ممبئی حملہ کیس، پاکستانی نژاد تہور حسین رانا بھارت کے حوالے

2008 کے ممبئی حملوں میں مطلوب پاکستانی نژاد امریکی شہری تہور حسین رانا کو بالآخر انڈیا کے حوالے کر دیا گیا، اسے خصوصی پرواز کے ذریعے انڈیا پہنچایا گیا، انڈین تحقیقاتی ایجنسی اور خفیہ ایجنسی را کی ٹیمیں تہور رانا کو بھارت لائیں۔ عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی نیوز کے مطابق انڈین تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ رانا جمعرات کو دہلی پہنچے، جہاں اُن سے سخت سیکیورٹی میں تفتیش کی جائے گی۔ رانا پر انڈیا کی جانب سے دہشت گرد تنظیم لشکرِ طیبہ کی معاونت اور ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی میں ملوث ہونے کے سنگین الزامات عائد ہیں۔ یاد رہے کہ 2011 میں امریکی عدالت نے انہیں ممبئی حملوں کے الزامات سے بری کرتے ہوئے صرف لشکرِ طیبہ کی حمایت پر مجرم قرار دیا تھا۔ رانا کو 2013 میں 14 سال قید کی سزا ہوئی، لیکن وہ 2020 میں صحت کی بنیاد پر رہا ہو گئے، مگر انڈیا کی تحویل کی درخواست پر انہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ فروری 2025 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے بعد اس حوالگی کی راہ ہموار ہوئی۔ پاکستانی نژاد ڈاکٹر تہور رانا نے پاکستان آرمی کے میڈیکل کور میں خدمات انجام دیں، وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ کینیڈا منتقل ہوئے، پھر شکاگو میں امیگریشن اور ٹریول بزنس کا آغاز کیا، جہاں اُن کے بچپن کے دوست اور ممبئی حملوں کے مرکزی کردار ڈیوڈ ہیڈلی سے تعلقات دوبارہ استوار ہوئے۔ وہ کینیڈین شہریت بھی رکھتے ہیں۔ مزید پڑھیں: آئی پی ایل کھیلنا مہنگا پڑگیا، پی سی بی نے پروٹیز کھلاڑی پر پابندی لگا دی انڈین حکام کا دعویٰ ہے کہ رانا نے اپنی کمپنی کے ذریعے ممبئی میں ایک دفتر کھولا، جو دہشت گردی کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال ہوا۔ ہیڈلی پہلے ہی امریکی عدالت میں مجرم قرار دیا جا چکا ہے اور اس نے رانا کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن کر بیانات بھی دیے ہیں۔ انڈین نے رانا پر غداری، دہشت گردی اور حکومت کے خلاف سازش جیسے الزامات عائد کیے ہیں۔ ممبئی کی ایک عدالت میں اُن کے خلاف عدم موجودگی میں مقدمہ بھی چلایا گیا۔ رانا نے اپنی حوالگی کے خلاف اقوام متحدہ کے انسدادِ تشدد کنونشن کا حوالہ دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ انڈیا میں خصوصاً پاکستانی نژاد ہونے کی وجہ سے اُن کے ساتھ امتیازی سلوک یا تشدد ہو سکتا ہے، مگر امریکی عدالتوں نے یہ مؤقف مسترد کر دیا ہے۔ خیال رہے کہ تہور حسین رانا کو دہلی کی پٹیالا ہاؤس کورٹ میں پیش کیا جائے گا، عدالت کے باہر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
پی ایس ایل سیزن 10: کون سا میچ کب اور کہاں ہو گا

پی ایس ایل کے دسویں ایڈیشن کا آغاز کل راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں شاندار افتتاحی تقریب سے ہوگا، جس کے بعد دفاعی چیمپئن اسلام آباد یونائیٹڈ اور لاہور قلندرز کے درمیان پہلا میچ کھیلا جائے گا۔ اس ٹورنامنٹ میں 34 میچز کھیلے جائیں گے، جو 6 ٹیموں کے درمیان 18 مئی تک جاری رہیں گے۔ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں 13 میچز ہوں گے، جن میں دونوں ایلیمینیٹرز اور فائنل شامل ہیں۔ راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم 11 میچز کی میزبانی کرے گا، جن میں 13 مئی کو پہلا کوالیفائر بھی شامل ہے، جبکہ کراچی کے نیشنل بینک اسٹیڈیم اور ملتان کرکٹ اسٹیڈیم میں پانچ، پانچ میچز ہوں گے۔ اس سیزن میں تین ڈبل ہیڈرز بھی شامل ہیں، جن میں سے دو ہفتہ کے دنوں اور ایک یومِ مزدور (یکم مئی) کو کھیلا جائے گا۔ بابر اعظم، شاداب خان، محمد رضوان اور شاہین شاہ آفریدی بالترتیب گزشتہ سال کی طرح پشاور زلمی، اسلام آباد یونائیٹڈ، ملتان سلطانز اور لاہور قلندرز کی قیادت کریں گے، جبکہ کراچی کنگز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نئے کپتانوں ڈیوڈ وارنر اور سعود شکیل کی قیادت میں میدان میں اتریں گے۔ گزشتہ سیزن 2024 میں اسلام آباد یونائیٹڈ نے تیسری بار پی ایس ایل کا ٹائٹل اپنے نام کیا تھا، جبکہ ملتان سلطانز مسلسل تیسری بار رنر اپ رہی تھی۔ پی ایس ایل سیزن 10 کا شیڈول: ٹیمیں مقام وقت تاریخ اسلام آباد یونائیٹڈ بمقابلہ لاہور قلندرز راولپنڈی رات 8:30 بجے 11 اپریل پشاور زلمی بمقابلہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز راولپنڈی دن 3:30 بجے 12 اپریل کراچی کنگز بمقابلہ ملتان سلطانز کراچی رات8 بجے 12 اپریل کوئٹہ گلیڈی ایٹرز بمقابلہ لاہور قلندرز راولپنڈی رات8 بجے 13 اپریل اسلام آباد یونائیٹڈ بمقابلہ پشاور زلمی راولپنڈی رات8 بجے 14 اپریل کراچی کنگز بمقابلہ لاہور قلندرز کراچی رات8 بجے 15 اپریل اسلام آباد یونائیٹڈ بمقابلہ ملتان سلطانز راولپنڈی رات 8بجے 16 اپریل کراچی کنگز بمقابلہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کراچی رات 8 بجے 18 اپریل پشاور زلمی بمقابلہ ملتان سلطانز راولپنڈی رات 8 بجے 19 اپریل کراچی کنگز بمقابلہ اسلام آباد یونائیٹڈ کراچی رات 8 بجے 20 اپریل کراچی کنگز بمقابلہ پشاور زلمی کراچی رات 8 بجے 21 اپریل ملتان سلطانز بمقابلہ لاہور قلندرز ملتان رات 8 بجے 22 اپریل ملتان سلطانز بمقابلہ اسلام آباد یونائیٹڈ ملتان رات 8 بجے 23 اپریل لاہور قلندرز بمقابلہ پشاور زلمی لاہور رات 8 بجے 24 اپریل کوئٹہ گلیڈی ایٹرز بمقابلہ کراچی کنگز لاہور رات8 بجے 25 اپریل لاہور قلندرز بمقابلہ ملتان سلطانز لاہور رات8 بجے 26 اپریل کوئٹہ گلیڈی ایٹرز بمقابلہ پشاور زلمی لاہور رات 8 بجے 27 اپریل کوئٹہ گلیڈی ایٹرز بمقابلہ ملتان سلطانز لاہور رات 8 بجے 29 اپریل لاہور قلندرز بمقابلہ اسلام آباد یونائیٹڈ لاہور رات 8 بجے 30 اپریل ملتان سلطانز بمقابلہ کراچی کنگز ملتان دن 3:30 بجے یکم مئی لاہور قلندرز بمقابلہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز لاہور رات 8بجے یکم مئی پشاور زلمی بمقابلہ اسلام آباد یونائیٹڈ لاہور رات 8 بجے 2 مئی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز بمقابلہ اسلام آباد یونائیٹڈ لاہور رات 8 بجے 3 مئی لاہور قلندرز بمقابلہ کراچی کنگز لاہور رات8 بجے 4 مئی ملتان سلطانز بمقابلہ پشاور زلمی ملتان رات 8 بجے 5 مئی اسلام آباد یونائیٹڈ بمقابلہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز راولپنڈی رات 8 بجے 7 مئی پشاور زلمی بمقابلہ کراچی کنگز راولپنڈی رات8 بجے 8 مئی پشاور زلمی بمقابلہ لاہور قلندرز راولپنڈی رات 8 بجے 9 مئی ملتان سلطانز بمقابلہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز ملتان دن3:30 بجے 10 مئی اسلام آباد یونائیٹڈ بمقابلہ کراچی کنگز راولپنڈی رات 8 بجے 10 مئی کوالیفائر راولپنڈی رات8 بجے 13 مئی ختم کرنے والا 1 لاہور رات 8 بجے 14 مئی ایلمینیٹر 2 لاہور رات 8 بجے 16 مئی فائنل لاہور رات8 بجے 18 مئی
یوکرین جنگ: ‘روس چینی شہریوں کو فوج میں بھرتی کر رہا ہے’

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ایک اور پریشان کن دعویٰ کیا ہے کہ کم از کم 155 چینی شہری یوکرین کی جنگ میں روس کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں۔ ان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب یوکرین کی فوج نے دو چینی جنگجوؤں کو پکڑ لیا جو پہلی بار چین کے براہ راست ملوث ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ بدھ کے روز زیلنسکی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت نے جن معلومات کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا ہے ان کے مطابق اس تنازعے میں مزید کئی چینی شہری شامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ چین روس کو نہ صرف فوجی امداد فراہم کر رہا ہے بلکہ اس نے اپنی سوشل میڈیا کی مدد سے چینی شہریوں کو جنگ میں شامل ہونے کے لیے بھی راغب کیا ہے۔ زیلنسکی نے کہا کہ “روس چینی شہریوں کو اپنی فوج میں بھرتی کر رہا ہے اور یہ سب کچھ بیجنگ کے علم میں ہے۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ جن افراد کو بھرتی کیا گیا ہے انہیں ماسکو میں تربیت دی جاتی ہے اور اس کے بدلے انہیں ادائیگیاں کی جاتی ہیں۔ زیلنسکی کا کہنا تھا کہ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ روس اور چین کے تعلقات اس جنگ میں مزید پیچیدہ ہو چکے ہیں۔ اگرچہ چین نے اس بات کی تردید کی ہے کہ اس کے شہری روس کے لیے لڑ رہے ہیں مگر زیلنسکی کے دعوے نے عالمی برادری کو تشویش میں ڈال دیا ہے۔ دوسری جانب امریکا نے بھی ان رپورٹس کو ’پریشان کن‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس بات کی تحقیقات کی جانی چاہئیں۔ یوکرین کے صدر نے یہ بھی کہا کہ اگر روسی حکام چین کے ساتھ مل کر یوکرین کے خلاف لڑنے کے لیے شہریوں کو بھرتی کر رہے ہیں تو یہ ایک عالمی خطرہ بن سکتا ہے۔ اس جدید جنگ میں روس کی جانب سے چین کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کی بالواسطہ یا براہ راست مداخلت نے ایک نیا موڑ لیا ہے۔ زیلنسکی کے مطابق یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ روس کی جنگ میں شکست قبول کرنے کی کوئی نیت نہیں ہے۔ زیلنسکی نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا کہ “پوتن کے ارادے واضح ہیں وہ جنگ کے خاتمے کے بجائے کسی بھی قیمت پر اسے جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں۔” یہ دعویٰ نہ صرف یوکرین بلکہ پورے عالمی منظرنامے پر ایک سوالیہ نشان چھوڑ رہا ہے جس کا جواب صرف وقت ہی دے سکے۔
’ہم چین کے گنواروں سے قرض لیتے ہیں‘ امریکی نائب صدر کے بیان پر طوفان برپا

دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان کشیدگی بڑھ چکی ہے لیکن اس بار یہ طوفان کسی فوجی مشق، تجارتی معاہدے یا ٹیکنالوجی کی جنگ کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک جملے کا مرہون منت ہے۔ امریکا کے نومنتخب نائب صدر جے ڈی وینس نے ایک امریکی ٹی وی چینل پر انٹرویو دیتے ہوئے چینی شہریوں کو “گنوار” کہہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہم چین کے گنواروں سے قرض لیتے ہیں تاکہ ان ہی کے بنائے ہوئے گنوارانہ سامان کو خرید سکیں۔” یہ الفاظ گویا خنجر بن کر چینی شہریوں کے سینے میں جا لگے۔ بیجنگ نے نہ صرف اس بیان کو “جہالت اور غرور کا مظاہرہ” قرار دیا بلکہ اسے امریکا کے چہرے کا اصل عکس بھی کہا۔ دوسری جانب چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے سخت ردعمل میں کہا کہ “یہ بیان صرف بے ادبی نہیں بلکہ ایک قوم کی توہین ہے۔” چین کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر غصے کی لہر دوڑ گئی، صارفین نے جے ڈی وینس کو “بدتمیز دہقانی سیاستدان” اور “سفارتی تباہی” جیسے القابات سے نوازا۔ ایک صارف نے لکھا کہ “جو شخص گاؤں سے نکل کر وائٹ ہاؤس پہنچا، وہ آج دنیا کے سب سے بڑی قوم کو گنوار کہہ رہا ہے؟” یہ واقعہ ایسے وقت پر پیش آیا جب امریکا اور چین کے تعلقات پہلے سے ہی کشیدہ ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے حال ہی میں چین پر 125 فیصد نئے تجارتی ٹیرف عائد کر دیے ہیں، ایک اور چنگاری جو تجارت کی جنگ کو بھڑکا سکتی ہے۔
کراچی میں ڈمپر حادثہ: ایک ٹکر، 9 گاڑیاں نذرِ آتش

