محکمہ موسمیات نے شدید گرمی کی لہر سے متعلق پیشگی انتباہ جاری کردیا

Summer ii

ملک کے بیشتر علاقوں میں آئندہ چند روز کے دوران موسم شدید گرم اور خشک رہنے کا امکان ہے، جب کہ میدانی علاقوں میں درجہ حرارت معمول سے 4 سے 6 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہنے کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق پیر کی رات اور منگل کے روز گلگت بلتستان، بالائی خیبرپختونخوا، کشمیر اور ملحقہ پہاڑی علاقوں میں بعض مقامات پر تیز ہواؤں، آندھی اور گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ اسلام آباد اور گردونواح میں موسم شدید گرم اور خشک رہے گا۔ خیبرپختونخوا کے بیشتر اضلاع میں موسم گرم اور خشک، جب کہ جنوبی و وسطی اضلاع میں شدید گرمی متوقع ہے۔ ایبٹ آباد، کوہستان اور ملحقہ علاقوں میں بعد از دوپہر جزوی طور پر مطلع ابر آلود رہنے اور ہلکی بارش کا امکان ہے۔ پنجاب کے بیشتر اضلاع میں بھی موسم شدید گرم اور خشک رہے گا، مری، گلیات اور قرب و جوار میں بعد از دوپہر جزوی ابر آلود موسم کے ساتھ تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ ہلکی بارش متوقع ہے۔ سندھ میں بھی گرمی کی شدت برقرار رہے گی اور بعد از دوپہر تیز یا گرد آلود ہوائیں چلنے کی توقع ہے۔ بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں موسم گرم اور خشک، جب کہ جنوبی علاقوں میں شدید گرم رہے گا، اس دوران تیز ہواؤں کے چلنے کی پیشگوئی ہے۔ کشمیر اور گلگت بلتستان میں مطلع جزوی طور پر ابر آلود رہے گا، جہاں کشمیر کے بعض مقامات پر تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ ہلکی بارش ہو سکتی ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک کے بیشتر علاقوں میں موسم گرم اور خشک رہا، جب کہ بالائی خیبرپختونخوا، خطہ پوٹھوہار اور گلگت بلتستان میں آندھی و گرج چمک کے ساتھ کہیں کہیں بارش ہوئی۔ سب سے زیادہ بارش خیبرپختونخوا کے چراٹ اور پٹن میں 4 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی۔ مزید پڑھیں: ہیٹ ویو: کب تک رہے گی یہ قیامت خیز گرمی؟ پنجاب کے اٹک، اسلام آباد، راولپنڈی اور مری میں بھی معمولی بارش ہوئی، جب کہ گلگت بلتستان کے بگروٹ میں 2 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ ملک میں سب سے زیادہ درجہ حرارت دادو اور جیکب آباد میں 48 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا، جب کہ لاڑکانہ، روہڑی اور سبی میں درجہ حرارت 46 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔ دیگر شہروں میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت اسلام آباد 39، لاہور 41، کراچی 35، پشاور 43، کوئٹہ 36، گلگت 34، مظفرآباد 41، مری 27، فیصل آباد 41، ملتان 41، سری نگر 29، جموں 40، لہہ 20، پلوامہ 28، اننت ناگ 29، شوپیاں 28 اور بارہ مولہ میں 28 ڈگری سینٹی گریڈ رہا۔ یہ بھی پڑھیں: جوڈیشل کمیشن اجلاس، بلوچستان ہائیکورٹ کے مستقل چیف جسٹس کی تعیناتی کی منظوری محکمہ موسمیات نے ملک کے بیشتر میدانی علاقوں میں آئندہ چار روز تک جاری رہنے والی شدید گرمی کی لہر سے متعلق پیشگی انتباہ جاری کیا ہے اور شہریوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔

