امریکا کا انڈین آم قبول کرنے سے انکار

انڈین حکام نے بھیجی گئی شپ منٹس کی مکمل دستاویزات نہیں بھیجی تھیں۔ اکنامک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یہ آم ہوائی جہاز کے ذریعے امریکا کے مختلف ایئرپورٹس، بشمول لاس اینجلس، سان فرانسسکو اور اٹلانٹا بھیجے گئے تھے لیکن امریکی حکام نے انہیں مسترد کر دیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ آموں کو 8 اور 9 مئی کو ممبئی میں تابکاری (irradiation) کے عمل سے گزارا گیا تھا۔ یہ عمل پھلوں کی شیلف لائف بڑھانے اور کیڑوں کے خاتمے کے لیے ضروری ہوتا ہے لیکن متعلقہ دستاویزات کی کمی کے باعث یہ شپمنٹس معیار پر پوری نہیں اتریں۔ امریکی حکام نے برآمد کنندگان کو ہدایت دی کہ وہ یا تو یہ آم ضائع کر دیں یا واپس انڈیا بھجوا دیں۔ برآمد کنندگان نے آموں کو ضائع کرنے کا فیصلہ کیا، جس سے انہیں تقریباً 5 لاکھ ڈالر کا ممکنہ نقصان برداشت کرنا پڑا۔ امریکا کا یہ فیصلہ برآمدی عمل میں سخت معیار، درست دستاویزات کی اہمیت اور بین الاقوامی منڈی میں مسابقتی تقاضوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ مزید پڑھیں: ’آج شہر سوگ میں ہے‘، امریکی ریاستوں میں شدید طوفان، 25 افراد ہلاک ہوگئے
پاکستانی معیشت کے بعض شعبوں میں بہتری آئی مگر خطرات بدستور موجود ہیں، آئی ایم ایف

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت کے مالیاتی اور بیرونی شعبوں میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے، مگر مجموعی معاشی ترقی میں تنزلی اور متعدد خطرات اب بھی موجود ہیں۔ عالمی نشریاتی ادارے ‘بی بی سی اردو’ کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اسٹاف لیول معاہدے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف پروگرام پر مؤثر عمل درآمد کیا، جس کے مثبت اثرات مالیاتی استحکام، مہنگائی میں جزوی کمی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگرچہ کچھ شعبوں میں بہتری ہوئی ہے، مگر پاکستان کی معیشت کو اب بھی کئی اندرونی و بیرونی خطرات لاحق ہیں۔ مزید پڑھیں: ایف بی آر کی تجاویز مسترد، آئی ایم ایف نے پاکستانی حکومت کے لیے نئی مشکلات کھڑی کردیں رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر جاری معاشی غیر یقینی صورتحال، جیو پولیٹیکل تناؤ کے باعث اجناس کی قیمتوں میں ممکنہ اضافہ اور امریکہ کی جانب سے ٹیرف بڑھانے کی پالیسی، پاکستان کی مالیاتی صورتحال پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ عالمی ادارے نے کہا ہے کہ اگر ترسیلات زر میں کمی واقع ہوئی یا پاکستان کے تجارتی شراکت دار ممالک نے کسی قسم کی تجارتی رکاوٹیں پیدا کیں، تو اس سے ملک کے بیرونی شعبے کو شدید مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ سیاسی یا سماجی کشیدگی میں اضافہ بھی پالیسی اصلاحات کے عمل کو متاثر کر سکتا ہے، جو معیشت کی پائیدار بحالی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان، ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث قدرتی آفات کے شدید خطرات کی زد میں ہے، جو معیشت کو مزید غیر مستحکم کر سکتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: انڈیا کے ساتھ کشیدگی میں پاکستان کو کوئی بڑا مالی نقصان نہیں ہوگا، وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب آئی ایم ایف نے حکومتِ پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ جاری اصلاحاتی اقدامات کو تسلسل کے ساتھ آگے بڑھائے اور معیشت کو درپیش ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے مربوط اور طویل المدتی حکمت عملی ترتیب دے۔
ایف بی آر کی تجاویز مسترد، آئی ایم ایف نے پاکستانی حکومت کے لیے نئی مشکلات کھڑی کردیں

