پشاور سے اسلحہ و منشیات سکھر لانے کی کوشش منزل پر پہنچ کر ناکام

روہڑی سرکل میں ایکسائز اینڈ نارکوٹکس کنٹرول ونگ نے منشیات فروشوں کے خلاف 10 دنوں میں دوسری بڑی کارروائی کرتے ہوئے بھاری مقدار میں منشیات اور اسلحہ برآمد کرلیا۔ کارروائی اے ای ٹی اوز قمرالدین سیال اور عامر خان کلہوڑ کی سربراہی میں حساس ادارے کے تعاون سے نیشنل ہائی وے روہڑی چیک پوسٹ پر خفیہ اطلاع پر کی گئی۔ کارروائی کے دوران ایک ٹرک کی تلاشی لی گئی جس سے 10 کلو گرام چرس، 8 رائفلز بمعہ 15 میگزین، ایک عدد ٹی ٹی پسٹل بمعہ 2 میگزین اور ہزاروں گولیاں برآمد ہوئیں۔ پولیس نے موقع سے دو ملزمان، شاہد خان اور محمد حسین خان کو گرفتار کرلیا۔ ابتدائی تفتیش کے مطابق اسلحہ اور منشیات پشاور سے سکھر اسمگل کیے جا رہے تھے، جو ممکنہ طور پر مختلف نیٹ ورکس کے ذریعے اندرونِ سندھ پھیلائے جانے تھے۔ صوبائی وزیر ایکسائز سندھ مکیش کمار چاولہ نے کامیاب کارروائی پر چھاپہ مار ٹیم کو شاباش دی اور ہدایت کی کہ منشیات فروشوں کے خلاف آپریشن مزید تیز کیے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے سرحدی علاقوں میں منشیات فروشوں کی سرگرمیوں پر سخت نگرانی رکھی جائے اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے تمام ضروری اقدامات بروئے کار لائے جائیں۔ ایکسائز و نارکوٹکس ونگ نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ صوبے میں منشیات اور غیر قانونی اسلحے کے نیٹ ورکس کے خاتمے تک کارروائیاں جاری رہیں گی۔
کراچی میں رینجرز اور سی ٹی ڈی کی کارروائی، تین مطلوب دہشت گرد گرفتار کرنے کا دعویٰ

کراچی میں سندھ رینجرز اور سی ٹی ڈی کی مشترکہ کارروائی نے دہشت گردی کے ایک بڑے نیٹ ورک کو بے نقاب کر دیا۔ دونوں فورسز نے مل کر تین انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو کراچی کے علاقے کورنگی سے گرفتار کرلیا۔ یہ دہشت گرد “فتنہ الخوارج” گروپ سے تعلق رکھتے ہیں جسے حکومت پاکستان نے گزشتہ سال دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر دہشت گرد قرار دے دیا تھا۔ گرفتار دہشت گردوں میں انعام اللہ عرف لالا، نعیم اللہ عرف عمر زالی اور محمد طیب عرف محمد شامل ہیں، جو کئی دہشت گرد حملوں میں ملوث رہے ہیں۔ سندھ رینجرز کے مطابق یہ تینوں دہشت گرد “حافظ گل بدھور” گروپ کے اہم ارکان ہیں، جنہوں نے سیکیورٹی فورسز پر متعدد حملوں میں حصہ لیا۔ ان کے قبضے سے بڑی مقدار میں اسلحہ، گولہ بارود اور دھماکہ خیز مواد بھی برآمد ہوا ہے۔ نعیم اللہ عرف عمر زالی نے 2014 میں فتنہ الخوارج میں شمولیت اختیار کی تھی اور وہ وازِریستان میں سیکیورٹی فورسز کے خلاف متعدد دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہا۔ اس کا خاندان بھی اسی دہشت گرد گروہ کے اہم کمانڈروں میں شامل تھا، جنہیں سیکیورٹی فورسز نے ہلاک کر دیا۔ انہوں نے کراچی میں آ کر اس نے اپنے نیٹ ورک کو فعال کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ بھی پڑھیں:سینئر صحافی اور رفتار کے ایڈیٹر فرحان ملک کی ضمانت ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور انعام اللہ نے 2017 میں اس گروپ میں شمولیت اختیار کی اور وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کے خلاف کئی حملوں میں حصہ لیا۔ اس کا بھائی بھی اسی گروپ کا حصہ تھا اور وزیرستان میں بہت سرگرم تھا۔ انعام اللہ کراچی آ کر گروپ کے نیٹ ورک کو بڑھانے میں ملوث تھا۔ محمد طیب جو 2023 میں اس گروپ کا حصہ بنا وہ اپنے بھائی کی ہلاکت کے بعد کراچی میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے آیا تھا۔ اس نے گروپ کی کارروائیوں میں سہولت کاری کا کام کیا۔ رینجرز کے مطابق یہ تینوں دہشت گرد کراچی میں مزید دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے لیکن ان کی گرفتاری نے ایک بڑی سازش کو ناکام بنا دیا۔ ان دہشت گردوں کو گرفتاری کے بعد مزید قانونی کارروائی کے لیے سی ٹی ڈی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ یہ گرفتاریاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خلاف اپنی مہم میں کسی بھی قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں اور دہشت گردوں کا کوئی نیٹ ورک کراچی میں امن و امان کی صورتحال کو خراب نہیں کر سکتا۔ مزید پڑھیں: خواتین مسافروں اور کسٹم اہلکاروں نے ایک دوسرے کو تھپڑ دے مارے
پاکستان ٹیم کی کوچنگ نے میری کرکٹ سے محبت کو گہنا دیا، جیسن گلیسپی

سابق آسٹریلوی فاسٹ بولر جیسن گلیسپی نے پاکستان ٹیم کی کوچنگ کے تجربے پر بات کرتے ہوئے ایک انکشاف کیا ہے جس سے ان کے مداحوں اور کرکٹ حلقوں میں مایوسی کی لہر پھیل گئی ہے۔ حالیہ انٹرویو میں جیسن گلیسپی نے کھل کر کہا تھا کہ پاکستان میں کوچنگ کا تجربہ میری توقعات کے مطابق نہ تھا اور یہ میرے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوا۔ جیسن نے سچائی کے ساتھ اعتراف کیا اور کہا کہ “یہ ایک ایسا تجربہ تھا جس نے میری کوچنگ کی محبت کو کھٹا کر دیا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ اس پورے تجربے کے بعد انہیں شدید مایوسی ہوئی اور اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ان کے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ وہ دوبارہ کل وقتی کوچنگ کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔ جیسن گلیسپی نے مزید کہا کہ اگر آسٹریلیا بھی انہیں کوچنگ کی پیشکش کرتا تو وہ اس وقت انکار کر دیتے کیونکہ اس وقت ان کی دلچسپی کوچنگ میں نہیں تھی۔ پاکستان ٹیم کے ساتھ گلیسپی کا سفر مختصر ہی رہا، وہ گیری کرسٹن کے بعد وہ عبوری وائٹ بال کوچ بنے تھے، تاہم جب وہ کوچنگ سے الگ ہوئے تو عاقب جاوید نے عبوری ہیڈ کوچ کا عہدہ سنبھال لیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جیسن گلیسپی نے ایک سابق انٹرویو میں یہ الزام عائد کیا تھا کہ عاقب جاوید نے اپنی کوچنگ کی مہم خود چلائی تھی۔ یہ ایک ایسا تنازعہ ہے جس نے کرکٹ کی دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور اس کے اثرات پاکستان کرکٹ پر واضح طور پر دیکھائی دے رہے ہیں۔ اس خبر نے پاکستان کرکٹ کے چاہنے والوں کو ایک کشمکش میں مبتلا کر دیا ہے کہ آیا اس سب کا اختتام کہاں تک جائے گا؟ مزید پڑھیں: پی ایس ایل 10: تمام میچز میں مکمل اردو کمنٹری ہوگی
