April 19, 2025 11:37 am

English / Urdu

بیگ اور کتابوں کی چھٹی، ای لرننگ جدید مگر مکمل متبادل نہیں

ای لرننگ نے تعلیم کے طریقوں میں انقلابی تبدیلیاں لائی ہیں لیکن اس کے باوجود روایتی اسکولوں میں سماجی تعلقات اور ذاتی تجربات کی اہمیت برقرار ہے۔ ٹیکنالوجی کا یہ انقلاب تعلیم کے تسلسل کو بہتر بناتا ہے مگر بچوں کی شخصیت کی تکمیل میں روایتی تعلیم کا کردار بھی ضروری ہے۔ ای لرننگ جسے آن لائن تعلیم بھی کہا جاتا ہے انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے تعلیم فراہم کرنے کا جدید طریقہ ہے یہ طریقہ تدریس جہاں کئی لحاظ سے سہولت فراہم کرتا ہے وہاں اس کے کچھ چیلنجز بھی ہیں۔  بچوں کے اسکول جانے کی خوشی، استاد کے ساتھ براہِ راست تعلق اور کلاس روم کے ماحول کی تو ای لرننگ کا متبادل نظر آتا ہے۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ ٹیکنالوجی کا یہ انقلاب بچوں کے دلوں میں اسکول جانے کی محبت کو مٹا دے؟ عالمی سطح پر تیز رفتار ٹیکنالوجی کی ترقی نے کئی شعبوں کو متاثر کیا ہے اور تعلیم ان میں سرِفہرست ہے۔ کرونا وبا کے دوران جب دنیا بھر میں اسکول اور تعلیمی ادارے بند ہوئے، ای لرنینگ (E-learning) نے نہ صرف تعلیمی تسلسل کو برقرار رکھا بلکہ اس نئے طریقہ تدریس نے تعلیم کے روایتی نظام کو چیلنج بھی کیا۔ ایک لمحے کے لیے یہ سوال دل میں آتا ہے کیا ای لرننگ وہ انقلاب ہے جو اسکولوں کے روایتی طریقے کو ہمیشہ کے لیے بدل دے گا؟ یا پھر یہ صرف ایک وقتی حل ہے جو وقت کے ساتھ اپنا اثر کھو دے گا؟ ای لرنینگ کا آغاز ابتدا میں صرف یونیورسٹیوں اور اوپن کالجوں تک محدود تھا لیکن کرونا وبا نے اس کے استعمال کی رفتار میں ایک زبردست اضافہ کیا۔ دنیا کے مختلف حصوں میں اسکولز بند ہونے کے باوجود ای لرننگ نے طلبا کو ایک نئی امید دی اور تعلیمی سلسلے کو جاری رکھا۔ جرمن شہر کولون میں اسکولوں نے اس بات کا تجربہ شروع کیا ہے کہ مستقبل میں اسکولوں میں کتابوں اور بلیک بورڈ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ طلباء اپنے لیپ ٹاپز پر کلاس کے تمام مواد تک رسائی حاصل کریں گے اور انٹرنیٹ کے ذریعے سیکھنے کی سرگرمیاں بڑھیں گی۔ مگر سوال یہ ہے کہ آیا اسکول میں بچوں کی ملاقات، دوستوں کے ساتھ کھیلنا اور اساتذہ کے ساتھ براہ راست رابطہ ان سب چیزوں کا متبادل ممکن ہے؟ دوسری جانب ای لرننگ کے بے شمار فوائد ہیں جو اسے روایتی تعلیم سے ممتاز کرتے ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں طلباء کو جگہ اور وقت کی آزادی ہوتی ہے۔ وہ اپنے شیڈول کے مطابق تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ویڈیوز، انٹرایکٹو ماڈیولز اور گیمز کے ذریعے تعلیم کو مزید دلچسپ اور مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔ تاہم کیا یہ ڈیجیٹل تعلیم بچوں کی سوچ، جذبات اور سماجی تعلقات کو مکمل طور پر سمجھنے میں کامیاب ہو سکتی ہے؟ ای لرننگ کے فوائد کے باوجود اس میں کئی چیلنجز بھی ہیں جو اس طریقہ تدریس کو مکمل طور پر کامیاب ہونے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ ہندوستان میں تقریباً 40 کروڑ طلباء ہیں اور 10 لاکھ سے زیادہ سکولز ہیں مگر وہاں کئی علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت، بجلی کی فراہمی اور اسمارٹ فونز کی کمی کی وجہ سے ای لرننگ کے فوائد کو حاصل کرنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ کلاس روم کے ماحول میں جو سماجی تعلقات بنتے ہیں اور جو تفریحی سرگرمیاں بچوں کی شخصیت کو پروان چڑھاتی ہیں وہ ای لرننگ کے ذریعے حاصل نہیں ہو سکتیں۔ بچے سکول میں آکر اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ کھیلتے ہیں سیکھتے ہیں اور بہت کچھ سمجھتے ہیں جو ای لرننگ میں ممکن نہیں۔ جبکہ ای لرننگ کا مستقبل روشن نظر آ رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ روایتی تعلیم کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ماہرین کے مطابق مستقبل میں اسکولوں میں کتابوں اور کاپیوں کا تیزی سے خاتمہ ہو سکتا ہے اور ہر طالب علم کے پاس اپنا لیپ ٹاپ یا ٹیبلٹ ہوگا۔ تاہم ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ تبدیلی صرف تدریسی وسائل تک محدود ہوگی یا پھر اس کا اثر طلباء کی شخصیت پر بھی پڑے گا؟ بچوں کی شخصیت کی تکمیل کے لیے اساتذہ کا کردار, ہم جماعتوں کے ساتھ تعلقات اور اسکول کی روزمرہ کی سرگرمیاں بہت ضروری ہیں۔ ای لرننگ نے تعلیم کے میدان میں ایک نیا انقلاب برپا کیا ہے، جس نے دنیا بھر کے تعلیمی نظام کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ اگرچہ یہ ایک موثر طریقہ تدریس ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ روایتی اسکولوں کی اہمیت بھی برقرار رہنی چاہیے تاکہ بچوں کو ایک متوازن اور مکمل تعلیم فراہم کی جا سکے۔ مستقبل میں ای لرننگ کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہمیں اس کے چیلنجز اور حل پر بھی نظر رکھنی ہوگی تاکہ ہم ایک مکمل اور ذمہ دار شہری تیار کر سکیں۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ہادی ای لرننگ کے سی ای او حنین زیدی نے کہا کہ “ای لرننگ تعلیمی کارکردگی میں مثبت تبدیلیاں لائی ہیں، خاص طور پر ان بچوں کے لیے جو خود سے سیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ روایتی تعلیم کے مقابلے میں زیادہ لچکدار اور جدید تدریسی طریقے مہیا کرتی ہے، مگر یہ مکمل متبادل نہیں ہو سکتی، کیونکہ روایتی تعلیم کا سماجی اور اخلاقی ترقی میں بھی کردار ہوتا ہے۔ ای لرننگ کے فوائد جیسے کہ کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ سے سیکھنے کی سہولت اور جدید ڈیجیٹل مواد کی دستیابی، اسے ایک مستقل حل بنا سکتے ہیں۔ تاہم، تکنیکی رکاوٹیں، طلبہ کی توجہ مرکوز رکھنے میں مشکلات، اور اساتذہ و طلبہ کے براہ راست تعلق کی کمی جیسے چیلنجز موجود ہیں۔ لہذا، یہ مکمل روایتی تعلیم کی جگہ نہیں لے سکتی، لیکن ایک اہم جز ضرور بن سکتی ہے”۔ طلبا اور ای لرننگ کی وجہ سے ان کے روابط کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ “ای لرننگ میں کلاس روم جیسا سماجی ماحول نہیں ہوتا، جس سے بچوں میں باہمی روابط اور سماجی مہارتوں کے فروغ میں کمی آسکتی ہے۔ تاہم، اگر اس میں گروپ ایکٹیویٹیز، آن لائن مباحثے، اور انٹرایکٹو لرننگ کو شامل کیا جائے تو

