’اگر میری بیوی مجھے طلاق دے دے‘ فیس بک پرمنفرد بحث نے صارفین کو جکڑ لیا 

Man using fb

دنیا کی سب سے بڑی سوشل میڈیا کمپنی فیس بک نے اپنے ایک آفیشل پلیٹ فارم پر یہ جملہ پوسٹ کیا کہ “Ya can never be in too many Facebook Groups” جس کا مطلب ہے کہ آپ کبھی بھی بہت زیادہ فیس بک گروپس میں شامل نہیں ہو سکتے، جس کا مقصد بظاہر فیس بک گروپس میں شمولیت کو مثبت انداز میں پیش کرنا تھا، مگر ردعمل کچھ اور ہی نکلا۔ صارفین نے اسےوقت، توجہ اور ذہنی صحت سے کھلواڑ قرار دیا۔ متعدد افراد نے فیس بک پر کمنٹ کرتے ہوئے کہا کہ گروپس کی بھرمار نے ان کے نوٹیفیکیشنز، نیوز فیڈز نے ذاتی زندگی میں خلل پیدا کیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ”سچ تو یہ ہے کہ میں اتنے زیادہ فیس بک گروپس میں ہوں کہ کبھی کبھی لگتا ہے، جیسے نیوزفیڈ کے لیے ٹور گائیڈ کی ضرورت ہے اور دائیں جانب وہ گروپ ہے، جس میں لوگ اپنے پودوں کے نام رکھتے ہیں!“ ایک اور صارف نے طنزیہ لکھا کہ ایک فیس بک گروپ ہے جسے “فیس بک گروپس سے کیسے بچنا ہے” کہا جاتا ہے۔ ایک اور فیس بک صارف نے پوسٹ کے نیچے کمنٹ کرتے ہوئے لکھا کہ 10 سال پہلے آپ نے مجھے بتایا تھا کہ میں بہت سارے گروپس میں ہوں، میرے پاس اس کا اسکرین شاٹ کہیں میموری کے طور پر ہے! ایک اور صارف نے مزاحیہ انداز میں لکھا کہ جب تک کہ ان میں سے کوئی پوچھے بغیر آپ کی شادی کی منصوبہ بندی شروع نہ کرے۔ مزید پڑھیں: پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی نازک معاملہ ہے، برطانیہ کالی نامی ایک صارف نے لکھا کہ نہیں، لیکن فیس بک مجھے ریلز بند کرنے کی اجازت دے سکتا ہے، کلاس ایکشن زک سے پہلے میری زندگی برباد کرنا بند کرو۔ ایک اور صارف نے لکھا کہ مجھے فیس بک گروپس اب میرے خاندان کے افراد سے زیادہ جانتے ہیں، اوہ ہمیں ایوارڈ دینا شروع کریں۔ ایک اور صارف نے طنزیہ انداز میں لکھا کہ ’کیا ہوگا اگر میری بیوی مجھے طلاق دے دے کیونکہ میں اکیلا بہت سے ساحل پر ہوں۔ اس کے برعکس ایک صارف نے لکھا کہ کیا کہہ رہے ہو؟ میں فیس بک کو ان انسٹال کرنے والا ہوں۔ یہ بھی پڑھیں: میٹا کا فیس بک کی پالیسیوں کو مزید سخت بنانے کا اعلان، ایسا کیا ہونے جارہا ہے؟ واضح رہے کہ اگرچہ فیس بک کا یہ بیان ایک ہلکے پھلکے اشتہاری انداز میں پیش کیا گیا، تاہم سوشل میڈیا صارفین نے اس کے پیچھے ممکنہ کاروباری حکمت عملی پر سوالات اٹھائے ہیں۔

ٹرمپ کے استقبال کے لیے لڑکیوں کا رقص، کیا مغربی مہمانوں کے لیے اصول بدل جاتے ہیں؟

