ایک کلک سے تمام مسائل حل: “کنیکشن” ایپ متعارف

آئندہ بل جاننا ہے یا گیس بل جمع کروانا ہے، سوئی ناردرن گیس کی ایک ایپ میں سب مسائل کا حال۔ ماضی میں گیس کے معاملات کو سنبھالنا ایک پیچیدہ کام تھا۔ بلوں کی ادائیگی ہو یا نئے کنکشن کی درخواست، یا پھر کسی قسم کی شکایت درج کرانی ہوصارفین کو کئی دنوں تک دفاتر کے چکر لگانے پڑتے تھے۔ لمبی قطاریں، ایک نا ختم ہونے والا انتظار اور تاخیر سے ملنے والی سروس ہر کسی کے لیے ایک بڑا مسئلہ تھی۔ صارفین کی اس پریشانی کو بھانپتے ہوئے سوئی ناردرن گیس نے “کنیکشن” ایپ متعارف کرا دی، جو صارفین کو جدید اور فوری سروسز فراہم کرتی ہے۔ کنیکشن ایپ کے ذریعے آپ کہیں بھی، کسی بھی وقت بس ایک کلک سے تمام سہولیات منٹوں میں حاصل کر سکتے ہیں، جس کے لیے کبھی آپ کودنوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔ نیا گیس کنکشن کی درخواست ہو یا گیس بلوں کی ادائیگی، شکایات کا اندراج کروانا ہو یا بذریعہ ایس ایم ایس بل کی معلومات لینی ہو، آپ صرف ایک کلک سے یہ سب سروسز براہِ راست موبائل پر حاصل کر سکتے ہیں۔ اس ایپ کے ذریعے اسٹیمیٹڈبل چیک کریں اور بجٹ بنائیں۔ یہ ایپ صارفین کی سہولت کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا ایک بہترین حل ہے، جو وقت، توانائی اور وسائل کی بچت میں مدد دیتی ہے۔ اب کسی کو دفاتر کے چکر لگانے، لمبی قطاروں میں کھڑے ہونے، یا انتظار کی پریشانی جھیلنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ “کنیکشن” ایپ ہر سروس کو آپ کی انگلیوں کی دسترس میں لے آئی ہے!
’ ایلون مسک، مارک زکر برگ اور جیف بیزوس ٹرمپ کی حمایت کیوں کررہے ہیں‘

امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم کو آڑے ہاتھوں لے لیا، انہوں نے اپنے ایک پیغام میں بتایا ہے کہ ایلون مسک، مارک زکربرگ اور جیف بیزوز ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کیوں کر رہے ہیں۔ امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے کہا ہے کہ ” ایلون مسک، مارک زکربرگ اور جیف بیزوز ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کیوں کر رہے ہیں، اس کی ایک سادہ سی وجہ ہے”۔ انہوں نے کہا کہ”کیوں کہ یہ تینوں لوگ جانتے ہیں کہ ٹرمپ کی پالیسیاں امیر لوگوں کو اور بھی امیر بنا دیتی ہیں”۔ Musk, Zuckerberg and Bezos are working with Trump for one very simple reason: They understand that Trump’s policies are designed to make the wealthiest Americans even richer. These three men have become $232 billion richer since November. Not bad in a couple of months’ time! pic.twitter.com/D0W5XcoVeh — Bernie Sanders (@SenSanders) February 5, 2025 برنی سینڈرز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر لکھا کہ ” جب سے ٹرمپ حکومت میں آئے ہیں یہ تینوں لوگ 232 بلین ڈالر امیر ہوئے ہیں”۔ انہوں نے کہا کہ”ایلو ن مسک ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد 154 بلین ڈالر مزید امیر ہوئے ہیں”۔ ان کا کہنا تھا کہ”مسک نےچند ہفتوں کے دوران بہترین منافع کما لیا ہے۔ انہوں نے ٹرمپ کی الیکشن کمپین پر صرف کچھ سو ملین ڈالر خرچ کیے ہیں اور اب ان کی دولت میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے”۔ برنی سینڈرز کے مطابق”اسی طرح جیف بیزوز بھی ٹرمپ کے آنے کے بعد 35 بلین ڈالر مزید امیر ہوئے ہیں۔ جبکہ زکربرگ 43 بلین ڈالر مزید امیر ہوئے ہیں”۔ انہوں نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ”صرف چند ہفتوں میں اس قدر منافع کوئی برا منافع نہیں ہے”۔
انڈیا کا پانچ سال بعد شرح سود میں کمی کا تاریخی فیصلہ

ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) نے گزشتہ روز پانچ سالوں میں پہلی بار اپنی کلیدی شرح سود میں کمی کی ہے۔ یہ فیصلہ معیشت کو تیز رفتار دینے کی غرض سے کیا گیا، تاکہ بڑھتی ہوئی افراط زر اور سست شرح نمو کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اس فیصلے میں بنیادی 25 پوائنٹس کی کٹوتی کی گئی، جو کہ مئی 2020 کے بعد سے پہلی بار ہوئی ہے۔ ریزرو بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) کے تمام چھ ارکان نے اس کمی کے حق میں ووٹ دیا، جس سے واضح طور پر یہ پیغام ملا کہ آر بی آئی اب تک زیادہ سختی کے بجائے نرم پالیسی کی طرف بڑھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ فیصلہ عالمی ماہرین اقتصادیات کی پیش گوئیوں کے مطابق تھا۔ جس میں 70 فیصد سے زائد نے ایسی کٹوتی کی توقع ظاہر کی تھی۔ اس کمی کے ساتھ ہی ہندوستان کے 10 سالہ بانڈ کا منافع پانچ بنیادی پوائنٹس بڑھ کر 6.70 فیصد ہو گیا، جبکہ روپیہ اور بینچ مارک ایکویٹی انڈیکس میں معمولی کمی دیکھی گئی۔ آر بی آئی کے گورنر، سنجے ملہوترا نے اس پالیسی کے بعد کہا کہ “کمی کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کیونکہ معیشت کی بحالی کی توقعات کم ہیں، اور افراط زر کے حالات میں نرمی کی گنجائش موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال کی نسبت ترقی کی رفتار بہت سست رہی ہے، اور اس کے اثرات افراط زر پر پڑے ہیں جس نے شرح سود میں کمی کے لیے جگہ بنائی”۔ ملہوترا نے مزید کہا کہ “ایم پی سی نے اس بات پر غور کیا کہ اس وقت کم محدود پالیسی اختیار کرنا زیادہ مناسب ہے۔ کیونکہ اس سے معیشت کی ترقی میں مدد ملے گی۔ لیکن اس کے باوجود افراط زر اب بھی آر بی آئی کے مطلوبہ 4 فیصد ہدف سے کافی اوپر ہے۔ مگر گزشتہ ماہ دسمبر میں افراط زر کم ہو کر 5.22 فیصد تک پہنچ گیا، جو چار ماہ کی کم ترین سطح تھی”۔ حکومت ہند نے اس سال کی ترقی کی شرح کو 6.4 فیصد تک محدود رکھا ہے، جو پہلے کے تخمینوں سے کم ہے، اور اس کا بوجھ سست مینوفیکچرنگ سیکٹر اور کمزور کارپوریٹ سرمایہ کاری پر ہے۔ یہ بھارت کی گزشتہ چار سالوں میں سب سے سست ترقی ہوگی۔ اگلے مالی سال میں ترقی کی پیش گوئی 6.3 فیصد سے 6.8 فیصد کے درمیان کی گئی ہے، جبکہ آر بی آئی نے اگلے سال کی ترقی کی شرح 6.7 فیصد تک پیش گوئی کی ہے۔ ملہوترا نے کہا کہ روزگار کی صورتحال میں بہتری، ٹیکس میں کمی، افراط زر میں کمی اور مون سون کی بہترین بارشوں سے زرعی پیداوار میں اضافے کی توقع ہے، جو معیشت کے لئے حوصلہ افزا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ غذائی افراط زر میں کمی کی توقع ہے، لیکن توانائی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ افراط زر کے منظر نامے کے لیے ایک خطرہ بن سکتا ہے۔ سٹیٹ بینک آف انڈیا کی سینئر ماہر اقتصادیات رادھیکا راؤ نے کہا کہ ایم پی سی نے غیر جانبدار موقف اختیار کیا، مگر وہ اس بات سے بچتے ہوئے دوٹوک اشارے دینے سے گریز کر گئے۔ اس پالیسی کے بعد معیشت میں مزید بہتری کے آثار دیکھے جا سکتے ہیں، لیکن مستقبل میں توانائی کی قیمتوں اور عالمی اقتصادی حالات کی غیر یقینی صورتحال کے اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ملہوترا کے عہدہ سنبھالنے کے بعد، روپیہ میں کمزوری اور اتار چڑھاؤ میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ مرکزی بینک کرنسی پر اپنی گرفت نرم کر رہا ہے۔کیونکہ داس کے دور میں روپے کی قدر کو محدود رکھنے کے لیے بھاری مداخلت کی گئی تھی۔ یہ فیصلے اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ آر بی آئی معیشت کی ترقی کے لئے ایک نرم مگر محتاط پالیسی اختیار کر رہا ہے، جس کا مقصد عالمی اقتصادی صورتحال اور اندرونی چیلنجز کے باوجود معیشت کو مستحکم اور ترقی کی راہ پر ڈالنا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرے گا، یہ واضح ہو گا کہ کیا یہ فیصلہ بھارتی معیشت کے لئے ایک نیا آغاز ثابت ہوگا یا پھر یہ مشکلات کا سامنا کرے گا۔
لاہور سے زیادہ بڑے رقبے کو تباہ کر سکنے والا سیارچہ زمین کی جانب بڑھ رہا ہے، کیا پریشان ہوا جائے؟