مصنوعی ذہانت کے میدان میں ’نئی جنگ‘۔ کیا کچھ نظر انداز ہورہا ہے؟

چین کے اسٹارٹ اپ ڈیپ فرنٹ کی متعارف کردہ “ڈیپ سیک” انٹرنیٹ پر امریکی اجارہ داری کے لیے سنجیدہ چیلنج ہے یا نہیں؟، چند مہینوں نہیں، ہفتوں یا دنوں میں واضح ہو جائے گا۔ چینی اے آئی ایپ کے مؤثرہونے، ایزی ٹو ہینڈل، کم قیمت ہونے نے امریکی کمپنیوں کو نیا چیلنج دیا ہے۔ مختلف ماہرین اس کے ’رسپانس‘، نسبتاً زیادہ جامعیت کو بھی سراہ رہے ہیں۔ رواں برس میٹا کا 60 ارب ڈالر سے زائد اےآئی پرخرچ کرنے مزید کام کرنے کا کا اعلان، گوگل کا جمنی کو مزید انفورس کرنا، مائیکروسافٹ، ایکس سمیت دیگر امریکی، اتحادی مغربی اداروں کی ایڈوانسمنٹ کو اس پیشرفت سے ایک سنجیدہ چیلنج درپیش ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔  امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کٹنگ ایج آئی ٹیکنالوجی کے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے امریکی کمپنیوں کو خبردار بھی کر دیا ہے۔ جو بات اب تک نہیں ہو رہی، وہ دو توانا فریقوں کے اس میدان میں مقابل آنے سے اے آئی کی ایڈوانسمنٹ میں شدت، نقصان دہ اثرات کے درست اندازے، غلط استعمال کے سدباب سے متعلق ہے۔ ان نکات پر سرسری سی بات، کوئی دستاویزی یا پھراے آئی کو مکمل ہیرو یا ٹوٹل ولن بناتی فلموں، سیزنز سے آگے بڑھنا ابھی باقی ہے۔  پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں ’ایفیشنسی امپروور‘ کے بجائے اے آئی کو نوجوان یا دیگر ایج گروپس اسکلز/ کمپیٹینسی ریپلیسر کے طور استعمال کر رہے ہیں یا پھر یار لوگوں نے اسے بھی انٹرٹینمنٹ ٹول بنا ڈالا ہے۔  استعمال کا یہ رجحان کتنا صحتمند ہے؟، اسے کیا ہونا چاہیے؟، امکانات کے چکر میں خدشات نظرانداز تو نہیں ہو رہے؟، اور ممکنہ تبدیلی کا ڈر طرز کہن پر اڑنے والا تو نہیں بنا رہا، جیسے پہلوؤں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ چینی ایپ نے پھر یہ یاددہانی بھی کرائی ہے کہ کلائمٹ چینج، امریکی سرپرستی میں جنگوں کی معیشت، تقریباً ہر شعبہ زندگی میں مخصوص ایجز کو اپنے پاس رکھنے کی واشنگٹن کی خواہش کے سامنے ڈگمگاتی انسانیت کو درپیش یہ چیلنج فوری توجہ چاہتا ہے۔   بقول استاد محترم، “برف جیسے ٹھنڈے دماغ سے سوچنے اور عمل کی راہ پیدا کرنے، دیر اور دور تک چلنے کے حوصلے، کھرے اور کھڑے رہنے” والے ہی سروائیو کر سکیں گے۔