Trum istqbal in uae

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ کا دورہ سوشل میڈیا صارفین کے لیے اس وقت دلچسپی کا باعث بنا جب وہ سعودی عرب ، قطر اور عرب امارات کے شاہی محلوں میں پہنچے، تینوں ممالک میں ٹرمپ کا روایتی انداز میں استقبال کیا گیا۔ متحدہ عرب امارات میں ان کے استقبال کا ایک ایسا منظر سوشل میڈیا پر وائرل ہورہا ہے جس نے عالمی سطح پر بحث چھیڑ دی ہے۔ اس واقعے میں سفید لباس پہنے مقامی لڑکیاں اپنے لمبے بال لہراتے ہوئے ایک مخصوص رقص کرتی نظر آئیں اور ان کے بیچ سے گزرتے ہوئے ٹرمپ کو خوش آمدید کہا گیا۔ جہاں اس منظر کو روایتی ثقافت کا مظاہرہ قرار دیا گیا، وہیں سوشل میڈیا پر تنقید کا طوفان بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ مخصوص رقص دراصل ‘العیالہ’ ثقافتی مظاہرے کا حصہ ہے جو کہ متحدہ عرب امارات اور شمال مغربی عمان کی قدیم بدو تہذیب سے جڑا ہوا ہے۔ العیالہ ایک روایتی جنگی پرفارمنس ہے جس میں مرد فنکار بانس کی چھڑیوں کے ساتھ قطاروں میں کھڑے ہو کر ڈف کی دھن پر رقص کرتے اور گیت گاتے ہیں۔ اس کے بیچوں بیچ موسیقار ڈھول، ڈف اور تھالیاں بجاتے ہیں۔ اس روایت میں خواتین کا حصہ ‘النشاعت’ کہلاتا ہے جس میں وہ اپنے لمبے بالوں کو ایک جانب سے دوسری جانب لہراتی ہیں۔ ماضی میں یہ رقص مردوں کے تحفظ کے بدلے اظہار اعتماد کا علامتی مظہر تھا۔ تاہم، جب اس روایتی رقص کو ٹرمپ کے استقبال کے موقع پر استعمال کیا گیا تو سوشل میڈیا پر سوالات اٹھنے لگے۔ پاکستان سمیت متعدد اسلامی ممالک کے صارفین نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ “ایک اسلامی ملک میں اس طرح کا منظر نا مناسب ہے”۔ ایک صارف نے کہا “یہ بدقسمتی ہے کہ روایات کی آڑ میں اس قسم کی پرفارمنس دی جا رہی ہے”۔ دوسری جانب کچھ تجزیہ کاروں اور عرب ثقافت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پرفارمنس درحقیقت ایک تاریخی اور ثقافتی عمل ہے جسے جدید دور میں بھی زندہ رکھا جا رہا ہے۔ یونیسکو نے بھی العیالہ کو اماراتی اور عمانی ثقافت کا قیمتی اثاثہ قرار دیا ہے۔ اماراتی محکمہ ثقافت و سیاحت کے مطابق العیالہ کو ہر عمر، جنس اور طبقے کے افراد پرفارم کر سکتے ہیں اور اس کا مقصد صرف تفریح نہیں بلکہ ورثے کو محفوظ رکھنا بھی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک اور تنقید سامنے آئی کہ “جب مغربی خواتین رہنما ان ممالک کا دورہ کرتی ہیں تو ان سے حجاب پہننے کی توقع کی جاتی ہے لیکن ایک مغربی مرد رہنما کے لیے اماراتی خواتین بغیر سر ڈھانپے رقص کر رہی ہیں”۔ اشوک سوائن نامی صارف نے کہا “یہ دوہرا معیار ہے جو خلیجی ممالک مغرب کے لیے اپناتے ہیں”۔ دوسری طرف کچھ صارفین نے اس تنقید کو لاعلمی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ “یہ رقص ایک ثقافتی روایت ہے نہ کہ کوئی فیشن شو یا مغربی طرز کی پرفارمنس”۔ ان کے مطابق اس تقریب کا مقصد عرب روایات کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنا تھا اور متحدہ عرب امارات اس حوالے سے کئی سالوں سے سرگرم ہے۔ متحدہ عرب امارات میں یہ روایتی رقص عام طور پر شادیوں، قومی تقریبات اور تہواروں کے موقع پر پیش کیا جاتا ہے۔ مگر جب یہی روایت عالمی شخصیات کے استقبال میں شامل ہو تو اس کا مفہوم اور تاثر مختلف زاویے اختیار کر لیتا ہے۔ مزید پڑھیں: انڈیا کی پاکستان کو ایک بار پھر دھمکیاں: کیا ’آپریشن سندور‘ ابھی ختم نہیں ہوا؟

