ایڈنبرا میں راتوں کو قیام کرنے والے سیاحوں پر ٹیکس: ایسا کیوں ہوگا؟

Uk tourism

ایڈنبرا کے مقامی سیاست دانوں نے سکاٹ لینڈ کے دارالحکومت میں راتوں کو قیام کرنے والے سیاحوں کے لیے سیاحتی ٹیکس کی منظوری دی ہے، جس سے برطانیہ میں اپنی نوعیت کا پہلا چارج متعارف کرایا گیا ہے۔ 2026 کے وسط سے، کسٹمائیڈ رہائش، بہترین ناشتہ اور کھانے، ہاسٹل، سیلف کیٹرنگ اپارٹمنٹ یا گیسٹ ہاؤس میں قیام کرنے والے سیاح سے فی رات ان کی رہائش کی قیمت کا 5% فیس وصول کی جائے گی۔ مقامی اتھارٹی کے مطابق، یہ چارج لگاتار پانچ راتوں تک محدود ہے۔ رہائش فراہم کرنے والے اتھارٹی کی جانب سے فیس جمع کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔ ووٹنگ سے پہلے، سٹی آف ایڈنبرا کونسل کے سربراہ جین میگھر نے کونسلرز کو بتایا کہ سیاحت “شہر کے وسائل پر دباؤ ڈالتی ہے” جسے “منصوبہ بند اور پائیدار طریقے سے” ترقی کے لیے فنڈز کی ضرورت ہے۔ قومی سیاحتی ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق 2023 میں 5 ملین سیاح ایڈبرا آئے جنہوں نے £2.2 بلین ($2.7 بلین) خرچ کیے۔ کونسل کو توقع ہے کہ نئی فیس 2028 یا 2029 تک ایک سال میں ($56-62 ملین) بڑھے گی۔ ایڈنبرا میں سیاحتی ٹیکس 2018 سے زیر بحث ہے اور یہ اس وقت لاگو ہوا جب جولائی میں وزیٹر لیوی (اسکاٹ لینڈ) ایکٹ نافذ ہوا۔ سٹی آف ایڈنبرا کونسل کی ویب سائٹ کے مطابق، ایکٹ کے تحت، لیوی سے حاصل ہونے والی آمدنی کو مقامی سہولیات اور خدمات کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے جنہیں کاروباری اور تفریحی مہمان بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ کچھ کونسلروں نے ووٹنگ سے پہلے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ چارج زیادہ ہونا چاہیے، اس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہ لیوی سے حاصل ہونے والی آمدنی رہائشیوں کو سستی رہائش فراہم کرنے پر خرچ کی جائے، اور کہا جاتا ہے کہ فی الحال سیاحت میں کام کرنے والے بہت سے لوگوں کے لیے رہائش بہت مہنگی ہے۔ اگست میں وزیٹر لیوی کے مسودے کی نقاب کشائی کے بعد مقامی رہائشیوں اور کاروباری اداروں سے مشورہ کیا گیا۔ مقامی اتھارٹی کے نوٹس کے مطابق، اگرچہ نصف سے زیادہ رہائشیوں اور کاروباروں نے 5% چارج سے اتفاق کیا، زیادہ تر سیاح (62%) لیوی کے خلاف تھے یا ان کا خیال تھا کہ فیس کم ہونی چاہیے۔ چارج کے لیے راتوں کی تعداد کی حد اصل میں سات کے طور پر تیار کی گئی تھی لیکن وزٹ اسکاٹ لینڈ اور ایڈنبرا فیسٹیولز کے مشاہدات کے بعد اسے کم کر کے پانچ کر دیا گیا، جس سے یہ پتا چلا  کہ تقریبات کے دوران اداکار اور میلے کے دیگر کارکن اکثر کئی ہفتوں تک رہتے ہیں۔ جمعے کے حتمی فیصلے سے پہلے، کونسلرز نے گزشتہ ہفتے اس منصوبے کی منظوری دی، میگھر نے اس اقدام کو “زندگی بھر میں ایک بار ان چیزوں کو بڑھانے اور برقرار رکھنے کے لیے دسیوں ملین پاؤنڈز کی سرمایہ کاری کرنے کا موقع قرار دیا جو ہمارے شہر کو دیکھنے کے لیے ایک بہترین جگہ بناتی ہیں – اور ایک نیوز ریلیز کے مطابق – سارا سال رہتے ہیں۔ ایڈنبرا حالیہ برسوں میں سیاحتی ٹیکس متعارف کرانے کے لیے یورپی شہروں کی بڑھتی ہوئی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔

’یہاں کچھ نہیں بچا، یہ صرف ایک بربادی ہے‘ غزہ لوٹنے والے گھر دیکھ کر آبدیدہ

(فائل فوٹو)

غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے دوران جو تباہی پھیل چکی ہےاس کا اثر عالمی سطح پر محسوس ہو رہا ہے۔ 15 ماہ کی شدید لڑائی کے بعد آخرکار ایک عارضی جنگ بندی (ceasefire) نے جنوبی غزہ سے شمالی غزہ کی جانب لاکھوں فلسطینیوں کی واپسی کا دروازہ کھولا۔ تاہم، اس واپسی کے ساتھ ہی ایسی تباہی اور خوف کا سامنا ہو رہا ہے جو کئی نسلوں تک یاد رکھا جائے گا۔ شمالی غزہ میں تباہی کا منظر 300,000 سے زائد افراد نے جنوبی غزہ سے شمال کی طرف قدم بڑھایا، مگر جب انہوں نے اپنے گھروں کی طرف رخ کیا تو انہیں صرف تباہی نظر آئی۔ شمالی غزہ میں ہر طرف بربادی ہی بربادی نظر آتی ہے۔ وہاں کی عمارات، سڑکیں اور بنیادی ڈھانچے کا مکمل طور پر صفایا ہو چکا ہے۔ ان افراد کے ہاتھوں میں پانی کے ٹینک، بیٹریاں، سولر پینلز اور کچھ دیگر ضروری سامان تھا، کیونکہ انہیں بتایا گیا تھا کہ شمالی غزہ میں بجلی اور پانی کی شدید کمی ہے۔ عالمی خبررساں ادارے الجزیرہ کے مطابق غزہ کے شمالی حصے کی حالت اتنی بدتر ہے کہ لوگ اپنے خاندان کے دیگر افراد کو یہ بتا کر واپس آ رہے ہیں کہ “یہاں کچھ نہیں بچا، یہ صرف ایک بربادی ہے”۔ اس صورتحال نے انسانی ہمدردی کی عالمی سطح پر ایک گہرا اثر چھوڑا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ “میدان پر ضروریات بہت زیادہ ہیں”، جو اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ غزہ کی عوام کی مشکلات کا کوئی خاتمہ نہیں۔ ایسے میں قطر یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر حسن باراری نے کہا کہ فلسطینیوں کی واپسی اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ جنگ بندی کامیابی سے جاری ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عالمی سطح پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ جنگ بندی کو مستقل بنایا جانا چاہیے، حالانکہ اسرائیل اور امریکا کی طرف سے اس پر متضاد بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ اس کے باوجود یہ نکتہ بہت اہمیت کا حامل ہے کہ اب یہ مشکل ہوگا کہ لوگ دوبارہ اسرائیلی بمباری سے بچنے کے لئے کہیں اور پناہ لیں۔ باراری نے اس بات کا اظہار کیا کہ یہ شاید اسرائیل اور غزہ کے درمیان تعلقات میں ایک نیا موڑ ثابت ہو۔ اسرائیلی میڈیا نے بھی اس مسئلے پر اہم تبصرے کیے ہیں جس میں کین 11 کی نشریات میں اس بات پر تبصرہ کیا گیا کہ فلسطینیوں کی واپسی نے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کے ‘مکمل فتح’ کے خواب کو توڑ دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں فلسطینیوں کا دوبارہ لوٹنا ایک سنگین اشارہ ہے جس سے نیتن یاہو کی حکمت عملی پر سوالات اٹھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیلی میڈیا میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ شمالی غزہ میں واپس جانے والے فلسطینیوں کی گاڑیوں کو امریکی سیکیورٹی کمپنیوں کے ذریعے چیک کرنا ایک نیا ‘چپکنے والا پلاسٹر’ ہےجو اس بحران کا حل نہیں ہو سکتا۔ غزہ کے اسپتالوں میں بھی صورتحال انتہائی سنگین ہے جہاں ہسپتالوں میں خواتین اور بچوں کی زندگیوں کے لئے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کی بمباری اور انسانی امداد کی کمی نے حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کے لیے زندگی کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ بعض اسپتالوں میں بچے ایک ہی انکیوبیٹر میں سلیب ہو کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، کیونکہ اسپتالوں میں ضروری سامان کی کمی ہے۔ اسی دوران اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر فرینسکا البانیز نے مغربی سیاستدانوں کی خاموشی پر سوالات اٹھائے ہیں خاص طور پر اس وقت جب اسرائیل کی فوج فلسطینی بچوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔  البانیز نے کہا کہ “جب اسرائیل مغربی کنارے میں فلسطینی بچوں کو مار رہا ہے، تو کوئی مغربی سیاستدان آواز کیوں نہیں اٹھاتا؟” ان کے اس بیان نے عالمی سطح پر اسرائیل کے اقدامات کے بارے میں مزید سوالات اٹھائے ہیں۔ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے باوجود عالمی سطح پر فلسطینی عوام کے حق میں آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں۔  سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینیوں کو غزہ سے نکلنے کی تجویز دی ہے اور کئی عالمی رہنماؤں نے اس پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔ تاہم، بیشتر فلسطینیوں کی نظر میں ان کے حقوق اور آزادی کی جنگ کا ایک حصہ ہے، جس کا خاتمہ ابھی دور ہے۔ غزہ کے شمالی حصے میں فلسطینیوں کی واپسی ایک نیا باب ہو سکتی ہےجو امن اور استحکام کی طرف بڑھنے کا اشارہ دے سکتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انسانی امداد کی فراہمی، زندگی کے معمولات کی بحالی اور عالمی سطح پر تنازعہ کے حل کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا یہ جنگ بندی ایک عارضی حل ہے یا اس سے کچھ دیرپا امن کی بنیاد رکھی جا سکے گی۔ اس ساری صورتحال میں غزہ کی عوام کا دل شکستہ ہے مگر ان کی امیدیں اب بھی زندہ ہیں کہ عالمی برادری ان کی مدد کرے گی اور ان کا درد ختم کرنے کے لئے کوئی سنجیدہ اقدام کرے گی۔

