April 23, 2025 12:18 am

English / Urdu

ریکوڈک میں کتنا سونا اور تانبا ہے، مالیت کیا ہے؟

بلوچستان میں ریکوڈک پراجیکٹ کے حوالے سے کی گئی تازہ ترین فزیبلٹی اسٹڈی کے مطابق یہاں موجود سونے اور تانبے کے ذخائر کی مالیت 60 بلین ڈالر سے زائد ہے۔ اس منصوبے میں تین سرکاری توانائی کمپنیوں نے اپنی فنڈنگ کو بڑھا کر تقریباً 1.9 بلین ڈالر کر دیا ہے۔ آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ، پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ اور گورنمنٹ ہولڈنگز پرائیویٹ لمیٹڈ نے پہلے اس منصوبے میں 300 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا تھا، جسے اب بڑھا کر 627 ملین ڈالر کر دیا گیا ہے۔ اس طرح تینوں کمپنیوں کی مجموعی فنڈنگ 900 ملین ڈالر سے بڑھ کر 1.88 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ فزیبلٹی اسٹڈی کے مطابق ریکوڈک پروجیکٹ سے 13.1 ملین ٹن تانبا اور 17.9 ملین اونس سونا نکالنے کی توقع ہے۔ عالمی منڈی میں موجودہ قیمتوں کے حساب سے ان ذخائر کی مالیت میں 54 بلین ڈالر سونے اور 6 بلین ڈالر تانبے پر مشتمل ہے۔ اس منصوبے کے لیے سرمایہ کاری پر منافع کی شرح 25 فیصد بتائی گئی ہے۔ منصوبے کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس کی تمام تر توانائی سولر پاور پر مبنی ہوگی، جو اسے دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا گرین پروجیکٹ بناتی ہے۔ فی اونس سونے کی قیمت 3016 ڈالر اور تانبے کی قیمت 9815 ڈالر فی ٹن کے حساب سے اس منصوبے کی مجموعی مالیت کا تخمینہ 60 بلین ڈالر سے زیادہ لگایا گیا ہے۔ تازہ ترین فزیبلٹی اسٹڈی کے مطابق پہلے مرحلے میں 2028 تک سالانہ 45 ملین ٹن مل فیڈ پر کارروائی کا منصوبہ ہے جبکہ 2034 تک دوسرے مرحلے میں اس صلاحیت کو بڑھا کر 90 ملین ٹن سالانہ کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ منصوبے کی مجموعی مدت 37 سال بتائی گئی ہے جو دو مراحل پر مشتمل ہوگی۔ پہلے مرحلے میں 5.6 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا تخمینہ لگایا گیا ہے اور یہ 2028 میں کام شروع کرے گا۔ اس منصوبے کے لیے 3 بلین ڈالر تک کی ایک محدود مالی سہولت پر بھی غور کیا جا رہا ہے جبکہ بقیہ رقم شیئر ہولڈرز کے ذریعے فراہم کی جائے گی۔ ریکوڈک پروجیکٹ موجودہ مائننگ لیز کے تحت پانچ بڑے ذخائر سے استفادہ کرے گا جبکہ مستقبل میں مزید ترقی کی بھی گنجائش موجود ہے۔ منصوبے کے دوسرے مرحلے کی سرمایہ کاری پراجیکٹ سے حاصل ہونے والی آمدنی اور شیئر ہولڈرز کی شراکت سے کی جائے گی۔ او جی ڈی سی ایل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے اس منصوبے کے لیے کمپنی کی فنڈنگ 627 ملین ڈالر تک بڑھانے کی منظوری دے دی ہے جو پراجیکٹ فنانسنگ کے اخراجات بھی پورے کرے گی۔ کمپنی کے مطابق اس کی کل سرمایہ کاری اس کے متناسب شیئر کے مطابق ہوگی۔ اسی طرح پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ نے بھی اس منصوبے کے لیے اپنے فنڈز میں اضافہ کیا ہے اور اس کی کل سرمایہ کاری 627 ملین ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے پراجیکٹ فنانسنگ کے حصول کے لیے بھی منظوری دی ہے جبکہ اس کا متوقع شیئر ہولڈر ایکویٹی تعاون 349 ملین ڈالر ہوگا۔ اسی طرح کا فیصلہ گورنمنٹ ہولڈنگز پرائیویٹ لمیٹڈ نے بھی کیا ہے اور تینوں کمپنیوں کے اجتماعی شیئرز 25 فیصد ہوں گے۔ ریکوڈک پروجیکٹ پاکستان کے سب سے بڑے غیر ترقی یافتہ تانبے اور سونے کے وسائل کو بروئے کار لانے کی ایک بڑی کوشش ہے۔ پاکستان منرلز پرائیویٹ لمیٹڈ کے ذریعے ان کمپنیوں کے شیئرز کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ منصوبے کے بقیہ 25 فیصد شیئرز حکومت بلوچستان کے پاس ہیں، جن میں سے 15 فیصد بلوچستان منرل ریسورسز لمیٹڈ کے ذریعے مکمل فنڈڈ بنیاد پر اور 10 فیصد فری کیری کی بنیاد پر رکھے گئے ہیں۔ 50 فیصد شیئرز بیرک گولڈ کارپوریشن کے پاس ہیں جو اس منصوبے کو چلا رہی ہے۔