ہیٹ ویو: کب تک رہے گی یہ قیامت خیز گرمی؟

Heat wave

پاکستان اس وقت شدید ہیٹ ویو کی لپیٹ میں ہے اور ملک کے کئی علاقے معمول سے کہیں زیادہ درجہ حرارت کا سامنا کر رہے ہیں۔ سڑکیں سنسان، چھاؤں قیمتی اور پانی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔ مئی کے مہینے میں گرمی کی شدت نے گزشتہ کئی سالوں کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور لوگوں کی زندگیوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ شہری علاقوں میں تیز دھوپ، خشک ہوائیں اور مسلسل بڑھتا ہوا درجہ حرارت لوگوں کو ذہنی اور جسمانی اذیت میں مبتلا کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ ہیٹ ویو کب ختم ہوگی اور عوام کو اس جان لیوا گرمی سے کب نجات ملے گی؟ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے ڈی جی عرفان علی کاٹھیا نے کہا کہ جنوبی پنجاب کے اضلاع بہاولپور، رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان اور ملتان میں ہیٹ ویو کی لہر شدید ہو سکتی ہے، حال ہی میں بہاولنگر میں 44 ڈگری سینٹی گریڈ، رحیم یار خان 45، بھکر 44، جب کہ کوٹ ادو میں 44 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ لاہور سمیت میدانی علاقوں میں تقریباً 42 ڈگری تک درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ، سرگودھا، ساہیوال، اوکاڑہ، ملتان، منڈی بہاوالدین، خانیوال، قصور، لیہ، جھنگ، حافظ آباد اور فیصل آباد میں 40 سے 42 ڈگری تک ریکارڈ کیا گیا۔ ڈاکٹر آمنہ لطیف، جو نشتر اسپتال کی ایمرجنسی میں خدمات انجام دے رہی ہیں، نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ لوگ شدید جسمانی کمزوری، لو لگنے اور ڈی ہائیڈریشن کے باعث اسپتال آ رہے ہیں۔ اگر بروقت طبی امداد نہ ملے تو معاملہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر آمنہ لطیف کا کہنا کہ گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے بنیادی احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ دن کے اوقات خاص طور پر صبح 11 بجے سے سہ پہر 4 بجے تک، غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے گریز کیا جائے۔ ہلکے رنگوں اور ڈھیلے کپڑوں کا استعمال کیا جائے تاکہ جسم میں گرمی کا دباؤ کم رہے۔ ان کے مطابق پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے، چاہے پیاس نہ بھی لگے۔ لیموں پانی، نمکول اور ORS جیسے محلول جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی کو پورا کرتے ہیں اور لو لگنے سے بچاتے ہیں۔ باہر نکلتے وقت سر کو گیلا کپڑا یا ٹوپی سے ڈھانپیں اور سایہ دار راستوں کو ترجیح دیں۔ اگر دھوپ میں جانا مجبوری ہو تو بار بار پانی پینا اور وقفے لینا نہ بھولیں، ہیٹ ویو سے سب سے زیادہ متاثر وہ افراد ہوتے ہیں، جو دھوپ میں کام کرتے ہیں جیسے تعمیراتی مزدور، ٹریفک پولیس اہلکار، رکشہ یا ریڑھی چلانے والے اور کھلے آسمان تلے روزی کمانے والے عام، لوگ ان کے پاس نہ تو سایہ ہوتا ہے نہ پانی کی سہولت اور نہ ہی مناسب طبی سہولیات۔ اس کے علاوہ بچے، بزرگ شہری، حاملہ خواتین اور وہ افراد جو شوگر یا بلڈ پریشر جیسے دائمی امراض میں مبتلا ہیں، بھی ہیٹ ویو سے جلد متاثر ہوتے ہیں۔ اسپتالوں کی ایمرجنسیز میں گرمی سے متاثرہ افراد کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ہیٹ ویو سے نمٹنے میں حکومت اور اداروں کا کردار بھی انتہائی اہم ہے۔ اگرچہ عوام کو انفرادی طور پر احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہییں، لیکن ریاستی سطح پر مؤثر اقدامات کی شدید ضرورت ہے۔ ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ بڑے شہروں میں ہنگامی کولنگ پوائنٹس قائم کیے جائیں، جہاں عوام کو پینے کا پانی، فرسٹ ایڈ اور سایہ میسر ہو۔ مزدور طبقے کے لیے دن کے اوقاتِ کار میں نرمی کی جائے تاکہ وہ دن کی تپتی دھوپ میں کام کرنے پر مجبور نہ ہوں۔ اسپتالوں میں خصوصی ہیٹ اسٹروک یونٹس قائم کیے جائیں اور طبی عملے کو ہنگامی صورت حال کے لیے تیار رکھا جائے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ آگاہی مہمات کے ذریعے عوام کو بروقت، درست اور مفید معلومات فراہم کرے تاکہ لوگوں میں ہیٹ ویو سے بچاؤ کا شعور پیدا ہو۔ ماہرِ ماحولیات ڈاکٹر کامران مغل نے پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہیٹ ویوز اور گلوبل وارمنگ کی شدت کم کرنے کے لیے ہمیں فوری طور پر شہری جنگلات (Urban Forests) کے قیام، شجرکاری اور سرسبز جگہوں میں اضافے پر کام کرنا ہوگا۔ درخت نہ صرف زمین کا درجہ حرارت کم کرتے ہیں بلکہ آکسیجن فراہم کرتے ہیں، زہریلی گیسوں کو جذب کرتے ہیں اور بارشوں کے امکانات بھی بڑھاتے ہیں۔ ہر شہر، ہر گلی اور ہر گھر میں درخت لگانا اب کوئی آپشن نہیں بلکہ ایک مجبوری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ گرین بیلٹس پر عمارتیں بنانے کے بجائے وہاں شجرکاری کو فروغ دے۔ اگر ہم نے اب بھی درختوں کو اہمیت نہ دی تو آنے والے سالوں میں گرمی اور موسمی آفات ہماری برداشت سے باہر ہو جائیں گی۔ موجودہ حالات اس بات کا ثبوت ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی اب صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں رہا بلکہ ایک انسانی بحران بن چکا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں پہلے ہی صحت کی سہولیات محدود اور وسائل ناکافی ہیں، وہاں ہیٹ ویو جیسے حالات مزید مشکلات کھڑی کرتے ہیں۔ ماہرینِ ماحولیات خبردار کر چکے ہیں کہ اگر حکومت نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر قابو نہ پایا، شہروں میں سبزے کو فروغ نہ دیا اور ماحولیاتی پالیسیوں کو مؤثر نہ بنایا تو آنے والے سالوں میں گرمی کی یہ لہریں مزید خطرناک شکل اختیار کر سکتی ہیں۔ ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ہیٹ ویو محض ایک عارضی موسمی رجحان نہیں بلکہ ہماری زندگیوں، صحت اور مستقبل کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ نہ صرف خود احتیاط کریں بلکہ اپنے اردگرد کے لوگوں، خصوصاً بچوں، بزرگوں اور کمزور طبقات کی مدد بھی کریں کیونکہ صرف شعور، احتیاط اور باہمی تعاون ہی ہمیں اس قدرتی آزمائش سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

