کراچی سمیت صوبے بھر میں 13 مختلف جعلی ادویات فروخت کی جا رہی ہیں، سندھ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کا انکشاف

سندھ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی سمیت صوبے بھر میں 13 مختلف جعلی ادویات مارکیٹ میں کمپنیوں کے ناموں سے فروخت کی جارہی ہیں۔ نجی نشریاتی ادارے ایکسپریس نیوز کے مطابق سندھ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کے ڈائریکٹر عدنان رضوی نے بتایا ہےکہ گزشتہ 2 ماہ کے دوران مختلف ادویات کے 300 سے زائد سمپل ٹیسٹ کیے جاچکے ہیں، جس میں 13 مختلف ادویات کے سمپل جعلی پائے گئے ہیں، یہ جعلی ادویات اصل کمپنیوں کے ناموں سے مارکیٹ میں فروخت کی جارہی تھیں۔ واضح رہے کہ تحقیقات کے دوران یہ بھی پتہ چلا کہ جو جعلی ادویات مختلف کمپنیوں کے نام سے مارکیٹ میں فروخت کی جارہی ہیں ان کمپنیوں کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے۔ عدنان رضوی نے بتایا کہ تحقیقات کے دوران اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ مارکیٹ میں 7 فارما کمپینوں کے نام سے جعلی ادویات فروخت کی جارہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کو کراچی سمیت اندرون سندھ میں جعلی ادویات کی سینکڑوں شکایت موصول ہوئی تھی، جس ڈرگ انسپکٹروں نے ڈرگ ایکٹ کے تحت کارروائی کرتے ہوئے مختلف ادویات کے سپمل حاصل کیے، ان ادویات میں جسم میں درد، مرگی اور ہڈی و پٹھوں کے درد میں استعمال کی جانے والی آئیوڈیکس کے نمونے جب لیبارٹری میں ٹیسٹ کیے تو انکشاف ہوا کہ ان ادویات میں وہ اجزاء شامل نہیں جو درد میں استعمال کی جاتی ہے۔ مزید پڑھیں: ڈیجیٹل ہیلتھ کئیر سنٹرز: اب آپ کو ڈاکٹر کے پاس جانےکی ضرورت نہیں! ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری نے متعلقہ ڈرگ انسپکٹروں کو ہدایت کی کہ ادویات پر درج کمپنیوں کے پتوں پر رابطہ کیا جائے، ڈرگ انسپکٹروں کی کاروائی پر انکشاف ہوا کہ یہ کمپنیاں وہاں سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ دوسری جانب جب آئیوڈیکس بنانے والی کمپنی سےرابطہ کیا گیا تو کمپنی کے حکام نے بتایا کہ آئیوڈیکس کی مینوفیکچرنگ 2017 کے بعد سے بند ہے، آئیوڈیکس پر مینیوفیکچرنگ کی تاریخ 2024 درج تھی۔ اسی طرح دیگر 13 مختلف ادویات پر درج بیج نمبر، لائنس نمبر اور کمینی کی پتے بھی غلط تھے، جس کے بعد سندھ کے تمام ڈرگ انسپکٹروں کو جعلی ادویات کے خلاف کریک ڈاون کی ہدایت کردی۔ عدنان رضوی نے کہا کہ سندھ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کی جانب سے تمام ڈرگ انسپکٹروں کو جعلی ادویات کے خلاف الرٹ جاری کیا گیا ہے کہ مارکیٹ میں فروخت ہونے والی ادویات کی سخت مانیٹرنگ کی جائے۔
مٹی میں پائے جانے والے بیکٹیریا نے آسٹریلیا میں 14 افراد کی جانیں لے لیں

آسٹریلیا میں مٹی میں پائے جانے والے خطرناک بیکٹیریا سے 14 افراد ہلاک ہوگئے۔ یہ بیکٹریا سانس یا خون کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے اور بیماری پھیلاتا ہے۔ ہیلتھ سروسز کے ڈائریکٹر کے مطابق کہ ملیئوڈوسس نامی بیماری مٹی یا کیچڑ میں پائے جانے والے بیکٹیریا سے پھیلتی ہے، عام طور پریہ بیکٹیریا شدید بارشوں اور سیلاب کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔ کوئنز لینڈ کے کچھ حصوں میں رواں ماہ 59 انچ سے زائد بارش کی وجہ سے سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔ کوئینز لینڈ ہیلتھ ڈیٹا کے مطابق رواں سال اب تک 94 افراد اس بیکٹیریا سے متاثر ہوچکے ہیں، یہ بیماری سانس کے ذریعے یا خون میں شامل ہو کر پھیلتی ہے۔
خیبرپختونخوا میں منکی پاکس کا پہلا مقامی کیس رپورٹ، عوام میں تشویش کی لہر

