایک مسابقتی آزاد منڈی کی معیشت کی طرف ایک بڑی تبدیلی آ رہی ہے۔ عبوری صدر احمد الشارع کی پالیسی کے مطابق، حکومت سرکاری صنعتی کمپنیوں کی نجکاری پر کام کرے گی، کل 107 کمپنیاں ہیں اور زیادہ تر خسارے میں ہیں۔ تاہم، انہوں نے توانائی اور ٹرانسپورٹ کے اثاثوں کو عوامی ہاتھوں میں رکھنے کا عزم کیا۔ انہوں نے فروخت کی جانے والی کمپنیوں کے نام نہیں بتائے۔ شام کی اہم صنعتوں میں تیل، سیمنٹ اور سٹیل شامل ہیں۔ وزیر خزانہ محمد ابزید نے ایک انٹرویو میں کہا کہ “کچھ ریاستی کمپنیاں صرف وسائل کا غبن کرنے کے لیے وجود میں آتی ہیں اور انہیں بند کر دیا جائے گا”۔ ابازید نے کہا، “ہمیں بدعنوانی کی توقع تھی، لیکن اس حد تک نہیں”۔ ابزید نے ایک ابتدائی جائزے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “سرکاری تنخواہ پر 1.3 ملین افراد میں سے صرف 900,000 اصل میں کام پر آتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ 400,000 لوگ کام پر نہیں آتے ہیں۔ ،ان کو ہٹانے سے اہم وسائل کی بچت ہوگی۔”۔ محمد السکاف، انتظامی ترقی کے وزیر، جو پبلک سیکٹر کی نگرانی کرتے ہیں، مزید آگے بڑھے، خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ریاست کو 550,000 سے 600,000 کے درمیان ملازمین کی ضرورت ہوگی- جو موجودہ تعداد کی نصف سے بھی کم ہے۔ ابزید نے کہا کہ اصلاحات کا مقصد، جس کا مقصد ٹیکس کے نظام کو جرمانے پر معافی کے ساتھ آسان بنانا بھی ہے، رکاوٹوں کو دور کرنا اور سرمایہ کاروں کو شام واپس جانے کی ترغیب دینا تھا۔
سٹریس اور انزائٹی: خاموش قاتل جو زندگی کو متاثر کرتے ہیں

نئے سال کی پہلی صبح، ایک معمولی دن میں کچھ ایسا ہوا جس نے ہر انسان کی زندگی میں خوف اور دباؤ کی ایک نئی لہر دوڑا دی۔ یہ صرف ایک رپورٹ نہیں بلکہ حقیقت ہے جو ہمارے سامنے روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کے ذہن کی بے چینیاں، آپ کی زندگی کو کیسے تہس نہس کر سکتی ہیں؟ اسٹریس اور انزائٹی! یہ دونوں لفظ شاید آپ نے کئی بار سنے ہوں گے، لیکن کیا آپ ان کے درمیان فرق کو سمجھ پاتے ہیں؟ آج کی دنیا میں ہر انسان کہیں نہ کہیں اسٹریس کا شکار ہے۔ یہ وہ تناؤ ہوتا ہے جو ہم اپنی روزمرہ زندگی میں محسوس کرتے ہیں۔ کسی امتحان کی تیاری، یا دفتر کے کام کا دباؤ، گھر میں مسائل یا پھر زندگی کے بڑے فیصلوں کا خوف۔ یہ سب اسٹریس کے مختلف پہلو ہیں جو مختلف حالات میں ہمیں گھیر لیتے ہیں اور پھر ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ کیفیت وقتی ہوگی جیسے ہی وہ پریشانی ختم ہوگی اسٹریس بھی ختم ہو جائے گا۔ اسٹریس کا ردعمل جب جڑ پکڑ لیتا ہے تو وہ اس سے آگے بڑھ کر انزائٹی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ انزائٹی! یہ وہ خوف ہے جو ہماری زندگی کے ہر حصے میں سرایت کر جاتا ہے اور ہم یہ سمجھ نہیں پاتے کہ ہمارے دماغ میں یہ کیا ہو رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسٹریس اور انزائٹی کے درمیان ایک باریک سا فرق ہے لیکن حقیقت میں یہ دونوں ہمارے دماغ پر اتنی گہری چھاپ چھوڑتے ہیں کہ ہم ان سے نجات پانے کے لیے اکثر ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اسٹریس وہ مشکل لمحات ہیں جو وقتی طور پر آ کر ہمیں پریشان کر دیتے ہیں۔ آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ آپ کسی امتحان کے قریب آ کر شدید پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں؟ یا پھر کسی اہم کام کی تکمیل سے پہلے آپ کا دل دھڑکنے لگتا ہے؟ یہ وہ لمحے ہیں جب اسٹریس آپ کی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے لیکن جوں ہی وہ امتحان یا کام ختم ہو جاتا ہے اسٹریس بھی ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن انزائٹی کا معاملہ مختلف ہے۔ انزائٹی اُس خوف کا نام ہے جو مسلسل آپ کے اندر بڑھتا رہتا ہے چاہے آپ کے ارد گرد کوئی خطرہ نہ ہو۔ یہ خوف آپ کے دماغ میں ایک عذاب بن کر بیٹھا رہتا ہے، اور یہ وقت کے ساتھ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ ایک لمحے کے لیے بھی سکون نہیں ملتا، اور آپ کی زندگی جیسے ایک مسلسل غمگینی کے سائے تلے ڈوب جاتی ہے۔ انزائٹی آپ کے دماغ کے اس پیچیدہ عمل کا نتیجہ ہوتی ہے جو اسٹریس کی شدت کو دلی خوف میں بدل دیتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان دونوں کے اثرات سے بچا کیسے جا سکتا ہے؟ ماہرین کہتے ہیں کہ اس پر قابو پانے کے لیے سادہ لیکن اہم باتوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا ضروری ہے۔ ایکسرسائز، یوگا، نیند کا مکمل دورانیہ، اور صحت مند غذا ان مسائل کا مقابلہ کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ آپ کو اسٹریس اور انزائٹی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے ذہنی سکون کی ضرورت ہے اور اس کے لیے اپنے خیالات کو لکھنا بھی ایک بہترین طریقہ ہو سکتا ہے۔ تاہم یہ سب تدابیر تب تک مفید رہیں گی جب تک آپ کی زندگی میں اسٹریس یا انزائٹی کی شدت نہ بڑھے۔ اگر آپ ان عوامل پر قابو پانے میں ناکام رہتے ہیں تو ماہرِ نفسیات کی مدد ضرور حاصل کریں۔ یہ حقیقت ہے کہ انزائٹی اور اسٹریس جیسے مسائل جسمانی اور ذہنی صحت پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ مسلسل پریشانی، سر میں درد، جسمانی تھکاوٹ، ہائی بلڈ پریشر، اور نیند کی کمی جیسے مسائل ان کا حصہ بنتے ہیں۔ اور جب یہ مسائل ایک دن یا ایک ہفتے تک نہ رکیں، تو انسان کی زندگی مکمل طور پر بدل جاتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا آپ انزائٹی اور اسٹریس کو اپنی زندگی کی کمزوری سمجھ کر ان سے فرار اختیار کریں گے؟ یا پھر ان کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کو نئے سرے سے ترتیب دیں گے؟ فیصلہ آپ کا ہے لیکن اسٹریس اور انزائٹی کو شکست دینے کے لیے خود کو سمجھنا ضروری ہے۔ ان کی حقیقت کو جاننا ضروری ہے اور اس کے بعد ایک ایسا راستہ تلاش کرنا ضروری ہے جو آپ کو سکون کی طرف لے جائے۔ یاد رکھیں اسٹریس اور انزائٹی کا مقابلہ ایک جنگ ہے لیکن اگر آپ اپنی زندگی میں کچھ اہم تبدیلیاں کریں تو یہ جنگ جیتنا ممکن ہے۔
