پاکستان میں پولیو کے کیسز میں اضافہ، ویکسی نیشن ٹیموں پر حملے بھی بڑھ گئے

(فائل فوٹو)

پاکستان میں پولیو کے کیسز ایک بار پھر بڑھتے جا رہے ہیں اور یہ خطرہ ملک کے سب سے غیر مستحکم اور شورش زدہ علاقوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ 2021 میں صرف ایک کیس رپورٹ ہونے کے بعد 2022 میں 73 کیسز سامنے آچکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ پولیو کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان ایک بار پھر شکست کے دہانے پر کھڑا ہے۔ پاکستان کے صوبوں بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں سیاسی کشمکش اور دہشت گردی کی وجہ سے پولیو ویکسی نیشن ٹیموں پر حملے بڑھ گئے ہیں۔ جیسا کہ 2024 میں بھی کئی ٹیموں اور ان کے محافظوں کو نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ یہ پولیو زدہ علاقے افغانستان کی سرحد سے ملتے ہیں جہاں پولیو کے کیسز بڑھ رہے ہیں اور یہاں عالمی پولیو مہم کو سب سے زیادہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ دوسری جانب تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور افغان طالبان کے درمیان گہرے تعلقات کے بعدٹی ٹی پی نے پولیو ویکسی نیشن ٹیموں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال پولیو ٹیموں پر 25 سے زائد حملے ہو چکے ہیں۔ ایک طرف جہاں ملک کی حکومت پولیو کے خلاف لڑنے والے ہیروز کو تحفظ دینے کی کوششیں کر رہی ہے وہیں دوسری طرف دہشت گردگروپ سمجھتے ہیں کہ یہ مہم کسی عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے جس کا مقصد ان کی لڑائی کے خلاف جاسوسی کرنا ہے۔ نجی خبر رساں ادارے ‘دا واشنگٹن پوسٹ’ کے مطابق 2011 میں امریکی سی آئی اے نے اس مہم کو اس لیے بدنام کیا تھا کہ اس نے اسلحہ کی تلاش میں ایک جعلی ہیپاٹائٹس ویکسی نیشن مہم چلائی تھی۔ اس اقدام نے دہشت گردوں میں یہ تاثر پیدا کیا کہ یہ ویکسی نیشن مہم ایک قسم کی جاسوسی ہے۔ پولیو ویکسی نیشن ٹیموں کے کارکنان جنہیں روزانہ صرف 18 ڈالر ملتے ہیں ،وہ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر کام کر رہے ہیں۔ دا واشنگٹن پوٹ کے مطابق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ایک علاقے میں 24 سالہ احمد بھٹانی نے اپنے جان کے خوف سے پولیو ویکسی نیشن کے کام سے استعفیٰ دے دیا۔ اس نوجوان نے بتایا کہ وہ اور اس کے ساتھی پولیس کی حفاظت میں ویکسین دینے جا رہے تھے جب ایک حملہ آور گروپ نے ایک پولیس افسر کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد اس کے لیے اپنے ہی گاؤں جانا بھی خطرے سے خالی نہیں رہا۔ احمد بھٹانی کا مزید کہنا تھا” کہ اب میں اپنے گاؤں بھی نہیں جا سکتا کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ دہشت گرد مجھے مار ڈالیں گے”۔ ٹی ٹی پی کی نظر میں اگر ویکسی نیشن ٹیمیں پاکستانی فوج کی بجائے ان کے ساتھ تعاون کریں تو وہ ان کی مکمل حفاظت فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پولیو کے حوالے سے ایک اور پریشان کن بات یہ ہے کہ پولیو ویکسی نیشن ٹیموں کو دہشت گردوں کے حملوں کا سامنا تو ہے ہی اس کے  ساتھ ہی ساتھ پولیو ویکسین کی ترسیل میں درپیش مشکلات بھی بڑھ رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سردی کی حالت میں ویکسین کی حفاظت میں نقائص اور ویکسین کی ناکافی فراہمی ان مسائل میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ گاؤں دیہات میں صاف پانی کی کمی بھی ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ پولیو وائرس آلودہ پانی پینے سے پھیلتا ہے۔ پاکستان کے مشہور معالج ڈاکٹر نسیر رانا کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ پولیو ویکسی نیشن ٹیموں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ صحت کے کارکنوں کے لیے بہتر مراعات فراہم کرے۔انہوں نے کہا کہ “یہ کارکنان قومی ہیروز ہیں جو اپنی جان خطرے میں ڈال کر لوگوں کی زندگی بچا رہے ہیں، ان کا احترام کیا جانا چاہیے۔” پاکستان اور افغانستان میں پولیو کی وبا کا بڑھنا ایک عالمی بحران بن سکتا ہے۔اور اگر عالمی سطح پر اس مسئلے کا فوری حل نہ نکالا گیا تو پولیو کا وائرس پوری دنیا میں پھیل سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں امریکہ نے پاکستان کو پولیو کے خلاف مہم کے لیے تقریباً 7 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی تھی لیکن اگر اس امداد میں کمی آئی تو یہ پاکستان اور افغانستان کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ پاکستان کے سابق پولیو پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر رانا محمد صفدر نے خبردار کیا ہے کہ “اگر پاکستان اور افغانستان میں پولیو کے خلاف اس وقت کے اقدامات میں کمی آئی تو اس کے اثرات بہت سنگین ہو سکتے ہیں اور یہ نہ صرف ان دونوں ملکوں بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرہ بن جائے گا۔” اگر یہ سلسلہ نہ روکا گیا تو نہ صرف بچے مفلوج ہو سکتے ہیں بلکہ یہ وائرس دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی پھیلنے کا خطرہ بن سکتا ہے۔ حکومت اور عالمی برادری کو اس بحران کا فوری اور مؤثر حل نکالنے کی ضرورت ہے تاکہ مزید بچوں کی زندگی کو محفوظ بنایا جا سکے۔