اسرائیلی فورسز نے غزہ میں ماں اور بچوں سمیت مزید 12 افراد کو شہید کردیا

اسرائیلی فورسز نے غزہ میں 12 افراد کو شہید کر دیا ہے جن میں ایک ماں اور اس کا چھ ماہ کا بچہ جبکہ دیگر چار افراد شامل ہیں۔ غزہ میں وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کے حملوں میں اب تک 50,144 فلسطینی ہلاک اور 113,704 زخمی ہو چکے ہیں۔ غزہ کے حکومتی میڈیا آفس کے مطابق شہید ہونے والوں کی تعداد 61,700 سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ ہزاروں افراد کا ملبے تلے دب کر شہید ہونے کا خدشہ ہے۔ دوسری جانب اسرائیل کی فوج شام کے شہر درعا پر بمباری کر رہی ہے جس میں کم از کم چھ افراد کے شہید ہونے کی اطلاعات ملی ہیں جس پر قطر اور سعودی عرب نے شدید مذمت کی ہے۔ اسی دوران امریکا نے یمن پر بھی بمباری جاری رکھی ہے۔ یمن ڈیٹا پروجیکٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے امریکی فضائی حملوں میں کم از کم 25 شہری شہید ہوئے، جن میں چار بچے بھی شامل ہیں۔ یہ بمباری مارچ 2022 کے بعد کی سب سے زیادہ خون ریز کارروائی قرار دی گئی ہے۔ 16 مارچ کو صعدہ کے قزاک صافرا ضلع میں دس افراد شہید ہوئے، جن میں چار بچے شامل تھے۔ اس حملے میں 11 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جن میں دو بچے شامل ہیں۔ انسانی حقوق کی واضع طور پر پاملی کرتے ہوئے یہ واقعات اس بات کو غماز کرتے ہیں کہ عالمی سطح پر جنگوں کے اثرات بے گناہ شہریوں پر مرتب ہو رہے ہیں۔ ان وحشیانہ حملوں کی روک تھام کے لیے عالمی برادری کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مزید انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہو۔ مزید پڑھیں: ہنگری میں 15 سال سے اقتدار میں رہنے والے وزیر اعظم کے خلاف احتجاج

بلاول بھٹو کی پی ٹی آئی کے ساتھ سیکیورٹی مذاکرات کی پیشکش، وفاقی حکومت نے پیشکش قبول کرلی

