“حکومت کو مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں” بیرسٹر گوہر

پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی 3 نشستوں کےبعد رزلٹ نکلے بغیر پی ٹی آئی نےمذاکرات کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ پی ٹی آئی نے 9مئی اور 26 نومبر پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ، جس پر عمل درآمد نہ ہونے پر بیرسٹر گوہر نے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا ۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے راولپنڈی کچہری کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ پی ٹی آئی نے اہم سیاسی مسائل کے حل کے لیے باضابطہ طور پر جوڈیشل کمیشن کی درخواست کی تھی لیکن حکومتی نمائندوں کی طرف سے کوئی سنجیدہ جواب نہیں آیا۔ بیرسٹرگوہر نے دعویٰ کیا کہ حکومت مذاکرات میں تاخیر کرنے کے لیے جان بوجھ کر غیر سنجیدہ رویہ اختیار کر رہی ہے، اگر حکومتی قیادت واقعی مخلص ہوتی تو وہ بروقت جواب دیتی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے 28 جنوری تک پی ٹی آئی کو جوڈیشل کمیشن کے مطالبے پر جواب دینے کا وعدہ کیا تھا، مگر پی ٹی آئی کو کسی بھی فیصلے سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین نے واضح کیا کہ پی ٹی آئی کا رابطہ صرف آرمی چیف سے تھا اور کسی دوسرے ادارے یا شخصیت سے مذاکرات کی تردید کی۔ پی ٹی آئی نے سیاسی دباؤ کے باوجود مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کی،لیکن حکومت کی طرف سے عدم ردعمل نے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے میں رکاوٹ ڈالی۔ دوسری جانب حکومت نے پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات ختم کرنے کے اعلان کے باوجود اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے۔ حکومتی فریق نے کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات ختم کرنے کا فیصلہ واپس لینے پر 31 جنوری تک انتظار کیا جائے گا، اور اگر پی ٹی آئی اپنی پوزیشن تبدیل کرتی ہے تو مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع ہو سکتا ہے۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان عرفان صدیقی نے کہا کہ مذاکرات یک طرفہ طور پر ختم کیے گئے ہیں، کمیٹی کو کسی نے بھی ایک ہفتے کا وقت نہیں دیا تھا اگر ڈیڈلائن دی ہوتی تو ہم اس کا متبادل کوئی فیصلہ کر لیتے،اگر پی ٹی آئی مذاکرات کے لیے کمیٹی کے ساتھ بیٹھے گی نہیں تو حکومت دیواروں کے ساتھ مذکرات کرے گی؟ پاکستان کے سیاسی حلقوں میں اس وقت کی سب سے بڑی بحث پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے عمل پر مرکوز ہے۔ 23 دسمبر 2024 کو شروع ہونے والے اس مذاکراتی عمل کا مقصد ملک میں سیاسی اور معاشی بحران کے حل کے لیے دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت کا راستہ ہموار کرنا ہے، تاہم تین نشستوں کے بعد یہ عمل مشکلات کا شکار ہو گیا اور اس میں تیزی سے رکاوٹیں آنا شروع ہوئیں۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی نے 9 مئی 2023 اور 26 نومبر 2024 کے واقعات کے پرجوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تھا، جسے حکومت نے تسلیم کرنے سے گریز کیا۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کی جانب سے دیگر مطالبات بھی پیش کیے گئے جن میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے ضمانتیں، سزا معطلی اور سیاسی قیدیوں کی بریت کی بھی درخواست کی گئی تھی۔ ان مطالبات کو “وسیع تر مذاکرات کی شرط” کے طور پر پیش کیا گیا تھا، تاہم حکومت نے ان پر سنجیدگی سے غور کرنے سے انکار کیا۔ ایک ہفتے کے اندر ان مطالبات پر جواب نہ دینے کے بعد پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے اچانک مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔ بیرسٹر گوہر نے مذاکراتی عمل کے ناکام ہونے پر واضح کیا کہ حکومت اپنی پوزیشن پر قائم ہے اور اس کے مطابق پی ٹی آئی کا مطالبہ غیر معقول ہے۔ دوسری طرف حکومت نے بھی پی ٹی آئی کے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کی امید ظاہر کی ہے۔ اس تمام صورتحال میں عوام اور سیاسی مبصرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات دوبارہ کامیاب ہو پائیں گے یا ملک میں سیاسی بحران مزید شدت اختیار کرے گا۔ اس وقت ہر ایک کی نظر 31 جنوری تک کی تاریخ پر ہے، کیوں کہ حکومت نے پی ٹی آئی سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی امید کا اظہار کیا ہے۔