معرکہ حق: پاکستان نے انڈیا کو کیسے مات دی؟ دستاویزی فلم نے تہلکہ مچادیا

Marka haq

ایک چشم کشا اور شواہد پر مبنی 27 منٹ 51 سیکنڈ دورانیے کی دستاویزی فلم “معرکہ حق“  نے جنوبی ایشیا کے جیو اسٹریٹیجک منظرنامے میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ فلم میں پہلگام فالس فلیگ آپریشن کو بے نقاب کرتے ہوئے انڈیا کے گمراہ کن بیانیے کو منطقی اور ناقابل تردید شواہد کے ذریعے چیلنج کیا گیا ہے۔ دستاویزی فلم یہ واضح کرتی ہے کہ پہلگام واقعہ انڈیا کی جانب سے رچی گئی ایک منظم سازش تھی جو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کا حصہ تھی۔ بریکنگ معرکہ حق — ایک سنسنی خیز اور حقائق پر مبنی دستاویزی فلم جاری (دورانیہ:27 منٹ 51 سیکنڈ) "معرکہ حق " 27 منٹ 51 سیکنڈ پرمشتمل جامع اور معلوماتی دستاویزی فلم ہے جو مستند حقائق پر مبنی ہے یہ فلم نہ صرف ہندوستان کے پہلگام فالس فلیگ آپریشن کو بے نقاب کرتی ہے بلکہ پاکستان کی… pic.twitter.com/k96VgXRloi — PTV News (@PTVNewsOfficial) May 18, 2025 تاہم پاکستان نے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر انڈیا دعوؤں کو جھوٹا ثابت کر دیا اور جعلی دہشت گرد کیمپوں کی حقیقت عالمی برادری کے سامنے کھول کر رکھ دی۔ معرکہ حق میں 10 مئی کو آپریشنبنیانمرصوص کے تحت پاکستان کی جانب سے دیا گیا فیصلہ کن عسکری جواب بھی تفصیل سے پیش کیا گیا ہے جو انڈیا کے جنگی جنون کے مقابل ایک واضح پیغام بن کر ابھرا۔ فلم میں پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی بروقت فیصلہ سازی اور ہم آہنگی کو اجاگر کیا گیا ہے جبکہ افواجِ پاکستان کے پیشہ ورانہ ردعمل اور عوامی حمایت کو بھی مؤثر انداز میں دکھایا گیا ہے۔ یہ فلم نہ صرف جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو متاثر کرنے والے ایک اہم تاریخی لمحے کو محفوظ کرتی ہے بلکہ ناظرین کو حقائق پر مبنی غیر جانبدار تجزیے کے ذریعے واقعات کی اصل تصویر دکھانے کا دعویٰ بھی کرتی ہے۔ مزید پڑھیں: فنکاروں کے بعد انڈیا نے پاکستانی گانوں پر بھی پابندی لگا دی

