آپریشن ’بنیان مرصوص‘ کی کامیابی اور نواز شریف کو مرد مجاہد ثابت کرنے کا بیانیہ

Khalid shahzad blog

کبھی کبھی لفظوں کے بدن پر ایسی وردی پہنا دی جاتی ہے کہ وہ’ نعرہ ‘بن جاتے ہیں، وہی نعرہ جو قوموں کو جنگ میں دھکیل سکتا ہے یا پھر کسی ایک شخص کے ماتھے پر فاتح کا تمغہ چسپاں کر سکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کی جانب سے ایک ایسا ہی نعرہ تخلیق ہوا ’نواز شریف نے آپریشن بنیان مرصوص ڈیزائن کیا تھا‘ اور پھر اگلے ہی دن وزیر اعظم شہباز شریف  نے اس نعرے کی وردی اتار کر اسے گھریلو لباس پہنا دیا گیا کہ نہیں یہ سب کچھ تو آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کارنامہ تھا۔ گویا لفظ کسی میک اپ آرٹسٹ کے برش پر بیٹھا ہوا چہرہ ہو، جسے جب چاہو خوبصورت بنا لو، جب چاہو بدصورت لیکن سوال یہ ہے کہ اس چہرے کے پیچھے اصل چہرہ کون سا ہے؟ کیا جنگی منصوبہ بندی واقعی گلی کے نکڑ پر بیٹھے’ سیاسی کلب‘ کے ہاں چائے کے کپ کے ساتھ ترتیب دی جاتی ہے یا پھر اس کے پیچھے وہ ادارے ہوتے ہیں جن کا ہر فیصلہ، ہر حکمت عملی صدیوں پر محیط تربیت،بصیرت اور قومی سلامتی کی تہہ در تہہ فکروں کا مظہر ہوتا ہے؟۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی جنگی بادل چھائے، سیاستدانوں  نے’ اپنے منہ پر چمکدار پاوڈر‘لگا کر اسے ’انتخابی پوسٹر‘ بنانے کی کوشش کی، 1965 کی جنگ ہو یا کارگل کی گونج، ہر جگہ کہیں نہ کہیں کوئی ’سیاسی آہنگ‘داخل ہو ہی جاتا ہے جو پھر سالوں تک تاریخ کے سینے میں کانٹے کی طرح چبھتا رہتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں:‘آپریشن بنیان المرصوص’ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا، مریم نواز عظمیٰ بخاری کا دعویٰ بظاہر ایک جملہ تھا لیکن حقیقت میں یہ ایک پورا بیانیہ بنانے کی کوشش تھی، وہ بیانیہ جو نواز شریف کو ’مردِ مجاہد‘ ثابت کرے،جس  نے دشمن کی چھاتی پر خنجر کا خاکہ بنایا اور پھر اپنے بستر پر آرام سے لیٹ گیا کہ ’کام ہو جائے گا‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جنگیں کسی ہال میں،کسی پارٹی میٹنگ میں یا کسی کاغذ پر ’ڈیزائن‘ نہیں ہوتیں۔ یہ ان آنکھوں میں بنتی ہیں جنہوں  نے بارود کا دھواں سونگھا ہو،ان ہاتھوں میں ترتیب پاتی ہیں جنہوں  نے بندوق کے دہانے پر امید کا پرچم باندھا ہو اور ان دلوں میں پلتی ہیں جنہوں  نے شہداء کے جنازوں کو کندھا دیا ہو۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی تصحیح بظاہر ایک حکومتی وضاحت تھی لیکن حقیقت میں وہ سیاسی حقیقت پسندی کی ایک جھلک تھی،انہوں  نے اگرچہ اپنے بڑے بھائی کی سیاسی خواہشات پر ہلکی سی’ مٹی‘ ڈالی لیکن ریاستی بیانیے کو محفوظ کیا،کیونکہ اگر کل کو فوجی ترجمان آکر یہ کہہ دیتا کہ ’یہ تو سراسر افواہ ہے،فوج  نے از خود یہ فیصلہ کیا تھا‘ تو وہی نعرہ جو عظمیٰ بخاری  نے مچایا تھا، نعرہ مضحکہ بن کر ہر طنز نگار کے قلم کی زینت بن جاتا۔ یاد کیجیے 1999 کا کارگل، ایک ایسا باب جو آج بھی بند نہیں ہوا، اس وقت بھی ایک بیانیہ تشکیل دیا گیا تھا کہ ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا، فوج  نے خود سے سب کچھ کر لیا، نواز شریف نے اسی بیانیے کو بنیاد بنا کر امریکہ کی راہ لی اور وہاں جا کر ایک ایسے معاہدے پر دستخط کیے جسے نہ قوم نے قبول کیا، نہ فوج  نے۔  کارگل کی لڑائی میں بے شک سپاہی شہید ہوئے مگر سیاسی بیانیے  نے ایک پوری جنگ کو تجرباتی ناکامی بنا دیا۔اب جب دوبارہ جنگی کیفیت کی فضا بن رہی ہے تو پھر سے وہی سیاسی مہرے ایک نیا کھیل کھیلنے لگے ہیں۔ سیاستدان اکثر فوجی کامیابیوں پر قابض ہونے کی کوشش کرتے ہیں،جیسے بچپن میں چھوٹے بھائی کی شرارت پر بڑا بھائی سزا سے بچنے کے لیے کہہ دیتا تھا، ’جی ابا جی، یہ تو میرے کہنے پر کیا تھاحالانکہ چھوٹے نے اپنی مرضی سے ساری شیطانیت کی ہوتی تھی۔  سیاستدانوں کی یہ روش دراصل ایک اجتماعی نفسیاتی بیماری کا مظہر ہے، جہاں کریڈٹ لینا قومی خدمت سے زیادہ اہم ہو جاتا ہے،’آپریشن بنیان مرصوص‘ کا نام ہی بتاتا ہے کہ یہ کوئی جذباتی رد عمل نہیں تھا، یہ حکمت عملی، ٹارگٹڈ سٹرائیکس، انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز اور سفارتی توازن کے نازک دھاگے پر بنا ایک مربوط عمل تھا۔ یہ وہی آپریشن ہے جس کے بعد دشمن کے منہ سے دھواں نکلا اور دنیا بھر میں یہ پیغام گیا کہ پاکستان اپنے مفادات پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ مزید پڑھیں:پاکستان کا انڈیا کے خلاف آپریشن: اب تک کیا ہوا؟  کیا یہ سب کچھ مریم اورنگزیب کی پریس کانفرنس میں بیٹھ کر طے پایا؟ یا خواجہ آصف کی شعلہ بیانی میں ڈھلا؟ قطعاً نہیں، اسے ڈیزائن کیا گیاجی ایچ کیو کی راہداریوں میں، جہاں ہر فائل کے ساتھ ایک شہید کی تصویر جڑی ہوتی ہے، جہاں جنگ کو صرف فتح کے پیمانے سے نہیں بلکہ نقصان کم سے کم کے پیمانے سے پرکھا جاتا ہے۔ جہاں دشمن کو سبق سکھانے کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتوں کو بھی سفارتی پیغام دینا مقصود ہوتا ہے،یہ کھیل ان ہاتھوں کا نہیں جو ووٹ لینے کے لیے گلیوں میں وعدوں کی چاکنگ کرتے ہیں بلکہ ان ہاتھوں کا ہے جو بندوق اٹھاتے ہوئے بھی اللہ کا نام لیتے ہیں ۔ اب آتے ہیں وزیراطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کی نکتہ چینی پر،ان کی سیاست میں وفاداری کی مثال وہی ہے جو ٹرین کی سیٹ پر بیٹھے ہوئے مسافر کی ہوتی ہے،جہاں کھڑکی سے اچھا منظر آ رہا ہو، وہیں رخ بدل لیتا ہے،محترمہ کبھی آصف زرداری کی آنکھ کا تارا اور مریم نواز میں کیڑے نکالا کرتی تھیں، پھر ن لیگ میں آئیں تو نواز شریف کو جمہوریت کا ہمالیہ قرار دینے لگیں۔ اب وہی ہمالیہ، جنگی نقشے بھی بنانے لگا ہے سچ کہیے تو ان کے بیان میں اتنی ہی سنجیدگی ہے جتنی کچی پکّی جمی ہوئی جلیبیاں بیچنے والے کی آواز میں لیکن ایک پہلو اور بھی ہے جو اس پورے واقعے کو دلچسپ بناتا ہے، وہ ہے شریف خاندان کی بیانیہ سازی کی مسلسل کوشش۔  کبھی خود کو’ ووٹ کو عزت دو‘ کا علمبردار بنایا، کبھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ لیڈر اور اب فوجی آپریشنز کے معمار، گویا ہر روپ میں جلوہ

