علی امین گنڈاپور کا استعفیٰ منظور، پی ٹی آئی خیبرپختوا کا آئندہ صدر کون ہو گا؟

پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے خیبر پختونخوا کے صدر علی امین گنڈا پور کو تبدیل کر کے جنید اکبر خان کو منتخب کر لیا گیا، بانی پی ٹی آئی عمران خان کی مشاورت سے علی امین گنڈا پور کا استعفیٰ قبول کیا گیا اور جنید اکبر خان کو خیبر پختونخوا کا صدر منتخب کیا گیا ہے۔ نجی ٹی وی ایکسپریس نیوز کے مطابق بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر گنڈا پور نے استعفیٰ جمع کرایا ،جسے عمران خان نے منظور کرلیا۔یہ اقدام گنڈا پور کی جگہ جنید اکبر خان کو خیبر پختونخواں کا صدر بنانے کے لیے کیا گیا ہے گنڈا پور کو ان کی قیادت کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ اہم سیاسی پیش رفت کے بعد ہے،اس تبدیلی کا اعلان پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل بیرسٹر سلمان اکرم راجہ نے کیا تھا اور اسے حکمراں مسلم لیگ ن کے اتحاد کے ساتھ جاری مذاکرات کے دوران پی ٹی آئی کی وسیع تر سیاسی حکمت عملی کے ایک حصے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے پی کے صدر کے طور پر جنید اکبر کی نامزدگی اس کے فوراً بعد ہوئی جب وہ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے بلامقابلہ چیئرمین منتخب ہوئے، اس عہدے کو پُر کرتے ہوئے جو فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد سے خالی تھا۔ عمران خان سے منسوب اُن کے ایکس کے اکاؤنٹ پر ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’علی امین گنڈاپور پر بطور وزیراعلیٰ گورننس کا بہت دباؤ ہے لہذا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جنید اکبر خان جو ہمارے دیرینہ ساتھی اور کارکن ہیں ان کو تحریک انصاف خیبرپختونخوا کا صدر منتخب کر دیا جائے اور تنظیمی امور ان کے حوالے کر دیے جائیں۔‘ اگرچہ پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجا کا بھی یہی اصرار ہے کہ ’بانی پی ٹی آئی نے علی امین گنڈا پور کی خواہش پر ہی ان سے پارٹی کی صوبائی صدارت واپس لی اور انھیں صوبے میں امن و امان اور گورننس کے معاملات پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے کہا ہے اگرچہ گنڈا پور کو ممکنہ طور پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے طور پر تبدیل کرنے کے حوالے سے افواہیں گردش کر رہی ہیں ، لیکن ابھی تک خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کے حوالے سے کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب سے ہری پور میں میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے صحافی نے سوال پوچھا کہ کیا خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے حوالے سے افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ گنڈا پور کو تبدیل کیا جا رہا ہے تو کیا یہ سچ ہے ؟ عمر ایوب نے تردید کی کہ پارٹی میں ایسی کوئی مشاورت نہیں کی گئی اور یہ سرا سر افواہ ہے۔ تا ہم پیر کو اڈیالا جیل میں وزیر اعلیٰ کے پی کے اور عمران خان کے درمیان ہونے والی ملاقات نے خاصی سیاسی توجہ چھیڑ دی ہے کہ گنڈا پور اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان کے پی کے کی سیاسی معاملات میں مزید تبدیلیاں دیکھنے کو ملے گی۔ نجی ٹی وی ایکسپریس کے مطابق دونوں رہنماؤں نے خیبرپختونخوا میں جاری ترقیاتی منصوبوں اور سیکیورٹی صورتحال سمیت مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا،ملاقات تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہی جس کے بعد گنڈا پور میڈیا سے خطاب کیے بغیر اسلام آباد روانہ ہوگئے۔ دونوں کے درمیان ہونے والی بات چیت نے خیبرپختونخوا کے سیاسی منظر نامے اور وسیع تر قومی تناظر دونوں پر ان کے ممکنہ اثرات کے بارے میں قیاس آرائیاں کی ہیں،چونکہ پی ٹی آئی پیچیدہ سیاسی حرکیات کو آگے بڑھا رہی ہے۔ خیبرپختونخوا میں قیادت کی تبدیلی ایک اہم پیشرفت کی نمائندگی کرتی ہے جو خطے میں پارٹی کی مستقبل کی حکمت عملی کو متاثر کر سکتی ہے۔
پناہ گزینوں کی کامیاب واپسی ، صیہونی منصوبوں کی ناکامی کی علامت قرار