پاکستان اور جہنم میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے، تو جہنم جانا پسند کروں گا، جاوید اختر

Javed akhtar

معروف انڈین شاعر اور سکرپٹ رائٹر جاوید اختر نے کہا ہے کہ اگر انہیں جہنم اور پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے، تو وہ جہنم جانا پسند کریں گے۔ ممبئی میں ایک کتاب کی رونمائی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کہ وہ جب بھی تمام فریقین کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی بات کرتے ہیں، تو ہر طرف سے تنقید کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: صرف تین مہینوں میں فیملی عدالتوں کے کیسز میں ریکارڈ اضافہ، معاشرتی شعور یا بڑھتے مسائل؟ جاوید اختر نے کہا کہ اگر وہ صرف ایک طرف کی حمایت کریں، تو دوسری طرف سے ناراضگی آتی ہے، لیکن اگر وہ سب کی نمائندگی کریں تو ہر جانب سے گالیاں پڑتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے ایکس اور واٹس ایپ پر تعریف کے ساتھ ساتھ تنقیدی پیغامات اور گالیاں بھی مسلسل آتی رہتی ہیں، خاص طور پر دونوں انتہا پسند گروہوں کی طرف سے۔ جاوید اختر نے طنزاً کہا کہ جب ایک فریق گالیاں دینا بند کر دیتا ہے تو وہ خود کو شک میں ڈال لیتے ہیں کہ کہیں انہوں نے کوئی غلط بات تو نہیں کر دی۔ اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ ایک طرف سے انہیں ’کافر‘ کہہ کر جہنم کی وعید دی جاتی ہے جبکہ دوسری جانب سے انہیں ’جہادی‘ کہہ کر پاکستان جانے کا مشورہ دیا جاتا ہے، اس لیے اگر ان کے پاس صرف یہ دو راستے رہ جائیں تو وہ جہنم کو ترجیح دیں گے۔ انہوں نے اپنے بیان میں ممبئی اور مہاراشٹر کا بھی ذکر کیا کہ وہ جب 19 سال کے تھے تو ممبئی آئے تھے، اور جو کچھ بھی بنے ہیں اسی شہر کی وجہ سے بنے ہیں۔ یاد رہے کہ جاوید اختر پہلے بھی اپنے متنازع بیانات کی وجہ سے خبروں میں رہ چکے ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب انہوں نے پلوامہ حملے کے بعد پاکستانی فنکاروں کے خلاف بیانات دیے تھے، جن پر پاکستانی اداکاروں بشریٰ انصاری اور دیگر نے انہیں سخت ردعمل دیا تھا۔

انڈین ٹریول وی لاگر جیوتی ملہوترا پاکستان کے لیے حساس معلومات شیئر کرنے کے الزام میں گرفتار