عالمی طاقتوں کا کھیل، شاہینوں نے بساط پلٹ دی

چند ہفتے قبل، ہندوستانی سنیما نے فلم “اسٹیٹ آف ایمرجنسی” پیش کی، جو بھارت کی انجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی زندگی اور ان کے سیاسی کیریئر میں ان کی ذاتی اور خاندانی زندگی کا ایک پہلو بیان کرتی ہے۔ فلم میں ڈرامے کی شدت اور اندرا گاندھی اور ان کے خاندان کی زندگی میں ہونے والے المناک رجحان کو دکھایا گیا ہے۔ لیکن اگر پاکستانی بھٹو خاندان جیسے خاندان کی سوانح عمری کو سینما اسکرین پر پیش کیا جائے تو اندرا گاندھی کی زندگی پر  بنائی جانے والی  فلم کتنی سادہ اور جوش سے خالی نظر آئے گی اس کا کو وہی لوگ جانتے ہیں جو بھٹو خاندان کی زندگیوں سے واقف ہیں۔ اشرافیہ کے پس منظر سے آنے والے اس خاندان کی تاریخ عروج و زوال، موت اور غداری، خون اور آنسوؤں کے غیر معمولی مراحل سے مزین ہے، جن کے مقابلے میں اقتدار کی جدوجہد اور ان کے نتائج کی ہندوستانی کہانی پھیکی پڑ جائے گی۔ یہ پاک بھارت کے صرف دو بااثر خاندانوں کا حوالہ ہی نہیں بلکہ ان خاندانوں سے دونوں ممالک کے سیاسی اقتصادی اور معاشی ترقی کا موازنہ کرنا ممکن ہے۔ 1947 میں وجود میں آنے والے پاکستان کو ابتدائی طورپر تمام ہی شعباجات میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد حالات نے ایک ہولناک رخ اختیار کر لیا، جسے بھارت کی تیار کردہ دہشتگرد تنظیم مکتی باہنی نے سپورٹ کیا اور یوں سنہ  1970 کی دہائی کے آخر پاکستانی سیاست اس وقت کے وزیرا عظم  ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے ساتھ اپنے خونی عروج پر پہنچ گئی۔ پاکستان جنرل ضیاء الحق کے ساتھ فوجی حکمرانی کے دور میں داخل ہوا، جو افغان جنگ سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہا، جس نے سوویت یونین کو نشانہ بنایا، دشمنوں کی بھرپور کوشش تھی کہ 1980 کی دہائی کے اختتام اور مشرقی بلاک کے خاتمے سے پہلے پاکستان کو یا تو غیر جانبدار یا ختم کردیا جائے لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا (وَ مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ) ترجمہ اور کافروں نے مکر کیا اور اللہ نے ان کے ہلاک کی خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ سب سے بہتر چھپی تدبیر والا ہے۔ یہ بات کسی سے چھپی نہیں ہے کہ پاکستان کا قیام انتہائی مشکل حالات میں ہوا اور اس نے اپنی پوری تاریخ میں پے در پے سانحات کا سامنا کیا ہے ایک ایسے نوزائدہ ملک کی مشکلات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جس کی سرحد کا تقریباً 3,310 کلومیٹرایک ایسے ملک کے ساتھ ہو جو اس کے وجود کا ہی دشمن بنا ہوا ہو، بھارت جو پاکستانی قوم پرستی کے جینیاتی میک اپ میں گہرائی تک سرایت کر چکا ہے وہ پاکستان کے وجود کا دشمن ہے اور بھارتی سیاست دان پاکستان کو اپنے ہر طرح کے مسائل کا ذمہ دار قرار دینے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، اس نظریے کو حقیقت بنانے کیلئے کبھی ترجیحی پوزیشن پر آگے بڑھتے ہیں اور کبھی پیچھے ہٹ جاتے ہیں، کبھی الزامات لگاتے ہیں توکبھی خفیہ تدابیر اور سازشیں کرتے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان نے کبھی بھی بھارت کے ساتھ کشیدگی میں پہل نہیں کی لیکن پاکستان جانتا ہے کہ بھارت مکاری اور چالبازی میں کسی حد تک جاسکتا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ وہ گیا بھی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پاکتسان ہندوستان کے حوالے سے چوکنا رہتا ہے، چاہے ان کے ارد گرد دنیا کی عسکری اور سیاسی نقل و حرکت کچھ بھی ہولیکن بھارت کے حوالے سے پاکستان کیانگلیاں  ہمیشہ ہی نیوکلیئر بٹن کے قریب رہتی ہیں اور ایسا کرنا پاکستان کے کی مجبوری بھی ہے لیکن پاکستان نے بھارت کی طرح اس حقیقت کو کبھی چھپایا نہیں، 1999 میں کارگل جنگ کے بعد پاکستان نے میں پہلی اسٹرائیک پالیسی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کیا۔ بھارت پاکستان کا دشمن ہے اور یہ بات کوئی راز نہیں ہے جہاں بھارت کو امریکہ، برطانیہ فرانس اور اسرائیل سمیت ہر اس ملک کی حمایت حاصل ہے جو مسلمانوں کے خلاف ظاہر اور مخفی دشمنی رکھتا ہے وہیں پاکستان کو چین، ترکی سعودی عرب سمیت تقریبا تمام ہی مسلمان ممالک کی حقیقی یا علامتی حمایت حاصل ہے جو کہیں نا کہیں اس بات کو سمجتھے ہیں کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور جس کی انتہائی پروفیشنل آرمی ہے اور ان ممالک کو کہیں نا کہیں پاکستان کی ضرورت پڑھتی ہی رہتی ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے عزائم سے آگاہ ہیں پاکستان زیادہ تر چینی ساختہ اسلحہ استعمال کرتا ہے وہیں بھارت اسلحے کے شعبے میں امریکہ، روس، فرانس، برطانیہ اور غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل پر انحصار کرتا ہے، بھارت مقبوضہ  کشمیر کے علاقے میں، اسرائیلی ساختہ ہیرون ڈرون کا استعمال کرتا ہے جو ناہموار پہاڑی علاقوں میں انٹیلی جنس اکٹھا کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ بھارت نے 2008 سے اسرائیلی ٹیور رائفلز پر بھی انحصار کیا اور 2019 کے پلوامہ حملے کے بعد پاکستان کے اندر فضائی حملوں میں SPICE-2000 پریزیشن گائیڈڈ سسٹم کا استعمال کیا۔ بھارت  دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار درآمد کرنے والا ملک ہے، جو کہ 2008 اور 2023 کے درمیان کل عالمی ہتھیاروں کی درآمدات کا تقریباً 10% خرچ کرچکا ہے۔ نئی دہلی اپنی فوج کو جدید بنانے اور اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے اگلی دہائی میں کم از کم $200 بلین خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس تناظر میں، اسرائیل بھارت کے سب سے بڑے ہتھیار فراہم کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے، گزشتہ دہائی کے دوران تقریباً 2.9 بلین ڈالر مالیت کے اسرائیلی ہتھیاروں کی نئی دہلی کو درآمدات، بشمول ریڈار، جاسوسی طیارے، جنگی ڈرون، اور میزائل سسٹم شامل ہے۔ اس تعاون کی سب سے نمایاں مثال بارک 8 ایئر ڈیفنس سسٹم ہے۔ ہندوستان فی الحال ان میزائلوں کی نئی جنریشن کو ہندوستانی دفاعی تحقیق اور ترقی کی تنظیم (DRDO) اور اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز کے درمیان تین مشترکہ منصوبوں میں متعارف کرانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ یہ بات ساری دنیا ہی جانتی ہے کہ جہاں بھارت پاکستان کا کھلا دشمن ہے وہیں غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل پاکستان کو اپنی راہ کی سب