پی ٹی آئی رہنما کنول شوزب ویڈیو لیک: علیمہ خان کو سیاست یا خاموشی کا مشورہ

Khawal shozab

پی ٹی آئی رہنما کنول شوزب کی بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان کے خلاف گفتگو کی ویڈیو لیک ہوئی ہے جس میں کنول شوزب نے کہا کہ علیمہ آپا کو کہوں گی کہ یا تو سیاست میں آنے کا اعلان کریں یا پارٹی کو بر باد نہ کریں۔ پارٹی زوم میٹنگ کی کنول شوزب کی ایک ویڈیو منظر عام پر آگئی، کنول شوزب  نے کہا کہ پی ٹی آئی ہماری فیملی ہے، بہت افسوس ہوا جب علیمہ خان نے کہا کہ کون گوہر؟   انہوں نے مزید کہا ہے کہ اگر آپ کی تنظیم کے عہدوں کی فکر نہیں ہو گی تو پارٹی کی عزت کون کرے گا؟ کوئی کون ہوتا ہے کسی کو منشی کہنے والا، کیا یہ باتیں کرنے والی ہیں۔

فیکٹ چیک: کیا JF-17 تھنڈر کا آغاز میاں نواز شریف کا فیصلہ تھا؟

Jf17 thundar

وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ JF 17تھنڈر وہ تاریخی فیصلہ تھا جو میاں نواز شریف کی قیادت میں کیا گیا۔ عظمیٰ بخاری کا یہ دعویٰ کہ JF-17 تھنڈر میاں نواز شریف کا تاریخی فیصلہ تھا، حقائق کے مکمل برعکس ہے۔ تاریخی شواہد کے مطابق، JF-17 منصوبے کی بنیاد 1995 میں اس وقت رکھی گئی جب پاکستان میں بینظیر بھٹو وزیراعظم تھیں۔ چین اور پاکستان کے درمیان اس منصوبے کا باضابطہ آغاز اسی دور میں ہوا۔ یہ ایک تکنیکی اور اسٹریٹجک نوعیت کا کثیر المراحل منصوبہ تھا جو مختلف ادوار میں مختلف حکومتوں کے تعاون سے آگے بڑھتا رہا۔ مزید پڑھیں: مودی نے ٹرمپ سے درخواست کی کہ ہمیں بچا لو، عظمیٰ بخاری نواز شریف کی حکومت نے 1997 سے 1999 کے درمیان کچھ مالیاتی اور تکنیکی منظوریوں میں کردار ادا کیا، لیکن منصوبے کا آغاز ان کے دور میں نہیں ہوا۔ 2003 JF-17 چین کی Chengdu Aircraft Corporation اور پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کے درمیان مشترکہ منصوبہ تھا۔ میں چین میں پہلا پروٹوٹائپ تیار ہوا، 2007 میں پاکستان میں مقامی پیداوار کا آغاز ہوا، اور 2010 میں یہ طیارہ باقاعدہ طور پر پاکستان فضائیہ کا حصہ بنا۔ ان میں سے کسی مرحلے پر بھی اسے کسی ایک حکومت یا رہنما کی مکمل کامیابی کہنا حقیقت سے انحراف ہوگا۔ JF-17 تھنڈر ایک قومی دفاعی منصوبہ ہے جس میں فوجی اداروں، انجینئرنگ ٹیموں، اور مختلف حکومتوں کا مشترکہ کردار رہا ہے۔ اس منصوبے کو صرف نواز شریف سے منسوب کرنا تاریخ کو سیاسی بیانیے میں ڈھالنے کی کوشش ہے، جو غیرمناسب اور گمراہ کن ہے۔ عظمیٰ بخاری کا دعویٰ تاریخی حقائق سے متصادم ہے۔ JF-17 تھنڈر کا آغاز بینظیر بھٹو کے دور میں ہوا، اور یہ ایک قومی اور عسکری سطح کا مشترکہ منصوبہ تھا، جس میں مختلف ادوار کی حکومتوں نے حصہ لیا۔کریڈٹ صرف ایک فرد یا حکومت کو دینا غلط بیانی کے زمرے میں آتا ہے۔

’جنگ میں نقصانات کے بعد عالمی پارٹنرز سے قرض کی اپیل‘ پاکستانی وزرات کی سوشل میڈیا پوسٹ کا معاملہ کیا؟