حماس نے اسرائیلی اربیل یہود،گڑی موسس اور برگر کے بدلے 110 قیدی چھڑالیے

Arbel yehood 1

فلسطینی عسکری گروہوں  نے جمعرات کے روز 110فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں 3 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا۔ ایک اسرائیلی اہلکار، اگام برگر جس نے زیتون کے جیسا سبز رنگ والا یونیفارم پہنا ہوا تھا اسے شمالی غزہ جابالیہ  میں ریڈ کراس کے حوالے کرنے سے پہلے تباہ شدہ علاقے میں سے گزارا گیا۔ گڑی موسیس اور اربل یاہود جو بالترتیب 80 اور 29 سال کے ہیں دونوں کبوتر نیراوزکے مقام پر حماس کی جانب سے کیے گئے حملے میں 7 اکتوبر 2023 کو اغوا ہوئے۔ انہوں نے رہا ہونے کے بعدمصلح گروہوں کی موجودگی میں ایک دوسرے کو گلےسے لگایا، جس کی ویڈیو حماس دوست اسلامک جہاد نے جاری کی۔ فلسطینی قیدی جن میں 30 چھوٹے اور فلسطینی گروہوں کے کچھ ممبرز شامل ہیں اسرائیل میں بمباری کے حملوں میں ملوث پائے گئے تھے، دن کے اختتام میں مغربی کنارے یا غزہ سے حاصل کر لیے جائیں گے ۔ 5 تھائی لینڈ کے شہری بھی ان اغوا ہونے والے لوگوں میں شامل ہیں جو غزہ میں عسکری گروہوں نےایک اور معاہدے میں آزاد کیے ہیں۔ باغیوں کو اسرائیل میں تین مختلف مقامات پر لایا جانا تھا گوکہ ڈاکٹرز کی وجہ سے ان کی جگہ تبدیل بھی ہو سکتی تھی۔ تل ابیب کا مرکزی چوک جو اب یرغما لیوں کے چوک کے نام سے جانا جاتا ہے، میں اسرائیلی جمع ہوئے۔ یہ جگہ اب یرغمالیوں کو رہا کرنے کے لیے  استعمال کی جاتی ہے۔ یہاں لوگ جمع ہوتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور خوشی کے آنسو بہاتے ہیں۔ حماس کے اسرائیل حملے میں تقریباً 12 سو لوگ مارے گئے اور 250 لوگ اغوا کر لیے گئے۔یہ ہولوکاسٹ کے بعد یہودیوں پر سب سے شدید حملہ تھا۔ اسرائیلی عسکری جواب میں 47 ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے اور 2.2ملین لوگ بے گھر ہوئے۔ جب کہ ان میں سے آدھے غزہ میں اسرائیلی حملوں میں زندہ یا مردہ پائے گئے۔ غزہ کے سینکڑوں اور ہزاروں لوگ جو اس تنازع میں اغوا ہوئے تھے اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ زیادہ تر لوگ جب اپنے گھروں کو دیکھتے ہیں تو وہ رہنے کے قابل نہیں ہوتے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق ابھی بھی 89 لوگ غزہ میں ہیں جن میں 30 کی موت ہو چکی ہے۔