امریکی ٹیرف اثر دکھانے لگا: ‘اسٹاک ایکسچینج کا سیاہ دن’، کاروبار بند ہوگیا

پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تجارت معطل کر دی گئی ہے کیونکہ انڈیکس میں 6,000 پوائنٹس سے زیادہ کی کمی آئی تھی۔ اس کمی کی وجہ چین کی جانب سے امریکا پر بھاری ٹیرف عائد کرنے کا ردعمل تھا، جس سے عالمی مارکیٹوں میں مندی کا سامنا ہوا۔ یہ صورتحال عالمی تجارتی جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرات اور ممکنہ عالمی کساد بازاری کے خدشات کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ KSE-100 انڈیکس صبح 11:59 پر 6,287.22 پوائنٹس یا 5.29 فیصد گر کر 112,504.44 پر آ گیا تھا، جو کہ پچھلے دن کے اختتام سے کافی کم تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ کمی سرمایہ کاروں کے خدشات کا نتیجہ ہے کہ امریکی ٹیرف عالمی کساد بازاری کو بڑھا سکتے ہیں۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ٹریڈر جبران سرفراز نے کہا کہ “آج پاکستان اسٹاک ایکسچنج مارکیٹ میں شدید ترین مندی دیکھی گئی، مارکیٹ میں 6 ہزار سے زائد پوائنٹس کی کمی ہوئی ہے، ایک گھنٹے کے لیے بازار بند کیا گیا ہے”۔ ان کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں مندی کی وجہ ٹیرف چارجز کا نفاذ ہے، دنیا بھر کی طرح پاکستان کی مارکیٹ پر بھی اس کے اثرات نمایاں ہیں، ٹیرف چارجز کے اثرات زیادہ تر ایشیائی ممالک کی اسٹاک مارکیٹ پر ہوئے ہیں، اس سلسلے میں تھوڑی پیش رفت کے بعد جلد ہی مارکیٹ ریکور ہو جائے گی”۔ چیس سیکیورٹیز کے یوسف ایم فاروق نے بتایا کہ عالمی کساد بازاری کے خدشات کی وجہ سے مارکیٹوں میں کمی دیکھنے کو ملی، خاص طور پر تیل اور بینکنگ اسٹاک میں فروخت کا دباؤ تھا۔ اگرچہ یہ کمی قلیل مدتی مشکلات پیدا کر سکتی ہے، تاہم عالمی کموڈٹی قیمتوں میں کمی پاکستان کی معیشت کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے، خاص طور پر اگر امریکی ٹیرف کی وجہ سے اشیاء کی قیمتیں کم رہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات، جنہوں نے امریکی تجارتی شراکت داروں کے خلاف بڑے ٹیرف متعارف کرائے، نے عالمی مارکیٹس کو مندی کی طرف دھکیل دیا۔ چین نے 10 اپریل سے امریکی اشیاء پر 34 فیصد جوابی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا، جس سے عالمی مارکیٹوں میں مزید ہلچل مچ گئی۔ یہ صورتحال سرمایہ کاروں کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے، اور عالمی کساد بازاری کے خطرات نے مارکیٹوں کو نیا امتحان دے دیا ہے۔
عید کی خوشیوں پر مہنگائی کا سایہ: کراچی کی مارکیٹوں میں خریداری کم کیوں ہوئی؟