Jeevti malhotra

انڈیا کی معروف ٹریول وی لاگر جیوتی ملہوترا کو ایک پاکستانی شہری سے مبینہ روابط اور حساس معلومات کے تبادلے کے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا گیا ہے۔ عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو نے اے این آئی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جیوتی ملہوترا نے دہلی میں ایک پاکستانی افسر سے ملاقات کی اور مبینہ طور پر دو بار پاکستان کا سفر بھی کیا۔ ہریانہ پولیس کے مطابق جیوتی ملہوترا کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور انڈیا نیا سَنگھتا (بی این ایس) کی دفعہ 152 کے تحت گرفتار کیا گیا ہے، جو قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے سے متعلق ہے۔ ڈی ایس پی کمل جیت کے مطابق “جیوتی ملہوترا مسلسل ایک پاکستانی شہری کے ساتھ رابطے میں تھیں، ان کے موبائل فون اور لیپ ٹاپ سے کچھ مشکوک مواد بھی برآمد کیا گیا ہے۔” مزید پڑھیں: پاکستان اسلام کی بنیاد پر بنا، کسی سیاستدان یا آرمی چیف کے لیے نہیں، حافظ نعیم الرحمان واضح رہے کہ پولیس کا کہنا ہے کہ جیوتی کو پانچ روزہ ریمانڈ پر لیا گیا ہے اور ان سے تفتیش کا عمل جاری ہے۔ جیوتی ملہوترا کون ہیں؟ بی بی سی اردو کے مطابق جیوتی ملہوترا کا تعلق انڈین ریاست ہریانہ کے ضلع حصار سے ہے اور وہ ایک معروف ٹریول وی لاگر کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کی بڑی فین فالوئنگ ہے، جن میں یوٹیوب پر 3.5 لاکھ سبسکرائبرز، جب کہ انسٹاگرام پر ایک لاکھ سے زائد فالوورز شامل ہیں۔ ان کے سوشل میڈیا چینلز پر پاکستان کے مختلف شہروں کے سفر کی ویڈیوز موجود ہیں، جن میں وہ پاکستانی عوام سے دوستانہ بات چیت کرتی، کھانے پینے کی اشیاء خریدتی اور دونوں ملکوں کی قیمتوں کا موازنہ کرتی نظر آتی ہیں۔ انسٹاگرام پر ایک ویڈیو میں وہ پاکستان میں ایک دکاندار سے سگریٹ اور چپس کی قیمت دریافت کر رہی ہیں، جب کہ ایک اور کلپ میں انہیں چائے پیتے ہوئے اور اس کی قیمت کا تقابل کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: لاہور، مصری شاہ میں رنگ سازی کی آڑ میں وارداتیں کرنے والا گینگ گرفتار یاد رہے کہ گزشتہ دنوں انڈین میڈیا کی جانب سے انڈین پنجاب میں 2 افراد کو مبینہ طور پر پاکستان کے لیے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ انڈین میڈیا کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ دونوں افراد پر پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک اہلکار کے لیے جاسوسی کا الزام ہے، ایک ملزم پر انڈین فوج کی نقل و حرکت کی معلومات لیک کرنے کا الزام ہے۔ انڈین میڈیا کے مطابق جاسوسی کے الزام میں گرفتار2 افراد میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔ دوسری جانب انڈین پالیسیوں اور حالیہ بھارت جنگ پر سوالات اٹھانے کی پاداش میں مقبوضہ کشمیر میں بھی 23 افراد کو گرفتار کرکے مختلف جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ کشمیری میڈیا کے مطابق انڈین فورسز نے سری نگر کے مختلف علاقوں میں چھاپے مار کر بدنام زمانہ قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جن افراد کو گرفتار کیا ہے ان پر آن لائن سرگرمیوں میں انڈیا کی مخالفت یا انڈین موقف کے ںرخلسف رائے رکھنے کا الزام لگایا گیا ہے۔

فنکاروں کے بعد انڈیا نے پاکستانی گانوں پر بھی پابندی لگا دی

Sportyfy

انڈیا میں پاکستانی فنکاروں اور ان کے کام پر ایک بار پھر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ حالیہ دنوں انڈیا اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد انڈین حکومت نے ڈیجیٹل میڈیا پر پاکستانی نژاد مواد کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق انڈیا وزارت اطلاعات و نشریات نے اوور دی ٹاپ (OTT) اور اسٹریمنگ پلیٹ فارمز کو نئے آئی ٹی قوانین کے تحت ہدایت جاری کی ہے کہ وہ سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر پاکستانی-origin مواد فوری طور پر ہٹا دیں۔ ان ہدایات کے بعد اسپاٹیفائی انڈیا نے کئی پاکستانی گانے جیسے “فاصلہ” اور “ماند” کو اپنی فہرست سے ہٹا دیا ہے جبکہ مختلف فلموں اور ڈراموں کے پروموشنل میٹریل سے پاکستانی اداکاروں کی تصاویر بھی غائب کی جا رہی ہیں۔ لازمی پڑھیں: وزیرریلوے کی وزیراعلیٰ سے ملاقات: ’مریم نواز نوجوانوں کا ماں کی طرح خیال رکھ رہی ہیں‘ اس عمل کی وجہ انڈیا میں حالیہ حادثہ ہے جب پہلگام میں انڈین سیاحوں کی ہلاکت کا الزام پاکستان پر عائد کیا گیا حالانکہ بعد میں انڈٰین فوج کے ایک اعلیٰ جنرل نے اسے “فالس فلیگ آپریشن” قرار دے کر اعتراف کیا کہ اس کارروائی کا مقصد پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنا تھا۔ پابندی کے فوراً بعد انڈیا میں ریلیز کے منتظر کئی فلمی اور ڈرامائی منصوبے، جن میں پاکستانی فنکار فواد خان اور ہانیہ عامر کے پراجیکٹس شامل تھے، اچانک روک دیے گئے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد پاکستانی فنکاروں نے انڈین حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے انڈین حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پابندی کو بھی “بچکانہ” اور “خوف پر مبنی حکمت عملی” قرار دیا۔ شوبز انڈسٹری سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ انڈیا بار بار پاکستانی فنکاروں پر پابندیاں لگا کر اس خوف کا اظہار کر رہا ہے کہ پاکستانی ٹیلنٹ کہیں ان کی انٹرٹینمنٹ مارکیٹ پر حاوی نہ ہو جائے۔ مزید پڑھیں: ترک سفیر الخدمت کا رضا کار بن گیا 