ٹیکسٹائل انڈسٹری کا زوال: حکومتی پالیسیوں کی ناکامی یا غیر سنجیدگی؟

پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری، جو کبھی ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی تھی، آج زوال کی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف ملک کی سب سے بڑی برآمدی قوت تھی بلکہ لاکھوں خاندانوں کے روزگار کا ذریعہ بھی۔ مگر حالیہ اعدادوشمار کے مطابق، ملک کی 568 ٹیکسٹائل ملز میں سے 187 بند ہو چکی ہیں۔ یہ صرف کاروباری بحران نہیں بلکہ معیشت کے لیے ایک خطرناک الارم ہے۔ پاکستان کا ٹیکسٹائل سیکٹر ماضی میں اپنی صلاحیت اور معیار کے باعث دنیا بھر میں مشہور تھا۔ فیصل آباد، جو کبھی “پاکستان کا مانچسٹر” کہلاتا تھا، عالمی سطح پر برآمدات کا مرکز تھا۔ مگر آج، وہی صنعتی زون خاموش ہیں۔ پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، جہاں 147 ملز بند ہوچکی ہیں۔ فیصل آباد میں 31، ملتان میں 33، اور قصور میں 47 ملز کی بندش اس بحران کی شدت کو ظاہر کرتی ہے۔ ان بندشوں کے پیچھے صرف مشینیں خاموش نہیں ہوئیں، بلکہ لاکھوں خاندان بھی بے روزگاری کا شکار ہوئے ہیں۔ اس کی وجوہات کیا ہیں؟پاکستان میں بجلی اور گیس کی قیمتیں خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں۔ بجلی کی قیمت 50 روپے فی یونٹ تک جا پہنچی ہے، جس سے پیداواری لاگت ناقابل برداشت ہو گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے صنعت کو سہارا دینے کے لیے کوئی واضح پالیسی یا حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ برآمدات کا 60 فیصد فراہم کرنے والے اس شعبے کو سہولیات فراہم کرنے کے بجائے دباؤ کا شکار کر دیا گیا ہے۔ ڈالر کی قلت اور خام مال کی درآمد پر پابندیاں صنعت کو مزید بحران میں دھکیل رہی ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف کاروبار کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ برآمدی ہدف کو بھی ناممکن بنا رہے ہیں۔ مسلسل سیاسی عدم استحکام نے سرمایہ کاری کے مواقع کو محدود کر دیا ہے۔ ایسی صورتحال میں مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کار لمبی مدت کی منصوبہ بندی سے گریز کر رہے ہیں۔ حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ وہ صنعت کی بحالی کے لیے اقدامات کر رہی ہے، لیکن زمینی حقائق ان دعوؤں کے برعکس ہیں۔ “ایکسپورٹ ریوائیول پیکج” اور سبسڈی کے اعلانات محض کاغذی ثابت ہوئے ہیں۔ عملی اقدامات کی کمی نے صنعت کاروں کو بے سہارا چھوڑ دیا ہے۔ بنگلہ دیش اور ویتنام نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو حکومتی تعاون کے ذریعے عالمی سطح پر مستحکم کیا۔ بنگلہ دیش نے سستی بجلی، مزدوروں کو مراعات، اور جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کے ذریعے اپنی برآمدات کو مستحکم رکھا۔ دوسری طرف، پاکستان حکومتی نااہلی کے باعث اپنی موجودہ پوزیشن بھی کھو رہا ہے۔اس حوالے سے ماہرین کیا کہتے ہیں؟ سابق صدر لاہور چیمبر آف کامرس کاشف انور نے پاکستان  میٹرز سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری، جو کبھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی تھی، آج شدید بحران کا شکار ہے۔ مہنگی بجلی اور گیس، غیر مستحکم معاشی پالیسیاں، بلند شرح سود، اور خام مال کی قلت اس صنعت کی بندش کی اہم وجوہات ہیں۔  وہ بتاتے ہیں کہ عالمی مارکیٹ میں مسابقت کی کمی اور حکومت کی غیر سنجیدہ حکمت عملی نے بھی صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے پیداواری لاگت کو ناقابل برداشت بنا دیا ہے، جس سے برآمدات کم ہو رہی ہیں اور لاکھوں مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے حکومت کو فوری طور پر بجلی اور گیس پر سبسڈی فراہم کرنی ہوگی، کاروبار دوست اور طویل مدتی پالیسیاں بنانی ہوں گی، اور خام مال کی بروقت اور سستی فراہمی یقینی بنانی ہوگی۔  اس کے ساتھ برآمدات کی حوصلہ افزائی کے لیے خصوصی مراعات اور عالمی مارکیٹ میں مسابقت کے قابل بنانے کے لیے رعایتی قرضے دینا ناگزیر ہے۔ مضبوط حکومتی پالیسی اور عملی اقدامات ہی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بحالی کا واحد راستہ ہیں۔ ٹیکسٹائل ایکسپرٹ غلام رسول چوہدری کے مطابق، اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔انہوں نے حکومت اور حکومتی اداروں کو تجاویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی لائی جائے تو ٹیکسٹائل پروڈکٹس کی پیداوار میں اضافہ کیا جاسکتا ہے ۔ برآمدات کے لیے سبسڈی اور خام مال کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے،ڈالر کی دستیابی اور امپورٹ پابندیوں کو  ختم کیا جانا چاہئے، طویل المدتی صنعتی پالیسی کو نافذ کیا جائے تو صنعت میں استحکام آئے گا ،سرمایہ داروں کا اعتماد بڑھے گا،سیاسی استحکام ہی ملکی،غیر ملکی سرمایہ داروں کے اعتماد کی بحالی میں معاون ثابت ہوتا ہے،اگر پاکستان میں ایسا یقینی ہوجائے تو سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا ۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا زوال حکومتی بے حسی، ناقص منصوبہ بندی، اور نظرانداز رویے کا نتیجہ ہے۔ یہ بحران صرف ایک شعبے تک محدود نہیں بلکہ لاکھوں خاندانوں کے روزگار اور ملکی معیشت کے استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ اگر حکومت نے فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے تو پاکستان نہ صرف اپنی برآمدی پوزیشن کھو دے گا بلکہ معیشت کو سنبھالنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ اب وقت ہے کہ حکمران خوابوں سے نکل کر حقیقت کا سامنا کریں اور اس اہم صنعت کو بچانے کے لیے عملی اقدامات کریں، ورنہ تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی۔