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ سیکیورٹی مسائل پر بات چیت کے آغاز کی پیشکش کو وفاقی حکومت نے قبول کر لیا ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہے اگر بلاول بھٹو پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات شروع کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بلاول بھٹو پی ٹی آئی سے سیکیورٹی مذاکرات کے لیے رضامندی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا اور وہ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس دوبارہ طلب کرنے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں کرے گی۔ رانا ثناء اللہ نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ “بلاول بھٹو پہلے ہی حکومت کا حصہ ہیں اور اگر پی ٹی آئی اور حکومتی اتحاد کے درمیان بات چیت کامیاب ہوتی ہے تو یہ حکومت کے لیے کامیابی ثابت ہو گی۔” اس کے ساتھ ہی انہوں نے ان رپورٹس کی تصدیق کی کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے سندھ میں اقتدار کی تقسیم کے معاملے پر پی پی پی سے اپنا حصہ مانگا ہے۔ یہ پیش رفت ایک روز قبل اُس وقت ہوئی جب بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ قومی سلامتی کے پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس دوبارہ بلائیں تاکہ ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے خلاف ایک مشترکہ قومی اتفاق رائے تشکیل دیا جا سکے۔ بلاول نے زور دیا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو ایک ساتھ آنا چاہیے تاکہ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کیا جا سکے۔ بلاول نے اپنے بیان میں کہا کہ “ملکی مفاد میں ہمیں اپنی ذاتی سیاست کو بالائے طاق رکھ کر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہوگا، اور تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز کو یکجا ہونا پڑے گا۔” یاد رہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت میں اپوزیشن جماعتوں کا ایک بڑا اتحاد “تحریک تحفظ آئین پاکستان” نے اس کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں شرکت سے انکار کیا تھا جس کا بڑا سبب عمران خان کی قید میں موجودگی بتایا گیا۔ یہ اجلاس جس میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک بھی موجود تھے اور بلوچستان کے ضلع بولان میں جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ اور ملک بھر میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے پیش نظر بلایا گیا تھا۔ مزید پڑھیں: پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کامیاب، 2 ارب ڈالر قرض کا اسٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا

آخری ٹی ٹوئنٹی میں نیوزی لینڈ نے پاکستان کو شکست دے دی

نیوزی لینڈ نے پاکستان کے خلاف پانچویں اور آخری ٹی 20 میچ میں ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کا فیصلہ کیا۔ یہ میچ ویلنگٹن ریجنل اسٹیڈیم میں کھیلا گیا، جہاں میزبان ٹیم کو سیریز میں 1-3 کی فیصلہ کن برتری حاصل تھی۔ ٹاس کے موقع پر نیوزی لینڈ کے کپتان مائیکل بریسویل نے کہا کہ وہ سیریز کا اختتام جیت کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب، پاکستان کے کپتان سلمان علی آغا نے کہا کہ ٹیم میں پانچ تبدیلیاں کی گئی ہیں، تاکہ نئے کھلاڑیوں کو موقع دیا جا سکے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ وہ اس میچ میں کامیابی حاصل کریں گے اور پھر ون ڈے سیریز جیتنے کی کوشش کریں گے۔ پاکستانی ٹیم میں شاہین شاہ آفریدی، ابرار احمد، عرفان خان نیازی، خوشدل شاہ اور عباس آفریدی کو ڈراپ کیا گیا ہے، جبکہ عمیر بن یوسف، عثمان خان، جہانداد خان، سفیان مقیم اور محمد علی کو شامل کیا گیا ہے۔ پاکستانی اسکواڈ: سلمان علی آغا (کپتان)، محمد حارث، حسن نواز، عمیر بن یوسف، عثمان خان، شاداب خان، عبدالصمد، جہانداد خان، حارث رؤف، سفیان مقیم، محمد علی۔ نیوزی لینڈ کا اسکواڈ: مائیکل بریسویل (کپتان)، ٹم سیفرٹ، فن ایلن، مارک چیپمین، ڈیرل مچل، جمی نیشم، مچل ہے، ایش سوڈھی، جیکب ڈفی، بین سیئرز، ول اوورکے۔ سیریز میں پہلے ہی نیوزی لینڈ کو برتری حاصل ہے، تاہم پاکستان کے لیے یہ میچ اہمیت کا حامل ہوگا، جبکہ کیوی ٹیم جیت کے ساتھ سیریز کا اختتام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

