” سندھ میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں” حافظ نعیم الرحمان

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے سندھ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہاں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں، کراچی لاوارث ہو چکا ہے،عوام نے جن لوگوں کو مسترد کیا تھا، انہیں اسٹیبلشمنٹ نے فارم 47 کے ذریعے مسلط کر دیا ہے۔ حافظ نعیم الرحمن نے ملیر ہالٹ پر ٹینکر کی ٹکر سے جاں بحق ہونے والی فیملی کے اہل خانہ سے ملاقات کی اور ان سے تعزیت کا اظہار کیا،جس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ملیر ہالٹ کا اندوہناک واقعہ پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دینے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کو پورے پاکستان میں امتیازی حیثیت حاصل ہے، لیکن شہریوں کو بنیادی حقوق تک نہیں دیے جاتے۔ انہوں نے کراچی میں مافیاز کے راج کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ روزانہ ٹینکر، ٹرالے اور ڈمپر دندناتے پھرتے ہیں، جبکہ حکومت بے بس نظر آتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حادثات دنیا بھر میں ہوتے ہیں، لیکن کراچی وہ بدقسمت شہر ہے جہاں شہری جاں بحق ہو جائیں تو انصاف نہیں ملتا اور مافیاز حکومتی نمائندوں کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ کراچی میں ترقیاتی منصوبے انتہائی سست روی کا شکار ہیں۔ دیگر شہروں میں نو ماہ میں مکمل ہونے والے منصوبے کراچی میں کئی سالوں سے تعطل کا شکار ہیں۔ انہوں نے مثال دی کہ گرین لائن کو آٹھ سال، جبکہ ریڈ لائن کو چار سال ہو چکے، لیکن ابھی تک یہ منصوبے مکمل نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں ساڑھے تین ہزار ٹینکر، ڈمپر اور ٹرالر کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ دن دہاڑے سڑکوں پر دندناتے پھریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹینکر اور ڈمپر مالکان کو معلوم ہے کہ واقعے کے بعد ان سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی، اس لیے وہ بلا خوف و خطر اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔ انہوں نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ سی ایم ہاؤس اور گورنر ہاؤس مافیاز کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ملیر ہالٹ کے حادثے کے متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم کیا جائے اور ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا کہ کراچی کے عوام کو مافیاز کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ 5 اپریل کو آئی جی آفس کا گھیراؤ کیا جائے گا اور پورا پاکستان اس احتجاج کی حمایت کرے گا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر یہ ٹینکر پانی کی فراہمی کے لیے ہیں تو پیپلز پارٹی کو جواب دینا ہوگا کہ وہ 17 سال سے کیا کر رہی ہے؟ حافظ نعیم الرحمن نے مزید اعلان کیا کہ 27 اپریل کو شاہراہِ فیصل پر عظیم الشان اور تاریخی حقوق ملین مارچ ہوگا، جس میں عوام کے اربوں روپے کے ٹیکس ان مافیاز سے چھین کر عوام پر خرچ کرنے اور ظالموں کے خلاف مزاحمت جاری رکھنے کا عزم کیا جائے گا۔ اس موقع پر امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان، سیکریٹری کراچی توفیق الدین صدیقی، اور امیر ضلع ائیرپورٹ محمد اشرف بھی موجود تھے۔
پیکا ایکٹ کے اثرات اور صحافت کا مستقبل: ’گلا دبانے سے آواز نہیں دبے گی‘

پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے بڑھتے ہوئے اثرات نے جہاں معلومات کی رسائی کو آسان بنایا، وہیں حکومت کو سائبر کرائمز اور جعلی خبروں کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ان ہی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے 2016 میں پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) متعارف کرایا گیا۔ اس قانون کا مقصد آن لائن جرائم، سائبر ہراسمنٹ، نفرت انگیز مواد اور غلط معلومات کی روک تھام تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کا استعمال ایک متنازع معاملہ بن گیا، خصوصاً صحافیوں اور حکومت پر تنقید کرنے والے افراد کے خلاف۔ 2025 میں حکومتِ پاکستان نے پیکا ایکٹ میں مزید سخت ترامیم متعارف کروائیں، جن کا مقصد ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر غلط معلومات، نفرت انگیز بیانات اور ریاستی اداروں کے خلاف پروپیگنڈا روکنا تھا۔ ان ترامیم کے مطابق تمام ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو پاکستان میں رجسٹر ہونا لازمی قرار دیا گیا اور انہیں حکومت کے وضع کردہ ضوابط پر عمل درآمد کرنے کی ہدایت دی گئی۔ مزید یہ کہ غلط معلومات پھیلانے پر تین سال تک قید یا 20 لاکھ روپے تک جرمانہ، یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو ختم کر کے ایک نئی ایجنسی قائم کی گئی جو ڈیجیٹل جرائم کی تحقیقات کرے گی۔ کسی بھی صحافی، یوٹیوبر یا سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کی طرف سے ریاستی اداروں، عدلیہ یا حکومت کے خلاف “جھوٹی خبریں” چلانے پر فوری کارروائی اور گرفتاری ممکن ہوگی۔ ان ترامیم کے بعد سے صحافتی تنظیموں اور انسانی حقوق کے اداروں نے سخت تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ ان قوانین کا مقصد سوشل میڈیا پر آزادیٔ اظہار کو دبانا اور صحافیوں کو ہراساں کرنا ہے۔ حالیہ دنوں میں متعدد صحافیوں کی پیکا ایکٹ کے تحت گرفتاریاں ہوئیں، جس کی وجہ سے آزادی اظہار اور صحافت کی آزادی پر کئی سوالات اٹھے ہیں۔ 20 مارچ کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم سرکل نے کراچی میں سینئر صحافی اور یوٹیوب چینل “رفتار” کے بانی فرحان ملک کو گرفتار کیا۔ ان پر ریاست مخالف پروپیگنڈا اور پیکا ایکٹ کی نئی دفعات کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا۔ 26 مارچ 2025 کو ایف آئی اے نے صحافی وحید مراد کو پیکا ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا۔ ایف آئی اے نے عدالت سے 10 روزہ جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی، تاہم عدالت نے دو روزہ ریمانڈ منظور کرتے ہوئے وحید مراد کو ایف آئی اے کی تحویل میں دے دیا۔ ایف آئی اے کے مطابق وحید مراد کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے حوالے سے تفتیش کرنی ہے اور ان پر الزام ہے کہ انہوں نے بلوچستان کے حوالے سے کالعدم تنظیم کی پوسٹ شیئر کی تھی۔ ۔پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اے پی این ایس کے عہدیدار نوید چوہدری کا کہنا تھا کہ حلال روزی کمانے والے صحافی فیک نیوز کے سب سے بڑے مخالف ہیں۔ ان کے مطابق فیک نیوز صحافت کا قتل ہےاور اگر بیرون ملک بیٹھے کسی شخص کے ذریعے کوئی چیز ریاستی اداروں اور قومی مفادات کے خلاف چلائی جائے تو یہ شر انگیزی اور ‘ڈیجیٹل دہشت گردی’ کے مترادف ہے۔ نوید چودھری نے کہا کہ میں پوری ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں کہ جن کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے ان کے مشکوک رابطے تھے۔ اگر کسی کو محض خبر شائع کرنے پر گرفتار کیا جا رہا ہے تو یہ غلط ہے، لیکن خبر کے نام پر ٹرولنگ کرنا بھی درست نہیں۔ غلط خبر کے نام پر ‘ٹرولنگ’ کی جا رہی ہے تو یہ صحافت نہیں ہے۔ ممبر لاہور پریس کلب مدثر شیخ کا پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتےہوئے کہنا تھا کہ صحافیوں کا یوں گرفتار ہونا انتہائی تشویشناک ہے۔ ایک صحافی کو اس لیے اغوا کیا گیا کہ اس نے ایک صوبے کے سابق وزیراعلیٰ کے الفاظ کو ہوبہو نقل کر کے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پبلش کیا۔ جب شور مچا پھر اسے عدالت میں پیش کیا گیا اور یہ صرف اتنا نہیں بلکہ ایک شخص کو راولپنڈی میں اس لیے گرفتار کیا گیا کہ اس نے ٹریفک وارڈن کی زیادتی کی ویڈیوبنا کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی۔ مدثر شیخ نے مزید کہا کہ پاکستان میں ایسے وزرا رہے ہیں جنہوں نے حکومتی اداروں پر کھلی تنقید کی لیکن ان پر کوئی کیس نہیں بنایا گیا، جب کہ جب ایک صحافی نے کسی کی بات نقل کی تو اسے گرفتار کر لیا گیا۔ صحافیوں کے گلا دبانے سے آواز دب نہیں جائے گی ۔ مسائل کا حل ڈھونڈنا ہوگا۔ صدر پریس کلب کراچی فاضل جمیلی کا اس سوال کے جوا ب میں کہ ایک صحافی جب کوئی ٹویٹ شیئر، ریپوسٹ اور ویڈیو بنانے پر دھڑ لیا جائے تو وہ کیا کرے کہنا تھا کہ جب صدر زرداری نے اس پیکا امنڈمنٹ پر جلدبازی میں سائن کیے تھے ہم نے اسی وقت کہا تھا کہ یہ کالا قانون ہے اورانتہائی تشویشانک ہے اور اس سے نہ صرف صحافت بلکہ آزادی اظہار، سماجی اظہار پر بھی اثر ہوگا۔ پیکا ایکٹ اور اس میں کی گئی ترامیم نے پاکستانی صحافت کو ایک نازک موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ حکومت کے مطابق ان قوانین کا مقصد جعلی خبروں اور ریاست مخالف پروپیگنڈے کو روکنا ہے، لیکن صحافتی حلقوں کا ماننا ہے کہ اس کا استعمال آزادی اظہارِ رائے کو دبانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
پٹرول کی نئی قیمتوں کا اعلان، کیا ردوبدل ہوا؟

پاکستان میں آئندہ 15 اپریل تک کیلئے پیٹرول کی قیمت میں کمی کردی گئی ہے۔ وفاقی وزارت خزانہ نے نوٹفیکشن جاری کردیا ہے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں ایک روپے فی لیٹر کمی کی گئی ہے جس کے بعد نئی قیمت 254 روپے 63 پیسے فی لیٹر ہوگی۔ مزید پڑھیں: ’ترقی ہوتی تو حالات ایسے نہ ہوتے‘ بلوچستان سونے کی چڑیا یا دہکتا انگارہ؟ ڈیزل کی قیمت برقرار رکھی گئی ہے اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی فی لیٹر قیمت 258.64 پر برقرار رہے گی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں کمی کا طلاق آج رات 12 بجے سے ہوگا۔ واضح رہے کہ ہرماہ کی یکم اور 16 تاریخ کو تیل کی نئی قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے۔
تھائی لینڈ میں بھی تباہی: زلزلے کیوں آتے ہیں؟

دنیا بھر میں زلزلے ایک قدرتی آفت کے طور پر بے شمار جانوں کے نقصان کا باعث بن چکے ہیں۔ حالیہ تحقیق کے مطابق، زلزلے زمین کی اندرونی پرتوں میں ہونے والی حرکات کے نتیجے میں آتے ہیں، آج میانمارمیں زلزلے کے زور دار جھٹکےمحسوس کئے گئےہیں، ریکٹر اسکیل پر زلزلےکی شدت 7.7 ریکارڈ کی گئی۔ ماہرین کے مطابق، زمین کی تہہ تین بڑی پلیٹوں پر مشتمل ہے، جن میں یوریشین، انڈین اور اریبین پلیٹیں شامل ہیں۔ زیر زمین حرارت اور دباؤ کے بڑھنے سے یہ پلیٹس سرکتی ہیں، جس کے نتیجے میں زمین میں لرزش پیدا ہوتی ہے، اور یہی لرزش زلزلہ کہلاتی ہے۔ زلزلے کی لہریں دائرے کی شکل میں چاروں طرف پھیلتی ہیں، جس کی شدت زمین کی ساخت اور فالٹ لائنز کے قریب ہونے پر منحصر ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ علاقے جو ان پلیٹوں کے سنگم پر واقع ہیں، وہ زلزلوں اور آتش فشانی سرگرمیوں کے حوالے سے زیادہ خطرناک ہیں۔ اگر کسی علاقے میں ایک مرتبہ شدید زلزلہ آ چکا ہو تو وہاں دوبارہ بڑے زلزلے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ پاکستان کی جغرافیائی ساخت کو دیکھا جائے تو ملک کا تقریباً دو تہائی حصہ فالٹ لائنز پر واقع ہے، جس کے باعث کسی بھی وقت شدید زلزلے کا خطرہ رہتا ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جو زلزلوں کے لحاظ سے انتہائی حساس ہیں، درجہ بندی کے مطابق، پاکستان زلزلے کے خطرے کے حوالے سے پانچواں حساس ترین ملک ہے۔ ملک کے اہم شہر اور علاقے، جن میں کراچی، اسلام آباد، کوئٹہ، پشاور، مکران، ایبٹ آباد، گلگت اور چترال شامل ہیں، زلزلوں کی زد میں آتے ہیں۔ ان میں سے کشمیر اور گلگت بلتستان کو سب سے زیادہ خطرناک قرار دیا جاتا ہے، جہاں فالٹ لائنز زیادہ متحرک ہیں۔ پاکستان انڈین پلیٹ کی شمالی سرحد پر واقع ہے، جہاں یہ یوریشین پلیٹ سے ملتی ہے۔ ماہرین کے مطابق، لاکھوں سال سے جاری اس جغرافیائی تبدیلی کے باعث انڈین پلیٹ مسلسل یوریشین پلیٹ کے نیچے دھنس رہی ہے، جس کی وجہ سے وقتاً فوقتاً زلزلے آتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے زیرِ زمین فالٹ لائنز متحرک ہیں اور یہاں معمولی یا درمیانے درجے کے زلزلے وقفے وقفے سے محسوس کیے جاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زلزلوں سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کے لیے پیشگی حفاظتی اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے زلزلوں کی پیشگوئی ممکن نہیں، لیکن بہتر انفراسٹرکچر، مضبوط عمارتوں کی تعمیر اور عوامی آگاہی کے ذریعے نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ زلزلے کے خطرے والے علاقوں میں مضبوط عمارتوں کی تعمیر کو یقینی بنائے اور عوام کو ایمرجنسی صورتحال میں عمل کرنے کے بارے میں مکمل آگاہی فراہم کرے۔
پاکستان نے چین کا ایک ارب ڈالر قرض واپس کر دیا

پاکستان نے چین کے بینک (ICBC) کو ایک ارب ڈالر کا قرض واپس کر دیا ہے، جس کی وجہ سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 10.6 بلین ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ حکومت امید کر رہی ہے کہ چین اس قرض کو دوبارہ فنانس کرے گا، لیکن ابھی تک شرح سود طے نہیں ہوئی۔ پاکستان نے یہ قرض دو قسطوں میں ادا کیا۔ پہلی قسط مارچ کے شروع میں اور دوسری قسط مارچ کے تیسرے ہفتے میں دی گئی۔ مزید 2.7 بلین ڈالر کے چینی قرضے اپریل سے جون 2024 کے درمیان واپس کرنے ہیں، جن میں 2.1 بلین ڈالر کے تین مختلف چینی کمرشل بینکوں کے قرض شامل ہیں۔ مرکزی بینک کے ذخائر میں کمی کے بعد حکومت نے مارکیٹ سے ڈالر خریدے اور کچھ غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے اس کمی کو پورا کیا۔ اس سے قبل مرکزی بینک کے گورنر نے کہا تھا کہ 2024 میں زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے کے لیے 9 بلین ڈالر خریدے گئے تھے، ورنہ ذخائر دو بلین ڈالر سے بھی کم ہو سکتے تھے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اس ہفتے معاہدہ طے پایا ہے، جس کے تحت پاکستان کو ایک بلین ڈالر کی قسط مل سکتی ہے، لیکن اس کی منظوری مئی یا جون میں متوقع ہے۔ اگر یہ اجلاس جون میں ہوا تو آئی ایم ایف پہلے مالی سال 2025-26 کے بجٹ کا جائزہ لینا چاہے گا۔ پاکستان نے چین سے 3.4 بلین ڈالر کے قرض کو دو سال کے لیے مؤخر کرنے کی درخواست بھی کر رکھی ہے تاکہ مالیاتی فرق کو پورا کیا جا سکے، لیکن ابھی تک اس پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ وزارت خزانہ کو آئی ایم ایف پروگرام کے تین سالہ عرصے کے دوران 5 بلین ڈالر کے بیرونی فنانسنگ ذرائع تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کا بیرونی شعبہ کچھ حد تک مستحکم ہوا ہے، لیکن اس میں اب بھی کمزوریاں موجود ہیں۔ ان مسائل کو سخت مالیاتی پالیسیوں اور شرح مبادلہ میں لچک کے ذریعے دور کیا جا سکتا ہے۔ پاکستانی روپے کی قدر حالیہ دنوں میں کم ہوئی ہے، اور ڈالر کے مقابلے میں 280.2 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ حکومت جائیداد، مشروبات اور تمباکو پر مزید ٹیکس عائد کرے تاکہ سرمایہ کاری کو پیداواری شعبے کی طرف منتقل کیا جا سکے۔ پاکستان ابھی بھی نئے غیر ملکی قرضوں اور پرانے قرضوں کی ری فنانسنگ پر انحصار کر رہا ہے۔ اگر حکومت بروقت مالی مدد حاصل نہ کر سکی تو زرمبادلہ کے ذخائر مزید کم ہو سکتے ہیں، جس سے معیشت کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ٍسائبر کرائم مقدمے میں گرفتار پاکستانی صحافی وحید مراد رہا ہوگئے

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے اردو نیوز کے صحافی وحید مراد کی درخواستِ ضمانت منظور کی، جس کے بعد وہ رہا کردیے گئے۔ وہ سائبر کرائم ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں گرفتار تھے اور دو روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر جمعے کو عدالت میں پیش کیے گئے۔ ایف آئی اے حکام نے انہیں جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ کی عدالت میں پیش کیا، جہاں سماعت کے بعد عدالت نے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیا۔ تاہم، اس فیصلے کے فوراً بعد وحید مراد کے وکلا نے ضمانت کے لیے درخواست دائر کی، جس پر عدالت نے 50 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض ان کی ضمانت بعد از گرفتاری منظور کر لی۔ مزید پڑھیں: صحافی وحید مراد کے خلاف درج ایف آئی آر منظرعام پر، ’جرم‘ کیا ہے؟ سماعت کے دوران عدالت نے ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ اب تک کیا شواہد برآمد کیے گئے ہیں۔ اس پر وکیل ایمان مزاری نے مؤقف اختیار کیا کہ وحید مراد نے محض اختر مینگل کے بیان کو نقل کرتے ہوئے پوسٹ کی تھی۔ وکیل ہادی علی چٹھہ نے بھی وضاحت کی کہ پہلی ٹویٹ اختر مینگل کے بیان پر مبنی تھی۔ ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ اختر مینگل کی اس پوسٹ میں کہا گیا تھا کہ بلوچوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے، جو کہ ایک حساس نوعیت کا بیان تھا۔ تاہم، عدالت نے دونوں جانب کے دلائل سننے کے بعد وحید مراد کی ضمانت منظور کر لی۔ اب قانونی تقاضے مکمل کیے جا رہے ہیں، جس کے بعد ان کی رہائی متوقع ہے۔ یاد رہے منگل اور بدھ کی درمیانی رات اسلام آباد کے سیکٹر جی ایٹ میں ان کے گھر سے کچھ نقاب پوش افراد انہیں اٹھا کر لے گئے۔ بدھ کے دن ایف آئی اے نے انہیں عدالت میں پیش کیا اور ان پر پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ عدالت نے وحید مراد کا دو دن کا جسمانی ریمانڈ منظور کیا اور ایف آئی اے کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد انہیں اسلام آباد کے سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر جی 13 لے جایا گیا۔ ایف آئی آر میں پیکا ایکٹ کے سیکشن 9، 10، 20 اور 26 کا اطلاق کیا گیا ہے۔
’شمالی وزیرستان میں 11 خوارج ہلاک کردیے‘ فوج کا دعویٰ

آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا ہے کہ خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں کارروائیاں کرتے ہوئے 11 خوارج ہلاک کر کیے گئے، جب کہ ان سے اسلحہ اور گولا بارود بھی برآمد کر لیا گیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق سکیورٹی فورسز نے دہشتگردوں کے خلاف جاری آپریشن میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ کے پی کے مختلف علاقوں میں کارروائیاں کرتے ہوئے 11 خوارج ہلاک کیے ہیں، جن سے گولا بارود بھی برآمد کیا گیا ہے۔ شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں سکیورٹی فورسز نے ایک اور کامیاب کارروائی کی، جس میں 5 خوارج جہنم واصل ہوئے۔ میر علی میں ہی دوسری کارروائی کے دوران سکیورٹی فورسز نے 3 مزید دہشتگرد ہلاک کیے۔ میر انشاہ میں بھی جھڑپ کے دوران سکیورٹی فورسز نے 2 دہشتگردوں کو مار ڈالا، جب کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے درابن میں بھی آپریشن کے دوران ایک دہشتگرد ہلاک ہو گیا۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ پاکستان سے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے سکیورٹی فورسز کا عزم پختہ ہے اور آپریشنز جاری ہیں۔
فیصل آباد: ‘سفر کے دوران’ ڈاکوؤں کی خاتون سے اجتماعی زیادتی

مسلح ڈاکوؤں نے موٹر وے کے قریب چنن پل پر میاں بیوی کو روکا، ان سے نقدی اور قیمتی اشیاء چھین لیں اور پھر انہیں اسلحے کے زور پر قریبی کھیتوں میں لے گئے۔ ملزمان نے شوہر کو باندھ کر خاتون کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایااور واردات کے بعد وہ ان کے موبائل فون اور نقدی لے کر فرار ہو گئے۔ بعد ازاں شوہر نے پولیس کو اس المناک واقعے کی اطلاع دی اور تفصیلات فراہم کیں۔ جسے تھانہ ساندل بار میں پولیس نے متاثرہ شہری کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق دو ڈاکوؤں نے موٹروے کے قریب میاں بیوی کو روک پر انہیں لوٹا اورپھر شوہر کو باندھ کر خاتون کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ جس کے بعد ڈاکوفرار ہو گے،پولیس نے شق کی بنیاد پر چھ افراد کو حراست میں لیا ہے، جبکہ مزید کارروائی جا رہی ہے۔
’کمرشل کمپنیوں پرامریکی پابندیاں یکطرفہ اور بِلاجواز ہیں‘ پاکستان

پاکستان نے کمرشل کمپنیوں پر لگائی گئی امریکی پابندیوں پر سخت ردِ عمل دیتے ہُوئے انہیں یکطرفہ اور بلاجواز قرار دیا، ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے کہا ہے کہ پاکستان کی کمرشل کمپنیوں پر لگائی گئی تمام پابندیاں یکطرفہ ہیں اور بغیر کسی ثبوت کے عائد کی گئی ہیں۔ عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کے مطابق امریکی محکمہ تجارت نے پاکستان، چین، متحدہ عرب امارات سمیت آٹھ ممالک کی 70 کمپنیوں پر برآمدی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اس فہرست میں 19 پاکستانی، 42 چینی اور 4 متحدہ عرب امارات کی کمپنیاں شامل ہیں، جبکہ ایران، فرانس، افریقہ، سینیگال اور برطانیہ کی کچھ کمپنیاں بھی اس پابندی کی زد میں آئی ہیں۔ امریکہ نے ان کمپنیوں کو اپنی “اینٹیٹی لسٹ” میں شامل کیا ہے، جو ایسے اداروں اور کمپنیوں پر مشتمل ہوتی ہے جنہیں امریکی قومی سلامتی یا خارجہ پالیسی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ امریکی حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ کمپنیاں امریکہ کے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے مفادات کے منافی کام کر رہی ہیں۔ مزید پڑھیں: ’بلوچ مظاہرین پرامن نہیں‘ پاکستان نے اقوام متحدہ کے بلوچستان سے متعلق بیان کو ‘افسوس ناک’ قرار دے دیا پاکستان نے ان پابندیوں پر سخت ردعمل دیتے ہوئے انہیں یکطرفہ اور بلاجواز قرار دیا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ پاکستان کی کمرشل کمپنیوں پر امریکہ کی جانب سے لگائی گئی پابندیاں یکطرفہ ہیں اور بغیر کسی ثبوت کے عائد کی گئی ہیں۔ یہ پہلی بار نہیں کہ امریکہ نے پاکستان سمیت دیگر ممالک کی کمپنیوں پر قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے کر پابندیاں عائد کی ہوں۔ اپریل 2024 میں بھی امریکہ نے چین کی تین اور بیلاروس کی ایک کمپنی پر پاکستان کے میزائل پروگرام میں معاونت کا الزام لگا کر پابندیاں عائد کی تھیں۔ امریکی اینٹیٹی لسٹ میں شامل پاکستانی کمپنیوں میں الائیڈ بزنس کنسرن پرائیویٹ لمیٹڈ، اریسٹن ٹریڈ لنکس، بریٹلائٹ انجینئرنگ کمپنی، گلوبل ٹریڈرز، انڈنٹیک انٹرنیشنل، انٹرا لنک انکارپوریٹڈ، لنکرز آٹومیش پرائیویٹ لمیٹڈ اور این اے انٹرپرائزز شامل ہیں۔
‘اسرائیل نے طاقت استعمال کی تو قیدی تابوت میں واپس آئیں گے’ حماس

حماس نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے غزہ میں اپنے قیدیوں کی بازیابی کے لیے طاقت کا استعمال کیا تو تمام قیدیوں کو ہلاک کیا جا سکتا ہے۔ حماس کے بیان کے مطابق وہ اسرائیلی قیدیوں کو زندہ رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہے لیکن اسرائیلی بمباری قیدیوں کی زندگیوں کے لیے شدید خطرہ بن چکی ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی ‘اے ایف پی’ کی رپورٹ کے مطابق حماس نے ایک بیان میں کہا کہ “اگر اسرائیل نے طاقت کے ذریعے اپنے قیدیوں کو بازیاب کرانے کی کوشش کی تو انہیں تابوت میں واپس بھیجا جائے گا”۔ حماس نے مزید کہا کہ وہ ان قیدیوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے بھرپور کوشش کر رہا ہے تاہم اسرائیلی بمباری ان کی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ بن رہی ہے۔ اس سے قبل اسرائیلی وزیراعظم ‘بینجمن نیتن یاہو’ نے بدھ کے روز دھمکی دی تھی کہ اگر حماس نے قیدیوں کو رہا نہیں کیا تو اسرائیل غزہ کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لے گا۔ نیتن یاہو نے اسرائیلی پارلیمنٹ کو بتایا کہ “حماس جتنا زیادہ ہمارے قیدیوں کی رہائی سے انکار کرے گا، اتنا ہی ہم ان پر دباؤ بڑھائیں گے، اور ان کے علاقوں پر قبضہ بھی گے”۔ یہ بھی پڑھیں: امریکی کمیشن نے انڈیا کو ‘علیحدگی پسند سکھوں’ کے قتل میں ملوث قرار دے دیا اسرائیلی وزیر دفاع ‘یواف کاٹز’ نے بھی چند روز قبل کہا تھا کہ “حماس جتنا زیادہ مزاحمت کرے گا، ہم اتنے زیادہ فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر کے انہیں اسرائیل میں ضم کرتے چلے جائیں گے”۔ جنوری میں جنگ بندی کے بعد اسرائیل نے سیز فائر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک ہفتے کے اندر ہی غزہ پر حملے دوبارہ شروع کیے تھے۔ اسرائیلی حکام نے دعویٰ کیا کہ حملوں کا مقصد حماس پر دباؤ ڈالنا تھا تاکہ وہ باقی قیدیوں کو رہا کرے۔ اسی دوران اسرائیل نے غزہ کی پٹی سے دو میزائل داغے جانے کا بھی ذکر کیا جن میں سے ایک کو روک لیا گیا جبکہ دوسرا سرحد کے قریب گرا۔ گزشتہ ہفتے اسرائیل نے غزہ میں شدید فضائی حملے شروع کیے اور زمینی کارروائیاں شروع کیں جس سے جنگ بندی کے دوران قائم ہونے والے پرسکون ماحول کو ختم کردیا گیا۔ دوسری جانب حماس نے بھی ان حملوں کے جواب میں راکٹ حملے شروع کر دیے ہیں جس سے دونوں جانب کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان اس تنازعے میں دونوں طرف سے سخت بیانات اور فوجی کارروائیاں کی جاری ہیں اور مستقبل میں مزید کشیدگی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں: یوکرینی صدر آج اپنے اتحادیوں سے ملاقات کریں گے، ‘مزید امداد’ کی یقین دہانی