پاک،امریکا تعلقات:جوبائیڈن کا دورکیسا رہا؟

جو بائیڈن کا وائٹ ہاؤس میں قدم رکھنا ایک تاریخی لمحہ تھا، جس کے ساتھ ہی دنیا بھر کے ممالک نے اپنی پوزیشنیں از سرِ نو طے کرنا شروع کیں۔ پاکستان اورامریکا کے تعلقات، جو ہمیشہ ایک پیچیدہ سائے کی مانند رہے ہیں، بائیڈن کی صدارت میں ایک نیا موڑ لے رہے تھے۔ بائیڈن کے دور میں دونوں ممالک کے تعلقات میں کچھ ایسے مواقع اور چیلنجز آئے جو پاکستان کے لیے ایک نیا امتحان اور امریکا کے لیے ایک موقع ثابت ہوئے۔ یہ ایک کہانی ہے، جہاں ہر پیچیدہ لمحہ ایک نیا سبق سکھاتا ہے، اور ہر فیصلہ ایک نئی حقیقت کو جنم دیتا ہے۔ افغانستان سے امریکی انخلا: ایک سنگین اورکربناک لمحہ افغانستان میں امریکی افواج کے انخلا کا مرحلہ، جو بائیڈن کی صدارت میں ایک ایسا لمحہ تھا جس نے نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کی تقدیر کو بدل کررکھ دیا۔ جب امریکی افواج نے افغانستان چھوڑا، تو یہ فیصلہ نہ صرف امریکا بلکہ پاکستان کے لیے بھی ایک پیچیدہ صورتحال بن چکا تھا۔ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ اس عمل میں بھرپور تعاون کیا تھا،اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے کردار ادا کیا۔ تاہم، جیسے ہی طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھالا، دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کی نئی لہر اٹھ کھڑی ہوئی۔ پاکستان کا نقطہ نظر ہمیشہ یہی رہا کہ افغانستان میں امن کا قیام پاکستان کی اپنی قومی سلامتی کے لیے بھی ضروری ہے۔ لیکن امریکا نے پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ وہ طالبان کے اثر و رسوخ کو کم کرے، جبکہ پاکستان کی حکومت نے یہ مؤقف اختیارکیا کہ اس کے پاس اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ طالبان امن کے راستے پر قدم رکھیں گے۔ بائیڈن انتظامیہ کی پالیسیوں میں یہ نکتہ واضح تھا کہ امریکا پاکستان سے افغانستان کے معاملے میں اس کی پوزیشن پرتبدیلی چاہتا تھا، تاہم اس پرعمل درآمد ایک ایسا چیلنج بن گیا جس نے دونوں ممالک کے تعلقات میں شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ امریکی انتظامیہ نے پاکستان سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ اپنے روابط کو کم کرے، مگر پاکستان نے اس معاملے میں اپنی خودمختاری اور قومی مفادات کو مقدم رکھا۔ حقیقت: امریکہ نے پاکستان پر طالبان کے ساتھ روابط کو کم کرنے پر زور دیا، لیکن پاکستان نے ہمیشہ اس بات کو تسلیم کیا کہ افغان مسئلہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، جس کے حل میں پاکستان کا کردار محض معاونت کا رہا ہے۔ افغانستان میں امن کا قیام پاکستان کے لیے ہمیشہ اولین ترجیح رہا ہےاوریہ ہمیشہ ایک متنازعہ موضوع بن چکا ہے۔ جوہری ہتھیاروں پر امریکی بیانات:ایک کڑوا سچ اورپاکستانی خودمختاری کا سوال جوبائیڈن کے دورِ حکومت میں پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے سے جو بیانات آئے، وہ نہ صرف پاکستان کی حکومت بلکہ عوام کے لیے بھی ایک کڑا امتحان بن گئے۔ بائیڈن انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے یہ بیان دیا کہ پاکستان کا جوہری ہتھیاردنیا کےخطرناک ترین ہتھیاروں میں شمار ہوتا ہے، اوراس کاغیر منظم ہونا عالمی سطح پرایک سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔ یہ بیان پاکستانی حکام کے لیے ایک دھچکا تھا کیونکہ پاکستان کا جوہری پروگرام ہمیشہ سے ایک حساس موضوع رہا ہے،اوراس پراس طرح کی عالمی تنقید اس کے لیے ایک چیلنج بن گئی۔ پاکستان نے فوری طورپراس بیان کورد کیااوراس بات کی وضاحت پیش کی کہ اس کا جوہری پروگرام نہ صرف محفوظ ہے بلکہ عالمی معیارات کے مطابق ہے۔ پاکستان نے اس تنقید کو اپنے دفاعی حقوق کے تناظر میں دیکھا اور کہا کہ ہر قوم کا حق ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لیے مناسب اقدامات کرے، اور جوہری ہتھیار اس ضمن میں ایک اہم جزو ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے اس بیان کے بعد پاکستان نے اپنے موقف کو واضح کیا کہ اس کا جوہری پروگرام عالمی سطح پر تسلیم شدہ اصولوں کے مطابق محفوظ ہے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہے۔ حقیقت: امریکہ کے اس بیان کے بعد پاکستان نے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں مزید شفافیت فراہم کرنے کی پیشکش کی،مگر عالمی سطح پر جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے ہونے والی ہر بحث پاکستان کے لیے ایک چیلنج بنی۔ یہ ایک لمحہ تھا جب پاکستان کو اپنی خودمختاری اور دفاعی حقوق کو عالمی سطح پر تسلیم کروانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اقتصادی تعلقات: ایک سنگین بحران اور خاموش چیلنج امریکی-پاکستانی اقتصادی تعلقات ہمیشہ ایک سنگین بحران کی شکل میں سامنے آتے ہیں، اور بائیڈن کے دور میں یہ تعلقات کوئی نمایاں ترقی حاصل نہیں کر سکے۔ اگرچہ پاکستان نے اقتصادی بحرانوں کے دوران امریکہ سے امداد کی امید کی تھی، مگر بائیڈن انتظامیہ نے پاکستان کو غیر فوجی امداد فراہم کرنے کے وعدے تو کیے، لیکن یہ امداد پاکستان کی اقتصادی ضروریات کے مقابلے میں کافی نہیں تھی۔ پاکستان کا موقف تھا کہ امریکہ کو اس کی اقتصادی صورتحال میں زیادہ معاونت فراہم کرنی چاہیے تھی، خاص طور پر جب عالمی سطح پر اقتصادی دباؤ بڑھ رہا تھا۔ بائیڈن کے دور میں امریکی امداد کا حجم اتنا نہیں تھا جتنا کہ پاکستان کو درکار تھا، اور تجارتی تعلقات میں بھی کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوئی۔ پاکستان نے امریکہ سے درخواست کی تھی کہ وہ خطے میں پاکستان کے اقتصادی مفادات کے حوالے سے مزید معاونت فراہم کرے، لیکن امریکہ کی پالیسیوں میں ہمیشہ ایک تحفظ کا عنصر موجود رہا، جو تعلقات کی حقیقی ترقی میں رکاوٹ بنتا رہا۔ حقیقت: پاکستان نے امریکہ سے اقتصادی تعاون بڑھانے کے لیے کئی اقدامات کیے، مگر دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کی حقیقت ہمیشہ مختلف رہی۔ اس دوران پاکستان نے چین اور دیگر ممالک سے اپنی اقتصادی وابستگی کو مزید مستحکم کیا تاکہ اپنے اقتصادی چیلنجز کا مقابله کر سکے۔ دفاعی تعلقات: ایک بدلتی ہوئی حقیقت اورمحدود تعاون دفاعی تعلقات میں جو بائیڈن کے دور میں واضح کمی واقع ہوئی۔ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ دفاعی تعلقات میں تیزی سے کمی کی اور پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کیا۔ افغانستان میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد، پاکستان کے لیے عالمی سطح پر اپنی اہمیت کو دوبارہ ثابت کرنا ضروری ہو گیا، مگر امریکہ نے پاکستان کے ساتھ اپنے دفاعی تعلقات محدود کر

