بیگ اور کتابوں کی چھٹی، ای لرننگ جدید مگر مکمل متبادل نہیں

ای لرننگ نے تعلیم کے طریقوں میں انقلابی تبدیلیاں لائی ہیں لیکن اس کے باوجود روایتی اسکولوں میں سماجی تعلقات اور ذاتی تجربات کی اہمیت برقرار ہے۔ ٹیکنالوجی کا یہ انقلاب تعلیم کے تسلسل کو بہتر بناتا ہے مگر بچوں کی شخصیت کی تکمیل میں روایتی تعلیم کا کردار بھی ضروری ہے۔ ای لرننگ جسے آن لائن تعلیم بھی کہا جاتا ہے انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے تعلیم فراہم کرنے کا جدید طریقہ ہے یہ طریقہ تدریس جہاں کئی لحاظ سے سہولت فراہم کرتا ہے وہاں اس کے کچھ چیلنجز بھی ہیں۔ بچوں کے اسکول جانے کی خوشی، استاد کے ساتھ براہِ راست تعلق اور کلاس روم کے ماحول کی تو ای لرننگ کا متبادل نظر آتا ہے۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ ٹیکنالوجی کا یہ انقلاب بچوں کے دلوں میں اسکول جانے کی محبت کو مٹا دے؟ عالمی سطح پر تیز رفتار ٹیکنالوجی کی ترقی نے کئی شعبوں کو متاثر کیا ہے اور تعلیم ان میں سرِفہرست ہے۔ کرونا وبا کے دوران جب دنیا بھر میں اسکول اور تعلیمی ادارے بند ہوئے، ای لرنینگ (E-learning) نے نہ صرف تعلیمی تسلسل کو برقرار رکھا بلکہ اس نئے طریقہ تدریس نے تعلیم کے روایتی نظام کو چیلنج بھی کیا۔ ایک لمحے کے لیے یہ سوال دل میں آتا ہے کیا ای لرننگ وہ انقلاب ہے جو اسکولوں کے روایتی طریقے کو ہمیشہ کے لیے بدل دے گا؟ یا پھر یہ صرف ایک وقتی حل ہے جو وقت کے ساتھ اپنا اثر کھو دے گا؟ ای لرنینگ کا آغاز ابتدا میں صرف یونیورسٹیوں اور اوپن کالجوں تک محدود تھا لیکن کرونا وبا نے اس کے استعمال کی رفتار میں ایک زبردست اضافہ کیا۔ دنیا کے مختلف حصوں میں اسکولز بند ہونے کے باوجود ای لرننگ نے طلبا کو ایک نئی امید دی اور تعلیمی سلسلے کو جاری رکھا۔ جرمن شہر کولون میں اسکولوں نے اس بات کا تجربہ شروع کیا ہے کہ مستقبل میں اسکولوں میں کتابوں اور بلیک بورڈ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ طلباء اپنے لیپ ٹاپز پر کلاس کے تمام مواد تک رسائی حاصل کریں گے اور انٹرنیٹ کے ذریعے سیکھنے کی سرگرمیاں بڑھیں گی۔ مگر سوال یہ ہے کہ آیا اسکول میں بچوں کی ملاقات، دوستوں کے ساتھ کھیلنا اور اساتذہ کے ساتھ براہ راست رابطہ ان سب چیزوں کا متبادل ممکن ہے؟ دوسری جانب ای لرننگ کے بے شمار فوائد ہیں جو اسے روایتی تعلیم سے ممتاز کرتے ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں طلباء کو جگہ اور وقت کی آزادی ہوتی ہے۔ وہ اپنے شیڈول کے مطابق تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ویڈیوز، انٹرایکٹو ماڈیولز اور گیمز کے ذریعے تعلیم کو مزید دلچسپ اور مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔ تاہم کیا یہ ڈیجیٹل تعلیم بچوں کی سوچ، جذبات اور سماجی تعلقات کو مکمل طور پر سمجھنے میں کامیاب ہو سکتی ہے؟ ای لرننگ کے فوائد کے باوجود اس میں کئی چیلنجز بھی ہیں جو اس طریقہ تدریس کو مکمل طور پر کامیاب ہونے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ ہندوستان میں تقریباً 40 کروڑ طلباء ہیں اور 10 لاکھ سے زیادہ سکولز ہیں مگر وہاں کئی علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت، بجلی کی فراہمی اور اسمارٹ فونز کی کمی کی وجہ سے ای لرننگ کے فوائد کو حاصل کرنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ کلاس روم کے ماحول میں جو سماجی تعلقات بنتے ہیں اور جو تفریحی سرگرمیاں بچوں کی شخصیت کو پروان چڑھاتی ہیں وہ ای لرننگ کے ذریعے حاصل نہیں ہو سکتیں۔ بچے سکول میں آکر اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ کھیلتے ہیں سیکھتے ہیں اور بہت کچھ سمجھتے ہیں جو ای لرننگ میں ممکن نہیں۔ جبکہ ای لرننگ کا مستقبل روشن نظر آ رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ روایتی تعلیم کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ماہرین کے مطابق مستقبل میں اسکولوں میں کتابوں اور کاپیوں کا تیزی سے خاتمہ ہو سکتا ہے اور ہر طالب علم کے پاس اپنا لیپ ٹاپ یا ٹیبلٹ ہوگا۔ تاہم ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ تبدیلی صرف تدریسی وسائل تک محدود ہوگی یا پھر اس کا اثر طلباء کی شخصیت پر بھی پڑے گا؟ بچوں کی شخصیت کی تکمیل کے لیے اساتذہ کا کردار, ہم جماعتوں کے ساتھ تعلقات اور اسکول کی روزمرہ کی سرگرمیاں بہت ضروری ہیں۔ ای لرننگ نے تعلیم کے میدان میں ایک نیا انقلاب برپا کیا ہے، جس نے دنیا بھر کے تعلیمی نظام کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ اگرچہ یہ ایک موثر طریقہ تدریس ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ روایتی اسکولوں کی اہمیت بھی برقرار رہنی چاہیے تاکہ بچوں کو ایک متوازن اور مکمل تعلیم فراہم کی جا سکے۔ مستقبل میں ای لرننگ کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہمیں اس کے چیلنجز اور حل پر بھی نظر رکھنی ہوگی تاکہ ہم ایک مکمل اور ذمہ دار شہری تیار کر سکیں۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ہادی ای لرننگ کے سی ای او حنین زیدی نے کہا کہ “ای لرننگ تعلیمی کارکردگی میں مثبت تبدیلیاں لائی ہیں، خاص طور پر ان بچوں کے لیے جو خود سے سیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ روایتی تعلیم کے مقابلے میں زیادہ لچکدار اور جدید تدریسی طریقے مہیا کرتی ہے، مگر یہ مکمل متبادل نہیں ہو سکتی، کیونکہ روایتی تعلیم کا سماجی اور اخلاقی ترقی میں بھی کردار ہوتا ہے۔ ای لرننگ کے فوائد جیسے کہ کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ سے سیکھنے کی سہولت اور جدید ڈیجیٹل مواد کی دستیابی، اسے ایک مستقل حل بنا سکتے ہیں۔ تاہم، تکنیکی رکاوٹیں، طلبہ کی توجہ مرکوز رکھنے میں مشکلات، اور اساتذہ و طلبہ کے براہ راست تعلق کی کمی جیسے چیلنجز موجود ہیں۔ لہذا، یہ مکمل روایتی تعلیم کی جگہ نہیں لے سکتی، لیکن ایک اہم جز ضرور بن سکتی ہے”۔ طلبا اور ای لرننگ کی وجہ سے ان کے روابط کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ “ای لرننگ میں کلاس روم جیسا سماجی ماحول نہیں ہوتا، جس سے بچوں میں باہمی روابط اور سماجی مہارتوں کے فروغ میں کمی آسکتی ہے۔ تاہم، اگر اس میں گروپ ایکٹیویٹیز، آن لائن مباحثے، اور انٹرایکٹو لرننگ کو شامل کیا جائے تو
یورپی یونین کا پاکستانی چاول پر کوالٹی الرٹ جاری

پاکستان سے برآمد ہونے والے چاول کو یورپی یونین نے غیر معیاری قرار دے دیا اور یورپی یونین کی طرف سے چاول پر 100 سے زائد الرٹ جاری کیے گئے ہیں، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کا غیر معیاری چاولوں کی سپلائی پر تحفظات کو اجاگر کرنے کے لیے اجلاس منعقد کیا گیا۔ محمد جاوید حنیف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کے اجلاس میں اس معاملے پر غور کیا گیا، جہاں پاکستانی چاول کی برآمدات پر یورپی یونین کی طرف سے اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ کمیٹی کے رکن مرزا اختیار بیگ نے انکشاف کیا کہ یورپی یونین کی جانب سے پاکستان سے برآمد ہونے والے چاول کی کوالٹی کے حوالے سے 100 سے زائد الرٹس جاری کیے گئے ہیں۔ انھوں نے یورپی یونین کی منڈیوں میں جعلی اور غیر معیاری چاولوں کی سپلائی پر تحفظات کو اجاگر کرتے ہوئے مزید کہا کہ فروخت کیے جانے والے چاولوں میں جعلی مواد کی بڑھتی ہوئی مقدار ہے۔ کمیٹی کے ایک ممبر نے بیگ سے سوال کیا کہ”یہ مسائل ہماری ناک کے نیچے کیسے پھسل رہے ہیں؟” اس پر مناسب اقدامات کیے جائے۔ کمیٹی کی رکن شرمیلا فاروقی نے کہا کہ یورپی یونین نے 2024 میں پاکستانی چاول کی برآمدات پر 72 رکاوٹیں عائد کی تھیں، معیار کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نئی نیشنل فوڈ سیفٹی اتھارٹی کے قیام کے باوجود چاول کی برآمدات کے معیار سے متعلق مسائل حل نہیں ہوئے۔ سیکرٹری تجارت جواد پہلو نے خدشات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین کی طرف سے کوئی باقاعدہ انتباہ جاری نہیں کیا گیا ہے۔ “کوئی مسئلہ نہیں ہے، پھر بھی یہ تناسب سے باہر ہو گیا ہے،” نجی چینل ایکسپریس کے مطابق اجلاس میں مزید گفتگو سے معلوم ہوا کہ یورپی یونین نے پنجاب سے چاول کی کھیپ پر وارننگ جاری کی تھی۔ کمیٹی کے اراکین نے ان برآمدی مسائل سے نمٹنے کے لیے زرعی شعبوں کے ساتھ بہتر تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔ مرزا اختیار بیگ نے یقین دلایا کہ اس سال چاول کی پیداوار مضبوط رہی اور برآمدات بھی مضبوط رہی ہیں۔ محکمہ تجارت کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ وہ چاول کے معیار سے متعلق خدشات کو دور کرنے کے لیے صوبائی حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ متعدد میٹنگز کر چکے ہیں۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ چاول برآمد کنندگان کی ایسوسی ایشنز کو آئندہ اجلاس میں مدعو کر کے معاملے پر تفصیلی بریفنگ دی جائے گی۔ چیئرمین نے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ان خدشات کو اچھی طرح سے حل کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ حکام نے خبردار کیا ہے کہ بین الاقوامی فوڈ سیفٹی اور فائٹوسینٹری معیارات کو پورا کرنے میں کسی بھی قسم کی کوتاہی کے نتیجے میں سخت تجارتی رکاوٹیں یا صریحاً پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں، جس سے پاکستان کی معیشت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ معیشت کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس حوالے سے بہتر اقدامات کیے جائے،خاص طور پر خوشبودار باسمتی چاول کو مزید بہتر بنایا جائے، خوشبو دار باسمتی چاول کی یورپی یونین اور دیگر عالمی منڈیوں میں زبردست مانگ ہے۔ نجی چینل جیو نیوز کے مطابق مالی سال 2023-24میں چاول کی کل برآمدات 3.93 ارب ڈالر رہی ،جس میں باسمتی چاول کا حصہ 877 ملین ڈالر تھا، مالی سال 2024کے پہلے پانچ مہینوں (جولائی-نومبر) میں چاول کی کل برآمدات 1.515ارب ڈالرز (باسمتی کے ساتھ386ملین ڈالرز) ہیں۔ واضح رہے کہ یورپی یونین کی طرف سے پاکستانی چاولوں پر اس وقت الرٹ جاری کیے گئے ، جب یورپی یونین کے ایک رکن ملک نے پاکستان کے نامیاتی باسمتی چاول کی ایک شپمنٹ کو جینیاتی طور پر تبدیل شدہ جانداروں (جی ایم اوز) سے آلودگی پر روک دیا تھا، جو یورپی یونین کے ضوابط کے تحت ممنوع ہیں۔ نیدرلینڈ جانے والی شپمنٹ کو 31جولائی 2024کو روکا گیا اور 2 اگست 2024یورپی یونین کے ریپڈ الرٹ سسٹم فار فوڈ اینڈ فیڈ کے ذرریعے باضابطہ طور پر اطلاع دی گئی۔
“بجلی سے متعلقہ اداروں کا ہر ملازم ماہانہ 6 ہزار روپے کی مفت بجلی استعمال کررہا ہے” اویس لغاری

وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا ہے کہ پاور ڈویژن اور بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں میں ہر ملازم ماہانہ 6 ہزار روپے کی مفت بجلی استعمال کررہا ہے، مفت بجلی بند کرنے کے لیے اٹارنی جنرل آفس سے بات کی گئی ہے۔ نجی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ توانائی اویس لغاری نےکہا کہ کیسز کی وجہ سے پاور ڈویژن اور بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو بجلی کی مفت فراہمی بند نہیں کرسکتے، مفت بجلی کا فی سرکاری ملازم کا خرچہ 6 ہزار روپے ہے، ہم نے اٹارنی جنرل آفس سے بات کی ہے کہ کیسز جلد ختم کرائیں جائیں تاکہ مفت بجلی بند کی جائے۔ وزیرِ توانائی نے کہا کہ مفت بجلی ختم کر کے تنخواہوں میں اضافہ کرنےاور جو بجلی استعمال نہیں ہورہی وہ سستے داموں دینے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ اس کے وجہ سےجتنی سولرائزیشن بڑھے گی عام صارفین پر بوجھ بڑھے گا، نیٹ میٹرنگ کے ذریعے مہنگی بجلی خرید کر عام صارف کو دے رہے ہیں اور اس وقت عام صارفین پر 103 ارب کا اضافی بوجھ ہے۔ اویس لغاری نے مزید کہا کہ ہم چاہ رہے ہیں نیٹ میٹرنگ میں سرمایہ کاری کرنے والا چار سال میں اپنا سرمایہ پورا کرلے۔ واضح رہے کہ 28 جنوری کو وزیرِ توانائی اویس لغاری نے صنعتوں کے لیے اضافی بجلی کی نیلامی کے حکومتی منصوبے کا اعلان کیاتھا۔ صنعتی ترقی کو تحریک دینے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے اس منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اویس لغاری نے وزارتِ توانائی کے پریس بیان میں تفصیل سے بتایا کہ معیشت اور صنعتی شعبے میں زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے لیے اضافی بجلی مسابقتی طور پر دستیاب کرائی جائے گی۔ وزیرتوانائی نے نیشنل الیکٹرک وہیکل (ای وی) پالیسی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ای وی چارجنگ اسٹیشنوں کے لیے بجلی کے نرخوں میں نمایاں کمی کی گئی ہے تاکہ ای وی کو مزید سستی اور قابل رسائی بنایا جا سکے۔ یہ قدم پائیدار توانائی کے حل کو فروغ دینے اور ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کے حکومت کے وژن کے مطابق ہے۔ یاد رہے کہ نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کو موصول ہونیوالی دستاویزات کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران سرکاری ملازمین نے 23 کروڑ 71 لاکھ یونٹس سے زائد بجلی استعمال کی، بجلی استعمال کرنے والے ملازمین کی تعداد 2 لاکھ 16 ہزار ہے اور ان میں سے ریٹائرڈ اور حاضر سروس ملازمین و افسران دونوں شامل ہیں۔ دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ ایک لاکھ 13 ہزار حاضر سروس افسران و ملازمین نے 5 ارب سے زائد کی مفت بجلی استعمال کی ہے، حاضر سروس ملازمین و افسران نے چھ ماہ میں 14 کروڑ 96 لاکھ یونٹس استعمال کیےہیں۔ اسی طرح 88 ہزار سے زائد ریٹائرڈ ملازمین نے 3 ارب سے زائد کی مفت بجلی استعمال کی ہے، ریٹائرڈ ملازمین نے چھ ماہ میں 8 کروڑ 75 لاکھ یونٹس استعمال کیےہیں۔ مفت بجلی استعمال کرنے والوں میں گریڈ ایک سے لیکر گریڈ 22 تک کے افسران و ملازمین شامل ہیں۔
پاکستان میں گھی اور کوکنگ آئل کی قلت کا خدشہ

کھانے کے تیل کی کھیپ پورٹ قاسم پر ایک ہفتے سے زیادہ عرصے سے پھنسی ہوئی ہے، جس سے سپلائی میں خلل پڑنے کی وجہ سے پاکستان میں گھی اور کوکنگ آئل کی ممکنہ قلت کا سامنہ ہے۔ پورٹ قاسم پر کھانے کے تیل کی کھیپ پھنسے ہونے کی وجہ سے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران خوردنی تیل کی کوئی کھیپ کلیئر نہیں کی گئی، جس سے پاکستان میں گھی اور کوکنگ آئل میں قلت پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ نجی ٹی وی ایکسپریس نیوز کے مطابق پاکستان وناسپتی مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے چیئرمین شیخ عمر ریحان کا کہنا ہے کہ ٹرمینل پر سامان اتارنے کے لیے جگہ دستیاب نہیں ہے۔70 ہزار میٹرک ٹن سے زیادہ پام آئل لے جانے والے 8 سے 10 بحری جہاز اپنا سامان اتارنے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہیں۔ اس صورتحال سے مارکیٹ میں گھی اور خوردنی تیل کی قلت پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ ایسوسی ایشن نے مزید انکشاف کیا کہ بندرگاہ پر پھنسے سامان پر بھاری جرمانے عائد کیے جا رہے ہیں، جس سے مالیاتی اثرات بڑھ رہے ہیں۔ کسٹم سافٹ ویئر (PSW) کی معطلی سے کلیئرنس کا عمل بھی متاثر ہو رہا ہے جس سے درآمد کنندگان کو کافی نقصان ہو رہا ہے،کلیئرنس نہ ہونے سے امپورٹرز کو اربوں روپے کے نقصان کا سامنا ہے، پورٹ سے کلیئرنس رکنے کی وجہ سے خوردنی تیل کی قلت کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ عمر ریحان نے مزید بتایاکہ کلیئرنس میں رکاوٹ معیشت کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے، درآمد کنندگان کو شپمنٹ پروسیسنگ میں تاخیر کی وجہ سے اربوں روپے کے نقصان کا سامنا ہے،تاخیر نے پاکستان کی بندرگاہوں پر جاری چیلنجز کو اجاگر کیا ہے، جو ملک میں سامان کی ہموار روانی کے لیے بہت ضروری ہیں۔
چیمپینز ٹرافی میں شائقین کا جوش و خروش عروج پر :3 میچز کے ٹکٹس مکمل فروخت

پاکستان میں چیمپئنز ٹرافی 19 فروری سے 9 مارچ تک ہونے جا رہی ہے،جس کی ٹکٹس فروخت کے لیے پی سی بی کی طرف سے اعلان ہوتے ہی شائقین کا غیر معمولی جوش و خروش ، پہلے مرحلے میں 30 فیصد ٹکٹس آن لائن فروخت کے لیے پیش کی گئی ۔ چیمپئنز ٹرافی ٹکٹس کی آن لائن فروخت شروع ہونے پر شائقین نے جذباتی لمحات کا اظہار کیا اور چند ہی لمحات میں 3 میچز کی ٹکٹیں بلکل فروخت ہو گئیں۔ پی سی بی کی طرف سے پہلے مرحلے میں 30 فیصد ٹکٹیں فروخت کرنے کا اعلان کیا گیا ، جس سے شائقین نے وقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹکٹس کو آن لائن خرید لیا،پہلے مرحلے میں پاکستان نیوزی لینڈ، آسٹریلیا انگلینڈ اور پاکستان بنگلہ دیش3 میچز کے ٹکٹس مکمل طور پر فروخت ہو گئیں۔ خیال رہے کہ 3 میچز کی فروخت ہونے والی ٹکٹوں میں پاکستان اور نیوزی لینڈکا میچ 19 فروری کو کراچی میں ہوگا۔ آسٹریلیا اور انگلینڈ کا میچ 22 فروری کو لاہور میں شیڈولڈ کے مطابق ہے ،جبکہ پاکستان اور بنگلا دیش کا میچ 27 فروری کو راولپنڈی میں ہوگا۔ پی سی بی کے مطابق دوسرے مرحلے میں فزیکل ٹکٹس 3 فروری سے فروخت ہوں گی،100سے زائد ٹکٹس ٹی سی ایس ایکسپریس سینٹرز سے بیچی جائیں گی۔ پی سی بی ترجمان کا کہنا ہےکہ ٹکٹوں کی فروخت پر عوامی ردعمل خوش کن ہے، چند گھنٹوں میں ہی ٹکٹوں کی فروخت شائقین کی دلچسپی کی عکاس ہے، پاکستانی شائقین اپنی ٹیم کے ساتھ کھڑے ہیں جو اچھی خبر ہے، پی سی بی زیادہ سے زیادہ تماشائیوں کو میچز دکھانےکی سہولت دےگا۔ واضح رہے کہ پاکستان ٹیم کے میچز کے جنرل اسٹینڈ کے ٹکٹ کی قیمت دو ہزار روپے، وی وی آئی پی اسٹینڈ کے ٹکٹ کی قیمت 20 ہزار روپے مقررکی گئی ہے۔ پاکستان ٹیم کے علاوہ ہونے والے میچز کے کم سے کم ٹکٹ کی قیمت ایک ہزار اور زیادہ سے زیادہ ٹکٹ کی قیمت سات ہزار روپے رکھی گئی ہے جبکہ لاہور میں ہونے والے ایک سیمی فائنل کے جنرل اسٹینڈ کی قیمت ڈھائی ہزار اور وی وی آئی پی کی قیمت 20 ہزار روپے ہے۔