روسی فوج کا یوکرین کے شہر پوکروسک پر حملہ: جو مستقبل کے لیے اہم ہوگا

روسی افواج آہستہ آہستہ یوکرین کے مشرقی شہر پوکروسک کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہیں، جو ایک اہم دفاعی مرکز ہے جس کی مرکزی سپلائی لائنیں ماسکو کے اپنے پڑوسی پر حملہ کرنے کے تقریباً تین سال بعد خطرے میں ہیں۔ جب کہ یوکرین ضد کے ساتھ شہر کا دفاع کر رہا ہے، اس کا محاصرہ یا قبضہ روس کو مشرق میں کئی سمتوں سے حملے کرنے اور جنگ کے ایک اہم مرکزکیف پر دباؤ بڑھانے کی پوزیشن میں جا سکتا ہے۔ پوکروسک کے اندرلوگ مشکلات سے دو چار ہیں۔ علاقائی گورنر کے مطابق جنگ سے پہلے کی 60,000 آبادی میں سےابھی صرف 7000 رہائشی باقی ہیں۔ پوکروسک میں موجود آخری پوسٹ آفس حال ہی میں بند ہوا ۔ میل اب ٹرک کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے ۔ شہر کے دونوں طرف، روسی فوجی ایک اہم سڑک کے توپ خانے اور ڈرون رینج کے اندر ہیں جو پورے یوکرین کے ساتھ مشرق سے مغرب تک جاتی ہے، اور اب زیادہ تر کاریں اپنی حفاظت کے لیے پوکروسک کی طرف پیچھے کے راستے سے گزرتی ہیں۔ گزشتہ کئی دنوں میں، ماسکو کی افواج مشرقی یوکرین کے سب سے اہم دفاعی مرکز، دنیپرو شہر سے مرکزی ریل لائن تک پہنچ چکی ہیں۔ پوکروسک کے محاذ پر لڑنے والی یوکرین کی 59 ویں حملہ بریگیڈ کے ڈپٹی کمانڈر نے کہا “صورت حال عام طور پر مشکل ہے، دشمن مسلسل پیدل حملہ کر رہا ہے”۔ افسر نے کہا کہ دشمن کے پاس پیدل فوج کی بہت زیادہ تعداد تھی۔ انہوں نے چھوٹے گروپوں میں حملہ کیا جو انتہائی زیادہ جانی نقصان اٹھانے کے لیے تیار تھے اور ڈرون سے چھپانے کے لیے زمین اورموسمی حالات کا فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے کہا ” دن رات وہ آگے بڑھ رہے ہیں ۔ پوکروسک کے سڑک اور ریل رابطوں نے اسے یوکرین کے فرنٹ لائن کے ایک بڑے حصے کے لیے ایک اہم سپلائی سینٹر بنا دیا ہے، حالانکہ حالیہ مہینوں میں روسی توپ خانے اور ڈرون کے خطرے نے اس کام کو محدود کر دیا ہے۔ واشنگٹن میں کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے ایک سینئر فیلو مائیکل کوفمین نے کہا کہ “پوکروسک کے راستوں کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ قبضے میں آتا ہے تو روسی افواج اسے شمال یا مغرب کی طرف دھکیلنے کے لیے میدان کے طور پر استعمال کر سکتی ہیں”۔ یہ روسی افواج کو دنیپروپیٹروسک کے علاقے میں ممکنہ پیش قدمی کرنا آسان بناتا ہے۔ اسی لیے روسی افواج ریل لائنوں کی تعمیر اور مرمت کر رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنی حملہ آوری کو آگے بڑھا سکتے ہیں اور یہ انہیں مزید مغرب کی طرف لے کر جائے گا۔
واشنگٹن: حادثے کا شکار ہونے والے طیارے کا بلیک باکس مل گیا

