کراچی ایئرپورٹ پر امریکی خاتون کی محبت میں ناکامی نے ایئرپورٹ حکام کو پریشان کر دیا

Onija at airport

کراچی ایئرپورٹ پر ہونے والی ایک ہنگامہ آرائی نے سب کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرلی۔ یہ ہنگامہ ایک امریکی خاتون کی محبت میں ناکامی کی وجہ سے ہوا جو پاکستان کے شہر کراچی اپنے محبوب سے ملنے آئی تھی، مگر یہاں آنے کے بعد ایک ایسی صورتحال کا سامنا کیا جس نے ایئرپورٹ حکام کو بھی پریشانی میں مبتلا کر دیا۔ اونیجا اینڈریو رابنسن ایک 33 سالہ امریکی خاتون جو نیویارک کی رہائشی ہے، اس عورت کو سوشل میڈیا پر کراچی کے رہائشی 19 سالہ ندال میمن کے ساتھ محبت ہوگئی۔ محبت کی اس داستان نے کئی پیچیدگیاں پیدا کیں، جو نہ صرف اونیجا کے لیے بلکہ پاکستان کے ایئرپورٹ حکام کے لیے بھی درد سر بن گئیں۔ یہ سب کچھ اس وقت شروع ہوا جب اونیجا 11 اکتوبر کو کراچی پہنچی۔ اس کا مقصد صرف اپنے پاکستانی محبوب سے ملنا اور اس کے ساتھ نئی زندگی شروع کرنا تھا۔ لیکن تقدیر نے کچھ اور ہی کھیل کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ نوجوان ندال میمن جو شادی کے لیے تیار تھا، اپنے خاندان کی مخالفت کی وجہ سے امریکی خاتون سے شادی کرنے سے انکار کر بیٹھا۔ اور اس انکار کے بعد اونیجا کی دنیا جیسے ٹوٹ گئی۔ ایئرپورٹ پر ایک دم ہنگامہ مچ گیا جب خاتون نے واپس جانے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد امیگریشن کے عملے کے سامنے جب اس نے امریکی واپسی کا ٹکٹ پیش کرنے کی کوشش کی تو اس نے یہ بھی کہا کہ وہ اس وقت تک واپس نہیں جائے گی جب تک اس کے تمام مطالبات پورے نہ کیے جائیں۔ یہ مطالبات روز بروز بڑھتے ہی گئے اور حکام کیلئے معاملہ پیچیدہ ہوتا گیا۔ سب سے پہلے تو خاتون نے اپنی واپسی کے لیے تیار ہونے سے انکار کیا۔ اس کے بعد جب ایئرپورٹ حکام نے اسے واپس جانے پر مجبور کرنے کی کوشش کی تو اس نے ڈیپارچر لاؤنج میں ہنگامہ کھڑا کر دیا جس سے پرواز 36 منٹ کی تاخیر کا شکار ہوگئی۔ اس کے بعد پولیس اور ایئرپورٹ سیکیورٹی کے اہلکاروں نے کسی طرح خاتون کو قائل کر کے حفاظتی تحویل میں ڈیپارچر لاؤنج تک پہنچایا مگر اس نے اپنے مطالبات نہ چھوڑے۔ اونیجا کے مطابق اس کے پاس جو رقم تھی اس کا استعمال اُس نے کراچی میں اپنی موجودگی کو طول دینے کے لیے کیا۔ وہ نہ صرف خود کو کراچی میں غیر یقینی حالات میں پاتی رہی بلکہ ایک دن ایسا بھی آیا جب اس نے پاکستانی حکام سے بڑے مطالبات کرنے شروع کر دیے۔ اونیجا کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے لیے ایک گھر چاہتی ہے بلکہ اس نے حکومت سے مالی امداد کی درخواست بھی کر ڈالی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ دبئی منتقل ہونا چاہتی ہے اور وہاں اپنا نیا کاروبار شروع کرنا چاہتی ہے۔ خاتون کا دعویٰ ہے کہ اس کے ساتھ ایئرپورٹ پر بھی دھوکہ ہوا تھا جب اس کے ہزاروں ڈالرز ایک غیر قانونی منی ایکسچینجر کے ہاتھوں ہڑپ کر لیے گئے۔ اس کے بعد اس نے 20 ہزار ڈالرز کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جب تک یہ رقم نہیں دی جاتی وہ پاکستان نہیں چھوڑے گی۔ اس کی کہانی صرف محبت کی ایک طرفہ داستان نہیں ہے بلکہ اس میں ایک اور پیچیدہ موڑ آیا۔ جب معلوم ہوا کہ اونیجا کا ماضی بھی کچھ زیادہ صاف ستھرا نہیں رہا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اونیجا کا مجرمانہ ریکارڈ بھی سامنے آیا ہے جس میں بتایا گیا کہ اس نے 2021 میں امریکی ریاست جنوبی کیرولینا میں ایک گھر میں زبردستی داخل ہونے کی کوشش کی تھی اور اس پر گرفتاری بھی ہوئی تھی۔ یہ خبر پاکستانی میڈیا میں جیسے ہی آئی لوگوں کی توجہ اونیجا کی شخصیت پر مرکوز ہو گئی۔ کراچی میں اس کا قیام نہ صرف ایک محبت کی کہانی بن چکا ہے بلکہ اس کی مالی مشکلات اور زندگی کے بدلتے ہوئے حالات نے اس کے ذہنی دباؤ کو مزید بڑھا دیا ہے۔ نجی میڈیا کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے اونیجا نے انکشاف کیا کہ وہ اپنے پاکستانی محبوب سے محبت کرتی ہے مگر اس کا کہنا تھا کہ وہ پیسوں کے لیے نہیں شادی کرتی بلکہ وہ اپنے لئے ایک ایسا گھر چاہتی تھی جو تمام جدید سہولتوں سے لیس ہو۔ دراصل اس کے سب مطالبات اس بات کا غماز تھے کہ وہ پاکستان میں اپنے لیے ایک نئی زندگی کی تلاش میں تھی مگر اس کے لیے اس نے مختلف طریقوں سے حکام پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ آخرکار اس کے مطالبات اور ذہنی دباؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے اونیجا کو چھیپا ویلفیئر کے ہیڈ آفس منتقل کر دیا گیا ہے جہاں اسے علیحدہ کمرہ فراہم کیا گیا اور وہاں اسے کھانا دیا گیا۔ فی الحال اونیجا کسی سے بات نہیں کر رہی اور اس کا ذہنی دباؤ بہت بڑھ چکا ہے۔ یہ تمام صورتحال ایک بہت ہی پیچیدہ اور غیر متوقع کہانی بن چکی ہے جس میں محبت، دھوکہ، ذہنی دباؤ اور مالی مسائل کا پیچیدہ تانے بانے بن گئے ہیں۔