وزارت اقتصادی امور کا آفیشل ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اکاؤنٹ دشمن عناصر کی جانب سے ہیک کر لیا گیا تھا جس کا مقصد پاک بھارت کشیدگی کے پس منظر میں پاکستان کے خلاف منفی تاثر قائم کرنا تھا۔ ترجمان اقتصادی امور کے مطابق، دشمن نے اکاؤنٹ ہیک کرکے ایک گمراہ کن اور نامناسب پوسٹ کی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان جنگ میں ہونے والے نقصانات کے بعد عالمی پارٹنرز سے قرض کی اپیل کر رہا ہے۔ ترجمان کے مطابق، اس سازش کا بنیادی مقصد عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری کے سامنے پاکستان کو کمزور اور معاشی طور پر غیر مستحکم ظاہر کرنا تھا۔ تاہم، وزارت اقتصادی امور اور دیگر حکومتی اداروں کی فوری اور مربوط کارروائی سے نہ صرف اکاؤنٹ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کیا گیا بلکہ ہیکرز کی جانب سے کی گئی متنازعہ پوسٹ کو بھی فوری طور پر حذف کر دیا گیا۔ یہ بھی پڑھیں: انڈیا کی جانب سے پاکستان پر حملوں کے لیے استعمال ہونے والا ہاروپ ڈرون کیا ہے؟ حکام نے مزید بتایا کہ فی الحال سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اکاؤنٹ کو ڈی ایکٹیویٹ کر دیا گیا ہے تاکہ مزید کسی بھی ممکنہ سائبر حملے سے بچا جا سکے۔ ترجمان اقتصادی امور نے کہا کہ دشمن کی یہ سازش مکمل طور پر ناکام بنا دی گئی ہے اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے عناصر کی نشاندہی کے لیے مزید تحقیقات جاری ہیں۔ عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ صرف مستند ذرائع سے حاصل شدہ اطلاعات پر یقین کریں اور کسی بھی مشکوک آن لائن مواد کو شیئر کرنے سے گریز کریں۔

فیکٹ چیک: پاکستانی آرمی چیف کی تبدیلی، کراچی میں بندرگاہ کی تباہی، حقیقت کیا؟

Fect check

گزشتہ دو دنوں کی طرح آج بھی انڈین میڈیا نے متعدد ایسے دعوے کیے ہیں، جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان دعوؤں میں پاکستان میں فوجی سربراہ کی تبدیلی، ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بندرگاہ کی تباہی اوراسلام آباد میں وزیرِاعظم ہاؤس کے قریب دھماکے کی افواہ بھی شامل ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ نے ان تینوں مقامات پر حقائق جاننے کے لیے متعلقہ اتھارٹیز اور ذرائع کو چیک کیا، جس کے بعد یہ ثابت ہوا کہ یہ اطلاعات غلط ہیں۔ کراچی کے بندرگاہ کی تباہی کو متعدد دیگر لوگوں نے بھی جعلی قرار دیا۔ خود انڈین صحافی محمد زبیر نے مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ امریکی ریاست فلاڈیلفیا کی ایک پرانی ویڈیو کو کراچی کی بندرگاہ کی تباہی سے منسوب کیا جارہا ہے، جو کہ غلط ہے۔ Old video of Philadelphia after a plane crash. An audio is added to this video later. Nothing to do with Karachi. https://t.co/XBgkgSnqZI pic.twitter.com/rwWCPYyLwg — Mohammed Zubair (@zoo_bear) May 8, 2025 اسلام آباد میں پاکستان میٹرز کے نامہ نگار نے موقع کا جائزہ لینے کے بعد اس بات کی تردید کی ہے کہ یہ مکمل جھوٹی خبر ہے۔ وزیرِاعظم ہاؤس اور اس کے اطراف میں حالات اور صورتحال مکمل طور پر معمول پر ہیں، قریبی مارکیٹس اوردیگر سرگرمیاں معمول کے مطابق گزاری ہیں۔ BREAKING NEWS: ⚡️🚨🇮🇳🇵🇰 Huge blast reported near Pakistan PM'S Residence. Pakistan denies this news. 🇵🇰📰🚫#IndiaPakistanWar #IndianArmy #PakistanArmy pic.twitter.com/8QeTfl1jv6 — Indo-Pak War Updates (@IndoPak_Updates) May 8, 2025 انڈین خبررساں ادارے’انڈیا ڈاٹ کام’ نے پاکستان آرمی چیف کے خلاف فیک پروپیگنڈہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیسبک پر پوسٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ “پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو عہدے سے ہٹایا جاسکتا ہے اور ان کی جگہ جنرل ساحر شمشاد مرزا کو تعینات کیا جائے گا۔” پاکستانی میڈیا کی جانب سے اسے جھوٹا قرار دیا جارہا ہے اور سرکاری طور پر اس پر ابھی تک کوئی بیان نہیں دیا گیا۔ ‘پاکستان میٹرز’ کے مطابق یہ سراسر جھوٹی خبر ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور یہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ ہے۔ واضح رہے کہ جنرل عاصم منیر نومبر 2022 میں پاکستان آرمی کے سپہ سالار بنے تھے، جب کہ جنرل ساحر شمشاد مرزا فی الحال جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