ڈیپ سیک کو آتے ہی سبکی کا سامنا، حساس ڈیٹا لیک ہوگیا  

Deep seek data

نیویارک کی معروف سائبر سیکیورٹی فرم ویز نے ایک انتہائی سنسنی خیز انکشاف کیا ہے کہ چینی مصنوعی ذہانت کا اسٹارٹ اپ “ڈیپ سیک” کا حساس ڈیٹا بغیر کسی حفاظتی تدابیر کے انٹرنیٹ پر آ گیا ہے۔ ویز کے مطابق، یہ ڈیٹا اس وقت غیر محفوظ طریقے سے منظرِ عام پر آیا جب کمپنی نے اپنے انفراسٹرکچر کی اسکیننگ کی۔ یہ انکشاف بدھ کے روز ویز کے بلاگ پر شائع کیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ڈیپ سیک نے حادثاتی طور پر 10 لاکھ سے زائد حساس معلومات کو انٹرنیٹ پر کھلا چھوڑ دیا تھا۔ یہ ڈیٹا نہ صرف سافٹ ویئر کی لائسنس کی کلیدوں پر مشتمل تھا بلکہ چیٹ لاگ بھی شامل تھے، جو صارفین کی جانب سے ڈیپ سیک کے مفت مصنوعی ذہانت کے اسسٹنٹ کو بھیجے گئے اشاروں (prompts) کی تفصیلات ظاہر کرتے ہیں۔ یہ معلومات حساس نوعیت کی تھیں اور اس سے کمپنی کے صارفین کی پرائیویسی پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے تھے۔ ویز کے چیف ٹیکنالوجی آفیسر، امی لوٹواک، نے اس بارے میں مزید تفصیل دیتے ہوئے کہا کہ ڈیپ سیک نے فوری طور پر اس مسئلے کی اطلاع دی اور ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں ڈیٹا کو ہٹا دیا۔  ویز کی تحقیق سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ ڈیپ سیک نے اگرچہ فوراً کارروائی کی، لیکن اس نوعیت کی غلطیوں کے سامنے آنے سے مستقبل میں دیگر سیکیورٹی خطرات کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا ہے جب ڈیپ سیک کی کمپنی نے اپنی مصنوعی ذہانت کی خدمات کا کامیاب آغاز کیا،ڈیپ سیک کی کامیابی نے اس بات پر سوالات اٹھا دیے ہیں کہ آیا اوپن اے آئی اور دیگرامریکی ٹیکنالوجی کمپنیاں اپنے منافع کے مارجن کو برقرار رکھ پائیں گی، کیونکہ ڈیپ سیک نے انتہائی کم قیمت پر اوپن اے آئی کی خدمات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت دکھائی ہے۔ پیر تک، ڈیپ سیک کے ایپ نے ایپل کے ایپ اسٹور پر امریکی حریف چیٹ جی پی ٹی کو پیچھے چھوڑ دیا، جس سے ٹیک کمپنیوں کے شیئرز کی عالمی سطح پر فروخت میں تیزی آ گئی تھی۔ یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے، سائبر سیکیورٹی کی غفلت کسی بھی کمپنی کے لئے سنگین نتائج کا سبب بن سکتی ہے اور ڈیجیٹل دنیا میں حفاظت کے اقدامات کو نظرانداز کرنا انتہائی مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔  