احتجاج کے شور میں ’متنازع پیکا ایکٹ‘ منظور، صحافیوں کا سینیٹ گیلری سے واک آؤٹ

Senate

سینٹ نے متنازعہ پیکا ایکٹ ترمیمی بل منظور کر لیا ہے۔ بل کی منظوری کے وقت صحافی سینیٹ گیلری سے واک آؤٹ کر گئے۔ سینیٹ نے پیکا ترمیمی بل 2025 اور ڈیجیٹل نیشن بل 2025 منظور کیے ہیں۔ ڈپٹی چیئر مین سیدال خان ناصر کی صدارت میں اجلاس شروع ہوا، رانا تنویر حسین نے پیکا ترمیمی بل کی منظوری کی تحریک پیش کی، جسے ایوان نے کثرتِ رائے سے منظور کیا۔ بل کی منظوری کے وقت اپوزیسن اراکین کا سخت احتجاج دیکھنے میں آیا۔ احتجاج کرتے ہوئے انہوں نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں پھینک دیں۔ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر شبلی فراز کہتے ہیں کہ قانون بننے میں وقت لگتا ہے۔ لیکن یہاں وزیر قانون آتے ہیں ، نیا قانون بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بس کوما وغیرہ کی درستی کی ضرورت ہے باقی فوری طور پر منظور کر لیں۔ شبلی فراز نے مزید کہا کہ صحافی آج اپنے پیشہ ورانہ امور کے حوالے سے تحفظات پر احتجاج پر مجبور ہو چکے ہیں۔ لیا حکومے نے متعلقہ صحافیوں سے اس بارے م،ی ں رابطہ کیا؟ یہ قانون برائے اصلاح نہیں بلکہ قانون برائے سزا ہے اور ہم اس قانون کے بننے کے عمل میں شامل نہیں ہو سکتے۔ پیکا ایکٹ کے تحت غیر قانونی مواد یا فیک نیوز پر تین سال قید اور 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکے گا۔ پیکا ایکٹ کے تحت ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو تحلیل کر کے نئی تحقیقاتی ایجنسی قائم کی جائے گی۔ اس کے ساتھ سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی۔ ایسا مواد جو اسلام مخالف، قومی سلامتی یا ملکی دفاع کے خلاف، توہینِ عدالت کے زمرے میں آتا ہو، غیر اخلاقی مواد، مسلح افواج کے خلاف الزام تراشی، بلیک میلنگ، جرائم یا دہشت گردی کی حوصلہ افزائی سمیت 16 اقسام کے مواد کو غیر قانونی مواد قرار دیا گیا ہے۔ ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی کل 9 اراکین پر مشتمل ہو گی جس میں  سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا بھی شامل ہوں گے۔بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جاسکے گا، چیئرمین اور 5 اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی۔ حکومت نے اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے، اس کے علاوہ دیگر 5 اراکین میں 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ وئیر انجنیئر بھی شامل ہوں گے جب کہ ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہو گا۔ اب حکومت سوشل میڈیا میں اصلاحات لانے کیلئے پیکا ایکٹ اور ڈیجیٹ نیشن بل لے کر آئی ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ اِن بلز کی وجہ سے سوشل میڈیا پر مناسب چیک اینڈ بیلنس رکھا جاتا ہے یا پھر ان بلز کی آڑ میں حکومت آزادی اظہار رائے کو سلب کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

نئی CSIRO ٹیکنالوجی نے خلا میں 20 سے زائد پراسرار سگنلز کی دریافت کر لیئے

(فائل فوٹو)

آسٹریلوی محققین نے ایک نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے خلا میں 20 سے زائد پراسرار سگنلز دریافت کیے ہیں، جو سائنس کی دنیا میں ایک نیا سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ نئی ٹیکنالوجی CSIRO (آسٹریلین سائنسی اور صنعتی تحقیقی تنظیم) نے تیار کی ہے اور اس کا نام CRACO رکھا گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے اس بات کا کھوج لگایا گیا کہ خلا میں کئی غیر معمولی اور پراسرار سگنلز کی موجودگی ہے، جنہیں سمجھنا ابھی تک انسان کے لئے ایک معمہ بنا ہوا تھا۔ آسٹریلیشین نیشنل سائنس ایجنسی CSIRO کے ماہرین اور انجینئرز کی مدد سے یہ نئی ٹیکنالوجی تیار کی گئی ہے جس کی کامیاب آزمائش نے ماہرین کو خلا میں موجود پراسرار سگنلز کو سمجھنے میں اہم کامیابی دلائی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے تحقیقاتی ٹیم نے انتہائی کم وقت میں 20 سے زائد فاسٹ ریڈیو برٹس (Fast Radio Bursts) اور نیوٹرون اسٹارز جیسے اجسام دریافت کیے ہیں، جو اس تحقیق میں ایک بڑی کامیابی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ CRACO ایک جدید سسٹم ہے جسے CSIRO کے ASKAP ریڈیو ٹیلی اسکوپ سے جوڑا گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے محققین خلا میں موجود مختلف اجسام کے سگنلز کو اس قدر سرعت سے ڈیٹیکٹ کر سکتے ہیں کہ پہلے کبھی یہ ممکن نہیں تھا۔ اس ٹیکنالوجی نے تحقیق کے عمل کو بے حد تیز کر دیا ہے اور ریسرچرز اب ہر سیکنڈ میں 100 بار تک سگنلز کا معائنہ کر سکتے ہیں، جبکہ مستقبل میں یہ تعداد 1,000 تک بڑھنے کی توقع ہے۔ اس سسٹم کا کام انتہائی پیچیدہ ہے کیونکہ یہ ہر سیکنڈ میں 100 ارب پکسلز کو اسکین کرتا ہے تاکہ کسی بھی نوعیت کے فاسٹ ریڈیو برٹس کو شناخت کیا جا سکے۔ اس تحقیق کا ایک نکتہ نظر یہ تھا کہ ریڈیو سگنلز کا تجزیہ کیا جائے جو خلا میں مختلف فاصلے اور سمتوں سے آ رہے تھے، اور CRACO نے یہ عمل اس قدر درست اور تیز طریقے سے مکمل کیا ہے کہ اس کی مثال دی جا رہی ہے جیسے ریت کے بے شمار دانوں میں سے ایک بانچ روپے کا سکہ تلاش کرنا۔ فاسٹ ریڈیو برٹس ایک ایسا راز ہیں جن کی حقیقت ابھی تک واضح نہیں ہو سکی۔ یہ انتہائی روشن اور مختصر مدت تک روشن ہونے والے ریڈیو سگنلز ہیں جو زیادہ تر ہماری کہکشاں سے باہر کے خلا سے آتے ہیں۔ ان کی اصلی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی، مگر ان کی موجودگی نے خلا کی تحقیق کے میدان میں ایک نیا باب کھولا ہے۔ ڈاکٹر اینڈی وانگ، جو اس تحقیق کی قیادت کر رہے ہیں، نہوں نے کہا کہ ان کی ٹیم نے فاسٹ ریڈیو برٹس کی تلاش میں اس سے زیادہ اجسام دریافت کیے ہیں جو انہوں نے توقع کی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ہم فاسٹ ریڈیو برٹس کو ڈھونڈنے پر مرکوز تھے مگر ہم نے ان سے زیادہ چیزیں دریافت کیں، جن میں نیوٹرون اسٹارز اور پولسارز شامل ہیں۔” پہلے فاسٹ ریڈیو برٹس کی تلاش میں متعدد اضافی اقدامات درکار ہوتے تھے، لیکن CRACO کے ذریعے اس عمل کو زیادہ سادہ اور تیز بنایا گیا ہے۔ ڈاکٹر لورا ڈریسن، جو یونیورسٹی آف سڈنی میں ریڈیو ایسٹرونومر ہیں، انھوں  نے اس نئی ٹیکنالوجی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ CRACO نے اس عمل کو بہت زیادہ موثر بنا دیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی نے فلکیات دانوں کو یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ خلا میں پھیلے ان سگنلز کا پتہ لگانے میں کامیاب ہوں جو پہلے صرف عمومی سمت تک محدود تھے۔ CRACO کے ذریعے فاسٹ ریڈیو برٹس کی جگہ کا تعین کرنا ممکن ہو سکا ہے، جو کہ ان کی نوعیت اور ان کے ماخذ کو سمجھنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اگر ہم ان سگنلز کے ماخذ کی صحیح جگہ معلوم کر سکیں تو ہم ان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کر سکتے ہیں، جیسے کہ ان کی صحیح فاصلے اور ان کے پیچھے موجود قدرتی عمل کی تفصیلات۔ ڈاکٹر ڈریسن نے اس بات پر زور دیا کہ یہ تحقیق خلا کے پراسرار اجسام کو سمجھنے کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔ اگر ہم فاسٹ ریڈیو برٹس کے ہر ایک سگنل کو اس کے متعلقہ کہکشاں سے جوڑ سکیں تو ہم ان کی حقیقت کو سمجھنے میں مزید کامیاب ہو سکتے ہیں۔ CRACO کے ذریعے آسٹریلوی سائنسدانوں نے خلا میں موجود ایک اور معمہ حل کرنے کی طرف ایک قدم اور بڑھایا ہے۔ اس کی کامیاب آزمائش کے بعد ماہرین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مستقبل میں اس ٹیکنالوجی کی مدد سے خلا کے بارے میں نئے راز کھلیں گے۔ اس تحقیق میں عالمی سطح پر تسلیم شدہ کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں اور یہ فیلڈ خلا کی دریافت کے حوالے سے ایک نئی سمت اختیار کرے گا۔