قذافی اسٹیڈیم اپ گریڈیشن سہ ملکی سیریز سے قبل ہوجائے گی: پی سی بی

Gaddafi stadium lahore

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے ڈائریکٹر انفراسٹرکچر جواد قاضی نے قذافی اسٹیڈیم کی تزئین و آرائش کے آخری مراحل کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اسٹیڈیم کی مکمل اپ گریڈیشن جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ کی سہ ملکی سیریز سے قبل مکمل کر لی جائے گی۔ اس وقت اسٹیڈیم کے تمام کام انتہائی تیز رفتاری سے مکمل کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اسٹیڈیم کے معیار پر کسی قسم کا سمجھوتا نہ کیا جائے اس کے لیے واضح حکمتِ عملی سے کام لیا جار ہا ہے۔ آج میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جواد قاضی نے اس بات کا انکشاف کیا ہےکہ قذافی اسٹیڈیم کی تمام کرسیاں آج رات تک نصب کر دی جائیں گی، جس کے بعد اسٹیڈیم کی اندرونی سہولتیں مکمل طور پر فعال ہو جائیں گی۔ اسی کے ساتھ پویلین اور دفتر کی عمارتوں کے فنشنگ کا کام مکمل ہو چکا ہے اور اب فرنیچر کی تنصیب کا کام جاری ہے۔ یہ اسٹیڈیم کے جدید معیار کی طرف ایک اور اہم قدم ہے۔ دوسری طرف اسٹیڈیم کے بیرونی علاقے میں صفائی اور ملبہ صاف کرنے کا کام بھی جاری ہے تاکہ اسٹیڈیم کی ظاہری شکل کو مزید بہتر بنایا جا سکے۔ جواد قاضی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے اسٹیڈیم کی اپ گریڈیشن میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جا رہی اور تمام کام مقررہ وقت پر ہوجائیں اس کے لیے نہایت احتیاط سے کام کیا جارہا ہے۔  ڈائریکٹر انفراسٹرکچر پی سی بی کے مطابق قذافی اسٹیڈیم کی خوبصورتی میں اضافے کے لیے پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی (پی ایچ اے) نے پھول، گھاس اور درخت لگانے کا عمل شروع کر دیا ہے، جس سے اسٹیڈیم کے اندر اور باہر کی خوبصورتی میں اضافہ ہوگا۔ مزید یہ کہ شائقین کو بہترین تجربہ فراہم کرنے کے لیے اسٹیڈیم کے باہر صفائی کا کام بھی کیا جارہا ہے۔ جواد قاضی نے کہا ہے کہ اسٹیڈیم میں آٹھ نئے گیٹ نصب کیے گئے ہیں، جس سے شائقین کے لیے داخلے اور اخراج کی سہولیات بڑھیں گی اور میچ کے دوران ٹریفک کا دباؤ کم ہوگا۔ ڈائریکٹر انفراسٹرکچر پی سی بی نے سرکاری محکموں کے تعاون کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان کے مشترکہ کاوشوں کی بدولت قذافی اسٹیڈیم کو ایک نئی زندگی مل رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹیڈیم کی مکمل اپ گریڈیشن سہ ملکی سیریز سے پہلے ہوجائے گی اور یہ عالمی معیار کے مطابق تیار کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ اسٹیڈیم کی تعمیر کے ساتھ ساتھ وی آئی پی راستوں کو حتمی شکل دینے کا عمل بھی جاری ہے، جو ایک یا دو دن میں مکمل ہو جائے گا۔ پی سی بی کے مطابق جدید سہولیات سے آراستہ اس اسٹیڈیم کا مقصد بین الاقوامی کرکٹ کو مزید فروغ دینا اور شائقین کو بہتر تجربہ فراہم کرنا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان سہ فریقی سیریز کا افتتاحی میچ 8 فروری کو قذافی اسٹیڈیم لاہورمیں کھیلا جائے گا۔ نجی ٹی وی آج نیوز کے مطابق وزیرِاعظم شہباز شریف کو آئندہ ماہ اسٹیڈیم کے افتتاح کی دعوت دی گئی ہے۔ وزیرِاعظم پاکستان سہ ملکی سیریز سے قبل قذافی اسٹیڈیم کا باضابطہ افتتاح کریں گے۔

امریکی سینیٹ نےعالمی عدالت پر پابندی کا بل روک دیا

Us senate

امریکی سینیٹ نے اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یواو گیلنٹ کے وارنٹ گرفتاری کے معاملے پر ایک اہم فیصلہ کیا ہے جس نے دنیا بھر میں تہلکہ مچادیا۔ یہ وارنٹ غزہ میں جاری جنگ کے دوران اسرائیلی قیادت پر مبینہ جنگی جرائم کے الزامات کے تناظر میں جاری کیے گئے تھے۔  عالمی خبر رساں ادارے’روئٹرز‘ کے مطابق سینیٹ میں اس بل کی حمایت اور مخالفت میں زبردست کشمکش ہوئی، تاہم بالآخر یہ بل درکار 60 ووٹوں کے بغیر مسترد ہوگیا۔ بل کے حق میں 54 ووٹ پڑے جب کہ 45 ووٹ اس کے مخالف میں تھے۔ اس بل کے تحت بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) پر پابندیاں عائد کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی، جسے اسرائیل کی قیادت کے خلاف آئی سی سی کے وارنٹس گرفتاری کے بعد مزید پیچیده قانونی مسائل کا سامنا تھا۔  یہ وارنٹس، جن میں حماس کے کمانڈر محمد دیف کے خلاف بھی الزامات شامل ہیں، اسرائیل کے غزہ پر حملے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کی وجہ سے جاری کیے گئے تھے۔ ان وارنٹس کے جاری ہونے سے عالمی سطح پر شدید بحث نے جنم لیا، جس میں ایک طرف اسرائیل کے حامیوں کی آوازیں بلند ہوئیں تو دوسری طرف آئی سی سی کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے والے تحفظات بھی سامنے آئے۔ ڈیموکریٹک سینیٹروں کی بڑی تعداد نے اس بل کی شدید مخالفت کی، اور انہیں آئی سی سی کے اقدامات پر پابندیاں عائد کرنے کے نتیجے میں ممکنہ عالمی اثرات پر گہری تشویش تھی۔ سینیٹ میں اکثریتی رہنما چک شومر نے اس بل کی حمایت کی لیکن اس میں مزید ترمیم کی ضرورت پر زور دیا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ امریکی مفادات کو نادانستہ طور پر نقصان نہ پہنچے۔ شومر کا کہنا تھا کہ یہ بل اسرائیل کے خلاف متعصبانہ اقدام کے طور پر نظر آ سکتا ہے، اور اس میں مزید بات چیت کی ضرورت ہے۔ سینیٹر جان تھون نے اس بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ آئی سی سی کے اقدامات امریکی شہریوں اور فوجی اہلکاروں کو مستقبل میں نشانہ بنانے کے لیے خطرناک مثال بن سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اسرائیل کو ہدف بنانا ایک سنگین اقدام ہو سکتا ہے، جو دیگر امریکی اتحادیوں کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے‘۔  تھون نے کہا کہ اگر اس طرح کے اقدامات کو نظر انداز کیا گیا تو آئی سی سی کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف بھی کارروائیاں کی جا سکتی ہیں۔ دوسری جانب سینیٹر جان فیٹرمین، جو اس بل کے حق میں ووٹ دینے والے واحد ڈیموکریٹ تھے، نے اسرائیل پر آئی سی سی کے ‘بے بنیاد حملوں’ کی مذمت کی اور انہیں دفاع کے قابل قرار دیا۔ اسرائیل نواز گروپوں نے ان کی حمایت کی، جس میں امریکی اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی (اے آئی پی اے سی) بھی شامل تھا۔ یاد رہے یہ پہلا موقع نہیں تھا جب امریکا کو آئی سی سی کے ساتھ تصادم کا سامنا کرنا پڑا۔ 2020 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکا نے آئی سی سی کے عہدیداروں پر پابندیاں عائد کی تھیں، جب وہ امریکی فوجیوں پر ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔  جو بائیڈن کے دور میں ان پابندیوں کو ختم کردیا گیا تھا، لیکن ٹرمپ نے دوبارہ عہدہ سنبھالنے کے بعد پابندیوں کو پھر سے بحال کردیا تھا۔ اس پورے معاملے نے عالمی سیاست میں اسرائیل کے موقف اور آئی سی سی کے مستقبل پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیے ہیں، اور اس پر مزید عالمی بحث چھڑنے کا امکان ہے۔  