امریکا کے دارالحکومت میں رونالڈ ریگن واشنگٹن نیشنل ایئرپورٹ کے قریب ایک خوفناک فضائی حادثہ پیش آیا، جس میں 67 افراد ہلاک ہو گئے۔ واقعہ بدھ کی رات اس وقت پیش آیا جب ایک امریکی فوجی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر اور امریکن ایئرلائنز کا ایک ’بمبارڈیئر‘ طیارہ آپس میں ٹکرا گئے۔ جس کے نتیجے میں دونوں طیارے دریائے پوٹومیک میں گر کر تباہ ہو گئے۔ تفتیشی حکام نے بتایا کہ حادثے کے وقت دونوں طیارے معمول کے مطابق پرواز کر رہے تھے اور مواصلات میں کوئی خرابی نہیں آئی۔ امریکن ایئرلائنز کا بمبارڈیئر سی آر جے 700 مسافر طیارہ 60 مسافروں اور عملے کے چار ارکان کے ساتھ واشنگٹن کے قریب ایئرپورٹ پر اترنے کی تیاری کر رہا تھا، جبکہ بلیک ہاک ہیلی کاپٹر تین فوجیوں کو لے کر ایک تربیتی مشن پر تھا۔ نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ (این ٹی ایس بی) کے مطابق حادثے میں ہلاک ہونے والوں میں مختلف ممالک کے شہری شامل ہیں، جن میں روس، فلپائن، جرمنی اور چین کے شہری بھی شامل ہیں۔ امریکی سینیٹر ماریا کینٹویل نے کہا کہ یہ حادثہ ایک عالمی سانحہ بن چکا ہے، اور اس میں چینی شہریوں کی ہلاکت نے اسے مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ چین کے سرکاری میڈیا شنہوا نے بھی تصدیق کی ہے کہ حادثے میں دو چینی شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ حادثے کی تفتیشی کارروائیوں میں تیزی لائی گئی ہے اور حکام نے دونوں طیاروں سے بلیک باکسز (کاک پٹ وائس ریکارڈر اور فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر) برآمد کر لیے ہیں۔ ان ریکارڈرز کا تجزیہ نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ کی لیب میں کیا جائے گا۔ ابتدائی رپورٹ 30 دنوں میں جاری کی جائے گی، تاہم حکام نے ابھی تک حادثے کی اصل وجہ کا تعین نہیں کیا ہے۔ واشنگٹن کے فائر اینڈ ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ نے بتایا کہ غوطہ خوروں نے حادثے کے مقام تک رسائی حاصل کی ہے، اور باقی اجزاء کو نکالنے کی کارروائی جاری ہے۔ امریکی کوسٹ گارڈ بھی امدادی کاموں میں شریک ہیں اور طیارے کے ملبے کو ہٹانے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔ تاہم، حادثے کی جگہ کے انتہائی خطرناک حالات نے امدادی کارروائیوں کو مشکل بنا دیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حادثے کے بارے میں ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’ایئر ٹریفک کنٹرولرز کی کمی اور پائلٹس کی تربیت میں ممکنہ خامیاں اس حادثے کا سبب بن سکتی ہیں‘۔ تاہم، یہ بیان امریکی حکام کی تحقیقات سے مختلف ہے، جنہوں نے کہا کہ فوری طور پر کسی بھی ممکنہ وجہ کی نشاندہی نہیں کی جا سکتی۔ امریکہ میں ایئر ٹریفک کنٹرولرز کی کمی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ جس کے نتیجے میں حکام نے حفاظتی اقدامات کو مزید سخت کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ یہ حادثہ نومبر 2001 کے بعد سب سے مہلک فضائی حادثہ تھا، جب ایک طیارہ نیویارک کے جان ایف کینیڈین ہوائی اڈے سے اڑنے کے بعد حادثے کا شکار ہو گیا تھا۔ تاہم، واشنگٹن نیشنل ایئرپورٹ کا مرکزی رن وے امریکا کا مصروف ترین رن وے ہے، اور حکام نے اس حادثے کے بعد اس علاقے میں حفاظتی انتظامات کا از سر نو جائزہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ اس سانحے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک 28 لاشیں دریائے پوٹومیک سے نکالی جا چکی ہیں، اور حکام نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ باقی تمام اجزاء تک رسائی حاصل کر لی جائے گی۔ حادثے کی تحقیقات کا عمل جاری ہے، اور حکام نے ایئر ٹریفک کنٹرولرز اور پائلٹس کی ذمہ داریوں کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکا کے واشنگٹن نیشنل ایئرپورٹ کے قریب پیش آنے والا یہ حادثہ ایک بڑے فضائی سانحے کا سبب بن چکا ہے، جس میں 67 افراد کی جانیں گئیں۔ تفتیشی عمل جاری ہے، اور حکام کی کوشش ہے کہ حادثے کے اسباب کی مکمل تحقیقات کی جائیں تاکہ مستقبل میں اس قسم کے حادثات سے بچا جا سکے۔
‘دہشت گردوں کی موبائل فون استعمال پر سخت پابندی’

حال ہی میں فتنہ الخوارج کے سرغنہ نور ولی محسود کی خفیہ گفتگو منظر عام پر آئی ہے، جس میں اُس نے اپنے دہشت گردوں کو موبائل فون استعمال کرنے پر سخت پابندی عائد کر دی ہے۔ اس بات نے نہ صرف سکیورٹی فورسز کو متحرک کیا بلکہ عالمی سطح پر بھی اس انکشاف نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے خاتمے کے حوالے سے نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ذرائع کے مطابق نور ولی محسود نے اپنے پیروکاروں کو ایک خفیہ پیغام بھیجا جس میں انہوں نے تمام مجاہدین کو موبائل فون استعمال کرنے سے گریز کرنے کی ہدایات دیں۔ اس پیغام میں کہا گیا تھا کہ “موبائل سادہ ہو یا انٹرنیٹ والا، کسی کو بھی اس کے استعمال کی اجازت نہیں دی جائے گی، ضرورت پڑنے پر موبائل استعمال کریں، مگر فوراً بند کر دیں اور پھر اس سے دور رہیں۔” اس پابندی کا مقصد واضح طور پر یہ تھا کہ فتنہ الخوارج کی قیادت کی سرگرمیاں اور دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو سکیورٹی فورسز سے چھپایا جا سکے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ فیصلہ ایک سنگین مرحلے پر لیا گیا جب فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں کی ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ ایک کے بعد ایک دہشت گرد کی موت نے قیادت کو اپنے دفاعی تدابیر مزید سخت کرنے پر مجبور کر دیا۔ سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات دہشت گردوں کی مسلسل ہلاکتوں کی وجہ سے کیے گئے ہیں تاکہ ان کے مواصلاتی ذرائع کو مکمل طور پر محفوظ رکھا جا سکے۔ نور ولی محسود کی خفیہ گفتگو میں مزید کہا گیا کہ “ہماری چھان بین ہو رہی ہے اور ہم پر نظر رکھی جا رہی ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ کوئی بھی بغیر ضرورت کے موبائل کا استعمال نہ کرے۔” یہ گفتگو ظاہر کرتی ہے کہ فتنہ الخوارج کی قیادت اس وقت اپنے تنظیمی نیٹ ورک کی حفاظت میں شدید مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔ دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پابندی کا مقصد دہشت گردوں کے مواصلاتی نظام کو مکمل طور پر خفیہ رکھنا ہے، تاکہ ان کی سرگرمیوں پر سکیورٹی فورسز کی نگرانی مزید موثر ہو سکے۔ اس کے علاوہ ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ یہ اقدامات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں نہ صرف کامیاب ہیں بلکہ ان کے اثرات بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ اس سے قبل بھی فتنہ الخوارج نے دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے تھے تاہم موبائل فون کی اس نئی پابندی نے ظاہر کر دیا کہ دہشت گردوں کی کارروائیاں اب سکیورٹی فورسز کی نظر سے بچنا مزید مشکل ہو گئی ہیں۔ یہ تمام واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ فتنہ الخوارج کی قیادت اپنی صفوں میں جاری ہلاکتوں سے بے چین ہو چکی ہے اور اس نے اپنے دہشت گردوں کی محفوظ رہنے کی تمام تدابیر بڑھا دی ہیں۔ اس سے نہ صرف ان کی حکمت عملی میں تبدیلی آئی ہے، بلکہ سکیورٹی فورسز کے لیے بھی نئے چیلنجز پیدا ہوئے ہیں۔ اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ سکیورٹی فورسز ان اقدامات کا کس طرح مقابلہ کرتی ہیں اور فتنہ الخوارج کی اس نئی حکمت عملی کو ناکام بناتی ہیں۔
چیمینز ٹرافی سے قبل آسٹریلین ٹیم اہم کھلاڑی سے محروم

چیمپئنزٹرافی سے قبل آسٹریلوی آل راؤنڈر مچل مارش انجری کا شکار ہوگئے۔ کمر کی انجری کے باعث مچل مارش چیمپئنزٹرافی سے باہر ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی باقی لیگز میں بھی شمولیت مشکوک ہوگئی ہے۔ آسٹریلوی کرکٹ بورڈ کے مطابق مچل مارش ک مسلسل کمر دردکی وجہ سے آئی سی سی مینز چیمپئنزٹرافی سے باہر کر دیا گیا ہے۔ نیشنل سلیکشن پینل (این ایس پی) اور آسٹریلوی مینز میڈیکل ٹیم نے انہیں مکمل بحالی تک مزید وقت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ مچل مارش کے لیے حالیہ سیزن کافی مشکل رہا ہے۔ بارڈر گواسکر ٹرافی کے دوران وہ صرف 73 رنز بنا پائے جبکہ گیند بازی میں بھی بہتر کردار ادا نہ کر سکے۔ بگ بیش لیگ میں بھی مارش اچھی کارکردگی نہ دکھا سکے۔ وہ بی بی ایل کا صرف ایک میچ کھیل سکے۔ مچل آسٹریلوی ٹیم کے ون ڈے اور ٹی 20 ٹیم کے کپتان بھ رہ چکے ہں۔ ان کی کمی ٹیم کے لیے ایک اہم مشکل کھڑی کر سکتی ہے۔
‘جو ملک امریکی ڈالر کے خلاف جائے گا وہ ٹیکس کو “ہیلو” کہے گا’ ڈونلڈ ٹرمپ

اپنے ٹرتھ سوشل پلیٹ فارم پر پوسٹ ایک بیان میں، ٹرمپ نے اعلان کیاہے کہ اگر کوئی ملک اپنی تجارت مین امریکی ڈالر کی بجائے کوئی اور کرنسی استعمال کرتا ہے تو اسے امریکا کی جانب سے سو فیصد ٹیکس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ” اگر برکس کے ممبرز ممالک کسی طرح کی دوسری کرنسی میں تجارت کرتے ہیں تو ان کی تجارت پر سو فیصد ٹیکس لگایا جائے گا”۔ “ہمیں ان بظاہر دشمن ممالک سے اس نیت کی ضرورت ہے کہ وہ عظیم امریکی ڈالر کو تبدیل کرنے کے لیے نہ تو کوئی نئی برکس کرنسی بنائیں گے اور نہ ہی کوئی دوسری کرنسی استعمال کریں گے، یا پھر انہیں سو فیصد محصولات کا سامنا کرنا ہوگا”۔ ٹرمپ نے مزید اس بات پر زور دیا کہ برکس کو ڈالر کے متبادل تلاش کرنے کی اجازت دینے کا دور ختم ہوچکا ہےخبردار کیا کہ کوئی بھی ملک جو اس طرح کے اقدام کی کوشش کرے گا اسے ٹیرف کو ہیلو اور امریکہ کو الوداع کہنا پڑے گا۔ برکس دس ممالک کی عالمی تنظیم ہے جو سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے ممبرز ممالک کے مفاد کے لیے کام کرتی ہے۔ ابتدائی ممبرز ممالک میں برازیل، روس، چین، انڈیا اور جنوبی افریکا شامل ہیں۔ یہ اتحاد 16 جون 2009 کو قیام میں آیا۔ 2024 میں اس اتحاد کی توسیع کی گئی جس میں اتحادی ممالک کی نئی کیٹیگری شامل کی گئی ۔ ان اتحادی ممالک میں بیلاروس، بولیویہ، قازکستان، کیوبا، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور اُزبیکستان شامل ہیں۔ برکس کی جانب سے نئی کرنسی متعارف کروانے کی بحث کافی عرصے سے جاری ہے۔ چوں کہ اس گروپ میں روس بھی شامل ہے اور روس اور یوکرین کے مابین جنگ کی وجہ سے روس پہلے ہی امریکی پابندیوں کا شکار ہے۔ اس لیے روس امریکی ڈالر کو تبدیل کر کے نئی کرنسی استعمال کرنا چاہ رہا ہے تا کہ اسے نقصان کم سے کم ہو۔ ٹرمپ کی بیان کے جواب میں انڈین وزیر خارجہ جے شنکر نے کہا ہے کہ انڈیا نے کبھی بھی امریکی ڈالر کی مخالفت نہیں کی۔ روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے جواب دیا کہ برکس ڈالر کو نہیں چھوڑ رہا ہے بلکہ واشنگٹن کی غلط پالیسیوں کے مطابق کام کر رہا ہے۔
ایک مہینے میں ٹرین کا چوتھا حادثہ، پاکستان ریلوے پر سوالیہ نشان

لاہور سے کراچی جانے والی شالیمار ایکسپریس کو شاہدرہ کے قریب حادثہ پیش آگیا۔ ریلوے ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہدرہ ریلوے اسٹیشن کے قریب شالیمار ایکسپریس کی تین بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں، ٹرین کی ایک بوگی پل سے نیچے اتر گئی۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ حادثے کے باعث اپ اینڈ ڈاؤن ٹریک بند ہو گیا، لاہور سے فیصل آباد جانیوالی والی ٹرینوں کا شیدول متاثر ہو گیا۔ دوسری جانب ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ ریلیف کرین شاہدرہ اسٹیشن روانہ کردی گئی ہے، حادثے میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے لاہور اسٹیشن ماسٹر ظفر اقبال نے کہا کہ حاثہ شاہدرہ کے قریب پیش آیا جس میں تین بوگیاں پٹری سے اتر گئیں تاہم اس حادثے میں کسی قسم کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ہماری ٹیمیں وہاں پر پہنچ گئی ہیں ٹریک کو کلیئر کیا جارہا ہے. چند گھنٹوں میں ٹریک مکمل کلیئر ہو جائے گا، حادثے کی وجوہات ابھی تک سامنے نہیں آسکی۔ پاکستان میں آئے روز ٹرین کے حادثات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ خبر رساں ادارے اردو پوائنٹ کے مطابق 2024 میں 118 ٹرین کے حادثات ہوئے۔ جن میں جانی و مالی نقصان ہوا۔ رواں سال اب تک جنوری میں ٹرین کے 4 حادثات ہو چکے ہیں۔ ٹرین کا محکمہ پہلے ہی اپنی کرپشن اور نا اہلی کی وجہ سے نقصان میں جا رہا ہے۔ اس طرح آئے روز نئے حادثات پاکستان ریلوے اور حکومتِ پاکستان کے لیے تشویش کا سببب ہیں۔