پاکستان الیکٹرک وہیکلز کی پیداور میں پیچھے کیوں؟: سینٹ قائمہ کمیٹی

گزشتہ دنوں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا پاکستان میں الیکٹرک وہیکلز (ای وی) کی پیداوار پر اجلاس منعقد ہوا، جس میں اس سال 6لاکھ  کے ہدف کے مقابلے میں صرف 60 ہزار گاڑیاں تیار کرنے پربحث کی گئی ، کیونکہ حکومت گرین ٹرانسپورٹ کے حل کی طرف منتقلی کی طرف بڑھ رہی ہے اور موسمیاتی تبدیلی کو شکست دینے کے لیے کوشاں ہے۔ عرب نیوز کے مطابق حکومت پاکستان نے 2019 میں نیشنل الیکٹرک وہیکلز پالیسی (NEVP) کی منظوری دی جس کا ہدف 2030 تک تمام مسافر گاڑیوں اور ہیوی ڈیوٹی ٹرکوں کی الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت 30% پر مشتمل ہے، اور 2040 تک 90% ہدف مقرر ہے۔ دو اور تین پہیوں والی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ بسوں کے لیے، پالیسی نے نئی فروخت کا 50% حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔  پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے پاکستان میں ای وی کی پیداوار میں کمی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 6 لاکھ ہدف کے مقابلے میں صرف 60 ہزار ای وی تیار کی گئی ہیں۔ انھوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ ٹرانسپورٹ کا شعبہ فضائی آلودگی میں 48 فیصد حصہ ڈالتا ہے، جس سے ای وی کو اپنانا اہم ہے۔ وزارت صنعت کو مقامی ای وی پروڈکشن اور چارجنگ اسٹیشنوں کے ڈیٹا کی کمی کی وجہ سے جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑا۔ اہم سفارشات میں ای وی چارجنگ سٹیشنوں کو پھیلانا اور نجی سرمایہ کاری کی ترغیب دینا، گھروں اور کاروباروں میں قابل تجدید توانائی کو اپنانے کو فروغ دینا، پالیسی اہداف کو پورا کرنے کے لیے مقامی ای وی کی پیداوار کو بڑھانا، ملک بھر میں توانائی کی بچت والے بلڈنگ کوڈز کو نافذ کرنا، اور توانائی کے موثر ٹرانسپورٹ اور پبلک ٹرانزٹ کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرنا شامل ہیں۔ اس ماہ کے شروع میں، پاکستان نے کہا تھا کہ وہ توانائی کے شعبے میں جاری اصلاحات کے ایک حصے کے طور پر وی وی چارجنگ اسٹیشنوں کے آپریٹرز کے لیے بجلی کے نرخوں میں 45 فیصد کمی کرے گا جو کہ طلب کو بڑھانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ حکومت ای بائیک اور دو اور تین پہیوں والی پٹرول گاڑیوں کی تبدیلی کے لیے فنانسنگ اسکیمیں متعارف کرانے کا بھی منصوبہ بنا رہی ہے۔ کابینہ نے 15 جنوری کو 39.70 روپے فی یونٹ کے ٹیرف میں کمی کی منظوری دی، جو پہلے 71.10 روپے تھی، جو ایک ماہ کے اندر لاگو ہو جائے گی۔ حکومت کو توقع ہے کہ اس شعبے میں سرمایہ کاروں کے لیے 20 فیصد سے زیادہ کی واپسی کی داخلی شرح ہوگی۔ وزارت توانائی کے مشیر عمار حبیب خان کی طرف سے حکومت کو پیش کی گئی اور 15 جنوری کو رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں اس وقت 30 ملین سے زیادہ دو اور تین پہیوں والی گاڑیاں ہیں، جو 5 بلین ڈالر سے زیادہ مالیت کا پیٹرولیم استعمال کرتی ہیں۔ سالانہ وزارت توانائی کا منصوبہ ہے کہ پہلے مرحلے میں 10 لاکھ دو پہیہ گاڑیوں کو الیکٹرک بائک میں تبدیل کیا جائے، جس کی تخمینہ لاگت 40,000 روپے فی بائک ہے۔رپورٹ کے مطابق، سالانہ تقریباً 165 ملین ڈالر کے ایندھن کی درآمدی لاگت کی بچت ہوگی۔ واضح رہے کہ  صوبہ سندھ کے وزیر توانائی ناصر حسین شاہ نے جمعرات کو اعلان کیا کہ صوبائی انتظامیہ جیواشم ایندھن کی کھپت کو کم کرنے کے لیے ای وی سیکٹر میں سرمایہ کاری کے لیے نجی شعبے کو “زیادہ سے زیادہ امداد” فراہم کرے گی۔ انہوں نے یہ بات چین کے اے ڈی ایم گروپ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر یاسر بھمبانی سے ملاقات کے دوران کہی، جس نے اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے مینوفیکچرنگ پلانٹ اور 3,000 ای وی چارجنگ اسٹیشن لگانے کے لیے 350 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ محکمہ اطلاعات نے ایک بیان میں کہا، “سندھ حکومت اپنے کامیاب پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ موڈ کو بروئے کار لاتے ہوئے شہروں اور اہم شاہراہوں پر ای وی چارجنگ اسٹیشنز کے قیام کے لیے مناسب جگہیں اور دیگر سہولیات فراہم کرے گی۔”

