ہیٹ ویو: کب تک رہے گی یہ قیامت خیز گرمی؟

پاکستان اس وقت شدید ہیٹ ویو کی لپیٹ میں ہے اور ملک کے کئی علاقے معمول سے کہیں زیادہ درجہ حرارت کا سامنا کر رہے ہیں۔ سڑکیں سنسان، چھاؤں قیمتی اور پانی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔ مئی کے مہینے میں گرمی کی شدت نے گزشتہ کئی سالوں کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور لوگوں کی زندگیوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ شہری علاقوں میں تیز دھوپ، خشک ہوائیں اور مسلسل بڑھتا ہوا درجہ حرارت لوگوں کو ذہنی اور جسمانی اذیت میں مبتلا کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ ہیٹ ویو کب ختم ہوگی اور عوام کو اس جان لیوا گرمی سے کب نجات ملے گی؟ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے ڈی جی عرفان علی کاٹھیا نے کہا کہ جنوبی پنجاب کے اضلاع بہاولپور، رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان اور ملتان میں ہیٹ ویو کی لہر شدید ہو سکتی ہے، حال ہی میں بہاولنگر میں 44 ڈگری سینٹی گریڈ، رحیم یار خان 45، بھکر 44، جب کہ کوٹ ادو میں 44 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ لاہور سمیت میدانی علاقوں میں تقریباً 42 ڈگری تک درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ، سرگودھا، ساہیوال، اوکاڑہ، ملتان، منڈی بہاوالدین، خانیوال، قصور، لیہ، جھنگ، حافظ آباد اور فیصل آباد میں 40 سے 42 ڈگری تک ریکارڈ کیا گیا۔ ڈاکٹر آمنہ لطیف، جو نشتر اسپتال کی ایمرجنسی میں خدمات انجام دے رہی ہیں، نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ لوگ شدید جسمانی کمزوری، لو لگنے اور ڈی ہائیڈریشن کے باعث اسپتال آ رہے ہیں۔ اگر بروقت طبی امداد نہ ملے تو معاملہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر آمنہ لطیف کا کہنا کہ گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے بنیادی احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ دن کے اوقات خاص طور پر صبح 11 بجے سے سہ پہر 4 بجے تک، غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے گریز کیا جائے۔ ہلکے رنگوں اور ڈھیلے کپڑوں کا استعمال کیا جائے تاکہ جسم میں گرمی کا دباؤ کم رہے۔ ان کے مطابق پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے، چاہے پیاس نہ بھی لگے۔ لیموں پانی، نمکول اور ORS جیسے محلول جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی کو پورا کرتے ہیں اور لو لگنے سے بچاتے ہیں۔ باہر نکلتے وقت سر کو گیلا کپڑا یا ٹوپی سے ڈھانپیں اور سایہ دار راستوں کو ترجیح دیں۔ اگر دھوپ میں جانا مجبوری ہو تو بار بار پانی پینا اور وقفے لینا نہ بھولیں، ہیٹ ویو سے سب سے زیادہ متاثر وہ افراد ہوتے ہیں، جو دھوپ میں کام کرتے ہیں جیسے تعمیراتی مزدور، ٹریفک پولیس اہلکار، رکشہ یا ریڑھی چلانے والے اور کھلے آسمان تلے روزی کمانے والے عام، لوگ ان کے پاس نہ تو سایہ ہوتا ہے نہ پانی کی سہولت اور نہ ہی مناسب طبی سہولیات۔ اس کے علاوہ بچے، بزرگ شہری، حاملہ خواتین اور وہ افراد جو شوگر یا بلڈ پریشر جیسے دائمی امراض میں مبتلا ہیں، بھی ہیٹ ویو سے جلد متاثر ہوتے ہیں۔ اسپتالوں کی ایمرجنسیز میں گرمی سے متاثرہ افراد کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ہیٹ ویو سے نمٹنے میں حکومت اور اداروں کا کردار بھی انتہائی اہم ہے۔ اگرچہ عوام کو انفرادی طور پر احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہییں، لیکن ریاستی سطح پر مؤثر اقدامات کی شدید ضرورت ہے۔ ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ بڑے شہروں میں ہنگامی کولنگ پوائنٹس قائم کیے جائیں، جہاں عوام کو پینے کا پانی، فرسٹ ایڈ اور سایہ میسر ہو۔ مزدور طبقے کے لیے دن کے اوقاتِ کار میں نرمی کی جائے تاکہ وہ دن کی تپتی دھوپ میں کام کرنے پر مجبور نہ ہوں۔ اسپتالوں میں خصوصی ہیٹ اسٹروک یونٹس قائم کیے جائیں اور طبی عملے کو ہنگامی صورت حال کے لیے تیار رکھا جائے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ آگاہی مہمات کے ذریعے عوام کو بروقت، درست اور مفید معلومات فراہم کرے تاکہ لوگوں میں ہیٹ ویو سے بچاؤ کا شعور پیدا ہو۔ ماہرِ ماحولیات ڈاکٹر کامران مغل نے پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہیٹ ویوز اور گلوبل وارمنگ کی شدت کم کرنے کے لیے ہمیں فوری طور پر شہری جنگلات (Urban Forests) کے قیام، شجرکاری اور سرسبز جگہوں میں اضافے پر کام کرنا ہوگا۔ درخت نہ صرف زمین کا درجہ حرارت کم کرتے ہیں بلکہ آکسیجن فراہم کرتے ہیں، زہریلی گیسوں کو جذب کرتے ہیں اور بارشوں کے امکانات بھی بڑھاتے ہیں۔ ہر شہر، ہر گلی اور ہر گھر میں درخت لگانا اب کوئی آپشن نہیں بلکہ ایک مجبوری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ گرین بیلٹس پر عمارتیں بنانے کے بجائے وہاں شجرکاری کو فروغ دے۔ اگر ہم نے اب بھی درختوں کو اہمیت نہ دی تو آنے والے سالوں میں گرمی اور موسمی آفات ہماری برداشت سے باہر ہو جائیں گی۔ موجودہ حالات اس بات کا ثبوت ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی اب صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں رہا بلکہ ایک انسانی بحران بن چکا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں پہلے ہی صحت کی سہولیات محدود اور وسائل ناکافی ہیں، وہاں ہیٹ ویو جیسے حالات مزید مشکلات کھڑی کرتے ہیں۔ ماہرینِ ماحولیات خبردار کر چکے ہیں کہ اگر حکومت نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر قابو نہ پایا، شہروں میں سبزے کو فروغ نہ دیا اور ماحولیاتی پالیسیوں کو مؤثر نہ بنایا تو آنے والے سالوں میں گرمی کی یہ لہریں مزید خطرناک شکل اختیار کر سکتی ہیں۔ ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ہیٹ ویو محض ایک عارضی موسمی رجحان نہیں بلکہ ہماری زندگیوں، صحت اور مستقبل کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ نہ صرف خود احتیاط کریں بلکہ اپنے اردگرد کے لوگوں، خصوصاً بچوں، بزرگوں اور کمزور طبقات کی مدد بھی کریں کیونکہ صرف شعور، احتیاط اور باہمی تعاون ہی ہمیں اس قدرتی آزمائش سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
نرس: زندگی کی محافظ، معاشرے کی خاموش سپاہی

ہر سال 12 مئی کو دنیا بھر میں “نرسوں کا عالمی دن” منایا جاتا ہے، جو نہ صرف نرسنگ کے پیشے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ ان افراد کو خراجِ تحسین بھی پیش کرتا ہے، جو دن رات مریضوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ دن جدید نرسنگ کی بانی فلورنس نائٹ اینگل کی یومِ پیدائش کے طور پر بھی یاد رکھا جاتا ہے وہ عظیم خاتون جنہوں نے جنگی میدان میں زخمیوں کی خدمت کو فرض سمجھ کر نرسنگ کو باقاعدہ شعبے کی حیثیت دلوائی۔ نرس صرف ایک تیماردار نہیں، بلکہ مریض کی نفسیات، صحت، جذبات، درد اور امید کا خاموش ساتھی ہوتی ہے۔ اسپتال کی خاموش راہداریوں میں، ایمرجنسی وارڈ کی بھاگ دوڑ میں، آپریشن تھیٹر کی گھمبیر فضا میں ایک نرس ہمیشہ موجود ہوتی ہے۔ ڈاکٹرز کا علاج اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک نرس اپنے مشاہدے، مہارت اور ہمدردی سے مریض کی مکمل دیکھ بھال نہ کرے۔ یہ بھی پڑھیں:،’مسئلہ کشمیر کا مستقل حل‘، پاکستان امریکی صدر کی کوششوں کو خوش آئند قرار دیتا ہے، دفتر خارجہ کووڈ-19 جیسی وباؤں کے دوران دنیا نے دیکھا کہ نرسنگ اسٹاف نے فرنٹ لائن پر کھڑے ہو کر اپنی زندگیاں داؤ پر لگا دیں۔ یہ وہ وقت تھا جب سفید لباس پہنے ان سپاہیوں نے صرف جسمانی خدمت ہی نہیں کی، بلکہ امید اور حوصلے کا استعارہ بھی بن گئیں۔ پاکستان میں نرسنگ کا سفر بیگم رعنا لیاقت علی خان کی کوششوں سے شروع ہوا، جنہوں نے 1949ء میں ادارہ جاتی بنیاد رکھی۔ آج ملک میں 162 نرسنگ ادارے موجود ہیں، مگر افرادی قوت اور سہولتوں کی شدید کمی اب بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں نرسنگ کو وہ عزت حاصل نہیں جس کی یہ مستحق ہے۔ نائٹ شفٹ کرنے والی نرسوں پر قدامت پسند طبقے کی تنقید، خواتین کے لیے اس پیشے میں داخلے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اس کے برعکس دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں نرسنگ ایک باوقار، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مالی طور پر مستحکم کیریئر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ پاکستان میں نرسنگ کی تعلیم اب بی ایس سی، ایم ایس سی اور ڈاکٹریٹ سطح تک دستیاب ہے۔ پاکستان نرسنگ کونسل کے تحت مختلف تربیتی پروگرامز جاری ہیں، لیکن عملی میدان میں نرسز کی کمی، اسپتالوں میں سہولتوں کی قلت، اور صنفی امتیاز، اس شعبے کو ترقی سے روک رہے ہیں۔ دنیا بھر میں نرسنگ کا شعبہ زوال کا شکار ہے، تاہم فلپائن جیسے ممالک نے نرسنگ کو عالمی سطح پر ایکسپورت ایبل پروفیشن بنا کر اپنے عوام کو باعزت روزگار فراہم کیا۔ پاکستان بھی اس ماڈل کو اپنا کر نہ صرف مقامی کمی پوری کر سکتا ہے بلکہ عالمی منڈی میں بھی اپنی جگہ بنا سکتا ہے۔ نرس نہ صرف ایک پیشہ ور ہے، بلکہ ہمارے معاشرے کی بیٹی، بہن، بیٹا اور بھائی بھی ہے۔ نرسنگ کو محض ضرورت کا پیشہ نہیں بلکہ خدمت، ہمدردی، سچائی اور قربانی کی علامت سمجھا جانا چاہیے۔ معاشرتی تعصبات، ثقافتی رکاوٹیں اور فرسودہ خیالات کو پیچھے چھوڑ کر ہمیں اپنے ہیروز کو پہچاننا ہوگا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری صحت کا نظام مضبوط ہو، تو ہمیں نرسنگ کو دل سے اپنانا ہوگا۔ یہ پیشہ صرف زندگی بچانے کا نہیں بلکہ زندگی سے محبت کرنے کا نام ہے۔یاد رکھیے، نرسنگ محض ایک ڈگری نہیں یہ انسانیت کی عبادت ہے۔
کراچی میں کبوتروں سے پھیلنے والی بیماری میں اضافہ، احتیاطی تدابیر کیا ہیں؟

شہرِ قائد کراچی میں کبوتروں سے پھیلنے والی پھیپھڑوں کی ایک خطرناک بیماری برڈ فینسرز لنگز کے کیسز میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جس سے زیادہ تر خواتین متاثر ہو رہی ہیں۔ ماہر امراض تنفس ڈاکٹر محمد عرفان کے مطابق نجی اسپتالوں میں ہر ہفتے اس بیماری کے 15 سے 20 نئے کیس رپورٹ ہو رہے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ یہ بیماری کبوتر کے پروں اور فضلے کے ذرات سے پیدا ہوتی ہے جو سانس کی نالی میں جمع ہو کر پھیپھڑوں کی سوجن اور الرجی کا سبب بنتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: امید ہے انڈیا خطے میں وسیع پیمانے پر تنازعہ پیدا نہیں کرے گا، امریکی نائب صدر جے ڈی وینس یہ ذرات گھروں میں کھڑکیوں اور ایئر کنڈیشنرز کے ذریعے داخل ہوتے ہیں، جس سے بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ پیچیدگی کی صورت میں مریضوں کو اسٹیرائڈز، آکسیجن یا حتیٰ کہ پھیپھڑوں کی پیوند کاری کی ضرورت بھی پیش آ سکتی ہے۔ ڈاکٹر عرفان نے تجویز دی کہ بیماری سے بچاؤ کے لیے پرندوں خصوصاً کبوتروں سے دوری اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنا نہایت ضروری ہے، اور جو افراد متاثر ہوں، وہ فوری طور پر کبوتروں سے دوری اختیار کریں۔ دوسری طرف سول اسپتال کے حکام کا کہنا ہے کہ سانس کی مختلف بیماریوں کے کئی کیس روزانہ رپورٹ ہوتے ہیں، لیکن ان کی کوئی مخصوص درجہ بندی نہیں کی جاتی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فی الحال خواتین مریضوں میں بغیر کسی معروف مرض کے سانس لینے میں دشواری کے کیسز سامنے نہیں آئے۔
