چین نے پاکستانی قرض کی واپسی میں ایک سال کی توسیع کر دی

چین نے پاکستان کو دو ارب ڈالر کے قرض کی ادائیگی کی مدت میں ایک سال کی توسیع کر دی ہے، جس سے ملک کو اہم مالی ریلیف ملے گا۔ نجی نشریاتی ادرے ایکسپریس نیوز کے مطابق یہ قرض اصل میں 24 مارچ کو ادا کرنا تھا، لیکن چین نے پاکستان کے معاشی استحکام اور بحالی کی کوششوں میں مدد کے لیے اسے موخر کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق یہ توسیع پاکستان کو اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو برقرار رکھنے اور مالی استحکام کو مضبوط بنانے میں مدد دے گی۔ چین پاکستان کے لیے ایک اہم اقتصادی شراکت دار رہا ہے، چین نے خاص طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری ( سی پیک) اقدام کے تحت مالی امداد اور سرمایہ کاری فراہم کرنے میں مثبت کردار ادا کیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ قرض کی التوا فوری ادائیگی کے دباؤ کو کم کرے گی کیونکہ حکومت معیشت کو مستحکم کرنے پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ مزید برآں، اس ہفتے کے شروع میں، پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے باضابطہ طور پر گزشتہ سال حاصل کی گئی سات ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے پہلے جائزے کے لیے بات چیت کا آغاز کیا۔ وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف کے وفد نے نیتھن پورٹر کی قیادت میں اسلام آباد میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے ملاقات کی، ملاقات میں ملک کی مجموعی اقتصادی صورتحال پر غور کیا گیا۔ ملاقات کے دوران پاکستان نے عالمی قرض دہندہ کو مالیاتی نظم و ضبط اور اقتصادی اصلاحات کے لیے اپنے عزم کی یقین دہانی کرائی ہے کیونکہ تازہ ترین اقتصادی جائزے کے لیے اسلام آباد میں بات چیت جاری ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے آئی ایم ایف کے وفد کو ملک کی میکرو اکنامک صورتحال، ریونیو اکٹھا کرنے اور ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر پیشرفت پر بریفنگ دی، انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان اپنے سات ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے پرعزم ہے وا ضح رہے کہ فروری 2024 میں بھی چین نے ایک سال کے لیے پاکستان کا 2 ارب ڈالر قرض موخر کیا تھا۔

کرپٹو سمٹ: ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں ڈیجیٹل کرنسی کے رہنماؤں کو اکٹھا کر لیا

اس سمٹ کے بعد مارکیٹ میں ملے جلے ردعمل دیکھنے میں آ رہے ہیں، جہاں کچھ لوگ اسے ایک مثبت قدم قرار دے رہے ہیں، تو کچھ حکومت کی جانب سے مزید واضح حکمت عملی کے منتظر ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کرپٹو کرنسی انڈسٹری کے اعلیٰ ترین افراد کو ایک تاریخی سمٹ میں وائٹ ہاؤس مدعو کیا، جہاں حکومت کی جانب سے ڈیجیٹل اثاثوں کے ذخیرے کے قیام کے منصوبے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔   اس منفرد اجلاس میں کرپٹو مارکیٹ کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت کی گئی، تاہم یہ اجلاس کچھ سرمایہ کاروں کے لیے مایوس کن بھی ثابت ہوا، کیونکہ انہیں حکومت کی جانب سے نئے کرپٹو ٹوکنز خریدنے کے واضح منصوبے کی امید تھی، جو پورا نہیں ہو سکا۔   وائٹ ہاؤس کے کرپٹو امور کے سربراہ ڈیوڈ سیکس نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حکومت کو بہت پہلے ہی بٹ کوائن کا ذخیرہ قائم کر لینا چاہیے تھا۔   تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ ٹیکس دہندگان کے فنڈز کو ڈیجیٹل اثاثے خریدنے کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا اور صارفین کو کرپٹو سرمایہ کاری کے ممکنہ نقصانات سے بچانے کے لیے موجودہ حفاظتی اقدامات کو برقرار رکھا جائے گا۔   اس اعلان کے بعد کرپٹو مارکیٹ میں قدرے مایوسی پائی گئی اور بٹ کوائن کی قیمت میں 3.4 فیصد کمی دیکھی گئی، جو 86,394 ڈالر تک آ گئی۔   ٹرمپ کے اس اقدام کو کرپٹو انڈسٹری کے کچھ حلقوں کی حمایت حاصل ہے، تاہم کچھ ماہرین اس میں شامل دیگر چار کرپٹو کرنسیز کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔   ایکسڈس کے شریک بانی اور سی ای او جے پی رچرڈسن نے ان کرنسیز کی غیر مستحکم قیمتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صرف بٹ کوائن پر مشتمل ذخیرہ زیادہ مستحکم ہوگا۔   کوائن بیس کے سی ای او برائن آرمسٹرونگ نے بھی اسی رائے کا اظہار کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر بٹ کوائن پر مبنی ذخیرے کو “شاید سب سے بہترین آپشن” قرار دیا۔   دوسری جانب، رپل کے سی ای او بریڈ گارلنگ ہاؤس نے ٹرمپ کے “ملٹی چین ورلڈ” یعنی ایک سے زائد بلاک چین پر مشتمل معیشت کے اعتراف کا خیرمقدم کیا اور اس ذخیرے میں ایکس آر پی کرنسی کو شامل کرنے کے فیصلے کی حمایت کی۔   اس بیان کے بعد کرپٹو مارکیٹ میں مزید بحث چھڑ گئی کہ آیا حکومت کو ایک سے زائد ڈیجیٹل کرنسیز کو اپنے ذخیرے میں شامل کرنا چاہیے یا نہیں۔   ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سمٹ کرپٹو انڈسٹری کے لیے ایک اہم موقع ہے، کیونکہ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ مستقبل میں ڈیجیٹل اثاثوں کے حوالے سے کس قسم کی ریگولیٹری پالیسی اپنائے گی۔   خاص طور پر، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کی جانب سے کرپٹو سے متعلق ایکسچینج ٹریڈڈ فنڈز کی منظوری کے حوالے سے پالیسی سازی پر بھی اس اجلاس میں بحث کی گئی۔   ٹرمپ کی ذاتی حیثیت میں کرپٹو سیکٹر میں شمولیت بھی ایک متنازع معاملہ بنی ہوئی ہے۔ ان کے خاندان کی جانب سے مختلف “میم کوائنز” متعارف کرائے جانے اور ان کے ورلڈ لبرٹی فنانشل میں حصے داری کے باعث مفادات کے ٹکراؤ کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔   وائٹ ہاؤس کے معاونین نے اس معاملے پر وضاحت دی کہ ٹرمپ نے اپنے کاروباری مفادات سے علیحدگی اختیار کر لی ہے اور ان کی سرمایہ کاری کو ایک جانچ کے عمل سے گزارا جا رہا ہے۔   کرپٹو ماہرین اور سرمایہ کاروں کی نظر اب اس بات پر ہے کہ آیا ٹرمپ انتظامیہ کرپٹو انڈسٹری کے لیے مزید سازگار پالیسیوں کا اعلان کرے گی یا نہیں۔   اس سمٹ کے بعد مارکیٹ میں ملے جلے ردعمل دیکھنے میں آ رہے ہیں، جہاں کچھ لوگ اسے ایک مثبت قدم قرار دے رہے ہیں، تو کچھ حکومت کی جانب سے مزید واضح حکمت عملی کے منتظر ہیں۔