آن لائن ’جعلی خبروں‘ پر تین سال قید، 20لاکھ روپے جرمانہ ہوگا، صدر مملکت نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کردیے

Asif ali zardari

آن لائن ’جعلی خبروں‘ کے مرتکب افراد اب سزا سے نہیں بچ پائیں گے۔صدر مملکت آصف علی زرداری نے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام (پیکا) ترمیمی بل 2025 کی توثیق کردی۔  صدر پاکستان نے ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2025 کی بھی منظوری دے دی جب کہ آصف زرداری نے نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن ( ترمیمی) بل 2025 کی بھی توثیق کر دی۔ صدر مملکت نے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام (پیکا) ترمیمی بل 2025 پر دستخط کردیے ہیں، صدر کے دستخط کے بعد پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قانون بن گیا ہے۔ اس سے قبل پارلیمنٹری رپورٹرز ایسوسی ایشن (پی آر اے) نے دعویٰ کیا تھا کہ صدر مملکت نے پیکا ایکٹ کے ترمیمی بل پر دستخط کرنےمیں تاخیر کی تھی ۔  اس سلسلے میں پی آر اے پاکستان کے نمائندہ وفد نے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے خصوصی ملاقات کی تھی جس کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے صدر مملکت آصف علی زرداری سے رابطہ کیا اور پیکا ترمیمی بل کی مشاورت کے بغیر منظوری کے خلاف پی آر اے پاکستان سے مکمل اظہار یکجہتی کیا۔ سربراہ جے یو آئی (ف) نے صدر آصف زرداری کو بل پر فوری دستخط نہ کرنے پر زور دیا اور کہا کہ ملک بھر کے صحافی بعض شقوں پر معترض ہیں، مناسب ہو گا میڈیا کے جائز تحفظات کو دور کیا جائے۔ پی آر اے پاکستان کے مطابق صدر مملکت نے سربراہ جے یو ائی مولانا فضل الرحمن کو اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ صدر مملکت نے مولانا فضل الرحمن کی درخواست پر پی آر اے پاکستان کی تجاویز آنے تک بل پر دستخط کا مرحلہ کچھ وقت کے موخر کردیا ہے۔ صدر مملکت نے واضح کیا کہ ترمیمی بل کے معاملے پر وزیر داخلہ کے ساتھ پی آر اے پاکستان کی مشاورت بھی کرائی جائے گی، پی آر اے پاکستان نے آزادی اظہار رائے کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد گزشتہ روز سینیٹ نے بھی متنازع پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 کی منظوری دے دی تھی۔ حکومت پر یہ الزام لگ رہا ہے کہ اُس نے صحافتی تنظیموں اور اپوزیشن کو اعتماد میں لئے بغیر پیکا ایکٹ کو منظور کیا ۔صحافتی تنظیموں سمیت اپوزیشن کا خیال ہے کہ یہ متنازع اور کالا قانون ہے ۔جس کو منظور کروانے میں حکومت نے عجلت سے کام لیا ۔اب اس ایکٹ کو لے کر حکومت کو شک بھری نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔ حکومت کی نیت پر سوال اُٹھایا جارہا ہے کہ وہ آزادی اظہار رائے کو روکنے کیلئے اِس قانون کو لائی ہے۔ اب اِس بل کی مظوری پر ملک بھر میں صحافی سراپا احتجاج ہیں ۔جبکہ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ قانون صحافیوں کے لیے نہیں ہے ۔رانا تنویر جنہوں نے اِس بل کو ایوان میں پیش کیا اُن کا اپنی صفائی میں کہنا ہے کہ قانون میں ترامیم کبھی بھی ہو سکتی ہیں ۔یہ بل الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات کیلئے نہیں۔۔بلکہ سوشل میڈیا والوں کے لیے  ہے۔ ترمیمی بل میں ہے کیا؟ دی پریونشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (ترمیمی) بل 2025 میں سیکشن 26 (اے) کا اضافہ کیا گیا ہے، جس کے تحت آن لائن ’جعلی خبروں‘ کے مرتکب افراد کو سزا دی جائے گی، ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ جو بھی شخص جان بوجھ کر جھوٹی معلومات پھیلاتا ہے، یا کسی دوسرے شخص کو بھیجتا ہے، جس سے معاشرے میں خوف یا بےامنی پھیل سکتی ہے، تو اسے تین سال تک قید، 20 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہوگا، جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر قائم کیے جائیں گے۔ ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن اور رجسٹریشن کی منسوخی، معیارات کے تعین کی مجاز ہو گی جب کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کے ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی۔ پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی مجاز ہوگی، سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کا متاثرہ فرد 24 گھنٹے میں اتھارٹی کو درخواست دینے کا پابند ہو گا۔ ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی کل 9 اراکین پر مشتمل ہو گی، سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا ایکس آفیشو اراکین ہوں گے، بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جاسکے گا، چیئرمین اور 5 اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی۔ حکومت نے اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے، ایکس آفیشو اراکین کے علاوہ دیگر 5 اراکین میں 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ وئیر انجینئر بھی شامل ہوں گے جب کہ ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہو گا۔ ترمیمی ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی، ٹربیونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہو گا، صحافی، سافٹ ویئر انجینئر بھی ٹربیونل کا حصہ ہوں گے۔