پی ڈی ایم اے پنجاب کا ہیٹ ویو الرٹ، شہریوں کو محفوظ رکھنے کے اقدامات جاری

پنجاب میں شدید گرمی اور ممکنہ ہیٹ ویو کے پیش نظر پراونشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے تمام ضلعی و بلدیاتی اداروں کو فوری حفاظتی اقدامات کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم اے عرفان علی کاٹھیا کی جانب سے محکمہ لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ، تمام کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو باقاعدہ مراسلہ جاری کیا گیا ہے۔ پی ڈی ایم اے کے مراسلے کے مطابق صوبے بھر کے اربن سنٹرز، پبلک پارکس، کمیونٹی ہالز، یونین کونسل دفاتر اور دیگر لوکل گورنمنٹ عمارتوں میں عارضی و مستقل کولنگ شیلٹرز قائم کیے جائیں تاکہ شہری شدید گرمی میں محفوظ مقامات تک رسائی حاصل کر سکیں۔ یہ بھی پڑھیں: سندھ بھر میں ٹریفک قوانین کے خلاف کریک ڈاؤن، 16 دنوں میں 23,591 موٹر سائکلیں ضبط مراسلے میں بازاروں، بس اسٹاپس اور مذہبی عبادت گاہوں پر ہائیڈریشن پوائنٹس قائم کرنے اور پانی کی بلا تعطل دستیابی کو یقینی بنانے کی بھی ہدایت دی گئی ہے، جبکہ پبلک ٹوائلٹس اور ہینڈ پمپس کو مکمل طور پر فعال رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ڈی جی پی ڈی ایم اے نے واضح کیا ہے کہ تمام میٹروپولیٹن کارپوریشنز، میونسپل کمیٹیوں اور میونسپل کارپوریشنز کو ہیٹ ویو کے خطرے سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پر فعال کیا جائے، اور واسا و ریسکیو 1122 سمیت دیگر اداروں کے ساتھ مربوط کوآرڈینیشن کو یقینی بنایا جائے۔ مراسلے میں شہری سطح پر عوامی آگاہی مہم چلانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں سپیکرز، بینرز اور مساجد میں اعلانات کے ذریعے عوام کو ہیٹ ویو سے بچاؤ کے طریقہ کار سے آگاہ کیا جائے گا، جب کہ لوکل شخصیات، اساتذہ اور مذہبی رہنماؤں کی مدد سے اس مہم کو مزید مؤثر بنایا جائے گا۔ ڈی جی عرفان علی کاٹھیا نے ہر یونین کونسل اور میونسپل کارپوریشن میں ہیٹ ویو سے متعلق نمائندہ تعینات کرنے کی بھی ہدایت کی ہے تاکہ تمام اقدامات کو بہتر انداز میں مربوط اور مؤثر انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔ پی ڈی ایم اے نے عوام سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ غیر ضروری طور پر دھوپ میں نکلنے سے گریز کریں، زیادہ پانی پئیں اور ہیٹ ویو سے بچاؤ کے لیے جاری کردہ ہدایات پر عمل کریں۔
خبردار! ناقص غذا کینسر کا سبب بن سکتی ہے، مگر کیسے؟

بالآخر سائنسدانوں نے خون کے کینسر کی ایک ایسی نئی وجہ دریافت کرلی ہے جو ہر سال 10,000 برطانوی شہریوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور حیرت انگیز طور پر اس کی جڑ ہماری روزمرہ کی غذا میں چھپی ہو سکتی ہے۔ امریکا کی ریاست اوہائیو میں واقع سنسناٹی چلڈرنز ہسپتال کے سائنسدانوں نے اس تحقیق کے دوران انکشاف کیا ہے کہ خون کے کینسر، خصوصاً لیوکیمیا کے مریضوں کی آنتوں میں ایک مخصوص قسم کے بیکٹیریا کی مقدار غیرمعمولی طور پر زیادہ پائی گئی ہے۔ اس بیکٹیریا سے خارج ہونے والا ایک مادہ جسے “ADP-heptose” کہا جاتا ہے جسم میں پائے جانے والے پری-کینسر خلیات کو تیزی سے بڑھنے پر اکسا سکتا ہے۔ یہ حیران کن دریافت اس وقت سامنے آئی جب سائنسدانوں نے چوہوں پر تجربات کے دوران یہ مشاہدہ کیا کہ جن چوہوں کی آنتوں میں ADP-heptose کی مقدار زیادہ تھی ان میں خون کے کینسر سے جڑے خلیات تیزی سے بڑھنے لگے بالخصوص عمر رسیدہ چوہوں میں۔ تاہم نوجوان چوہے جو ناقص غذائی عادات کی وجہ سے آنتوں کی خرابی کا شکار تھے وہ بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ تحقیق کی قیادت کرنے والے ڈاکٹر پونیت اگروال نے خبردار کیا، ’’اپنی آنتوں کا خیال رکھنا اب پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔‘‘ یہ بھی پڑھیں: انڈیا کے جوہری قانون میں ترمیم: امریکا کو سرمایہ کاری کی دعوت ڈاکٹر ڈینیئل اسٹارچنووسکی نے بتایا کہ یہ تحقیق ہمیں لیوکیمیا جیسے مہلک مرض کی بنیادوں تک لے جاتی ہے اور ہمیں ممکنہ طور پر ایسی مداخلت کا موقع فراہم کرتی ہے جو بیماری کی شدت اختیار کرنے سے پہلے ہی اسے روک سکتی ہے۔ ADP-heptose کی موجودگی کو ماہرین نے اُن غذاؤں سے جوڑا ہے جو فائبر، پھلوں اور سبزیوں سے خالی ہوتی ہیں اور جن میں پراسیسڈ فوڈز اور شکر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ ایک عام غیر متوازن غذا جو شاید ہمیں بے ضرر لگتی ہو، دراصل عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں موت کے قریب لے جا سکتی ہے۔ تحقیق کے مطابق آنتوں کی صحت کو بہتر بنا کر نہ صرف خون کے کینسر بلکہ دیگر کئی عمر رسیدہ بیماریوں سے بچاؤ ممکن ہے۔ اس کے لیے ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ اپنی خوراک میں فائبر سے بھرپور غذائیں جیسے دالیں، پھل، سبزیاں اور مکمل اناج شامل کریں، ساتھ ہی پروبایوٹکس اور پری بایوٹکس کو بھی معمول بنائیں جو آنتوں میں مفید بیکٹیریا کی افزائش کرتے ہیں۔ برطانیہ میں ہر سال تقریباً 10,000 افراد لیوکیمیا میں مبتلا ہوتے ہیں جن میں سے نصف سے زیادہ کی اموات واقع ہو جاتی ہیں۔ سب سے چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ 37 فیصد مریضوں کی تشخیص A&E میں ہوتی ہے، یعنی اس وقت جب بیماری پہلے ہی بہت آگے بڑھ چکی ہوتی ہے۔ اس تحقیق سے ایک واضح پیغام ملتا ہے کہ اگر ہم اپنی صحت کا واقعی خیال رکھتے ہیں تو اپنی آنتوں کا خیال رکھیں کیونکہ یہ محض ہاضمے کا نظام نہیں بلکہ انسان کی بقا کی پہلی دفاعی لائن ہے۔ مزید پڑھیں: 48 فیصد نوجوانوں نے سوشل میڈیا کو ذہنی صحت کے لیے ’نقصان دہ‘ قرار دے دیا
‘نجکاری نہیں چلے گی‘ گرینڈ ہیلتھ الائنس کا احتجاج شدت اختیار کر گیا

لاہور کی مرکزی شاہراہ مال روڈ پر چیئرنگ کراس کے مقام پر لگے خیمے، ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھائے مرد و خواتین، سڑکوں پر لیٹے طبی عملے کے ارکان اور ان کے چہروں پر چھائی تھکن۔ یہ مناظر پنجاب کے سرکاری اسپتالوں سے تعلق رکھنے والے ان ہزاروں ملازمین کے احتجاج کی عکاسی کرتے ہیں جو “نجکاری کے خلاف جدوجہد” کے نعرے کے ساتھ گزشتہ 13روز سے سراپا احتجاج ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر ڈاکٹر سلمان حسیب نے پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب حکومت نے پہلے بنیادی مراکز صحت پرائیوٹائز کر دیے، اب بڑے سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کی جا رہی ہے۔ جس سے محکمہ صحت کے دو لاکھ سے زائد ملازمین کے روزگار اور شہریوں کو سستی صحت کی سہولیات کو شدید خطرہ ہے۔ گرینڈ ہیلتھ الائنس کے مطابق حکومت پنجاب “ہیلتھ فیسیلیٹیز مینجمنٹ کمپنی” کے ذریعے سرکاری اسپتالوں کی خدمات نجی شعبے کو منتقل کر رہی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ پالیسیاں عوام دشمن ہیں اور صحت کے شعبے کو منافع بخش کاروبار میں تبدیل کرنے کی کوشش ہیں۔ یہ احتجاج مارچ 2025 کو اس وقت شروع ہوا جب مختلف طبّی شعبوں سے وابستہ ملازمین نے ابتدائی طور پر ہڑتال کا اعلان کیا۔ اپریل کو گرینڈ ہیلتھ الائنس نے لاہور میں دھرنے کا آغاز کیا۔ 18 اپریل کو مظاہرین نے وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب مارچ کرنے کی کوشش کی، جس پر پولیس نے انہیں روکنے کی کوشش کی۔ اس دوران شدید جھڑپیں ہوئیں، لاٹھی چارج، واٹر کینن اور گرفتاریوں کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔ کچھ مظاہرین گرمی کی شدت کے باعث بے ہوش ہوگئے، جنہیں موقع پر ہی طبی امداد دی گئی، مظاہرے میں شامل گرینڈ ہیلتھ الائنس کے صدر ڈاکٹر شعیب نیازی کی حالت بھی خراب ہوگئی۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صدر شعیب نیازی اور سلمان حسیب کو پولیس ساتھ لے کر چلی گئی اور مؤقف اختیار کیا کہ ہم ڈاکٹرز کے نمائندوں کو مذاکرات کے لیے لے کر جارہے ہیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر شعیب نیازی نے کہاکہ پولیس کی جانب سے مذاکرات کا کہا جارہا ہے، اگر ہمیں گرفتار کر لیا جاتا ہے تو مظاہرین دھرنا جاری رکھیں۔ لاہور کے چلڈرن اسپتال اور جنرل ہسپتالوں کی او پی ڈیز نے کام کرنا بند کر دیا ہے، جب کہ شہر کے دیگر سرکاری اسپتالوں کی او پی ڈیز جاری ہیں۔ لاہور میں بنیادی مراکز صحت کی نجکاری کے خلاف گرینڈ ہیلتھ الائنس کا پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنا تیرہ روز سے جاری ہے۔ پولیس تشدد کے خلاف ینگ ڈاکٹرز نے آج پنجاب بھر کے سرکاری اسپتالوں میں او پی ڈی بند کردی ہے۔ لاہور کے جنرل، میو، گنگا رام، سروسز اور جناح اسپتال میں ینگ ڈاکٹرز او پی ڈی بند کراتے ہیں، جسے انتظامیہ دوبارہ بحال کردیتی ہے۔ دھرنے پر بیٹھے مظاہرین کا کہنا ہے نجکاری سے بے روزگار ہوجائیں گے، نجکاری کا فیصلہ واپس لیاجائے، جب تک حکومت مذاکرت کرنےاورمطالبات منظورنہیں کرلیتی دھرنا جاری رہے گا۔ اس حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی سلمٰی بٹ نے کہا کہ کسی کے روزگار پر حملہ نہیں کیا جائے گا۔ آٹ سور سنگ کی مبینہ طور پر اس لیے تکلیف ہے کہ اب روزانہ حاضری چیک ہو گی اور عملے کو روزانہ آنا پڑے گا۔ دوسری جانب پنجاب اسمبلی میں اراکین اسمبلی نے اسپیکر پنجاب اسمبلی کی توجہ اس جانب دلائی اور کہا کہ حکومت کو اس آٹ سورسنگ میں کم از کم ملازمین کی ریٹائر منٹ سے پہلے تک ملازمت برقرار رکھی جائے تو اسپیکر کے استفسار پر صوبائی وزیر صحت خواجہ عمران نذیر نے ایوان کو بتایا کہ پنجاب حکومت کے پی ایچ ایف ایم سی کی نگرانی میں بی ایچ یو اور آر ایچ سی چل رہے تھے، جس کی جون میں نگرانی ختم ہو جائے گی۔ حکومت نوے فیصد ملازمین کومتبادل روزگار فراھم کرے گی، جس میں ڈاکٹرز، ایل ایچ وی، نرس، آیا اور درجہ چہارم کے ملازمین شامل ہیں۔ یہ احتجاج صرف ڈاکٹروں تک محدود نہیں بلکہ اس میں آل پنجاب پیرا میڈیکل اسٹاف فیڈریشن، لیڈی ہیلتھ ورکرز ایسوسی ایشن، ینگ نرسز ایسوسی ایشن، کلاس فور یونین اور مختلف ٹیکنیکل اینڈ نان-ٹیکنیکل ملازمین کی نمائندہ تنظیمیں شامل ہیں۔ یہ اشتراک اس احتجاج کو ایک جامع صوبائی تحریک کی صورت دے رہا ہے۔ صحت جیسے بنیادی انسانی حق پر نجکاری کی چھاپ نے نہ صرف طبّی عملے کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کیا ہے، بلکہ وہ غریب اور محروم طبقہ بھی شدید متاثر ہوا ہے، جو سرکاری اسپتالوں کو اپنی واحد امید سمجھتا ہے۔ جب صحت جیسا حساس شعبہ پالیسی تضادات، عدم اعتماد اور احتجاج کی زد میں آ جائے تو اثر صرف اداروں پر نہیں پڑتا بلکہ ہر بیمار اور اس کے گھرانے تک پہنچتا ہے۔ لہٰذا اب وقت ہے کہ حکومت اور طبّی عملہ جذبات سے ہٹ کر ہوش سے کام لیں، ایک دوسرے کا مؤقف سنیں اور ایسے پائیدار حل کی طرف بڑھیں جو نہ صرف ملازمین کے خدشات کا ازالہ کرے بلکہ عام آدمی کو بروقت اور باوقار علاج کی سہولت بھی یقینی بنائے۔ کیونکہ اگر مسئلہ حل نہ ہوا تو نقصان صرف اداروں کا نہیں، پورے معاشرے کا ہو گا۔
40 سالہ ڈاکٹر کے ہاتھوں 15 ہلاکتیں، علاج تھا یا قتل کا فارمولا؟

