
وفاقی وزرا سٹیج پر تھے اور ہرطرف ’حافظ حافظ ‘کے نعرے لگ رہے تھے، مجمع پرجوش تھا اور سٹیج پر کھڑے قائدین بھی خوشی سے نہال۔ محسن نقوی اور عطا تارڑ کچھ اور سوچنے کی کوشش کررہے تھے تو لیاقت بلوچ نے ان کے خیالات پر پانی پھیر دیا، وہ
تحریر : رانا علی زوہیب 8 جولائی 2025 کو کراچی کے ایک فلیٹ سے ماڈل اور اداکارہ حمیرا اصغر کی 6 ماہ پرانی گلی سڑی لاش کا ملنا صرف ایک خبر نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ ایک خوبصورت، معروف
بلاول بھٹو زرداری کا حالیہ غیر ملکی انٹرویو قومی خودمختاری، ریاستی بیانیے اور اجتماعی عزتِ نفس پر ایک ایسا کاری وار ہے جس کے مضمرات محض سیاسی نہیں بلکہ قومی سلامتی سے جڑے ہوئے ہیں۔وہ شخص جو اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کا چیئرمین ہے، ایک ایسی جماعت کا سربراہ،
کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ ساری زندگی عیش و عشرت اور من مانی کی زندگی گزاریں۔ نا کوئی انہیں روکنے والا ہو اور نا ٹوکنے والا۔۔۔ سوکالڈ پرائیویسی اتنی ہو کہ گھر کے کسی فرد کو تانکنے کی بھی اجازت نہ ہو۔۔۔ جو جی میں آئے وہ کیا جائے
تیس برس کے طویل وقفے کے بعد گذشتہ جمعہ کی صبح جب میں عبدالشکور صاحب کے ہمراہ ڈھاکہ کے بین الاقوامی ائرپورٹ پر اترا تو صرف ائر پورٹ کا نام نہیں، سیاست،حکومت،پالیسیاں،ترجیحات سمیت بہت کچھ بدل چکا تھا۔ سیاست بھی کسقدر بے رحم چیز ہے،زبر سے زیر اور ھست سے
وزیر دفاع اور مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما خواجہ آصف کے حالیہ بیان کو ہمارے دوست محمد بلال غوری نے قومی اخبار روزنامہ ‘جنگ’ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں بظاہر حقیقت پسندی اور جرات اظہار کی ایک مثال بن کر پیش کیا۔ مگر درحقیقت یہ تحریر ایک
نجی ٹی وی کے انتہائی دبنگ رپورٹر اور پنجاب حکومت کی آنکھ میں کھٹکنے والے ہمارے کولیگ اور دوست محمد عمیر نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ پر اپنے ایک ٹویٹ میں رپورٹ کیا ہے کہ ”لاہور میں رواں سال معاشی حالات، گریلو جھگڑوں اور دیگر وجوہات کی بناء پر اب
یہ کیسی ریاست ہے،جس میں وطن کو ماں کہنے والے بچے روز اس کی چھاتی پر تلوار چلاتے ہیں؟یہ کیسا نظام ہے جہاں حکمران عوام کی نبض پہ ہاتھ رکھنے کی بجائے ان کی شہ رگ پہ چھری رکھ کر کہتے ہیں “صبر کرو،یہ سب تمہارے بھلے کے لیے ہے”
تحریر: سید امجد حسین بخاری ضلع حویلی فارورڈ کہوٹہ آزاد کشمیر میں اتوار کی سہ پہر محکمہ جنگلات کی ایک گاڑی کو حادثہ پیش آتا ہے۔ اس گاڑی میں دو افراد فاریسٹ آفیسر اور ڈرائیور طاہر راٹھور( میرا کلاس فیلو، پڑوسی اور دوست) سوار تھے۔ گاڑی نیلفری چراگاہ سے آرہی
مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق کی جانب سے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ”ایکس“ پر کی گئی ٹویٹ نظر سے گذری تو دل و دماغ خواجہ صاحب کے لفظوں میں الجھ گیا، ایک نہیں کئی بار میں نے یہ ٹویٹ پڑھا۔ چند لائنوں کے اس ٹویٹ میں خواجہ