حماس نے پناہ گزینوں کی کامیاب واپسی کو صیہونی منصوبوں کی ناکامی قرار دے دیا ہے، جس کے مطابق لاکھوں بے گھر فلسطینیوں کی شمالی غزہ میں واپسی اسرائیلی قابضین کی ناکامی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ یہ منظر فلسطینوں کی ثابت قدمی، عزم اور مزاحمت کا زندہ اور جرآت مندانہ پیغام ہے۔ 28جنوری 2025 کی صبح غزہ کی پٹی میں ایک ایسا منظر سامنے آیا جو تاریخ کے صفحات میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ وسطی اور جنوبی غزہ کے ہزاروں بے گھر فلسطینی جو گزشتہ 15 ماہ سے صیہونی جارحیت، نسل کشی اور جبری نقل مکانی کا شکار تھے۔ ایک نیا سفر شروع کرنے کے لیے شمالی غزہ کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ واپسی نہ صرف ان فلسطینیوں کے لیے ایک عظیم لمحہ تھی بلکہ یہ صیہونی قبضے کے خلاف فلسطینی عوام کی طاقت اور عزم کا منہ بولتا ثبوت بن گئی۔ اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے ایک بیان میں اس تاریخی اقدام پر زور دیا اور کہا کہ یہ واپسی فلسطینیوں کے اپنے وطن کی طرف واپسی کے عظیم خواب کی تکمیل کی علامت ہے۔ حماس نے اس موقع پر کہا کہ اس واپسی نے اسرائیلی قابض حکومت کے ان تمام منصوبوں کو ناکام بنا دیا ہے، جن کا مقصد غزہ کے عوام کو بے گھر کرنا اور ان کی طاقت کو کچلنا تھا۔ حماس نے مزید کہا کہ یہ منظر فلسطینیوں کی ثابت قدمی، عزم اور مزاحمت کا زندہ اور جرات مندانہ پیغام ہے۔ غزہ کے پناہ گزینوں کا شمال کی جانب پرجوش مارچ ان کے وطن واپس جانے کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ فلسطینی عوام کے لیے مزاحمت، صداقت اور آزادی کی جدو جہد کا سلسلہ کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتا۔ حماس کے مطابق لاکھوں بے گھر فلسطینیوں کی شمالی غزہ میں واپسی اسرائیلی قابضین کی ناکامی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ حماس نے یہ بھی کہا کہ یہ واقعہ فلسطینیوں کے عزم اور استقامت کی کامیابی ہے جو 77 سال سے صیہونی قوتوں کے ظلم و جبر کے باوجود جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس واپسی نے یہ ثابت کیا ہے کہ فلسطینیوں کے خواب کو مسمار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ان کی سرزمین سے مزاحمت کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس تاریخی واپسی نے اسرائیل کے انتہا پسند حکومتی منصوبوں کو چکنا چور کر دیا ہے جو غزہ کے عوام کو دہشت زدہ کرنے اور انہیں بے گھر کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ حماس کے مطابق یہ واقعہ فلسطینیوں کی فتح کی علامت ہے، جس سے یہ ثابت ہوا ہےکہ فلسطینیوں کے عزم کے سامنے کوئی بھی طاقت نہیں ٹھہر سکتی۔ حماس نے یہ بھی کہا کہ یہ واپسی فلسطینی عوام کی آزادی کی راہ میں ایک نیا سنگ میل ثابت ہو گی۔ اس نے قابضین کو ایک واضح پیغام دیا ہے کہ فلسطینی عوام اپنی سرزمین کو واپس لینے کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ حماس کے مطابق فلسطینی عوام کا یہ اعلان ہے کہ یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت بناتے ہوئے ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عملی طور پر ممکن ہے۔ یہ واپسی نہ صرف فلسطینی عوام کی کامیابی ہے، بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک طاقتور پیغام بھیجا گیا ہے کہ فلسطینی عوام کا عزم اور ارادہ کسی بھی صورت میں ٹوٹنے والا نہیں ہے۔ غزہ کے اس عظیم اقدام نے دنیا کو ایک بار پھر یاد دلادیا ہےکہ فلسطین کا مسئلہ صرف ایک سرزمین کا نہیں، بلکہ ایک حق، آزادی اور عزت کا سوال ہے۔ یاد رہے کہ 7 اکتوبر کو حماس اور دیگر تنظیموں نے سرحد پار اسرائیل پر حملہ کردیا، جس سے 1139 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوگئے۔ دوسری طرف اسرائیلی فوج کی جانب سے 405 فوجیوں کی ہلاکت کا اعتراف کیا گیا ہے، جب کہ مجموعی طور پر تقریباً 1940 اسرائیلی فوج نسل کشی کی اس جنگ میں ہلاک ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے فلسطین پر جارحیت کی انتہا کردی، اسرائیل اور فلسطین کے درمیان اکتوبر 2023 سےشروع ہونے والی اس جنگ میں 46707 سے زائد فلسطینی جاں بحق جب کہ 1 لاکھ 10 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں، جن میں کثیر تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔ واضح رہے کہ 16 جنوری کو قطر، امریکا اور مصر کی ثالثی میں حماس اسرائیل جنگ بندی معاہدے کا اعلان کیا گیا تھا، جس میں کہا گیا کہ جنگ بندی کا نفاذ 19 جنوری سے ہوگا۔ جنگ بندی معاہدےکے پہلے مرحلے میں حماس کی جانب سے 3 اسرائیلی خواتین کو رہا کیا گیا، جس کے بدلے میں اسرائیل نے 90 فلسطینیوں کو رہا کیا۔ دوسری جانب جنگ بندی معاہدے کے باوجود اسرائیلی فورسز کی جنوبی غزہ اور فلسطین کے دیگر مقبوضہ علاقوں میں فوجی کارروائیاں جاری ہیں اور جنگ بندی شروع ہونے کے بعد اب تک ایک درجن کے قریب فلسطینیوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔
وزارت مذہبی امور کا اعلان:اس سال طویل اور مختصر حج پر کتنا خرچ آئے گا؟

2025 میں طویل اور مختصر حج پیکج کے لیے قیمتیں مقرر کر لی گئی ، سرکاری حج سکیم میں محدود نشستیں باقی، جس کے لیےحجاج مزید نئی درخواستیں 30 جنوری تک جمع کرا سکتے ہیں۔ وزارت مذہبی امور کے مطابق طویل حج پیکج کی حتمی قیمت 10 لاکھ 75 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے جبکہ مختصر حج پیکج کی قیمت 11 لاکھ 50 ہزار روپے ہوگی۔حج واجبات کی تیسری قسط یکم سے 10 فروری تک وصول کی جائے گی۔ ترجمان نے مزید کہا کہ سرکاری حج سکیم میں محدود نشستیں باقی ہیں اور نئی درخواستیں 30 جنوری تک پہلے آئے پہلے پائے کی بنیاد پر قبول کی جائیں گی۔مختصر حج پیکج کے لیے بکنگ مکمل ہو چکی ہے، اور توسیعی حج پیکج کی بکنگ صرف دستیاب نشستوں کے لیے قبول کی جائے گی۔ پرائیویٹ عازمین حج 31 جنوری تک بکنگ کا عمل جاری رکھ سکتے ہیں۔ اس سے قبل، حکومت نے 2025 میں حج کے لیے جانے والے عازمین کے لیے بہتر تعاون اور سہولت کو یقینی بنانے کے لیے ایک نئی پالیسی” گھر سے گھر تک” متعارف کروائی تھی،اس اقدام کا مقصد حج کے مجموعی تجربے کو بہتر بنانا ہے، حجاج کرام کو پاکستان میں روانگی سے لے کر واپسی تک ایک جامع سروس فراہم کرے گا۔ پالیسی کے تحت، آفیشل گائیڈز، جنہیں ناظمین کہا جاتا ہے، حجاج کرام کے سفر کے دوران ان کی مدد کے لیے مقرر کیےجائیں گے۔ کل 600 ناظمین کو نامزد کیا جائے گا، ہر 150 عازمین کے لیے ایک گائیڈ مقرر ہوگا۔یہ گائیڈز پاکستان سے سعودی عرب اور واپس جانے والے عازمین کے ساتھ ہوں گے، سفر میں تشریف لانے اور مناسک حج کی ادائیگی میں اہم مدد فراہم کریں گے۔ ناظمین عازمین حج کی رہنمائی کے علاوہ سعودی عرب میں رہائش کے انتظامات میں سہولت فراہم کریں گے اور مناسک حج کے دوران تعاون کی پیشکش کریں گے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے 2025 میں حج کے لیے 20 جنوری کو اجلاس بلایا تھا جس میں حج کے لیے وزیراعظم کی طرف سے خصوصی تیاریوں کے لیے ہدایات جاری کی گئی، انھوں ہدایات جاری کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ عازمین کی خدمت میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ وزیراعظم نے حج 2025 کی تیاریوں کے حوالے سے جائزہ اجلاس کی صدارت کی۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ حجاج کرام اللہ کے مہمان ہیں اور ان کے آرام کو یقینی بنانا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔حکام نے وزیر اعظم کو بتایا کہ پچھلے سال کی طرح پاکستان سے عازمین کو سم کارڈ فراہم کیے جائیں گے اور حج موبائل ایپلی کیشن ان کی حج کے دوران ان کی مدد کے لیے کام کرتی رہے گی۔ واضح رہے کہ 11 نومبر 2024ء کو وفاقی وزیر مذہبی امور چوہدری سالک حسین نے حج پالیسی 2025 کا اعلان کرنے کے لیے پریس کانفرنس کی تھی جس میں انھوں نے حج کی پالیسی بیان کی جس کےتحت ایک لاکھ 79 ہزار 210 پاکستانی حج کی سعادت حاصل کر سکیں گے جب کہ سرکاری حج اسکیم کے لیے روایتی لانگ پیکج 38 تا 42 دن اور شارٹ پیکیج 20 تا 25 دن پر محیط ہو گا۔ یاد رہے کہ سرکاری حج اسکیم کے تحت 18 نومبر سے 3 دسمبر تک حج درخواستیں وصولی کی گئی اور6 دسمبر کو قرعہ اندازی کی گئی تھی۔
“اگلی سیریز میں شان مسعود کپتان نہیں ہوں گے” سینئیر صحافی نے دعویٰ کر دیا

اگلی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا آغاز تقریباً آٹھ سے نو ماہ بعد ہوگا۔ اس چیمپئن شپ میں جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم گراؤنڈ پر پاکستان کرکٹ ٹیم ابتدائی سیریز کا سامنا کرے گی۔ یہ سیریز قومی کرکٹ ٹیم کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہو گی کیونکہ چیمپئن شپ کا آغاز اس سے ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی اسی سیریز سے پاکستانی کرکٹ کے مستقبل کا راستہ بھی متعین ہوگا، مگر دوسری جانب اس چیمپئن شپ میں قومی ٹیم کی کپتانی کو لے کرکپتان شان مسعود کی قیادت پر سوالات اُٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔ حال ہی میں اسپورٹس جرنلسٹ وحید خان نے نجی ٹی وی پر اپنے تجزیے میں شان مسعود کی کپتانی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ ممکنہ طور پر وہ اگلے دور میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان نہیں ہوں گے۔ سینیئر صحافی کا کہنا تھا کہ شان مسعود کی کپتانی میں کئی خامیاں اور فیصلوں میں غیر یقینی صورتحال دکھائی دی ہے، جن کی وجہ سے ان کی قیادت پر سوالات اٹھتے ہیں۔ وحید خان نے اپنے تجزیے میں فیلڈ سیٹنگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شان مسعود نے اس معاملے میں عدم اختیار کا مظاہرہ کیا اور کھلاڑیوں کو اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے کی آزادی دی۔ ان کا کہنا تھا کہ جس کا دل کرتا تھا وہ اپنی مرضی سے فیلڈ سیٹنگ کر رہا تھا، ایسا لگتا تھا کہ شان مسعود کی اتھارٹی نہیں ہے اور کھلاڑیوں پر ان کا کنٹرول نہیں تھا۔ یہ ایک واضح اشارہ تھا کہ کپتان کے فیصلوں میں سختی اور وضاحت کی کمی ہے۔ اسی طرح ریویو لینے کے فیصلوں کے حوالے سے بھی اسپورٹس جرنلسٹ نےشان مسعود کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے واضح کیا کہ بعض اوقات شان مسعود کے فیصلے اس بات کا تاثر دیتے تھے کہ وہ صحیح فیصلے کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے آسٹریلیا کے کپتان پیٹ کمنز کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ کمنز نے ہمیشہ ریویو لینے میں بروقت اور مستحکم فیصلے کیے ہیں۔ وحید خان نے سوال کیا کہ کیا شان مسعود اس طرح کی مؤثر فیصلہ سازی کر سکتے ہیں؟ اس کے علاوہ شان مسعود کا قیادت میں کنٹرول کہاں ہے اور کیا وہ اس ذمہ داری کو بخوبی نبھا پائیں گے؟ وحید خان نے اپنے تجزیے میں مزید کہا کہ شان مسعود کے سابقہ میچوں میں کیے گئے کچھ فیصلے اس بات کا مظہر تھے کہ ان کی کپتانی میں پاکستان کی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے۔ انہوں نے اپنی گفتگو کے دوران اس بات پر زور دیا کہ اس صورتحال میں محمد رضوان کی قیادت ممکنہ طور پر پاکستان کے لیے بہتر ثابت ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر شان مسعود کی قیادت میں پاکستان کی پرفارمنس میں بہتری نہیں آتی تو پھر محمد رضوان کی قیادت کی طرف جانا ایک منطقی فیصلہ ہو گا۔ واضح رہے کہ محمد رضوان ایک تجربہ کار اور محنتی کھلاڑی ہیں، ان کی قائدانہ صلاحیتوں کو بہت سراہا گیا ہے۔ ان کی پرفارمنس اور لیڈرشپ کی مہارت کو دیکھتے ہوئے یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ اگلی سیریز میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان کے طور پر سامنے آئیں گے اور ٹیم کی کارکردگی میں بہتری لائیں گے۔ اس وقت محمد رضوان ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی میں قومی ٹیم کی رہنمائی کررہے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے یہ لمحہ فیصلہ کن ہوگا، کیونکہ اگلی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ میں شمولیت کے لیے ٹیم کو مضبوط قیادت اور پرفارمنس کی ضرورت ہے۔ اگر محمد رضوان کو قیادت سونپی جاتی ہے تو ان کی موجودگی پاکستانی ٹیم کی پرفارمنس میں ایک نئی روح پھونک سکتی ہے اور یہ سیریز ان کے کیریئر کا ایک سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ 2023 سے 2025 کے ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے دوران گرین شرٹس نے 14 میچز میں سے صرف 5 میچز جیتے جبکہ باقی میچز میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ 2015 سے 2025 تک پاکستان کا ریکارڈ مسلسل ناقص رہا ہے۔ 2015 کے بعد سے اب تک قومی ٹیم نے 40 فیصد ٹیسٹ میچز جیتےہیں۔ قومی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان شان مسعود نے اب تک 12 ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی قیادت کی ہے،جس میں قومی ٹیم کو 9 ٹیسٹ میچز میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا، جب کہ تین ٹیسٹ سیریز میں پاکستان کو کلین سویپ کی رسوائی برداشت کرنا پڑی۔ اس کے علاوہ ستمبر 2024کو شان مسعود کی کپتانی میں پاکستانی کو تاریخ میں پہلی بار بنگلہ دیش سے ہوم سیریز میں 2 ٹیسٹ میچز کی سیریز میں وائٹ واش کی خفت برداشت کرنا پڑی۔ اس سیریز میں بنگلہ دیش نے ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی بار پاکستان کو 2 میچوں کی سیریز میں کلین سوئپ کر کے تاریخ رقم کی۔ موجودہ وقت میں پاکستان کرکٹ کا مستقبل ایک نیا رخ اختیار کرتا دکھائی دے رہا ہے، جہاں قیادت کی تبدیلی اور اس کے اثرات پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والی ٹیسٹ چیمپئن شپ کے لیے کیا پی سی بی نئے کپتان کا انتخاب کرتی ہے جو ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی تقدیر بدلتا ہے یا پھر شان مسعود کی صلاحیتوں میں نکھار لاکر اسے ایک اور موقع دیا جاتا ہے۔