شہر قائد ایک بار پھر آگ، غصے اور چیخ و پکار کی لپیٹ میں آگیا، جہاں نارتھ کراچی کے پاور ہاؤس چورنگی پر ایک معمولی ٹریفک حادثے نے دیکھتے ہی دیکھتے پرتشدد ہنگامے کی صورت اختیار کر لی۔ ایک ڈمپر کی موٹرسائیکل کو ٹکر کیا لگی، مشتعل ہجوم نے انتقام کی ایسی آگ بھڑکائی جس میں نو گاڑیاں خاکستر ہو گئیں۔ عینی شاہدین کے مطابق ڈمپر کا ڈرائیور محض 17 یا 18 سالہ لڑکا تھا جو ریس لگاتے ہوئے پاور ہاؤس چورنگی کے قریب پہنچا اور اچانک اُس کی بے قابو گاڑی ایک موٹرسائیکل سے ٹکرا گئی، جس پر سوار شخص شدید زخمی ہو گیا۔ آس پاس لوگوں نے ڈرائیور کو پکڑنے کی کوشش کی تو وہ فرار ہونے کی کوشش میں مزید دو موٹرسائیکلوں پر چڑھ دوڑا۔ خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، لیکن علاقے میں اشتعال کی چنگاری بھڑک چکی ہے۔ پھر وہی ہوا جو اکثر غصے میں اندھے ہجوم کرتے ہیں، ڈمپروں اور واٹر ٹینکروں کو گھیر کر اُن پر پٹرول چھڑکا گیا اور پھر شعلوں نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پانچ ڈمپر اور چار واٹر ٹینکر آگ کی نذر ہوگئے۔ پولیس کے مطابق یہ پرتشدد کارروائیاں صرف پاور ہاؤس چورنگی تک محدود نہ رہیں۔ فور کے چورنگی اور سرجانی کے بابا موڑ پر بھی واٹر ٹینکروں کو نذر آتش کیا گیا۔ صورتحال اتنی خراب ہو چکی تھی کہ پورے علاقے میں رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی۔ فائر بریگیڈ کی ٹیمیں بروقت پہنچیں اور کئی گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد آگ پر قابو پایا گیا۔ ڈمپر ایسوسی ایشن کے رہنما لیاقت محسود میڈیا کے سامنے آئے اور اپنی فریاد پیش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ “میری 11 گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا اگر واقعی کوئی زخمی ہوا ہے تو اُسے سامنے لایا جائے، ہماری گاڑیوں کو جلانے والے کہاں سے آئے؟ حکومت ہمیں تحفظ دینے میں ناکام کیوں ہوئی؟” پاور ہاؤس چورنگی کا معاملہ ابھی تھما نہیں تھا کہ سپر ہائی وے پر ڈمپر ڈرائیوروں نے احتجاج شروع کر دیا۔ لدھا ہوا کچرا سڑک پر گرا کر ٹریفک کا نظام درہم برہم کر دیا گیا۔ سہراب گوٹھ کے آس پاس کئی گھنٹوں تک گاڑیاں رینگتی رہیں اور عوام کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ادھر پولیس نے بھی حرکت میں آتے ہوئے رات گئے علاقے میں کریک ڈاؤن شروع کیا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج اور موبائل ویڈیوز کی مدد سے مشتبہ افراد کی شناخت کی جا رہی ہے۔ کئی افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے اور پولیس کا کہنا ہے جبکہ حالات پر مکمل کنٹرول ہے۔ ایس ایس پی سینٹرل نے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ “ہم نے پاور ہاؤس کی تمام سڑکیں کھول دی ہیں، امن و امان کو خراب کرنے والے عناصر کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی جائے گی۔” یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب کراچی میں ہیوی گاڑیوں کی غفلت سے ہونے والے حادثات روز کا معمول بنتے جا رہے ہیں۔ صرف گزشتہ 99 دنوں میں 78 افراد ان گاڑیوں کی زد میں آ کر زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ رواں سال کے آغاز سے اب تک ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 256 ہو چکی ہے۔
21 سال بعد منافع: کیا پی آئی اے اپنے سنہری دور میں جا سکتی ہے؟

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) نے مالی سال 2024 کے سالانہ نتائج جاری کر دیے ہیں، جنہیں پی آئی اے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے باقاعدہ منظوری دے دی ہے۔ ان نتائج کے مطابق، قومی ایئرلائن نے 21 سال کے طویل وقفے کے بعد خالص منافع حاصل کیا ہے، جو ادارے کے لیے ایک تاریخی اور حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔ رپورٹ کے مطابق پی آئی اے نے رواں سال 3.9 ارب روپے کا آپریشنل منافع حاصل کیا، جبکہ خالص یا نیٹ منافع 2.26 ارب روپے رہا۔ مالی کارکردگی کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی آئی اے کا آپریٹنگ مارجن 12 فیصد سے تجاوز کر گیا، جو کہ عالمی سطح پر بہترین سمجھی جانے والی ایئرلائنز کی کارکردگی کے ہم پلہ ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پی آئی اے نے آخری مرتبہ منافع سال 2003 میں حاصل کیا تھا، جس کے بعد تقریباً دو دہائیوں تک ادارہ مسلسل خسارے کا شکار رہا۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے حکومت پاکستان کی سرپرستی میں پی آئی اے میں متعدد جامع اصلاحات متعارف کروائی گئیں۔ ان اصلاحات کے تحت پی آئی اے کی افرادی قوت اور غیر ضروری اخراجات میں واضح کمی کی گئی، منافع بخش روٹس کو مستحکم کیا گیا، نقصان دہ روٹس بند کر دیے گئے، اور ادارے کی بیلنس شیٹ کو ریسٹرکچر کیا گیا۔ ان اقدامات کا مقصد ادارے کو مالیاتی طور پر مستحکم بنانا اور اسے دوبارہ خود انحصار ادارہ بنانا تھا۔ پی آئی اے کے دوبارہ منافع بخش ادارہ بننے سے نہ صرف اس کی ساکھ میں نمایاں بہتری آئے گی بلکہ یہ ملک کی معیشت کے لیے بھی ایک مثبت اشارہ ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس کامیابی کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کی یہ اعلیٰ مالیاتی کارکردگی نجکاری کے عمل میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پی آئی اے کو ایک جدید، منافع بخش اور عالمی معیار کی ایئرلائن بنانے کے عزم پر قائم ہے، اور یہ حالیہ نتائج اس عزم کی عملی مثال ہیں۔
آئین میں مسلسل تبدیلیاں: کب آئین کو مستقل تسلیم کیا جائے گا؟

پاکستان کے آئین میں مسلسل تبدیلیاں ایک حقیقت بن چکی ہیں۔ پاکستان کے جمہوری سفر کی بنیاد سمجھے جانے والے 1973 کے آئین نے ملک کو ایک واضح قانونی اور سیاسی فریم ورک فراہم کیا۔ لیکن اس میں بار بار کی جانے والی ترامیم نے اس کی پائیداری پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ پاکستان کے آئین میں پہلی بڑی تبدیلی 1977 میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران ہوئی، جب 1973 کے آئین کو معطل کر دیا گیا۔ اس کے بعد 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے ایک نیا آئینی فریم ورک متعارف کرایا گیا۔ ضیاء الحق کی حکومت کے بعد، 1990 کی دہائی میں خصوصاً پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے دوران کئی بار آئین میں ترمیم کی گئی۔ ان تبدیلیوں کا مقصد حکومتی استحکام کو برقرار رکھنا اور مختلف سیاسی بحرانوں سے نمٹنا تھا۔ آئین میں ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات پاکستان کی سیاست پر نمایاں رہے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئین میں بار بار تبدیلیاں ملک کی جمہوریت کی پختگی کی طرف نہیں بلکہ اس کی کمزوری کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہر قانون ایڈووکیٹ شیر جنگ خان کا کہنا تھا کہ “پاکستان میں آئین میں بار بار کی جانے والی تبدیلیوں کا ملک کی سیاسی استحکام پر گہرا اثر پڑا ہے۔ آئین کی مستقل مزاجی کسی بھی ریاستی نظام کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اگر اس میں بار بار ترامیم کی جائیں تو اداروں کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف عوام اعتماد کی کمی کا شکار ہوتی ہے بلکہ سیاسی کشمکش میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔” پاکستان میں آئینی ترامیم کا عمل سیاسی جماعتوں کے مفادات کے تابع رہا ہے۔ کبھی پیپلز پارٹی نے اپنے سیاسی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترامیم کیں، تو کبھی مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے اسی طرح کی سیاست کی۔ اس کے باوجود، عوام میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آئین میں کی جانے والی یہ ترامیم کیا واقعی ملک کے مفاد میں ہوتی ہیں؟ یا پھر یہ سیاسی جماعتوں کے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہیں؟ ماہر قانون ایڈووکیٹ شیر جنگ خان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ “پاکستان میں آئینی ترامیم وقتی سیاسی مفادات کے لیے کی جاتی ہے اور یہ عمل ملک میں جمہوریت کی کمزوری ظاہر کرتا ہے۔ اگر ترامیم عوامی فلاح کے لیے کی جائیں تو یہ جمہوریت کو مضبوط کرتی ہیں۔ لیکن ذاتی یا کسی خاص جماعت کے مفاد پر مبنی ترامیم ملکی اور جمہوری اقدار کو نقصان پہنچاتی ہیں۔” پاکستان میں آئینی ترامیم کے معاملے میں عدلیہ کا کردار بھی اہم رہا ہے۔ 1990 کی دہائی میں جب آئین میں کچھ ترامیم کی گئیں تو ان ترامیم کو عدلیہ نے چیلنج کیا تھا اور کئی بار عدالتوں نے ان ترامیم کو غیر آئینی قرار دیا۔ اس کے بعد 2000 کی دہائی میں جب جنرل پرویز مشرف نے آئین میں ترامیم کیں تو اس کا بھی عدلیہ پر گہرا اثر پڑا۔ ماہر قانون ایڈووکیٹ شیر جنگ خان نے اس معاملے پر کہا کہ “عدلیہ کا آئینی ترامیم پر نظرثانی کا اختیار جمہوری عمل کی بقاء کے لیے ناگزیر ہے۔ جب عدلیہ غیر جانبدارانہ انداز میں ترامیم کا جائزہ لیتی ہے تو یہ آئینی اقدار اور بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے۔ تاہم عدالتی مداخلت اگر سیاسی رنگ اختیار کرے تو یہ خود جمہوریت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔” پاکستان کے عوام ہمیشہ آئین میں ہونے والی تبدیلیوں کو بہت غور سے دیکھتے ہیں۔ جب بھی آئین میں کوئی بڑی ترمیم کی جاتی ہے، تو اس پر مختلف رائے سامنے آتی ہے۔ کچھ لوگ اسے حکومت کی طاقت کو مستحکم کرنے کی کوشش سمجھتے ہیں، جبکہ کچھ اسے جمہوریت کو مضبوط کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ماہر قانون ایڈووکیٹ شیر جنگ خان کا کہنا ہے کہ “پاکستان میں زیادہ تر آئینی ترامیم مخصوص سیاسی حالات اور سیاسی جماعتوں کے مفادات کے لیے کی گئی ہیں۔ عوامی مفاد کے نام پر ترامیم کی جاتی ہیں لیکن اصل مقصد اکثر اقتدار کو مضبوط بنانا ہوتا ہے۔ آئین کی روح کے مطابق ترامیم کا مقصد صرف اور صرف عوامی فلاح ہونا چاہیے جس کا پاکستان میں شدت سے فقدان نظر آتا ہے۔” پاکستان میں آئین کی مستقل حیثیت کو ہمیشہ ایک سوالیہ نشان کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ کئی بار آئین کو معطل کیا گیا، اور اس کی جگہ عارضی آئین یا مارشل لاء نافذ کیا گیا۔ 1973 کے آئین کو ایک مستحکم اور مستقل آئین کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا، مگر بار بار اس میں تبدیلیاں کی گئیں۔ ایڈوکیٹ لاہور ہائیکورٹ جعفر جمال نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ “پاکستان میں مستقل اور مستحکم آئین کے حصول کے لیے ہمیں سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اتفاق رائے نہ صرف آئین میں کی جانے والی ترامیم کے حوالے سے ہونا چاہیے، بلکہ اس کے نفاذ کے عمل میں بھی ضروری ہے۔ آئین کی مستقل حیثیت کے حصول کے لیے تمام اداروں کو آئین کی بالا دستی کو تسلیم کرنا ہوگا۔” آئینی ترامیم کے عمل میں عوامی رائے کو کتنا اہمیت دی جانی چاہیے؟ کیا آئین میں تبدیلیاں عوام کی خواہشات کے مطابق کی جانی چاہئیں یا سیاسی جماعتوں کے مفاد کے مطابق ہونی چاہیے؟ ان سوالات ک جواب میں ماہر قانون ایڈووکیٹ جعفر جمال نے کہا کہ “ملک میں آئینی ترامیم کے عمل میں عوامی رائے کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ عوامی حمایت اور مشاورت کے بغیر کی جانے والی ترامیم جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ عوامی رائے کے مطابق آئین میں تبدیلیاں کرنے سے جمہوریت کا استحکام ممکن ہو سکتا ہے۔” پاکستان میں آئینی ترامیم ملکی ترقی پر بھی کسی حد تک اثر ڈالتی ہیں۔ آئین میں کی جانے والی تبدیلیاں اقتصادی ترقی کے لیے معاون ثابت ہو سکتی ہیں اور نقصان دہ بھی۔ ایڈووکیٹ جمال جعفر کے مطابق “آئینی ترامیم کا اثر ملک کی ترقی پر مختلف طریقوں سے پڑتا ہے۔ اگر یہ ترامیم حکومتی اداروں کے درمیان طاقت کی تقسیم کو
آئی سی سی پلیئر آف دی منتھ کی نامزدگیوں کا اعلان، کون کون شامل ہیں؟