وائٹ ہاؤس کی 20 لاکھ ملازمین کو ملازمت چھوڑنے کے لیے مالی مراعات کی پیشکش

White house

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے وفاقی حکومت میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ ٹرمپ کے اس متنازعہ اقدام میں 20 لاکھ کل وقتی وفاقی سویلین ملازمین کو “ڈیفرڈ ریزیگنیشن پروگرام” کی پیشکش کی گئی ہے۔  اس اقدام کا مقصد حکومت کے حجم کو کم کرنا اور وفاقی افرادی قوت کی تنظیم نو کرنا ہے۔ اس اقدام کو تنقید اور سوالات کا سامنا ہے، اور یہ نیا فیصلہ وفاقی ملازمین کی زندگیوں میں ایک سنگین موڑ لے سکتا ہے۔ ،جاری کی گئی ای میل میں وفاقی ملازمین کو 6 فروری تک اس پیشکش میں حصہ لینے کا وقت دیا گیا ہے۔ ای میل میں بتایا گیا ہے کہ اگر ملازمین اس پیشکش کو قبول کرتے ہیں تو انہیں 30 ستمبر تک پے رول پر رہنے کی اجازت ہوگی، مگر اس دوران انہیں ذاتی طور پر کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور ان کی ڈیوٹیز یا تو کم کر دی جائیں گی یا مکمل طور پر ختم کر دی جائیں گی۔ دلچسپی رکھنے والے افراد کو اپنے سرکاری ای میل اکاؤنٹ سے جواب دیتے ہوئے لفظ “استعفیٰ” لکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ یہ پیشکش خاص طور پر امیگریشن، قومی سلامتی اور امریکی پوسٹل سروس کے ملازمین کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس میں بیشتر وفاقی سویلین ملازمین شامل ہیں۔ ان 20 لاکھ ملازمین میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو سابق فوجیوں کی صحت کی دیکھ بھال، زراعت کے معائنے اور حکومت کے بلوں کی ادائیگی جیسے مختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ یہ غیر معمولی اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے عہدے کے ابتدائی دنوں کو اپنی سیاسی ترجیحات کے مطابق امریکی وفاقی حکومت کا حجم کم کرنے، اس کی تشکیل نو کے لیے استعمال کیا ہے۔ ای میل میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ کا مقصد ایک “زیادہ ہموار اور لچکدار افرادی قوت” بنانا ہے۔ اگرچہ کچھ ایجنسیوں کو اپنے عملے میں اضافہ کرنے کا کہا جا سکتا ہے، تاہم زیادہ تر ایجنسیوں میں برطرفیوں اور تنظیم نو کے ذریعے کمی کرنے کا ارادہ ہے۔ ای میل میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ وفاقی ملازمین کو ان کی ملازمتوں کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی، اور اگر ان کے عہدے ختم کر دیے جاتے ہیں تو ان کے ساتھ عزت کے ساتھ برتاؤ کیا جائے گا۔ ڈیموکریٹک سینیٹر ٹم کین نے اس تجویز کو “جعلی پیشکش” قرار دیا اور کہا کہ ٹرمپ کے پاس وفاقی ملازمین کو یہ پیشکش دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ کے وعدے کے مطابق ملازمین کو تنخواہیں نہیں مل سکتیں۔ تاہم، ایک سینئر انتظامی عہدیدار نے یہ کہا ہے کہ اگر 5 سے 10 فیصد وفاقی ملازمین اس پیشکش کو قبول کرتے ہیں تو حکومت کو 100 ارب ڈالر تک کی بچت ہو سکتی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی یہ پیشکش وفاقی حکومت کی ساخت میں ایک نئی شکل لاسکتی ہے، تاہم اس کے نتائج ابھی واضح نہیں ہیں۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کتنے ملازمین اس پیشکش کو قبول کرتے ہیں اور اس کا وفاقی خدمات کی سطح پر کیا اثر پڑتا ہے۔  

’ہم بھی دنیا کے ساتھ چل سکتے ہیں‘ لاہورمیں جدید ٹیکنالوجی کی شاندار نمائش

Lahore it fest

پاکستان کے سب سے بڑے ٹیکنالوجی فیسٹیول، فیوچر فیسٹ 2025، نے لاہور کے ایکسپو سینٹر میں تاریخ رقم کر دی۔ اس شاندار ایونٹ میں جدید ٹیکنالوجیز کی نمائش، عالمی ماہرین کی رہنمائی، اور نوجوانوں کے لیے انمول مواقع پیش کیے گئے۔ شرکاء سے بات کی گئی تو ہر چہرے پر امید کی ایک نئی کرن نظر آئی۔ عوام کا کہنا تھا کہ یہ ایونٹ نہ صرف پاکستان کے آئی ٹی سیکٹر کے لیے سنگ میل ہے بلکہ نوجوان نسل کے لیے ایک بہترین موقع بھی ہے۔ ایک نوجوان نے کہا: ‘یہاں آ کر محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان بھی دنیا کے جدید ٹیکنالوجی نقشے پر جگہ بنانے کے لیے تیار ہے۔’ ایک اور شریک نے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ‘یہ ایونٹ ہمیں دکھا رہا ہے کہ ہم بھی کچھ کر سکتے ہیں، ہم بھی دنیا کے ساتھ چل سکتے ہیں۔’ فیوچر فیسٹ 2025 سے نوجوانوں میں نئی امید جاگی ہے، اس فیسٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان نہ صرف ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے جائے گا بلکہ یہ اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ فیسٹیول، نوجوانوں کے خوابوں کو تعبیر دینے اور پاکستان کو ایک روشن مستقبل کی جانب لے جانے کا عزم ہے۔