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے تنخواہ دار طبقے کو بڑے پیمانے پر ٹیکس میں ریلیف فراہم کرنے کی تجویز مسترد کر دی ہے۔ آئی ایم ایف کا مؤقف ہے کہ اس قسم کا ریلیف ٹیکس محصولات میں خاطر خواہ کمی کا باعث بنے گا، جس سے مالیاتی نظم و ضبط متاثر ہو سکتا ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مقامی سطح پر دیے جانے والے دلائل، جیسے کہ “زیادہ ٹیکس شرح سے محصولات میں کمی واقع ہوتی ہے” کو نظرانداز کرتے ہوئے آئی ایم ایف کی تجویز کردہ پالیسیوں اور سفارشات پر عملدرآمد کو ترجیح دے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ آئندہ بجٹ میں نئے ٹیکس اقدامات نافذ کرے اور نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ پر دوبارہ غور کرے۔ آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام کے دلائل مسترد کرتے ہوئے پاکستان کو ماہرین کی سفارشات پر عمل کرنے کا مشورہ دیا ہے جس سے تنخواہ دار طبقے یا رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو کسی ریلیف کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ مزید پڑھیں: احتجاجی مظاہروں اور عید تعطیلات کے باعث آٹو سیلز متاثر، گاڑیوں کی فروخت میں 5 فیصد کمی یار رہے کہ اس سے قبل حکومت پاکستان نے آئندہ بجٹ کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ مجوزہ ٹیکسیشن اقدامات کے اہم نکات پیش کیے تھے۔ ان نکات میں مختلف انکم سلیب پر تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کی شرح کو 10 فیصد تک کم کرنا شامل تھا۔ اگر آئی ایم ایف اس کمی پر اتفاق کرتا تو آئندہ بجٹ میں ان افراد کو 50 ارب روپے تک کا ریلیف مل سکتا تھا۔ آئندہ بجٹ کو حتمی شکل دینے کے لیے آئی ایم ایف اور پاکستانی ٹیم کے درمیان 14 مئی سے 22 مئی تک مذاکرات جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ مزید پڑھیں: پاکستان کی سرزمین یا سالمیت پر حملہ ہوا تو جواب بے رحم ہو گا، ڈی جی آئی ایس پی آر
امریکا کی تجارتی پالیسیوں پر انڈیا کا ممکنہ جوابی وار، درآمدی محصولات لگانے کا عندیہ

عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کو دی گئی حالیہ دستاویز کے مطابق انڈیا نے اشارہ دیا ہے کہ وہ امریکا سے درآمد ہونے والی کچھ مخصوص اشیاء پر اضافی محصولات عائد کرنے پر غور کر رہا ہے۔ یہ اقدام واشنگٹن کی جانب سے انڈین اسٹیل اور ایلومینیم پر لگائی گئی نئی ڈیوٹیوں کے جواب میں کیا جا رہا ہے۔ انڈیا کی جانب سے ڈبلیو ٹی او کو جمع کرائی گئی رپورٹ، جو 12 مئی کو جاری ہوئی تھی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ “چھوٹ یا دیگر رعایات کی معطلی امریکی مصنوعات پر درآمدی ڈیوٹیوں میں اضافے کی صورت میں ہوگی۔” تاہم، یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کن اشیاء کو ان محصولات کی زد میں لایا جائے گا۔ مارچ میں امریکا نے غیر ملکی اسٹیل اور ایلومینیم پر 25 فیصد ڈیوٹی لاگو کی تھی جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 2018 کے فیصلے کی توسیع ہے۔ انڈیا، جو دنیا کا دوسرا بڑا خام اسٹیل پیدا کرنے والا ملک ہے، اب اس کا کہنا ہے کہ امریکی اقدامات سے 7.6 ارب ڈالر مالیت کی انڈین مصنوعات متاثر ہو سکتی ہیں۔ لازمی پڑھیں: انڈیا کے ساتھ کشیدگی میں پاکستان کو کوئی بڑا مالی نقصان نہیں ہوگا، وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب رپورٹ کے مطابق، امریکا نے جواباً انڈین مصنوعات پر 26 فیصد تک کے محصولات عائد کرنے کی دھمکی دی ہے جبکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی معاہدے کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ انڈیا نے اس معاہدے میں اپنے درآمدی محصولات میں دو تہائی کمی کی پیشکش بھی کی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ انڈیا خود بھی چینی اسٹیل کی یلغار کو روکنے کے لیے گزشتہ ماہ 12 فیصد عارضی محصولات نافذ کر چکا ہے۔ اب نہ صرف اندرونی منڈی کو متوازن رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے بلکہ نئی تجارتی حکمت عملی کے تحت بیرونی منڈیوں تک رسائی کو بھی ترجیح دی جا رہی ہے۔ یہ صورتحال مستقبل میں امریکا اور انڈیا کے تجارتی تعلقات میں مزید کشیدگی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ مزید پڑھیں: امریکا کا چین سے آنے والی کم قیمت اشیاء پر ٹیکس کم کرنے کا اعلان
امریکا کا چین سے آنے والی کم قیمت اشیاء پر ٹیکس کم کرنے کا اعلان

دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان جاری تجارتی کشیدگی میں غیر متوقع موڑ، امریکا نے چین سے آنے والی کم قیمت اشیاء پر لگایا گیا ٹیکس واپس لینے کا فیصلہ کر لیا۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ ایکزیکٹو آرڈر کے مطابق “ڈی منیمس” کیٹیگری میں آنے والی مصنوعات پر عائد 120 فیصد ٹیکس کو کم کر کے 54 فیصد کر دیا گیا ہے جبکہ 100 ڈالر کا فلیٹ فیس برقرار رہے گی۔ جنیوا میں ہونے والی بات چیت کے بعد چین اور امریکا نے ایک مشترکہ اعلامیہ میں باہمی محصولات کو کم کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے اپریل سے لگائے گئے بیشتر اضافی ٹیکسز کو کم کر دیا ہے جو اب آئندہ 90 دنوں تک محدود سطح پر برقرار رہیں گے۔ تاہم جنیوا معاہدے میں “ڈی منیمس” قوانین کا ذکر نہیں تھا لیکن وائٹ ہاؤس کے اعلامیہ نے اس خفیہ فیصلے کو منظر عام پر لا دیا۔ یاد رہے کہ فروری میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈی منیمس استثنیٰ ختم کرتے ہوئے ان مصنوعات پر 120 فیصد ٹیکس یا 200 ڈالر فلیٹ فیس لگانے کا حکم دیا تھا جو یکم جون سے نافذ ہونا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اس فیصلے کو شین، تیمو اور دیگر چینی ای کامرس کمپنیوں کی بے جا مراعات اور منشیات اسمگلنگ جیسے جرائم سے جوڑا تھا۔ اعداد و شمار کے مطابق امریکا میں داخل ہونے والی ڈی منیمس کھیپوں کی تعداد میں حالیہ برسوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے جن میں سے 60 فیصد سے زائد چین سے آتی ہیں۔ شین، تیمو اور علی ایکسپریس جیسی چینی کمپنیوں نے اس سہولت کا بھرپور فائدہ اٹھایا جبکہ امریکی کمپنی ایمازون نے بھی اسی طرز پر ‘ہال’ نامی سروس شروع کی۔ ڈی منیمس قانون، جو 1938 سے نافذ ہے اور دنیا میں سب سے فراخدلانہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ یورپی یونین میں اس کی حد صرف 150 یورو ہے۔ ماہرین کے مطابق آئندہ 90 دنوں میں یہ کمپنیاں بڑی مقدار میں اشیاء درآمد کر کے اپنے امریکی گوداموں کو دوبارہ بھرنے کی کوشش کریں گی۔ یہ اعلان نہ صرف ای کامرس صنعت کے لیے ایک نئی راہ ہموار کرتا ہے بلکہ امریکا اور چین کے درمیان تجارتی محاذ پر ایک بڑی پیش رفت بھی ہے جو دونوں ممالک کی معیشتوں کو استحکام دینے کی سمت ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ مزید پڑھیں: انڈیا کے ساتھ کشیدگی میں پاکستان کو کوئی بڑا مالی نقصان نہیں ہوگا، وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب
انڈیا کے ساتھ کشیدگی میں پاکستان کو کوئی بڑا مالی نقصان نہیں ہوگا، وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ انڈیا کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے باوجود پاکستان کی معیشت کو کوئی بڑا مالی نقصان نہیں ہوگا، اور اس صورتِ حال کو حکومت موجودہ مالی حالات کے اندر رہتے ہوئے سنبھال سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بات غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارتی مذاکرات جلد مکمل ہو جائیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ پاکستان امریکا سے کپاس، سویا بین اور دیگر چیزیں جیسے ہائیڈروکاربنز درآمد کرنے پر غور کر رہا ہے۔ وزیر خزانہ نے یہ بھی کہا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی میں امریکا نے اہم کردار ادا کیا۔ محمد اورنگزیب نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی کو “چھوٹا تنازع” قرار دیا اور کہا کہ اس کا مالی اثر معمولی ہے اور اسے حکومت باآسانی سنبھال سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر دفاعی ضروریات کے لیے مزید اقدامات کرنا پڑے تو حکومت کرے گی، لیکن فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اگلے بجٹ میں دفاعی اخراجات بڑھیں گے یا نہیں۔ یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟ اسی دن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ایک بیان میں کہا کہ امریکا، پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی کے بعد دونوں ممالک کی مدد کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تجارت اس جنگ بندی کی ایک بڑی وجہ تھی۔ پاکستان کو امریکا کے ساتھ تجارت میں تقریباً 3 ارب ڈالر کا فائدہ ہو رہا ہے، لیکن امریکا نے پاکستانی برآمدات پر 29 فیصد ٹیکس لگانے کا اعلان کیا تھا، جس پر اپریل سے 90 دن کے لیے عمل روک دیا گیا ہے۔ 9 مئی کو آئی ایم ایف نے پاکستان کو 7 ارب ڈالر کے قرض پیکیج میں سے ایک ارب ڈالر کی قسط دینے کی منظوری دی، جو وزیر خزانہ کے مطابق منگل کو پاکستان پہنچ جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کا اضافی قرض بھی دیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ جولائی سے شروع ہوگا اور اگلے تین سے چار ہفتوں میں اسے حتمی شکل دے دی جائے گی۔ اس سلسلے میں 14 سے 23 مئی تک آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات بھی ہوں گے۔ یاد رہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان یہ کشیدگی 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے کے بعد شروع ہوئی، جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ انڈیا نے بغیر کسی ثبوت کے اس حملے کا الزام پاکستان پر لگایا، جسے پاکستان نے سختی سے مسترد کیا اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ بعد ازاں، انڈیا نے پاکستان پر حملہ کرنے کی کوشش کی جس کے جواب میں پاکستان کی مسلح افواج نے بھرپور کارروائی کرتے ہوئے بھارت کے پانچ جنگی طیارے مار گرائے، کئی چیک پوسٹس، بریگیڈ ہیڈکوارٹر اور مہار بٹالینز کو نشانہ بنایا۔ اس کے بعد انڈیا کی فوج نے لائن آف کنٹرول کے مختلف علاقوں میں سفید جھنڈے لہرا کر پسپائی اختیار کی۔ 10 مئی کو پاکستان نے “آپریشن بنیان مرصوص” شروع کیا، جس میں انڈیا کے کئی فوجی اور دفاعی ٹھکانے، ایئربیسز، براہموس میزائل اسٹوریج اور ایس 400 نظام کو تباہ کیا گیا۔ اس شدید صورتحال کے بعد، دونوں ممالک نے جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اس کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان اور انڈیا مکمل سیز فائر پر راضی ہو گئے ہیں۔
آئی ایم ایف کا پاکستان سے آٹو انڈسٹری پر ٹیرف تحفظ کم کرنے کا مطالبہ