مارچ 2025 کے لیے آئی سی سی مینز پلیئر آف دی منتھ ایوارڈ کی نامزدگیاں سامنے آ گئیں، آئی سی سی کی جانب سے تین کرکٹرز کو اس ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا ہے، جن میں انڈیا کے شریاس ائیر، نیوزی لینڈ کے راچن رویندرا اور فاسٹ بولر جیکب ڈفی شامل ہیں۔ انڈین ٹیم کے شریاس ائیر، جنہوں نے حالیہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 میں انڈیا کو تاریخی فتح دلائی تھی اور اب اس ایوارڈ کے لیے مضبوط امیدوار ہیں۔ ان کی شاندار بیٹنگ نے نہ صرف انڈیا کی جیت کو یقینی بنایا تھا بلکہ کرکٹ شائقین کو بھی دنگ کر دیا۔ مزید پڑھیں: ویراٹ کوہلی نے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں 13 ہزار رنز مکمل کر لیے دوسری جانب نیوزی لینڈ کے راچن رویندرا نے آل راؤنڈ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چیمپئنز ٹرافی 2025 میں شاندار کھیل پیش کیا، جس نے ان کو عالمی سطح پر ایک نئی پہچان دی۔ اس کے علاوہ نیوزی لینڈ کے فاسٹ بولر جیکب ڈفی بھی اس ایوارڈ کے لیے نامزد ہیں اور ان کی پاکستان کے خلاف حالیہ ہوم وائٹ بال سیریز میں شاندار بولنگ نے ہر کسی کو حیران کن کارکردگی دیکھنے پر مجبور کر دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس سنسنی خیز مقابلے میں کون سا کرکٹر اس ایوارڈ کا حقدار ٹھہرتا ہے؟
عالمی برادری غزہ میں ’انسانی توہین‘ پرسخت ردِعمل دے، اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اسے دنیا کی نظر سے الگ مسئلہ قرار دیا ہے۔ ایک ماہ سے زائد عرصے سے اسرائیل کی جانب سے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کے بعد وہاں کوئی خوراک، ایندھن یا دوا نہیں پہنچ رہی۔ گوتریس نے اس صورتحال کو نہ صرف انسانیت کی توہین قرار دیا ہے بلکہ اس بات پر بھی زور دیا کہ اسرائیل اپنے عالمی قانونی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اسرائیلی افواج کی جانب سے مسلسل فضائی حملے اور بمباری نے غزہ کو ایک “قتل گاہ” بنا دیا ہے۔ گوتریس نے کہا ہے کہ “جب ایک طاقت کسی علاقے پر قبضہ کرتی ہے تو اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مقبوضہ علاقے کے لوگوں کو کھانا، دوا اور دیگر بنیادی سہولتیں فراہم کرے”۔ انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ اسرائیل کی جانب سے اس انسانی توہین پر سخت ردعمل ظاہر کرے۔ اس کے علاوہ گوتریس نے اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں امدادی کارکنوں کی شہادت پر بھی شدید مذمت کی اور ان واقعات کی آزادانہ تحقیقات کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اقوام متحدہ کے عملے کے افراد سمیت کئی انسانی امدادی کارکن مارے گئے ہیں۔ گوتریس نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانیت کی مدد کرنے والے افراد بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اس دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ سے فلسطینیوں کو زبردستی نکالنے کے منصوبے کے بارے میں پوچھے جانے پر گوتریس نے سخت ردعمل ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا منصوبہ عالمی قانون کی خلاف ورزی ہے اور اس کی حمایت کسی بھی صورت میں نہیں کی جا سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کا حق ہے کہ وہ اپنے وطن میں رہیں اور اسرائیل کے ساتھ امن وآشتی کے ساتھ زندگی گزاریں۔ مزید پڑھیں: امریکی ٹیرفز، 37 فیصد ٹیکس کے بعد بنگلہ دیش کی گارمنٹس انڈسٹری بھی مشکلات کا شکار اسی دوران اسرائیلی افواج نے غزہ میں مسلسل فضائی حملے جاری رکھے جس سے 26 فلسطینی شہید ہوگئے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم “ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز” نے غزہ میں اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔ تنظیم نے کہا کہ غزہ میں ان کے ہسپتالوں اورکلینکس کے قریب بمباری کی جا رہی ہے جو کہ ایک سنگین انسانی بحران کو جنم دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ یمن میں امریکی فوج کی بمباری بھی جاری ہے جس کے نتیجے میں کم از کم چھ افراد مارے گئے ہیں، جب کہ اسرائیلی فضائی حملوں نے لبنان کے علاقے بقاع اور بعلبک کو نشانہ بنایا۔ ان تمام واقعات نے عالمی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ایک نیا باب کھول دیا ہے۔