پاکستان اور امریکا کے درمیان کرکٹ سیریزکا آغاز کب سے ہوگا؟

Mohsin naqwi usa

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی)کے چیئرمین محسن نقوی نے امریکی کرکٹ بورڈ(یو ایس اے کرکٹ) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر جوناتھن اٹکیسن سے ملاقات کی۔ ملاقات میں پاکستان اور امریکا کے درمیان کرکٹ سریز کروانے کے متعلق حتمی شکل دینے پر اتفاق کیا گیا۔ محسن نقوی نے جوناتھن اٹکیسن کو یقین دلایا کہ پاکستان کرکٹ امریکا کے کوچز کو پاکستان میں تربیت دینے کے لیے تیار ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یو ایس اے کرکٹ کے سی ای اوکو پاکستان میں ہونے والے چیمپئنز ٹرافی کے میچز دیکھنے کی دعوت بھی دی۔ چیئرمین پی سی بی کا کہنا تھا کہ” پاکستان اور امریکہ کے درمیان کرکٹ کے فروغ کے لیے بہت سے مواقع موجود ہیں۔ اس مقصد کے لیے دونوں ممالک کے حکام کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔   اس سے قبل چیئرمین پی سی بی اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن میں امریکی سینیٹرز اور کانگرس کے اراکین سے ملاقات کی اور خصوصی عشائیہ کی تقریب میں بھی شرکت کی۔  محسن نقوی نے 20 جنوی کو ہونے والی ٹرمپ کے حلف اٹھانے کی تقریب میں بھی شرکت کی تھی۔ یاد رہے کہ پاکستان اور امریکہ کے مابین صرف ایک کرکٹ مقابلہ ہوا ہے۔ یہ مقابلہ 2024 میں ہونے والے ٹی 20ورلڈ کپ میں ہوا۔ جس میں سنسنی خیز مقابلے کے بعد امریکا نے پاکستان کو 5 رنز سے شکست دے دی۔ پاکستان اور امریکا کی آپس میں کرکٹ سیریز ہونا، دونوں ممالک کو مزید قریب لائے گی۔ کھیل سیاست میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ امید ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان اور امریکا کے درمیان نئی شراکت داریاں دیکھنے کو ملیں گی۔

امریکی امداد کی معطلی: پاکستان کے وہ منصوبے جو متاثر ہوں گے

(فائل فوٹو)