کراچی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں مٹی بھی مہنگے داموں فروخت ہوتی ہے اور جب سیزن میں کاروبار ہوتا ہے تو لوگ دوبئی کو بھول جاتے ہیں۔ کراچی کے تاجروں کےمطابق اس بار عید کے موقع پر کراچی میں کاروباری سرگرمیاں گذشتہ سال کی نسبت محدود ہوئی ہیں۔ آل کراچی تاجر اتحاد کے رہنما عتیق میر کے مطابق کراچی میں عید کی خریداری تقریباً 15 ارب روپے کی ہوئی ہے۔ عید کے موقع پر سامان کی قیمتوں میں 40 سے 50 فیصد اضافہ ہوا، کم خریداری کے بعد عید پر فروخت کیلئے گوداموں میں جمع کیا گیا 60تا 70فیصد سامان دھرا کا دھرا رہ گیا مہنگائی، معاشی تباہی اور قوتِ خرید میں حوصلہ شکن کمی نے تاجروں کے کاروبارمتاثر کیا۔غریب ومتوسط طبقے کی عید کی خوشیاں منانے کے خواب بکھیر دیئے ہیں۔بیشتر خریداروں نے خواہشات کے برعکس صرف ایک سوٹ خریدنے پر اکتفا کیا۔ تاجروں کے لئے کاروباری اور گھریلواخراجات پورے کرنا مشکل ہوگیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا صرف مہنگائی کے سبب عوام کی قوت خرید متاثر ہوئی ہے یا پھر اس کی کئی اور وجوہات بھی ہیں؟ کیونکہ گذشتہ سالوں میں کراچی کے تاجروں کی طرف سے عید کے موقع پر 70 ارب کی خریداری کا دعوی بھی سامنے آیا تھا مگر اس سال نمایاں کمی کی وجوہات کیا ہیں؟ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے صدر کوپریٹو مارکیٹ کے صدر اسلم خان نے بتایا کہ مہنگائی کی وجہ سے کاروبار گذشتہ سالوں کی نسبت صرف پچاس فیصد ہوسکا ہے ،مہنگائی کے علاوہ مارکیٹ کے اطراف میں موجود پتھاروں اور پارکنگ کی وجہ سے لوگوں نے بازار کا رخ کم کیا ہے۔ لوگوں کی آمد و رفت اس کی وجہ سے شدید متاثر ہوئی ہے،ہم نے انتظامیہ کو بارہا شکایت کی جس پر انہوں نے کارروائی بھی کی مگر اس کے بعد یہ لوگ دوبارہ تجازوات قائم کردیتے تھے ۔ سڑک پر قائم اور پارکنگ کی ناکافی سہولیات سے شہری جھنجھلاہٹ کا شکار ہوئے اور انہوں نے دیگر بازاروں کا رخ کیا۔ مہنگائی نے اس قدرخریداری پر اثر ڈالا ہے کہ عید سے پہلے اور بعد میں کیونکہ شادیوں کا سیزن ہوتا ہے تو لوگوں نے جو کپڑے شادی پر استعمال کرنےتھے انہیں ہی عید کے موقع پر استعمال کیا ہے صرف جوتوں اور بچوں کےکپڑوں پر اضافی پیسے خرچ کیے ہیں۔ اسلم خان نے مزید کہا کہ کوپریٹیو مارکیٹ کپڑوں کے حوالے سے سب سے سستی مارکیٹ ہے۔ یہاں عام دنوں میں بھی سامان مناسب قیمت پر فروخت ہوتا ہے مگر عید کے موقع پر خریداری کا رجحان کم رہا ہے۔ کپڑوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے جبھی قوت خرید شدید متاثر ہوئی ہے۔ ہم مارکیٹ کی کل آمدنی بتانے سے تو قاصر ہیں تاہم اس میں کمی لمحہ فکریہ ہے۔ حکومت کو مہنگائی کو کنڑول کرنے اور بہتر معاشی پالیساں بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کم ازکم تہووار کے موقع پر خریداری کرسکیں اور ظاہر ہے آمدنی زیادہ ہوگی توٹیکس ریٹ بھی اضافہ ہوسکے گا۔ ٹریفک پولیس اور کراچی پولیس نے بھی تاجروں کو انتظامی سہولیات فراہم کی ،شکایتی کیپمس قائم کیے جس پر ہم ان کے شکرگزار ہیں۔ کراچی کی مشہور لیاقت آباد سپر مارکیٹ کے صدر طارق رفیق نے کہا کہ صرف کراچی ہی نہیں بلکہ اندرون سندھ سے بھی لوگ خریداری کے لیے اس مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں مگر اس سال کاروبار گذشتہ سال کی نسبت تقریبا 30 سے 40 فیصد کم ہوا ہے۔اس کی بڑی وجہ مہنگائی کے ساتھ ساتھ مارکیٹ کے اطراف میں پارکنگ کی ناکافی سہولیات اور ٹریفک پولیس کی جانب سے گاڑیوں کی لفٹنگ کا معاملہ بھی ہے۔ لیاقت آباد کی مارکیٹ میں متوسط طبقے کے لوگ خریداری کے لیے آتے ہیں ہمارے پاس پارکنگ کی سہولت ناکافی ہے جبکہ رش ہونے کی صورت میں قائم پارکنگ سے اکثر گاڑیاں انتظامیہ کی جانب سے اٹھالی جاتی تھی اب ایک متوسط طبقے کا آدمی جس کا قل بجٹ ہی 2ہزار روپے ہے وہ کس طرح پانچ سو روپے جرمانہ ادا کرسکتا ہے؟ جس کسی کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا اس نے پھر مارکیٹ کا رخ دوبارہ نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت لفٹنگ کا یہ واقعہ ہوتا تھا تو مارکیٹ میں افراتفری بڑھ جاتی تھی اور شہریوں کوخریداری کے لیے پرسکون ماحول دستیاب نہیں ہوتا تھا۔شہری انتظامیہ کو اس حوالے سے مؤثر حکمت عملی کو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ ملیر کی لیاقت مارکیٹ میں بچوں کے کپڑے فروخت کرنے والے دوکاندار عاصم نے بتایا کہ عام طور پر تہووار کے موقع پر لوگ بچوں کے لیے 3 سے پانچ کپڑے لازمی خریدتے تھے، مگر اس بار صرف عید کا ایک سوٹ ہی خرید سکے،15 سو کے سوٹ کی قمیت کو بھی کم کروا کر ہزار روپے میں خریدا گیا۔ اس قسم کی خریداری میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ یہ بات ٹھیک ہے مارکیٹ میں رش زیادہ تھا مگر اکثریت صرف ونڈو شوپنگ کے لیے آئی تھی۔ جامعہ کراچی کے شعبہ معاشیات کی استاد ڈاکٹر صفیہ منہاج اس پوری صورتحال کو تھوڑا مختلف انداز سے دیکھتی ہیں ان کے مطابق یہ بات درست ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے قوت خرید متاثر ہوئی ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ کاروبای سرگرمیاں شدید متاثر ہوئی ہیں۔ تاجر اس لیے آمدنی کو کم بتارہے ہیں تاکہ ایف بی آر سے بچا جاسکے اور ٹیکس سے چھوٹ مل جائے۔ ایک بار دعوی کیا گیا کہ لیاقت آباد کی سپر مارکیٹ نے سب سے زیادہ ٹیکس دیا مگر یہ کیسے ممکن ہے؟ کیونکہ کراچی کی بڑی مارکیٹوں میں آج بھی لین دین کیش کی صورت میں ہوتا ہے تو ایف بی آر کے پاس اس آمدنی کا ریکارڈ کیسے ہوسکتا ہے جس کی بنیاد پر وہ ٹیکس کو اکٹھا کریں گے؟یہ سب ریکارڈ تو دستاویز میں موجود نہیں ہوتا۔ دوسری اہم بات جو تاجروں کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اب لوگ کوالٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ مختلف شاپنگ مالز میں بڑی مارکیٹس کی نسبت زیادہ رش دیکھائی دیتا ہے۔ لوگ ایک برانڈ کا مہنگا جوڑا خریدنے کو زیادہ فوقیت دیتے بجائے اس کے وہ کم کوالٹی کے تین جوڑے خریدیں یہی ایک
چائلڈ پروٹیکشن افسر سے مجرم تک، برطانوی رکن پارلیمنٹ کمسن بچوں سے جنسی زیادتی کے الزام میں گرفتار