امریکی صدر کی وائٹ ہاؤس واپسی تارکینِ وطن کے لیے چیلنج کیوں؟

American president trump

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپس آمد تارکینِ وطن کے لیے بڑا چیلنج بن گئی ہے۔گوانتاناموبے میں غیر قانونی تارکینِ وطن کےلیے ایک حراستی مرکز بنانے کا حکم دیا گیا ہے، جہاں 30 ہزار افراد کو رکھا جا سکے۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےبدھ کے روز اعلان کیا کہ  ہوم لینڈ سکیورٹی اور پنٹاگان کو حکم دیا ہے کہ گوانتانامو بے میں خصوصی جگہ بنائی جائے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر  نے لیکن ریلی ایکٹ پر دستخط کردیے ہیں جس سے غیر قانونی امیگرینٹس کو گرفتار کرنا، حراست میں لیا جانا اور جبری بے دخل کرنا آسان ہوگیا ہے۔مزید یہ کہ صدر ٹرمپ کے دوسرے دور میں قانونی حیثیت اختیار کرنے والا یہ پہلا قانون ہے۔ اس کے ساتھ ہی اپنے دوسرے دور کے پہلے دن ہی ٹرمپ نے  امیگریشن سے متعلق کئی انتظامی احکامات پر دستخط کیے ہیں، اس کے علاوہ ایک قانون کو منسوخ کیا جس میں وفاقی ایجنٹوں کو گرجا گھروں، سکولوں اور ہسپتالوں میں بغیر دستاویزات والے تارکین وطن کی تلاش کی ممانعت تھی۔ یہ وہ مقامات ہیں جنھیں پہلے حساس سمجھا جاتا تھا اور انھیں امیگریشن چھاپوں سے مستثنیٰ سمجھا جاتا تھا۔ اس بل کوری پبلکنز اور ڈیموکریٹس دونوں کی اتفاقِ رائے سے منظور کیا گیا تھا،جس پرصدر ٹرمپ نے ڈیموکریٹس سے اظہار تشکر کرتے ہوئےکہا کہ اس قانون سے سیکڑوں امریکی زندگیاں محفوظ ہوں گی۔ ریلی ایکٹ کے تحت اب وفاقی امیگریشن حکام بغیر قانونی اسٹیٹس کے امریکا میں مقیم ایسے افراد کو بھی جبری بے دخل کرسکیں گےجن پر معمولی نوعیت کی چوری، دکان سے چیز اٹھانے، اہلکار پر تشدد کرنے یا کسی شہری کوموت کے منہ میں دھکیلنے یا شدید زخمی کرنے میں ملوث ہوں گے۔ امریکی صدر نے غیرقانونی امیگرینٹس کو گوانتاناموبے جیل بھیجنے کا منصوبہ بھی بنالیا ہے ۔اس ضمن میں ہوم لینڈ سکیورٹی اور پنٹاگان کو ٹرمپ کی  ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔مجرموں کیلئے گوانٹاناموبے میں 30 ہزار بستر موجود ہیں۔ خیال رہے کہ گوانتانامو بے ایک امریکی بحری اڈہ اور جیل ہے جو کیوبا کے جنوب مشرقی حصے میں واقع ہے،جسے عام طور پر گوانتانامو بے حراستی مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے، جہاں 2002 کے بعد سے دہشت گردی کے مشتبہ ملزمان کو قید کیا گیا ہے۔ غیر ملکی نیوز چینل بی بی سی اردو کے مطابق اگر کوئی شخص کسی معقول دستاویزات کے بغیر ان پناہ گاہ کہے جانے والے شہر میں رہ رہا ہے تو وہ اپنی امیگریشن کی حیثیت کو ثابت کیے بغیر حکام کے ساتھ معاملات میں آسانی کی توقع کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کسی بغیر دستاویز والے شخص کو کسی جرم کی وجہ سے حراست میں لیا جاتا ہے اور امیگریشن حکام کو اس کے بارے میں پتا چلتا ہے تو انھیں اس کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا حق حاصل ہے۔ وہ کاروباری اداروں یا عوامی مقامات کے ساتھ ساتھ نجی گھروں میں بھی چھاپے مار سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ  دورِ حاضر کے امریکہ میں صحیح معنوں میں کوئی بھی شہر ایسا نہیں ہے جو کہ حقیقتا پناہ گاہ ہو اور جہاں آئی سی ای جیسی وفاقی ایجنسیاں ملک بدری کے لیے داخل نہ ہو سکیں۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ کوئی شخص بغیر قانونی دستاویزات کے وہاں پہنچ کر سیاسی پناہ کی درخواست کر سکتا ہے اور اسے ملک بدر نہیں کیا جائے گا۔ واشنگٹن ڈی سی میں قائم امریکن یونیورسٹی میں امیگریشن لیبارٹری اور سینٹر فار لیٹن امریکن سٹڈیز کے ڈائریکٹر ارنیسٹو کاستانیدا نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ اگرتارکین وطن  کے پاس معقول دستاویزات نہیں ہیں اور ان پر ملک بدری کے احکامات عائد ہیں تو تمام پولیس فورسز پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے تارکینِ وطن  کوئی بھی جرم کرنے سے بچتے ہیں، وہ ڈرائیونگ یا باہر جانے کی کوشش نہیں کرتے کہ کہیں پولیس کا سامنا نہ ہو جائے، وہ نشے کی حالت میں گاڑی چلانے یا اس طرح کی کوئی چیز کرنے سے گریز کرتے ہیں جو ان کے لیے ملک بدری کا باعث بنے۔ دوسری جانب  ٹرمپ اور دیگر ریپبلکن سیاست دانوں کی جانب سے بغیر دستاویزات والے تارکینِ وطن کی پناہ گاہ کہے جانے والے شہروں میں ڈیموکریٹک حکومتوں کی جانب سے مبینہ تحفظ فراہم کیے جانے کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ تارکین وطن دوسرے گروپوں کے مقابلے میں کم فلاحی پروگرامز کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ ٹیکس اور پنشن کی مد میں زیادہ ادائیگی کرتے ہیں جن کا وہ ریٹائر ہونے پر کبھی دعویٰ نہیں کرتے، کیونکہ انھوں نے یا تو غلط سوشل سکیورٹی نمبر استعمال کیے ہوتے ہیں یا پھر وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے ہوتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ زائد ادا کیے ٹیکسوں کی واپسی کا مطالبہ بھی نہیں کرتے اور بہت سے لوگ بے نقاب ہونے کے خوف سے امدادی پروگراموں پر اپنا حق نہیں جتاتے۔ حقیقت یہ ہے کہ پناہ گاہ کہے جانے والے شہر امیگریشن ایجنسیوں کے ساتھ تعاون نہیں کرتے ہیں کیونکہ اس سے وفاقی حکومت سے وسائل کے حصول کے حوالے سے تنازعات پیدا ہو سکتے ہیں۔وائٹ ہاؤس ان ریاستوں اور مقامی حکام کی حمایت کر سکتا ہے جو اس کی امیگریشن پالیسیوں میں مدد کرتے ہیں۔ جارج ڈبلیو بش یا ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور کی ریپبلکن انتظامیہ نے سیکشن 287 جی جیسے ضابطوں کا استعمال کیا ہے تاکہ مقامی حکام کو امیگریشن کی حیثیت کا جائزہ لینے جیسے وفاقی کاموں کو انجام دینے کے لیے ترغیبات فراہم کی جائیں۔