پاکستان میں امریکا کی امداد کی معطلی کے بعد متعدد اہم منصوبے بند کردیے گئے ہیں ۔ امریکی حکام کے مطابق تمام غیر ملکی امدادی پروگرامز کی معطلی کا فیصلہ 90 دنوں کے لیے کیا گیا ہے جس کے بعد ان کی تجدید یا خاتمے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس فیصلے کے تحت پاکستان سمیت مختلف ممالک کی امداد کو روک دیا گیا ہے جس میں یوکرین، تائیوان، اردن اور دیگر شامل ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب تمام سفارتی مشنز کو حکم دیا گیا کہ وہ فوری طور پر غیر ملکی امدادی منصوبوں کو معطل کر دیں۔   اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستان میں کئی شعبوں میں شدید مشکلات پیدا ہو چکی ہیں۔ پاکستان میں ثقافتی تحفظ کے لیے امریکی فنڈز کی فراہمی روک دی گئی ہے اور پانچ اہم توانائی منصوبوں پر کام بھی  رک گیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں اکانومک ترقی کے چار منصوبوں کی امداد بھی روک دی گئی ہے جبکہ  پانچ زرعی ترقیاتی منصوبے بھی متاثر ہو گئے ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق، جمہوریت اور حکمرانی سے متعلق تمام منصوبوں کی امداد بھی معطل کر دی گئی ہے جس سے تعلیم اور صحت کے منصوبے بھی اس فیصلے سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس کا مقصد امریکی پالیسیوں کے مطابق غیر ملکی امداد کی تقسیم کو مزید مؤثر بنانا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کسی بھی ملک کو امریکہ سے امداد اس کی قومی مفادات اور ترجیحات کے مطابق ملے۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب صدر ٹرمپ نے اپنے دوسرے دورِ حکومت کے آغاز پر 20 جنوری کو ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا، جس میں تمام وفاقی ایجنسیوں کو 90 دن کے لیے غیر ملکی ترقیاتی امداد روکنے اور اس پر نظرثانی کرنے کی ہدایت کی گئی۔ ٹرمپ کے اس حکم میں کہا گیا کہ “امریکہ کی پالیسی ہے کہ وہ غیر ملکی امداد صرف اسی صورت میں دے گا جب وہ امریکہ کے مفادات کے مطابق ہو۔” ٹرمپ کے اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ امریکی عوام کے پیسوں کے بدلے میں کچھ نہ کچھ فائدہ ہونا ضروری ہے، نہ کہ بے جا طور پر امداد دی جائے۔ اس فیصلے کے ساتھ ہی امریکی وزارت خارجہ نے ایک میمو جاری کیا جس میں تقریباً تمام غیر ملکی امدادی پروگرامز کے لیے نئی فنڈنگ روکنے کا اعلان کیا گیا۔ تاہم، اس میں اسرائیل اور مصر جیسے کلیدی مشرق وسطیٰ کے اتحادیوں کو استثنیٰ دیا گیا۔ اس ےک علاوہ ایمرجنسی فوڈ اسسٹنس اور متعلقہ اخراجات کے لیے بھی کچھ رعایت دی گئی۔ امریکا کا یہ فیصلہ پاکستان کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے کیونکہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کی ترقی کے لیے اہم امداد فراہم کی ہے۔ اب اس معطلی کے باعث پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کی رفتار سست ہو سکتی ہے اور اس کے اثرات مختلف شعبوں پر پڑ سکتے ہیں۔ پاکستان کی حکومت اور عوام اب اس صورتحال سے نکلنے کے لیے نئے راستے تلاش کر رہے ہیں لیکن اس بات کا یقین ہے کہ امریکی امداد کی معطلی سے متعلق فیصلے کے نتائج آنے والے دنوں میں مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ‘کیا امریکا اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے گا یا پاکستان کو نئی مشکلات کا سامنا ہوگا؟ اس سواک کا جواب اب وقت ہی بتائے گا۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کا زوال: ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ میں بڑی شکست کے بعد سب کچھ ختم

(فائل فوٹو)

پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے 2025 کا آغاز ایک اور تکلیف دہ حقیقت کے ساتھ ہوا ہے جس نے ٹیم کو عالمی ٹیسٹ کرکٹ میں نہ صرف پچھلے 35 برسوں کا بدترین ریکارڈ یاد دلا دیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ میں بھی شدید زوال کی گہرائیوں میں دھکیل دیا۔ ملتان کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلے گئے دوسرے ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں 120 رنز کی بدترین شکست نے پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں ایک اور سیاہ باب کا اضافہ کیا۔ یہ پاکستانی کرکٹ کی وہ بدترین گھڑی تھی جب ٹیم اپنے ہوم گراؤنڈ پر ایک اور ٹیسٹ میچ ہار گئی۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف 120 رنز کی شکست نہ صرف پاکستان کرکٹ کے شائقین کے لیے ایک جھٹکا تھی بلکہ اس نے پاکستان کو آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئین شپ کے اسٹینڈنگ میں بھی آخری نمبر پر پہنچا دیا۔ پاکستان کی کارکردگی کا یہ گراؤنڈ پر مکمل طور پر زوال دکھانے والا منظر تھا اور اس میچ کے بعد پاکستانی ٹیم ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ کے پوائنٹس ٹیبل میں آخری پوزیشن پر پہنچ گئی۔ 2023 سے 2025 کے ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ کے دوران گرین شرٹس نے 14 میچز میں سے صرف 5 میچز جیتے جبکہ باقی میچز میں انہیں ناکامی کا سامنا رہا۔ سلو اوور ریٹ کے باعث بھی ٹیم کو پوائنٹس کی کٹوتی کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے ان کی مجموعی پرسنٹیج محض 27.98 پر پہنچ گئی۔ گزشتہ دہائی میں پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ کا سفر کسی بھی لحاظ سے قابلِ فخر نہیں رہا۔  2015 سے 2025 تک پاکستان کا ریکارڈ مسلسل ناقص رہا ہے۔ 2015 کے بعد پاکستان نے اپنے 40% ٹیسٹ میچز ہی جیتے، اور اس دوران ان کے ہوم گراؤنڈ پر غیر متوقع شکستیں معمول بن گئیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم نے جس طرح کی کارکردگی اس وقت دکھائی، اس سے شائقین کرکٹ اور سابق کھلاڑیوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم کی جانب سے اس میچ میں انتہائی عمدہ کارکردگی دیکھنے کو ملی اور ان کے کھلاڑیوں نے پاکستانی ٹیم کو ہرا کر اپنے ہوم گراؤنڈ کی تقدیر کو بہتر کیا۔ ویسٹ انڈیز کے اس شاندار سفر کا اختتام ایونٹ میں آٹھویں پوزیشن پر ہوا۔ پاکستانی کرکٹ کی یہ بدترین کارکردگی کسی بھی طرح سے نئی نہیں ہے لیکن اس میں اب نیا عنصر یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم کی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ میں فائنل تک پہنچنے کی امیدیں پوری طرح ختم ہوگئی ہیں۔ پاکستان کے اس سفر کے باقی حصے میں اب کوئی بھی سیریز شیڈول نہیں ہے اور ٹیم کو اپنی ٹیسٹ کرکٹ کی میراث کو سنبھالنے کے لیے مزید مشکلات کا سامنا ہوگا۔ اس صورتحال نے جنوبی افریقہ کو سرفہرست رکھا جبکہ ان کا مقابلہ فائنل میں آسٹریلیا سے ہوگا۔ پاکستان کے لیے یہ وقت سوچی سمجھی حکمت عملی کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے اور یہ سوال اب سب کے ذہن میں ہے کہ آیا پاکستانی ٹیم اپنے ٹیسٹ کرکٹ کے زوال کا خاتمہ کر سکے گی یا یوں ہی ماضی کی طرح شائیقین کرکٹ بس مایوسی کا منہ دیکھیں گے؟