برطانوی حکمران جماعت لیبر پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ڈین نورس کو کمسن بچوں سے جنسی زیادتی کے سنگین الزامات میں گرفتار کر لیا گیا۔ نجی نشریاتی ادارے سماء نیوز کے مطابق غیر ملکی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ لندن پولیس نے رکن پارلیمنٹ ڈین نورس کے گھر پر چھاپہ مار کر انہیں حراست میں لیا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ نورس پر کم عمر بچوں سے جنسی زیادتی کا الزام ہے، جس کی تحقیقات جاری ہیں۔ ترجمان کے مطابق متاثرہ فریق کی جانب سے 2024 میں شکایت درج کرائی گئی تھی، تاہم الزامات کا تعلق زیادہ تر واقعات سے ہے جو سن 2000 کی دہائی میں پیش آئے۔ پولیس 2020 میں پیش آنے والے ایک اور مبینہ واقعے کی بھی تفتیش کر رہی ہے۔ مزید پڑھیں: برطانیہ کے شہزادے ہیری پر ہراسانی کے الزامات کیوں لگائے جا رہے ہیں؟ رپورٹس کے مطابق ڈین نورس، رکن پارلیمنٹ بننے سے قبل ٹیچر اور چائلڈ پروٹیکشن آفیسر کی حیثیت سے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ واضح رہے کہ لیبر پارٹی نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ڈین نورس کی جماعتی رکنیت معطل کر دی ہے، جب کہ معاملے کی حساسیت کے پیش نظر تحقیقات مکمل ہونے تک پارٹی ان سے لاتعلقی کا اعلان کر چکی ہے۔
لکی مروت میں سفاکیت کی انتہا، بکری کا بھٹکنا بچے کے لیے وبالِ جان بن گیا

لکی مروت کے علاقے بخمل احمد زئی میں دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا، جہاں ایک ظالم زمیندار نے معمولی بات پر 11 سالہ خالد گل کو قتل کر دیا۔ نجی نشریاتی ادارے سماء نیوز کے مطابق بچہ اپنے والد کے کہنے پر کھیتوں کے قریب جانے والی بکری کو واپس لانے گیا تھا کہ اسی دوران زمیندار طیش میں آگیا اور کلاشنکوف سے فائرنگ کر دی۔ مزید پڑھیں: ہنی ٹریپ اسکینڈل، راولپنڈی پولیس کے اہلکار اسلام آباد میں اغوا برائے تاوان میں ملوث شدید زخمی بچے کو فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ راستے میں ہی دم توڑ گیا۔ پولیس نے بچے کے والد کی مدعیت میں تھانہ تجوڑی میں مقدمہ درج کر لیا ہے، جب کہ ملزم کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
ہنی ٹریپ اسکینڈل، راولپنڈی پولیس کے اہلکار اسلام آباد میں اغوا برائے تاوان میں ملوث

تھانہ سنگجانی کی حدود میں راولپنڈی پولیس کے اہلکاروں کی ہنی ٹریپ کے ذریعے شہریوں کے اغوا میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے، پولیس نے مقدمہ درج کر کے ایک ملزم کو گرفتار کر لیا، جب کہ دیگر کی تلاش جاری ہے۔ نجی نشریاتی ادارے ایکسپریس نیوز کے مطابق پولیس اہلکاروں نے ایک خاتون ساتھی کی مدد سے دو شہریوں، مزائن اور ملوک کو اغوا کیا۔ ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ اغوا کار عورت کو استعمال کرکے شہریوں کو ملاقات کے بہانے بلا کر اغوا کرتے تھے۔ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ملزم شاہد اقبال کو گرفتار کر لیا ہے، جب کہ دیگر مفرور ملزمان میں پولیس اہلکار زائد عثمان، آفاق طارق طاہر اور ان کی ساتھی خاتون نادیہ شامل ہیں۔ وااضح رہے کہ پولیس نے فرار ملزمان کی گرفتاری کے لیے مختلف مقامات پر چھاپے مارنے کا آغاز کر دیا ہے۔ واقعے کی سنگینی کے پیش نظر اعلیٰ حکام نے بھی نوٹس لے لیا ہے۔
انڈیا: زندگی دینے والا اسپتال یا موت کا مرکز؟ جعلی ڈاکٹر نے سات جانیں لے لیں