قرض کا مرض لادوا، کیا پاکستانی معیشت سنبھل پائے گی؟

پاکستانی معیشت گزشتہ  ایک عرصے سے مختلف مسائل سے گھری ہوئی ہے، جن میں مالیاتی خسارہ، کمزور زر مبادلہ کے ذخائراور بڑھتی ہوئی مہنگائی شامل ہیں۔ ان مسائل نے ملکی معیشیت کو اس قدر محتاج کیا ہے کہ ملک کے ہر چھوٹے بڑے فیصلے کا لائحہ عمل آئی ایم ایف بنا تا ہے۔ دوسرے ممالک آئی ایم ایف سے قرض لیتے ہیں، تاکہ ملکی معیشیت مستحکم ہو، مگر پاکستان میں متعدد بار بار پچھلے قرض کی ادائیگی کے لیے نیا قرض لیا گیا ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان تعلقات کی تاریخ طویل ہے۔ 1958 سے اب تک پاکستان نے 23 مرتبہ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیجز حاصل کیے ہیں۔ 2024 میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 7 ارب ڈالر کے 37 ماہ پر مشتمل قرض پروگرام پر اتفاق ہوا، جس کا مقصد معیشت کو استحکام دینا تھا۔ حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ آئی ایم ایف پروگرام معیشت کی بہتری کے لیے ناگزیر ہے اور اس سے مالیاتی استحکام حاصل ہوگا، جس سے اس سوال نے جنم لیا ہے کہ کیا آئی ایم ایف سے نئی قسط نہ لے کر پاکستان اپنی معیشیت کو سنبھال سکتا ہے؟ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ معاشیات ڈاکٹر جہانزیب نے کہا کہ اگر حکومت سخت مالیاتی اصلاحات، برآمدات کے فروغ اور محصولات میں اضافے پر کام کرتی ہے تو آئی ایم ایف کی قسط کے بغیر بھی معیشت سنبھل سکتی تھی۔ تاہم کمزور مالیاتی نظم و ضبط اور درآمدی انحصار کے باعث حکومت کے پاس کوئی اور راستہ نہیں بچا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس معاہدے کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ یہ معیشت کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوگا،  مگر عوامی سطح پر ان شرائط پر مہنگائی اور روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سےتشویش پائی جاتی ہے۔ ستمبر 2024 میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی منظوری دی تھی ، جس میں سے 1 ارب ڈالر کی پہلی قسط فوری جاری کی گئی۔ یہ قرض 37 ماہ کی مدت پر محیط ہے اور اقساط میں جاری کی جائے گی۔ ڈاکٹر جہانزیب کا کہنا ہے کہ نئی شرائط سے عوام پر مہنگائی کا مزید دباؤ بڑھے گا۔ سبسڈی میں کمی سے بجلی، گیس اور پٹرول مہنگا ہوگا۔ کاروباری طبقے کو بلند شرحِ سود اور زیادہ ٹیکسوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سے سرمایہ کاری کے مواقع محدود ہو سکتے ہیں۔ 3 مارچ کو پاکستان کو 7 ارب ڈالر بیل آؤٹ پیکج میں سے ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط کی ادائیگی کے حوالے سے اقتصادی جائزے کے لیے آئی ایم ایف کا وفد پاکستان پہنچا، جہاں سیکرٹری خزانہ کی سربراہی میں وفد نے آئی ایم ایف حکام سے ملاقات کی اور امور پر بات چیت کی گئی۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں ٹیکس نیٹ میں توسیع، توانائی کے شعبے میں اصلاحات اور مالیاتی خسارے میں کمی شامل ہیں۔ حکومت نے زراعت، پراپرٹی اور ریٹیل سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور سبسڈی میں کمی کی شرائط بھی شامل ہیں۔ ان شرائط کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ اور عوام کی قوت خرید میں کمی کا خدشہ ہے،  لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات معیشت کی بہتری کے لیے ضروری ہیں۔ ماہرِ معاشیات پروفیسر امبرین احمد کے مطابق اگر حکومت ٹیکس نیٹ بڑھائے، غیر ضروری درآمدات کم کرے، برآمدات کو فروغ دے اور زراعت و صنعتی شعبے کو ترقی دے تو آئی ایم ایف پر انحصار کم کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس کے لیے سخت پالیسی فیصلے کرنے کی ضرورت ہوگی۔ آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری کے بعد روپے کی قدر میں استحکام دیکھا گیا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے سے روپے پر دباؤ کم ہوا ہے۔ ماہرِ معاشیات نے کہا ہے کہ مسلسل قرض لینا خطرناک ہے کیونکہ اس سے خودمختاری محدود ہو جاتی ہے، مگر موجودہ حالات میں یہ ناگزیر تھا۔ مسئلہ قرض لینا نہیں بلکہ اس کا درست استعمال نہ ہونا ہے۔ اگر قرض ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہو تو معیشت کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ توانائی کی قیمتوں میں اضافے اور سبسڈی میں کمی کے باعث مہنگائی میں اضافہ متوقع ہے۔ آئی ایم ایف نے بھی خبردار کیا ہے کہ مہنگائی ہدف سے زیادہ رہ سکتی ہے۔ امبرین احمد کے مطابق آئی ایم ایف کے مطالبات میں زیادہ تر ٹیکس اصلاحات شامل ہوتی ہیں۔ لہٰذا بجٹ میں مزید ٹیکسز اور سبسڈی میں کمی کا قوی امکان ہے۔ بجلی اور گیس پر سبسڈی کم ہونے سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ مہنگائی میں اضافے سے عام شہریوں کی قوت خرید متاثر ہو سکتی ہے، جس سے روزمرہ زندگی میں مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ ڈاکٹر جہانزیب نے بتایا ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے کے بعد روپے کی قدر پر دباؤ بڑھ سکتا ہے کیونکہ حکومت کو کرنسی کو مصنوعی سہارا دینے سے روک دیا جائے گا۔ اس کے نتیجے میں مہنگائی اور خاص طور پر درآمدی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ٹیکس نیٹ میں توسیع اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے سے کاروباری طبقے کو مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ زراعت اور تعمیرات کے شعبوں پر ٹیکس عائد کرنے سے ان شعبوں میں سرمایہ کاری متاثر ہو سکتی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام سے معیشت میں استحکام کی توقع ہے، جو غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ کر سکتا ہے۔ تاہم سخت شرائط اور مہنگائی میں اضافے سے سرمایہ کاری کے فیصلوں پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ پروفیسر امبرین احمد کا کہنا ہے کہ حکومت کو اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے نئے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے جیسے آئی ٹی برآمدات، زرعی اصلاحات، اور نجکاری کے ذریعے سرکاری اداروں کے نقصانات کم کرنا۔ اس سے قرضوں کے بوجھ میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ نجی سیکٹر کو ٹیکس اصلاحات اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے باعث اپنی حکمت عملیوں میں تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ سبسڈی میں کمی کے باعث بجلی

بجلی کی قیمت میں کمی، نیپرا نے ماہانہ ایڈجسٹمنٹ کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا

ملک بھر میں ماہانہ ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کر دیا گیا۔ نیشنل الیکٹرک ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی صارفین کے لیے بجلی کی قیمتوں میں کمی کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے۔ نیپرا کے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے مطابق کراچی کے صارفین کے لیے 3 روپے فی یونٹ کی کمی کی گئی ہے، جب کہ باقی ملک کے صارفین کے لیے بجلی 2 روپے 12 پیسے فی یونٹ سستی ہو گئی ہے۔ کراچی کے لیے یہ کمی کے الیکٹرک کی دسمبر 2024 کی ایڈجسٹمنٹ میں کی گئی ہے، جب کہ ملک کے دیگر علاقوں کے صارفین کو جنوری 2025 کی ایڈجسٹمنٹ میں یہ ریلیف حاصل ہوگا۔ نیپرا کی جانب سے اس معاملے پر الگ الگ نوٹیفکیشن جاری کیے گئے ہیں، جس سے بجلی کے صارفین کو ماہانہ ایڈجسٹمنٹ کی مد میں راحت ملے گی اور صارفین کی مالی حالت میں بہتری آئے گی۔ واضح رہے کہ بجلی بلوں میں یہ کمی صارفین کو مارچ 2025 کے بلوں میں ملے گی۔