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ سے قبل آٹو انڈسٹری کو حاصل غیرمعمولی ٹیرف تحفظ میں کمی کرے اور استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل درآمد کی اجازت دے۔ خبر ارساں ویب سائیٹ پرافٹ کے مطابق آئی ایم ایف کا مؤقف ہے کہ پاکستان کا آٹو سیکٹر غیر ضروری طور پر تحفظ یافتہ ہے، جہاں مقامی طور پر تیار کی جانے والی گاڑیوں پر کسٹمز ڈیوٹی اور دیگر ٹیرف 40 فیصد سے بھی زائد ہیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ اس بلند حفاظتی دیوار نے اس شعبے کو غیر مسابقتی اور کم مؤثر بنا دیا ہے، جس کا بالآخر نقصان صارفین کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ مقامی آٹو اسمبلرز اور پرزہ جات ساز اداروں نے ان تجاویز پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مکمل تیار شدہ گاڑیوں پر ٹیرف میں نمایاں کمی اور استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل سطح پر درآمد کی اجازت سے مقامی صنعت کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔ ان خدشات کا اظہار 6 مئی کو وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے ریونیو ہارون اختر خان کے ساتھ ایک اہم اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس میں شریک صنعت کے نمائندوں نے مؤقف اختیار کیا کہ ایسے اقدامات سے مقامی سرمایہ کاری متاثر ہوگی، روزگار کے مواقع کم ہوں گے اور آٹو ویلیو چین کو نقصان پہنچے گا۔ تاہم، معاونِ خصوصی نے یقین دہانی کرائی کہ حکومت آٹو سیکٹر کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اصلاحات کا متوازن خاکہ تیار کرے گی، تاکہ نہ صرف آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل ہو، بلکہ مقامی صنعت کا بھی تحفظ ممکن بنایا جا سکے۔ حکومت مرحلہ وار اضافی کسٹمز ڈیوٹی اور ریگولیٹری ڈیوٹی میں 5 سے 10 فیصد تک کمی کی تجویز پر غور کر رہی ہے۔ جبکہ بڑی انجن والی درآمدی گاڑیوں پر نسبتاً زیادہ ریلیف دیا جا سکتا ہے۔ یہ اقدامات گاڑیوں کی قیمتوں میں ممکنہ کمی کے ذریعے صارفین کو ریلیف دینے کی غرض سے کیے جا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ آئی ایم ایف کی یہ سفارشات پاکستان کے معاشی اصلاحاتی پروگرام کا حصہ ہیں، جس کا مقصد مقامی صنعتوں میں مسابقت بڑھانا، قیمتوں میں کمی لانا، اور صارفین کو بہتر متبادل فراہم کرنا ہے۔ تاہم، مقامی آٹو مینوفیکچررز ان اقدامات کی مزاحمت کر رہے ہیں اور اسے اپنی طویل المدتی بقا کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔
امریکا اور چین کے درمیان 115 فیصد ٹیرف میں کمی پر اتفاق

عالمی معیشت کے دو بڑے ستون امریکا اور چین کے درمیان جاری تجارتی کشیدگی کے خاتمے کی جانب ایک بڑا قدم اٹھایا گیا ہے۔ امریکی وزیر خزانہ نے جنیوا میں چینی حکام کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے بعد اعلان کیا ہے کہ دونوں ممالک نے باہمی تجارتی ٹیرف میں 115 فیصد کمی پر اصولی اتفاق کر لیا ہے۔ امریکی وزیر خزانہ کے مطابق یہ پیش رفت ایک طویل اور پیچیدہ مذاکراتی عمل کے بعد ممکن ہوئی ہے جس کے تحت امریکا اور چین نے 90 دن کے لیے نئے تجارتی اقدامات کو مؤخر کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ اس فیصلے کا مقصد باہمی اعتماد کو فروغ دینا اور مزید مذاکرات کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔ چینی وزارت کامرس نے بھی اس پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کے ساتھ جاری تجارتی مذاکرات میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی ہے۔ وزارت نے واضح کیا کہ ٹیرف میں کمی نہ صرف چین اور امریکا بلکہ پوری دنیا کے مشترکہ مفاد میں ہے۔ چینی حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ امریکا مستقبل میں بھی تجارت کے معاملے پر چین کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔ اس سے قبل عالمی منڈی غیر یقینی صورتحال کا شکار ے تھی، جبکہ اس فیصلے سے دنیا بھر کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہونے کی توقع ہے۔ مزید پڑھیں: انڈیا میں بیکری کا نام ’کراچی‘ ہونے پر بی جے پی کے حامیوں کا حملہ