نفسیاتی حملے میں انڈیا کو شکست: ’پاک۔بھارت جنگ دبئی میں لڑی جائے‘

Social media

پاکستان اور انڈیا کے درمیان عملی جنگ ہونہ ہو مگر سوشل میڈیا پر نفسیاتی جنگ انڈیا ہار چکا ہے۔ دشمن ملک کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات کو پاکستانیوں نے طنزومزاح کے طور پر لیا اور ایسی ایسی میمز بنائیں کہ انڈینز کے ’طوطے‘ اڑ گئے۔ پہلگام میں 26 انڈین سیاحوں کی ہلاکت کے بعد انڈیا کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا۔ دہلی نے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے، اٹاری بارڈر بند کرنے اور پاکستان کے خلاف دیگر معاشی و سفارتی اقدامات کا اعلان کیا۔ لیکن دوسری جانب پاکستان کی سرزمین پر نہ خوف کا ماحول، نہ تشویش کا شور بلکہ سوشل میڈیا پر میمز، طنزیہ تبصرے اور ویڈیوز کا طوفان امڈ آیا۔ ایک طرف انڈین میڈیا ہر بریکنگ نیوز میں جنگ کے بادلوں کا شور مچا رہا ہے تو دوسری طرف پاکستانی صارفین نے چائے، کباب اور اقرا یونیورسٹی کے لطیفوں سے ایسا محاذ کھولا ہے جس نے انٹرنیٹ کو ہلا کر رکھ دیا۔ سوشل میڈیا پر ایک صارف جس کا نام احسان گل ہے، اس نے طنزیہ انداز میں لکھا کہ ’’انڈیا جنگ کی تیاری کر رہا ہے ہم میمز بنانے میں مصروف ہیں۔‘‘ ایک اور صارف نے تاج محل کو اقرا یونیورسٹی میں تبدیل کرنے اور ساتھ کباب جیز کی برانچ کھولنے کی پیش گوئی کر دی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر میمز کی بہار آئی ہوئی ہے۔ کسی نے لکھا کہ ’’انڈیا والو، ہن لاڈ شاڈ ختم‘‘ تو کسی نے سوال کیا کہ ’’4 بج گئے ہیں ابھی تک کوئی جہاز کیوں نہیں آیا؟‘‘ ایک سوشل میڈیا صارف نے جنگ کی سنجیدگی کو مذاق میں اڑاتے ہوئے کہا کہ ’’کل ورکنگ ڈے ہے جنگ ہفتے کو رکھو تاکہ چھٹی کے دن لڑ لیں۔‘‘ اس کے علاوہ ایک اور صارف نے ایسی تصویر پوسٹ کی جس پر لکھا تھا کہ ’’انڈیا پانی دو، آنکھ میں صابن چلا گیا ہے۔‘‘ صورتحال میں مزید مزاح اُس وقت شامل ہوا جب انڈین فضائیہ نے ہنگامی مشقوں کے دوران مدھیہ پردیش کے ضلع شیوپوری میں اپنی ہی آبادی پر بم گرا دیا۔ ساؤتھ ایشیا انڈیکس کے مطابق انڈین پائلٹ نے مبینہ طور پر ہدف کا غلط تعین کیا جس کے نتیجے میں شہری آبادی اور املاک کو شدید نقصان پہنچا۔ کئی گھر تباہ ہو گئے جبکہ ہلاکتوں کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔ یہ واقعہ انڈین فضائیہ کی بوکھلاہٹ کا منہ بولتا ثبوت بن گیا۔ پاکستانی صارفین نے اس موقع کو بھی ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’’جنگ ہو نہ ہو، فلموں کے آئیڈیاز تو ملے۔‘‘ ایک اور نے کہا کہ ’’اب کی بار ابھینندن واپس نہیں جائے گا، چائے کی جگہ گُڑ والا شربت پلائیں گے۔‘‘ حالات جیسے جیسے سنگین ہو رہے ہیں پاکستانی عوام کا ردعمل بتا رہا ہے کہ وہ جنگ سے نہیں، صرف جھوٹے بیانیے اور دھمکیوں سے تنگ آ چکے ہیں۔ ایک لڑکی نے لکھا کہ “جنگ سر پہ کھڑی ہے، اور میرے کپڑوں کے ساتھ میچنگ تلوار نہیں مل رہی۔ اس کے علاوہ ایک نے تو مزاق کی حد ہی کر دی، اس نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جس میں لکھا تھا کہ ’’امریکا نے انڈیا کو کہا ہے کہ اگر پاکستان کو کچھ ہوا تو قرضہ آپ دیں گے۔‘‘ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ جنگ واقعی سرحد پار ہوگی یا صرف سوشل میڈیا پر لڑی جائے گی؟ ایک بات طے ہے کہ اگر جنگ صرف میمز کی ہو تو پاکستانی عوام پہلے ہی فاتح قرار دیے جا چکے ہیں۔ مزید پڑھیں: پہلگام واقعہ کے بعد انڈین فوج میں ’بغاوت‘۔ تلخ کلامی پرفائرنگ، 5 سکھ سپاہی ہلاک