ماں تجھے سلام

Whatsapp image 2025 05 11 at 5.50.10 pm

ماؤں کا دن منانے کا آغاز ایک امریکی خاتون اینا ہاروس کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ اینا ہاروس چاہتی تھیں کہ اس دن کو ایک مقدس دن کے طور پر سمجھا اور منایا جائے۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں دس مئی 1914 کو امریکا کے صدر ووڈرو ولسن نے مئی کے دوسرے اتوار کو سرکاری طورپر ماؤں کا دن قرار دیا۔ یومِ ماں یا ماں کا عالمی دن ہر سال یہ دن مختلف ممالک میں منایا جاتا ہے، عالمی طور پر اس کی کوئی ایک متفقہ تاریخ نہیں، یہ دن مختلف ممالک میں مختلف تاریخوں کو منایا جاتا ہے۔ پاکستان اور اطالیہ سمیت اکثر ممالک میں یہ دن مئی کے دوسرے اتوار کو منایا جاتا ہےاور کئی ایسے ممالک بھی ہیں، جو یہ دن جنوری ،مارچ ،نومبر یا اکتوبر میں مناتے ہیں۔ اس دن کو منانے کا مقصد اپنی والدہ کی اہمیت کا احساس کرنا، ان کی خدمت کرنا اور انہیں خوشی دینا ہے۔ ماں زندگی کا انمول تحفہ ہے، ماں کے بغیر انسان ادھورا ہے، ماں کے قدموں تلے جنت تو ہے مگروہ دنیا کا رحم دل انسان بھی ہے۔ ماں جب مجھے دودھ پلاتی تھی تو مجھے ایسے لگتا تھا جیسے جنت سے دودھ آیا ہے۔ میں روتا تو ماں بھی میرا ساتھ دیتی اور کہتی بیٹا کیا تکلیف ہے؟ تو میں اس وقت کچھ نہ بول سکتا تو میں رونے کے انداز میں ساری تکلیف ماں کو سنا دیتا تو ماں سمجھ جاتی مجھے کیا چاہیے ہے۔ مجھے اس ذات کے بارے میں لکھنا ہے جس کے گرد میری ہستی گھومتی ہے، جس کے ہونے سے میری دنیا مکمل ہوتی ہے۔ وہ جس جگہ نہیں ہوتی وہاں نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور جابیٹھتی ہے۔ وہ جو میری کامیابیوں کی وجہ ہے، وہ جو میری خوشیوں کی ضمانت ہے۔ جی ہاں! اسی ہستی کی بات کررہا ہوں جس کے ہوتے ہوئے گھر جنت ہے اور نہ ہوتے ہوئے کوئی ویران سا قبرستان، جو قدموں میں جنت رکھتی ہے تو ہاتھوں میں شفقت کا سایہ۔ صحیح سمجھے آپ: “محبت، عشق ، چاہت کا جو رشتہ میری ماں ہے۔۔۔بشر کے روپ میں گویا فرشتہ میری ماں ہے۔۔۔بنا جس کے میری ہستی کے سارے رنگ پھیکے ہیں۔۔۔وہی دلنشیں، خوش رنگ رشتہ میری ماں ہے۔” ماں اس کائنات کے سب سے اچھے ، سچے اور خوبصورت ترین رشتے کا نام ہے، خدائے برتر نے اس کائنات میں سب سے خوبصورت جو چیز تخلیق کی وہ ماں باپ ہیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا، بالخصوص ماں جیسی ہستی کو سب سے زیادہ فوقیت حاصل ہے۔ گلاب جیسی خوشبو، چودھویں کے چاند جیسی چاندنی، فرشتوں جیسی معصومیت، سچائی کا پیکر، لازوال محبت، شفقت، تڑپ، قربانی، پودے کا سبزہ، پھول کی رنگت، دریا کی روانی، پھل کی مٹھاس، سورج کی روشنی، آسمان کی بلندی، زمین کی وسعت، گھی کی نرمی، پرندے کی پرواز، چکور کا عشق سب مل کرانسان کا بنے تو مرمریں ستونوں کی بہشت ماں کی تخلیق عمل میں آئی۔ ماں کو جنت کی ضرورت نہیں بلکہ ماں خود ایک جنت ہے۔ میں کچھ بڑا ہوا تو ماں مجھ سے کہنے لگی “بیٹا جلدی بڑے ہو جاؤ تاکہ میری تکلیف میں کمی ہو۔” اس رات ماں خوب روئی، جب میں ملیریا بخار میں کانپتا رہا۔ ساری رات نہ ماں سو سکی نہ میں سوسکا۔ اگلے روز سویرے ماں مجھے ہسپتال لے گئی مگر ڈاکٹر دیر سے آیا تو ماں بہت پریشان ہو گئی اور بولی ڈاکٹر یہ ٹائم ہے آنے کا تو ڈاکٹر جلدی بولے ماں جی آج میری امی کو سخت بخار تھا اس لیے دیر ہو گئی، آپ کا بیٹا جلد ٹھیک ہو جائے گا۔ ڈاکٹر کی باتیں سن کر ماں خاموش ہوگئی، اسی وقت ڈاکٹر نے مجھے ایک انجیکشن لگایا تو آدھے گھنٹے میں میرا بخار اتر گیا اور ماں خوش ہوگئی۔ بچپن سے جوانی تک ماں میرا بہت خیال رکھتی رہی، کل ماں کے سر میں تھوڑا درد ہوا تو مجھے احساس ہوا ماں نے سالوں سال تک کس طرح مجھے پال پوس کے بڑا کیا اور میری کس طرح خدمت کی ہوگی۔ میں اپنے پیاری ماں جی کے ایک پل کا احسان کبھی نہیں اتار سکتا کیونکہ ماں خود ایک جنت ہے، اس جنت میں جو داخل ہوا وہ کامیاب ہوگا۔

جنگ کی دہلیز سے واپسی، فاشسٹ مودی سرکار اور عالمی طاقتوں کا کردار

دلی سرکار کی ہٹ دھرمی اور غیر ذمہ دارانہ رویے نے ایک بار پھر جنوبی ایشیا کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ پلوامہ کے سائے سے نکلنے سے انکار، پہلگام کے افسوسناک واقعے پر غیر سنجیدہ ردعمل اور اس کے بعد سرحد پار کارروائی کی جلد بازی اس بات کی گواہی ہے کہ مودی حکومت ایک بار پھر انتہا پسندی،انتخابی فائدے اور قوم پرستی کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ بھارتی میڈیا نے حسبِ معمول جنگی جنون کا پرچار کیا اور ایسے میں جب خطے میں موسمیاتی تباہی نے عوام کو بے حال کر رکھا ہے، نئی دہلی نے اپنے پڑوسی پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے فضا کو” بارود آلود“ کر دیا۔ پہلگام حملے میں 26 بے گناہ افراد کا قتل یقیناً ایک افسوسناک سانحہ ہے، جس کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی ضرورت تھی جبکہ پاکستان نے اس کی بروقت اور فوری پیش کش بھی کی مگر اس سانحہ سے بھی زیادہ افسوس ناک امر یہ تھا کہ مودی سرکار نے اپنی پرانی روش اپناتے ہوئے بغیر کسی ثبوت اور تفتیش کے فوری طور پر پاکستان پر الزام دھر دیا۔ اس غیر سنجیدہ اور خطرناک طرزِ عمل نے دو ایٹمی ممالک کو ایک مرتبہ پھر براہ راست فوجی تصادم میں دھکیل دیا اور پھر بھارت نے اپنی عسکری برتری جتانے کے زعم میں تمام حدیں پار کرتے ہوئے پاکستان کی حدود میں میزائل اور ڈرون حملے شروع کر دیے، بہاولپور، مریدکے، سیالکوٹ اور کوٹلی سمیت متعدد مقامات پر مساجد کو شہید کرتے ہوئے بے گناہ اور معصوم پاکستانیوں کو شہید کیا جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، مودی سرکار کی جانب سے اس جارحیت اور سفاکانہ کارروائی کا مقصد محض سیاسی فائدہ اٹھانا اور بھارتی عوام کی توجہ مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی زوال سے ہٹانا تھا۔ لیکن اس بار پاکستان نے بھی جواب میں کوئی مصلحت نہیں برتی۔ جب دشمن نے جارحیت کی تو پاکستانی شاہینوں نے فضائی حدود میں اپنی برتری ثابت کرتے ہوئے بزدل دشمن کو چاروں شانے چت کرتے ہوئے دھول چٹا دی۔ دفاعِ وطن کے مقدس فریضے کو ادا کرتے ہوئے بہادرپاکستانی افواج نے دشمن کو وہ سبق سکھایا جسے وہ مدتوں نہیں بھول سکے گا۔ بھارتی فوجی ٹھکانوں،ایئربیسز اور ہتھیاروں کے ذخائر کو ہدف بنا کر پاکستانی افواج نے واضح پیغام دیا کہ مادرِ وطن کی حرمت پر آنچ برداشت نہیں کی جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی مسلح افواج نے نہ صرف دشمن کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا بلکہ دنیا کو یہ بھی باور کروا دیا کہ پاکستان ایک ذمہ دار، باوقار اور دفاعی لحاظ سے مکمل خود کفیل ملک ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ امریکی ثالثی کے نتیجے میں بالآخر جنگ بندی کا اعلان ہوا اور دونوں ممالک نے تمام عسکری کارروائیاں روکنے پر رضا مندی ظاہر کی مگر سوال یہ ہے کہ ایسی نوبت کیوں آئی؟کیا بھارت کی سیاسی قیادت ہمیشہ خطے کے مسائل کو صرف ووٹ بینک اور الیکشن جیتنے کے تناظر میں دیکھتی رہے گی؟ کیا پاکستان ہمیشہ دفاعی پوزیشن میں رہ کر بین الاقوامی دباو پر انحصار کرتا رہے گا؟ کیا جنوبی ایشیا کے عوام ہمیشہ جنگی جنون، نفرت انگیز بیانیے اور مذہبی تعصب کی آگ میں جھلستے رہیں گے؟ بھارت اور پاکستان دو ایٹمی طاقتیں ہیں جن کے درمیان کسی بھی فوجی تصادم کے نتائج نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے لیے تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ نریندرا مودی کی قیادت میں ہندوستان کا جنگ کی جانب جھکاو انتہائی افسوسناک اور خودکشی کے مترادف ہے۔ جب عوامی مسائل کو نظر انداز کر کے مذہبی منافرت اور عسکری جنون کو بڑھاوا دیا جائے، جب بھارتی میڈیا حب الوطنی کے نام پر زہر اگلنے لگے، جب عسکری قیادتیں اپنی موجودگی کو سیاسی ضرورت بنائیں، تب امن کا خواب ایک تمسخر بن جاتا ہے۔ بھارت کی جانب سے بارہا پاکستان پر الزام تراشی اور سرجیکل سٹرائیک کے نام پر ڈرامے بازی کرنا، ایک پرانی اور آزمودہ چال ہے، جس کا مقصد صرف انتخابی فائدہ حاصل کرنا ہے۔ 2019 کی بالاکوٹ سٹرائیک کا انجام بھی دنیا نے دیکھا تھا، جب بھارتی طیارہ پاکستانی حدود میں مار گرایا گیا اور ونگ کمانڈر ابھی نندن کو چائے پلا کر واپس بھیجا گیا۔ پاکستانی فوج کی پیشہ ورانہ مہارت، جذبہ شہادت اور حب الوطنی کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ جس انداز میں انہوں نے حالیہ جارحیت کا جواب دیا، وہ محض ایک عسکری ردعمل نہیں بلکہ ایک واضح پیغام تھا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر کمزوری کا ہرگز مظاہرہ نہیں کرے گا۔ دشمن کو اگر امن کی زبان سمجھ نہیں آتی، تو وہ ہماری خاموشی کو کمزوری نہ سمجھے۔ اس کشیدہ صورتحال میں اگر علاقائی ممالک کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو ترکیہ نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے پاکستان کی مکمل حمایت کی۔ انقرہ سے جاری ہونے والے بیان میں ترکیہ نے پاکستان کے دفاعی اقدامات کو جائز قرار دیتے ہوئے بھارت پر زور دیا کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرے اور خطے کے امن کو داو پر نہ لگائے۔ ترکیہ کے صدر نے واضح طور پر کہا کہ پاکستان کا دفاع دراصل خطے کے امن کا دفاع ہے۔ چین کا ردعمل نسبتاً محتاط مگر بامعنی رہا۔ بیجنگ نے فوری طور پر فریقین سے تحمل کی اپیل کی اور بند کمرے کی سفارتی کوششوں میں سرگرم رہا۔ ذرائع کے مطابق چین نے اقوام متحدہ کی سطح پر بھارت کے خلاف نرم رویہ رکھنے کے باوجود، پس پردہ پاکستان کے موقف کی تائید کی اور بھارت کو عسکری حد سے تجاوز نہ کرنے کی وارننگ دی۔ ایران کا موقف بھی ثالثی پر مبنی رہا۔ تہران نے جنگ بندی کی اپیل کرتے ہوئے، خطے میں امن و استحکام کی ضرورت پر زور دیا البتہ ایران نے کسی ایک ملک کی کھل کر حمایت نہیں کی اور عمومی سفارتی زبان استعمال کی۔ سعودی عرب کی پالیسی روایتی مگر اہم رہی۔ سعودی وزیر خارجہ پہلے بھارت گئے، جہاں انہوں نے مودی سرکار کو دو ٹوک انداز میں کہا کہ سعودی عرب خطے میں جنگ نہیں بلکہ معاشی ترقی دیکھنا چاہتا ہے۔ بعد ازاں پاکستان آ کر وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی اور انہیں تحمل