‘امریکی قومی سلامتی داؤ پر لگ گئی’ حوثیوں کے خلاف جنگی منصوبے غلطی سے شئیر ہوگئے

وائٹ ہاؤس کی جانب سے ایک غلطی نے امریکی حکام کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جب کچھ اعلیٰ ترین حکومتی افسران نے ایک ‘انکرپٹڈ چیٹ گروپ’ میں یمن کے ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کے خلاف جنگی منصوبے ایک صحافی کے ساتھ شیئر کردیے۔ یہ انکشاف “دی اٹلانٹک” کے صحافی کی طرف سے سامنے آیا جس پر امریکی قانون سازوں کی طرف سے فوری ردعمل آیا ہے اور انہوں نے اس مسئلے کو امریکی قومی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دے دیا۔ “دی اٹلانٹک” کے ایڈیٹر ان چیف ‘جیفری گولڈ برگ’ نے پیر کو ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا کہ انہیں 13 مارچ کو سگنل میسجنگ ایپ پر ایک “ہوثی پی سی اسمال گروپ” کے نام سے ایک چیٹ گروپ میں دعوت دی گئی تھی۔ اس گروپ میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر ‘مائیک والز’ اور ان کے نائب ‘ایلیکس وونگ’ یمن میں حوثیوں کے خلاف امریکی کارروائی کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ گولڈ برگ نے یہ بھی بتایا کہ اس گروپ میں کئی اعلیٰ امریکی حکام کے اکاؤنٹس شامل تھے جن میں نائب صدر جے ڈی ونس، وزیر خارجہ مارکو روبیو اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر ‘جان رٹکلف’ بھی شامل تھے۔ گولڈ برگ کے مطابق امریکی وزیر دفاع ‘پیٹ ہیگسیٹھ’ نے گروپ میں جنگی منصوبے کی آپریشنل تفصیلات شیئر کیں جن میں اہداف، ہتھیار، اور حملوں کے ترتیب کا ذکر شامل تھا۔ ہیگسیٹھ نے بعد میں ان الزامات کی تردید کی تاہم گولڈ برگ نے اس بات کو “شوکنگلی ریکلیس” قرار دیا اور کہا کہ یہ واقعہ قومی سلامتی کے لیے ایک دھچکا تھا۔ 15 مارچ کو امریکا نے یمن کے حوثیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر فضائی حملے شروع کیے تھے جو ریڈ سی شپنگ پر حملے کر رہے تھے۔ یہ بھی پڑھیں: کیا نئی امریکی ویزا پالیسی پاکستان کو متاثر کرے گی؟ ان حملوں کی تیاری کے دوران گروپ میں یہ بحث ہوئی تھی کہ آیا یورپ کے اتحادیوں کو اس فوجی کارروائی میں شامل کیا جائے اور اس بارے میں تشویش ظاہر کی گئی تھی کہ امریکی اسٹریٹجک مفادات میں یورپی ممالک کا کردار زیادہ ہے۔ اس واقعے نے امریکی قانون سازوں کو بھی متحرک کر دیا ہے جو اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا اس قسم کی معلومات کی غلط طریقے سے شیئرنگ امریکی قومی سلامتی کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ امریکا کے قانون کے مطابق اگر کسی شخص نے خفیہ معلومات کو غلط طریقے سے استعمال کیا یا شیئر کیا تو وہ قانونی کارروائی کا سامنا کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سگنل ایپ پر غائب ہونے والی معلومات نے وفاقی ریکارڈ رکھنے کے قوانین کے حوالے سے مزید سوالات اٹھائے ہیں۔ ڈیموکریٹک رہنماؤں نے اس معاملے کی شدید مذمت کی ہے اور سینیٹر الزبتھ وارن نے کہا کہ یہ “غیر قانونی اور انتہائی خطرناک” عمل تھا اور سینیٹر کرس کوونز نے اس بات کو مزید واضح کیا کہ اس معاملے میں شامل تمام حکام نے قانونی طور پر ایک بڑا جرم کیا ہے، چاہے وہ اس میں جان بوجھ کر ملوث نہ ہوں۔ وائٹ ہاؤس نے واقعے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اس پر لاعلمی کا اظہار کیا۔ وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی تفصیل سے تحقیقات کی جا رہی ہیں اور وہ اس کے نتائج سے آگاہ ہیں۔ تاحال اس مسئلے کے نتیجے میں کسی افسر کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا۔ یہ واقعہ نہ صرف امریکی حکومتی اداروں کی سطح پر ایک بڑی غلطی ہے، بلکہ یہ عالمی سطح پر بھی امریکی حکومتی رازوں کی حفاظت کی اہمیت کو دوبارہ اجاگر کرتا ہے۔ مزید پڑھیں: کینیڈا کے انتخابات میں چین اور انڈیا کی مداخلت کا خطرہ، سیکیورٹی ایجنسی نے خبردار کردیا