پہلگام فالس فلیگ: انڈین میڈیا کا ایک اور جھوٹ بے نقاب، مردہ قرار دیا گیا جوڑا زندہ نکلا

Pehlgam false flag

پہلگام حملے کے حوالے سے انڈین میڈیا کا خودساختہ جھوٹ ایک بار پھر سامنے آگیا۔ حملے میں مردہ قرار دیے گئے بھارتی نیول آفیسر اور ان کی اہلیہ کے طور پر پیش کیے گئے جوڑے نے سوشل میڈیا پر زندہ حالت میں ویڈیو بیان جاری کر دیا۔ سماجی رابطے کی سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک ویڈیو بیان وائرل ہوا ہے، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ انڈین میڈیا نے پہلگام حملے کے بعد جن افراد کو ہلاک ظاہر کیا تھا، ان میں ایک جوڑا انڈین نیول آفیسر اور اہلیہ کے طور پر پیش کیا گیا تھا اور انہیں مردہ قرار دیا گیا تھا، وہ زندہ ہیں۔ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیو میں متاثرہ خاتون نے وضاحت کی کہ وہ اور اُن کا ساتھی دونوں زندہ ہیں اور اُن کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں۔ خاتون نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ اُن کی پرانی تصاویر کو بھارتی نیول آفیسر اور ان کی بیوی ظاہر کر کے میڈیا پر نشر کیا گیا۔ پہلگام حملہ کا ڈراپ سین، ہلاک قرار دیا گیا جوڑا سامنے آگیا#DialogueUrdu #PahalgamTerroristAttack #DropScene #Couple #Declared #Dead #Emerges pic.twitter.com/7RePfEfcOq — Dialogue Urdu (@DialogueUrdu) April 24, 2025 متاثرہ جوڑے نے بھارتی میڈیا کی جھوٹی رپورٹس کو گمراہ کن اور بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس غیر ذمہ دارانہ رویے پر کارروائی کی جائے۔ انہوں نے صارفین سے گزارش کی کہ ان جھوٹی ویڈیوز کو رپورٹ کیا جائے۔ واضح رہے کہ منگل کی شام مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ایک دہشت گرد حملہ ہوا، جس میں تقریباً 27 افراد ہلاک، جب کہ متعدد ہوئے۔ انڈیا نے اس کی ذمہ دار پاکستان کو قرار دیتے ہوئے سخت اقدامات کا اعلان کیا، جب کہ اس حملے کو مودی سرکار کا فالس فلیگ آپریشن کہا جارہا ہے۔