بینک آف انگلینڈ کے گورنر کا امریکا کو تجارتی جنگوں کے بجائے بات چیت کا مشورہ

بینک آف انگلینڈ کے گورنر ‘اینڈریو بیلی’ نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ وہ عالمی معیشت کے بارے میں اپنے تحفظات کو تجارتی جنگوں کے ذریعے حل کرنے کی بجائے باہمی بات چیت کے ذریعے حل کرے۔ بیلی نے بدھ کے روز برطانوی قانون سازوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اس ہفتے جو درآمدی ٹیکسز عائد کیے گئے ہیں ان سے عالمی اقتصادیات پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ بیلی نے گروپ آف ٹوئنٹی (G20) کے مرکزی بینکوں کے سربراہان اور وزیر خزانہ کے اجلاس میں جنوبی افریقہ میں گزشتہ ہفتے اپنے خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “اگر آپ کو لگتا ہے کہ عالمی معیشت میں توازن نہیں ہے تو اسے دوطرفہ اقدامات سے نہیں بلکہ کثیرالجہتی فورمز میں حل کیا جانا چاہیے۔” امریکی صدر نے منگل کے روز میکسیکو اور کینیڈا سے درآمدات پر 25 فیصد ٹیکس عائد کرنے کا حکم دیا تھا جس کے ساتھ چین سے آنے والی مصنوعات پر بھی نئے ٹیرف لگا دیے گئے ہیں۔ اس فیصلے نے عالمی اقتصادی نمو کے بارے میں خدشات بڑھا دی ہیں جبکہ امریکی معیشت میں مہنگائی کے اضافے کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ بیلی نے چین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چین کا کرنٹ اکاؤنٹ بہت زیادہ مثبت ہے اور جرمنی جیسے بڑے مالیاتی سرپلس والے ممالک نے بھی حالیہ دنوں میں اپنے دفاعی اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے جو ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہیں۔ آخر میں بیلی نے امریکا کی معیشت کے بارے میں سوال اٹھایا کہ کیسے اس کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ رہا ہے اور اس کا مالیاتی خسارہ بہت زیادہ ہے جس کو بیرونی سرمایہ کے ذریعے پورا کیا جا رہا ہے۔ اس تمام تر صورتحال نے عالمی سطح پر اقتصادی توازن کے حوالے سے گہری تشویش پیدا کر دی ہے۔ مزید پڑھیں: ’شکریہ پاکستان‘ دہشت گرد پکڑنے پر ٹرمپ خوشی سے نہال

میکسیکو کی امریکا کے ساتھ تجارتی جنگ میں جوابی اقدامات کی تیاری، شیانباؤم کا اعلان متوقع

میکسیکو کی صدر ‘کلاڈیا شیانباؤم’ نے منگل کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے میکسیکو سے درآمدات پر عائد کیے جانے والے 25 فیصد ٹارف کی سخت مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ان کے ملک کی حکومت اس فیصلے کا بھرپور جوابی ردعمل دے گی اگرچہ فوری طور پر ان جوابی اقدامات کی تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔ ٹرمپ کے اس اچانک فیصلے سے دونوں ممالک کے درمیان تین دہائیوں سے زائد عرصے سے جاری اقتصادی روابط میں ایک نیا موڑ آ گیا ہے اور اس کا میکسیکو کی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔ اگر دیکھا جائے تو امریکا اور میکسیکو ایک دوسرے کے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر ہیں اور مختلف صنعتوں جیسے آٹوموٹو سیکٹر میں اس باہمی تجارتی تعلقات سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہوتا رہا ہے۔ شیانباؤم نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ “اس فیصلے کے پیچھے کوئی جواز یا وجہ نہیں ہے جو ہمارے عوام اور دونوں ممالک کے مفادات کے خلاف ہو۔ اس سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا۔” ان کا کہنا تھا کہ وہ اتوار کو میکسیکو سٹی کے مشہور زوکالو اسکوائر پر عوامی خطاب میں اپنے جوابی اقدامات کی تفصیلات دیں گی۔ مزید پڑھیں: اسرائیلی فورسز نے ویسٹ بینک میں حماس کے کمانڈر کو شہید کر دیا مزید برآں، شیانباؤم نے اعلان کیا کہ وہ اس ہفتے، ممکنہ طور پر جمعرات کو، امریکی صدر ٹرمپ سے ٹیلی فون پر بات کریں گی۔ میکسیکو کی معیشت میں مزید اتار چڑھاؤ کی توقعات کے درمیان، شیانباؤم نے کہا کہ ان کی حکومت میکسیکو کی اقتصادی بنیادوں کی مضبوطی کا بھرپور دفاع کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ میکسیکو نے حالیہ برسوں میں بے شمار اقتصادی کامیابیاں حاصل کی ہیں جن میں تاریخ کی سب سے زیادہ روزگار کے مواقع اور کم از کم اجرت میں اضافہ شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت میکسیکو کی معیشت کو مستحکم رکھنے کے لیے درآمدات میں کمی اور کچھ مصنوعات کی مقامی سطح پر تیاری کو فروغ دے گی۔ ماہر اقتصادیات موڈی کے ‘الفریڈو کاؤٹینو’ نے پیش گوئی کی ہے کہ ان ٹارفیوں کے اثرات سے میکسیکو کی معیشت 0.8 فیصد تک سکڑ سکتی ہے جس سے ملک میں کساد بازاری کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ شیانباؤم نے یہ بھی کہا کہ امریکا کے کاروباری ادارے اور صارفین بھی ان ٹارفیوں کے اثرات سے محفوظ نہیں رہیں گے۔ میکسیکو سے درآمد ہونے والی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں امریکی صارفین پر بوجھ پڑے گا خاص طور پر آٹوموٹو صنعت پر اثرات شدید ہوں گے۔ یہ بھی پڑھیں: امریکی سرکاری ملازمین کی برطرفی کے دوران سیکیورٹی بریفنگز کی کمی آٹو پارٹس کی سرحد پار نقل و حمل میں کئی بار سرحدوں کی عبور کی ضرورت پڑتی ہے اور اس سے امریکی کار ساز ادارے متاثر ہوں گے۔ میکسیکو کے صدر نے جی ایم (جنرل موٹرز) جیسے امریکی آٹومیکرز کو خاص طور پر متاثر ہونے والے اداروں میں شامل کیا۔ اندازہ ہے کہ ان ٹارفیوں کے نتیجے میں امریکی آٹو انڈسٹری کو اربوں ڈالر کا اضافی خرچ برداشت کرنا پڑے گا۔ شیانباؤم نے امریکی فیصلے کو امریکی-کینیڈا-میکسیکو تجارتی معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ ان کے ملک کی حکومت اس فیصلے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر سکتی ہے۔ میکسیکو نے گزشتہ ماہ اس فیصلے کے خلاف امریکا کو اپنے اعتراضات پیش کیے تھے اور شیانباؤم کا کہنا تھا کہ ان کے ملک نے اس عرصے میں امریکا کے ساتھ “فیٹینائل” (مؤثر نشہ آور دوائیوں) کی اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے اہم اقدامات کیے ہیں۔ لازمی پڑھیں: مصر کا عرب رہنماؤں سے غزہ کی تعمیر نو کے لیے متبادل منصوبے پر زور شیانباؤم کے مطابق میکسیکو نے اس عرصے میں امریکا کی طرف سے لگائی جانے والی شرطوں کو پورا کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں، جیسے کہ سینکڑوں فوجیوں کو سرحدی علاقوں میں تعینات کرنا اور منشیات کے اسمگلنگ میں ملوث افراد کو امریکا کے حوالے کرنا۔ برادیسکو بی بی آئی کے تجزیہ کاروں نے اپنے نوٹ میں کہا کہ میکسیکو کو امریکی دباؤ کے سامنے مزید لچک دکھانی چاہیے اور اپنے اقدامات کے حوالے سے فوری ردعمل دینے کی بجائے وقت کا انتظار کرنا چاہیے کیونکہ امریکی کاروباری حلقے اور لابنگ کے دباؤ سے میکسیکو کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ یہ تجارتی جنگ نہ صرف میکسیکو کی معیشت کے لیے بلکہ امریکا کے لیے بھی سنگین نتائج کا باعث بنے گی اور دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میکسیکو اپنے جوابی اقدامات کے ذریعے امریکا کو کس حد تک قائل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ مزید پڑھیں: امریکا نے یمن کے حوثی باغیوں کو “دہشت گرد تنظیم” قرار دے دیا