کیا نئی امریکی ویزا پالیسی پاکستان کو متاثر کرے گی؟

نئی امریکی انتظامیہ نے پاکستان پرسفری پابندیاں لگانے کا فیصلہ نہیں کیا ہے، اس حوالے امریکی وزارت خارجہ کی اردو ترجمان مارگریٹ میکلاؤڈ نے واضح پیغام جاری کردیا۔ اردو ترجمان کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی معاشرے کا اہم حصہ ہیں، داخلے پر پابندی کا فیصلہ نہیں ہوا، ویزا پروگرام پرازسرنو نظرثانی کی جائے گی‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ویزا پابندیوں کیلئے مختلف ملکوں سے متعلق معلومات کا تبادلہ کیا جارہا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ امریکا میں داخلے کی درخواست دینا ہو تو درخواست دہندہ کو تمام باتیں درست بتانی چاہئیں، غیر قانونی طور پر امریکا میں داخلے کی صورت میں سزا ملے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ فیصلے کا مقصد امریکا کو غیرملکی دہشت گردوں سے محفوظ رکھنا ہے۔۔۔صدر ٹرمپ نے اسٹیٹ یونین سے خطاب میں پاکستان کے تعاون کو سراہا تھا، امریکا میں آباد پاکستانی معاشرے کا اہم حصہ ہیں۔  امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سینیئر اہلکار نے واضح کیا ہے کہ ٹرمپ کے اٹھائے گئے کسی بھی اقدامات سے پاکستان کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا بلکہ اس کا اطلاق تمام اقوام پر عالمگیر طور پر ہوگا۔ مزید پڑھیں: بنگلہ دیش سے بڑھتے پاک-چین تعلقات سے انڈیا خوفزدہ پاکستانی امریکیوں سے خطاب کرتے ہوئے میکلوڈ نے امریکی معاشرے میں ان کے تعاون کی تعریف کی اور خواہشمند مسافروں کو قانونی راستے پر چلنے کی ترغیب دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ممکنہ ویزا پابندیوں سے متعلق زیادہ تر قیاس آرائیاں غیر تصدیق شدہ ہیں، کیونکہ انتظامیہ فی الحال صرف جائزہ لے رہی ہے۔ یاد رہے چند روز قبل امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے پریس کانفرنس میں پاکستانی دفترخارجہ کے ترجمان کے بیان کی تردید کی تھی، پاکستانی دفترخارجہ کے ترجمان نے ممکنہ امریکی سفری پابندی کو افواہ قرار دیا تھا۔ پریس کانفرنس کے دوران صحافی نے امریکی ترجمان سے کچھ ملکوں پر ممکنہ سفری پابندی پر سوال کرتے ہوئے کہا تھا کیا سفری پابندی جاری کرنے کی آج ڈیڈ لائن ہے۔ ٹیمی بروس کا کہنا تھا کہ میں آپ کو تفصیلات نہیں بتاسکتی لیکن یہ آج نہیں ہورہا، امریکا آنے والوں کیلئے ویزا پالیسی کا جائزہ لے رہے ہیں۔