فیکٹ چیک: ‘مہنگے پیٹرول سے سڑک کی تعمیر’ حکومت پیٹرول کی مد میں پاکستانیوں سے 15 روز میں کتنا ٹیکس وصول کرتی ہے؟

pakistani pay whooping Rs.86 billion tax on petrol in 15 days

چند روز قبل وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے اعلان کیا کہ عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو منتقل نہیں کیا جائے گا بلکہ اس رقم سے سندھ اور بلوچستان میں سڑکیں تعمیر کی جائیں گی۔ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا بلکہ اسی روز حکومت نے مہنگائی سے پریشان پاکستانیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے کوٹے پر صدر بننے والے آصف زرداری کے آرڈیننس کے ذریعے پیٹرولیم قیمتوں پر عائد لیوی میں بھی بھاری اضافہ کر دیا۔ پیٹرولیم سیکٹر کے اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت عالمی منڈی کے نرخوں کے مطابق فی لیٹر پیٹرول 122 روپے میں میسر ہے۔ پاکستان میں پہنچ کر 20 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی، ایکسچینج ریٹ کا ایک روپیہ، لیوی فی لیٹر 78 روپے، ان لینڈ فریٹ ایکوزیشن مارجن فی لیٹر تقریبا 7 روپے عائد ہے۔ اس طرح فی لیٹر کل ٹیکس 108 روپے وصول کیا جا رہا ہے۔ ڈیلر اور ڈسٹری بیوشن مارجن ڈال کر پاکستانیوں کو 122 روپے فی لیٹر کا پیٹرول 254 روپے فی لیٹر میں فروخت کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے ڈیٹا کے مطابق ملک میں جنوری 2025 کے دوران 1.38 ملین ٹن پیٹرولیم مصنوعات استعمال کی گئیں۔ حالیہ ایام میں اس مقدار میں مزید اضافہ ہوا ہے تاہم اگر انہی اعداد کو دیکھا جائے تو پاکستانی 15 روز میں 7 کروڑ 95 لاکھ لیٹر سے زائد کا ایندھن استعمال کرتے ہیں۔ دیگر مدات کو نظر انداز کر کے صرف پیٹرولیم لیوی کا حساب کیا جائے تو پاکستانی 15 روز میں حکومت کو 63 ارب 61 کروڑ روپے کی بھاری رقم ادا کریں گے۔ تمام ٹیکسز شمار کیے جائیں تو پاکستانی 15 روز میں سرکار کو 85 ارب 94 کروڑ روپے سے زائد کی رقم ادا کریں گے۔ ان اعدادوشمار کی روشنی میں معاشی ماہرین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ جب پاکستانی پہلے سے ہی بھاری ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہیں تو ان پر مزید معاشی دباؤ کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ پاکستان میں تنخواہ دار 38.5 فیصد، کاروباری فرد 50 فیصد جب کہ بینکس اپنی آمدن کا 53 فیصد ٹیکس کی مد میں ادا کرتے ہیں۔ پاکستان میں ٹیکس کے سرکاری ڈیٹا کے مطابق کارپوریٹ سیکٹر نے 39 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔ ٹیکس کا معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا بلکہ روزمرہ خریداری پر عملا 25 فیصد تک جنرل سیلز ٹیکس، سڑک پر سفر کریں تو ہائی ویز اور موٹر ویز پر بھاری ٹول ٹیکس، ٹیلیفون وانٹرنیٹ پر ایڈوانس ٹیکس تک عائد ہے جو ہر فرد نے لازما ادا کرنا ہوتا ہے۔ معیشت کی رپورٹنگ سے وابستہ صحافی اور ٹیلی ویژن میزبان شہباز رانا کے مطابق ان بھاری ٹیکسوں کا مقصد ترقیاتی و دیگر اخراجات کے لیے وسائل مہیا کرنا ہوتا ہے۔ ‘ایسے میں بھاری بھرکم ٹیکس کی کوئی جسٹیفیکیشن نہیں بنتی۔’

‘نہ کیمرہ نہ ٹیم، بس ایک موبائل اور دماغ’ کراچی کے طلحہ نے سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی

Talha ahmed

بلدیہ ٹاؤن، کراچی کے ایک چھوٹے سے گھر میں 16 سالہ طلحہ احمد موبائل فون سے ویڈیو بنانے میں مصروف ہے۔ اس کی ہر ویڈیو کو تقریبا لاکھوں لوگ دیکھتے ہیں اور لائیک کرتے ہیں اور اب تو اس کا نام پاکستان کے مقبول ترین ٹین ایج کامیڈیئنز میں شامل ہو چکا ہے۔ صرف ایک سال کے اندر اس نے 324,000 سے زائد فالوورز بنا لیے ہیں جبکہ اس کی ایک ویڈیو نے تو 20 ملین ویوز حاصل کیے ہیں۔ لیکن یہ کامیابی آسان نہیں تھی، طلحہ کے پاس نہ کوئی اچھی کوالٹی کا کیمرہ تھا، نہ ٹرائی پاڈ، بلکہ صرف ایک موبائل فون اور اپنی تخلیقی صلاحیتیں۔ طلحہ کی ایک حالیہ ویڈیو، جس میں اس نے انڈین فلموں میں مسلمانوں کو پیش کرنے کے طریقے پر زبردست طنز کیا، اور یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل گئی۔ اس نے بالی وڈ کے “روایتی مسلم کرداروں” کی نقل اتنی شاندار کی کہ دیکھنے والے ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گئے۔ اس کی ایک اور مشہور ویڈیو وہ ہے جس میں طلحہ نے اس گھر کے فرد کا کردار ادا کیا جو سحری کے لیے نہیں اٹھتا، روزہ نہیں رکھتا لیکن افطاری کے وقت سب سے پہلے دسترخوان پر موجود ہوتا ہے۔ یہ ویڈیو بھی لاکھوں لوگوں کو ریلیٹ کر گیا۔  یہ بھی پڑھیں: کیا عمران خان کو جیل میں جعلی اخبار دیا جاتا ہے؟ ایک اور ویڈیو میں طلحہ نے عید سے پہلے درزیوں کے رویے پر طنز کیا۔ اس نے درزی کے اس جملے کو بڑے مزے سے پیش کیا کہ “نہیں بھائی، ابھی تو بٹن لگنا باقی ہے” یہ سن کر ہر وہ شخص ہنس پڑا جسے کبھی درزی کے جھوٹے وعدوں کا سامنا کرنا پڑا ہو۔  طلحہ نے مشہور اینکر سہیل وریچ کی نقل کرتے ہوئے ان کے انداز میں ڈائیلاگ بولے جس پر صارفین نے کمنٹس میں لکھا کہ “سہیل صاحب کو بھیج دو، خود ہی مان جائیں گے کہ نقل اصل سے بھی بہتر ہے۔” طلحہ کا کہنا ہے کہ اس کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ عام لوگوں کی زندگیوں سے جڑے موضوعات اٹھاتا ہے۔ اس نے کہا کہ “میں وہی مسائل دکھاتا ہوں جو ہر گھر میں ہوتے ہیں اس لیے لوگ مجھ سے جڑتے ہیں۔” طلحہ کے بھائی ڈاکٹر طہٰ احمد اس کے ویڈیوز کو ریکارڈ کرنے اور اسکرپٹ میں بہتری لانے میں مدد کرتے ہیں۔ ڈاکٹر طہٰ نے عرب نیوز کو بتایا کہ طلحہ نے اپنے کیریئر کا آغاز اس وقت کیا جب اس کے پاس اپنا موبائل تک نہیں تھا۔ وہ “کبھی بہن کا فون استعمال کرتا تھا اور کبھی بھائی کا، مگر ہر ویڈیو میں اس کی تخلیقی صلاحیتیں جھلکتی تھیں۔” طلحہ نے حال ہی میں میٹرک کے امتحانات دیے ہیں اور وہ اپنی پڑھائی اور کامیڈی کیریئر کے درمیان توازن بنا رہا ہے۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ وہ تھیلیسیمیا کا مریض بھی ہے مگر اس نے کبھی اسے اپنی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ طلحہ نے فخر سے کہا کہ “آج الحمدللہ، میری پہچان میرا کام ہے، میری بیماری نہیں۔” طلحہ کا خواب ہے کہ وہ اپنے فن کو مزید بہتر کرے اور ایک دن پاکستان کی کامیڈی انڈسٹری میں اپنا نام روشن کرے۔اس کے فالوورز اس کے ساتھ ہیں جو ہر نیا ویڈیو دیکھنے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ مزید پڑھیں: کیا رواں سال معیشت اور دنیا تباہ ہوجائے گی؟