پندرہ ماہ کی جنگ نے غزہ کو کس طرح تباہ کیا، بحالی میں کتنا وقت درکار؟

Ghaza situation

قطر میں اسرائیل اور حماس کے درمیان 15 ماہ طویل جنگ کے خاتمے کے لیے معاہدہ طے پا گیا، اسرائیل کا ایک طویل عرصے تک یہ کہنا تھا کہ وہ اس وقت تک کسی بھی جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ اتفاق نہیں کرے گا جب تک کہ اس کی فوجی کارروائیاں مکمل نہ ہو جائیں جو اس نے اکتوبر 2023 میں حماس کے حملے کے نتیجے میں شروع کی تھیں۔ اس حملے میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ 251 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ غزہ کو وسیع تباہی کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں ایک سنگین انسانی بحران نے جنم لیا ہے۔ حماس کے زیرِ انتظام صحت کے وزرات کے مطابق اسرائیلی حملوں کی وجہ سے 46 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ غزہ کا بیشتر بنیادی ڈھانچہ اسرئیل کے فضائی حملوں سے تباہ ہو چکا ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس کے حملوں کا مقصد صرف حماس کے جنگجوؤں کو نشانہ بنانا تھا، اس نے شہریوں کے جانی نقصان کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ حماس نے اسرائیل کے حملوں کا جواب راکٹ فائر کرکے دیا۔ ہلاکتیں اور زخمی غزہ میں صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہسپتالوں میں ریکارڈ کی گئی ہلاکتوں اور اہلِ خانہ کی جانب سے رپورٹ کی گئی ہلاکتوں کا شمار کیا ہے جو اب 46 ہزار 788 تک پہنچ چکا ہے۔ وزراتِ صحت کے ریکارڈ کے مطابق 7 اکتوبر 2024 تک کی شناخت شدہ ہلاکتوں پر مبنی ہے، ان میں 59 فیصد خواتین ، بچے اور بزرگ شامل ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے تجزیے کے مطابق نومبر میں خواتین اوربچوں کی تعداد 70فیصد  تک پہنچ گئی تھی۔ غزہ کی وزراتِ صحت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس تنازعے میں 1ایک لاکھ 10 ہزار 453 فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) نے 3 جنوری کو رپورٹ کیا کہ ان متاثرین میں سے 25 فیصد لوگ زندگی بدل دینے والے زخموں کے ساتھ رہ گئے ہیں۔ حال ہی میں لینسیٹ میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں تجویز کیا گیا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد وزارت صحت کے اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔وزارت صحت کے ہلاکتوں کے اعداد و شمار میں شہریوں اور جنگجوؤں کے درمیان تفریق نہیں کی گئی، لیکن اسرائیلی دفاعی فوج (IDF) نے ستمبر 2024 تک 17 ہزار حماس جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا تاہم، اس نے اس دعوے کو کس طرح قائم کیا اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔ بنیادی ڈھانچہ اور اسپتال اس تنازعے نے غزہ بھر کے بنیادی ڈھانچے کو وسیع اور نمایاں نقصان پہنچایا ہے۔نیچے دی گئی تصدیق شدہ تصویر میں جبالیا کے ایک علاقے کو تنازعے سے پہلے اور پچھلے ہفتے دکھایا گیا ہے۔ سی یو این وائی گریجویٹ سینٹر کے ماہر کوری شئر اور جیمون وین ڈن ہوک ، اوریگن یونیورسٹی کے ماہر غزہ میں ہونے والے نقصان کا سیٹلائٹ تصاویر سے جائزہ لے رہے ہیں ۔ 11 جنوری تک کے اپنے تازہ ترین  تجزیے میں انہوں نے اندازہ لگایا کہ غزہ کی پٹی میں جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک 59.8 فیصد عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ اسرائیلی بمباری کا بیشتر حصہ شہری علاقوں پر مرکوز تھا اور کچھ بنیادی ڈھانچے کو متعدد بار نشانہ بنایا گیا۔ متحدہ قوموں کا سیٹلائٹ سینٹر (UNOSAT) نے زیادہ نقصان کا اندازہ لگایا ہے – اس نے رپورٹ کیا کہ دسمبر کے آغاز میں 69فیصد تمام عمارتیں تباہ یا نقصان زدہ ہو چکی تھیں۔ اقوام متحدہ نے یہ  نتیجہ بھی اخذ کیا کہ غزہ کی سڑکوں کے نیٹ ورک کا 68 فیصد حصہ  تباہ ہو چکا ہے۔ چند اہم طبی اداروں کے ہونے والے نقصان کی متعدد مثالیں سامنے آئی ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 50فیصد ہسپتال بند ہیں، جبکہ باقی جزوی طور پر کام کر رہے ہیں – جس کا مطلب یہ ہے کہ کھلے رہنے والے ہسپتالوں کے پاس دائمی بیماریوں اور  پیچیدہ  چوٹوں کے علاج کی سہولت نہیں ہے۔ مس ہسٹر نے بی بی سی ویری فائی کو بتایا کہ اب کئی خصوصی طبی خدمات کے لیے ماہرین اور مخصوص طبی آلات کی کمی ہے۔ اسرائیلی حملوں کے جاری رہنے کے دوران، جنگ بندی سے قبل غزہ میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں تعلیمی اداروں کو بھی کافی نقصان پہنچا ہے، اسرائیلی دفاعی فوج (IDF) نے یہ بتایاہے کہ وہ جولائی کے وسط سے حماس جنگجوؤں کو نشانہ بناتے ہوئے 49 بار اسکولوں کی عمارتوں پر حملہ کر چکے ہیں۔ ہم نے دسمبر کے آغاز سے اب تک 13 مقامات پر ایسے حملوں کی تصدیق شدہ ویڈیوز حاصل کی ہیں۔ یہ مقامات عموماً اسکول کے طور پر کام کرنا بند ہو چکے تھے اور اکثر پناہ گاہوں میں تبدیل ہو چکے تھے۔ اس بھاری نقصان کے سبب غزہ میں تعلیم کو دوبارہ معمول پر لانا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ بی بی سی نے یہ بھی دستاویزی طور پر دکھایا ہے کہ اسرائیل کی فوجی کارروائی کے بعد سینکڑوں پانی اور صفائی کی سہولیات کو مکمل طور پر تباہ کردیا گیا ہے۔ بنیادی ڈھانچے کی دوبارہ تعمیر، گھروں سے لے کر عوامی سہولتوں کی فراہمی، آنے والے سالوں میں ایک اہم چیلنج ثابت ہوگا۔ مئی میں اقوام متحدہ نے اندازہ لگایا تھا کہ غزہ کی پٹی کو دوبارہ تعمیر کرنے میں 40 ارب ڈالر کی لاگت آ سکتی ہے۔ غزہ بھر میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی اقوام متحدہ کے انسانی امور کے دفتر برائے ہم آہنگی کے اندازے کے مطابق 1.9 ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں – جو غزہ کی آبادی کا تقریباً 90 فیصد بنتا ہے۔ کچھ افراد ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں کئی بار منتقل ہو چکے ہیں۔ بی بی سی ویری فائی تنازعے کے آغاز سے غزہ میں انخلاء کے احکامات کی نگرانی کر رہا ہے۔ غزہ کی تقریباً 2.3 ملین آبادی کو اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑا ہے کیونکہ اسرائیل نے پورے علاقے میں مسلسل فضائی حملے کیے اور بڑے رہائشی علاقوں کے لیے بڑے  پیمانے پر انخلاء کے احکامات جاری کیے۔ حالیہ تجزیے سے ظاہر ہوا کہ اکتوبر سے لے کر نومبر کے آخر تک شمالی