پاکستان میں پیکا ایکٹ کی متنازعہ ترامیم: سوشل میڈیا پر کنٹرول یا آزادی کا کچلنا؟

پاکستان میں پیکا ایکٹ کی حالیہ ترامیم کا معاملہ نہ صرف قومی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی زیرِ بحث ہے۔ حکومت پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ سیاسی مفادات کے تحت ایسی متنازعہ قانون سازی کر رہی ہے جو نہ صرف عدلیہ کو قابو کرنے کی کوشش ہے بلکہ آزادیِ اظہار کو بھی محدود کر رہی ہے۔ پاکستان کی صحافتی تنظیمیں اور اپوزیشن جماعتیں حکومت کی پیکا ایکٹ میں ترامیم کو سختی سے رد کر چکی ہیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار نے تو پیکا ایکٹ کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ صدر ہائی کورٹ بار کا کہنا ہے کہ اس ترمیمی ایکٹ کا مقصد صرف صحافیوں کی آزادی کو کچلنا ہے اور یہ ایک ‘کالا قانون’ ہے جو آزادیِ اظہار کو سلب کرنے کے مترادف ہے۔ دوسری طرف حکومت کا موقف یہ ہے کہ یہ قانون سوشل میڈیا پر بڑھتی ہوئی نفرت انگیز اور جھوٹی اطلاعات کا مقابلہ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جس پر کسی قسم کا کنٹرول نہیں ہے۔ حکومت کا یہ کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر بعض سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لیے اداروں اور ملک کے خلاف مواد پھیلانے میں مصروف ہیں اور ان کی کارروائیوں کو روکنا انتہائی ضروری ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس قانون کی آڑ میں حکومت سچائی کے راستے پر بندشیں لگا رہی ہے؟ اس قانونی بحران کا سب سے بڑا اثر پاکستان کے عالمی تعلقات پر پڑ رہا ہے۔ یورپی یونین نے اس قانون پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور پاکستان کے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کے حوالے سے سنگین خدشات ظاہر کیے ہیں۔ جی ایس پی پلس اسٹیٹس سے پاکستان کو یورپی منڈیوں میں ڈیوٹی فری رسائی حاصل ہے جس سے پاکستانی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اگر پاکستان کا جی ایس پی پلس اسٹیٹس متاثر ہوتا ہے تو یہ ملکی معیشت کے لیے ایک سنگین دھچکا ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی حکومت بار بار یہ وضاحت دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ پیکا ایکٹ آزادیِ اظہار کو محدود نہیں کرتا بلکہ سوشل میڈیا پر غیر قانونی اور جھوٹے مواد کو روکنے کے لیے ہے۔تاہم، یہ وضاحتیں حکومت کے حامیوں کے علاوہ کسی کو بھی قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ ایک طرف صحافتی تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں تو دوسری طرف اپوزیشن بھی اس ایکٹ کو حکومت کی مخالف آوازوں کو دبانے کی ایک کوشش قرار دے رہی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں اس وقت سوشل میڈیا کے ذریعے بے شمار سیاسی اور سماجی موضوعات پر بحث ہو رہی ہے اور سوشل میڈیا نے لوگوں کو اپنی آواز بلند کرنے کا ایک طاقتور ذریعہ فراہم کیا ہے۔ پیکا ایکٹ کے ذریعے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مزید کنٹرول لانے کی کوششوں سے لوگوں میں یہ خوف پیدا ہو رہا ہے کہ حکومت سچائی کو چھپانے کے لیے طاقت کا استعمال کرے گی۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ پیکا ایکٹ میں ترمیمی بل کے مطابق ایک نئی اتھارٹی قائم کی جائے گی جو سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز کی نگرانی کرے گی۔ یہ اتھارٹی سوشل میڈیا کے صارفین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے گی اور پلیٹ فارمز کے خلاف تادیبی کارروائی کی مجاز ہوگی۔ اگرچہ حکومت نے اس اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کی پیشکش کی ہے تاہم صحافتی برادری اب بھی اس قانون کو آزادیِ اظہار پر حملہ تصور کرتی ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ ایکٹ سوشل میڈیا پر بے قابو اور انتشار پھیلانے والے مواد کو روکنے کے لیے بنایا گیا ہے لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ سوشل میڈیا پر حکومت کی بڑھتی ہوئی نگرانی اور کنٹرول کے بارے میں شکوک و شبہات میں اضافہ ہو چکا ہے۔ انٹرنیٹ کی سست روی اور سوشل میڈیا پر لگائی جانے والی پابندیاں نہ صرف عوام کے لیے پریشانی کا سبب بن رہی ہیں بلکہ یہ سوالات بھی اٹھا رہے ہیں کہ کیا حکومت نے جان بوجھ کر انٹرنیٹ کی رفتار سست کر دی ہے تاکہ سوشل میڈیا پر موجود مخالف آوازوں کو دبایا جا سکے؟ پیکا ایکٹ کی قانونی شکل اختیار کرنے کے بعد اب یہ دیکھنا یہ ہوگا کہ پاکستان میں آزادیِ اظہار کے حق میں چلنے والی تحریکیں کس حد تک کامیاب ہوتی ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ بار کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ اس ایکٹ کو چیلنج کرے گا، یہ ایک بہت بڑا سیاسی اقدام ہے جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اس معاملے پر صرف صحافتی تنظیمیں ہی نہیں بلکہ قانونی حلقے بھی حکومت کی قانون سازی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ بحران ایک طرف ملکی سیاست میں گہرا اثر ڈالے گا تو دوسری طرف عالمی سطح پر بھی پاکستان کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔ حکومت کو نہ صرف اندرونی سطح پر بلکہ عالمی برادری کی طرف سے بھی دباؤ کا سامنا ہے، اور یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ اگر پیکا ایکٹ کے خلاف مزاحمت بڑھتی ہے تو اس کے نتائج پاکستان کے لیے سنگین ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک قانونی جنگ کا آغاز ہے، اور آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس جنگ کا رخ کہاں جاتا ہے اور پاکستان کی عالمی پوزیشن کس طرح متاثر ہوتی ہے۔

پاکستان میں شعبان المعظم کا چاند نظر آگیا، شب برات اور یکم رمضان کب ہوں گے؟

(فائل فوٹو)