جنگ بندی اور پاکستان کے لیے شاندار مواقع

سیز فائر تو ہوگیا مگر انڈیا اور پاکستان کے درمیان اس جنگ کے بعد ایک نیا خاکہ بھی اب تشکیل پائے گا۔ پاکستان کے لیے جس میں شاندار مواقع ہوسکتے ہیں۔ انڈیا ایک نئے پاگل پن کے ساتھ اپنی صفیں درست کرنے کی کوشش کرے گا، جس سے یہ خطہ مزید مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔ ممکن ہے اس کے جنگی جنون میں وقتی طورپرکچھ کمی آئے، مگر بہرحال وہ ضرور خود پر نظر دوڑائے گا۔ جبکہ انڈیا سے زیادہ اس کے حمایتی اور اتحادی دوڑ دھوپ کرتے نظر آئیں گے۔ انڈیا کو جس قدر تکلیف ہوئی ہے، یقینا امریکا کو اس سے کم نہیں ہوئی ہوگی۔ اس خطے میں اس کے مستقبل کے چوہدری کی ساری اکڑ نکل گئی اور امریکا کا وہ خواب چکنا چور۔ جس کے تحت وہ چین کو کنٹرول کرنے کے لیے اسے تیار کرنا چاہ رہا تھا۔ پاکستان بھی یقینا اپنی کمزوریوں کو دیکھ چکا ہوگا ۔ مگر یہ اس کے لیے ایک غیبی مدد ثابت ہوئی ہے۔ وہ یوں کہ خطے کے چھوٹے موٹے ملک، اور مسلم ممالک میں اپنا مقام دوبارہ حاصل کرنے کا شاندار موقع ملا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ سمجھدار ہوتے ہیں، ذہین ہوتے ہیں، مالدار ہوتے ہیں یا حسن سے مالا مال۔ تبھی آپ کو اہمیت دی جاتی ہے۔ یہی معاملہ ملکوں کا ہوتا ہے۔ اگر آپ کے پاس طاقت ہے، آپ کی اکانومی اچھی ہے، یا آپ کے پاس کچھ اور ہے، تو سب آپ کو اپنا قریبی بنانے کے جتن کرتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس کچھ نہیں تو بس باتیں ہی رہ جاتی ہیں۔ آسان مثال ہے کہ آپ مالی طور پر مضبوط ہیں، کسی اعلی عہدے پر ہیں تو آپ کے دور کے عزیز رشتہ دار بھی آپ کو اپنا “بہت ہی قریبی” رشتہ دار کہتے نہیں تھکیں گے۔ لیکن اگر آپ کے پاس کچھ نہیں تو قریب کے عزیز بھی یہی کہیں گے کہ ہاں ہمارے دور پار کا رشتہ دار ہے۔ کئی عرب ملک جو ہم سے بوجوہ دور ہوچکے تھے ۔ جو انڈیا کے بہت قریب ہوچکے تھے۔ جن کی نظر میں ہم کشکول اٹھاکر ان کی خدمت میں حاضری کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔ اسی طرح اس خطے میں موجود ملک؛ بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا بھی ہماری حالت دیکھ کر کسی خوش فہمی کا شکار نہیں رہے تھے، شاید اب انہیں بھی دوبارہ سے ایک نئی توانائی ملی ہوگی۔ سو خطے کے ان ملکوں کے علاوہ عرب مضبوط ممالک بھی اب دوبارہ اپنی آرا بدلیں گے۔ اب دوبارہ ہمارے ساتھ اپنے تعلق پر نظرثانی کریں گے۔ ایک زمانے میں پاکستان کو اہم مقام حاصل تھا، ممکن ہے ویسا کچھ نہ ہو، مگر بہرحال ہمیں ایک موقع ضرور ہمیں دستیاب ہوا ہے۔ خدا کرے ہم بہترین ڈپلومیسی کے ذریعے اسے اپنے لیے “شاندار موقع” میں بدل سکیں۔