پاکستان، انڈیا کشیدگی: غیرملکی ائیر لائنز کا پاکستانی فضائی حدود استعمال کرنے سے گریز

ایئر فرانس، لفتھانزا اور دیگر عالمی ایئرلائنز نے اچانک پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے سے گریز شروع کر دیا، جس سے مسافروں اور ماہرین ہوابازی میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے ہوائی راستوں کو بھی متاثر کر دیا۔ انڈیا نے پاکستانی ایئرلائنز کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دی تو پاکستان نے بھی فوری ردعمل میں انڈین ملکیت یا آپریٹ کی گئی پروازوں پر پابندی لگا دی۔ البتہ، پاکستان نے بین الاقوامی پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود کھلی رکھی ہیں مگر دنیا کی بڑی ایئرلائنز نے محتاط رویہ اختیار کیا۔ ایئر فرانس نے اپنے بیان میں کہا کہ “حالیہ کشیدگی کو مدِنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی فضائی حدود کے اوور فلائٹ کو معطل کر دیا گیا ہے۔” لفتھانزا گروپ نے بھی اس فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ان کی تمام ایئرلائنز اس وقت پاکستانی فضائی راستے سے گریز کر رہی ہیں۔ فلائٹ ٹریکنگ ڈیٹا نے بھی اس تبدیلی کی تصدیق کی، جہاں برٹش ایئرویز، سوئس انٹرنیشنل ایئر لائنز اور ایمریٹس کی پروازیں پاکستان کی حدود میں داخل ہونے کے بجائے عرب سمندر سے ہو کر دہلی کی جانب مڑتے دیکھی گئیں۔ خطے میں بڑھتے خطرات کے باعث فضاؤں میں بے یقینی کی کیفیت طاری ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو آنے والے دنوں میں عالمی پروازیں کس نئے چیلنج کا سامنا کریں گی؟ مزید پڑھیں: قومی اسمبلی اجلاس: انڈیا مخالف متفقہ قرارداد منظور، پہلگام واقعے پر الزامات مسترد
اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں ایک فیصد کمی کردی

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں ایک فیصد یا 100 بیسز پوائنٹس کی کمی کا اعلان کر دیا، جس کے بعد شرح سود 12 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد کی سطح پر آ گئی۔ نجی نشریاتی ادارے ڈان نیوز کے مطابق اسٹیٹ بینک نے اپنی نئی مالیاتی پالیسی میں شرح سود میں کمی کرتے ہوئے اسے 11 فیصد مقرر کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ ملک میں جاری مالیاتی استحکام کی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل گزشتہ ماہ اسٹیٹ بینک نے شرح سود کو 12 فیصد پر برقرار رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ اسٹیٹ بینک نے رواں سال 27 جنوری کو بھی شرح سود میں ایک فیصد کمی کی تھی، جس کے بعد یہ 13 فیصد سے گھٹ کر 12 فیصد کی سطح پر آئی تھی۔ اس سے قبل 16 دسمبر 2024 کو مرکزی بینک نے ایک بڑا اقدام کرتے ہوئے شرح سود میں 200 بیسز پوائنٹس کمی کا اعلان کیا تھا، جس کے نتیجے میں یہ 15 فیصد سے کم ہو کر 13 فیصد پر آ گئی تھی۔ یاد رہے کہ جون 2024 کے بعد سے دسمبر 2024 تک شرح سود میں مسلسل چھ بار کمی کی گئی، جس کے نتیجے میں شرح سود مجموعی طور پر 10 فیصد کم ہو کر 22 فیصد سے 12 فیصد تک آ گئی تھی۔ خیال رہے کہ تازہ کمی کے بعد 11 ماہ کے دوران شرح سود میں مجموعی طور پر 11 فیصد کمی کی جا چکی ہے، جو مالیاتی پالیسی میں نرمی اور معیشت میں بہتری کی عکاسی کرتی ہے۔ اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات مہنگائی پر قابو پانے اور معیشت کو سہارا دینے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