“افغانستان میں امریکی جدید ہتھیار پاکستان کے لیے خطرہ ہیں”دفتر خارجہ

افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے بعد رہ جانے والے جدید ہتھیار پاکستان کے لیے سنگین تشویش کا باعث بن گئے ہیں۔افغانستانی دہشت گرد تنظیمیں ان ہتھیاروں کو پاکستان میں حملے کے لیے استعمال کررہی ہیں۔ ترجمان دفترِ خارجہ شفقت علی خان نے امریکا کے افغانستان میں چھوڑے گئے جدید ہتھیاروں کے واپسی کے فیصلے پر ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکی افواج نے اگست 2021 میں افغانستان سے انخلا کے بعد جدید ہتھیار چھوڑے تھے۔ یہ امریکی جدید ہتھیاروں کی ا فغانستان میں موجودگی پاکستانی شہریوں کے لیےتشویش کا باعث ہے۔ خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھانے سے قبل افغانستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر افغانستان نے امریکی طیارے، موجود جنگی سازوسامان، گاڑیاں اور مواصلاتی آلات واپس نہ کیے، تو وہ افغانستان کو دی جانے والی تمام مالی امداد بند کر دیں گے۔ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ سالانہ اربوں ڈالرطالبان حکومت کو ادا کرنے جا رہے ہیں، لیکن جب تک طالبان حکومت فوجی سازوسامان امریکا کو واپس نہیں کرتی انہیں رقم نہیں دی جائے گی۔ ترجمان دفترِ خارجہ نے واضح کیا ہے کہ ٹی ٹی پی سمیت دیگر دہشت گرد تنظیمیں ان ہتھیاروں کو پاکستان میں حملے کے لیے استعمال کررہی ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان مسلسل کابل حکام سے مطالبہ کرتا آیا ہے کہ وہ ان ہتھیاروں کو غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے، لیکن افغان حکومت کی جانب سے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ ترجمان نے پاکستان کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی سطح پر مزید تعاون کی اہمیت پر بھی زور دیا اور کہا کہ افغانستان میں موجود ہتھیاروں کا مسئلہ ایک سنجیدہ نوعیت کا ہے جس کا حل فوری طور پر تلاش کیا جانا چاہیے تاکہ دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکا جا سکے۔ یاد رہے کہ ماضی میں کئی بار ان ہتھیاروں کی وجہ سےپاکستان کو حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، پاکستان نے اس کے خلاف عالمی سطح پر کئی بار آواز اٹھائی ہے۔ 2023 میں پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑنے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اگر افغانستان میں چھوڑے گئے امریکی ہتھیار تحریک طالبان پاکستان سمیت دیگر عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگ گئے تو یہ صورتحال پاکستان کے لیے انتہائی خطرناک ہوگی۔ نگران وزیرِاعظم نے کہا تھا کہ یہ ایمونیشن کہ جس میں نائٹ ویژن چشموں سے لے کر تھرمل سلامینڈر تک وسیع پیمانے پر فوجی ہتھیار شامل ہیں، اسلام آباد کے لیے ایک نیا چیلنج بن گیا ہے،کیونکہ ان ہتھیاروں تک رسائی نے پاکستانی طالبان کی جنگی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے۔ اس سے قبل نگران وزیرِخارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کو بھی افغانستان میں طالبان کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طالبان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ حقائق کا حصہ ہیں۔
چینی کمپنی کا کراچی سے پشاور تک 3 ہزار چارجنگ اسٹیشن لگانے کا اعلان

چائنہ نےپاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے لیے کراچی سے پشاور تک چارجنگ اسٹیشن نصب کرنے کےلیے منصوبے کا اعلان کیا ہے، جس کا مقصد سبز توانائی کو اپنانا اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔ چین کے اے ڈی ایم گروپ کے ایک وفد نے سندھ کے وزیر توانائی ناصر حسین شاہ اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے ملک میں ای وی انفراسٹرکچر کی توسیع پر بات چیت کی ہے ، یہ گروپ پاکستان میں 3 ہزار ای وی چارجنگ اسٹیشن کراچی سے پشاورتک نصب کرے گا۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر توانائی ناصر حسین شاہ نے تصدیق کی کہ شہری علاقوں اور شاہراہوں کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت کے مکمل تعاون سے چارجنگ اسٹیشن قائم کیے جائیں گے،ہر چارجنگ اسٹیشن پر لگ بھگ 80 لاکھ روپے لاگت آنے کی توقع ہے، جس کی تنصیب کے لیے 10 لاکھ روپے کی ابتدائی رقم درکار ہے۔ نجی چینل ایکسپریس کے مطابق ای وی چارجنگ کے اسٹیشن لگانے سے تقریباً 10 لاکھ ملازمتیں پیدا ہونے کی توقع ہے، جس سے پاکستان کے روزگار کے شعبے کو بڑا فروغ ملے گا،اے ڈی ایم گروپ پاکستان میں ای وی مینوفیکچرنگ پلانٹس لگانے کا بھی ارادہ رکھتا ہے اور اس نے پہلے ہی چارجنگ انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے وفاقی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ ناصر حسین شاہ نے کہا کہ اگر کمپنی سندھ میں پیداواری سہولیات قائم کرتی ہے تو صوبائی حکومت مقامی طور پر تیار کی جانے والی کم از کم 20 فیصد الیکٹرک گاڑیاں خریدنے پر غور کرے گی۔ چائنیز اے ڈی ایم گروپ کے سی ای او یاسر بھمبانی نے کہا کہ حکومت اجازت دے تو اس سال پاکستان میں گاڑی بنانے کو تیار ہیں، میڈ ان پاکستان ای وی گاڑیوں کو مستقبل میں ایکسپورٹ بھی کیا جائے گا۔ سی ای اونے مزید کہا کہ میڈ ان پاکستان ای وی گاڑیوں کو بھارت سمیت سات ممالک میں ایکسپورٹ کرنے کا پلان ہے، پاکستان میں کراچی پنجاب اور بلوچستان میں 3مینوفیچرنگ پلانٹس لگائے جائیں گے، کمپنی کے پاس پاکستان میں سالانہ 72ہزار یونٹس کی پیداواری استعداد ہے۔ توقع ہے کہ اس سرمایہ کاری سے پاکستان کی ای وی انڈسٹری کو فروغ ملے گا، فوسل فیول پر انحصار کم ہوگا، اور ماحولیاتی استحکام میں مدد ملے گی
“رچرڈ گرینل کو ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے گمراہ کیا گیا” جینٹری بیچ کا عمران خان سے متعلق ٹوئٹس پر مؤقف

پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی سرمایہ کاروں کے وفد کے سربراہ اور ٹرمپ خاندان کے قریبی بزنس پارٹنر جینٹری بیچ نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ سابق امریکی عہدیدار رچرڈ گرینل کو ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے گمراہ کیا گیا تھا، جس کے باعث انہوں نے پاکستان سے متعلق جو مؤقف اختیار کیا، وہ ان کی اپنی محدود فہم پر مبنی تھا۔ اب پاکستان کے بارے میں رچرڈ گرینل میں پہلے سے زیادہ بہتر تفہیم پائی جاتی ہے اور وہ ملک کے حقیقی حالات سے آگاہ ہو کر ایک زیادہ متوازن رائے قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق صحافیوں سے گفتگو میں جینٹری بیچ کا کہناتھاکہ پاکستان میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں، صدر ٹرمپ کی سربراہی میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے، پاکستان اور امریکا کے تعلقات دہائیوں پرمحیط ہیں، پاکستان سے متعلق غلط فہمیاں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹرمپ خاندان کے قریبی بزنس پارٹنر نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ نے گزشتہ 4 سال میں جو کچھ پاکستان کےساتھ کیا وہ مناسب نہیں تھا، دنیا میں امن اور ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے۔امریکا پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا چاہتاہے، امریکی سرمایہ کار مصنوعی ذہانت، ریئل اسٹیٹ اور معدنیات میں سرمایہ کاری کے خواہشمندہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ پاکستان کی موجودہ قیادت نئی امریکی قیادت کے ساتھ ہم آہنگ ہے، امریکی سرمایہ کاروں کا وفد مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کیلئے پاکستان آیا ہے، صدر ٹرمپ اقتصادی سفارت کاری پر یقین رکھتے ہیں۔ رچرڈ گرینل کے حالیہ کیے گئے ٹوئٹس کے متعلق جینٹری بیچ کا کہنا تھاکہ ماضی میں امریکی عوام کوپاکستان کی حقیقی تصویرنہیں دکھائی گئی، رچرڈ گرینل کوڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے گمراہ کیا گیا اور رچرڈ گرینل نے جو بات کی وہ پاکستان سے متعلق اپنی انڈراسٹینڈنگ کے مطابق کہی۔رچرڈ گرینل کی اب پاکستان کے بارے میں پہلے سے بہتر انڈراسٹینڈنگ ہے۔ انھوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ رچرڈ گرینل نے انھیں خود بتایا کہ اسے ڈیپ فیک اے آئی والی پرزینٹیشنز دی گئی تھیں۔ مزید یہ کہ وہ یہاں سابق وزیراعظم کے معاملے پر بات کرنے کیلئے نہیں آئےاور ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کی موجودہ سیاسی قیادت کو احترام کی نظر سے دیکھتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ رچرڈگرینل کوپاکستان کی موجودہ صورتحال کاآج زیادہ بہترادراک ہوگیا ہوگا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں جانیں دیں، امریکا دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرتاہے اور امریکا پاکستان کو ایک اہم اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر رچرڈ گرینل نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور کئی ٹوئٹس کیے تھے۔ سرمایہ کاری کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ امریکا چاہتا ہے زیادہ سے زیادہ پاکستانیوں کے پاس اپنا گھر ہو۔وہ ایسی تعمیراتی ٹیکنالوجی پاکستان لانا چاہتے ہیں جس سے ایک ماہ میں 30 منزلہ عمارت کا ڈھانچا کھڑا ہوجاتا ہے۔ جینٹری بیچ نے مزید کہا کہ ماضی میں آئل اورگیس سیکٹر میں پاکستان میں کم توجہ دی گئی۔ واضح رہے کہ امریکا کا اعلیٰ سطحی سرمایہ کاری وفد گزشتہ روز 2 روزہ اہم دورے پر پاکستان پہنچا تھا۔ وفد کی قیادت ٹیکساس ہیج فنڈ کے مینیجر اور ٹرمپ خاندان کے قریبی بزنس پارٹنر جینٹری بیچ کر رہے ہیں۔ وفد کے دورہ پاکستان پر پاکستان اور امریکا کے درمیان سرمایہ کاری کے کئی معاہدوں پر بھی دستخط کیے گئے ہیں۔مزید یہ کہ جینٹری بیچ ٹرمپ خاندان کے انتہائی قریبی ساتھی اور صدر ٹرمپ کے گزشتہ انتخابی مقابلوں میں پیش پیش رہے ہیں اورنئی امریکی حکومت آنے کے بعد کسی بھی امریکی وفد کا یہ پاکستان کا پہلا دورہ ہے۔
“بلاول کے خطاب سے کیا تاجروں کے مسائل حل ہوجائیں گے” امیر جماعتِ اسلامی کراچی

امیر جماعتِ اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز بلاول بھٹو نے کراچی کے تاجروں سے خطاب کیا اور کہا کہ کراچی کے تاجر چغلی نا کریں۔ اب اگر کراچی کے تاجر اپنے جائز حق کے لیے بات کرتے ہیں تو یہ چغلی ہے۔ امیر جماعتِ اسلامی منعم ظفر خان نے کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک وقت تھا جب کراچی میں بھتہ خوری کا عروج تھا۔ اب بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ کراچی کے تاجر چغلی نہ کریں۔ 16 سال سے برسر اقتدار حکومت سے میرا سوال ہے کہ کیا کل جو خطاب کیا گیا تھا اس میں صنعتکاروں کو امید ہوگی کہ ان کے مسئلے حل ہوں گے؟ انھوں نے کہا کہ کراچی بھرپور ٹیکس ادا کرتا ہے، یہ وہ شہر ہے جس نے 2500 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کروائے ہیں۔دوسری طرف کراچی کے تاجر اگر اپنے جائز حق کے لیے بات کریں تو یہ چغلی ہےاور اگر وہ آرمی چیف کے سامنے بات کریں تو یہ چغلی کھانا ہے۔ امیر جماعتِ اسلامی کراچی نے سوال کیا کہ مراد علی شاہ اور بلاول بھٹو یہ بتائیں گےکہ ماضی میں کراچی میں جو بھتہ خوری ہوتی رہی ، گینگ سٹر بھتہ خوری عروج پر رہی ، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ بھی بتائیں کہ لیاری امن کمیٹی کے نام پر بھتہ کون لیتا تھا؟آپ نے جس طرح میکنزم بنایا ہے اس کا جواب تو دینا ہوگا۔ منعم ظفر خان نے کہا کہ اسکیم 33 میں کیا کچھ ہورہا ہے، جہاں غریب لوگوں کی زمینوں پر روز کی بنیاد پر بھتہ لیا جاتا ہے۔دوسری طرف ایس بی سی اے اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے محکمے بھتے کا گڑھ ہیں،نئی نمبرز پلیٹس بنائی جارہی ہے جو ایک نیا دھندہ ہے۔سندھ حکومت اورقابض میئر یہ بتائیں کہ میونسپل ٹیکس کہاں جارہا ہے؟ انھوں نے کہا کہ کوئی بتائے گا کہ کیوں کراچی کا انفرااسٹرکچر تباہ ہورہا ہے؟ یہ لوگ باتیں جمہورہت کی کر رہے ہیں مگر ٹیکس ادا کرتے کرتے کراچی کے لوگوں کی قمر ٹوٹ کررہ گئی ہے۔ دوسری طرف کراچی کے لوگوں کوٹوٹی سڑکیں ، بہتے گٹراوربرائے نام گیس دی جارہی ہے۔ واٹر ٹینکرز میں لوگوں کو پانی فروخت کیا جارہا ہےاور یہ سارا دھندہ پی پی پی کی سربراہی میں صوبائی حکومت کر رہی ہے۔ کراچی کی اس حالت کا ذمہ دار سارا گٹھ جوڑ ہے جو کراچی کو مل کر کھا رہاہے، مگر کراچی کے مسائل پر کوئی توجہ نہیں دے رہا۔ کراچی کے علاقے ملیر میں کالا بورڈ کے برساتی نالے میں بزرگ شہری گر کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، لیکن میئر کراچی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ یہ سارا دھندہ ہے جوجمہوریت کے نام پر کیا جارہا ہے ۔ منعم ظفر خان نے کہا کہ جماعت اسلامی کی مزاحمت جاری ہے اور یہ صرف شہر کے مسائل کو اجاگر کرتی ہے۔ ہمارے 9 ٹائون میں جتنے کام ہوئے ہیں، وہ کراچی والے دیکھ رہے ہیں۔ پی پی پی کی سربراہی میں پارکوں پر قبضے کیے جارہے ہیں، کلفٹن میں اہل علاقہ سول سوسائٹی کھیلوں کے میدانوں پر قبضے کررہے ہیں، مگر کوئی اس پر توجہ نہیں دے رہا۔ انھوں نے کہاکہ جماعتِ اسلامی اس پورے عمل کی مذمت کرتی ہے، اس کے علاوہ حقوق کراچی کی تحریک آگے بڑھ رہی ہے۔ ایک جانب بلدیاتی مسائل ہیں تو دوسری جانب قانون نافذ کرنے والوں نے آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ فیڈرل بی ایریا میں گھر کےسامنے ایک شخص کو گولی ماردی گئی ۔گزشتہ سال بھی 111 افراد کو اسی ضمن میں مار دیا گیا تھا۔ وزیر داخلہ کی زمہ داری ہے کہ وہ اس بات پر توجہ دے کہ لوگوں کو کیوں مارا جارہا ہے؟ جب کسی کی جان جاتی ہےتو اس کے اہل ِخانہ سے پوچھیں کہ ان پر کیا گزرتی ہے۔ امیر جماعتِ اسلامی نے پی پی پی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 26دنوں میں شہر میں صرف کتے کے کاٹنے کے 2 ہزار کیسسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ پی پی پی کا ویزن ہے کہ نوجوانوں کو تعلیم سے محروم کیا جائے، ہروہ طبقہ جس کا تعلق تعلیم سے ہے اسے محروم کردیا جائے۔ پورےصوبے میں جامعات کی کلاسز کا بائیکاٹ کیا گیا ہے لیکن پی پی پی اپنے جہالت کے ویزن پر ڈٹی ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ اس بائیکاٹ کی وجہ سندھ سرکار یونیورسٹی ایکٹ میں ترمیم ہے، جس کے تحت اب کوئی بھی 20 یا 21 گریڈ کا آفیسر یونیورسٹی کا وائس چانسلر بن سکتا ہے۔ سندھ میں یہ فیصلہ ایک بڑا تنازعہ بن چکا ہے۔ یونیورسٹی ایکٹ میں ترمیم کے خلاف اساتذہ اور ماہرینِ تعلیم کی جانب سے گزشتہ کئی دنوں سے سراپا احتجاج کیا جارہا ہے اور جامعات کی کلاسسز کا مکمل بائیکاٹ کیا جارہا ہے۔
اسٹیو اسمتھ نے سری لنکا کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں اہم سنگ میل عبور کر لیا

آسٹریلیا کے عظیم بلے باز اسٹیو اسمتھ نے سری لنکا کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں ایک تاریخی سنگ میل عبور کر لیا۔ اسٹیو اسمتھ نے ٹیسٹ کرکٹ میں اپنے 10 ہزار رنز مکمل کیے اور اس کے ساتھ ہی وہ اس قیمتی سنگ میل کو عبور کرنے والے دنیا کے 15ویں کھلاڑی بن گئے ہیں۔ 35 سالہ اسمتھ، جو کہ اس وقت آسٹریلیا کے قائم مقام کپتان کے طور پر ٹیم کی قیادت کر رہے ہیں، انہوں نے یہ اعزاز اس وقت حاصل کیا جب گال کرکٹ اسٹیڈیم میں سری لنکا کے خلاف اپنے تیسویں اوور کی دوسری گیند پر مڈ آن کے دائیں جانب ایک سنگل کے لئے دوڑ لگائی۔ اس سنگل کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے کیریئر کے 10 ہزار رنز مکمل کیے، جس پر تمام کھلاڑیوں اور تماشائیوں نے کھڑے ہو کر ان کا بھرپور استقبال کیا۔ اسمتھ نے بیٹ اٹھا کر اپنی کامیابی کا اعتراف کیا اور اس تاریخی لمحے کو اپنے مداحوں کے ساتھ شیئر کیا۔ اس سے قبل، اسٹیو اسمتھ نے بھارت کے خلاف بارڈر گواسکر ٹرافی کے دوران سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں اپنے کیریئر کے 9,999 رنز مکمل کیے تھے، لیکن بدقسمتی سے وہ اس اعزاز کو اپنے گھریلو شائقین کے سامنے حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ تاہم، اس بار سری لنکا کے خلاف اس نے اپنی فتوحات کی داغ بیل ڈالی اور ایک تاریخی لمحہ تخلیق کیا۔ اس کامیابی کے ساتھ اسٹیو اسمتھ نے اپنے نام ایک اور سنگ میل رقم کیا اور وہ آسٹریلیا کے لیجنڈز رکی پونٹنگ، اسٹیو اور ایلن بارڈر کے ہمراہ ٹیسٹ کرکٹ میں 10 ہزار رنز بنانے والے عظیم کھلاڑیوں کی صف میں شامل ہو گئے۔ اسمتھ کی اس کامیابی نے انہیں ٹیسٹ کرکٹ کے تیز ترین بلے بازوں میں بھی شامل کر دیا، کیونکہ وہ اس سنگ میل کو عبور کرنے والے پانچویں تیز ترین بلے باز بنے ہیں۔ اسمتھ کی کرکٹ میں شاندار کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے 114 ٹیسٹ میچوں میں 55.86 کی اوسط سے 34 سنچریاں کی ہیں۔ اس کامیابی کی وجہ سے اسمتھ کو “جدید دور کا بریڈ مین” کہا جاتا ہے، اور وہ دنیا کے عظیم ترین بلے بازوں میں شامل ہیں۔ اسمتھ کے ساتھ اس فہرست میں بھارت کے ویراٹ کوہلی، نیوزی لینڈ کے کین ولیمزن اور انگلینڈ کے جوروٹ جیسے بلے باز شامل ہیں۔ اسٹیو اسمتھ کی یہ کامیابی نہ صرف ان کے ذاتی کیریئر کا سنگ میل ہے، بلکہ عالمی کرکٹ کے تاریخ میں ایک نیا باب رقم کرنے کے مترادف ہے۔