سربرینیکا کا نوحہ۔۔۔۔۔ایک قبر جو پوری امت میں پھیل گئی

Khalid shahzad farooqi.jpg 1

چاندنی راتوں میں جب بوسنیا کی پہاڑیاں خاموش ہو جاتی ہیں، تب زمین کی تہہ سے وہ سسکیاں اٹھتی ہیں جنہیں انسانوں کی دنیا نے دفن کر دیا تھا۔۔۔۔۔وہ آہیں، وہ چیخیں، وہ التجائیں جو جولائی 1995 میں فضا میں بلند ہوئیں، آج بھی پہاڑوں سے ٹکرا کر لوٹتی ہیں۔۔۔۔۔ سربرینیکا محض ایک مقام نہیں، یہ ایک قبر ہے۔۔۔۔ایسی قبر جس میں امت مسلمہ کی غیرت،اتحاد اوراجتماعی ضمیر دفن ہے۔۔۔۔ بوسنیا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں آٹھ ہزار سے زائد مسلمانوں کا ذبح ہونا کوئی تاریخی اتفاق نہیں تھا، یہ ایک طے شدہ سازش تھی۔۔۔۔۔ ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت نسل کشی، جسے جدید دنیا نے اپنی نظروں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی نظر انداز کیا۔۔۔۔ اقوامِ متحدہ کی نیلی وردی والے سپاہی،جو بظاہر “امن کے محافظ” تھے، وہ سب کچھ دیکھتے رہے۔ ہنستے رہے۔۔۔۔۔ قہقہے لگاتے رہے اور انسانیت کا جنازہ گزر گیا۔ ان ماؤں سے پوچھو جنہوں نے اپنے لختِ جگر کا منہ آخری باردیکھا۔۔۔۔ ان بہنوں سے پوچھو جن کے بھائیوں کو گولیوں سے چھلنی کر کے اجتماعی قبروں میں ڈال دیا گیا۔۔۔۔۔ ان بچوں سے پوچھو جو اپنے باپ کے ساتھ پہاڑوں کی طرف دوڑتے تھے اور پھر خون میں لت پت باپ کی لاش پر لیٹ کر سسکیاں لیتے تھے۔۔۔۔۔ دنیا کی کوئی لغت، کوئی زبان، ان آہوں کو بیان نہیں کر سکتی جو اس دن آسمان نے سنی تھیں۔۔۔۔ اور آج جب غزہ کی تباہ حال گلیوں میں بچے باپ کی انگلی تھامے بغیر دفن ہو رہے ہیں، جب کشمیر کی وادی میں ماؤں کی کوکھ چھلنی ہو چکی ہے، جب شام کے ملبے تلے اذانوں کی گونج دفن ہو چکی ہے، جب روہنگیا کے مسلمان بنگال کی لہروں میں لاشوں میں بدل چکے ہیں، جب چین میں مسلمانوں کی اذیت گاہوں پر دنیا خاموش ہے تو سربرینیکا کا نوحہ ایک چیخ بن کر پورے عالم اسلام میں گونجتا ہے۔۔۔۔۔ فلسطین کا بچہ جب ایک پتھر ہاتھ میں لیتا ہے تو وہ دراصل اسی بوسنیائی بچے کی روح ہے جو باپ کے جنازے پر بےبس کھڑا تھا۔۔۔۔۔ کشمیری بیٹی کی آنکھ جب ظلم کے سامنے جھکنے سے انکار کرتی ہے تو وہ دراصل اس بوسنیائی بہن کا عکس ہے جس کا بھائی اجتماعی قبر میں دفن ہوا۔۔۔۔۔ یہ سب ایک ہی زنجیر کے کڑیاں ہیں۔۔۔ ظلم کی، بے حسی کی اور ہمارے سکوت کی۔۔۔۔ سربرینیکا کے لوگوں کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کے ماننے والے تھے۔۔۔ وہ اذان دینے والے، وہ قرآن پڑھنے والے، وہ روزہ رکھنے والے، وہ سیدھے سادے لوگ۔۔۔۔۔۔ جنہوں نے نہ کسی پر چڑھائی کی، نہ کسی کو للکارا لیکن ان کا مسلمان ہونا ہی ان کی گردن کے لیے پھانسی کا پھندا بن گیا۔۔۔۔۔ دشمن نے کوئی ہتھیار نہیں چھپایا،کوئی وحشت نہیں چھوڑی،کوئی درندگی نہیں روکی اور ہم۔۔۔۔۔؟ ہم امت مسلمہ۔۔۔۔۔۔۔؟ ہم کہاں تھے۔۔۔۔۔؟ کیا ہمارے کانوں تک وہ چیخیں نہ پہنچی تھیں؟ کیا ہمارے دلوں تک وہ دکھ نہ اترے تھے؟ کیا ہمارے حکمرانوں کو نیند نہیں آئی تھی؟ کیا ہمارے خطبہ جمعہ میں کوئی امام ان مظلوموں کا تذکرہ کرنے سے بھی قاصرتھا؟ کیوں ہماری فوجیں حرکت میں نہ آئیں؟ کیوں ہماری آنکھوں سے نیند نہ چھن گئی؟ شاید اس لیے کہ مرنے والے ہمارے رنگ، ہماری زبان یا ہمارے خطے کے نہ تھے۔۔۔۔۔وہ صرف مسلمان تھے اور شاید ہم یہ پہچان ہی بھول چکے ہیں۔۔۔۔۔  مزید پڑھیں: فیک نیوز کا تدارک کیسے ممکن؟ راتکو ملاڈیچ کے فوجی جب بچوں کو ان کی ماں کی گود سے چھین کر لے جا رہے تھے، جب ماؤں کو چپ کرا دیا گیا تھا، جب بہنوں کے سروں سے چادرنوچی جا رہی تھی، تب انسانیت خاموش کھڑی تھی اورآج تیس سال بعد،ہم صرف تقریریں کرتے ہیں،قراردادیں پاس کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پر تصاویر پوسٹ کرتے ہیں۔۔کیا یہی ہمارے ایمان کی گہرائی ہے؟ کیا یہی امت محمدیہ کی غیرت ہے؟۔۔۔۔اندلس کی شکست ہو،بغداد کی تباہی ہو،دہلی کی خاکستر بستیاں ہوں، یا آج کا غزہ۔۔۔۔۔۔۔ہر جگہ ایک ہی کہانی دہرائی گئی۔۔۔مسلمان قتل ہوتے رہے اورامت تقسیم در تقسیم ہوتی رہی۔ سربرینیکا انہی سانحات کا تسلسل ہے،جہاں صرف انسان نہیں مرے، ضمیر مرا، درد مرا، حیاء مری اور ہم سب تماشائی بنے رہے۔۔۔۔ کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے امتِ مسلمہ کے سینے میں دل کے بجائے پتھر رکھ دیے گئے ہیں۔۔۔۔ جہاں ایک فلسطینی بچے کی لاش پر بھی صرف “افسوس” کے الفاظ ہوتے ہیں اور ایک بوسنیائی ماں کے آنسو ہمیں صرف لمحاتی دکھ دیتے ہیں، اس کے بعد ہم پھر سے اپنی سیاست،اپنے مفادات اور اپنے کاروبار میں لگ جاتے ہیں۔۔۔۔۔میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر یہ ظلم یہودیوں پر ہوا ہوتا تو آج ہولو کاسٹ جیسے میوزیم دنیا بھر میں بن چکے ہوتے۔۔۔۔اگر یہ مظلوم عیسائی ہوتے تو پوپ خود ان کے لیے زمین آسمان ایک کر دیتا لیکن چونکہ وہ مسلمان تھے،اس لیے ان کا خون بے رنگ،ان کی چیخیں بے آواز اور ان کی قبریں بے شناخت رہ گئیں۔۔۔۔۔  میرا یہ کالم ایک فریاد ہے۔۔۔۔۔۔ان ماؤں کی طرف سے جن کے بیٹے آج بھی شناخت کے انتظار میں اجتماعی قبروں میں دفن ہیں۔۔۔۔۔یہ ایک پکار ہے ان بچوں کی طرف سے جو بڑے تو ہو گئے مگر یتیمی کا داغ ان کے ماتھے سے نہ مٹ سکا۔۔۔۔ اور یہ ایک تھپڑ ہے امت کے ان لیڈروں کے منہ پر جو آج بھی اتحاد کے بجائے تخت و تاج کی جنگ میں مصروف ہیں۔۔۔۔ کاش کبھی ہم جاگیں۔۔۔۔۔کاش کبھی ہم درد کو صرف خبر نہ سمجھیں،بلکہ اپنے جسم میں محسوس کریں۔۔۔۔۔کاش ہم کبھی سربرینیکا،غزہ،کشمیر،برما اور شام کی قبروں میں جا کر ان شہداء سے معافی مانگیں کہ ہم ان کے حق میں کچھ نہ کر سکے۔۔۔۔۔ہم نہ ان کے لیے آواز بنے،نہ شعلہ،نہ روشنی۔۔۔۔ ہم صرف ایک مجمع رہے۔۔۔۔۔۔خاموش، مردہ اور بے سمت۔۔۔۔۔ سربرینیکا ختم نہیں ہوئی، وہ آج بھی جاری ہے۔۔۔ ہر اس جگہ جہاں مسلمان صرف اپنے عقیدے کی بنا پر ظلم کا شکارہے، ہر وہ لمحہ سربرینیکا کی بازگشت ہے۔۔۔۔۔ اگر ہم نے اب بھی آنکھ نہ کھولی تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔۔۔۔۔ وہ پوچھیں گی کہ تم نے اپنی تاریخ کے زخمی بابوں کو کیوں نظرانداز کیا؟ تم نے