وائیٹ پیپر کیا ہے اور کیوں جاری کیا جاتا ہے؟

Whitepaper

وائٹ پیپر ایک ایسی دستاویز ہے جو کسی مخصوص مسئلے، پالیسی یا موضوع پر تفصیلی تجزیہ فراہم کرتی ہے اور اس کے بارے میں حل یا تجاویز پیش کرتی ہے، یہ دستاویز عام طور پر حکومتوں، کاروباری اداروں یا تحقیقی اداروں کی طرف سے جاری کی جاتی ہے۔ وائٹ پپر کو 90 کی دہائی میں متعارف کروایا گیا تھا، لیکن اب یہ مارکیٹنگ ٹول کے طور پر بھی استعمال ہونے لگا ہے۔ خاص طور پر کاروبار میں انہیں صارفین اور شراکت داروں کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس اصطلاح کا آغاز 1920 کی دہائی میں برطانیہ سے ہوا، جہاں یہ حکومت کے محکموں کی طرف سے جاری کی جانے والی پوزیشن پیپرز یا صنعت کی رپورٹس کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ یہ پیپرعام طور پر عوام یا مخصوص گروپوں کو اہم موضوعات سے آگاہ کرتا ہے اور یہ حکومتی یا کاروباری پالیسیوں کے لیے بھی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ وائیٹ پیپر عوامی فیصلوں کی وضاحت کو بڑھاتا ہے اور اداروں یا حکومتوں کو جوابدہ بنانے میں بھی معاون ہوتا ہے۔ ‘وائٹ پیپر’ کی اصطلاح برطانوی حکومت سے آئی جہاں یہ بلیوبک کا کم تفصیلی ورژن ہے۔ یہ حکومت کی پالیسیوں کو پیش کرنے اور عوامی آراء حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور اس میں غیر متغیر پالیسی وعدے نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ کینیڈا میں وائٹ پیپر کابینہ کی منظوری کے بعد عوامی سطح پر پیش کیا جاتا ہے اور یہ دستاویزات حکومت کی پالیسیوں، منصوبوں اور اہم مسائل پر عوام کو آگاہ کرنے اور مختلف اسٹیک ہولڈرز کے درمیان معلومات کا تبادلہ کرنے کا اہم ذریعہ سمجھی جاتی ہیں۔ سیاسی طور پر وائٹ پیپرز کا مقصد عوامی بحث کو فروغ دینا اور پالیسی سازی میں شفافیت پیدا کرنا ہوتا ہے۔ ان دستاویزات کا استعمال عام طور پر پیچیدہ مسائل پر تفصیل سے تجزیہ پیش کرنے اور مختلف آپشنز کے فوائد و نقصانات کو واضح کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر مشہور وائٹ پیپرز کی مثالوں میں 1939 کا برطانوی وائٹ پیپر شامل ہے جس میں فلسطین میں یہودی مہاجرین کے معاملے پر تفصیل سے بحث کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ آسٹریلیا کا ‘فل ایمپلائمنٹ ان آسٹریلیا’ بھی ایک معروف مثال ہے جس میں ملک میں مکمل روزگار کی پالیسی پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ دوسری جانب کاروباری وائیٹ پیپرز عام طور پر کمپنیوں کی جانب سے جاری کیے جاتے ہیں تاکہ مخصوص مصنوعات، خدمات یا کاروباری حکمت عملی کے بارے میں معلومات فراہم کی جا سکیں۔ یہ سیلز اور مارکیٹنگ ٹول کے طور پر بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ ان سب کے علاوہ یہ وائیٹ پیپرز تحقیقی ادارے، یونیورسٹیز یا دیگر علمی ادارے بھی جاری کرتے ہیں۔ ان میں تحقیق کے نتائج، نئے علمی نظریات یا تجربات پر مبنی معلومات بھی شامل ہوتی ہیں۔ وائیٹ پیپرز حکومتی اداروں، کاروباری تنظیموں یا دیگر اداروں کے لیے ایک اہم ذریعہ ہیں جو مختلف مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ پالیسی سازی کے دوران عوامی رائے حاصل کرنے اور تجاویز جمع کرنے کے لیے جاری کیے جاتے ہیں، ساتھ ہی عوامی آگاہی بڑھانے یا کسی خاص موضوع پر رائے ہموار کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ نئے کاروباری ماڈلز یا ٹیکنالوجیز کی تفصیل پیش کرنے کے لیے بھی وائیٹ پیپرز ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔ مزید برآں تحقیقی وائیٹ پیپرز کسی خاص شعبے میں کی جانے والی تحقیق کے نتائج اور تفصیلات شیئر کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں تاکہ علم کا تبادلہ ہو سکے۔ وائیٹ پیپر جاری کرنے کی اہم وجوہات میں پالیسی سازی، عوامی رائے کی تشکیل، اور نئے حل کی پیشکش شامل ہے۔ یہ دستاویزات اہم مسائل پر معلومات فراہم کرتی ہیں تاکہ فیصلوں میں بہتری لائی جا سکے اور عوام کی آراء حاصل کی جا سکیں۔ اس کے علاوہ وائٹ پیپر کی وجہ سے عوامی پالیسی کا کاروباری فیصلوں پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ کیونکہ حکومت کی جانب سے کی جانے والی قانون سازی، ٹیکس پالیسیوں اور ضوابط کاروباری حکمت عملیوں کو متاثر کرتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک میں ترقی اور استحکام کی راہیں کھلتی ہیں۔ وائٹ پیپرز کے ساتھ آنے والے کچھ مسائل میں تعصب بھی شامل ہے کیونکہ یہ دوسروں کو نظر انداز کرتے ہوئے یک طرفہ خیالات پیش کر سکتے ہیں۔ اپنی وسیع تر اپیل کو محدود کرتے ہوئے مخصوص گروپوں کے مفادات کو ترجیح دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وائیٹ پیپر میں ضرورت سے زیادہ تفصیل اس کو سمجھنا مشکل بنا سکتی ہے۔ اگر مؤثر طریقے سے پھیلایا نہ جائے تو ااس کا اثر کم سے کم ہو سکتا ہے جس سے مجموعی تاثیر کم ہو سکتی ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر فیصل کامران نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “وائیٹ پیپر ایک رسمی دستاویز ہے جو کسی خاص موضوع، پالیسی، یا مسئلے پر تفصیلی معلومات فراہم کرتی ہے تاکہ عوام یا متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو قائل کیا جا سکے یا کسی پالیسی کی وضاحت کی جا سکے”۔ یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ عثمان شمیم نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وائٹ پیپر سے متعلق کہا کہ “وائٹ پیپر حکومتی یا ادارتی پالیسیوں پر وضاحت دینے اور عوام کو اعتماد میں لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کسی بھی اہم مسئلے پر رہنمائی فراہم کرتا ہے اور پالیسی سازی میں مددگار ہوتا ہے”۔ پروفیسر فیصل کامران نے وائٹ پیپر کے استعمال سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “یہ صرف سیاست تک محدود نہیں بلکہ کاروباری ادارے، ٹریڈ یونینز، اور دیگر تنظیمیں بھی اپنی حکمت عملی، پروڈکٹس، یا مسائل کے حل پیش کرنے کے لیے وائیٹ پیپر جاری کرتی ہیں”۔ پروفیسر عثمان شمیم کے مطابق ” وائٹ پیپر کا دائرہ صرف سیاست تک محدود نہیں بلکہ کاروباری ادارے اور ٹریڈ یونینز بھی اپنے مسائل، مصنوعات، یا پالیسی تجاویز کے لیے یہ جاری کرتی ہیں”۔ پروفیسر کامران نے وائٹ پیپر کی تاریخ سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “پہلا وائیٹ پیپر برطانوی حکومت نے 1922 میں فلسطین کے مسئلے پر جاری کیا تھا جس میں مسئلہ فلسطین پر تفصیل سے بات کی گئی تھی”۔ اس حوالے سے پروفیسر