چنگاری سے راکھ تک:لاس اینجلس میں کتنا نقصان ہوچکا؟

چنگاری پھوٹی،شعلے نکلے اور پھیلتے ہی گئے،ایسے پھیلے کے رکنے کا نہ بجھنے کا نام لیا،ایسی آگ پھیلی کہ بڑے بڑے بنگلوں کو راکھ بنادیا۔ لاس اینجلس میں لگی آگ کی تباہ کاریاں تاحال  جاری ہیں ،امریکا جو سپر پاور ہونے کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن وہ اپنی تمام تر طاقت لگانے کے باوجود بھی اب تک اِس آگ پر قابو پانے میں ناکام نظر آرہا ہے ، اب صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ یہ آگ مزید شہروں میں پھیل سکتی ہے ،اس آگ   سے  لاکھوں افراد کی جانیں خطرے میں ہیں ۔  غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں لگی آگ سے تباہ ہونے والی عمارتوں کا ملبہ ہٹانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے،حکام کا کہنا ہے کہ عمارتوں کے ملبے، راکھ اور گرد میں بھاری دھاتیں اور دیگر خطرناک مواد شامل ہوسکتا ہے۔ یہ خطرناک اجزا سانس کے ذریعے، جلد پر لگنے سے یا پینے کے پانی میں شامل ہوکر جسم میں داخل ہوسکتے ہیں۔کچرے کو نامناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے سے ان خطرناک مادوں کے پھیلاؤ کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے جس سے امدادی کارکنوں، رہائشیوں اور ماحول کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس آگ سے اب تک 25 افراد ہلاک اور 12 ہزار سے زائد مکانات تباہ ہوچکے ہیں، 40 ہزار سے زائد ایکڑ رقبہ جل چکا ہے۔ مزید 88 ہزار افراد کو متاثرہ علاقہ چھوڑنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔دوسری جانب امریکا میں لگنے والی آگ انشورنس کمپنیوں پر بہت بھاری پڑی ہے، اِن بیمہ کنندگان کو 30 ارب ڈالر تک ادائیگیاں کرنا پڑسکتی ہیں۔اس تاریخی آگ میں اب تک 12 ہزار سے زائد گھر جل کر خاک کا ڈھیر بن چکے ہیں اور ان میں اکثر انتہائی قیمتی گھر تھے، جن کے مالکان نے انشورنس کرا رکھی تھی۔ غیر ملکی میڈیا  کا کہنا ہے کہ  آگ پر اب تک قابو نہیں پایا جا سکا ہے اور یہ مشرق میں برینٹ ووڈ تک پھیل گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق تجزیہ کاروں نے ابتدائی طور پر تخمینہ لگایا تھا کہ بیمہ کمپنیوں کو متاثرین کو کلیمز کی ادائیگی میں 20 ارب ڈالر تک ادائیگیاں کرنا پڑ سکتی ہیں تاہم اس کا پھیلاؤ اور نقصان بڑھنے کے باعث اب یہ تخمینہ 30 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے،اس حوالے سے جاپان کی ٹوکیو میرین ہولڈنگز انکارپوریشن نے کہا ہے کہ متاثرین کو جلد از جلد انشورنس کلیم ادا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔  لاس اینجلس کے جنگلات میں لگی خوفناک آگ میں اب تک 25 کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں دو اداکار بھی شامل ہیں۔دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ آگ کیسے لگی ؟اور اب امریکا میں اِس کی تحقیقات بھی ہورہی ہیں اب یہ بھی  دیکھنا باقی ہے کہ اِس آگ پر قابو پایا جاتا ہے یا پھر یہ آگ مزید شہروں میں پھیل کر تباہی پھیلانے کا سبب بنتی ہے ۔