انڈین فاسٹ باؤلر نے ٹیسٹ کرکٹ میں نئی تاریخ رقم کردی

(فائل فوٹو)

پاکستان کرکٹ ٹیم کی طرح بھارت کے باؤلنگ سپر اسٹار، وقار یونس یا عمران خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، بھارتی فاسٹ باؤلر جسپریت بمراہ نے 2024 کے آئی سی سی مردوں کے ٹیسٹ کرکٹر آف دی ایئر کا اعزاز اپنے نام کر لیا ہے۔ بمراہ نے اپنی غیر معمولی کارکردگی سے دنیا بھر کے کرکٹ شائقین کو محظوظ کیا اور اس بات کو ثابت کیا کہ وہ کسی بھی حال میں دنیا کے بہترین باؤلر بننے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ 2024 کے دوران جسپریت بمراہ کا کھیل نہ صرف بھارت کے لیے بلکہ عالمی کرکٹ کے لیے بھی ایک سنہری لمحہ ثابت ہوا۔ فاسٹ باؤلر نے اپنے کیریئر کا بہترین سال گزارا، جس میں نہ صرف انہوں نے کئی شاندار ریکارڈز بنائے بلکہ اس کھیل کی بہترین سطح پر واپس آکر کرکٹ کے تمام حلقوں میں اپنی دھاک بٹھا دی۔ بمراہ نے 2024 کے دوران 71 وکٹیں حاصل کیں، جو کہ ٹیسٹ کرکٹ کے سال 2024 میں سب سے زیادہ وکٹیں تھیں۔ ان 71 وکٹوں کے ساتھ بمراہ نے اپنے کیریئر کے دوران ایک اہم سنگ میل عبور کیا اور بھارتی تاریخ کے ان چند باؤلرز میں شامل ہو گئے جنہوں نے ایک کیلنڈر سال میں 70 سے زیادہ وکٹیں حاصل کیں۔ ان کے اس شاندار کارنامے کے ساتھ وہ کپیل دیو، انیل کمبلے اور روی چندرن ایشون جیسے عظیم کھلاڑیوں کے ہم پلہ ہو گئے ہیں۔ جسپریت بمراہ کا 2024 کا سفر شاندار رہا، انہوں نے اپنے کیریئر کی شروعات 2023 کے آخر میں کی تھی جب وہ کئی ماہ کے عرصے بعد واپس آئے تھے۔ اس دوران انہیں کمر کی چوٹ کا سامنا تھا، مگر بمراہ کی واپسی نے ثابت کیا کہ وہ ایک غیر معمولی کھلاڑی ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنے ابتدائی میچز میں ہی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ بمراہ نے اپنی ٹیم کی جیت میں کلیدی کردار ادا کیا اور نہ صرف بھارت کے بلکہ عالمی کرکٹ کے مقبول ترین باؤلرز میں اپنا نام درج کرایا۔ بھارت نے انگلینڈ اور بنگلہ دیش کے خلاف اپنے گھریلو میدانوں پر سیریز جیتیں اور پھر جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے دوروں پر بھی بمراہ نے اپنی باؤلنگ کی دھاک بٹھائی۔ ان کی شاندار کارکردگی نے بھارت کو آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کی دوڑ میں بھی رکھا۔ بمراہ کا 2024 کا ریکارڈ لاجواب رہا، انہوں نے 13 میچز میں 71 وکٹیں حاصل کیں اور اس دوران 357 اوورز کرائے۔ اس کے باوجود، بمراہ کا اوسط صرف 2.96 کا رہا، جو کہ ایک تیز باؤلر کے لیے ایک غیر معمولی کارکردگی ہے۔ ان کا اوسط 14.92 رہا اور سال کے آخر تک ان کا اسٹرائیک ریشو صرف 30.1 تھا جو کہ اس دور کے کرکٹ میں ایک شاندار اعداد و شمار ہیں۔ انہوں نے 2024 کی شروعات جنوبی افریقہ کے خلاف کیپ ٹاؤن میں جیت کے ساتھ کی، جہاں بمراہ نے دو اننگز میں آٹھ وکٹیں حاصل کیں اور بھارت کو شاندار کامیابی دلائی۔ اس کے بعد بھارت کے پانچ میچز کے سیریز میں انگلینڈ کے خلاف بمراہ نے 19 وکٹیں حاصل کیں۔ لیکن ان کی سب سے بڑی کامیابی آسٹریلیا کے خلاف بیڈر گاؤسکر سیریز کے دوران آئی، جہاں بمراہ نے پانچ میچز میں 32 وکٹیں حاصل کیں اور سیریز کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کیا۔ جاسپریت بمراہ کی سب سے یادگار کارکردگی 2024 میں پرتھ میں آسٹریلیا کے خلاف آئی، جب انہوں نے 5/30 کے شاندار باؤلنگ کے ساتھ بھارتی ٹیم کی میچ میں واپسی کرائی اور ٹیم کو 295 رن کے فرق سے فتح دلائی۔ اس جیت کے ساتھ بمراہ نے اپنی قیادت کی اہمیت کو بھی ثابت کیا، کیونکہ اس میچ میں بھارت کے کپتان روہت شرما موجود نہیں تھے اور بمراہ نے بھرپور قیادت کا مظاہرہ کیا۔ بمراہ نے اس سال عالمی کرکٹ میں ایک نیا معیار قائم کیا اور اپنے کیریئر کو ایک نئی بلندی تک پہنچایا۔

“میرا خیال ہے ہم حاصل کر لیں گے” ٹرمپ گرین لینڈ کو خریدنے کے خواہاں،

Trump .