“میئر شہر پر قبضہ کیے بیٹھا ہے” کراچی میں بزرگ شہری کھلے نالے میں گر کر جاں بحق

Electric bus

کراچی کے علاقے ملیر کالا بورڈ کے قریب حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے بزرگ شہری نالے میں گر کر جاں بحق ہو گیا، جاں بحق ہونے والے شہری کی لاش ایدھی فاؤنڈیشن کے رضا کاروں نے نکال کر ورثا کے حوالے کر دی۔ نجی ٹی وی ایکسپریس نیوز کے مطابق ایس ایچ او سعود آباد ضمیر نے بزرگ شخص کی لاش کو ان کے ورثا کے حوالے کر دی ہے ، جہاں بحق ہونے والا شخص کی شناخت 70 سالہ سلیم بیگ کے نام سے کی گئی جو کہ کالا بورڈ ملیر کا رہائشی اور مشین ٹول فیکٹری کا ریٹائرڈ ملازم تھا جو کہ  نالے میں گر کر جاں بحق ہوگیا۔ ایس ایچ او نے اس بات کی تردید کی ہے کہ متوفی موٹر سائیکل سمیت نالے میں گرا تھا جبکہ متوفی کے 3 بیٹے ہیں اور اس کی لاش اور موٹر سائیکل سمیت دیگر سامان ورثا کے حوالے کر دیا گیا ہےجبکہ ورثاء کی جانب سے کسی بھی قسم کی قانونی کارروائی سے گریز کیا گیا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ اس نالے میں متعدد بار حادثات ہو چکے ہیں ، میونسپل کمیٹی کے ساتھ ساتھ میئر کراچی کی طرف سے اس علاقے میں کوئی کاروائی نہیں کی جا رہی۔ چئیرمین یوسی 5 ماڈل ٹاؤن طلحہ خان کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں کام کروانے کے لیے متعدد بار بل پاس ہو چکے ہیں ، میرے پاس بل موجود ہے جس پر میئر کراچی مرتضیٰ وہاب ( پی پی پی)، ڈپٹی میئر سلمان عبداللہ اور میونسپل کمیٹی کی طرف سے مہریں لگی ہوئی ہیں اور تمام دستاویزات مکمل ہونے کو باوجود میونسپل کمیٹی کی طرف سے نالوں اورگلیوں کی مرمت نہیں کی گئی،ان کو غریب عوام کا کوئی خیال نہیں آرہا۔ ۔طلحہ خان کا کہنا ہے کہ میئر اس شہر پر قبضہ کر کے بیٹھا ہوا ہے ، کچھ تو اس غریب عوام کا خیال کرنا چاہیے ، ہمارے شہری آئے دن موت کی گھاٹ اتر رہے ہیں، چئیرمین کا مزید کہنا ہے کہ ہماری طرف سے متعدد بار میونسپل کمیٹی اور مئیر مرتضیٰ وہاب کو درخواستیں لکھی جا چکی ہیں، لیکن ان درخواستوں پر کوئی عمل نہیں کیا جا رہا۔ شہریوں  کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت سوئی  ہوئی ہے ، کئی بار اس نالے میں حادثات ہو چکے ہیں ، ابھی تک کوئی بھی ایکشن نہیں لیا گیا، کئی حادثات ہو چکے ہیں ،اب مزید انسانی جان کو ضائع ہونے سے بچایا جائے اور مناسب اقدامات کیے جائے۔    