خلائی سائنس کے ماہرین کی یہ اطلاع بہت سے ذہنوں کے لیے تشویش کا باعث ہے کہ ایک سینکڑوں فٹ بڑا سیارچہ زمین کی جانب بڑھ رہا ہے۔ زمین سے ٹکرانے کی صورت میں خدشہ ہے کہ یہ لاہور کے مجموعی رقبے سے زیادہ حصے کو تباہ کر سکتا ہے۔ ماہرین نے ابتدائی اطلاع میں بتایا تھا کہ زمین کی جانب بڑھنے والے سیارچے کا حجم 330 فٹ ہے۔ اسے ‘کرسمس ایسٹیرائیڈ’ (2024 (YR4 کا نام دیا گیا ہے۔ جنوری میں سامنے آنے والی رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ اس سیارچہ کے زمین سے ٹکرانے کی صورت بڑے پیمانے پر تباہی کا خدشہ تو نہیں لیکن یہ جس شہر سے ٹکرایا اس میں غیرمعمولی تباہی لا سکتا ہے۔ کئی ہفتوں تک سیارچے کی رفتار اور دیگر پہلوؤں کا مطالعہ کرنے کے بعد ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دسمبر 2032 میں زمین تک پہنچے گا۔ البتہ ماضی کی نسبت اس مرتبہ جو اطلاع اطمینان بخش ہے وہ یہ کہ سیارچے کا زمین سے ٹکرانے کا امکان 1.3 فیصد ہے۔ ایریزونا یونیورسٹی میں سیارچے اور دیگر خلائی اجسام کی تلاش سے متعلق ڈیوڈ رینکن سے پوچھا گیا کہ ‘کیا یہ ایسا معاملہ ہے جو لوگوں کی راتوں کی نیند اڑا دے گا؟’ جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ‘بالکل نہیں، ایسا نہیں ہے۔’ ماہرین کے مطابق سیارچے کے زمین سے ٹکرانے کا امکان ڈرا دینے والا ہے۔ اس کا حجم بھی اتنا ہے جو ممکنہ نقصان کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ ڈیوڈ رینکن کے مطابق جہاں 1.3 فیصد اس بات کا امکان ہے کہ یہ زمین سے ٹکرائے گا، وہیں 98.7 فیصد امکان ہے کہ یہ نہیں ٹکڑائے گا۔ ماہرین کے مطابق زمین سے بہت زیادہ فاصلے پر ہوتے ہوئے اس کا علم ہو جانا ایک اچھی علامت ہے۔ 2024 YR4 کی شناخت کب ہوئی؟ ناسا کی جانب سے زمین کی طرف آنے والے خلائی اجسام پر نظر رکھنے کے لیے نصب کردہ چار ٹیلی سکوپس میں سے ایک نے 27 دسمبر کو اس سیارچے کو تلاش کیا۔ چلی میں نصب ٹیلی سکوپ نے اس وقت اسے دیکھا جب یہ مدار میں زمین کے نسبتاً قریب تھا۔ اس کے بعد مذکورہ سیارچہ مدار میں دور اور کمزور ہوتا چلا گیا۔ 2024 YR4 کتنا بڑا ہے؟ یورپی خلائی ایجنسی کے مطابق یہ سیارچہ 130 سے 330 فٹ طویل ہے۔ اس سائز کا اندازہ سورج کی اس روشنی سے لگایا گیا جو اس سے منعکس ہو رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ جانے بغیر کہ سیارچے کی سطح کتنا انعکاس رکھتی ہے، اس کے حجم سے متعلق کئی اندازے قائم کیے گئے ہیں۔ سیارے کے حجم کے متعلق مزید درست اندازہ لگانے کے لیے راڈار کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ البتہ یہ تب تک ممکن نہیں جب تک سیارچہ مدار میں گردش کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر قریب نہیں آجاتا۔ امکان ہے کہ 17 دسمبر 2027 کو ایسا ہو گا۔ کیا اس سائز کا سیارچہ تشویشناک ہے؟ ماہرین کا سادہ جواب ہے ‘جی ہاں’۔ 130 فٹ کا سیارچہ ٹنگوسکا نامی اس سیارچے جتنا ہے جو سائبیریا میں 1908 میں بھٹا تھا۔ اس سے لاہور شہر سے تقریبا ڈیڑھ گنا رقبہ کا حامل 800 مربع میل کا جنگل تباہ ہو گیا تھا۔ 330 فٹ کا سیارچہ اس سے زیادہ تباہی کا باعث ہو سکتا ہے۔ کسی شہر سے ٹکرانے کی صورت میں اس کا بڑا حصہ تباہ کر سکتا ہے۔ اگر سیارچہ خلا میں اپنے سفر کے دوران ضائع نہیں ہوتا اور کسی سمندر کے زمین سے قریبی علاقے میں گرتا ہے تو قریبی ساحلی پٹی پر غیرمعمولی طوفان لا سکتا ہے۔ 2032 میں سیارچہ ٹکرانے کا کتنا امکان ہے؟ ناسا کی جیٹ پروپلزن لیبارٹری کیلیفورنیا میں نصب ‘سنتری’ نامی پروگرام اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ کون سے خلائی اجسام زمین سے ٹکرا سکتے ہیں۔ جن سیارچوں کے ٹکراؤ کا امکان صفر نہ ہو انہیں یہ پروگرام اپنے مشاہدے میں رکھتا ہے۔ چونکہ کرسمس ایسٹیرائیڈ کے زمین سے ٹکرانے کا خدشہ معمولی سہی باقی ہے اس لیے ‘سنتری’ نے اسے اپنی مانیٹرنگ لسٹ کا حصہ رکھا ہے۔ اس پروگرام کے ابتدائی محدود مشاہدہ کے مطابق زمین سے ٹکراؤ سے متعلق غیریقنی زیادہ تھی۔ جب مشاہداتی ڈیٹا بڑھ کر سینکڑوں میں پہنچا تو اس نے ٹکراؤ کے خدشے کو بڑھانا شروع کر دیا۔ گزشتہ ایک ماہ میں ملنے والے ڈیٹا کے بعد ٹکراؤ کا خدشہ ایک فیصد سے زیادہ ہو چکا ہے۔ ایسے کسی بھی خلائی جسم کے زمین سے ٹکرانے کے خدشے کی سطح جانچنے اور عوامی یا پالیسی میکنگ کی سطح پر اسے کیا ترجیح دی جائے کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک پیمانہ استعمال ہوتا ہے جسے ‘ٹورینو اسکیل’ کہتے ہیں۔ ٹکراؤ کا خدشہ کم ہو تو یہ پیمانہ صفر پر رہتا ہے، زیادہ ہو تو 10 تک بڑھ جاتا ہے۔ اس وقت ‘تورینو اسکیل’ پر کرسمس اسٹیرائیڈ کی سطح تین طے کی گئی ہے۔ اس نمبر کا مطلب ایک دہائی میں ہونے والا ٹکراؤ ہے۔ یہ اب تک کسی سیارچے کو دیا گیا دوسرا سب سے بڑا درجہ ہے۔ ماضی میں افوفیس نامی سیارچے کو خطرہ مان کر اسے مشاہدے میں رکھا گیا جو تورینو اسکیل پر چار تک پہنچا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ کی گھروں میں گاڑی دھونے پر پابندی: 10 ہزار جرمانہ

لاہور ہائیکورٹ نے گھروں میں گاڑیاں دھونے والوں کو 10 ہزار جرمانہ کرنے کے احکامات دے دیے۔ اسموگ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ “باقاعدہ مہم چلانی چاہیے کہ گھروں میں گاڑیاں دھونا سختی سے منع ہے، پانی کومحفوظ بنانے کیلئےباقاعدہ رولز بنانے کی ضرورت ہے”۔ عدالت نے کہا کہ “اگر گھروں میں گاڑیاں دھونے کا کام ختم کرا لیں تو آپ بہت سا پانی بچا سکتے ہیں، اس حوالے سے پورے شہر میں بینر اور پوسٹر لگائیں کہ گھروں میں گاڑیاں دھونا منع ہے، گھروں میں گاڑیاں دھونے والوں کو 10 ہزار جرمانہ کریں۔ ڈولفن کی ذمہ داری لگائیں کہ وہ مکمل مانیٹرنگ کرے”۔ عدالت نے قرار دیا کہ پانی کا مسئلہ صرف لاہور نہیں بلکہ پورے پنجاب کا ہے، میں جانتا ہوں کہ حکومت پورے پنجاب کو فوکس کر رہی ہے جو کہ اچھی بات ہے، واٹر اتھارٹی بنانے کی تجویز دی تھی اسکا کیا بنا؟ ہماری مساجد میں سب زیادہ پانی کا ضیاع ہورہا ہے، آپ نماز پڑھنے جا رہے ہیں اور پانی ضائع کر رہے ہیں اسے روکنا بہت ضروری ہے، مسجدوں میں واٹر ٹیپ بند ہونا چاہیے، مسجدوں میں ایک واٹر ٹینک ہوں ڈبے سے پانی نکال کر وضو کریں”۔ ممبر جوڈیشل کمیشن نے کہا کہ “واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ بھی بہت ضروری ہیں، عدالت نے حکام دیا کہ جس پٹرول پمپ پر واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ نہیں ہے اسے سیل کردیں، پہلی وارننگ دے کر ایک لاکھ جرمانہ کریں ، اپنے رولز میں ترمیم کریں اور جرمانے بڑھائیں”۔ عدالت نے کہا کہ “ویتنام میں ٹریفک کی بری حالت تھی وہاں جرمانے بڑھائے گئے سب سیدھے ہوگئے، جرمانے بڑھائیں سب سیدھے ہوجائیں گے”۔ جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ “ٹریفک والے کدھر ہیں کرکٹ میچ شروع ہونے والے ہیں، لوگوں کو مصیبت پڑی ہے ٹریفک پولیس کیا کر رہی ہے، عدالت نے آئندہ سماعت پر سی ٹی او لاہور کو ذاتی حیتث میں طلب کر لیا۔ لوگوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ ٹیموں کی آمدروفت کس وقت ہے، سڑکوں پر ٹریفک کے متبادل روٹس کے بورڈ لگے ہونے چاہیں، دو تین ماہ پہلے سے پتہ ہے یہاں چمپیئنز ٹرافی ہونی ہے یہ دفتروں سے باہر نہیں نکلتے۔
فلپائن میں امریکی جاسوس طیارہ گر کر تباہ، 4 افراد ہلاک