فلمی نغموں سے حمدونعت کا سفر، روحانی سکینت بخشتی شاعری نے مظفر وارثی کو امر کر دیا

آج اُردو ادب اور اسلامی شاعری کے عظیم شاعر، نغمہ نگار اور نعت خواں مظفر وارثی کی چودہویں برسی منائی جارہی ہے۔ 28 جنوری 2011 کو لاہور میں وفات پانے والے مظفر وارثی کا نام صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ ان کی شاعری کی گونج آج بھی دلوں میں زندہ ہے اور ان کا کلام اردو ادب اور اسلامی شاعری کے خزانے کا ایک انمول حصہ ہے۔ مظفر وارثی 1933 میں بھارت کے شہر میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ ان کا ادبی سفر ابتدا میں فلمی نغمہ نگاری کے ذریعے شروع ہوا، جہاں انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ تاہم، بہت جلد ان کی طبیعت میں ایک گہری روحانیت اور دینی لگاؤ پیدا ہوا، جس کے باعث انہوں نے نعت و حمد کے میدان میں قدم رکھا۔ ان کی شاعری کا رنگ اور اثر الگ تھا، اور یہی وہ وقت تھا جب مظفر وارثی نے اپنا نام عالمی سطح پر روشن کیا۔ مظفر وارثی کی شاعری نے انہیں ایک خاص مقام دلایا۔ ان کی نعتیں اور حمدیہ اشعار ایمان کی گہرائیوں تک پہنچتے ہیں اور ان کی زبان میں ایک ایسی تاثیر تھی کہ ان کا کلام سنتے ہی دل میں سکون اور محبت کا ایک لہر دوڑ جاتی تھی۔ ان کی ایک مشہور نعت “یہ روشنی جہاں سے آئی ہے” آج بھی لوگوں کے دلوں میں گونج رہی ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کے دلوں میں حضرت محمد ﷺ سے محبت کی ایک لہر پیدا کی اور ان کی حمد اور نعتوں میں اللہ کی عظمت کو بے مثال انداز میں بیان کیا۔ ان کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے سادگی کے ساتھ گہری روحانیت کو پیش کیا، جو ہر کسی کو اپنی طرف کھینچ لیتی تھی۔ مظفر وارثی کی شاعری کی کامیابیاں اور پذیرائیاں صرف پاکستان تک محدود نہیں رہیں۔ انہوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے عالمی سطح پر بھی شہرت حاصل کی۔ ان کی نعتوں اور حمد کو مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ اور ان کے کلام نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں لاکھوں دلوں کو چھوا۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں “پرائیڈ آف پرفارمنس” ایوارڈ سے نوازا، جو ملک کے اعلیٰ ترین ادبی اعزازات میں شمار ہوتا ہے۔ 28 جنوری 2011 کو مظفر وارثی کا انتقال ہو گیا، لیکن ان کی شاعری کا اثر آج بھی زندہ ہے۔ ان کے کلام کی محبت میں کمی نہیں آئی، بلکہ ہر گزرتے سال کے ساتھ ان کی شاعری کی اہمیت اور گہرائی کو مزید سراہا گیا ہے۔ آج بھی مختلف محافل اور محافلِ نعت میں ان کے کلام کو پیش کیا جاتا ہے، اور ان کی آواز کا اثر آج بھی لوگوں کے دلوں میں محسوس ہوتا ہے۔ ان کی شاعری نہ صرف اُردو ادب کا خزانہ ہے بلکہ اسلامی شاعری کے لیے بھی ایک نیا سنگ میل ثابت ہوئی۔ ان کا کلام انسانیت کی خدمت اور محبت کا پیغام ہے، جو کسی بھی زبان یا سرحد سے آزاد ہے۔ آج، مظفر وارثی کی چودہویں برسی کے موقع پر ادبی حلقوں، شاعروں اور علمی تنظیموں نے انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ مختلف شہروں میں ان کی شاعری کی محافل منعقد کی گئیں اور ان کی نعتوں کو سن کر لوگوں نے اپنے دلوں کو سکون بخشا۔ اس دن کی اہمیت اس بات میں بھی ہے کہ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ شاعری صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک زبان ہے جو دلوں کی گہرائیوں میں اثر ڈالتی ہے۔ مظفر وارثی کی چودہویں برسی پر ان کی شاعری اور نعتوں کی اہمیت کا اعتراف کیا گیا ہے۔ ان کا کلام آج بھی دنیا بھر میں لوگوں کے دلوں میں بسا ہوا ہے۔ ان کی شاعری نے نہ صرف اردو ادب کو مالا مال کیا بلکہ اسلامی شاعری کے دائرے میں بھی ایک نیا باب رقم کیا۔ مظفر وارثی کی تخلیقات کی گونج ہمیشہ سنائی دیتی رہے گی، اور ان کا کلام آنے والی نسلوں کو محبت، عقیدت اور روحانیت کا پیغام دیتا رہے گا۔
حکومت کی ’مذاکرات‘ بچانے کی کوشش

پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی پارٹی نے حکومت کے ساتھ مذاکرات سے ختم کردیے ہیں جبکہ حکومت کے کچھ لوگ ان کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں، مذاکرات کا مقصد گزشتہ تین سالوں سے ملک کے سیاسی منظر نامے پر چھائی ہوئی کشیدگی کو کم کرنا ہے۔ مذاکرات کے تین دور ہوئے مگر عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے حکومت پر یہ ذمہ داری ڈالی تھی کہ وہ اپنے چارٹر آف ڈیمانڈز پر غور کرے، جو اس نے 16 جنوری کو آخری مذاکرات کے دوران پیش کیے تھے۔ تاہم، ایک ہفتے بعد جمعرات کو پی ٹی آئی چیئرمین گوہر علی خان نے اعلان کیا کہ پارٹی اگست 2023 سے قید عمران خان کی ہدایات کے بعد مذاکرات سے دستبردار ہو جائے گی۔ اسپیکر قومی اسمبلی اور عمران خان کے دوست سمجھے جانے والے سردار ایاز صادق نے ایک بارپھر’مذاکرات‘ بچانے کی کوشش کی ہے، انہوں نے سابق اسپیکر اور پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر سے ٹیلی فون پر بات بھی کی ہے۔ اسد قیصر نے بات تو سنی ہے مگر مذاکرات میں واپس آنے کی کوئی ٹھوس یقین دہانی نہیں کرائی ہے۔ ادھر مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اگرآج میٹنگ کا حصہ نہیں بنتی تو اسپیکر کمیٹی کو تحلیل کردیں گے، پی ٹی آئی والے جو کچھ باہر کریں گے اس کا جواب حکومت دے گی۔ ساری صورتحال میں ایک سوال جنم لے رہا کہ اگر یہ ’مذاکرات‘ کا کھیل دوبارہ شروع نہیں ہوتا اور اس سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تو کیا ہوگا؟ تین سال قبل اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے، پی ٹی آئی نے اکثر احتجاجی مارچوں کا اہتمام کیا ہے، جو اکثر سڑکوں کی بندش اور انٹرنیٹ بلیک آؤٹ سے ملک کو مفلوج کر دیتے ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما بخاری نے اشارہ دیا ہے کہ پارٹی سڑکوں پر واپس آسکتی ہے۔ انہوں نے کہا، “ہمارے حامی عمران کے لیے باہر آنے کو تیار ہیں، یہاں تک کہ ذاتی خطرے کے باوجود بھی ،” انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے موجودہ “گھٹن” کے ماحول کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد میں مقیم تجزیہ کار شیرازی نے ’الجزیرہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ پی ٹی آئی دوبارہ ایجی ٹیشن کی طرف لوٹے گی۔ آخری بار پی ٹی آئی نے نومبر میں اسلام آباد کو محاصرے میں لیا، حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ اب چیمپیئنز ٹرافی اگلے ماہ شیڈول ہے، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی اسے ایک بار پھر افراتفری کے لیے استعمال کرے گی؟ پی ٹی آئی نے گزشتہ سال اکتوبر میں اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی تاریخوں کے دوران، اسلام آباد میں احتجاج کی کال بھی دی تھی۔ تاہم تقریب سے ایک روز قبل پی ٹی آئی نے اپنی کال واپس لینے کا فیصلہ کیا۔
ویتنام میں نئی ٹریفک قوانین پر ہلچل، سڑکوں پر افراتفری

ویتنام کی حکومت نے ایک نیا قانون نافذ کیا ہے جس کے تحت ٹریفک کی خلاف ورزیوں پر بھاری جرمانے عائد کیے جا رہے ہیں، اور ان خلاف ورزیوں کی اطلاع دینے والوں کو انعامات دیے جا رہے ہیں۔ اس نئے قانون کے تحت، ہو ‘چی منہ’ شہر میں ٹکٹ کی آمدنی میں 35 فیصد کا زبردست اضافہ ہوا ہے، لیکن اس کا اثر عوام کی جیبوں پر پڑ رہا ہے۔ دا نیویارک ٹائیمز کے مطابق ہنوئی شہر کے ایک موٹر بائیک ٹیکسی ڈرائیور، دِھنھ نگوک کوانگ نے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “پولیس کا مقصد صرف پیسے نکالنا ہے۔” اس شخص کا کہنا تھا کہ ان نئے جرمانوں نے غریب طبقے کی زندگی کو مزید مشکل بنا دیا ہے، جو پہلے ہی روزانہ کی محنت سے زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال صرف غریبوں کے لیے نہیں بلکہ پورے ٹریفک نظام کے لیے ایک چیلنج بن چکی ہے۔ کچھ ڈرائیورز نے ان قوانین کو ظالمانہ اور استحصال کرنے والا قرار دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ بھاری جرمانے اور اضافی احتیاطی تدابیر نے ان کی روزمرہ کی آمدنی میں کمی کر دی ہے۔ گاڑیاں اور ٹرک اب گھنٹوں تک پھنسے رہتے ہیں، اور اس سے نہ صرف ان کی کمائی متاثر ہو رہی ہے بلکہ عوام کی روزمرہ زندگی بھی پریشان ہو گئی ہے۔ آج کل سوشل میڈیا پر یہ موضوع بہت گرم ہے اور یہاں تک کہ ایمبولنسوں کو بھی ٹریفک جام میں پھنس جانے کی شکایات آ رہی ہیں۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ ان قوانین کا مقصد صرف ٹریفک کی سلامتی کو بہتر بنانا ہے۔ اور ایسا کچھ حد تک دکھائی بھی دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ شراب نوشی کے زیر اثر گاڑی چلانے والے حادثات میں 25 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے، جو کہ ایک مثبت اشارہ ہے۔ حکام نے ہنوئی میں 20,000 سے زائد کیمرے نصب کر رکھے ہیں اور اس تعداد کو مزید 40,000 تک بڑھانے کا منصوبہ ہے تاکہ ٹریفک کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کی جا سکے۔ لیکن یہ تمام تبدیلیاں نہ صرف ایک طرفہ ہیں۔ حکومت نے کچھ جگہوں پر عملی طور پر لچک دکھائی ہے، جیسے کہ ہو چی منہ شہر میں 50 اہم مقامات پر موٹر بائیکس کو سرخ لائٹ پر دائیں مڑنے کی اجازت دے دی گئی ہے، اور ہنوئی میں بھی کچھ ٹریفک لائٹس میں تبدیلی کی گئی ہے۔ یہ فیصلے حکومت کی جانب سے عوامی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے گئے ہیں۔ اس وقت ویٹنام کی سڑکوں پر ایک پیچیدہ توازن کا کھیل جاری ہے۔ جہاں ایک طرف سڑکوں پر ٹریفک کا بہاؤ تھما ہوا ہے، وہیں دوسری طرف عوام کی ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ نئی ٹریفک قوانین سڑکوں پر مکمل نظم لا پائیں گے؟ یا یہ ویتنام کی سڑکوں پر مزاحمت کا نیا دور شروع ہو گا؟
آپ کی تصویر کون کون دیکھے گا؟ واٹس ایپ نے نیا فیچر متعارف کروا دیا

واٹس ایپ نے صارفین کے لیے نئی پالیسی متعارف کروا دی۔ پالیسی کے مطابق صارفین کی پروفائل فوٹو سب کو نظر آئے گی جب تک صارفین خود اپنے اکاونٹ کی سیٹنگز نہیں کریں گے۔ نئی پالیسی کے مطابق جب بھی کوئی نیا یوزر واٹس ایپ ڈاؤن لوڈ کرے گا تو پہلے سے طے شدہ قوانین کے مطابق اس کی پروفائل تصویر سب لوگوں کو نظر آئے گی۔ اگر وہ چاہتا ہے کہ اس کی تصویر کسی کو نظر نہ آئے تو وہ واٹس ایپ کی سیٹنگز میں جا کر تبدیلی کر سکتا ہے۔ اگر صارف چاہتا ہے کہ اس کی تصویر تمام لوگ دیکھیں تو وہ سیٹنگز میں موجود آپشن “ایوری ون” پہ کلک کر سکتا ہے۔ جب کہ اگر وہ صرف ان لوگوں کو تصویر دکھانا چاہتا ہے جو اس کی کانٹیکٹ لسٹ میں ہوں تو اسے “کانٹیکٹس” کے آپشن پر کلک کرنا پڑے گا۔ اسی طرح اگر وہ کسی کو بھی پروفائل فوٹو نہیں دکھانا چاہتا ہے تو “نو باڈی” پہ کلک کرے گا۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ واٹس ایپ پیغام رسانی اور لوگوں سے رابطے میں رہنے کے لیے سب سے زیادہ مشہور ہے۔ آسانی اور یوزر فرینڈلی انٹرفیس کی وجہ سے پوری دنیا میں لوگ اسے استعمال کرتے ہیں۔ بیک لنکو کی رپورٹ کے مطابق 2024 میں واٹس ایپ 113 ملین ڈاؤن لوڈز کے ساتھ دنیا کی چوتھی سب سے زیادہ چلنے والی ایپ ہے۔ واٹس ایپ پر صارفین میسج، آڈیو کال اور ویڈیو کال بھی آسانی سے کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سٹیٹس ، واٹس ایپ گروپس اور واٹس ایپ کمیونٹی جیسے فیچرز اس کے استعمال کرنے والوں کے لیے دلچسبی کا باعث ہیں۔ واٹس ایپ نے تمام صارفین کو ایک میسج ،جس میں ایک ویڈیو بھی شامل تھی، بھیجا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ” آپ یہ کنٹرول کر سکتے ہیں کہ کون آپ کی پروفائل فوٹو دیکھ رہا ہے”
ٹرمپ نے امریکی فوجی پالیسیوں کو نئی شکل دینے کے انتظامی احکامات پر دستخط کر دیے ہیں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حکومت کی پالیسیوں میں تبدیلی کی طرف قدم بڑھایا ہے، ایئر فورس ون پر فلوریڈا سے واپس آتے ہوئے ٹرمپ نے فوجی پالیسیوں میں اہم تبدیلیوں کے لیے کئی انتظامی احکامات پر دستخط کیے ہیں جو سابقہ حکومت کے اقدامات سے یکسر مختلف ہیں۔ ان تبدیلیوں نے نہ صرف امریکا بلکہ عالمی سطح پر ایک نیا بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ ٹرمپ کے نئے احکامات میں سب سے متنازعہ اور اہم فیصلہ امریکی فوج میں خواجہ سراؤں کے خدمات انجام دینے پر سخت پابندیاں لگانا ہے۔ یہ فیصلہ فوج میں جسمانی اور ذہنی تیاری کو پہلی ترجیح دینے کے مقصد سے کیا گیا ہے۔ دوسری جانب انسانی حقوق کے گروہ اس پر شدید اعتراض کر رہے ہیں اور اسے امتیازی سلوک کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے فوجی ہم آہنگی اور شمولیت میں کمی آئے گی مگر ٹرمپ کا موقف ہے کہ یہ قدم فوجی طاقت اور نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ٹرمپ نے دفاعی محکمہ میں تنوع، مساوات اور شمولیت (ڈی ای آئی) پروگراموں کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ فیصلہ فوج میں میرٹ کی بنیاد پر بھرتی اور ترقیوں پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ حالیہ برسوں میں ان پروگراموں کے ذریعے امریکا کی فوج میں مختلف قومیتوں اور پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ٹرمپ کی نظر میں یہ اقدامات فوج کی کارکردگی اور ہم آہنگی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے۔ صدر ٹرمپ نے ایک اور متنازعہ فیصلہ بھی کیا ہے جس میں وہ فوجی جو کووڈ-19 کی ویکسین لینے سے انکار کر چکے تھے اور فارغ کر دیے گئے تھے، انہیں واپس بحال کرنے کا حکم دے چکے ہیں۔ امریکی صدر کے مطابق ان فوجیوں کو پچھلے عرصے کی تنخواہ کے ساتھ دوبارہ فوج میں شامل کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ فوج میں ان افراد کی واپسی کے لیے ہے جنہیں ویکسین کے معاملے میں اختلافات کی وجہ سے نکال دیا گیا تھا۔ ٹرمپ نے اسرائیل کے دفاعی سسٹم ‘آئرن ڈوم’ کی طرز پر امریکا میں ایک جدید فضائی دفاعی نظام کی تیز ترقی کا حکم دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس نظام کا مقصد داخلی سلامتی کو مزید مضبوط بنانا اور فضائی خطرات سے بچاؤ کو یقینی بنانا ہے، جبکہ دفاعی ماہرین اس فیصلے پر گرما گرم بحث کر رہے ہیں اور اس نظام کی ممکنہ تطبیق پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ دوسری جانب نئے وزیر دفاع پیٹ ہیگزیتھ نے حلف لینے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا کہ ان کا مقصد فوج میں ‘روایتی اقدار’ کو دوبارہ زندہ کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ فوج میں نظم و ضبط، تیاری اور امریکی اقدار کو بحال کرنے کے لیے مزید اقدامات کریں گے، جن میں ٹرانس جینڈر سروس پر پابندی اور فٹنس کے معیار کو یقینی بنانا شامل ہے۔ ان تبدیلیوں کے بعد امریکا میں شہری حقوق کے گروہ ان فیصلوں کو عدالت میں چیلنج کرنے کی تیاری کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات فوجی ہم آہنگی اور اتحاد کو نقصان پہنچائیں گے۔ دفاعی ماہرین، سیاسی تجزیہ کار اور عوامی سطح پر اس تبدیلی کو لے کر مختلف آراء سامنے آرہی ہیں ان کے مطابق ٹرمپ کے یہ فیصلے صرف امریکا تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ عالمی سطح پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا جائے گا۔
مکہ اور مدینہ میں غیرملکیوں کو سرمایہ کاری کی اجازت، کس شعبے میں انویسٹمنٹ کی جاسکتی ہے؟

مکہ اور مدینہ کو مسلمانوں کا مقدس شہر سمجھا جاتا ہے،یہاں صرف مسلمانوں کو ہی جانے کی اجازت ہے مگر اب سعودی عرب نےغیر ملکیوں کو یہاں سرمایہ کاری کی اجازت دے دی ہے۔ یہ فیصلہ سعودی عرب کی اقتصادی حکمت عملی کے تحت ملک کے ترقیاتی منصوبوں کو تیز کرنے اور معیشت میں تنوع لانے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ اس اقدام سے سعودی عرب کی کیپٹل مارکیٹ کی عالمی سطح پر مسابقت میں اضافہ ہوگا اور رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں نئی امیدیں پیدا ہوں گی۔ عرب میڈیا کے مطابق سعودی عرب کی کیپٹل مارکیٹ اتھارٹی (CMA) نے اس اہم فیصلے کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار اب سعودی کی لسٹڈ کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرسکیں گے، جو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی حدود میں جائیدادوں کی مالک ہیں۔ اس سرمایہ کاری کی نوعیت محدود ہوگی۔ یہ فیصلہ سعودی عرب کے 2030 وژن کا حصہ ہے، جس کا مقصد غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینا اور رئیل اسٹیٹ کے شعبے کو مزید مستحکم کرنا ہے۔ سعودی عرب کے لیے یہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ ملک عالمی سطح پر اپنی معیشت کو تنوع دینے اور ترقیاتی منصوبوں کو تیز کرنے کے لیے مختلف اقدامات کر رہا ہے۔ اتھارٹی کے مطابق غیر ملکی افراد اور اداروں کی ملکیت مجموعی طور پر کمپنی کے شیئرز کا 49 فیصد سے زیادہ نہیں ہوگا ۔ سعودی عرب کی اقتصادی حکمت عملی میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی ترقی کو ایک اہم حیثیت حاصل ہے۔ ان مقدس شہروں کی تعمیر و ترقی کے منصوبے سعودی عرب کی مجموعی ترقی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، اور اس فیصلے سے ان شہروں میں رئیل اسٹیٹ کی ترقی کو مزید رفتار ملے گی۔ سعودی عرب میں رئیل اسٹیٹ کا شعبہ پہلے ہی تیز رفتار ترقی کر رہا ہے، اور یہ فیصلہ اس میں مزید تیزی لائے گا۔ اس میں سب سے اہم منصوبہ “مسار” ہے، جسے سعودی عرب کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (PIF) کی مدد سے شروع کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت مکہ مکرمہ میں 40,000 نئے ہوٹلز رومز بنائے جائیں گے، جس سے یہاں آنے والے زائرین کی تعداد 30 ملین تک پہنچانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت سے سعودی عرب کی معیشت کو کئی فوائد حاصل ہوں گے۔ سعودی عرب کا یہ فیصلہ نہ صرف ملک کی اقتصادی حکمت عملی کا حصہ ہے بلکہ عالمی سطح پر سرمایہ کاری کے امکانات کو بڑھانے کا ایک اہم قدم ہے۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت سے سعودی عرب کی ترقیاتی منصوبوں کو مزید تقویت ملے گی۔