پاکستان بھرمیں 1700 ’سستی دکانیں‘ بند کرنے کا فیصلہ، ایسا کیوں کیا جارہا ہے؟

سستی اشیا پاکستانی شہریوں کے لیے خواب بننے لگیں، سستے سٹورز بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، پاکستان بھر میں نقصان میں چلنے والے 1700 یوٹیلیٹی اسٹورز کردیے جائیں گے۔ سینیٹرعون عباس کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کا اجلاس ہوا، جس میں یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے مستقبل پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز حکومت کی نجکاری فہرست میں شامل ہیں، تاہم دو سالہ آڈٹ نہ ہونے کے باعث نجکاری کا عمل رک گیا ہے، آڈٹ اگست 2025 تک مکمل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ سینیٹ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس وقت ملک بھر میں 3200 سے زائد یوٹیلیٹی اسٹورز موجود ہیں، جن میں سے 1700 نقصان میں چل رہے ہیں اور انہیں بند کیا جائے گا، نجکاری کے بعد صرف 1500 اسٹورز کے لیے عملہ درکار ہو گا، جبکہ باقی ملازمین کو سرپلس پول میں بھیج دیا جائے گا۔ حکام کے مطابق یوٹیلیٹی اسٹورز کے 5000 ملازمین ریگولر، جبکہ 6000 کے قریب کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز پر کام کر رہے ہیں، مستقل ملازمین کو سرپلس پول میں شامل کیا جائے گا جبکہ کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز ملازمین کو کوئی پیکج نہیں دیا جائے گا اور نجکاری کے بعد انہیں فارغ کر دیا جائے گا۔ بریفنگ میں مزید بتایا گیا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کا ماہانہ خرچ ایک ارب 2 کروڑ روپے تھا، تاہم نقصان میں چلنے والے اسٹورز بند کرنے سے یہ کم ہو کر 52 کروڑ روپے رہ گیا ہے، ایک ماہ میں نقصان 22 کروڑ روپے کم ہوا اور مجموعی نقصان 17 کروڑ روپے کم ہو کر 50 کروڑ روپے تک آ گیا ہے۔
محکمہِ تعلیم ختم: ٹرمپ انتظامیہ امریکی تاریخ کو کس رخ موڑے گی؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کے روز ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے، جس کا مقصد وفاقی محکمہ تعلیم کو ختم کرنے کی راہ ہموار کرنا تھا۔ یہ فیصلہ قدامت پسندوں کے ایک مطالبے کو پورا کرنے کی کوشش کے طور پر سامنے آیا ہے، جس کے تحت تعلیمی پالیسیوں کا اختیار ریاستوں اور مقامی تعلیمی اداروں کو منتقل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وائٹ ہاؤس میں منعقدہ ایک تقریب میں ٹرمپ نے کہا کہ یہ حکم محکمہ تعلیم کو “ختم کرنے” کی جانب پہلا قدم ہے، حالانکہ اس ایجنسی کو مکمل طور پر بند کرنے کے لیے کانگریس کی منظوری درکار ہوگی، جہاں ٹرمپ کو تاحال مطلوبہ ووٹوں کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ تقریب میں موجود طلباء نے علامتی طور پر اپنے فرضی ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے، جبکہ ٹرمپ نے کہا کہ وہ تعلیم کو واپس ان ریاستوں کے حوالے کر رہے ہیں جہاں اس کا “اصل مقام” ہے۔ یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب محکمہ تعلیم نے اعلان کیا کہ وہ اپنے تقریباً نصف ملازمین کو فارغ کرنے جا رہا ہے۔ یہ ٹرمپ کی اُس وسیع تر مہم کا حصہ ہے، جس کے تحت وہ وفاقی حکومت کے سائز کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جسے وہ غیر ضروری اور ناکام تصور کرتے ہیں۔ امریکہ میں تعلیم ایک طویل عرصے سے سیاسی تنازعات کا مرکز رہی ہے۔ قدامت پسند مقامی کنٹرول، نجی و مذہبی اسکولوں کے لیے حکومتی تعاون، اور اسکول کے انتخاب جیسے نظریات کے حامی ہیں، جبکہ لبرل تعلیمی حلقے سرکاری اسکولوں اور تنوع کے فروغ کے لیے فنڈنگ میں اضافے پر زور دیتے ہیں۔ تاہم، ٹرمپ نے اس معاملے کو ایک اور سطح تک پہنچا دیا ہے، اور وہ اسے ایک بڑے نظریاتی تنازعے کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ امریکہ کے اسکولوں اور جامعات میں لبرل نظریات کی تبلیغ ہو رہی ہے، جس کے خلاف وہ بھرپور مزاحمت کر رہے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تنوع، مساوات، اور شمولیت کی پالیسیوں کو ختم کرنے کے اقدامات کیے ہیں، جیسا کہ وہ وفاقی حکومت میں کر رہے ہیں۔ اس پالیسی کا اثر کولمبیا یونیورسٹی جیسے اداروں پر بھی پڑا، جسے کیمپس میں احتجاج کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی آخری مہلت دی گئی، بصورتِ دیگر اسے 400 ملین ڈالر کی معطل شدہ فنڈنگ سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا تھا۔ وائٹ ہاؤس کا مؤقف ہے کہ محکمہ تعلیم قومی خزانے پر بوجھ ہے اور اس کے نتائج ناقص رہے ہیں۔ حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ تعلیم پر کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود امتحانی نتائج، شرح خواندگی، اور ریاضی کی مہارت کے لحاظ سے امریکی طلباء کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ تعلیمی پالیسیوں پر تنازعات کورونا وائرس وبا کے دوران مزید شدت اختیار کر گئے، جب والدین نے اسکول بورڈ کے اجلاسوں میں شرکت کرکے تعلیمی نصاب اور پالیسیوں پر شدید اعتراضات اٹھائے۔ اس بے چینی کو قدامت پسند گروہوں، جیسے “مامز فار لبرٹی” اور ریپبلکن رہنماؤں نے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ ٹرمپ کی تقریب میں ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ اور فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سینٹیس جیسے نمایاں ریپبلکن رہنماؤں نے شرکت کی۔ دوسری جانب، ڈیموکریٹ سینیٹر پیٹی مرے نے کہا کہ ٹرمپ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کانگریس کی منظوری کے بغیر محکمہ تعلیم کو باضابطہ طور پر ختم نہیں کر سکتے، لیکن اگر وہ اس کے عملے کو فارغ کر دیں اور اس کی فعالیت کو محدود کر دیں، تو نتیجہ وہی ہوگا جو وہ چاہتے ہیں۔ یہ ایگزیکٹو آرڈر امریکی تعلیمی نظام میں ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے، جس کے اثرات آنے والے برسوں تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
‘جمعہ کو امریکی سفارت خانے کی جانب احتجاجی ریلی نکالیں گے’ حافظ نعیم الرحمٰن

جماعت اسلامی نے غزہ پر اسرائیلی حملوں کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ جمعہ کی نماز کے بعد بڑے شہروں میں امریکی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کی طرف پرامن مارچ کیا جائے گا۔ لاہور میں مسجد شہداء سے امریکی قونصلیٹ تک احتجاجی ریلی نکالی جائے گی۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکلیں اور فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں تاکہ حکومت اور اپوزیشن اسرائیل کے خلاف مؤثر موقف اختیار کرنے پر مجبور ہوں۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ اسرائیل کی بمباری سے سیکڑوں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ اسرائیل نے پہلے غزہ کی ناکہ بندی کر کے خوراک اور ادویات کی ترسیل روکی، پھر بمباری کی جس سے کئی عمارتیں تباہ ہو گئیں اور بہت سی لاشیں ملبے تلے دب گئیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکا نے اس حملے کی حمایت کر کے ثابت کر دیا ہے کہ وہ بھی اسرائیل کے ساتھ اس ظلم میں شریک ہے۔ انہوں نے مسلم ممالک، خاص طور پر عرب ممالک کی خاموشی پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ دنیا کے مسلمان پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ فلسطینی عوام کے لیے کیا اقدامات کرتا ہے۔ حافظ نعیم نے حکومت اور اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پاکستانی سیاست دان صرف امریکا کو خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور فلسطینیوں کے حق میں مؤثر آواز بلند نہیں کر رہے۔ اگر پاکستان مضبوط موقف اپنائے تو عالمی برادری اس کی بات سننے پر مجبور ہو جائے گی، مگر ہمارے حکمرانوں نے ہمیں کمزور بنا دیا ہے۔ افغانستان کے معاملے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں ہے۔ عالمی طاقتیں، خاص طور پر امریکا، چاہتی ہیں کہ پاکستان اور افغانستان آپس میں لڑیں تاکہ خطے میں بدامنی برقرار رہے۔ پاکستان کو مسائل بات چیت سے حل کرنے چاہئیں اور افغان حکومت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ پاکستان میں کچھ لوگ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں، جو نہ صرف ملک کے مفادات کے خلاف ہے بلکہ قائداعظم کے نظریے کے بھی خلاف ہے۔ قائداعظم نے اسرائیل کو ناجائز ریاست کہا تھا اور پاکستان نے ہمیشہ اسے تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر حکمرانوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنانے کی کوشش کی تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کو بجلی اور پیٹرول کی قیمتیں کم کرنی چاہئیں اور غیر ضروری ٹیکس ختم کرنے چاہئیں تاکہ عام آدمی کو ریلیف مل سکے۔ انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے اپنی عیاشیوں میں مصروف ہے۔ جماعت اسلامی عوام کے حقوق کے لیے ہر ممکن آواز اٹھائے گی اور حکومت پر دباؤ ڈالے گی کہ وہ مہنگائی ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ بلوچستان کے مسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 14 اپریل کو ایک اہم اجلاس بلایا گیا ہے، جس میں تمام سیاسی جماعتوں اور بلوچ رہنماؤں کو مدعو کیا جائے گا۔ اس اجلاس کا مقصد بلوچستان کے مسائل کو اجاگر کرنا اور ان کے حل کے لیے مشترکہ حکمت عملی تیار کرنا ہے تاکہ وہاں کے عوام کو ان کے حقوق دیے جا سکیں اور ان کے مسائل کا منصفانہ حل نکالا جا سکے۔
غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں سے 70 فلسطینی شہید، 500 سے زائد زخمی

غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں کم از کم 70 فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔ یہ حملے اس وقت ہوئے جب اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر اپنی بمباری کی مہم دوبارہ شروع کی۔ غزہ کے صحت کے حکام کے مطابق، شمالی اور جنوبی غزہ کے مختلف علاقوں میں متعدد رہائشی گھروں کو نشانہ بنایا گیا جس سے انسانی جانی نقصان میں مزید اضافہ ہوا۔ اس سے ایک دن قبل اسرائیلی فوج نے وسطی اور جنوبی غزہ میں اپنی زمینی کارروائیاں دوبارہ شروع کی تھیں جو جنوری میں عارضی طور پر ہونے والی جنگ بندی کے بعد پہلی بار ہوئی ہیں۔ اس جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے اسرائیل کی کارروائیاں شدت اختیار کر گئی ہیں اور فلسطینیوں پر زندگی مزید تنگ ہو گئی ہے۔ فلسطینی صحت حکام کے مطابق، اس سلسلے میں صرف بدھ کے دن ہی 400 سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کئی خواتین اور بچے بھی اس حملے کا شکار ہوئے ہیں۔ ایک روز میں 510 فلسطینی شہید ہو گئے جن میں سے بیشتر خواتین اور بچے تھے۔ غزہ کے اس تباہ کن منظر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے جہاں زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: اٹلی میں تارکین وطن کی کشتی ڈوب گئی، 6 افراد ہلاک، 40 لاپتہ اسرائیلی فوج نے اپنے حملوں کو شمالی اور جنوبی غزہ کے درمیان “نتزریم کوریڈور” پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کارروائی قرار دیا ہے جو اسرائیل کے لیے ایک “جزوی حفاظتی علاقہ” بنانے کی کوشش ہے۔ یہ کارروائیاں نہ صرف فلسطینیوں کے لیے زندگی کو مزید مشکل بنا رہی ہیں، بلکہ عالمی سطح پر اسرائیل کے مظالم کی مذمت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ حماس کے نمائندوں نے اس بات کو “ایک نئی اور خطرناک خلاف ورزی” قرار دیا ہے اور عالمی ثالثوں سے اپیل کی ہے کہ وہ فریقین کے درمیان جنگ بندی کو یقینی بنانے کے لیے مزید کوششیں کریں۔ حماس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ “ثالثی کی کوششوں میں تیزی آئی ہے لیکن ابھی تک کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔” لازمی پڑھیں: توانائی کے مراکز کو نشانہ نہیں بنائیں گے، مگر جنگ بندی سے انکار یہ جنگ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے اسرائیلی شہروں پر حملوں کے بعد شروع ہوئی تھی، جس میں 1,200 اسرائیلی شہری ہلاک اور 250 سے زائد افراد اغوا ہوئے تھے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ میں شدید بمباری کی اور انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے تقریباً 49,000 سے زائد معصوم فلسطینوں کو شہید کردیا ہے جبکہ غزہ کی پٹی اب صرف ایک کھنڈر بن کر رہ گئی ہے۔ یہ جنگ ایک طرف غزہ کے فلسطینیوں کے لئے شہادت کا پیغام بن چکی ہے جبکہ دوسری طرف اسرائیلی فوج کی جارحیت اور ظلم کا عکاس ہے جو عالمی سطح پر انسانی حقوق کی پامالی کی ایک واضح مثال ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں اس جنگ کے خاتمے کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن غزہ کے معصوم شہری ابھی تک اس تباہی کا شکار ہیں جو صرف اور صرف اسرائیل کی ظلم و ستم کی سیاست کا نتیجہ ہے۔ مزید پڑھیں: امریکا کا عمران خان سے متعلق سوالات پر ردعمل، بات کرنے سے بھی انکار کردیا
ترک صدر ایردوان کا سیاسی حریف گرفتار، جرم کیا ہے؟

ترکیہ میں صدارتی انتخابات سے قبل متوقع صدارتی امیدوار کو گرفتار کرلیا گیا ۔ استنبول کے میئر اکرم امام اوغلو کو دہشت گروہ کی مدد کرنے کے الزام میں پکڑا گیا ہے۔ سیکولر ریپبلکن پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اکرم امام اوغلو کو ترک صدراردوان کے سب سے مضبوط سیاسی حریفوں میں شمار کیا جاتا ہے، اُن پر بدعنوانی اور ایک دہشت گرد گروہ کی مدد کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ پولیس نے تحقیقات کے دوران ایک سو افراد کو حراست میں لیا ہے، جن میں سیاستدان، صحافی اور کاروباری شخصیات شامل ہیں۔ امام اوغلو نے آن لائن بیان میں کہا کہ عوام کی مرضی کو خاموش نہیں کروایا جا سکتا۔ ترکیہ کی سڑکوں، یونیورسٹی کیمپسز اور ٹرین اسٹیشنوں پر حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ استنبول میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔ حکومت نے استنبول میں 4 روزہ پابندیوں کے تحت عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کر دی ہے، لیکن ملک بھر میں مزید احتجاج کا خدشہ ہے۔