فلپائن میں امریکی فوج کا جاسوس طیارہ گر کر تباہ ہوگیا، جس کے نتیجے میں طیارے میں سوار چار اہلکار ہلاک ہوگئے۔ یہ دل دہلا دینے والا حادثہ جنوبی فلپائن کے علاقے ماگوئندانو ڈیل سور میں پیش آیا۔ جہاں چاول کے کھیتوں میں بیچ کرافٹ کنگ ایئر 350 کا ملبہ دکھائی دے رہا ہے۔ حادثے کی تصاویر، جن کی تصدیق ایک امریکی دفاعی عہدیدار نے کی ہے۔ عہدیدار نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے فوجی اہلکار کا تعلق امریکی میرین کور سے تھا۔ لیکن اس بات کا تاحال پتا نہیں چل سکا کہ تین دفاعی ٹھیکیدار بھی امریکی شہری تھے یا نہیں۔ یہ حادثہ فلپائن کی درخواست پر امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے انٹیلی جنس، نگرانی اور جاسوسی کی سرگرمیوں کے لیے تفویض کیے گئے معمول کے مشن کے دوران پیش آیا۔ امریکی فوج کی انڈو پیسیفک کمانڈ کے مطابق، یہ دو انجن والا ٹربو پروپ طیارہ فلپائن کے لیے اپنی خدمات فراہم کر رہا تھا۔ تاہم حادثے کی وجہ کا پتہ ابھی تک نہیں چل سکا۔ طیارہ میٹرا اسپیشل ایرو اسپیس آئی ایس آر انکارپوریٹڈ میں رجسٹرڈ تھا اور اپنی دفاعی شراکت داریوں کے لیے ایئربورن انٹیلی جنس، سرویلنس اور ریکونسنس (اے آئی ایس آر) حل فراہم کرتا تھا۔ یہ حادثہ فلپائن کے نئے وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ اور ان کے ہم منصب وزیر قومی دفاع گلبرٹو ٹیوڈورو جونیئر کے درمیان پہلی ملاقات کے اگلے دن پیش آیا۔ ٹیلی فونک گفتگو میں دونوں رہنماؤں نے بحیرہ جنوبی چین میں ڈیٹرنس کی اہمیت اور فلپائن کی فوجی صلاحیتوں کو مزید بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
انڈین تارکینِ وطن کے ساتھ امریکا کا امتیازی سلوک: ہاتھ پاؤں باندھ دیے

وطن واپسی کی 40 گھنٹے کی پرواز کے دوران امریکا سے ڈی پورٹ کیے گئے 104 غیر قانونی ہندوستانی تارکینِ وطن کو اپنی نشستوں سے ہلنے نہیں دیا گیا، پورے سفر کے دوران ہاتھ اور ٹانگیں بندھی رہیں۔ 104 ہندوستانی شہریوں کو منگل کی رات ایک فوجی طیارے سے امریکہ سے ملک بدر کیا گیا، 40 گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد یہ طیارہ امرتسر پہنچا، پولیس اور سول انتظامیہ کے اہلکاروں نے افراد کو وصول کیا، جن میں 79 مرد اور 25 خواتین شامل تھیں۔ ذرائع کے مطابق ڈی پورٹ کیے گئے زیادہ تر افراد امریکا میکسیکو سرحد پر پکڑے گئے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی تاریخ کی سب سے بڑی ملک بدری کرنے کا وعدہ کیا ہے، یو ایس امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ تقریباً 18000 غیر دستاویزی ہندوستانی شہریوں کی فہرست مرتب کر لی ہے، ملک بدری کی پہلی کھیپ میں ٹرمپ حکومت نے 104 غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کیا ہے۔ امریکا سے تقریباً 1.5 ملین افراد کو ملک بددری کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ پیوریسرچ سینٹر کے اعدادوشمار کے مطابق انڈیا سے تقریباً 725000 غیر قانونی تارکینِ وطن امریکا میں مقیم ہیں۔ یونائیٹڈ اسٹیٹس کے کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن نے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک ویڈیو جاری کی، جس میں غیر قانونی تارکینِ وطن کو ہتھکڑیوں اور ٹخنوں میں جکڑے ہوئے دکھایا گیا تھا ۔ ویڈیو کے کیپشن میں لکھا ہوا تھا کہ یو ایس بی پی اوراس سے مشترکہ اداروں نے بڑی کامیابی کے ساتھ غیرقانونی ہندوستانیوں کو فوجی طیارے کا استعمال کرتے ہوئے واپس بھیج دیا ہے، جوکہ ملک بدری کی اب تک کی لمبی پرواز ہے۔ یہ مشن امیگریشن قوانین کو نافذ کرنے اور فوری طور پر ہٹائے جانے کو یقینی بنانے کے لیے ہمارے عزم کوواضح کرتا ہے۔ کیپشن میں تنبیہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ‘اگر آپ غیر قانونی طور پر کراس کرتے ہیں تو آپ کو ہٹا دیا جائے گا۔ وطن واپس پہنچانے پر تارکینِ وطن نے میڈیا کو بتایا کہ انھیں 40 گھنٹے کی لمبی پرواز کے دوران ہتھکڑیوں میں جکڑ کر بٹھایا ہوا تھا اور ان کےپاؤں تک جکڑے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمارے ساتھ غیر انسانی رویہ اختیار کیا گیا، پرواز کے دوران ہمیں کھانا ہتھکڑیوں میں کھانا پڑا، یہاں تک کہ واش روم جانے کے لیے ہمیں گھنٹوں منت کرنا پڑتی تھی اورپھر ہمیں بند ہتھکڑیوں میں واش روم میں دھکیل دیا جاتا تھا۔’ امریکا کے اس عمل نے عوام اور پارلیمنٹ دونوں میں امریکا مخالف جذبات کو بڑھا دیا ہے۔ ملک بدر کیے گئے ہندوستانیوں کے ساتھ ہونے والے نارروا سلوک نے انڈیا میں سیاسی طوفان برپا کر دیا ہے۔ سابق وزیرِاعلٰی اور کانگریس کے رکن پارلیمنٹ چرنجیت سنگھ چنی نے اس سلوک کو ‘غیرانسانی’ قرار دیا ہے۔ کانگریس پارلیمنٹ کے ایک اور رکن گرجیت سنگھ اوجلا نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ‘انھیں ہتھکڑیاں لگا کر واپس کیوں لایا گیا؟ ہم نے جانچ پڑتال کی ہے۔ جب دوسرے ممالک کے تارکینِ وطن کو بنا ہتھکڑیوں کے ڈی پورٹ کیا گیا ہے تو ہمارے نوجوانوں کے ساتھ ایسا کیوں کیا گیا ہے؟ ‘طیارے کو امرتسر میں اترنے کی اجازت دی گئی پر دہلی میں کیوں نہیں؟ مرکز جان بوجھ کر پنجاب کو خراب روشنی میں پیش کرنا چاہتا ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر اور چندی گڑھ کے رکن پارلیمنٹ منیش تیواری نے اس سلوک کی مذمت کی اور کہا کہ ‘لوگوں کو ہتھکڑیاں اور بیڑیاں لگانا بالکل غیر انسانی ہے، انھیں ملک بدر کرتے ہوئے 40 گھنٹے کی لمبی پرواز کے دوران بیت الخلا استعمال کرنے کیااجازت نہیں دی گئی، ان کا جرم آخر کیا ہے؟’ امریکا کے اس اقدام سے سیاسی رہنما اور لوگ وزیرِاعظم نریندر مودی پر سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر ٹرمپ ان کا دوست ہے تو اس سے بات چیت کرے، ہندوستانیوں کے ساتھ ایسا سلوک کرنا غیر انسانی ہے۔
’جیتو بازی کھیل کے‘ چیمپئنز ٹرافی کا گانا آگیا

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل(آئی سی سی) نے چیمپئنز ٹرافی کے آفیشل سانگ کا پرومو ریلیز کر دیا،عاطف اسلم کی سریلی آواز میں ‘جیتو بازی لڑ کے’ ترانے کا پرومو ریلیز کیا گیا ہے، ترانہ کل 7 فروری کو ریلیز کیا جائے گا۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل آئی سی سی نے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر19 فروری سے پاکستان میں شروع ہونے والی چیمپئنز ٹرافی 2025 کے آفیشل ترانے کا پرومو ریلیز کردیا ہے۔ ایکس پر جاری کردہ پرومو کے کیپشن میں آئی سی سی نے لکھا ہے کہ ‘ایک مشہور ٹورنامنٹ کے ساؤنڈ ٹریک کے لیے ایک افسانوی آواز پیش ہے، 7 فروری کو چیمپئنز ٹرافی کا آفیشل سونگ ریلیز کیا جائے گا۔’ ایکس صارفین کی جانب سے دلچسپ تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ صارفین نے سانگ کی آواز، معیار اور اندازوغیرہ پر ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ تمام پاکستانی اور ہندوستانی کرکٹ شائقین سے گزارش ہے کہ کرکٹ کی وجہ سے عاطف سے نفرت کرنا چھوڑ دیں۔ اس نے محض ترانہ گایا ہے، آپ اپنی ٹیم کی دشمنی میدان میں دیکھائیں ، گلوکار کی طرف نہیں۔ اسپورٹس مین شپ کا اظہار کریں اور فضول حرکتوں سے اجتناب کریں۔ ایک صارف نے پاکستان کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ عاطف اسلم ایک لیجنڈری آواز کے ساتھ ایک لیجنڈ گلوکار ہیں اور بدقسمتی سے پھر خوش قسمتی سے ان کا تعلق پاکستان سے ہے، پاکستان کو شاباش۔ دوسری جانب ایک صارف نے لکھا کہ میں پاکستانی پرچم اور دیگر قومی جھنڈوں کے حوالے سے ہندوستان کا ایک برابر سائز کا جھنڈا ویڈیو میں دیکھ سکتا ہو، لیکن اس کے برعکس 2023 کے آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ کی ویڈیو میں پاکستانی پرچم کو دوسرے پرچموں کے حوالے سے چھوٹا دکھایا گیا تھا۔ ایک اور صارف نے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ اب اگر یہ گانا اچھا نہ ہوا تو اسکواڈ کی معافی مل سکتی ہے، مگر اس کی نہیں ملے گی۔ ایک صارف نے سانگ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ کرکٹرز کے لیے یہ ایک زبردست گانا ہےاور آواز لاجواب ہے۔ایک اور صارف نے لکھا ہے کہ چیمپئنز ٹرافی کے ترانے میں عاطف کی شمولیت یقینی طورپر ٹورنامنٹ میں ایک خاص ٹچ شامل کرے گی۔ عاطف اسلم کو لانے کے لیےواقعی ایک زبردست اقدام کیا گیا ہے، ان کی جادوئی آواز سے پیار ہےاور اب مزید چیمپئنز ٹرافی کے ترانے کا انتظار نہیں کر سکتے۔ ایک صارف کو عاطف کے نئے ترانے نے ماضی کی یاد دلا دی۔ اس نے لکھا کہ عاطف اسلم کی آواز بہت پیاری ہے، مجھے یاد ہے جب انھوں نے 2017 میں ‘ٹائیگر زندہ ہے’فلم میں گانا گایا تھا ‘دل دیاں گلاں’، جو میں آج بھی لوپ میں چلاتا ہوں۔