سات ارب ڈالر قرض پروگرام، پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان پالیسی مذاکرات شروع

آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان سات ارب ڈالر قرض پروگرام کی اگلی قسط کے حصول کے لیے تکنیکی مذاکرات کے بعد پالیسی لیول مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے، پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تکنیکی مذاکرات کا پہلا سیشن وزارت خزانہ حکام اور دوسرا ایف بی آر حکام کے ساتھ مکمل ہوا ہے۔ پالیسی لیول مذاکرات میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور ناتھن پورٹر نے قیادت کی، جب کہ سیکرٹری خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر بھی مذاکرات میں شریک ہوئے۔ واضح رہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے لیے پالیسی مذاکرات ہو رہے ہیں، جو 2 ہفتے تک جاری رہیں گے۔ ان مذاکرات کے بعد جائزہ مشن اپنی سفارشات آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کو دے گا، جو اس ماہ کے آخر یا اپریل کے اوائل میں 1.1 ارب ڈالر کی اگلی قسط جاری کرنے اور بجلی سستی کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں حتمی فیصلہ کرے گا۔ وزارت خزانہ حکام آئی ایم ایف وفد سے تعارفی سیشن میں شریک ہوئے، اقتصادی جائزہ مذاکرات 15مارچ تک جاری رہیں گے۔ آئی ایم ایف کے وزارت خزانہ، وزارت توانائی و منصوبہ بندی، اسٹیٹ بینک ، ایف بی آر، اوگرا، نیپرا سمیت دیگر اداروں اور وزارتوں کے ساتھ مذاکرات ہوں گے۔ اس کے علاوہ پنجاب، سندھ ، کے پی اور بلوچستان سے الگ الگ مذاکرات ہوں گے۔ وفد سے ملاقات میں جولائی سے فروری تک معاشی اعشاریوں پر آئی ایم ایف وفد کو پریزنٹیشن دی گئی، جب کہ مالیاتی خسارہ، پرائمری بیلنس، صوبوں کا سرپلس اور ریونیو کلیکشن پر بھی بریفنگ دی گئی۔ آئی ایم ایف وفد سے رواں مالی سال کے لیے جولائی سے جنوری تک ریونیو پر بات ہوئی۔ ڈی جی ڈیٹ نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اکنامک ونگ، بجٹ ونگ، ایکسٹرنل فنانس ونگ اور ریگولیشنز ونگ جولائی سے دسمبر مالیاتی خسارہ 1 ہزار 537 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا۔   ریونیو کلیکشن پر چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے بریفنگ دی ہے، ایف بی آر بورڈ ممبران بھی آئی ایم ایف وفد سے مذاکرات میں شریک ہیں۔ پاکستان میں آئی ایم ایف کے نمائندے ماہر بنیجی نے کہا ہے کہ فنڈ کی ٹیم مارچ کے اوائل میں سات ارب ڈالر کے توسیعی پروگرام پر حکام سے بات چیت کرے گی، اس سلسلے میں ایک تکنیکی ٹیم فروری کے اوآخر پاکستان پہنچی تھی۔ اس حوالے سے پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ابتدائی طور پر وفد سے سٹرکچرل امور پر گفتگو ہوگی، جب کہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام سے متعلق تمام امور درست ہیں۔ ایک مہینے کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ منفی اور سات مہینے کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مثبت ہے۔ مزید پڑھیں: حکومت نے آئی پی پیز کے 7000 میگاواٹ کے مہنگے منصوبے منسوخ کر دیے ہیں، وزیر توانائی اویس لغاری یاد رہے کہ گزشتہ سال ستمبر میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی حتمی منظوری دی تھی۔ پہلے جائزے کی کامیابی کے بعد فنڈ پاکستان کے لیے ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کی جائے گی۔ پاکستان نے گذشتہ سال اکتوبر میں اس ٹرسٹ کے تحت ایک ارب ڈالر کی فنانسنگ کے لیے باضابطہ درخواست دی تھی تاکہ ملک کی ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے میں مدد مل سکے۔ ملک کی معیشت بحالی کے ایک طویل عمل سے گزر رہی ہے جسے گزشتہ سال کے آخر میں حاصل کردہ سات ارب ڈالر کے آئی ایم ایف ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلٹی کے تحت نسبتاً استحکام حاصل ہوا تھا۔