جے یو آئی کے مرکزی رہنما اور سابق سینیٹر حافظ حسین احمد انتقال کر گئے

حافظ حسین احمد گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے، ان کی تدفین کل کوئٹہ میں ہوگی۔ حافظ حسین احمد کا شمار مولانا فضل الرحمن کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ واضح رہے کہ دسمبر 2022 میں اختلافات ختم کر کے حافظ حسین احمد دوبارہ جمعیت علمائے اسلام (ف) میں شامل ہو گئے تھے۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے سینیئر سیاستدان حافظ حسین احمد کی وفات پر اظہار افسوس کیا۔ ان کا کہنا تھاکہ حافظ حسین احمد کی وفات سے حسین یادوں کا ایک باب ختم ہوگیا، حافظ حسین احمد مرحوم زیرک ،حاضر جواب اور نظریاتی پارلیمانی رہنما تھے۔ حافظ حسین احمد 1988میں پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ اس کے بعد وہ 1991 میں سینیٹر بنے، پھر 2002 میں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے دوسری مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن بنے اور قومی اسمبلی میں پارٹی کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ حافظ حسین احمد طویل عرصے تک پارلیمنٹ میں جے یو آئی کی آواز بنے رہےہیں۔ وہ 1988 کے انتخابات کے بعد چار بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ حافظ حسین بہت عرصے تک پارٹی کے مرکزی ترجمان رہے، تا ہم انہیں دسمبر 2020 میں جے یو آئی سے نکال دیا گیا تھا، پارٹی کی طرف سے حافظ حسین احمد پر پارٹی فیصلوں، پالیسی، دستور اور منشور سے انحراف جیسے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ وہ جے یو آئی کے سنہ 1973 میں رکن بنے جب اس پارٹی کی قیادت مولانا فضل الرحمان کے والد مفتی محمود کے ہاتھوں میں تھی، جبکہ مولانا فضل الرحمان کی پارٹی میں شمولیت 1980 میں ہوئی، اس وجہ سے حافظ حسین احمد پارٹی میں مولانا فضل الرحمان سے سینیئر شمار کیے جاتے تھے۔ حافظ حسین احمد کئی دفعہ مولانا فضل الرحمان کے خلاف خطاب کر چکے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ہم کبھی بھی جے یو آئی میں موروثیت کی سیاست نہیں چلنے دیں گے۔
آئی پی ایل بہتر کیوں؟ پروٹیز کھلاڑی نے پی ایس ایل چھوڑنے کی وجہ بتا دی

جنوبی افریقی آل راؤنڈر کوربن بوش نے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے قانونی نوٹس کا جواب دیتے ہوئے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) سے دستبرداری کے فیصلے کی وضاحت کر دی۔ نجی نشریاتی ادارے جیو سپر کے مطابق بوش نے مالیاتی تحفظ اور طویل مدتی کیریئر کی ترقی کو اپنے فیصلے کی بنیادی وجوہات قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد پی ایس ایل کو نقصان پہنچانا نہیں تھا، بلکہ ممبئی انڈینز میں شمولیت ایک اسٹریٹجک فیصلہ تھا، کیونکہ آئی پی ایل میں فرنچائز کا غلبہ اور مختلف لیگز کے ساتھ اس کے روابط ان کے کیریئر کے لیے بہتر مواقع فراہم کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ کوربن بوش ابتدائی طور پر پی ایس ایل 10 میں پشاور زلمی کا حصہ تھے، لیکن بعد میں انہوں نے انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کی فرنچائز ممبئی انڈینز کو جوائن کرنے کا فیصلہ کیا، جس پر پی سی بی نے برہمی کا اظہار کیا اور قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا۔ پی سی بی نے معاہدے کی خلاف ورزی پر بوش کے ایجنٹ کو نوٹس جاری کیا، جس کے جواب میں کرکٹر نے پیر کے روز اپنا مؤقف جمع کرایا۔ دوسری جانب کوربن بوش کی دستبرداری کے بعد پشاور زلمی نے آسٹریلیا کے مڈل آرڈر بیٹر مچل اوون کو اسکواڈ میں شامل کر لیا ہے، 23 سالہ اوون نے حالیہ بگ بیش لیگ میں ہوبارٹ ہریکینز کی پہلی ٹائٹل فتح میں اہم کردار ادا کیا اور سڈنی تھنڈر کے خلاف فائنل میں تیز ترین سنچری بنا کر شہرت حاصل کی تھی۔ پشاور زلمی نے سوشل میڈیا پر ایک متحرک پوسٹر جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ بوش سپلیمنٹری ڈرافٹ پک PSL 10 کے لیے زلمی اسکواڈ میں شامل ہو رہے ہیں۔ مزید پڑھیں: ‘کرکٹرز اگر حلوہ پوری اور حلیم کھائیں گے تو کیسے کھیل پائیں گے’ وزیر کھیل سندھ یاد رہے کہ ایچ بی ایل پی ایس ایل کے 10ویں ایڈیشن کا آغاز 11 اپریل کو ہوگا، جس میں دفاعی چیمپئن اسلام آباد یونائیٹڈ کا مقابلہ راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں دو مرتبہ کی فاتح لاہور قلندرز سے ہوگا۔ 6 ٹیموں پر مشتمل ٹورنامنٹ میں 34 میچز کھیلے جائیں گے، جو 11 اپریل سے 18 مئی تک جاری رہے گا۔ لاہور کا قذافی اسٹیڈیم 13 میچز کی میزبانی کرے گا، جن میں دو ایلیمینیٹر اور گرینڈ فائنل شامل ہوں گے، جب کہ راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم 11 میچز کی میزبانی کرے گا، جس میں 13 مئی کو پہلا کوالیفائر بھی شامل ہے۔ کراچی کے نیشنل بینک اسٹیڈیم اور ملتان کرکٹ اسٹیڈیم میں 5، 5 میچز کھیلے جائیں گے۔ مزید یہ کہ 8 اپریل کو پشاور میں ایک نمائشی میچ بھی شیڈول ہے، جس کی ٹیموں کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ ٹورنامنٹ میں تین ڈبل ہیڈرز ہوں گے، جن میں سے دو ہفتے کو جب کہ ایک لیبر ڈے (یکم مئی) کو کھیلا جائے گا۔
پاک افغان تجارتی گزرگاہ طورخم 25 دن بعد کھول دی گئی

پاک افغان تجارتی گزرگاہ طور خم 25 دن بود کھول دی گئی۔ نجی نشریاتی ادارے جیو کے مطابق طورخم تجارتی گزرگاہ سے دوطرفہ تجارت شروع ہوگئی ہے اور تجارتی سامان لے کر کارگو گاڑیاں افغانستان میں داخل ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان سے بھی کارگو گاڑیاں پاکستان میں داخل ہونا شروع ہوچکی ہیں۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق طورخم سرحدپیدل آمدورفت کے لیے دو روز بعد کھولی جائےگی۔ واضح رہےکہ پاکستان اور افغانستان کی تجارتی گزرگاہ طورخم آج 25 روز بعد کھولی گئی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف آج 4 روزہ دورے پر سعودی عرب روانہ ہوں گے

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف آج 19 مارچ کو سعودی عرب کا 4 روزہ سرکاری دورہ شروع کر رہے ہیں۔ اس دورے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنا, اقتصادی تعاون کو بڑھانا اور سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ وزیراعظم کے ہمراہ ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی سعودی عرب روانہ ہو رہا ہے جس میں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار، اہم وفاقی وزراء اور اعلیٰ حکومتی افسران شامل ہیں۔ وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق وزیراعظم کا یہ دورہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی روابط کو مزید مستحکم کرنے کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس دورے کے دوران وزیراعظم کا سعودی ولی عہد اور وزیرِاعظم محمد بن سلمان سے ملاقات کا پروگرام ہے۔ دونوں رہنما تجارتی تعلقات کو فروغ دینے، اہم شعبوں میں شراکت داری بڑھانے اور اقتصادی تعاون کے نئے راستے تلاش کرنے پر بات کریں گے۔ ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں کے درمیان کئی اہم موضوعات پر گفتگو ہوگی جن میں عالمی اور علاقائی ترقیات خاص طور پر غزہ کی صورتحال، مشرق وسطیٰ کے بدلتے ہوئے حالات اور مسلم اُمہ کے اہم مسائل شامل ہوں گے۔ اس اہم دورے کا مقصد پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو ایک نئے دور میں داخل کرنا ہے۔ دونوں ممالک کی قیادت عالمی اور علاقائی سطح پر تعاون بڑھانے کے لیے مشترکہ حکمت عملی وضع کرے گی، جس کا فائدہ نہ صرف پاکستان اور سعودی عرب بلکہ پورے مسلم دنیا کو بھی پہنچے گا۔ وزیراعظم کے سعودی عرب کے دورے سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت، سرمایہ کاری اور سفارتی تعلقات میں مزید بہتری کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس دورے سے پاکستان کے اقتصادی تعلقات کو نئی توانائی ملے گی اور سعودی عرب کے ساتھ موجودہ تعلقات کو مزید مستحکم کیا جائے گا۔ مزید پڑھیں: ‘کراچی کی ترقی کے لیے50 ارب روپے کا پیکیج جلد متعارف کروایا جائے گا’ شہباز شریف
توانائی کے مراکز کو نشانہ نہیں بنائیں گے، مگر جنگ بندی سے انکار

روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے عارضی طور پر یوکرین کی توانائی تنصیبات پر حملے روک دیے ہیں، لیکن 30 دن کی مکمل جنگ بندی کی حمایت سے انکار کر دیا، جس کی امید سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کی تھی۔ ٹرمپ کا خیال تھا کہ یہ جنگ کے خاتمے کی طرف پہلا قدم ہو سکتا ہے۔ یوکرین نے اس معاہدے کی حمایت کی، جس کے تحت دونوں ممالک ایک ماہ کے لیے ایک دوسرے کے توانائی کے بنیادی ڈھانچے پر حملے بند کریں گے۔ تاہم، ماہرین کے مطابق، مشرقی یوکرین میں روسی فوج کی پیش قدمی کے دوران پوتن نے بڑی رعایتیں دینے سے گریز کیا۔ وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا کہ بحیرہ اسود میں بھی جنگ بندی کے ساتھ ساتھ مکمل امن معاہدے پر مذاکرات جلد شروع ہوں گے۔ یہ فیصلہ منگل کو ٹرمپ اور پوتن کی طویل گفتگو کے بعد ہوا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ یوکرین ان مذاکرات میں شامل ہوگا یا نہیں۔ ٹرمپ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کے مطابق، مذاکرات اتوار کو سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہوں گے۔ کریملن نے کہا کہ پوتن نے ٹرمپ سے بات کرنے کے بعد روسی فوج کو یوکرین کی توانائی تنصیبات پر حملے روکنے کا حکم دیا۔ تاہم، روس کو خدشہ ہے کہ یہ جنگ بندی یوکرین کو مزید فوجی تیاری کا موقع دے سکتی ہے۔ اس لیے روس نے مطالبہ کیا کہ کسی بھی معاہدے کے تحت یوکرین کو ملنے والی فوجی اور انٹیلی جنس امداد مکمل طور پر بند کی جائے۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ وہ 30 دن کے لیے توانائی تنصیبات پر حملے روکنے کی تجویز کی حمایت کریں گے۔ لیکن منگل کی رات روس نے 40 سے زائد ڈرونز فائر کیے، جنہوں نے کیف، سومی اور دیگر علاقوں میں ایک ہسپتال کو نشانہ بنایا۔