طاقت کے نشے میں بدمست اسرائیل کی بمباری، سات بچوں سمیت مزید 23 فلسطینی شہید

اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کے مسلمانوں پرظلم وستم میں کمی نہ آئی، تازہ حملوں میں سات بچوں سمیت 23 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ اسرائیلی فورسز نے ایک ہفتے میں دوسری بار پالمیرا شہر کے قریب دو شامی فضائی اڈوں پر بمباری بھی کی۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی جانب سے حسام شباط کے قتل اور آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ساز حمدان بلال کی مقبوضہ مغربی کنارے میں گرفتاری پر غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اکتوبر2023 سے اب تک  کم از کم 50,082 فلسطینیوں کی شہادت ہوچکی ہے اور 113,408 زخمی ہیں۔  غزہ کے سرکاری میڈیا آفس نے شہدا کی تعداد 61,700 سے زیادہ بتائی ہے، میڈیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملبے تلے لاپتہ ہونے والے ہزاروں فلسطینیوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مر چکے ہیں۔ حماس حملوں میں اب تک اسرائیل میں کم از کم 1,139 افراد مارے گئے اور 200 سے زیادہ کو یرغمال بنایا گیا۔ مزید پڑھیں: جنگ بندی تجویز: امریکا اور حماس کا اتفاق، اسرائیل کے ردعمل کا انتظار دوسری جانب غزہ کی سرزمین پر جنگ کی شدت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس دوران مصر نے ایک نئی تجویز پیش کی ہے جس کا مقصد غزہ میں جنگ بندی کی صورت حال کو بحال کرنا ہے۔ یہ تجویز گزشتہ ہفتے پیش کی گئی تھی اور غزہ میں جاری خون ریز جنگ کو ختم کرنے کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ اس تجویز کو دونوں طرف سے امریکا اور حماس نے پذیرائی دی ہے لیکن اسرائیل کی طرف سے ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا ہے۔

غیر قانونی تارکین وطن کی بے دخلی: حکومت نے ہوم ورک مکمل کرلیا؟

غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف قومی مہم کے سلسلے میں تشکیل دی گئی اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی نے غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری، انسانی اسمگلنگ، بھکاریوں کے لیے سخت سزاؤں اور ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن سے متعلق مختلف امور پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا ہے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی کی زیر صدارت کمیٹی کا اجلاس پیر کے روز منعقد ہوا جس میں متعلقہ قوانین کی تیاری اور ان پر مؤثر عمل درآمد کی ذمہ داری بھی سونپی گئی۔ یہ اجلاس 3 جنوری کو ہونے والے اپیکس کمیٹی کے اجلاس کی ہدایات کے تحت، 28 جنوری کو تشکیل دی گئی کمیٹی کا دوسرا اجلاس تھا۔ یہ اجلاس غیر قانونی تارکین وطن کو رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن کے ختم ہونے سے ایک ہفتہ قبل منعقد ہوا۔ ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں غیر قانونی تارکین وطن کی بے دخلی، انسانی اسمگلنگ، بھکاریوں کے لیے سخت سزاؤں اور ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن جیسے اہم مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ کمیٹی کے دیگر ارکان میں چاروں صوبوں، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے وزرائے داخلہ بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ سیکریٹری داخلہ، پیٹرولیم ڈویژن، چیئرمین ایف بی آر، انٹر سروسز انٹیلی جنس، ملٹری انٹیلی جنس، انٹیلی جنس بیورو، ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ، فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی اور صوبائی محکموں کے انسداد دہشت گردی کے نمائندے بھی کمیٹی کا حصہ ہیں۔ مزید پڑھیں: وزیرِاعلیٰ پنجاب کا میو کے بعد جناح اسپتال کے پرنسپل اور ایم ایس کو معطل کرنے کا حکم، وجہ کیا؟