گلوکار عطا اللہ خان کی بیٹی نے ہالی وڈ فلم ‘مشن امپاسیبل’ میں ویژول ایفیکٹس پر کام مکمل کرلیا

Laraib ata

پاکستانی نژاد ویژول ایفیکٹس آرٹسٹ لاریب عطا نے ہالی ووڈ کی معروف فلم ‘مشن امپاسیبل، دی فائنل ریکننگ‘ میں اپنے فن کا لوہا منوا لیا ہے۔ عالمی شہرت یافتہ گلوکار عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی کی صاحبزادی لاریب عطا اور اُن کی ٹیم نے اس فلم کے تمام ویژول ایفیکٹس مکمل کر لیے ہیں۔ فلم کا ٹریلر پہلے ہی ریلیز ہو چکا ہے جس میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال نے شائقین کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ مشن امپاسیبل، دی فائنل ریکننگ ایک ایکشن سے بھرپور فلم ہے جو 23 مئی کو دنیا بھر میں ریلیز ہونے جا رہی ہے۔ لاریب عطا کا کہنا ہے کہ وہ مسلسل محنت اور پیشہ ورانہ لگن کے ساتھ ہر پراجیکٹ میں اپنی بہترین صلاحیتیں پیش کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پرامید ہیں کہ اس فلم میں ان کا کام بھی بین الاقوامی سطح پر سراہا جائے گا جیسا کہ ان کے گزشتہ منصوبے پذیرائی حاصل کر چکے ہیں۔ فلم میں ویژول ایفیکٹس کی ذمہ داری مکمل طور پر لاریب اور اُن کی ٹیم نے انجام دی ہے۔ مزید پڑھیں: والد کی میراث کے امین ساجد علی سدپارہ نے دنیا کی ساتویں بلند ترین چوٹی سر کر لی