انڈین ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع دموہ میں واقع ایک اسپتال میں جعلی ڈاکٹر کے ہاتھوں 7 مریضوں کی ہلاکت نے علاقے میں خوف و ہراس پھیلا دیا۔ انڈین میڈیا کے مطابق دموہ شہر کے ایک کرسچن مشنری اسپتال میں ایک ماہ کے دوران دل کی بیماری میں مبتلا مریضوں کی پرسرار اموات ہوئیں، جن کی تعداد کم از کم 7 بتائی جا رہی ہے۔ تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا کہ اسپتال میں خدمات انجام دینے والا شخص جو خود کو ماہر امراضِ قلب ظاہر کر رہا تھا، دراصل جعلی ڈاکٹر نکلا۔ ملزم نے ‘ڈاکٹر جان کیم’ کے نام سے اسپتال میں ملازمت اختیار کی تھی۔ مزید تحقیقات میں معلوم ہوا کہ جعلی ڈاکٹر کا اصل نام نریندر وکرمادتیہ یادو ہے، جس نے برطانیہ کے ایک معروف کارڈیالوجسٹ سے ملتے جلتے جعلی دستاویزات کے ذریعے اسپتال میں تقرری حاصل کی۔ ضلعی تفتیشی ٹیم نے اسپتال پر چھاپہ مار کر تمام ریکارڈ قبضے میں لے لیا ہے، جب کہ ملزم کے خلاف حیدرآباد میں پہلے سے ایک فوجداری مقدمہ بھی درج ہے۔ چائلڈ ویلفیئر کمیٹی کے ضلعی صدر اور وکیل دیپک تیواری نے دعویٰ کیا ہے کہ سرکاری طور پر ہلاکتوں کی تعداد 7 بتائی جا رہی ہے، لیکن اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے پر عدالت میں باضابطہ شکایت بھی درج کروا چکے ہیں۔
میانمار زلزلہ: آٹھویں دن بھی موت کی بُو آرہی ہے

میانمار میں آنے والے شدید زلزلے کے بعد انسانی المیے کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 3,354 ہو چکی ہے، جبکہ 4,850 افراد زخمی اور 220 لاپتہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے امدادی سربراہ ٹام فلیچر نے امدادی کارروائیوں میں انسانی ہمدردی اور کمیونٹی گروپوں کے کردار کو سراہا اور کہا کہ وہ لوگ جو خود سب کچھ کھو چکے، وہ بھی دوسروں کی مدد کے لیے میدان میں ہیں۔ فوجی حکومت کے سربراہ من آنگ ہلینگ عالمی سربراہی اجلاس میں شرکت کے بعد نیپیتاو واپس لوٹے ہیں، جہاں انہوں نے علاقائی رہنماؤں سے ملاقات کی۔ انہوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو دسمبر میں آزاد اور منصفانہ انتخابات کرانے کے ارادے سے آگاہ کیا۔ تاہم، ناقدین ان انتخابات کو فوجی اقتدار کو جاری رکھنے کی ایک چال سمجھتے ہیں۔ نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد سے ملک مسلسل سیاسی اور سماجی بحران کا شکار ہے۔ خانہ جنگی، معاشی تباہی، اور صحت کی سہولیات کی کمی نے عوام کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے، جو اب زلزلے کی تباہ کاریوں سے مزید متاثر ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق، ملک میں تیس لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں، جبکہ ایک تہائی آبادی کو فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ زلزلے کے بعد کچھ علاقوں میں جنتا کی جانب سے امدادی رسد روکنے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں حکومت مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے انکشاف کیا ہے کہ فوج کی جانب سے مخالفین پر 53 حملے کیے گئے، جن میں 16 حملے اس ہفتے کی جنگ بندی کے اعلان کے بعد ہوئے۔ ان میں فضائی حملے بھی شامل ہیں، اور یہ الزامات اب تحقیقات کا حصہ ہیں۔