پاکستان بھر میں ماہ شعبان المعظم کا چاند نظر آنے کی خوشخبری سنادی گئی ہے جبکہ ملک بھر میں تمام مسلمان اس مہینے کی آمد کا شدت سے انتظار کر رہے تھے۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس 29 جنوری بروز بدھ کو ہوا، جس کی صدارت چیئرمین مولانا سید محمد عبد الخبیر آزاد نے کی۔ اجلاس میں ملک کے مختلف علاقوں سے رویت ہلال کمیٹیوں کے ممبران نے شرکت کی اور چاند کی رویت سے متعلق تفصیلی مشاورت کی۔ مطلع صاف ہونے کے باوجود کچھ علاقوں میں آبر آلود موسم کی وجہ سے چاند دیکھنے میں مشکلات پیش آئیں تھیں مگر اس کے باوجود کوئٹہ اور تھر سے چاند نظر آنے کی تصدیق ہو گئی۔ اس خبر نے ملک بھر میں خوشی کی لہر دوڑا دی کیونکہ اس کے ساتھ ہی شب برات اور رمضان کے حوالے سے اہم تاریخوں کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مولانا عبدالخبیر آزاد نے اعلان کیا کہ یکم شعبان المعظم 31 جنوری 2025 بروز جمعۃ المبارک کو ہوگی۔   اس کے علاوہ شب برات 13 فروری 2025 بروز جمعرات کو ہوگی جس کا لوگ بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔ یہ رات مسلمانوں کے لیے عبادات اور دعاؤں کا خاص موقع ہوتی ہے جبکہ ملک بھر میں ہر طرف مساجد میں قرآن خوانی اور دعاؤں کا اہتمام کیا جائے گا۔ اس اجلاس میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا عبدالخبیر آزاد نے نہ صرف رمضان المبارک کے آغاز اور عید الفطر کی تاریخوں کا اعلان کیا، بلکہ ملکی سلامتی، فلسطینی بھائیوں کی مشکلات کے حل اور بارشوں کی دعا کے لیے بھی خصوصی اجتماعی دعا بھی کی۔ اس دعا کے دوران ملکی عوام نے دعائیں کیں کہ اللہ تعالی مسلمانوں کی مشکلات حل کرے اور ملک میں امن و سکون برقرار رکھے۔ اس کے علاوہ اگر شعبان المعظم کا مہینہ 29 دنوں کا ہوتا ہے تو پاکستان میں رمضان المبارک کا پہلا روزہ یکم مارچ 2025 بروز ہفتہ ہوگا، اور اگر شعبان المعظم کا مہینہ 30 دنوں کا ہوتا ہے تو پہلا روزہ 2 مارچ بروز اتوار کو ہوگا۔ ماہرین فلکیات کے مطابق اس سال رمضان کا چاند 28 فروری یا یکم مارچ کو نظر آ سکتا ہے۔ اسی طرح عید الفطر 30 یا 31 مارچ 2025 کو منائی جا سکتی ہے۔   علاقائی ماہرین کا کہنا ہے کہ خلیجی ممالک اور یورپ میں رمضان کا آغاز یکم مارچ سے ہونے کا امکان ہے اس لیے دنیا بھر میں مختلف علاقوں میں رمضان کی تاریخوں میں تھوڑی بہت فرق ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے مسلمانوں کے لیے یہ دن بہت اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ اس موقع پر نیک دعاؤں اور عبادات کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر شب برات کی رات کو اللہ تعالی کی طرف سے مسلمانوں کے گناہ معاف کرنے کا وقت ہوتا ہے جس کی تیاری ہر مسلمان اپنے دل سے کرتا ہے۔ اس سال بھی یہ رات بہت بڑی روحانی اہمیت رکھتی ہے اور پاکستانی عوام اپنے رب کے حضور گڑگڑا کر دعائیں مانگیں گے۔ پاکستان بھر میں شعبان المعظم کے آغاز کے ساتھ ساتھ رمضان المبارک کی تیاریوں کا آغاز بھی ہو چکا ہے اور لوگ روزوں کی تیاری کے لیے خود کو روحانی لحاظ سے تیار کرنے میں مصروف ہیں۔

کانگو تنازعات میں پھنسے 150 پاکستانیوں کو روانڈا میں منتقل کر دیا گیا: دفتر خارجہ

مشرقی جمہوریہ کانگو (ڈی آر سی) میں بڑھتے ہوئے تشدد کے باعث اس سال کے آغاز سے اب تک تقریبا اڑھائی لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں، اس تنازعہ میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو کانگو سے نکال کر روانڈا منتقل کر دیا ہے۔ دفتر خارجہ (ایف او) کے مطابق روانڈا میں پاکستانی ہائی کمشنر نعیم اللہ خان نے ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو میں حالیہ تنازعات میں اضافے کے بعد پھنسے ہوئے پاکستانیوں کے روانڈا میں داخلے کی سہولت فراہم کی ہے عالمی خبر ارساں ادارہ اے ایف پی کے مطابق تشدد سے متاثرہ شہر گوما میں تقریباً 150 پاکستانی پھنسے ہوئے تھے۔ اب تک لگ بھگ 75 پاکستانی  روانڈا میں داخل ہو چکے ہیں۔ دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے بتایا کہ کیگالی میں پاکستانی ہائی کمیشن نے متاثرہ افراد کے لیے رہائش اور خوراک فراہم کی ہے۔ ہائی کمیشن مقامی پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ سرگرم عمل ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ مصیبت میں گھرے کسی بھی دوسرے شہری کی شناخت اور مدد کی جائے۔شفقت خان نے کہا کہ آنے والے دنوں میں پاکستانیوں کی روانڈا میں مزید آمد متوقع ہے۔ ہائی کمیشن کا عملہ مدد کی درخواست کرنے والے ہر فرد سے براہ راست رابطہ قائم کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ مشن سرحدی شہر بوکاوو میں پاکستانیوں تک بھی پہنچ رہا ہے، جو کہ تشویش کا ایک اور مرکز بنا ہوا ہے۔ پاکستانی شہری جن کو مدد کی ضرورت ہے وہ ہائی کمیشن سے واٹس ایپ کے ذریعے +92 333 5328517 پر رابطہ کر سکتے ہیں، جس کا انتظام ہیڈ آف چانسلری پرویز بھٹی کر رہےہیں۔ صورتحال میں مسلسل بہتری آرہی ہے اور خطے میں پاکستانیوں کی حفاظت اور بہبود کو یقینی بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ واضح رہے کہ  شمالی اور جنوبی کیوو نامی 2 صوبے (جہاں 46 لاکھ سے زیادہ بے گھر افراد ہیں) 3 دہائیوں سے تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں، یہاں ایم 23 باغی گروپ حالیہ برسوں میں سب سے طاقتور مسلح گروہوں میں سے ایک بن کر ابھرا ہے۔ ڈی آر سی حکومت کی جانب سے ’دہشت گرد گروپ‘ قرار دیے جانے والے ایم 23 نے 2021 سے مشرقی ڈی آر سی کے بڑے علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے، اور رواں ماہ کے اوائل میں شمالی کیوو کے قصبے ماسیسی کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔

قران پاک جلانے والا ‘سلوان مومیکا’ کے قتل کے بعد سویڈش پولیس نے 5 افراد کو گرفتارکر لیا

(فائل فوٹو)

2023کے دوران قرآن کی بے حرمتی کے کئی واقعات میں ملوث ہونے والے عراقی شہری ‘سالوان مومیکا’ کو قتل کر دیا گیا۔ مومیکا کی موت بدھ کی رات ناروے میں ایک اپارٹمنٹ میں گولی مار کر کی گئی۔ اس واقعے کے بعد پولیس نے پانچ افراد کو قتل کے شبے میں گرفتار کیا ہے اور یہ معاملہ عالمی سطح پر مختلف ردعمل کا سامنا کر رہا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف سویڈن اور ناروے بلکہ دنیا بھر میں بحث کا باعث بن چکا ہے جہاں مومیکا کی متنازعہ شخصیت اور اس کے اعمال پر مختلف اقسام کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔   سالوان مومیکا 2023 میں دنیا بھر میں اس وقت معروف ہوا جب اس نے سویڈن میں قرآن پاک کو جلایا اور اس کی بے حرمتی کی۔ مومیکا کا کہنا تھا کہ اس کے یہ اقدامات آزادیِ اظہار رائے کے تحت ہیں اور اس کا مقصد اسلام کے پیغام کو دنیا بھر میں اجاگر کرنا تھا۔ ان واقعات نے خاص طور پر مسلم دنیا میں شدید غصے اور نفرت کو جنم دیا تھا جس کے نتیجے میں کئی ممالک میں مظاہرے اور فسادات ہوئے۔ مومیکا کا تعلق عراق کے صوبے موصل کے ضلع الحمدانیہ سے تھا۔ اس نے سویڈن میں پناہ حاصل کرنے سے قبل عراق میں ملیشیا کی سربراہی کی تھی اور وہاں دھوکہ دہی کے متعدد کیسز میں بھی ملوث تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عراق کو اس کی حوالگی کے لیے سویڈن نے درخواستیں مسترد کر دی تھیں۔ مومیکا نے سویڈن میں پناہ حاصل کی تھی اور اس کے خلاف متعدد الزامات عائد کیے گئے تھے جن میں اقلیتی فرقوں کے خلاف نفرت انگیزی شامل تھی۔ اس کی موت کے بعد پولیس نے پانچ افراد کو گرفتار کیا جنہوں نے ابتدائی طور پر قتل میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ تاہم، ابھی تک اس قتل کے اصل محرکات کے بارے میں کوئی واضح تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔ سویڈن کے وزیرِاعظم اولف کرسٹرسن نے اس واقعے کو حساس نوعیت کا قرار دیا اور کہا کہ سویڈن کی سیکیورٹی سروس بھی اس تحقیقات میں شامل ہو چکی ہے کیونکہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس قتل کے پیچھے کسی غیر ملکی طاقت کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ مومیکا نے اپنی آخری سوشل میڈیا پوسٹ میں اعلان کیا تھا کہ وہ سویڈن چھوڑ کر ناروے جا چکا ہے اور اس نے وہاں پناہ اور بین الاقوامی تحفظ کے لیے درخواست دی ہے۔ اس نے سویڈن کی حکومت پر الزام لگایا تھا کہ وہ مفکرین کے بجائے صرف دہشت گردوں کے لیے پناہ فراہم کرتی ہے۔ مومیکا کا کہنا تھا کہ اس نے سویڈن میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے باوجود وہاں کے عوام سے محبت اور احترام کو برقرار رکھا ہے مگر حکام کے ساتھ اس کا تعلق کشیدہ رہا۔ اس کے بعد مومیکا نے اپنے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسلام کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھے گا اور اس کے لیے جو قیمت بھی ادا کرنی پڑے گی وہ ادا کرے گا۔ یہ پیغام اس کے متنازعہ نظریات اور بیانات کو مزید اجاگر کرتا ہے اور اس کی شخصیت کو مزید واضع کر دیتا ہے۔ دوسری جانب مومیکا کا سویڈن میں رہائشی اجازت نامہ 2023 کے آخر میں منسوخ کر دیا گیا تھا اور اس کی درخواستوں میں غلط بیانی کرنے کے باعث اسے اپریل 2024 تک ملک سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ سویڈش حکام نے یہ فیصلہ اس بنیاد پر کیا کہ مومیکا نے اپنے رہائشی اجازت نامے کے لیے غلط معلومات فراہم کیں۔ تاہم، سویڈن نے مومیکا کو عراق کے حوالے کرنے سے انکار کیا تھا کیونکہ اس بات کا خدشہ تھا کہ وہاں اسے تشدد یا غیر انسانی سلوک کا سامنا ہو سکتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مومیکا نے سویڈن کے اس فیصلے کے خلاف مائیگریشن کورٹ میں اپیل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا مگر اس سے پہلے ہی وہ ناروے پہنچ چکا تھا جہاں وہ مردہ پایا گیا۔ مومیکا کی موت پر دنیا بھر سے مختلف ردعمل سامنے آ رہے ہیں۔ کچھ لوگ اسے اس کی متنازعہ حرکتوں کا نتیجہ سمجھتے ہیں جبکہ دوسرے اس کی موت کو ایک سنگین واقعہ قرار دیتے ہیں جس سے عالمی سیاست اور مذہبی حساسیت کے تعلقات پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ سویڈن اور ناروے کی حکومتیں اس معاملے کی تحقیقات میں شدت سے مصروف ہیں جبکہ اس قتل کے پس منظر میں موجود محرکات کو جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