کہانی پانچ روپے والے نوٹ کی

14 اپریل سال 1848 گورے انجینئیر نے پہاڑوں کی کھدائی کا کام شروع کروایا۔ یہ دنیا کا واحد انجنئیر تھا جو پہاڑی کی چوٹی پہ چڑھ کر کام کے سال، دن اور ٹائم کا دعویٰ کرتا تھا اور اس کا ہر دعویٰ سچ ثابت ہو جاتا تھا۔ ایسا ہی دعویٰ اس نے شیلا باغ کی پہاڑیوں پر چڑھ کیا۔ گورے انجنئیر نے بھی کیا تھا کہ 3 سال 4 ماہ 21 روز میں شیلا باغ ریلوے ٹنل مکمل ہو جائے گا۔ انہوں نے کھدائی کا کام دونوں طرف سے شروع کروایا ۔ انجینئیر نے اس وقت کے گورے سربراہان سے دعویٰ کیا تھا کہ مزدور ایک دوسرے سے آ کر گلے ملیں گے اور ریلوے ٹنل مکمل ہو جائے گا۔ کوئٹہ چمن ریلوے لائن پر بہت سی داستانیں مشہور معروف ہیں جن میں سے ایک داستان خوبصورت ریلوے اسٹیشن شیلا باغ کے متعلق بھی سنائی جاتی ہے۔ یہ اسٹیشن تو عام اور تنہا سا ہے لیکن اس کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا گیا ہے کیونکہ یہاں سے بہت ساری کہانیاں منسوب ہوگئی ہیں۔ ہر روز صبح و شام گورا انجنئیر  پہاڑوں پر چڑھنے کے بعد ریلوے ٹنل کا معائنہ کرتا تھا۔ 5 کلومیٹر دنیا کی لمبی ریلوے ٹنل تعمیر کرنا بڑا مشکل سفر تھا۔ رات کے وقت مزدور تھکے ہارے کام سے واپس آتے تھے تو ان کو لالٹینوں کی روشنی میں خوش کرنے کے لیے انڈیا سے رقاصہ شیلا منگوائی گئی تھی جو رات کو تھکے ہارے مزدوروں کی اپنے رقص سے تھکن اتار دیتی تھی۔ یوں مزدور رات بھر سکون سے سوتے تھے اور اگلی صبح دل لگا کر کام کا آغاز کرتے تھے۔ اس وقت مزدوروں سے پہاڑوں کا سینہ چیر کر سرنگ بنانا بہت ہی مشکل کام تھا مگر مزدوروں نے آسان کر دیاتھا۔ مزدور سارا دن جان توڑ مشقت کرتے اور شام کو جب تھک ہار کر اپنے ٹھکانوں پر واپس آتے تو ان کی تفریح، طبع اور کھیل تماشے کے لئے ہندوستان سے کچھ نامی گرامی مسخرے، بازیگر اور فنکار لائے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ جب شیلا باغ سرنگ تعمیر ہو رہا تھا تو اس وقت صرف ہندوستان نہیں بلکہ کئی اور ممالک سے ہزاروں کی تعداد میں کاریگر اور مزدور لائے گئے تھے۔ جن کی رہائش کا انتظام یہیں ایک بڑے سے میدان میں کیا گیا تھا، جہاں اب یہ اسٹیشن ہے۔ پہاڑوں کا سینہ چِیر کرسرنگ بنانا بہت مشکل کام تھا۔ پانچ ستمبر 1851ء کی رات کو گورا انجنئیر بہت مایوس تھا ایسے میں وہ پہاڑوں پر چڑھ گیا۔ مزدور کھدائی میں مصروف تھے کہ اچانک دو چیزوں کے گرنے کی آواز آئی۔ ایک انسان اور دوسری ٹنل کی۔ مزدوروں نے نعرہ بلند کیا “شیلا باغ بن گیا۔” دوسرے لمحے انجنئیر کی خودکشی کی خبر نے سب کو مایوس کر دیا۔ صرف 30 منٹ انجنئیر صبر کرتا تو تین سال چار ماہ اور اکیسویں دن کی محنت اور دنیا کی سب سے لمبی ریلوے ٹنل شیلا باغ کا منظر دیکھ سکتا تھا۔ مگر یہ منظر پاکستان کے پانچ روپے کے نوٹ پر کئی سالوں تک راج کرتا رہا ہے۔

جنگی حالات اورمحنت کشوں کی بقا!

دنیا کے مختلف خطوں کو دہشت گردی اور جنگی صورتحال کا سامنا ہے۔ ایک طرف فلسطینی عوام کی نسل کشی کی جا رہی ہے دوسری طرف اس آگ کو مشرقِ وسطیٰ میں بھی پھیلایادیا گیا ہے۔ جس کی مثال امریکہ کی طرف سے یمن میں کی گئی تباہی ہے جس سے حالات کی سنگینی میں مذید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یوکرین اور روس کی جنگ میں امریکی پالیسی میں تبدیلی کو جواز بنا کر یورپ اپنے عوام کی فلاح وبہبود کو پس پشت ڈال کر دفاعی بجٹ کو بڑھاتے ہوئے اسلحہ کی دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑنے کی کاوششوں میں مصروف ہو گیا ہے۔ پاکستان پر نظر ڈالیں تو بلوچستان میں بڑھتی دہشت گردی اور ایران میں پاکستانی مزدوروں کا قتل انتہائی تشویشناک اور قابل مذمت ہے۔ اب مقبوصہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والی دہشت گردی کے انتہائی دلخراش سانحہ کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان بڑھتے تناؤ سے عام عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ نہ صرف لوگوں کی جانیں گئیں بلکہ پابندیوں کی پالیسی سے معاشی نقصان بھی پہنچ رہا ہے۔ دنیا بھر میں جاری اس تباہی و بربادی میں اب تک لاکھوں معصوم شہری خواتین، بچے، بزرگ مارے گے لیکن عالمی طاقتیں اس آگ سے اپنے ہاتھ گرم کرنے کے علاہ کچھ نہیں کر رہیں۔ اس آگ پر تیل ڈالتے ہوئے امریکہ نے نام نہاد ٹیرف وار کا آغاز بھی کر دیا ہے جس کے باعث اب تک ٹریلین ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے اور پوری دنیا ہل کے رہ گئی ہے۔ ہیجان کی یہ کیفیت اس بات کی عکاس ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے اور اقوام متحدہ اپنے قیام کے مقاصد میں ناکام ہو چکے ہیں اور یہ بین الاقوامی ادارے چند طاقتوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیوں سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ موجودہ سرمایہ داری نظام میں انسانوں کی حیثیت ریت کے ایک زرے برابر ہے۔ اس نظام سے فائدہ اٹھانے اور اس کو مضبوط بنانے میں چند سرمایہ دار اورملٹی نیشنل کمپنیاں ملوث ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2023 میں 2 ہزار 443 ٹریلین ڈالر فوجی بجٹ میں ڈالا گیا تھا۔ اب حالات سے لگ رہا ہے کہ 2025 میں یہ بجٹ دگنا کرنے کا پروگرام ترتیب دیا جا رہا ہے۔ ایسے میں عوام کے حالات کا جائزہ لیں تو تیسری دنیا سے لے کر یورپ اور امریکہ تک ضروریات زندگی کی اشیا کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔ دنیا کی تقریباً 10فیصد آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے۔ آئی ایل اور (ILO) کی رپورٹ کے مطابق 160 ملین بچے جس میں 63 ملین بچیاں اور 97 ملین بچے چالڈ لیبر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ کرونا کی وبا کے بعد اس تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ خواتین ورکرز بھی پوری دنیا میں مسائل کاسامنا کر رہی ہیں۔ مردوں کے مقابلے میں کم معاوضہ ایک گلوبل ایشو ہے۔ اس کے علاوہ ہراسگی، ہیلتھ اینڈ سیفٹی ، مستقل ملازمت، روزگار کے محدود مواقعے، کام کی غیر محفوظ جگہ، زرعی مزدور خواتین کی اکثریت کا بلامعاوضہ کام اور دوہرا استحصال ہر خطے کی عورتوں کا مسئلہ ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں کام کرتی خواتین ،ورک فورس کے اعدادوشمار میں مردوں کے مقابلے میں کم نظر آتی ہیں کیونکہ غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والی 80 فیصد خواتین ورکر اپنی شناخت اور حقوق سے محروم ہیں۔ انصاف کی فراہمی کی بات کریں تو لاہور میں 9 سال تک حصول انصاف کی جدوجہد کرنے والے ورکر کی ہائی کورٹ کے سامنے خود سوزی عدالتی نظام پرسیاہ دھبہ ہے۔ مزدوروں کو ان تمام مسائل کا سامنا 21ویں صدی میں اس وقت ہے جب مصنوعی ذہانت (AI) کی ترقی اور اثرات کے گن گائے جا رہے ہیں۔ لیکن AI کی ترقی محنت کش خواتین اور مردوں کی زندگی میں بہتری کی ضمانت نہیں بلکہ ان کے بنیادی حق روزگار پر ذد پہنچ رہی ہے کیونکہ وہ صعنت جہاں 10 سے 12ورکرز کام کر رہے تھے آج جدید مشنری کے سبب وہاں 2 سے 4 مزدور بنا مستقل ملازمت اوردیگر بنیادی حقوق کے کام کر رہے ہیں۔ دوسری جانب یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ  AIسے کئی نئی ملازمتوں کے مواقعے پیدا ہوں گے۔ لیکن آنے والے وقت میں ٹیکنالوجی اور معاشی ڈھانچہ بےروزگاری میں اضافے کی بڑی وجہ ہو گی۔ ترقی پذیرممالک کی مزدور تحریک اس چیلنج سے بے خبر نظر آرہی ہے۔ اس خطرے سے نپٹنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں اور یونینز کی کوئی حکمت عملی سامنے نہیں آرہی۔ محنت کشوں کے حال اور مستقبل سے لاتعلق حکمرانوں کو نہ ہی اپنی ناک سے نیچے دیکھنے میں دلچسپی ہے نہ ہی صلاحیت بس جنگ کا شور مچا کر عوام کے لئے جاری فلاحی منصوبوں پر کٹ لگانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان زمینی حقائق کے ساتھ 2025 میں مزدروں کے عالمی دن پر نہ صرف ملکی بلکہ بین لاقوامی سطح پر مزدوریونینز اور مزدور تنظیموں کو دور اندیشی کے ساتھ مؤثر لائحہ عمل اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔ دنیا میں رائج سرمایہ دارانہ نظام میں وسائل پر چند ملٹی نیشنل کمپنیوں کے قبضے سے ثابت ہو چکا ہے کہ اس استحصالی نظام کو بدلنے کے علاوہ اب ہم محنت کشوں کے پاس کوئی اور چارہ نہیں۔ منافع کی حرس میں جہاں سرمایہ داروں نے مزدوروں کا خون چوسا وہاں انھوں نے دنیا کی ماحولیات کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ اس کے اثرات موسموں کی شدت، سیلاب، خشک سالی، قحط، بھوک، آلودگی اور مہلک بیماریوں کی صورت میں عام غریب عوام، مزدور اور کسان بھگت رہے ہیں۔ فضائی آلودگی اور آلودہ پانی سے سینکڑوں اموات ہو چکی ہیں جو مسلسل ہوتی جا رہی ہیں۔ اس سے نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والی نسلیں بھی متاثر ہوں گی۔ لہذا یکم مئی کو مزدوروں کے مطالبات صرف تنخواہ بڑھانے یا روزگار دینے تک محدود نہیں رہنے چاہیے بلکہ پہلا مطالبہ استحصالی نظام کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ پوری دنیا کہ مزدور جنگ کا خاتمہ اور امن کا قیام چاہتے ہیں۔ اس لیے سیاسی محاذ پر محنت کشوں کی آواز کو مضبوط بنانے کی حکمت عملی تشکیل دینی ہو گی۔ خواتین جو دنیا کی آدھی آبادی ہیں ان کی