نرس: زندگی کی محافظ، معاشرے کی خاموش سپاہی

Nurse

ہر سال 12 مئی کو دنیا بھر میں “نرسوں کا عالمی دن” منایا جاتا ہے، جو نہ صرف نرسنگ کے پیشے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ ان افراد کو خراجِ تحسین بھی پیش کرتا ہے، جو دن رات مریضوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ دن جدید نرسنگ کی بانی فلورنس نائٹ اینگل کی یومِ پیدائش کے طور پر بھی یاد رکھا جاتا ہے وہ عظیم خاتون جنہوں نے جنگی میدان میں زخمیوں کی خدمت کو فرض سمجھ کر نرسنگ کو باقاعدہ شعبے کی حیثیت دلوائی۔ نرس صرف ایک تیماردار نہیں، بلکہ مریض کی نفسیات، صحت، جذبات، درد اور امید کا خاموش ساتھی ہوتی ہے۔ اسپتال کی خاموش راہداریوں میں، ایمرجنسی وارڈ کی بھاگ دوڑ میں، آپریشن تھیٹر کی گھمبیر فضا میں ایک نرس ہمیشہ موجود ہوتی ہے۔ ڈاکٹرز کا علاج اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک نرس اپنے مشاہدے، مہارت اور ہمدردی سے مریض کی مکمل دیکھ بھال نہ کرے۔ یہ بھی پڑھیں:،’مسئلہ کشمیر کا مستقل حل‘، پاکستان امریکی صدر کی کوششوں کو خوش آئند قرار دیتا ہے، دفتر خارجہ کووڈ-19 جیسی وباؤں کے دوران دنیا نے دیکھا کہ نرسنگ اسٹاف نے فرنٹ لائن پر کھڑے ہو کر اپنی زندگیاں داؤ پر لگا دیں۔ یہ وہ وقت تھا جب سفید لباس پہنے ان سپاہیوں نے صرف جسمانی خدمت ہی نہیں کی، بلکہ امید اور حوصلے کا استعارہ بھی بن گئیں۔ پاکستان میں نرسنگ کا سفر بیگم رعنا لیاقت علی خان کی کوششوں سے شروع ہوا، جنہوں نے 1949ء میں ادارہ جاتی بنیاد رکھی۔ آج ملک میں 162 نرسنگ ادارے موجود ہیں، مگر افرادی قوت اور سہولتوں کی شدید کمی اب بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں نرسنگ کو وہ عزت حاصل نہیں جس کی یہ مستحق ہے۔ نائٹ شفٹ کرنے والی نرسوں پر قدامت پسند طبقے کی تنقید، خواتین کے لیے اس پیشے میں داخلے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اس کے برعکس دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں نرسنگ ایک باوقار، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مالی طور پر مستحکم کیریئر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ پاکستان میں نرسنگ کی تعلیم اب بی ایس سی، ایم ایس سی اور ڈاکٹریٹ سطح تک دستیاب ہے۔ پاکستان نرسنگ کونسل کے تحت مختلف تربیتی پروگرامز جاری ہیں، لیکن عملی میدان میں نرسز کی کمی، اسپتالوں میں سہولتوں کی قلت، اور صنفی امتیاز، اس شعبے کو ترقی سے روک رہے ہیں۔ دنیا بھر میں نرسنگ کا شعبہ زوال کا شکار ہے، تاہم فلپائن جیسے ممالک نے نرسنگ کو عالمی سطح پر ایکسپورت ایبل پروفیشن بنا کر اپنے عوام کو باعزت روزگار فراہم کیا۔ پاکستان بھی اس ماڈل کو اپنا کر نہ صرف مقامی کمی پوری کر سکتا ہے بلکہ عالمی منڈی میں بھی اپنی جگہ بنا سکتا ہے۔ نرس نہ صرف ایک پیشہ ور ہے، بلکہ ہمارے معاشرے کی بیٹی، بہن، بیٹا اور بھائی بھی ہے۔ نرسنگ کو محض ضرورت کا پیشہ نہیں بلکہ خدمت، ہمدردی، سچائی اور قربانی کی علامت سمجھا جانا چاہیے۔ معاشرتی تعصبات، ثقافتی رکاوٹیں اور فرسودہ خیالات کو پیچھے چھوڑ کر ہمیں اپنے ہیروز کو پہچاننا ہوگا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری صحت کا نظام مضبوط ہو، تو ہمیں نرسنگ کو دل سے اپنانا ہوگا۔ یہ پیشہ صرف زندگی بچانے کا نہیں بلکہ زندگی سے محبت کرنے کا نام ہے۔یاد رکھیے، نرسنگ محض ایک ڈگری نہیں یہ انسانیت کی عبادت ہے۔