ویپنگ کا بڑھتا رجحان، کیا یہ واقعی محفوظ ہے؟

“بھائی میں تو سموکنگ نہیں کرتا میں تو ویپنگ کرتا ہوں۔ میرا بھائی، میرا بیٹا ویپنگ کرتا ہے۔ سموکنگ چھوڑنی ہے تو ویپنگ شروع کر دو۔ نہیں نہیں ویپنگ صحت کے لیے خطرناک نہیں ہے۔” یہ وہ تمام جملے ہیں جو ہمیں عام سننے کو ملتے ہیں۔ کیا آپ کو بھی ویپنگ کرنے کا شوق ہے؟ منہ سے دھواں نکالتے ہوئے ویڈیوز بنانا اور دوستوں کے ساتھ شیئر کرنا آج کل فیشن بن چکا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں تمباکو نوشی کو صحت کے لئے ایک سنگین خطرہ سمجھا جاتا ہے۔  لاکھوں لوگ اس لت کے باعث زندگیاں گنوا رہے ہیں اورکروڑوں مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔لیکن کیا آپ جانتے ہیں سگریٹ نوشی زیادہ خطرناک ہے یا پھر ویپنگ؟ ویپنگ انسانی صحت پر کیا اثرات مرتب کرتی ہے؟ کیا ویپنگ یا ای سگریٹ تمباکو نوشی چھوڑنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے یا پھر تمباکو نوشی کی لت کا باعث بنتی ہے؟ حکومت پا کستان نے 2015 میں سگریٹ کے پیکٹس پر خوفناک تصاویر شائع کرنا لازم قرار دیا تھا تاکہ تمباکو نوشی کے نقصانات سے لوگوں کو آگاہ کیا جا سکے۔ طبی ماہرین کے مطابق اس وقت پاکستان میں یومیہ 460 افراد تمباکو نوشی کی وجہ سے زندگیاں گنوا رہے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے ‘بی بی سی’ کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 39 لاکھ سے زائد افراد تمباکو نوشی کے عادی ہیں، جن میں سے ایک کروڑ 60 لاکھ افراد سگریٹ کے ذریعے تمباکو نوشی کرتے ہیں جبکہ باقی افراد دیگر ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ حقہ اور بیڑی تو تمباکو نوشی کے پرانے یا روایتی طریقے ہیں جن سے ہر کوئی واقف ہے لیکن ویپنگ ایک ایسا طریقہ ہے جو نوجوانوں خصوصا شہری علاقوں میں تیزی سے عام ہوا ہے۔ ویپنگ ایک ایسا فعل ہے جس میں نکوٹین کو دھویں کی شکل میں ای سگریٹ یا الیکڑانک سگریٹ کے ذریعے جسم میں داخل کیا جاتا ہے۔  برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک ماہ تک تحقیق کی گئی جس میں 114 سگریٹ نوشوں نے حصہ لیا۔  تحقیق کے نتائج کے مطابق ویپنگ سے دل کے دورے اور فالج کے خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے لیکن یہ مکمل طور پر صحت کے لیے محفوظ نہیں ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ سگریٹ نوشی کے تمام طریقوں کو ترک کرنا ہی صحت کے لئے محفوظ ہے۔ سگریٹ کے دھوئیں میں موجود کیمیائی مادے خون میں شامل ہو کر شریانوں سے گزرتے وقت چربی کے ساتھ چپک جاتے ہیں جس سے شریانیں تنگ ہو جاتی ہیں۔  شریانوں کی پھیلنے کی صلاحیت سے ہی ان کی صحت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ برٹش جنرل آف کارڈیالوجی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق شریانوں کے پھیلنے اور ہارٹ اٹیک کے طویل مدتی خطرات کے درمیان مثبت تعلق پایا گیا ہے، صحت مند اور سگریٹ نوشی نہ کرنے والوں کا سکور 7.7 فیصد، سگریٹ نوشی کرنے والوں کا سکور 5.5 فیصد جبکہ ویپنگ کرنے والوں کا سکور 6.7 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ طبی ماہرین کے مطابق ای سگریٹ میں موجود نکوٹین دماغی نشوونما پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے جو کہ عادی بنانے کا باعث بن سکتی ہے۔  اس کے محلول میں موجود کیمیائی مادے پھیپھڑوں اور دل کی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ پاکستان میٹرز نے منصورہ ہسپتال لاہور کے ڈاکٹر عمیر احمد صدیقی  سے اس معاملے پر سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ”ویپنگ معاشرے میں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔  نوجوان اسے فیشن  سمجھ کر چھوٹی عمر سے ہی اپنا رہے ہیں۔ ویپنگ سیگریٹ نوشی سے کم نقصان پہنچاتی ہے لیکن پھر بھی  انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ دل اور پھیپھڑوں پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتی ہے۔ پھیپھڑوں پر اس کے اثرات سے دمہ اور  پیرینچیمل جیسی مہلک بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ  ویپنگ انسان کی شریانوں کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہے”۔ انہوں نے مزید  کہا کہ “نوجوان نسل  میں ویپنگ اس لیے  بڑھ رہی ہے کیوں کہ اس کو فیشن کے طور پر  اپنایا جا رہا ہے۔  اس  کے علاوہ ویپنگ مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اور نوجوانوں تک آسان رسائی  اس کے استعمال کو بڑھا رہی ہے۔ حکومت کو ویپنگ پہ بھی قانون سازی کرنی چاہیے تا کہ اس کے استعمال کو محفوظ  بنایا جا سکے۔ جس طرح سگریٹ پہ پابندیاں لگائی گئی ہیں اسی طرح ویپنگ پہ بھی لگائی جانی چاہیے”۔   ماہرین کی رائے اور دنیا بھر میں ہونے والی تحقیقات کے مطابق ویپنگ تمباکو نوشی سے کم مگر نقصان دہ اور انسانی صحت کے لیے مہلک ہے۔ فیشن کے طور پر ویپنگ کرنے والے افراد کی بڑی تعداد تمباکو نوشی کی عادی ہو جاتی ہے جو مزید طبی نقصانات کا باعث ہوتا ہے۔