مسلسل ناکامی کے بعد انگلینڈ کی شاندار واپسی، تیسرے ٹی ٹوئنٹی میں انڈیا کو شکست

England circket team

ٹی ٹوئنٹی سیریز میں مسلسل ناکامی کے بعد انگلش ٹیم  نے پلٹ کر وار کرتے ہوئے میزبان انڈین ٹیم کو 26 رنز سے شکست دے دی۔ مہمان انگلش ٹیم  نے میزبان انڈین ٹیم کے بیٹنگ لائن اپ کو ہلا کر رکھ دیا اور کسی بھی  بلےباز کو ففٹی تک نہ کرنے دی۔ انڈیا اور انگلینڈ کے درمیان ٹی ٹوئنٹی سیریز کا تیسرا میچ آج راجکوٹ کے نرنجن شاہ اسٹیڈیم میں کھیلا گیا۔ میزبان انڈین ٹیم  نے ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کیا۔ انگلش ٹیم کی شروعات کچھ اچھی نہ ہوئی اور اوپنر بلے باز فِل سالٹ محض 7 گیندوں کے عوض 5 رنز بنا کر چلتے بنے۔ جس کے بعد انگلش ٹیم کے کپتان جوس بٹلر نے ٹیم کی باگ ڈور سنبھالی اور  بن ڈکٹ کے ساتھ مل کر انڈین بولنگ لائن اپ کے سامنے اینٹ کی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے۔ انگلش ٹیم کے اوپنگ بلےباز بن ڈکٹ نے 28 گیندوں پر 51 اسکور مار کر انڈین بولروں کا بولنگ لائن اپ ہلا کر رکھ دیا۔ کپتان جوس بٹلر کچھ زیادہ کمال نہ دکھا سکے اور 22 گیندوں پر 24 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے۔ انگلش ٹیم کے آل راؤنڈر لیونگسٹن  نے جارحانہ اننگ کھیلتے ہوئے 24 گیندوں کے عوض 43 اسکور بناکر واپس لوٹ گئے۔ اس کے بعد انگلش بلے بازوں کی بیٹنگ لائن لڑکھڑا گئی اور 20 اوورز میں 9 وکٹوں کے نقصان پر انگلش ٹیم 171 اسکور بنا کر پویلین لوٹ گئی۔ انڈین بولروں نے عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے مہمان ٹیم کا بیٹنگ لائن اپ ہلا کر رکھ دیا۔ بھارتی اسپنر ورون چکرورتی نے غیر معمولی بولنگ کا مظاہرہ کیا اور انگلش بلے باز ان کی بولنگ کے سامنے سرینڈر کرتے نظر آئے۔ انڈین اسپنر نے محض 4 اوورز میں آدھی انگلش ٹیم کو اپنا شکار بنا کر پویلین کی جانب چلتا کیا۔ اس کے علاوہ ہاردک پانڈیا نے 2 جب کہ روی بشنوئی اور اکشر پٹیل نے 1، 1 شکار کیے۔ ورون چکرورتی نے عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے 4 اوور کے اسپیل میں 6.00 کی اکانومی سے صرف 24 رنز دیے اور 5 بلے بازوں کی وکٹیں لیں۔ اس دوران انہوں نے جوس بٹلر، جیمی اسمتھ، جیمی اوورٹن، برائیڈن کارس اور جوفرا آرچر کو آؤٹ کیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے اپنے ٹی 20 انٹرنیشنل کیریئر میں دوسری بار 5 وکٹیں حاصل کیں۔ واضح رہے کہ وہ اس وقت اس سیریز میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے بولر ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے جنوبی افریقہ کے دورے پر 5 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ ورون چکرورتی انڈیا کی جانب سے ٹی ٹوئنٹی میں دو مرتبہ 5 وکٹیں لینے والے تیسرے بولر بن گئے ہیں۔  ہدف کے تعاقب میں میزبان انڈین ٹیم 145 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ میزبان ٹیم کا آغاز کچھ اچھا نہ رہا اور اوپننگ بلے باز سنجو سیمسن محض 3 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے۔ انگلش بولنگ کے سامنے انڈین بیٹنگ لائن اپ ٹک نہ سکا اور یکے بعد دیگرے ایک ایک کر کے تمام کھلاڑی پویلین لوٹ گئے۔ میزبان ٹیم کی جانب سے  پانڈیا  نے 35 گیندوں پر 40 رنز جب کہ شرما 24 رنز بنا کر نمایاں رہے۔ کپتان سوریا کمار یادو کچھ خاص کمال کا مظاہرہ نہ کرسکے اور محض 14 رنز بنا کر لوٹ گئے۔ مہمان ٹیم کی جانب سے جیمی اوورٹن نے 24 رنز کے عوض 3 شکار کیے، جب کہ آرچر اور کارس نے 2، 2 شکار کیے۔ عادل رشید اور مارک وُڈ نے 1،1 کھلاڑی کو پویلین کی راہ دکھائی۔ یاد رہے کہ انڈیا اور انگلینڈ کے درمیان 5 ٹی ٹوئنٹی پر مشتمل ایک سیریز جاری ہے جس میں میزبان ٹیم انڈیا کو 1-2 سے برتری حاصل ہے۔ اس سیریز کا اگلا میچ میزبان ٹیم اور انگلش ٹیم کے درمیان 31 جنوری کو مہاراشٹر کرکٹ ایسوسی ایشن اسٹیڈیم پونے میں کھیلا جائے گا۔