لاہور میں پہلے ای وی چارجنگ اسٹیشن کا افتتاح

0000

ای وی چارجنگ کے پہلے اسٹیشن کا لاہور میں اے ڈی ایم گروپ نے ملک فلنگ اسٹیشن ضرار شہید روڈ پر افتتاح کر دیا ہے یہ گروپ 3ہزار ای وی چارجنگ اسٹیشن لگائے گا۔ صوبائی وزیر صنعت و تجارت چوہدری شافع حسین نے لاہور میں پہلے ای وی چارجنگ اسٹیشن کا افتتاح کیا۔یہ ای وی چارجنگ اسٹیشن اے ڈی ایم گروپ نے ملک فلنگ اسٹیشن ضرار شہید روڈ پر لگایا ہے۔یہ گروپ 3ہزار ای وی چارجنگ اسٹیشن لگائے گا۔صوبائی وزیر صنعت و تجارت نے ای وی چارجنگ اسٹیشن کی ورکنگ کا جائزہ لیا۔ صوبائی وزیر صنعت و تجارت چوہدری شافع حسین نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے الیکٹرک وہیکلز سیکٹر بے حد اہمیت اختیار کر گیا ہے،دنیا ای وی سیکٹر کی جانب بڑھ رہی ہے۔ چوہدری شافع حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا مستقبل بھی اسی سیکٹر سے جڑا ہوا ہے۔پنجاب حکومت کا فوکس بھی ای وی سیکٹر کا فروغ ہے انھوں نے کہا کہ چین کی کمپنیوں نے پنجاب میں سستی الیکٹرک گاڑیوں کے پلانٹ لگانے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔جتنے زیادہ ای وی چارجنگ اسٹیشن بنیں گے اتنی ہی زیادہ الیکٹرک گاڑیاں آئیں گی۔حکومت چاہتی ہے کہ الیکٹرک گاڑیاں پنجاب میں مینوفیکچر ہوں۔ صوبائی وزیر صنعت اور تجارت کا مزید کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے الیکٹرک وہیکلز سیکٹر بے حد اہمیت اختیار کر گیا ہے،دنیا ای وی سیکٹر کی جانب بڑھ رہی ہے،جتنے زیادہ ای وی چارجنگ اسٹیشن بنیں گے اتنی ہی زیادہ الیکٹرک گاڑیاں آئیں گی۔ ملک گروپ کے چیئرمین ملک خدا بخش،پنجاب سرمایہ کاری بورڈ کے جلال حسن خان اور صنعتکار تقریب میں موجود تھے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز چین کے اے ڈی ایم گروپ کے وفد نے سندھ کے وزیر توانائی ناصر حسین شاہ اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے پاکستان میں ای وی انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے بات چیت کی، اس گروپ پاکستان میں 3 ہزار ای وی چارجنگ اسٹیشن لگانے کا وعدہ کیا ہے۔ چائنیز اے ڈی ایم گروپ کے سی ای او یاسر بھمبانی نے کہا کہ حکومت اجازت دے تو اس سال پاکستان میں گاڑی بنانے کو تیار ہیں، میڈ ان پاکستان ای وی گاڑیوں کو مستقبل میں ایکسپورٹ بھی کیا جائے گا۔ سی ای اونے مزید کہا کہ میڈ ان پاکستان ای وی گاڑیوں کو بھارت سمیت سات ممالک میں ایکسپورٹ کرنے کا پلان ہے، پاکستان میں کراچی پنجاب اور بلوچستان میں 3مینوفیچرنگ پلانٹس لگائے جائیں گے، کمپنی کے پاس پاکستان میں سالانہ 72ہزار یونٹس کی پیداواری استعداد ہے۔

“بلاول سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کراچی کو تباہ کر رہا ہے” خالد محمود صدیقی کی پریس کانفرنس

Elon musk11

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے گزشتہ دنوں تاجروں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر شکایات ہیں تو مجھ سے کرو،کئی اور جا کر چغلی نہ کریں، ان الفاظ کی وجہ سے ایم کیوایم کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کی اور کہا کہ بزنس کمیونٹی کو بلا کر دھمکایا گیا،تاجر حضرات تنہا نہیں ہیں ایم کیو ایم ان کے ساتھ ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما خالد مقبول صدیقی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ  گزشتہ دنوں چیئرمین پیپلز پارٹی نے ہمیں دعوت دی تھی اور ہمیں لگا تھا کہ تاجروں کے مسائل کے حوالے سےکوئی اقدام کریں گے،ہمیں امید تھی کہ تاجروں کے ساتھ گزشتہ 15 سالوں  سے جو چل رہا ہے اس پر معذرت کریں گے،اپنی کی گئی غلطیوں کا ازالہ کریں گے لیکن چیئرمین پیپلز پارٹی کا لہجہ دھمکی آمیز تھا۔ صدیقی کا کہنا ہے کہ کراچی میں حالیہ سالوں میں  بچوں کے اغوا میں اضافہ ہوا ہے، روزانہ دو سے تین وارداتیں ہوتی ہیں اور مزاحمت پر مار دیا جاتا ہے۔ خالد مقبول صدیقی نے بلاول بھٹو کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ماضی میں لیاری گینگ وار کے ذریعے پورے شہر کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔بلاول کے آنے کے بعد کراچی جس شکل میں ہے، ہمیں اس کی وضاحت تو کریں۔ انھوں نے کہا کہ بلاول سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کراچی کو تباہ کر رہا ہے، ان کو تکلیف تھی کہ گلہ کہیں اور کیوں کیا، اسی وجہ سے کراچی کے تاجروں سے بات کی۔بلاول نےتاجروں سے ملاقات میں اسٹریٹ کرائم پر معافی کیوں نہیں مانگی؟ ایم کیو ایم کے سینئر مرکزی رہنما مصطفیٰ کمال نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی نے بزنس کمیونٹی کو بلا کر دھمکی دی ہے، تاجروں کو بلا کر دھمکانے پر ایم کیو ایم پی پی کے اس رویے پر مذمت کرتی ہے۔ مصطفیٰ کمال نے کہا کہ بزنس کمیونٹی تنہا نہیں ہم ان کے ساتھ ہیں، پچھلے تمام ادوار میں ایم کیو ایم نے بزنس کمیونٹی کو سپورٹ کیا انھوں نے کہا کہ حکومت اور ریاست کے تمام اداروں کو اس بات پر سوچنا چاہئے ،بزنس مین کسی پارٹی کا نہیں ہوتا پاکستان کے آرمی چیف آئے تھے انہوں نے بزنس کمیونٹی سے بات کرتے ہوئے ان کے مسائل سنے تھے۔ مصطفیٰ کمال نے مزید کہا کہ کراچی کی گلیوں میں اختیارات اور وسائل آنے چاہئیں ،اگر اختیارات اور وسائل نہیں ملیں گے تو پھر نئے صوبے بنیں گے ،اگر 27ویں آئینی ترمیم نہیں ہو گی تو صوبے بننا لازم و ملزوم ہیں، انھوں نے کہا آرمی چیف جب کراچی آئے تھے تو انھوں نے اس بات کی تائید کی کہ پاکستان میں نئے صوبے بننے چاہئیں۔ ایم کیو ایم کے سینئر مرکزی رہنما ڈاکٹر فاروق ستارنے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی سندھ کے وڈیروں اور جاگیرداروں کی حکمرانی پر ایک وائٹ پیپر رکھا ہے سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کا تو رونا روتے ہیں انھوں نے کہا کہ سندھ میں ایک اہم ترین مسئلہ زمینوں پر قبضے کا ہے ،تیزی کے ساتھ صنعتکاروں اور بلڈرز کی زمینوں پر قبضہ ہوا۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے مزید کہا کہ تاجروں کو ڈانٹا گیا کہ تم لوگوں نے چغلی کی ہے جبکہ کراچی کا معیشت میں کردار پاکستان کی بقا اور سلامتی سے جڑا ہوا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے تاجر برادری کے اعزاز میں کراچی میں ایک تقریب کا انعقاد کیا جس میں انہوں نے تاجربرادری سے بات چیت کی اور ان کے مسائل سنے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ اگر کسی بیوروکریٹ یا وزیراعلیٰ سے کوئی شکایت ہو تو مجھے بتائیں، کسی اور جگہ چغلی کرنے کی ضرورت نہیں ہے، سندھ میں ذمہ دار پیپلز پارٹی ہے اور ہمیں مسائل کے حل کے لیے آگاہ کریں۔