والد کی میراث کے امین ساجد علی سدپارہ نے دنیا کی ساتویں بلند ترین چوٹی سر کر لی

Sajid ali sadpara

ساجد علی سدپارہ نے دنیا کی ساتویں بلند ترین چوٹی دھولاگیری کو بغیر آکسیجن یا کسی قسم کی مدد کے سر کرکے ایک اور ناقابلِ فراموش کارنامہ انجام دیا ہے۔ نیپال میں واقع یہ چوٹی 8,167 میٹر بلند ہے، اور ساجد نے اسے ایسے وقت میں سر کیا جب موسم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے خطرناک بلندیوں پر قدم رکھا۔ ان کی یہ مہم 2025 کے بہار سیزن میں دھولاگیری کی پہلی کامیاب چڑھائی بھی قرار دی گئی ہے۔ ساجد کی یہ نویں 8,000 میٹر سے بلند چوٹی ہے، اور خاص بات یہ ہے کہ وہ ان تمام کو بغیر آکسیجن اور بیرونی مدد کے سر کر چکے ہیں۔ ان کا مشن ان کے مرحوم والد محمد علی سدپارہ کے خواب کی تکمیل ہے، جنہوں نے کے ٹو کی سردیوں میں مہم کے دوران اپنی جان گنوائی۔ یہ بھی پڑھیں : فیکٹ چیک: JF-17 تھنڈر کا آغاز کیا میاں نواز شریف کا فیصلہ تھا؟ ساجد نے اپنی کم عمری میں ہی انتہائی بلندی پر کوہ پیمائی کی دنیا میں اپنی ایک الگ پہچان بنا لی ہے، اور وہ پہلے ہی ایورسٹ، کے ٹو، نانگا پربت، براڈ چوٹی، گاشربرم-ون اور گاشربرم-ٹو کو بھی سر کر چکے ہیں۔ سدپارہ کی دھولاگیری مہم کے دوران انہوں نے نہ صرف رسیاں باندھ کر راستہ محفوظ کیا بلکہ رات کے اندھیرے میں انتہائی خطرناک حالات میں اپنا سفر جاری رکھا۔ ان کی ٹیم نے کیمپ 4 سے شام 6:15 بجے چڑھائی شروع کی اور اگلی صبح 9:35 پر چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔ ان کی کامیابی کی تصدیق الپائن کلب آف پاکستان اور سیون سمٹ ٹریکس نے کی ہے۔ ساجد نے ہمیشہ اپنے کام سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ صرف ایک کوہ پیما نہیں بلکہ اپنے والد کی میراث کے امین ہیں۔ انہوں نے اپنے والد اور ان کے ساتھیوں کی لاشوں کی تلاش کو اپنی زندگی کا سب سے مشکل مشن قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب آپ بچپن سے ایک ماحول میں پروان چڑھیں جہاں ہر روز کوہ پیمائی کی باتیں ہوں، تو آپ خود بھی وہی بن جاتے ہیں۔ ان کا مشن اب بھی مکمل نہیں ہوا، کیونکہ وہ تمام 14 آٹھ ہزار میٹر سے بلند چوٹیاں بغیر آکسیجن کے سر کرنے کے عزم پر قائم ہیں۔

’میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے، ماں دیکھی ہے‘، ماؤں کا عالمی دن

Mom day

ماں، وہ ہستی جس کی شفقت، خلوص اور قربانی کا نعم البدل ممکن نہیں، اسی عظیم رشتے کو سلام پیش کرنے کیلئے آج پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں ماں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ ماں کی عظمت اجاگر کرنے کے اس دن کا مقصد اس بے غرض رشتے کی قدر، احترام اور اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ تاریخی طور پر ماں کے عالمی دن کی بنیاد 1911ء میں امریکا کی ایک ریاست سے پڑی، جہاں پہلی بار اس دن کو منانے کا آغاز ہوا۔ بعد ازاں، دنیا کے کئی ممالک نے اسے اپنایا۔ پاکستان، اٹلی، کینیڈا اور امریکا سمیت متعدد ممالک میں ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو یہ دن منایا جاتا ہے۔ مختلف تقاریب، تقریری مقابلے، اور خصوصی پروگراموں کے ذریعے ماؤں کی خدمات کو سراہا جاتا ہے۔ ماں ایک ایسا رشتہ ہے جو دنیا کے ہر تعلق سے منفرد اور بے مثال ہے۔ اگرچہ کہا جاتا ہے کہ ماں کا ہر دن ہے مگر آج کا دن خاص طور پر اس کیلئے وقف کیا جاتا ہے تاکہ اس کی قربانیوں کو سراہا جا سکے۔ موجودہ دور میں جہاں خواتین مختلف چیلنجز کا سامنا کر رہی ہیں وہاں کئی مائیں گھریلو ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔ وہ نہ صرف بچوں کی تربیت کرتی ہیں بلکہ ان کا بہتر مستقبل یقینی بنانے کیلئے دوہری محنت بھی کرتی ہیں۔ ادھر ماں کے مقام کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان میں اولڈ ہومز کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ مائیں جو کبھی اپنی اولاد کی ہر تکلیف کو خوشی سے جھیلتی رہیں آج بڑھاپے میں تنہائی اور لاچارگی کا سامنا کر رہی ہیں۔ ماں کا عالمی دن صرف تقریبات تک محدود نہیں بلکہ اس کا پیغام یہ ہے کہ معاشرہ اس عظیم رشتے کی توقیر کرے، اور ان ماں باپ کو وہ مقام دے جو ان کا حق ہے۔ ماں، جو زندگی کے ہر موڑ پر بچوں کی ڈھال بنتی ہے، آج بھی اپنے حصے کی محبت نبھا رہی ہے۔ مزید پڑھیں: ’پاکستان کی تاریخی جیت‘ وزیراعظم شہباز شریف کا آج یوم تشکر منانے کا اعلان