2 طیارے بوگوٹا میں لینڈ:کیا اب امریکہ اور کولمبیا میں کشیدگی کم ہو جائے گی؟

ٹرمپ حکومت کی طرف سے تارکین وطن کے لیے سخت کریک ڈاؤن جارہی ہے۔ 2 روز قبل کولمبیا کے شہریوں کو ملک چھوڑنے کے لیے امریکی فوجی طیارہ استعمال کیا گیا تھا جس پر کولمبیا حکومت  نے سخت ایکشن لیا اور امریکی فوجی طیاروں کو کولمبیا میں اترنے کی اجازت نہ دی۔ عالمی میڈیا کے مطابق اتوار کو امریکی فوجی طیارے تارکین وطن کو کولمبیا میں لینڈ کرانا چاہتے تھے لیکن کولمبیا کی حکومت کی طرف سے فوجی طیاروں کو یہ کہہ کر نہ اترنے کی جازت دی گئی کہ ان کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے ، کولمبیا فضائیہ کے 2 طیارے آج ان تارکین وطن کو لے کر درالحکومت بوگوٹا میں لینڈ ہوئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی کولمبیا کے سامان پر 25 فیصد محصولات عائد کرنے کی دھمکی دینے کے بعد دونوں ممالک کو تجارتی جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا اور اس کے جواب میں کولمبیا کے صدر گسٹاؤ پیٹرو نے کہا کہ وہ جوابی کارروائی کرے گا۔ امریکی فوجی طیارے کو کولمبیا میں لینڈنگ کی اجازت نہ دینے پر پیٹر نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ان کے ساتھ ” عزت کے ساتھ” برتاؤ کرو” وہ کولمبیا کے باشندے ہیں، آزاد اور باوقار ہیں، اور اپنے وطن میں جہاں ان سے پیار کیا جاتا ہے،جس کے بعد دونوں ممالک کے سفارت کاروں نے ایک معاہدہ کیا جس میں دیکھا گیا ہے کہ کولمبیا نے تارکین وطن کو جمع کرنے کے لیے اپنی فضائیہ کے طیارے بھیجے۔ یاد رہے کہ کولمبیا نے ماضی میں امریکہ سے ملک بدری کی پروازوں کو قبول کیا ہے، 2024 میں امریکہ سے جلاوطن تارکین وطن کو لے جانے والے 124 طیارے ملک میں اترے۔ اتوار کے روزایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں، پیٹرو نے ایک نیوز ویڈیو کا حوالہ دیا جس میں تارکین وطن کو امریکہ سے برازیل جلاوطن کیا گیا تھا، جنھیں ہتھکڑیاں لگائی گئی تھیں اور ملک بدری کی پرواز کے دوران ان کے پاؤں روک لیے گئے تھے، جس پر کولمبیا کے رہنما نے کہا کہ وہ “کبھی بھی کولمبیا کے باشندوں کو پروازوں میں ہتھکڑیاں لگا کر واپس جانے کی اجازت نہیں دیں گے”۔ پیٹرو کے امریکی فوجی طیارے کو اترنے سے انکار نے صدر ٹرمپ کو ناراض کر دیا، جنہوں نے “بڑے پیمانے پر ملک بدری” کے ذریعے امریکہ سے غیر قانونی تارکین وطن کو نکالنے کے وعدے پر مہم چلائی،ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ کو ہدایت کی کہ وہ “فوری طور پر” امریکہ میں آنے والی کولمبیا کی تمام اشیا پر 25 فیصد ٹیرف لگائے، جو ان کے بقول ایک ہفتے کے بعد بڑھ کر 50 فیصد ہو جائے گی۔ اس نے ویزا پابندیاں اور دیگر پابندیاں بھی لگائیں، جس میں بہت سے مبصرین کا خیال تھا کہ دوسرے ممالک کو تعاون کرنے یا سنگین نتائج کا سامنا کرنے کا پیغام بھیجنے کی کوشش تھی۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے پیر کے روز فاکس نیوز کو بتایا کہ “یہ کولمبیا کو یاد دلانے کے بارے میں تھا کہ اگر آپ اپنے معاہدوں کے خلاف جاتے ہیں تو اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، جن چیزوں کا آپ وعدہ کرتے ہیں”۔ بوگوٹا میں امریکی سفارت خانے نے پیر اور منگل کو سینکڑوں ویزا اپائنٹمنٹس منسوخ کر دیے،امریکی حکام نے پہلے کہا تھا کہ ویزا پابندیاں اس وقت تک نہیں ہٹائی جائیں گی جب تک کہ اتوار کو واپس بھیجے گئے تارکین وطن کولمبیا نہیں پہنچ جاتے۔ واضح رہے کہ گزشتہ دنوں تارکین وطن سے بھرا فوجی طیارہ امریکہ میکسیکو میں لینڈ کرانا چاہتا تھا لیکن میکسیکو کی طرف سے لینڈنگ کی اجازت نہ ملنے پر امریکہ طیارہ لینڈ کرانے میں نکام ہو، اس کے بعد امریکہ نے کولمبیا اور برازیل میں تارکین وطن کے لیے فوجی طیارے استعمال کیے جس پر کولمبیا اور برازیل کی طرف سے سخت رد عمل ملا اور کولمبیا نے جہاز کی لینڈنگ کے لیے اجازت نہ دی اور کولمبیا نے اپنے 2 طیاروں کو تارکین وطن کے لیے بھیجا۔ فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ آیا کولمبیا ملک بدر کیے گئے تارکین وطن کو اکٹھا کرنے کے لیے فضائیہ کے طیارے امریکہ بھیجنا جاری رکھے گا یا منگل کی دو پروازیں یک طرفہ تھیں۔ خیال رہے کہ 20 جنوری کو حلف برداری تقریب کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک سلسلہ وار ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے تھے ، جن میں ایک کا مقصد امریکی عوام کو غیر قانونی مداخلت سے تحفظ دیناتھا۔ اس آرڈر میں کہا گیا کہ پچھلے چار سالوں کے دوران امریکہ کو غیر قانونی تارکین وطن کے سیلاب کا سامنا کرنا پڑا جن میں سے لاکھوں افراد امریکی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سرحد پار کر کے یا تجارتی پروازوں کے ذریعے امریکہ میں داخل ہوئے۔