ٹرمپ نے عالمی عدالت پر پابندیوں میں اضافہ کردیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انٹرنیشنل کریمینل کورٹ پر پابندی لگانے کے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے، جس میں اس پر الزام لگایا گیا ہے کہ “امریکا اور ہمارے قریبی اتحادی اسرائیل کو نشانہ بنانے کے لیے ناجائز اور بے بنیاد اقدامات کیے جا رہے ہیں”۔ یہ اقدام ان افراد اور ان کے خاندانوں پر مالی اور ویزا پابندیاں عائد کرتا ہے جو امریکی شہریوں یا اتحادیوں کی آئی سی سی تحقیقات میں مدد کرتے ہیں۔ ٹرمپ نے اس اقدام پر اس وقت دستخط کیے جب اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو واشنگٹن کا دورہ کر رہے تھے۔ گزشتہ نومبر میں، آئی سی سی نے غزہ میں مبینہ جنگی جرائم پر نیتن یاہو کے لیے گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تھاجس کی اسرائیل نے تردید کی تھی۔ آئی سی سی نے حماس کے ایک کمانڈر کے وارنٹ بھی جاری کیے تھے۔ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر میں کہا گیا ہے کہ آئی سی سی کے حالیہ اقدامات نے ایک خطرناک مثال قائم کی جس نے امریکیوں کو ہراساں کیا اور گرفتاری کے خطرے میں ڈال دیا۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ “آئی سی سی کی سرگرمیاں امریکا کی خودمختاری کی خلاف ورزی کا خطرہ ہے اور امریکا کی حکومت اور اسرائیل سمیت ہمارے اتحادیوں کے اہم قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے کام کو نقصان پہنچتا ہے”۔ وائٹ ہاؤس نے آئی سی سی پر الزام لگایا کہ وہ ایران اور اسرائیل مخالف گروپوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔ اپنے پہلے دور اقتدار میں، ٹرمپ نے آئی سی سی کے عہدیداروں پر پابندیاں عائد کیں جو اس بات کی تحقیقات کر رہے تھے کہ آیا امریکی افواج نے افغانستان میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ گزشتہ ماہ، امریکی ایوان نمائندگان نے آئی سی سی کی منظوری کے حق میں ووٹ دیا، لیکن سینیٹ میں بل کی بنیاد رکھی گئی۔ 120 سے زیادہ ممالک اس عدالت کے رکن ہیں، جن میں کئی یورپی ممالک بھی شامل ہیں، لیکن امریکا اور اسرائیل نہیں ہیں۔ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر میں کہا گیا ہے کہ ” امریکا اور اسرائیل فوجوں کے ساتھ جمہوریت کی ترقی کر رہے ہیں جو جنگ کے قوانین پر سختی سے عمل پیرا ہیں”۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر امریکا کے غزہ پر قبضے کی بات دہرائی ہے۔ ٹرمپ نے جمعرات کو کہا کہ “اسرائیل جنگ کے اختتام پر غزہ کی پٹی امریکا کے حوالے کر دے گا۔‘ انھوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اس کا مطلب فلسطینیوں کو دوبارہ آباد کرنا ہے اس کام کے لیے کسی امریکی فوجی کی ضرورت نہیں پڑے گی”۔ ٹرمپ کے دوبارہ آبادکاری کے خیال نے نسل کشی کی منصوبہ بندی جیسے الزامات کو جنم دیا ہے اور اقوام متحدہ، انسانی حقوق کے گروپوں اور عرب رہنماؤں کی جانب سے اس کی مذمت کی گئی ہے۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس پر عمل ممکن نہیں۔ اس معاملے پر ٹرمپ کے پہلے تبصرے کے بعد ان کی انتظامیہ کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ ایسی کسی بھی قسم کی نقل مکانی عارضی ہو گی۔ ٹرمپ کا غزہ کا ’کنٹرول سنبھالنے‘ کا منصوبہ: ’یہ پلان کام نہیں کرے گا لیکن اس کوشش کے خطرناک نتائج ہو سکتے ہیں‘ ’ہم اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں گے‘ ٹرمپ کا غزہ کو ’پاک کرنے‘ کا منصوبہ جسے مصر اور اردن مسترد کر چکے ہیں۔ اپنے منصوبے کے متعلق ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ “غزہ کے باشندے ’خطے میں نئے اور جدید گھروں میں پہلے سے زیادہ محفوظ اور زیادہ خوبصورت کمیونٹیز میں آباد ہو چکے ہوں گے”۔‘ انھوں نے کہا کہ اس کے بعد امریکہ انکلیو کو دوبارہ تیار کرنے کی کوششوں کا حصہ بنے گا۔ ٹرمپ نے مزید لکھا کہ ’انھیں درحقیقت خوش، محفوظ اور آزاد رہنے کا موقع ملے گا۔ امریکہ پوری دنیا کی عظیم ترقیاتی ٹیموں کے ساتھ کام کر رہا ہے اور آہستہ آہستہ اور احتیاط سے اس کی تعمیر شروع کر دے گا جو زمین پر اپنی نوعیت کی سب سے بڑی اور شاندار پیشرفت ہو گی۔ اس کے لیے امریکہ کو کسی فوجی کی ضرورت نہیں پڑے گی اور خطے میں استحکام راج کرے گا۔‘ ان کی پوسٹ نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا فلسطینی سرزمین کے 20 لاکھ باشندوں کو واپس آنے کی اجازت دی جائے گی یا نہیں۔ بین الاقوامی قانون کے تحت مقبوضہ علاقے سے آبادی کو زبردستی منتقل کرنے کی کوششیں سختی سے ممنوع ہیں۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے بدھ کو کہا کہ کسی بھی قسم کی نقل مکانی عارضی ہو گی۔ اسی دن کیے گئے اپنے تبصروں میں سکریٹری آف سٹیٹ روبیو کا کہنا تھا کہ خیال یہ ہے کہ غزہ کے باشندے ایک ’عبوری‘ مدت کے لیے علاقہ چھوڑ دیں اور اس دوران یہاں سے ملبہ صاف کیا جائے گا اور علاقے کی تعمیرِ نو ہو گی۔ یہ خیالات اس معاملے پر ٹرمپ کے ابتدائی تبصروں سے متصادم ہیں۔ منگل کو خطاب کرتے ہوئے انھوں نے غزہ کو ’مشرق وسطیٰ کا ریوریا‘ بنانے کی تجویز پیش کی۔ ٹرمپ نے تجویز کیا تھا کہ فلسطینیوں کی نقل مکانی مستقل ہو گی۔ انھوں نے منگل کو اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ امریکہ غزہ کی پٹی پر قبضہ کرے گا اور ہم وہاں کام کریں گے۔
نفیس کاریگری، باریک نقش و نگار: سوات کا مسحور کن فرنیچر

صوبہ خیبرپختونخوا کا شہر سوات اپنی قدرتی خوبصورتی اور دلکش نظاروں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہاں کے ہنر مند کاریگر ہاتھ سے بنے لکڑی کے انٹیک فرنیچر کی تیاری میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ یہ فرنیچر مکمل طور پر روایتی تکنیک اور ہاتھ کی مہارت سے تیار کیا جاتا ہے، جس میں دیودار اور شہتوت جیسی اعلیٰ معیار کی مضبوط لکڑی استعمال کی جاتی ہے۔ سواتی فرنیچر اپنی نفیس کاریگری، باریک نقش و نگار اور روایتی ڈیزائنز کی بدولت پہچانا جاتا ہے۔ ہر فرنیچر کا ٹکڑا پرانی روایات اور ثقافت کا عکس ہوتا ہے، جو نہ صرف دیکھنے میں دلکش ہے بلکہ پائیداری کے اعلیٰ معیار پر پورا اترتا ہے۔ سواتی فرنیچر ملک بھر میں مقبول تو ہے ہی لیکن اس کی طلب بیرونِ ممالک میں بھی بہت زیادہ ہے۔ امریکہ، یورپ، اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں لوگ اس فرنیچر کو اپنی گھریلو سجاوٹ کا حصہ بناتے ہیں کیونکہ یہ انہیں پرانے وقتوں کی سادگی اور خالص پن کی یاد دلاتا ہے۔ سوات کے کاریگر جدید مشینری کی بجائے روایتی اوزار استعمال کرتے ہیں، جس سے ہر ٹکڑے میں ان کی محنت اور مہارت کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔ یہ فرنیچر نہ صرف گھروں اور دفاتر کی زینت بنتا ہے بلکہ ہوٹلوں، ریزورٹس، اور ثقافتی مقامات پر بھی اپنی خوبصورتی بکھیرتا نظر آتا ہے۔ اس صنعت کی بدولت سوات میں مقامی معیشت کو فروغ مل رہا ہے۔ بہت سے خاندانوں کا روزگار بھی اسی ہنر سے جڑا ہوا ہے۔ یہ فرنیچر نہ صرف ایک آرٹ فارم ہے بلکہ پاکستان کی ثقافتی ورثے کا اہم حصہ بھی ہے، جو دنیا بھر میں ہماری روایات اور ہنر مندی کی نمائندگی کرتا ہے۔ سوات کے ان کاریگروں کی محنت اور انٹیک فرنیچر کی منفرد خوبصورتی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ روایتی ہنر کبھی پرانا نہیں ہوتا، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی قدروقیمت مزید بڑھ جاتی ہے۔