لندن میں روزانہ 55 ہزار چوری کے واقعات: پیشہ ورانہ گینگ ملوث

Uk retail crime

جمعرات کو شائع ہونے الی ایک رپورٹ کے مطابق چوری اورظلم کےبڑھتے ہوئے  واقعات لندن میں ریکارڈ لیول پر پہنچ چکے ہیں جن میں زیادہ تر جرائم پیشہ افراد اور مجرمانہ گینگ شامل ہیں۔ برٹش ریٹیل کنزورٹیم (بی آر سی) کے مطابق سورے کی رپورٹ بتاتی ہے کہ 31 اگست 2024 تک چوری کے 20 ملین واقعات رونما ہوئے، جو 55 ہزار فی دن بنتے ہیں، جس میں خوردہ فروشوں کو2.2بلین پاؤنڈز کا نقصان ہوا ہے۔ گزشتہ سال واقعات کی تعداد 16 ملین تھی۔ بی آر سی کا کہنا ہے کہ زیادہ تر واقعات پیشہ ورانہ جرائم سے منسلک تھے، جہاں گینگ مختلف طریقوں سے پورے ملک میں دکانوں کو نشانہ  بناتے ہیں۔ 2023 اور 24 میں ظلم و تشدد کے واقعات 2ہزار کی حد کو عبور کر گئے جب کہ اس سے پہلے یہ واقعات 13 سو تک تھے۔ بی آر سی کے ہیڈ ہیلن ڈکنسن نے  کہا “خوردہ فروشوں کے واقعات کنٹرول سے باہر ہو رہے ہیں۔ سٹورز مین موجود لوگ مارے جاتے ہیں ان پر تشدد کیا جاتا ہے ۔ ہر دن یہ ہو رہا ہے ۔ جرائم پیشہ افراد روز بروز مزید طاقتور اور پر تشدد ہو رہے ہیں”۔ ان جرائم کے پیش نظر عوام پولیس کے اقدامات سے اطمینان محسوس نہیں کرتی ہے۔  سروے میں 61 ٪ لوگوں نے پولیس کے اقدامات کو “برا” یا “بہت برا” قرار دیا ہے۔ ڈکنسن کا کہنا ہے کہ پولیس کے غیر مطمن جواب کو دیکھتے ہوئے مجرمان یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے پاس چوری اور ظلم و تشد د کرنے کا لائسنس موجود ہے”۔ بی آر سی کے مطابق ان جرائم کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں جو پیسے خرچ ہو رہے ہیں وہ بھی ریکارڈ ہائی جا رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اب تک 1.8بلین پاونڈزسی سی ٹی وی کیمرے، اینٹی تھیفٹ آلات اور سیکیورٹی کے عملے کے لیے خرچ کیے گئے ہیں۔ ٹیسلو سمیت بہت سے بڑے ریٹیلرز  نے پچھلے ایک سال میں اس مسئلے کو اٹھایا ہے۔

پیكا ترمیم: ‘آئینی حقوق اور صحافتی آزادی پر حملہ’ قرار

Peka act

الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے قانون میں حالیہ ترمیم پاکستان میں بنیادی آئینی حقوق اور صحافتی آزادی پر براہ راست حملہ ہے۔ حکومت نے اس بل کو بغیر کسی متعلقہ فریقین سے مشاورت کےعجلت میں منظور کیا، جس سے صحافت اور آزادی اظہار پر سنگین خدشات پیدا ہو چکے ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا الائنس برائے پاکستان کے صدرسبوخ سید نے اپنے ایک بیان میں ترامیم کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ “یہ ترامیم پاکستان میں صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے لیے مزید مشکلات پیدا کریں گی، جو پہلے ہی سخت قوانین کے تحت مشکلات کا شکار ہیں ،یہ امر تشویشناک ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں بغیر اس کے طویل مدتی نتائج کو مکمل طور پر سمجھے ، اس مسئلے پر ایک ہی صفحے پر نظر آتی ہیں،۔ انہوں نے کہا کہ “پاکستان کا میڈیا پہلے ہی شدید دباؤ کا سامنا کر رہا ہے، اور قوانین کو مزید سخت کرنے سے صرف آزاد صحافت کو خاموش کرنے میں مدد ملے گی۔ ہم اس ترمیم کو سختی سے مسترد کرتے ہیں اور حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس طرح کے اہم فیصلے کرنے سے قبل میڈیا نمائندوں کے ساتھ بامعنی بات چیت کریں۔ ڈیجیٹل میڈیا الائنس برائے پاکستان صحافتی آزادی کے دفاع میں ثابت قدم ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ جمہوریت اور آزادی اظہار کے مفاد میں اس ترمیم پر نظرثانی کرے۔” گزشتہ روز صدر مملکت آصف علی زرداری نے پیکا ایکٹ کے ترمیمی بل پر دستحط کیے جس کے بعد پیکا ایکٹ ترمیمی بل قانون کا حصہ بن گیا۔ یاد رہے کہ قومی اسملبی میں یہ بل 23 جنوری کو پیش کیا گیا۔ جس کے دوران صحافیوں نے کاروائی سے بھی واک آؤٹ کیا تھا۔ اسلام آباد میں صحافیوں کی تنظیم پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن نے بدھ کو دعویٰ کیا تھا کہ صدر آصف زرداری نے پیکا ایکٹ پر دستخط نہ کرنے کی ان کی درخواست قبول کر لی تاہم اسی روز ایوان صدر سے جاری بیان میں بتایا گیا صدر نے پیکا ایکٹ پر دستخط کر دیے ہیں۔ صحافتی تنظیموں اور جماعت اسلامی نے پیکا ترامیم کو ‘آزادی اظہار کے منافی’ قرار دے کر اس مخالفت کی ہے۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے قانون سازی کے دوران ہر مرحلے پر بل کی حمایت کی جب کہ ماضی میں پیکا قوانین نافذ کرنے اور اسے مزید سخت کرنے سے متعلق عمران خان کے بیان کے برعکس پی ٹی آئی نے بھی اس کی مخالفت کی ہے۔ پیکا ایکٹ کے تحت غیر قانونی مواد یا فیک نیوز پر تین سال قید اور 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکے گا۔ پیکا ایکٹ کے تحت ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو تحلیل کر کے نئی تحقیقاتی ایجنسی قائم کی جائے گی۔ اس کے ساتھ سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی۔ ایسا مواد جو اسلام مخالف، قومی سلامتی یا ملکی دفاع کے خلاف، توہینِ عدالت کے زمرے میں آتا ہو، غیر اخلاقی مواد، مسلح افواج کے خلاف الزام تراشی، بلیک میلنگ، جرائم یا دہشت گردی کی حوصلہ افزائی سمیت 16 اقسام کے مواد کو غیر قانونی مواد قرار دیا گیا ہے۔ ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی کل 9 اراکین پر مشتمل ہو گی جس میں  سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا بھی شامل ہوں گے۔بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جاسکے گا، چیئرمین اور 5 اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی۔ حکومت نے اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے، اس کے علاوہ دیگر 5 اراکین میں 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ وئیر انجنیئر بھی شامل ہوں گے جب کہ ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہوگا۔  