محمود غزنوی اور آریائی فریب کا پردہ فاش

Mehmood ghaznavi

وسیم بھٹی صاحب لگتا ہے کسی نے دھوکے سے آپ کو گئو متر پلادیا ہے یا آپ نے خود جوش عقیدت میں نوش فرمالیا ہے جس کے اثرات ظاہر ہورہے ہیں۔ جس ہندوتوا اور سومناتھ مندر کی آپ بات کررہے ہیں یہ آریاؤں کا تخلیق کردہ مذہب تھا اور آریا تو خود invaders تھے جنہوں نے ہزاروں سال پہلے وسطی ایشیا سے ہندوستان پر دھاوا بولا تھا۔ اصل میں تو یہاں کے مقامی اور قدیم باشندے دراوڑ تھے جو دھات کے زمانے سے بھی پہلے سے برصغیر میں آباد تھے۔ یہ دراوڑ برصغیر میں کہاں سے وارد ہوئے اس کی الگ مختلف تھیوریز ہیں مگر یہ کم از کم حملہ آور نہیں تھے۔ جن پر آریاؤں نے اپنی طاقت اور جنگی مہارت کی بنیاد پر انتہائ جبر و ظلم کیا اور ان کو جنوب کی جانب سمندر کی طرف دھکیل دیا۔ آج بھی آپ کو جنوبی ہند تامل ناڈو وغیرہ میں گہری سیاہ رنگت اور پستہ قد موٹے ناک نقشے والے درواڑ نسل کے لوگ ملیں گے۔ یہ انڈیا کے اصل باشندے ہیں۔ یہ جو ساؤتھ آجکل فلموں میں چھایا ہوا ہے یہ درواڑ ہیں۔ آریا سماج تو بذات خود ایک بدترین حملہ آور تھے جنہوں نے مقامی باشندوں کو اچھوت اور شودر کا درجہ دے کر انتہائ ذلت آمیز سلوک کیا۔ اب ہر فرعون کے لئے موسی تو پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ حملہ آور لٹیرے انڈیا کی اصل قوم کو سمندر کنارے کھدیڑنے کے بعد خوب رچ بس گئے اور اپنا مذھب لاگو کردیا تو پھر اسی وسط ایشیا سے مسلمان حملہ آور ہوگئے اور ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ ایک دو نہیں سترہ حملے۔ یکے بعد دیگرے اور دیگرے بعد یکے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ‘چوراں نوں پے گئے مور’۔ دنیا کی تاریخ میں ہر زمانے کا ایک دور اور انداز رہا ہے۔ دنیا میں ہمیشہ سے طاقت کا زور رہا ہے اور طاقتور اقوام ہمیشہ سے کمزور اقوام پر حملے اور قبضے کرتی رہی ہیں۔ کیا منگولوں نے مسلمانوں کی اینٹ سے اینٹ نہیں بجائی؟ اور یہ یورپ کی جنگیں نپولین، ہٹلر تو ابھی ایک دو صدی پرانی تاریخ ہے۔ امریکہ جیسے مہذب ملک نے جاپان پر ایٹم بم نہیں گرایا؟ لیکن آپ کو صرف محمود لٹیرا نظر آرہا ہے۔ پھر رہی سہی کسر غوری اور دیگر مسلمان بادشاہوں نے پوری کردی اور مغل تو ساڑھے تین سو برس حکومت کرگئے۔ پھر انگریز آگئے۔ یعنی یہ طاقت کا قانون تو دنیا بھر میں رائج رہا ہے۔ انگریزوں نے تو بلاتفریق مندر مسجد گردوارے سب لوٹے اور لوگوں کو غلام بھی بنایا۔ محمود نے کم از کم غلام تو نہیں بنایا۔ چیلنج دے کر آتا تھا۔ چھپ کر حملہ نہیں کرتا تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ وسط ایشیا سے انڈیا پر حملہ کرنے لئے کتنے مہینے لگتے ہیں؟ یہ فوجیں چھ ماہ آٹھ ماہ کا سفر کرکے انڈیا پہنچا کرتی تھیں اور یہ حملے سے آٹھ ماہ پہلے سے جانتے تھے کہ محمود چل پڑا ہے۔ اس کے باوجود سے سارے مل کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر پاتے تھے۔ وہ کبڈی کبڈی کرتا دور سے آتا تھا اور ان کے دوچار کو رگید کر واپس چلا جاتا تھا۔ یورپ میں بادشاہ اور شہنشاہ ایک دوسرے پر چڑھائیاں اور قبضے کرتے رہے ہیں۔ رومن اور اسپارٹن کے درمیان چھتیس کا آنکڑا تھا۔ ایشیا کے ہر ریجن میں یہ جنگیں، حملے اور قبضے چلے ہیں۔ اور تو اور یہ امریکہ جو دنیا کی معلوم تاریخ میں گمنام رہا اور ابھی صرف 500 سال قبل دریافت ہوا تو وہاں بھی ان کی تاریخ سے پتہ چلا کہ تہذیبوں، باشاہوں اور حملہ آوروں کا ٹکراؤ تو وہاں بھی رہا ہے۔ انکاز، مایاز، ایزٹیک تہزیبیں اور ان کے ٹکراؤ تو بہت نمایاں ہیں۔ یہ قدرت کا قانون ہے۔دنیا کی ہر قوم کی تاریخ کا 70 فیصد تو جنگوں اور حملہ آوروں سے بھرا ہے۔ آپ کو صرف محمود غزنوی کس لئے لٹیرا لگ رہا ہے؟ یہ جو محمود سے نفرت ہے یہ دراصل کسی اور سے نفرت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ عرب میں ہوتے تو یقیناً ابوجہل اور ابولہب کو بھی مقامی ھیرو قرار دے دیتے۔ یہ لٹیرے آریا کی قوم کو خدا نے ایک ہزار سال تک مسلمانوں کا محکوم رکھا کیونکہ یہ اسی قابل تھے۔ آپ دیکھ لیجئے کہ ان کو آزادی ملے صرف 76 برس ہوئے ہیں اور یہ آپ کو کیسے ناکوں چنے چبوا رہے ہیں۔ یعنی ایک ایسا فتنہ فساد اور ادھم برپا کررکھی ہے کہ خطے کا امن و سکون برباد کررکھا ہے۔ آپ کا حقہ پانی بند کردیا ہے۔ چانکیا کے پیروکاروں کی سازشیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ کبھی ان کے گریٹر انڈیا کے منصوبے کو پڑھا ہے کہ یہ کیا خواب دیکھ رہے ہیں؟ کبھی اکھنڈ بھارت کے منصوبے کو دیکھا ہے جس کی تکمیل پر یہ عمل پیرا ہیں؟ یہ تو آپ کی نسل تک تباہ و برباد کرنے کے درپے ہیں۔ یہ اھنسا کے پجاری نہیں چانکیا کے پیروکار ہیں۔ چانکیا کو جانتے ہیں نا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اب اگر کوئ دوسرا محمود غزنوی اللہ نے پیدا نہ کیا تو آپ کی اگلی نسلیں پیتل کی گڑوی میں چلو بھر گئو متر خود پر چھڑک کر ہری اوم ہری ۔۔۔ ہرے کرشنا ہرے رام اور گن پتی بپا کو پرنام سے دن کا آغاز کریں گی۔ بالکل اس طرح جیسے ان کی فلمیں دیکھ کر آپ کو غزنوی ولن اور گوہل ھیرو لگ رہا ہے۔ بقول آپ کے گوھل نے ناکوں چنے چبوا دیئے اس کے باوجود محمود 17 بار آیا۔ یاد رکھئے جس طرح خود بخود بچے پیدا نہیں ہوتے اسی طرح فلموں سے تاریخ نہیں بدلتی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ محمود غزنوی اور اس کے کارناموں کو دنیا جانتی ہے جبکہ ہمیر جی گوھل کو تازہ تازہ بالی ووڈ نے دریافت کیا ہے اور آپ پنگی بجاتے چل پڑے اس کے پیچھے۔ افسوس صد افسوس۔