حکومت نے آئی پی پیز کے 7000 میگاواٹ کے مہنگے منصوبے منسوخ کر دیے ہیں، وزیر توانائی اویس لغاری

وفاقی وزیرِ توانائی سردار اویس احمد خان لغاری نے کہا ہے کہ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ مذاکرات شفاف اور منصفانہ انداز میں کیے جا رہے ہیں، حکومت نے آئی پی پیز کے 7000 میگاواٹ کے مہنگے منصوبے منسوخ کردیے ہیں۔ سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق وزیر توانائی اویس خان لغاری نے پیر کو بین الاقوامی ترقیاتی شراکت داروں کے ساتھ اجلاس میں بجلی کے شعبے میں اصلاحات اور مستقبل کے لائحہ عمل پر تفصیلی بات چیت کرتے ہوئے واضح کیا کہ حکومت بجلی کے ٹیرف کو متوازن بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے، تاکہ ملکی معیشت کو استحکام ملے۔ اویس لغاری نے کہا ہے کہ حکومت نے شفافیت کو یقینی بناتے ہوئے انٹیگریٹڈ جنریشن کیپیسٹی ایکسپینشن پلان (آئی جی سی ای پی) میں سے 17,000 میگاواٹ میں سے تقریباً 7,000 میگاواٹ کے منصوبے منسوخ کر دیے ہیں، جس سے مہنگی بجلی کے اخراجات میں نمایاں بچت ممکن ہوئی ہے۔ وزیر توانائی نے اجلاس کے شرکاء کو آگاہ کیا کہ حکومت نے مؤثر اصلاحات متعارف کرائی ہیں، جن کا مقصد بجلی کے نرخوں کو زیادہ مسابقتی بنانا اور صارفین، خاص طور پر صنعتوں کے لیے سستی بجلی فراہم کرنا ہے۔ حکومت اگلے پانچ سے آٹھ سال میں گردشی قرضے کو مکمل ختم کرنے کا واضح لائحہ عمل دینا چاہتی ہے۔  اویس لغاری کے مطابق حکومت نیٹ میٹرنگ کے نظام پر بھی نظرثانی کر رہی ہے کیونکہ اس کی موجودہ پالیسی دیگر صارفین پر 150 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈال رہی ہے۔ مزید پڑھیں: حکومت کے وعدے اور بجلی کا بحران: حقائق اور افواہیں وفاقی وزیر نے انکشاف کیا ہے کہ ٹیک اور پے سسٹم سے ٹیک اینڈ پے سسٹم کی طرف منتقلی، فرنس آئل سے چلنے والے بجلی گھروں کے خاتمے اور درآمدی کوئلے کے بجائے مقامی کوئلے پر انحصار بڑھانے جیسے اقدامات کیے جا رہے ہیں، تاکہ بجلی کی پیداوار کم لاگت پر منتقل کی جا سکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب بجلی کی پالیسی کم ترین لاگت پر مبنی ہوگی، تاکہ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جا سکے۔