برلن میں ایک 40 سالہ ماہرِ طب، جس کا شمار پالی ایٹیو کیئر کے ماہرین میں ہوتا تھا، اب 15 مریضوں کے قتل کے الزامات کا سامنا کر رہا ہے۔ استغاثہ کے مطابق، یہ ڈاکٹر اپنے زیر نگرانی مریضوں کو جان بوجھ کر ایک خاص اینستھیزیا اور پٹھوں کو مفلوج کرنے والی دوا دیتا رہا اور وہ بھی اُس وقت، جب مریض نہ مرنے کے قریب تھے اور نہ ہی کسی قسم کی رضا مندی دی گئی تھی۔ یہ سلسلہ 2021 سے جاری رہا مگر پردہ اُس وقت چاک ہوا جب گزشتہ برس چار مریضوں کی مشتبہ ہلاکتوں کی تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ ڈاکٹر نے ثبوت مٹانے کے لیے اُن کے اپارٹمنٹس کو آگ لگا دی تھی۔ اس کیس کو تہہ سے جانچنے کے لیے ایک خاص تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو مریضوں کے پرانے میڈیکل ریکارڈز کی جانچ کر رہی ہے جبکہ مزید لاشوں کی قبر کشائی بھی متوقع ہے۔ ملزم، جو فی الحال پولیس کی زیر حراست ہے اور اپنے جرم سے انکاری ہے۔ دوسری جانب مرنے والوں کے لواحقین نہ صرف عمر قید بلکہ اس کی طبی پیشہ ورانہ سرگرمیوں پر تاحیات پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مزید پڑھیں: اردو زبان مذہب نہیں، تہذیب کی شناخت ہے، انڈین سپریم کورٹ
قومی سطح پر پولیو مہم کا اعلان، 4 کروڑ 50 لاکھ بچوں کو قطرے پلائے جائیں گے

ملک بھر سے آنے والی تازہ ترین رپورٹس نے ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے مطابق ملک کے 20 اضلاع سے لیے گئے 25 ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں، بلکہ ایک اہم اشارہ ہے کہ پولیو ایک بار پھر ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ متاثرہ اضلاع میں کوئٹہ، خضدار، لاہور، ملتان، نوری آباد، بنوں، لکی مروت اور بہاولپور جیسے شہر شامل ہیں، جہاں وائرس کی موجودگی نے ماہرین صحت کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں۔ قومی ادارہ صحت کے مطابق صوبے کے 9 اضلاع، جن میں دُکی، کیچ، لسبیلہ، لورالائی، پشین، نصیرآباد اور اوستہ محمد شامل ہیں ان سے 5 سے 19 مارچ کے دوران لیے گئے نمونوں میں پولیو وائرس پایا گیا ہے۔ تاہم، اُمید کی کرن یہ ہے کہ 31 اضلاع کے 35 نمونے پولیو سے پاک نکلے ہیں۔ یہ ویکسینیشن مہمات کا نتیجہ ہے جنہوں نے وائرس کے پھیلاؤ میں وقتی کمی ضرور پیدا کی ہے۔ اس کے علاوہ 21 سے 27 اپریل تک ملک گیر پولیو مہم کا آغاز ہوگا جس میں ساڑھے چار کروڑ سے زائد بچوں کو قطرے پلائے جائیں گے۔ نیشنل ای او سی نے والدین سے اپیل کی ہے کہ “یہ صرف قطرے نہیں، آپ کے بچوں کی زندگی کی ضمانت ہیں۔ “مزید پڑھیں: برطانیہ میں ایم پوکس وائرس: ماہرین نے اب تک کا سب سے خطرناک وائرس قرار دے دیا
اگلے ہفتے سے ملک بھر میں ہیٹ ویو متوقع ہے، پی ایم ڈی نے خبردار کر دیا۔

پاکستان کے محکمہ موسمیات (پی ایم ڈی) نے 13 اپریل سے بالائی فضا میں ہائی پریشر سسٹم کی ترقی کے باعث آئندہ سے ملک میں ہیٹ ویو کی پیش گوئی کی ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق ملک کے بیشتر علاقوں میں درجہ حرارت میں اضافہ ہوگا، سندھ، جنوبی پنجاب اور بلوچستان سمیت جنوبی علاقوں میں 14 اپریل سے شدید گرمی کی لہر کا سامنا ہوگا۔ ان علاقوں میں دن کا درجہ حرارت 13 سے 18 اپریل تک معمول سے 6-8 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہ سکتا ہے۔ بالائی اور وسطی پنجاب، اسلام آباد، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سمیت شمالی اور وسطی حصوں میں 14 سے 18 اپریل تک درجہ حرارت معمول سے 4-6 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ رات کے وقت کا درجہ حرارت بھی پیشین گوئی کی پوری مدت میں معمول سے زیادہ رہنے کی توقع ہے۔ ضرورت سے زیادہ گرمی کے نتیجے میں دھول کے طوفان اور آندھی بھی ہو سکتی ہے، ممکنہ طور پر کمزور انفراسٹرکچر جیسے کہ بجلی کے کھمبے، درخت، گاڑیاں اور سولر پینلز کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ عام لوگوں، خاص طور پر بچوں، خواتین اور بزرگ شہریوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ سورج کی براہ راست نمائش سے گریز کریں اور اچھی طرح ہائیڈریٹڈ رہیں۔ کاشتکاروں پر بھی زور دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی فصل کی سرگرمیوں کا انتظام کریں، خاص طور پر گندم کی کٹائی، پیشن گوئی کے مطابق، اور مویشیوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ شمالی علاقوں میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے 14 اور 18 اپریل کے درمیان برف پگھلنے کا عمل تیز ہو سکتا ہے، جس سے سیلاب کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ تمام متعلقہ حکام کو الرٹ رہنے اور کسی بھی ممکنہ خطرات کو کم کرنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے
“نوزائیدہ بچوں کی صحت کے لیے ڈبلیو ایچ او کی پاکستان سے سرمایہ کاری کی اپیل”

عالمی یوم صحت کے موقع پر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے پاکستان سمیت دنیا بھر کے شراکت داروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ زچگی اور نوزائیدہ بچوں کی اموات میں کمی لانے کے لیے فوری اقدامات اور سرمایہ کاری کریں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق پاکستان میں ہر روز 675 بچے اور 27 مائیں زچگی کی پیچیدگیوں کے باعث جان کی بازی ہار جاتی ہیں، جس سے سالانہ 9,800 ماؤں اور 246,300 نوزائیدہ بچوں کی اموات ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ہر سال 190,000 سے زائد مردہ بچوں کی پیدائش بھی رپورٹ ہو رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے اس سال عالمی یوم صحت کا تھیم “صحت مند ابتدا، خوشحال مستقبل” رکھا ہے اور پاکستان سے کہا ہے کہ وہ ایک خوشحال مستقبل کے لیے صحت مند ماؤں اور بچوں کی اشد ضرورت کو تسلیم کرے۔ ڈبلیو ایچ او پاکستان کے نمائندے ڈاکٹر ڈپینگ لؤ کا کہنا تھا کہ “ایک زچہ یا نوزائیدہ بچے کی موت بھی بہت زیادہ ہے اور اگر ہم نے اب اقدامات نہ کیے تو اس کی قیمت ہمیں قوم کو بھگتنا پڑے گی۔” اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سالوں میں پاکستان میں زچگی سے ہونے والی اموات کی شرح میں نمایاں کمی آئی ہے۔ 2006 میں یہ شرح 276 فی 100,000 پیدائش تھی، جو 2024 میں کم ہو کر 155 رہ گئی۔ نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات 52 فی 1000 سے کم ہو کر 37.6 ہو گئی ہے، جب کہ مردہ بچوں کی پیدائش کی شرح بھی 39.8 سے کم ہو کر 27.5 فی 1000 ہو چکی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ماں اور بچے کی صحت پر ہر ایک امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری، 9 سے 20 ڈالر کی واپسی دیتی ہے۔ یہ سرمایہ کاری انسانی سرمائے، معاشی ترقی اور خوشحال معاشرے کی ضمانت ہے۔ پاکستان نے نومولود بچوں میں تشنج کے خلاف جنگ میں بھی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ 80 فیصد پاکستانی آبادی ایسے علاقوں میں رہتی ہے جہاں تشنج کا پھیلاؤ فی ہزار پیدائش ایک کیس سے بھی کم ہے اور اسلام آباد، آزاد کشمیر، سندھ اور پنجاب جیسے علاقوں نے MNT کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔ تاہم، عالمی اور قومی SDG اہداف کے تحت 2030 تک زچگی کی شرح اموات کو 70 فی 100,000 اور نوزائیدہ اموات کو 12 فی 1000 تک لانے کے لیے مزید سرمایہ کاری اور حکومتی ترجیحات ضروری ہیں۔ ڈبلیو ایچ او نے حکومت پاکستان سے درخواست کی ہے کہ وہ خواتین کی تولیدی صحت، غذائیت، ذہنی صحت، تعلیم اور معاشی مواقعوں پر بھرپور توجہ دے تاکہ خواتین اپنی اور اپنے بچوں کی صحت سے متعلق بہتر فیصلے کر سکیں۔ ڈبلیو ایچ او نے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر یہ یقینی بنائے گا کہ صحت کی سہولتیں سب کے لیے دستیاب ہوں اور کوئی بھی پیچھے نہ رہ جائے۔ یاد رہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) 1948 میں قائم کیا گیا تھا اور یہ اقوام متحدہ کا ادارہ ہے جو دنیا بھر میں صحت کو فروغ دینے، عالمی تحفظ فراہم کرنے اور کمزور طبقوں کی خدمت کے لیے اقوام،