ہندوستان کا جنگی جنون اور پاکستان کا دفاعی نظام، مودی سرکار کس بھول میں ہے؟

بھارت کے پاس ہتھیاروں کے انبار ضرور ہیں مگر جذبہ شہادت نہیں۔ پاکستان کے پاس ایمان،قربانی اور غیرت کی وہ دولت ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ مودی سرکار اگر یہ سمجھتی ہے کہ عسکری دھونس یا معاشی جکڑ بندیوں سے پاکستان کو جھکایا جا سکتا ہے تو یہ بدترین خوش فہمی ہے۔ تاریخ نے بار بار ثابت کیا ہے کہ پاکستانی قوم جتنی دباو میں آتی ہے،اتنی ہی شدت سے یکجا ہو کر اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ نریندر مودی کے دورحکومت میں بھارت نے جس جارحانہ روش کو اپنایا ہوا ہے، اس کا مقصد محض خطے میں اپنی برتری قائم کرنا نہیں بلکہ اندرون ملک انتہا پسند ہندو ووٹرز کو خوش کرنا بھی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں پاکستان دشمنی کو ایک کارڈ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ جب جب بھارت میں انتخابات قریب آتے ہیں،جنگی طیارے شور مچانے لگتے ہیں،میزائل تجربات کا اعلان ہوتا ہے اور بھارتی میڈیا پر جنگی نعرے گونجنے لگتے ہیں۔۔۔یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے تاکہ عوام کی توجہ مہنگائی،بے روزگاری اور غربت جیسے اندرونی مسائل سے ہٹا کر بیرونی دشمن کی طرف مبذول کرائی جا سکے۔اگر عسکری اخراجات پر نظر دوڑائی جائے تو بھارت دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ خریدنے والا ملک ہے۔فرانس سے رافیل طیاروں کی خریداری ہو، اسرائیل سے دفاعی نظام کا حصول ہو یا روس اور امریکہ سے میزائل ٹیکنالوجی کے معاہدے، بھارت نے اپنی معیشت پر ناقابل برداشت بوجھ ڈال کر عسکری قوت میں اضافہ ضرور کیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا صرف ہتھیاروں کے ڈھیر کسی قوم کی حفاظت کا ضامن بن سکتے ہیں؟ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جنگیں محض ہتھیاروں سے نہیں جیتی جاتیں بلکہ عزم،قربانی اور حب الوطنی سے لڑی جاتی ہیں۔ 1965 میں جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تھا تو بھارتی جنرل خود یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے کہ پاکستان کے پاس جذبہ شہادت کی وہ قوت تھی جس کے سامنے ان کا ہر منصوبہ ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ مودی سرکار جس زعم میں مبتلا ہے،وہ محض عسکری طاقت کی عارضی چمک دمک ہے۔ بھارت بھول رہا ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے جس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی گئی تھی۔ یہاں کا بچہ بچہ اپنی جان کا نذرانہ دینے کے لیے تیار ہے۔ یہ وہ قوم ہے جس نے محدود وسائل کے باوجود دنیا کی بہترین دفاعی صلاحیتیں حاصل کیں۔۔۔جب بھارت نے 1974 میں پہلا ایٹمی تجربہ کر کے خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے کی کوشش کی تو پاکستان نے بے سروسامانی کے عالم میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان جیسے سائنسدانوں کی قیادت میں ایٹمی پروگرام کو پروان چڑھایا۔ 11مئی 1998 کو جب بھارت نے پانچ ایٹمی دھماکے کر کے خطے کا توازن بدلا تو اس کے 17 دن بعد چاغی کے پہاڑوں پر گونجنے والے دھماکوں نے دنیا کو باور کرا دیا کہ پاکستان کو دبانا آسان نہیں۔ پاکستان نے نہ صرف ایٹمی صلاحیت حاصل کی بلکہ روایتی ہتھیاروں میں بھی خود انحصاری کی راہ اپنائی۔ جے ایف17 تھنڈر کی کامیاب تیاری،شاہین اور غوری میزائل سسٹمز کی ترقی اور دفاعی صنعت میں مسلسل بہتری نے پاکستان کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں وہ کسی بھی ممکنہ جارحیت کا فوری اور منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ دفاعی ترقی محض ہتھیاروں تک محدود نہیں بلکہ سائبر،دفاع اور انٹیلی جنس نیٹ ورک میں بھی پاکستان نے غیر معمولی پیش رفت کی ہے۔۔۔دنیا کے بہترین انٹیلی جنس اداروں میں آئی ایس آئی کا نام سرفہرست آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان نہ صرف روایتی میدان میں بلکہ جدید جنگی محاذ پر بھی پوری طرح تیار ہے۔ دوسری طرف بھارت اپنے جنگی جنون میں اخلاقیات اور عالمی قوانین کو بھی روندنے سے باز نہیں آتا۔۔۔چاہے وہ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی ہو، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی ہو،پلوامہ اور پہلگام جیسے خود ساختہ ڈرامے ہوں یا سرحد پار دہشت گردی کے الزامات ہوں، بھارت ہمیشہ اشتعال انگیزی میں پہل کرتا ہے۔ بالاکوٹ حملے کی ناکامی بھارتی حکمرانوں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہونی چاہیے تھی،جب بھارتی فضائیہ نے ایک خیالی ہدف کو نشانہ بنانے کی ناکام کوشش کی اور جواب میں پاکستان نے نہ صرف بھارتی طیارہ مار گرایا بلکہ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو گرفتار کر کے دنیا کو اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا عملی مظاہرہ دکھایا۔۔۔یہ تمام واقعات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ پاکستان اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہمہ وقت تیار ہے اور دشمن کی کسی بھی مہم جوئی کا فوری اور فیصلہ کن جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔۔۔مودی سرکار کو سمجھنا چاہیے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں تاریخ، غیرت اور ایمان نے ایسی نسلیں پیدا کی ہیں جو ہر محاذ پر دشمن کے دانت کھٹے کر سکتی ہیں۔۔۔بھارتی میڈیا کا پروپیگنڈا،فلموں میں پاکستان کو کمزور دکھانے کی کوششیں یا بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے کی ناکام سازشیں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں کیونکہ پاکستان کی بنیاد لا الہ الا اللہ پر ہے اور یہی بنیاد اسے ہر طوفان میں سربلند رکھتی ہے۔۔۔جنوبی ایشیا جیسے حساس خطے میں جنگی جنون کی آگ بھڑکانا نہایت خطرناک کھیل ہے۔۔۔یہاں ذرا سی غلط فہمی خطے کو ایٹمی تصادم کی طرف دھکیل سکتی ہے جس کے اثرات محض پاکستان یا بھارت تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیں گے۔۔۔اس حقیقت کو بین الاقوامی برادری بھی اچھی طرح سمجھتی ہے،اسی لئے وہ ہر بار پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لئے ثالثی کی کوشش کرتی ہے مگر مودی سرکار کو شاید اس عالمی ذمہ داری کا احساس نہیں یا پھر سیاسی مفادات کی خاطر وہ جان بوجھ کر خطے کے امن کو داو پر لگا رہی ہے۔۔۔بھارت کا جنگی جنون اب اس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے کبھی لداخ میں چین سے الجھ پڑتے ہیں،کبھی نیپال کے ساتھ سرحدی تنازعات چھیڑتے ہیں اور کبھی پاکستان کو بے بنیاد الزامات کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک بھارت اپنی ناکامیوں کا بوجھ دوسروں پر