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ گرین لینڈ کو امریکا کے کنٹرول میں آجانا چاہیے۔انہوں نے گرین لینڈ کی زمین کو امریکی قبضے میں لینے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ ہفتے کے روز ائیر فورس ون کے ریپورٹرز سے صدر ٹرمپ نے کہا کہ ” میرا خیال ہے ہم یہ حاصل کرنے جا رہے ہیں”۔ انہوں نے مزید کہا کہ ” گرین لینڈ میں موجود ستاون ہزار رہائشی “ہمارے ساتھ رہنا چاہتے ہیں”۔ ان کے کمنٹس تب آئے جب ڈینمارک کے وزیر اعظم میٹے فریڈیرکسن نے اسرار کیا کہ گرین لینڈ کسی کی بھی ایک فون کال پر فروخت ہونے کے لیے نہیں ہے۔ ٹرمپ نے 2019 کے پہلے دورِ حکومت میں بھی آرکٹک سرزمین خریدنے کا منصوبہ بنایا تھا ۔ انہوں نےکہا کہ گرین لینڈ کا امریکی کنٹرول میں آنا عالمی تحفظ کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ صدارتی جہاز کے پریس روم میں جب ٹرمپ سے جزیرے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا” میرا خیال ہے لوگ ہمارے ساتھ رہنا چاہتے ہیں”۔ انہوں نے مزید کہا کہ” میں نہیں جانتا گرین لینڈ کے پاس کیا جواز ہے مگر یہ بہت غیر دوستانہ کام ہوگا اگر وہ ہمیں  اس کام کے لیے اجازت نہیں دیں گے کیوں کہ پوری دنیا کے لیے بہتر ہے”۔ ٹرمپ نے کہا” میرا خیال ہے ہم گرین لینڈ کو حاصل کر لیں گے  کیوں کہ یہ دنیا کی آزادی کا معاملہ ہے”۔”اس کا امریکا سے صرف اس لیے تعلق ہے کیوں کہ صرف ہم ہیں جو انہیں آزادی فراہم کر سکتے ہیں۔” اگرچہ اس معاملے میں ٹرمپ پر اعتماد نظر آتے ہیں مگرگرین لینڈ اور ڈینمارک  کے وزراِاعظم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ یہ جزیرہ فروخت ہونے کے لیے نہیں ہے۔” گرین لینڈ کے وزیراعظم میوٹ ایگٹ نے کہا کہ اگرچہ ہم چاہتے ہیں کہ امریکا کے ساتھ مزید شراکت داری کے ساتھ کام کریں لیکن گرین لینڈ کے زمین صرف گرین لینڈ کے لیے ہے۔ اسی دوران ڈینمارک کے وزیر اعظم فریڈیرکسن نے کہا کہ گرین لینڈ صرف گرین لینڈ میں رہنے والوں کے لیے ہے اور صرف مقامی آبادی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ ٹرمپ کے مطابق وہ کئی طریقوں سے گرین لینڈ کو اپنے سر زمین میں شامل کر سکتے ہیں۔اس کےلیے چاہے وہ فوج استعمال کریں یا معاشی طاقت استومال کریں۔ ان کے حالیہ کمنٹس کی وجہ سے ڈینمارک کی سیاسی اسٹیبلشمنٹ میں ہل چل مچ گئی ہے جس کی وجہ سے ملک میں اعلی سطح کی میٹنگز ہو رہی ہیں۔

کیلیفورنیا کی آتشزدگی سے سبق: لاس اینجلس کیسے دوبارہ تعمیر ہوسکتا ہے؟

(فائل فوٹو)