جنگ بندی تجویز: امریکا اور حماس کا اتفاق، اسرائیل کے ردعمل کا انتظار

غزہ کی سرزمین پر جنگ کی شدت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس دوران مصر نے ایک نئی تجویز پیش کی ہے جس کا مقصد غزہ میں جنگ بندی کی صورت حال کو بحال کرنا ہے۔ یہ تجویز گزشتہ ہفتے پیش کی گئی تھی اور غزہ میں جاری خون ریز جنگ کو ختم کرنے کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ اس تجویز کو دونوں طرف سے امریکا اور حماس نے پذیرائی دی ہے لیکن اسرائیل کی طرف سے ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے اسرائیل کی فضائی حملوں اور گولہ باری نے غزہ میں خوفناک صورتحال پیدا کر رکھی ہے اور فلسطینی حکام کے مطابق صرف گزشتہ 24 گھنٹوں میں 65 سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں۔ 18 مارچ کو اسرائیل نے ایک بار پھر حماس کے خلاف فضائی اور زمینی کارروائیاں شروع کیں جس کے بعد سے غزہ میں تقریباً 700 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں 400 سے زائد خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ حماس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی صفوں میں بھی کئی اعلیٰ سیاسی اور سیکیورٹی عہدیدار شہید کیے گئے ہیں، جن میں مقامی صحافی بھی شامل ہیں۔ ان حالات کے چلتے، مصر نے ایک نیا منصوبہ پیش کیا ہے جس کا مقصد غزہ میں جنگ بندی کو دوبارہ قائم کرنا ہے۔ مصر کی تجویز کے مطابق حماس کو ہر ہفتے پانچ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنا ہوگا اور اس کے بدلے میں اسرائیل جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کو نافذ کرے گا۔ اس تجویز کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں ایک مکمل اسرائیلی فوجی انخلا کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس کے بدلے میں باقی فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا وعدہ کیا جائے گا۔ یہ تجویز امریکا اور حماس دونوں کی طرف سے قبول کی جا چکی ہے لیکن اسرائیل نے اس پر ابھی تک کوئی ردعمل نہیں دیا۔ دونوں طرف سے متنازعہ صورتحال میں مصر کی اس تجویز کو ایک ممکنہ حل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے لیکن اسرائیل کا جواب اس حوالے سے فیصلہ کن ہو گا۔ یہ بھی پڑھیں: “وینزویلا سے تیل خریدنے والے کسی بھی ملک کو 25 فیصد ٹیرف ادا کرنا ہو گا “ٹرمپ کا اعلان اس کے علاوہ مغربی کنارے میں بچوں کے لیے تعلیم کا حصول ایک اور اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ جہاں اسرائیلی فوجی آپریشنز، چیک پوائنٹس اور سٹلر حملوں کے باعث روزانہ ہزاروں بچے اپنے اسکول جانے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسرائیلی فورسز نے نہ صرف اسکول جانے والے راستوں کو غیر محفوظ بنا دیا ہے بلکہ فلسطینی بچوں کے تعلیمی اداروں پر بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ سیو دی چلڈرن کی عالمی سربراہ ‘ایلیکزینڈرا ساہیہ’ کا کہنا ہے کہ”مغربی کنارے اور غزہ میں بچوں کی تعلیم پر جو دباؤ پڑا ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔” وہ اس بات کی طرف اشارہ کر رہی تھیں کہ فلسطینی بچوں کے لیے تعلیم کا حصول ایک مشکل ترین چیلنج بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ ‘یو این آر ڈبلیو اے’ (UNRWA) جو کہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں 96 اسکولز چلاتا ہے، یہ ادارہ اب اسرائیلی پابندیوں اور فنڈنگ کی کمی کے باعث اپنی خدمات جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ امریکا اور دیگر بڑے عالمی ذرائع سے ہونے والی فنڈنگ کی کمی کے بعد فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے جاری امدادی کام مزید متاثر ہو سکتے ہیں۔ غزہ اور مغربی کنارے کی صورتحال دنیا بھر کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ غزہ میں جنگ کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کے اثرات نہ صرف انسانی جانوں پر پڑ رہے ہیں بلکہ بچوں کی تعلیم بھی خطرے میں ہے۔ مصر کی تجویز ایک امید کی کرن دکھاتی ہے لیکن اسرائیل کا ردعمل اور اس کے عملی اقدامات سے ہی اس مسئلہ کا حل ممکن ہو سکتا ہے۔ مزید پڑھیں: ٹرمپ نے جج کے وفاقی کارکن کی بحالی کے حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا

استنبول میں احتجاج کی کوریج کرنے والے 10 صحافیوں کو گرفتار کرلیا گیا

استنبول اور دیگر شہروں میں ہونے والے مظاہروں کی کوریج کرنے والے 10 صحافیوں کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے جن میں ایک ‘اے ایف پی’ فوٹوگرافر بھی شامل ہے۔ اس واقعے پر انسانی حقوق کی تنظیم “ایم ایل ایس اے” نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا کہ “پیر کے روز مختلف شہروں میں پولیس آپریشنز کے دوران ان صحافیوں کو حراست میں لیا گیا۔” پولیس کی کارروائی کا آغاز اس وقت ہوا جب ترکیہ کے سب سے بڑے شہر استنبول میں شہر کے میئر ‘اکرم امام اوغلو’ کے جیل جانے کے خلاف مظاہرے شدت اختیار کر گئے تھے۔ امام اوغلو جو ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کے سیاسی حریف ہیں اور ان کو اتوار کے روز عدالت نے بدعنوانی کے الزامات پر جیل بھیج دیا تھا۔ ان کی اس گرفتاری نے پورے ملک میں زبردست احتجاج کو جنم دیا جو گزشتہ دس سالوں کے دوران سب سے بڑی عوامی بغاوت بن گئی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم “ایم ایل ایس اے” نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ “یہ صحافی، مظاہروں کی کوریج کے دوران حراست میں لیے گئے ہیں اور ان کی گرفتاری کی وجوہات فوری طور پر واضح نہیں ہو سکیں۔” تاہم، یہ گرفتاری اس وقت سامنے آئی ہے جب صحافیوں کی آزادی کو لے کر ترک حکومت پر عالمی سطح پر تنقید کی جا رہی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: یورپ میں ٹی بی کا بڑھتا ہوا خطرہ، بچوں کی زندگیاں داؤ پر لگ گئیں گزشتہ پانچ راتوں سے حکومت مخالف مظاہرے جاری ہیں جن میں زیادہ تر پرامن مظاہرین نے سڑکوں پر نکل کر اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ ترک حکومتی عہدیداروں نے ان مظاہروں کو “غیر قانونی” قرار دیتے ہوئے احتجاج کے دوران سامنے آنے والی تشویش کو مسترد کیا ہے۔ دوسری طرف، ترک اپوزیشن جماعت “ریپبلکن پیپلز پارٹی” (سی ایچ پی) کے رہنما ‘اوزگر اوزل’ نے استنبول کے سرایچانی ضلع میں ہونے والے مظاہرے کے دوران اعلان کیا کہ “ہم امام اوغلو کی رہائی تک یہ احتجاج جاری رکھیں گے۔” امام اوغلو کے خلاف بدعنوانی کے الزامات ہیں جو کہ “ناقابل یقین” اور “جھوٹے” ہیں، ان کے حامیوں کے لیے ایک گہری سیاسی سازش کا حصہ سمجھے جا رہے ہیں، جسے انہوں نے ترکیہ کے عدلیہ کی آزادی اور جمہوری اقدار کے خلاف سمجھا ہے۔ ترک حکومت کا موقف ہے کہ یہ تمام قانونی کارروائیاں غیر جانبدار اور آزاد عدلیہ کے تحت کی جا رہی ہیں اور ان کے خلاف لگنے والے الزامات میں کسی بھی قسم کی سیاسی مداخلت شامل نہیں۔ تاہم، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اس واقعے کی سخت مذمت کی جا رہی ہے۔ یہ گرفتاریاں ایک ایسا واقعہ ہیں جس نے ترکیہ میں اظہار رائے کی آزادی اور صحافتی حقوق کے حوالے سے عالمی سطح پر تشویش بڑھا دی ہے اور یہ سوالات اٹھا دیے ہیں۔ مزید پڑھیں: انڈین پنجاب کو ‘خالصتان’ بناؤ، امریکا میں ہزاروں سکھوں کا ریفرنڈم