“28 جنوری کو میٹنگ ہوئی مگر پی ٹی آئی مذاکرات سے بھاگ گئی” شہباز شریف

Pm shahbaz sharif

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے تحریک انصاف کو ایک بار پھر مذاکرات  کی دعوت دیتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کے بجائے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی پیشکش کردی۔ انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو مذاکرات کے لیے ساز گار ماحول فراہم کیا گیا ہے، لیکن پی ٹی آئی مذاکرات سے بھاگ رہی ہے۔ نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کی آفر کو شفاف انداز سے قبول کیا ہے۔ پی ٹی آئی کی ڈیمانڈ ہے کہ انھیں لکھ کردیا جائے، ہم نے ان کی یہ ڈیمانڈ قبول کر لی ہے اور انھیں کہا کہ لکھ کر دیا جائے گا۔ پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے لیے ہم نے ایک کمیٹی بنائی، اسپیکر کے توسط سے یہ مذاکرات شروع بھی ہوئے۔ رواں ماہ کی 28 تاریخ کو میٹنگ ہونی تھی اور اب پی ٹی آئی مذاکرات سے بھاگ گئی ہے۔ پی ٹی آئی کمیٹی نے ڈیمانڈ کی کہ انہیں لکھ کر دیا جائے، ہماری کمیٹی نے کہا ہم آپ کو لکھ کر جواب دیں گے۔ ہم نے پی ٹی آئی کو مذاکرات کیلئے سازگار ماحول فراہم کیا، یہ اپنے گریبان میں بھی جھانکیں، انہوں نے 2018 میں ہاؤس کمیٹی بنائی تھی، کمیشن نہیں بنایا تھا۔ شہباز شریف نے پی ٹی آئی کو کمیشن کی بجائے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ وہ آئیں بیٹھیں، ہم ہاؤس کمیٹی بنانے کو تیار ہیں، ہم مذاکرات کے لیے صدق دل سے تیار ہیں۔ ہم نے بہت نیک نیتی سے پی ٹی آئی سے مذاکرات کیےہیں، ہماری کمیٹی نے کہا کہ اپنے تحریری مطالبات دیں۔ وزیراعظم پاکستان نے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ آپ پوری طرح حقائق کو سامنے لائیں۔ 2018 میں ہم نے ہاؤس کمیٹی قبول کی آپ بھی آئیں قبول کریں۔  2018 اور 2024 کے انتخابات پر کمیٹی بنے گی، 26 نومبر کے دھرنے کی بات کی جائے گی، اس کے ساتھ 2014 کے دھرنے کی بھی ہاؤس کمیٹی احاطہ کرے گی۔ وزیرِاعظم پاکستان نے کہا کہ نیک نیتی کے ساتھ ڈائیلاگ آگے بڑھانے کے لیےتیار ہوں، انتشار کے ہاتھوں ملک کا پہلے بھی بہت نقصا ن ہوچکا ہے، یہ ملک مزید نقصان کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے وزیرِاعظمِ پاکستان نے کہا کہ افواج پاکستان کے جوانوں نے خوارج کا مقابلہ کیا، پاک فوج کے جوانوں نے خارجی دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا اور جام شہادت نوش کیا۔  افواجِ پاکستان،رینجرز ،پولیس اور سکیورٹی اداروں کی ملک کیلئے لازوال قربانیوں کی ایک داستان ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر روز خوارج ،دہشتگردوں کا مقابلہ کیا جارہا ہے۔ میں ایک شہید کے والد کو خود ملا، ان کے حوصلے بہت بلند تھے۔ اس کے ساتھ ہمیں ہر روز بہادری اور دلیری کی داستانیں سننے کو ملتی ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ میں ایک فیصد کمی کا اعلان کیاہے، میرے حساب سے پالیسی ریٹ میں کم از کم 2فیصد کمی ہونی چاہیے تھی، پالیسی ریٹ میں کمی سے صنعت اور کاروبار کو فائدہ ہوگا، ہم دن رات کاوشیں کررہے ہیں، ترقی و خوشحالی کا خواب ضرور شرمندہ تعبیر ہوگا۔ شہباز شریف نے انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے کہا کہ انسانی اسمگلنگ کے دھندے میں سیکڑوں پاکستانیوں کی جانیں گئیں، کالے دھندے کے نتیجے میں پاکستان کے چہرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ ہم نے کل انسانی سمگلنگ کے معاملے پر ایک اور میٹنگ کی تھی۔ انسان اسمگلرز نے پاکستان کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، جب تک مکمل تحقیقات نہیں ہوتیں چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ واضح رہےکہ پی ٹی آئی نے 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کے کمیشن بنانے کا مطالبہ کررکھا ہے جس کے باعث پی ٹی آئی نے مذاکراتی کمیٹی کےا جلاس میں بھی شرکت نہیں کی۔