سات سال پہلے شمالی کیلیفورنیا کے سونوما کاؤنٹی میں ہونے والی ‘ٹبز فائر’ نے سنیٹر روزا کے ‘کافی پارک’ سبڈویژن کو تباہ کر دیا تھا جو کہ پیسیفک پیلیسیڈز اور آلٹڈینا جیسے مضافاتی علاقوں کی طرح تھا۔ اس آگ نے ایک چھے لین والی فری وے کو عبور کیا اور تقریباً 5000 گھروں کو جلا کر خاک کر دیا جن میں سے 1500 گھر صرف کافی پارک میں تھے۔ یہ 2017 میں کیلیفورنیا کا سب سے مہنگا جنگلاتی آتشزدگی سانحہ بن گیا تھا۔ لیکن اس تباہی کے بعد جو سب سے اہم بات سامنے آئی وہ یہ تھی کہ اگرچہ سفر طویل اور مشکلات سے بھرپور تھا، لیکن جب کمیونٹی اکٹھا ہوتی ہے اور مقامی حکومت صحیح طریقے سے اقدامات کرتی ہے تو دوبارہ تعمیر ممکن ہے۔ صرف تین سال میں ہی ‘کافی پارک’ کے 80% تباہ شدہ گھروں کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی اور وہ دوبارہ آباد ہو گئے تھے۔ یہ تجربات جو کافی پارک اور سینیٹر روزا کے رہائشیوں نے محسوس کیے، آج لاس اینجلس کے مختلف علاقوں جیسے پیسیفک پیلیسیڈز اور آلٹڈینا کے لیے ایک سبق ہیں، جہاں رواں ماہ کی آتشزدگی میں 16,000 سے زیادہ گھروں اور دیگر ڈھانچوں کو نقصان پہنچا ہے، اور 28 افراد کی جانیں گئیں۔ پیسیفک پیلیسیڈز اور آلٹڈینا کے مکینوں کو بھی اسی نوعیت کے سوالات کا سامنا ہے جو 2017 میں سینیٹر روزا کے رہائشیوں کو درپیش تھے۔ “ہم کہاں سے آغاز کریں؟” آلٹڈینا کے رہائشی ڈیوڈ کوویلیوسکی نے کہا کہ “یہ تو جنگ کے میدان جیسا دکھتا ہے” وہ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انشورنس کتنا معاوضہ دے گا اور وہ نئے، زیادہ قیمت والے مواد کے ساتھ اپنے گھروں کی تعمیر کیسے کریں گے۔ انکا کہنا تھا کہ “یہ سب ایک ساتھ کیسے مکمل ہوگا؟ اتنے گھروں کو دوبارہ تعمیر کرنے کی صلاحیت کس کے پاس ہوگی؟“ ڈیمن کلاپٹن کے ذہن میں بھی یہی سوالات تھے جب وہ 2017 میں اپنی گھر کی آتشزدگی کے بعد اپنی بیوی اور چار بلیوں کے ساتھ اپنی جان بچا کر باہر نکلے تھے۔ جیسے ہی ایمرجنسی خدمات نے لاشوں کی تلاش کے لیے کتوں کا استعمال شروع کیا اور زہریلے مواد کو صاف کیا، رہائشیوں کو اپنے گھروں میں واپس جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس کے بعد جو سب سے مشکل مرحلہ تھا وہ تھا ملبے کا صفایا، جس میں کئی ماہ لگے۔ سینیٹر روزا میں رہائشیوں کے پاس دو آپشن تھے ایک وفاقی ایجنسی کی طرف سے منظور شدہ ملبہ صفائی پروگرام یا نجی ٹھیکیدار کی خدمات، جو زیادہ مہنگے تھے لیکن ان کے پاس ضروری تصدیقیں موجود تھیں۔ مقامی حکام نے بتایا کہ کیلیفورنیا میں آتشزدگی کے متاثرہ علاقوں میں اب اسی طرح کے ملبہ صفائی کے آپشنز فراہم کیے جا رہے ہیں، جن میں سب سے پہلے خطرناک مواد کی صفائی شامل ہے، جیسے کہ برقی گاڑیوں کے بیٹریاں۔ اس کے بعد تعمیراتی اجازت ناموں اور مروجہ ضوابط کی پیچیدگیوں کا سامنا ہوتا ہے جسے اب تیز کرنے کے لیے حکومتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ سینیٹر روزا میں جب ملبہ صاف ہوا تو رہائشیوں کے لیے ایک نئے سرے سے شروع کرنے کا موقع آیا۔ اس دوران مقامی کمیونٹی نے اجتماعی طور پر مل کر کئی مشکلات کا سامنا کیا۔ ‘اوکریپکئی’ جو ایک غیر منافع بخش تنظیم کے بانی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ “یہ ہمیشہ آسان ہوتا ہے جب آپ 100 یا 500 لوگوں کی مدد کے ساتھ سوالات پوچھتے ہیں۔” وہ مزید کہتے ہیں کہ سینیٹر روزا کے رہائشیوں نے سماجی ملاقاتوں اور مقامی نیوز لیٹرز کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہ کر اپنے مسائل حل کیے۔ مقامی حکومت نے بھی اس بات کو سمجھا اور عمارت کی منصوبہ بندی میں آسانی کے لیے اقدامات کیے، جس میں شہر میں ایک نیا ‘مستحکم زون’ بنایا گیا جس میں آتشزدگی کے بعد کی تعمیراتی ضروریات کو کم کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ، کچھ تعمیراتی ڈیزائنز کو پہلے ہی منظور کر لیا گیا تاکہ رہائشی تیزی سے تعمیر شروع کر سکیں۔ تاہم، اس تعمیر نو کے عمل میں بھی مشکلات تھیں۔ کچھ افراد جیسے کیرول میک ہیل نے اپنا بچت کا 100,000 ڈالر کھو دیا جب ایک ٹھیکیدار نے پیشگی رقم وصول کی لیکن کام مکمل نہیں کیا۔ میک ہیل نے ایک نئے ٹھیکیدار کے ساتھ دوبارہ کام شروع کیا لیکن ہر فیصلہ ایک کربناک مرحلہ تھا۔ انکا کہنا تھا کہ “ہم ہر روز 10,000 ڈالر کے فیصلے کر رہے تھے مگرآخرکار ہم نے سب کچھ مکمل کیا“۔ کچھ افراد جیسے کلاپٹن نے اپنے منصوبوں میں خود تبدیلیاں کیں اور عمومی ٹھیکیدار بن گئے۔ ان کے مطابق “یہ ایک مسلسل جدوجہد تھی ہر نیا قدم ایک نیا چیلنج بن کر آتا تھا لیکن یہ اس بات کا اطمینان تھا کہ اب آپ کے پاس کچھ کنٹرول ہے۔“ لاس اینجلس کے متاثرہ علاقوں کے لیے یہ تجربات ایک رہنمائی کا کام کر سکتے ہیں۔ حکومتی سطح پر تیز اقدامات اور مقامی سطح پر کمیونٹی کا ساتھ، دونوں مل کر دوبارہ تعمیر کے عمل کو تیز اور کم پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔ ریاستی اور مقامی حکام کے تعاون سے اسی طرح کی کامیاب حکمت عملی کو اپنانا ممکن ہے تاکہ پیسیفک پیلیسیڈز اور آلٹڈینا جیسے متاثرہ علاقے جلد ہی اپنی مکمل بحالی کی طرف قدم بڑھا سکیں۔ ماضی یہ ثابت کرتا ہے کہ قدرتی آفات کے باوجود انسانوں کی عزم، حکومتی مدد اور اجتماعی کارروائی سے سب کچھ دوبارہ تعمیر کیا جا سکتا ہے۔