شادیوں میں دولت کی نمائش:ضرورت یا مجبوری

’لوگ کیا کہیں گے‘یہ وہ جملہ ہے جس کے لیے پاکستان میں شادیوں پر پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے،مفت کا مال سمجھ کرہوا میں اڑایا جاتا ہے اور پھر کم حیثیت لوگ کئی سال تک قرضوں کی دلدل میں پھنسے رہتےہیں۔ گزشتہ دنوں یوٹیوبر رجب بٹ کی شادی میں ملک کے نامورسوشل میڈیاسٹارزکی جانب سے پانی کی طرح پیسہ بہایا گیا۔ رائفل سے لےکرشیرکےبچے تک لوگوں نے بے شمار تحائف دیے، جس کی وجہ سے دولہے کو پولیس اسٹیشن کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ایک طرف پیسہ اڑانے جیسی فضول رسم  پروان چڑھ رہی ہے تو دوسری طرف جہیز میں طرح طرح کی چیزیں مانگنا بھی ایک الگ مسئلہ بن گیا ہے،پنجاب حکومت نے شادیوں کو سادہ کرنے کے بجائے سرکارکی طرف سے’دھی رانی پروگرام‘کے تحت ایک لاکھ روپے سلامی اوردو لاکھ کے تحائف دینے کا اعلان کیا گیا، آخر شادیوں پر فضول خرچی کرنے کی وجہ کیا ہے؟ ہرسال ستمبر کے آتے ہی شادیوں کا موسم شروع ہوجاتا ہے اوردسمبر تک جاری رہتا ہے۔ اس دورانیے میں سڑکوں پر باراتیوں کی لمبی لمبی گاڑیاں نظرآتی ہیں، بے دریغ خرچ ہوتا ہوا پیسہ نظر آئے گا۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ جہاں ایک طرف ملک میں لاکھوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے  زندگی گزار رہے ہوں  وہیں دوسری طرف فضول خرچ ہوتا ہوا پیسہ نظر آرہا ہو؟ ایک عام فرد سوچنے پر مجبورہوجاتا ہے کہ ’کیسے جاہل لوگ ہیں فضول میں پیسے کا ضیاع کر رہے ہیں‘ یا پھر آپ کہیں گےکہ یہ پیسے کی نمائش کی جارہی ہے، مگر ہم سب انہی رسومات میں جکڑے ہوئے ہیں۔ نومبر کو ’شادی ماہ‘ کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ پاکستان میں سب سے زیادہ شادیاں نومبر میں ہوتی ہیں، شادیوں میں سب سے زیادہ خرچہ متوسط طبقے کی جانب سے دیکھنے کو ملتا ہے۔  خاندان والوں سے شراکت داری ہونے کے نام پر قرضہ لے کر شادی کرنے کا رواج عام ہوچکا ہے،دیہات میں عزت کا کہہ کر پانی کی طرح پیسہ بہایا جاتا ہے۔  لیکن شہروں نے اب دیہات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ شادی ہالز کے بننے کے  بعد  شہر کے سارے شادی ہال ہر وقت بُک ہی نظر آتے ہیں۔ فضول خر چی کا یہ عالم ہے کہ چھوٹے ہالز میں شادی کی بجائے صرف جنم دن کے کیک کاٹے جارہے ہیں۔ یہ وہ لوگ نہیں جو امیر ہیں بلکہ یہ وہ ہیں جو امیر دکھنا چاہتے ہیں۔  لوگوں کی شاد یوں پر بے تحاشا پیسہ خرچ کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے آبا ؤ اجداد نے اس طرح کی شادیاں کی تھیں اور اگر وہ فضول خرچی نہیں کریں گے تو لوگ کیا کہیں گے۔اشتہارات اور ڈراموں نے فضول خرچی کو ہوا دی ہے، بلاوجہ ایسی چیزیں دکھاتے ہیں جن سےلگتا ہےکہ ان کے بغیر شاید شادی ادھوری ہے۔  شادیوں میں یوں فضول خرچی کرنے کی وجہ دکھاوا ہے یا احساس کمتری؟ یہ ایک نفسیاتی سوال ہے، ماہرین اپنی اپنی رائے رکھتے ہیں، ماہرین کے مطابق دونوں جواب ہی اپنی جگہ پر صحیح ہیں، اگر غور کیا جائےتو پتہ چلتا ہے کہ یہ احسا س کمتری ہے جس کے پیشِ نظر فضول خرچی نے جنم لیا ہے۔ اسائنمنٹ ایڈیٹر 24 نیوز اینڈ بلاگر  ثنا نقوی کا پاکستان میٹرز خصوصی بات چیت کرتے ہوئے  کہنا تھا کہ فضول خرچی کی ایک بڑی وجہ معاشرتی رسومات کی قید ہے ۔ اس کے علاوہ دکھاوے ، رشتےداروں میں احساس برتری اورذاتی تسکین کےلئے بھی  شادیوں پر فضول خرچی کی جاتی ہے ۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ شادیوں پر بے بہا پیسہ خرچ کرنے والوں کو لگتا ہے کہ  پیسہ خرچ نہ کرنے سے  انہیں لوگ اپنے سے کم تر سمجھیں گے،یا عزت نہیں کی جائے گی۔ ایسے لوگوں کو لگتا ہے کہ عزت پیسے سے ملتی ہے اور وہ عزت خریدنے نکل پڑتے ہیں مگر وہ شاید نہیں جانتے کہ عزت خریدی نہیں جاتی بلکہ کمانی پڑتی ہے۔  ماہرینِ نفسیات کے مطابق، وہ احسا س کمتری کا شکار ہوتے ہیں، اپنی دھاک بٹھانے کی غرض سے فضول خرچی کرتے ہیں اور  بعد میں پریشانیوں کا شکار ہوتے ہیں،۔ یہ ز یادہ تر سفید پوش لوگ ہوتے ہیں ۔ عزت اوراحسا س کمتری میں آکر خود کو مصیبتوں میں ڈال دیتے ہیں۔ ثنا نقوی نے کہا کہ قریبی رشتے داروں اور  دوست احباب سے اپنا موازنہ کرنے کی وجہ سے سفید پوش طبقہ احساسِ کمتری کا شکار ہوچکا ہے۔ شادیوں پر کی جانے والی فضول خرچیوں کو روکنے کےلئے ضروری ہے کہ شادی کی رسومات کو  سادگی اور شرعی طریقے سے کیا جائے۔  اس کے علاوہ شادی هالز کے اوقات کار اور ون ڈش کی پابندی میں انتظامیہ کی جانب سے سختی فضول خرچی کو روکنے میں صحیح معنوں میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔  ہر پڑھا لکھا انسان اس بات کو بخوبی جانتا ہے مگرجب وقت آتا ہے تو وہ بھی انہی فضول رسومات کا شکار ہو جاتا ہے، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ہم سب کو اس پر سوچنے کی ضرورت ہے، آخر کونسی وجوہات ہیں جنہوں نے ہمیں اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے اورہم لوگ ایک مصنوعی زندگی جینے پر مجبور ہوکررہ گئے ہیں۔ 

وزیر داخلہ محسن نقوی کی منصورہ آمد، جماعت اسلامی کے سربراہ حافظ نعیم الرحمن سے ملاقات

وزیر داخلہ محسن نقوی کی جماعت اسلامی کے ہیڈکوارٹر منصورہ آمد، امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن سے ملاقات کی۔ ملاقات میں ملک میں امن و امان کی صورتحال اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا خصوصا قبائلی ضلع کرم کے حالات پر بھی گفتگو کی گئی۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ پورے ملک میں امن وامان کا قیام حکومت کی اولیں ترجیح ہے۔ محسن نقوی نے آئی پی پیز سے معاہدوں کے حوالے سے بھی امیر جماعت اسلامی کو آگاہ کیا۔ امیر جماعت اسلامی نے کے الیکٹرک کے بارے میں بھی تجاویز پیش کیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان کو فلسطین کے معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ حکومت اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے، وزیر اعظم پاکستان نے ہر فورم پر مسئلہ فلسطین کو اجاگر کیا ہے۔ ملاقات میں سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی امیر العظیم اور نائب امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر اسامہ رضی بھی موجود تھے۔