190 ملین پاؤنڈ سکینڈل: ملک ریاض کے خلاف نیب کی سخت کارروائی شروع

(فائل فوٹو)

پاکستان کی سیاست میں ایک نیا تنازعہ جنم لے چکا ہے۔ وفاقی وزارتِ داخلہ نے نیب کی درخواست پر 190 ملین پاؤنڈ کے سکینڈل میں اشتہاری ملزمان کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا ہے جس میں پاکستان کے معروف کاروباری شخصیت ملک ریاض، ان کے صاحبزادے علی ریاض، سابق وزیراعظم کے مشیر شہزاد اکبر اور فرح شہزادی کے نام شامل ہیں۔ ان کے پاسپورٹ منسوخ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور یہ کارروائی ایک انتہائی سنجیدہ مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ یاد رہے کہ ملک ریاض وہ شخصیت ہیں جو پاکستان کے سب سے بڑے ریئل اسٹیٹ گروپ، بحریہ ٹاؤن کے مالک ہیں اور جن کی سیاست اور طاقتور حلقوں کے ساتھ قربتیں مشہور ہیں۔ قومی احتساب بیورو(NAB) کے مطابق ان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ کے اسکینڈل میں سنگین الزامات ہیں جس میں ان پر منی لانڈرنگ کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اس کیس میں پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بھی سزا سنائی گئی تھی۔ ملک ریاض کی گرفتاری کے حوالے سے ایک اہم پیشرفت یہ ہے کہ نیب نے 28 جنوری کو وزارتِ داخلہ کو ایک خط لکھا تھا جس میں ان ملزمان کے پاسپورٹ منسوخ کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ وزارتِ داخلہ نے فوراً اس کارروائی پر عمل کرتے ہوئے ان تمام افراد کے پاسپورٹس منسوخ کر دیے ہیں۔ نیب کے مطابق یہ اشتہاری ملزمان ملک سے فرار ہو کر بیرونِ ملک چلے گئے ہیں اور ان کے خلاف قانونی کارروائی جاری ہے۔ لیکن ملک ریاض نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (پہلے ٹوئٹر) پر ایک بیان جاری کر کے ایک نیا تنازعہ پیدا کر دیا ہے۔ انہوں نے اس بیان میں کہا ہے کہ انہیں کسی مقدمے میں گواہی دینے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور وہ کبھی بھی “وعدہ معاف گواہ” نہیں بنیں گے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کے کاروبار بحریہ ٹاؤن کے دفاتر پر نیب نے چھاپے مارے ہیں اور ان کے خلاف ریاستی مشینری استعمال کی جا رہی ہے۔ ملک ریاض کے مطابق ان کے دفاتر پر چھاپے سیاسی دباؤ ڈالنے کے لیے کیے گئے ہیں تاکہ انہیں کسی سیاسی ایجنڈے کا حصہ بنایا جا سکے۔ ملک ریاض نے مزید کہا کہ یہ چھاپے غیرقانونی ہیں اور ان کی ذاتی زندگی اور کاروبار کو تباہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ یہ تمام اقدامات ان پر سیاسی دباؤ ڈالنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ ملک ریاض نے حکومت اور دیگر اداروں سے مطالبہ کیا کہ ان کے دفاتر سے ضبط شدہ تمام سامان واپس کیا جائے اور ان کے عملے کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بھی ملک ریاض کی حمایت کی ہے۔ پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن نے کہا کہ ملک ریاض کا بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں سیاسی انتقام اور جبر کا کھیل جاری ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ عمران خان کے خلاف الزامات لگانے کے لیے نہ صرف سیاست دانوں بلکہ ججز، صحافیوں اور تاجر طبقے کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ملک ریاض نے اپنی پوسٹ میں ایک بار پھر واضح کیا کہ وہ کسی صورت بھی سیاسی مقاصد کے لیے پیادے کے طور پر استعمال نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی ترقی کے لیے کام کرتے رہیں گے اور کسی دباؤ کے سامنے نہیں جھکیں گے۔ ان کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ “اگر یہ سب کچھ ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو مجھے اس کا سامنا ہے لیکن میں کبھی بھی اپنے اصولوں سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔” ملک ریاض کی یہ پُرجوش پوسٹ ایک گہرے سیاسی پیغام کے طور پر سامنے آئی ہے۔ ملک ریاض کی سیاست سے جڑی یہ پیچیدہ صورتحال اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ ان کے خلاف کارروائیاں بھی سیاسی رنگ اختیار کر گئی ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ کہ ریاستی اداروں کی جانب سے ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے اس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستان میں طاقتور شخصیات اور سیاسی اداروں کے درمیان کشمکش ایک نئی سطح پر پہنچ چکی ہے۔ پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن کا کہنا تھا کہ ملک ریاض کا یہ بیان اس بات کا غماز ہے کہ پاکستان میں ایک بدترین سیاسی آمریت کا دور چل رہا ہے اور اس میں جبر کے ذریعے لوگوں کو اپنے مقاصد کے تحت ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ان کا مزید یہ کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت جو بھی سیاسی قوتوں کے خلاف آواز اٹھاتا ہے وہ نشانہ بنتا ہے۔ اب اس بات کی توقع کی جا رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں اس تنازعہ میں مزید کشیدگی دیکھنے کو ملے گی۔ یہ صورتحال ایک طرف جہاں سیاسی طاقتوروں کے درمیان کشمکش کو ظاہر کرتی ہے وہیں دوسری طرف عوامی سطح پر بھی بے چینی اور سوالات کا سامنا ہے کہ آخر ملک ریاض کے خلاف یہ کارروائیاں کس حد تک درست ہیں۔