انڈیا کا سب سے قدیم میلہ ’کمبھ‘ شرکا کے لیے ڈراؤنا خواب بن گیا، یہ کیوں اور کب منعقد ہوتا ہے؟

Kumbh mela 3

کمبھ میلہ، جو ہر 12 سال بعد ہندوستان کے مختلف مقامات پر منعقد ہوتا ہے۔ یہ صرف ایک مذہبی تہوار نہیں ہے بلکہ ایک ایسا ایونٹ ہے جس میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد شرکت کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ایک ایسا روحانی سفر ہے جو دنیا بھر سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ کمبھ میلہ کی جڑیں ہندو اساطیر میں گہری پیوست ہیں۔ یہ تہوار “کمبھ” یعنی گھڑے کے نام سے موسوم ہے، جو ایک مقدس برتن کی علامت ہے جس میں ہندو اساطیر کے مطابق امرت (امروت) رکھا گیا تھا۔ امروت سے مراد سمندرکومنتھن کرنے کے دوران دیوتاؤں اور شیطانوں کے درمیان امرت کا حصول ایک ایسی کہانی ہے جس میں اس کا چند قطرے ان مقدس مقامات پر گرے، جہاں آج کمبھ میلہ منایا جاتا ہے۔ ان مقامات میں پریاگ راج (گنگا)، ہریدوار (گنگا)، ناسک (گوداوری)، اور اجین (شیپرا) شامل ہیں۔ یہ میلہ ہر کسی کے لیے ایک نیا تجربہ اور ایک نیا موقع ہوتا ہے۔ یہاں آ کر ہندو عقیدے کے پیروکار اپنی روحانی صفائی حاصل کرتے ہیں، اور یہ ان کے گناہوں سے چھٹکارے اور نجات کا وسیلہ بنتا ہے۔ کمبھ میلہ میں شامل ہونے والے لوگ یقین رکھتے ہیں کہ مقدس ندیوں میں غسل کرنے سے نہ صرف ان کے گناہ دھل جاتے ہیں بلکہ یہ انہیں موکش (روحانی آزادی) کے قریب لے آتا ہے۔ یہ تہوار زندگی میں ایک بار ہونے والے تجربات میں سے ایک ہے جو کسی شخص کو اپنے ایمان کو مزید پختہ کرنے اور اپنے روحانی سفر کو دوبارہ دریافت کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ 2025 کا کمبھ میلہ ایک مہا کمبھ ہے، انڈین حکام کے مطابق، یہ 45 دنوں پر مشتمل ہوگا اور اس دوران تقریباً 400 ملین افراد کی شرکت کی توقع ہے۔ کمبھ میلے کا احاطہ تقریباً 40 مربع کلومیٹر پرہے، جس میں 160,000 خیمے، 40,000 پولیس اہلکار، 15,000 صفائی ملازمین، اور 150,000 بیت الخلاء مختص کیے گئے ہیں۔ کمبھ میلے کی اصل کشش شاہی غسل ہے، جس میں سادھو (مقدس مرد) اور عام شہری حصہ لیتے ہیں۔ یہ غسل ایک روحانی صفائی کی علامت ہے اور اس میں شامل ہونا ایک مقدس رسم کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔غسل کے دوران سادھو اپنے مخصوص لباس میں، اکثر ناگا سادھو (جو خود کو راکھ میں ڈھانپ کر جسمانی طور پر ترک کر دیتے ہیں) ہوتے ہیں۔ ان کے پیچھے عقیدت مند، جو اپنے گناہوں سے چھٹکارا پانے کے لیے اس موقع کا فائدہ اٹھانے آتے ہیں، ندی میں غوطہ لگاتے ہیں۔ تاریخ دان کہتے ہیں کہ کمبھ میلہ صرف ہندوستان کے لیے نہیں بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کے لیے ایک ثقافتی اور روحانی محفل ہے۔ یہ نہ صرف ایک مذہبی اجتماع ہے بلکہ ایک ایسا تہوار بھی ہے جو دنیا بھر کے مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے افراد کو ایک جگہ جمع کرتا ہے۔ ہندوستانی روحانیت کی طاقت اور اس کی گہرائی کا یہ بہترین مظہر ہے، جو لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لے آتا ہے اور انہیں اپنے اندر کی روحانی تجدید کی طرف راغب کرتا ہے۔ کمبھ میلہ 2025 کی تیاریوں کے حوالے سے انڈیا انتظامیہ کی قلعی کھل گئی ہے، بھگدڑ مچنے سے 30افراد ہلاک ہوچکے ہیں، اگر ایسے انتظامات رہے تو 45 دن میں تو کیا سے کیا ہوجائے گا ۔ روحانی سکون کے لیے آنے والے ’بے چین ‘ ہی رہیں گے۔