عالمی بحری تجارت میں غیر متوقع صورتحال: ٹرمپ کی تجارتی دھمکیاں اور عالمی کشیدگی

طویل عرصے سے عالمی بحری تجارت دنیا کے 80 فیصد تجارتی سامان کی ترسیل کا ذمہ دار ہے مگر اس وقت یہ صنعت ایک نئے اور غیر متوقع بحران کا سامنا کر رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی دھمکیاں اور تجارتی پالیسیوں کے باعث عالمی بحری شپنگ میں غیر یقینی کی ایک نئی لہر دوڑ چکی ہے۔ یہ بحران اس وقت شدت اختیار کر گیا جب مارچ کے آغاز میں ساؤتھ کیلیفورنیا کے شہر لانگ بیچ میں ہونے والی عالمی شپنگ اور سپلائی چین کانفرنس میں ماہرین اور صنعت کے رہنماؤں نے اس صورتحال کا گہرا جائزہ لیا۔ اس کانفرنس میں دنیا کی بڑی شپنگ کمپنیوں کے نمائندے شامل تھے، جن میں ایس ایم سی (MSC)، میریسک (Maersk)، اور ہیپاگ لوئڈ (Hapag-Lloyd) جیسے عالمی پیمانے کی کمپنیاں شامل تھیں۔ ان کے ساتھ بڑے صارفین جیسے وال مارٹ (Walmart) اور لاجسٹکس کی بڑی کمپنیاں جیسے ڈی ایس وی (DSV) اور ڈی ایچ ایل (DHL) بھی موجود تھے۔ لیکن اس کانفرنس کا ماحول تجارتی تحفظ پسندی کی وجہ سے کشیدہ نظر آ رہا تھا۔ امریکی حکومت کی طرف سے عالمی تجارتی تعلقات میں اضافی محصولات اور لاکھوں ڈالر کے نئے پورٹ فیسز کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں، جن سے عالمی شپنگ کمپنیوں کی پوزیشن مزید کمزور ہو سکتی ہے۔ امریکا نے چین کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا کر دی ہے، جب اس نے چینی مال پر 10 فیصد اضافی محصول عائد کر دیا اور چین کے بنائے گئے جہازوں کے لیے امریکی بندرگاہوں میں داخلے کے لیے 10 لاکھ ڈالر تک فیس مقرر کرنے کی تجویز دی ہے۔ اس فیصلے سے چین کی شپنگ کمپنیوں، خاص طور پر چینی ریاستی ملکیت والی کمپنی ‘کوسکو’ (COSCO)، پر شدید اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں ریکارڈ کمی، فروری میں صرف 1.5 فیصد تک پہنچ گئی اگر یہ فیس نافذ کی جاتی ہے تو اس سے چینی ساختہ جہازوں کے امریکا میں داخل ہونے کی لاگت میں اضافہ ہو گا، جس کے باعث عالمی شپنگ کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، ٹرمپ انتظامیہ نے میکسیکو اور کینیڈا جیسے قریبی تجارتی اتحادیوں کے ساتھ بھی سخت اقدامات اٹھانے کی دھمکی دی ہے۔ امریکا کی طرف سے میکسیکو کے مال پر 25 فیصد تک اضافی محصولات اور کینیڈا سے درآمد ہونے والے بیف، لکڑی اور تیل پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے عالمی سطح پر تجارتی حجم میں کمی آ سکتی ہے، جو عالمی شپنگ کے نرخوں پر مزید اثر ڈالے گا۔ دوسری طرف، عالمی شپنگ کی شرحوں میں کمی دیکھنے کو ملی ہے، جو دنیا بھر میں جہازوں کی ترسیل پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ مارچ 2025 میں ڈرویری ورلڈ کنٹینر انڈیکس کے مطابق ایک 40 فٹ کے کنٹینر کی قیمت $2,629 ڈالر تک پہنچ چکی ہے، جو کہ 2021 کے وبائی عروج کے دوران $10,377 ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔ یہ کمی عالمی تجارتی دباؤ اور امریکی تجارتی اقدامات کی وجہ سے مزید شدت اختیار کر رہی ہے۔ لازمی پڑھیں: آئی ایم ایف کا وفد کل پاکستان پہنچے گا، 7 ارب ڈالر پر مذاکرات کا آغاز ماہرین کے مطابق، امریکی حکومت کی طرف سے کی جانے والی یہ تجارتی کارروائیاں غیر معمولی نوعیت کی ہیں، اور ان کے اثرات عالمی سطح پر محسوس کیے جا رہے ہیں۔ پیٹر سینڈ، جو ایک معروف شپنگ تجزیہ کار ہیں، انہوں نے اس صورتحال کو “غیر متوقع عدم تحفظ” قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق امریکا کا تجارتی تحفظ پسندی کا رخ عالمی سپلائی چینز اور تجارت کے لیے سنگین چیلنجز پیدا کر سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں شپنگ کمپنیاں اس غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہی ہیں، اور ان کے لیے اپنی قیمتوں اور کنٹریکٹ کی تجدید کے معاملات پر بات چیت کرنا پیچیدہ ہو چکا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس صورتحال میں ان کمپنیوں کی پوزیشن کمزور ہو سکتی ہے، جو کئی سالوں سے عالمی تجارتی مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافہ کرنے کے قابل تھیں۔ یاد رہے کہ یہ عالمی تجارتی حالات تباہ کن بھی ثابت ہو سکتے ہیں، کیونکہ امریکی تجارتی پالیسیوں میں ردوبدل کی صورت میں نہ صرف عالمی شپنگ کی شرحوں پر اثر پڑے گا بلکہ صارفین کو بھی قیمتوں میں اضافے کا سامنا ہو سکتا ہے۔ عالمی سطح پر اقتصادی تبدیلیاں، بڑھتی ہوئی ماحولیاتی مشکلات اور تجارتی رکاوٹیں دنیا بھر کی معیشت کو مزید پیچیدہ اور چیلنجنگ بنا سکتی ہیں۔ لہٰذا، عالمی شپنگ انڈسٹری اور تجارتی ماہرین کی نظریں اب امریکا کی آئندہ پالیسیوں پر جمی ہوئی ہیں، اور یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ان پالیسیوں کے اثرات کس طرح عالمی سطح پر تجارت کو متاثر کرتے ہیں۔ مزید پڑھیں: زکوٰۃ کی کٹوتی کے لیے 3 مارچ کو تمام بینکس بند رہیں گے، کتنی کٹوتی ہو گی؟

پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں ریکارڈ کمی، فروری میں صرف 1.5 فیصد تک پہنچ گئی

پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں مسلسل کمی دیکھنے کو ملی ہے، جس کے نتیجے میں فروری 2025 میں پاکستان کی صارف قیمت اشاریہ (CPI) مہنگائی کی شرح 1.5 فیصد تک پہنچ گئی، جو کہ گزشتہ نو سالوں میں سب سے کم سطح ہے۔ اس کمی نے ماہرین معیشت اور عوام دونوں کو چونکا دیا ہے، کیونکہ یہ اعداد و شمار کسی بھی معاشی بحران سے نکلنے کی جانب ایک مثبت اشارہ ہیں۔ پاکستانی معیشت کے اس زوال پذیر دور میں یہ کمی ایک امید کی کرن کے طور پر ابھری ہے، جس کا اثر عوام کی روزمرہ زندگی پر پڑ رہا ہے۔ فروری کے مہینے میں CPI کی شرح میں 1.51 فیصد کمی آئی ہے جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 23.1 فیصد کم ہے۔ اس کمی کو ماہرین “ڈس انفلیشن” (Disinflation) کا نام دے رہے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ مہنگائی کی شرح تو کم ہو رہی ہے مگر قیمتیں مکمل طور پر گر نہیں رہی۔ کراچی کی معروف بروکریج فرم، ٹاپ لائن سیکیورٹیز نے اس حوالے سے رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا کہ “پاکستان کا CPI فروری 2025 میں 1.5 فیصد کی سطح پر پہنچ گیا ہے، جو پچھلے 113 مہینوں میں سب سے کم ہے۔” یہ بھی پڑھیں: 190 ملین پاؤنڈ کا ڈاکہ مارنے والے اپنی سزا بھگت رہے ہیں، عطا تارڑ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ مہنگائی کی موجودہ سطح مارکیٹ کی توقعات سے کم ہے۔ اس میں مزید کہا گیا کہ موجودہ مالی سال کے آٹھ مہینوں میں مہنگائی کی اوسط شرح 5.85 فیصد رہی، جب کہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں یہ 27.96 فیصد تھی۔ پاکستان بیورو آف شماریات (PBS) کے مطابق، فروری 2025 میں شہری اور دیہی علاقوں میں مختلف قیمتوں کی شرح میں فرق آیا ہے۔ شہری علاقوں میں خوراک کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ دیکھنے کو ملا، جن میں دال مونگ (32.65 فیصد)، بیسن (28.97 فیصد)، دال چنا (25.40 فیصد)، آلو (22.88 فیصد)، تازہ پھل (21.55 فیصد) اور مکھن (21.12 فیصد) شامل ہیں۔ دیہی علاقوں میں بھی قیمتوں میں اضافہ ہوا، خاص طور پر بیسن (33.86 فیصد)، دال مونگ (32.16 فیصد) اور دال چنا (30.68 فیصد) کی قیمتوں میں بڑھوتری آئی۔ دیہی علاقوں میں غیر خوراکی اشیاء جیسے کہ موٹر گاڑیوں کے ٹیکس (126.61 فیصد)، تعلیم (24.49 فیصد) اور دندان سازی کی خدمات (19.53 فیصد) کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا۔ ضرور پڑھیں: سیف سٹی کا اقدام: شہری اپنی شکایات کی پیش رفت باآسانی ٹریک کریں، مگر کیسے مہینے کے اعتبار سے، فروری 2025 میں شہری علاقوں میں تازہ پھلوں کی قیمتوں میں 14.99 فیصد، چینی کی قیمت میں 9.35 فیصد، مکھن کی قیمت میں 5.61 فیصد اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔ دیہی علاقوں میں بھی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا، خاص طور پر تازہ پھل (13.97 فیصد) اور چینی (9.73 فیصد) کی قیمتوں میں۔ وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے وزیراعظم شہباز شریف کا بیان جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ “وزیراعظم نے مہنگائی میں ریکارڈ کمی کو خوش آئند قرار دیا ہے اور اس بات پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ اس کے اثرات عوام تک پہنچنے لگے ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے ہدایات دی گئی ہیں کہ مہنگائی میں مزید کمی لانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ اگرچہ مہنگائی کی شرح میں کمی ایک مثبت قدم ہے، مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ معیشت کی مکمل بحالی کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستانی عوام کی خریداری کی طاقت میں کمی، زرعی شعبے کی مشکلات اور عالمی اقتصادی بحران کے اثرات ابھی تک موجود ہیں۔ تاہم، موجودہ حکومتی اقدامات اور مہنگائی میں کمی، پاکستانی معیشت کے لیے ایک اہم اشارہ ہیں کہ بہتر دن آ سکتے ہیں۔ پاکستان میں فروری 2025 میں مہنگائی کی شرح میں ہونے والی کمی نے معاشی ماہرین اور عوام کو خوشی کی لہر دی ہے۔ اس کمی سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات کچھ حد تک کامیاب ہو رہے ہیں، لیکن معیشت کی مکمل بحالی کے لیے ابھی اور کوششیں درکار ہوں گی۔ عوام کی امیدیں اسی بات پر جمی ہوئی ہیں کہ وزیراعظم کی ہدایات اور حکومت کے اقدامات ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر بنائیں گے اور مہنگائی کو مزید قابو میں لایا جائے گا۔ مزید پڑھیں: گنڈاپور کی ترجیحات میں صوبے کے غریب عوام نہیں اڈیالہ کا قیدی ہے، عظمیٰ بخاری