ایران اور امریکا میں ’مذاکرات‘ کے دروازے کھلنے کا امکان

ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اعلان کیا ہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان جوہری معاہدہ ایک نئی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے بشرطیکہ امریکا اپنی پوزیشن میں نرمی لائے اور سنجیدہ مذاکرات کا حصہ بنے۔ یہ بیان انہوں نے اس وقت دیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کو اپنے دباؤ میں لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ امریکا اور ایران کے درمیان عمان میں ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔ عراقچی نے کہا کہ “اگر امریکا نے اچھے ارادے کے ساتھ بات چیت کی تو ہم معاہدہ کر سکتے ہیں لیکن یہ بات چیت صرف اس صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے جب امریکا اپنی پالیسی میں تبدیلی لائے اور ایران پر عائد سخت پابندیاں ختم کرے‘‘۔ امریکا نے 2018 میں ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کو ختم کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں ایرانی معیشت کو شدید نقصان پہنچا اور ایران نے جوہری پروگرام میں تیزی سے پیشرفت شروع کر دی۔ لیکن اب پانچ سال بعد موقع آیا ہے جس میں امریکا نے ایران کے ساتھ براہ راست بات چیت کی تجویز دی ہے حالانکہ ایران اس صورت میں بات چیت کو بے معنی سمجھتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہاہے کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کا ایک نیا دروازہ کھل سکتا ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے ایران کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ “اگر بات چیت کامیاب نہیں ہوئی تو ایران کو خطرہ ہو گا اور میں یہ نہیں چاہتا، مگر اگر معاہدہ نہ ہوا تو بمباری ہو سکتی ہے۔” ٹرمپ کے اس بیان کے بعد عالمی سطح پر ایک ہلچل مچ گئی ہے اور ایران نے اس دھمکی کو سختی سے رد کیا۔ روس اور چین نے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے مشاورت کا آغاز کیا ہے اور دونوں ممالک نے اس بات کا خیرمقدم کیا کہ ایران اور امریکا کے درمیان دوبارہ مذاکرات ہونے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ روسی حکومت نے اس بات کا عندیہ دیا کہ یہ مذاکرات ایران کے جوہری مسئلے پر کشیدگی کم کرنے کی سمت میں اہم قدم ہو سکتے ہیں۔ چین نے بھی امریکا پر تنقید کی ہے کہ “امریکا کو اپنے غلط اقدامات کو ترک کر دینا چاہیے اور طاقت کا استعمال ختم کر دینا چاہیے۔” چین کے وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکا کو ایران کے ساتھ مذاکرے میں سنجیدہ ہونا چاہیے اور ایران کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ایک پائیدار حل تک پہنچنا چاہیے۔ اس صورتحال میں ایران کی نظر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکا اپنی پابندیاں ختم کرے اور ایران کے جوہری حقوق کا احترام کرے۔ عراقچی نے یہ واضح کیا کہ “ہم براہ راست مذاکرات کو قبول نہیں کرتے اور ہمارے لیے یہ زیادہ اہم نہیں کہ مذاکرات کا طریقہ کیا ہے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ان مذاکرات سے کیا نتائج نکلتے ہیں۔” اب سوال یہ ہے کہ کیا امریکا اور ایران اپنے اختلافات کو حل کر پائیں گے یا عالمی برادری کو ایک اور جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا؟