امریکا کی امداد بند: سینکڑوں ملازمین کو نوکریوں سے نکال دیا گیا

Usaid

جیسے ہی امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کی پوری دنیا میں امداد کو روکاہے سیکڑوں کی تعداد میں عالمی ترقیاتی ایجنسیوں میں کام کرنے والے لوگ بغیر پیسوں کے چھٹیوں پر یا مستقل طور پر نوکری سے نکال دیے گئے ہیں۔ گوکہ امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہاانسانی جانیں بچانے والےاداروں کو امداد بحال کر دی جائے گی مگر واشنگٹن کی جانب سے 90 دن میں ریوئیوکرنے کے بعد امداد کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے اگلے چند گھنٹوں میں سامنے آیا۔ امریکی وزیر کے بیان کے بعد بھی صحت اور انسانی گروہوں کی تنظیمات نے بدھ کے روز غیر یقینی صورتحال کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا انہیں اپنا کام جاری رکھنا چاہیے یا نہیں۔ انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ہم ٹرمپ کی “امریکا سب سے پہلے” پالیسی کے پیشِ نظر یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہاکہ اربوں ڈالر کی امریکی امداد ضائع نہ ہو ۔ امریکا ا تک کا دنیا میں سب سے زیادہ امدداد کرنے والا ملک ہے۔ 2023 کے مال سال میں اس نے 72 بلین ڈالر پوری دنیامیں تقسیم کیے جس میں خواتین کی صحت، صاف پانی، ایڈز کا علاج، توانائی اور اینٹی کرپشن کے منصوبے شامل ہیں۔ محکمہ خارجہ نے بدھ کے روز کہا کہ امداد میں وقفے نے غزہ میں خواتین کے لیے خاندانی منصوبہ بندی سمیت لاطینی امریکا میں توانائی کے پروگرامز کو معطل کر دیا ہے۔ یو ایس ایڈکے  کیریئر کے دفاتر سمیت امریکہ میں کام کرنے والے سینکڑوں ادارہ سپورٹ کنٹریکٹرز کی چھٹی اس وقت ہوئی جب انتظامیہ نے سوموار  کے روز تقریباً 60 اہلکاروں کو اس لیے چھٹی دے دی جس کے بارے میں موجودہ اور سابق عہدیداروں کا کہنا ہے کہ کسی بھی اختلاف رائے کو خاموش کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ ایجنسی میں غیر جانبدار قیادت کی کمی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیاگیا ہے۔ یو ایس ایڈکے ایک اہلکار نے معاملے کی حساسیت کے پیش نظر اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ادارہ جاتی معاونت کے معاہدوں کے لیے پیر کو جاری کیے گئے “اسٹاپ ورک” کے احکامات کے نتیجے میں 600 افراد کو گھر بھیج دیا گیا اور ایجنسی کے گلوبل ہیلتھ بیورو میں چھٹی دی گئی۔ پبلک ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ (پی ایچ آئی)، یو ایس ایڈ کے گلوبل ہیلتھ بیورو کے ادارہ جاتی معاونت کے ٹھیکیدار نے منگل کو دیر گئے اپنے گلوبل ہیلتھ ٹریننگ، ایڈوائزری اور سپورٹ کنٹریکٹ پروگرام کے ملازمین کو ایک ای میل بھیجی جس میں کہا گیا ہے کہ ان کی ملازمت بند ہونے کے نتیجے میں ختم کر دی گئی ہے۔ یو  ایس ایڈ اور سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے میڈیا کے بھیجے ہوئے سوالا ت کا جواب نہیں دیا ہے۔ پی ایچ آئی نے اس سوال کا جواب نہیں دیا ہےکہ کتنے لوگوں کو نوکری سے نکالا گیا ہے۔ یو ایس ایڈ کے ایک اور افسر نے بتایا کہ  “لوگ احکامات کی خلاف ورزی نہیں کر رہے ہیں وہ صرف اس ایجنسی کے مشن کو مجموعی طور پر جاری رکھنے کے طریقے تلاش کرنے پر اصرار کر رہے ہیں۔ اہلکار نے کہا کہ 90 دن کے جائزے کے بعد امداد کی فراہمی کو دوبارہ شروع کرنا ان کے بغیر بہت مشکل ہو جائے گا۔

امریکا میں مسافر طیارہ فوجی ہیلی کاپٹر سے ٹکرا گیا، 64 مسافر سوار ،28 لاشیں نکال لی گئیں

Washington air incident

امریکی حکام کے مطابق ایک امریکن ائیر لائنز کا مسافر طیارہ  بدھ کی رات ریگن واشنگٹن نیشنل ائیر پورٹ کے قریب یو ایس آرمی کے بلیک ہاک ہیلی کاپٹر سے ٹکرانے کے بعد دریائے پوٹومیک میں گر گیا۔ خبر رساں ادارے ’واشنگٹن پوسٹ’ کے مطابق ” پانی سے 28 لاشیں نکال لی گئی ہیں”۔ ٹیکساس کے سینیٹر ٹیڈ کروز نے سوشل میڈیا پر کہا کہ “ہمیں معلوم ہے کہ ہلاکتیں ہوئی ہیں،” حالانکہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کتنے لوگ جاں بحق ہوئے ہیں”۔ امریکن ایئر لائنز کے ایک افسر نے بتایا کہ” 60 مسافروں کے ساتھ دو پائلٹ اور عملے کے دو ارکان پرواز میں شامل تھے۔ ایک امریکی اہلکار نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر میں تین فوجی سوار تھے”۔ اطلاعات کے مطابق اب تک 28 لاشیں نکال لی گئی ہیں مزید کی تلاش جاری ہے۔ فروری 2009 کے بعد سے امریکی مسافر بردار ہوائی جہاز کا کوئی جان لیوا حادثہ نہیں ہوا، لیکن حالیہ برسوں میں ہونے والے واقعات کی ایک سیریز نے حفاظت کے سنگین خدشات پیدا کر دیے ہیں۔ این بی سی نے اطلاع دی ہے کہ “چار افراد کو دریائے پوٹومیک سے زندہ نکالا گیا ہے”۔ یو ایس فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن نے کہا کہ “پی ایس اے ایئر لائنز کا علاقائی جیٹ ریگن کے قریب پہنچتے ہوئے ہیلی کاپٹر سے درمیانی ہوا میں ٹکرا گیا”۔ دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ متعدد ایجنسیاں ہوائی اڈے سے متصل دریائے پوٹومیک میں تلاش اور بچاؤ کے آپریشن میں شامل تھیں۔ ہوائی اڈے کے حکام نے بدھ کے روز کہا کہ “تمام ٹیک آف اور لینڈنگ روک دی گئی ہیں کیونکہ ہنگامی عملے نے ہوائی جہاز کے واقعے پر ردعمل ظاہر کیا”۔ نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ نے کہا کہ” وہ اس واقعے کے بارے میں مزید معلومات اکٹھا کر رہیں”۔ امریکی ائیر لائن کی جانب سے سوشل میڈیا پر کہا گیا کہ”وہ ان اطلاعات سے آگاہ ہے کہ ای ایس اے 5342 پروازایک حادثے کا شکار ہوئی ہے۔     View this post on Instagram   A post shared by NBC4 Washington (@nbcwashington) امریکن ایئر لائنز نے کہا کہ “وہ مزید معلومات فراہم کرے گی جیسے ہی یہ کمپنی کو ملتی ہیں ۔ پچھلے دو سالوں کے دوران، واقعات کی ایک سیریز نے امریکی ایوی ایشن کی حفاظت اور فضائی ٹریفک کنٹرول آپریشنز پر دباؤ کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔ ایف اے اے ایڈمنسٹریٹر مائیک وائٹیکر نے 20 جنوری کو استعفیٰ دے دیا تھا اور ٹرمپ انتظامیہ نے کسی متبادل کا نام نہیں لیا ہے – یہ بھی ظاہر نہیں کیا ہے کہ کون عبوری بنیادوں پر ایجنسی چلا رہا ہے۔ امریکہ میں کمرشل ہوائی جہاز کے ساتھ آخری مہلک بڑا حادثہ 2009 میں ہوا تھا، جب کولگن ایئر کی پرواز میں سوار 49 افراد ریاست نیویارک میں گر کر تباہ ہو گئے تھے۔ ایک شخص کی موت بھی ہوئی۔  وزیراعظم پاکستان محمد شہبازشریف نے جانی نقصان پر اظہار افسوس کیا ہے۔ ایکس پر ایک پیغام میں انہوں نے کہا کہ ’اس مشکل میں ہماری ہمدردیاں اور دعائیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی عوام کے ساتھ ہیں۔‘

کھانے کے شوقین لاہوریوں نے “ہزاروں کھانے بنانے” کا مقابلہ سجا لیا

Food competition

لاہور میں شیفس ایسوسی ایشن آف پاکستان اور کوتھم گروپ آف کالجز کی جانب سے پاکستان انٹرنیشنل کلینری چیمپئن شپ کا شاندار انعقاد کیا گیا۔ اس چار روزہ ایونٹ میں پاکستان اور دنیا بھر سے 5000 سے زائد شیفس اور کلینری طلباء نے حصہ لیا۔ اس ایونٹ میں 14 سے زائد ممالک کے معروف شیفس ججز کے طور پر شریک ہوئے، جنہوں نے عالمی معیار کے مطابق مقابلوں کا جائزہ لیا۔ چیمپئن شپ میں پاکستانی روایتی پکوان جیسے بریانی، نہاری اور کڑاہی، اور عالمی ذائقے جیسے پاستا، سوشی اور اسٹیکس پیش کیے گئے۔ اس کے علاوہ، پیسٹری آرٹس میں تخلیقی کیک اور چاکلیٹ کے فن پارے دیکھنے کو ملے، جو حاضرین کی توجہ کا مرکز بنے۔ یہ چیمپئن شپ 2017 سے ہر سال منعقد ہو رہی ہے اور کلینری آرٹس کے فروغ اور پاکستان کے ٹیلنٹ کو عالمی سطح پر متعارف کرانے کا ایک اہم ذریعہ بن چکی ہے۔ ایونٹ کو دیکھنے کے لیے لاہور اور پورے پاکستان سے لوگ بڑی تعداد میںآتے ہیں، جہاں کھانوں کے مقابلے، ورکشاپس اور فوڈ فیسٹیولز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ یہ ایونٹ نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سطح پر کلینری ثقافت کو ایک نیا پہچان دیتا ہے۔