خیبرپختونخوا میں ‘منکی پاکس’ کا پہلا مقامی کیس رپورٹ ہوگیا ہے جس کے بعد صوبے میں اس بیماری کے پھیلاؤ سے متعلق نئی تشویش بڑھ گئی ہے۔ مشیر صحت ‘احتشام علی’ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ پہلا کیس ہے جو کمیونٹی سطح پر منتقل ہوا ہے جبکہ اس سے قبل جتنے بھی کیسز سامنے آئے تھے وہ بیرون ملک سے واپس آنے والوں میں تھے۔ تفصیلات کے مطابق متاثرہ خاتون کے شوہر حال ہی میں ایک خلیجی ملک سے وطن واپس آئے تھے اور ابتدائی طور پر ان میں ‘منکی پاکس’ کی علامات ظاہر نہیں ہوئیں۔ تاہم، بعد ازاں ان میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی۔ خاتون کے شوہر کے متاثر ہونے کے بعد وہ خود بھی اس بیماری کا شکار ہو گئیں اور ان میں بھی منکی پاکس کی علامات ظاہر ہوئیں۔ ان کے کیس کے بعد پشاور کے پولیس سروسز ہسپتال میں آئسولیشن وارڈ میں سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں۔ منکی پاکس کی بیماری ابتدائی طور پر افریقہ کے مغربی حصوں میں بندروں میں پائی جاتی تھی تاہم 1970 کے بعد اس نے انسانی جسم میں منتقل ہو کر وہاں بھی پھیلنا شروع کیا۔ یہ ایک نایاب وائرل ‘زونوٹک’ بیماری ہے جو منکی پاکس وائرس کی وجہ سے انسانوں میں پھیلتی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: غزہ میں پولیو سے بچاؤ کی نئی ویکسینیشن مہم کا آغاز: 600,000 بچوں کی حفاظت کا عزم حالیہ برسوں میں اس بیماری کے کچھ کیسز یورپ اور امریکا جیسے خطوں میں بھی رپورٹ ہوئے ہیں جس سے عالمی سطح پر اس کے پھیلاؤ کے بارے میں تشویش بڑھ گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ منکی پاکس کی بیماری کا پھیلاؤ تیز نہیں ہوتا جیسا کہ کورونا وائرس کے دوران ہوا تھا۔ اس کا انفیکشن قریبی جسمانی تعلقات کے ذریعے منتقل ہوتا ہے اور ماہرین سماجی فاصلے کو یقینی بنانے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ یہ بیماری خاص طور پر غیر محفوظ جنسی تعلقات کے ذریعے پھیلتی ہے تاہم ایسا ہر کیس میں نہیں ہوتا۔ منکی پاکس کا وائرس عام طور پر پھٹی ہوئی جلد سانس کی نالی یا آنکھوں، ناک اور منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے۔ اس بیماری کی علامات میں بخار، سر درد، پٹھوں میں درد، تھکن اور لیمفاڈینوپیتھی شامل ہیں۔ سب سے نمایاں علامت جلد پر خارش کا نمودار ہونا ہے جو عموماً چہرے سے شروع ہوتی ہے اور پھر جسم کے دیگر حصوں میں پھیل جاتی ہے۔ عام طور پر منکی پاکس کی علامات ظاہر ہونے کے بعد 7 سے 14 دن کے اندر مکمل ہوتی ہیں، تاہم اس کی مدت 5 سے 21 دن تک بھی ہو سکتی ہے۔ یہ بیماری 2 سے 4 ہفتے تک جاری رہ سکتی ہے اور اس دوران مریض کو مکمل آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ خیبرپختونخوا میں منکی پاکس کا پہلا مقامی کیس رپورٹ ہونے کے بعد صحت کے محکمے نے صوبے کے دیگر علاقوں میں اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حفاظتی اقدامات پر زور دیا ہے۔ پشاور کے ہسپتالوں میں آئسولیشن وارڈز میں مریضوں کو علیحدہ کرنے اور ان کی مکمل نگرانی کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ، صوبے بھر میں عوامی آگاہی کے پروگرامز بھی شروع کیے گئے ہیں تاکہ لوگ اس بیماری کے بارے میں بہتر معلومات حاصل کر سکیں اور احتیاطی تدابیر اختیار کر سکیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فوری طور پر اس بیماری کا پھیلاؤ روکا نہ گیا تو اس کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ وہ منکی پاکس سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور کسی بھی مشتبہ علامات کی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹروں سے رابطہ کریں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں اس بیماری کے مزید کیسز سامنے آتے ہیں یا حکومتی اقدامات اس کے پھیلاؤ کو روکنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سب مل کر اس چیلنج کا مقابلہ کریں تاکہ عوام کی صحت کو محفوظ رکھا جا سکے۔ مزید پڑھیں: وائرس پھیلنے کا خطرہ، امریکا نے عالمی ادارہ صحت سے تعلقات ختم کردیے
چین میں کورونا جیسا نیا وائرس دریافت: سائنسدان کیا کہتے ہیں؟

چینی سائنسدانوں نے چمگادڑوں میں ایک نیا کورونا وائرس دریافت کیا ہے جو ممکنہ طور پر سارس کوو 2 (کووڈ 19) کی طرح انسانوں میں منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس نئے وائرس کا نام ایچ کیو یو 5 کوو 2 رکھا گیا تھا۔ یہ نیا وائرس بھی کورونا کی طرح انسانی ریسیپٹر کو ہدف بنا کر جسم میں داخل ہوتا ہے۔ سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ یہ وائرس بھی ممکنہ طور پر ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوسکتا ہے بلکہ مختلف جانداروں میں گردش کرسکتا ہے۔ یہ وائرس گوانگزو لیبارٹری میں دریافت کیا گیا جس کی قیادت زینگ لی شائی نے کی۔ زینگ لی شائی ووہان انسٹیٹیوٹ آف وائرلوجی میں کام کرتی ہیں انہیں اس وائرس کی دریافت کے بعد بیٹ ویمن بھی کہا جاتا ہے۔ اس تحقیق کے نتائج جرنل سیل میں شائع ہوئے جس میں بتایا گیا کہ چمگادڑوں میں موجود ایچ کیو یو 5 کوو 2 مؤثر طریقے سے انسانی ایس 2 ریسیپٹر کو استعمال کرکے جسم میں داخل ہوسکتا ہے۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ یہ وائرس انسانی خلیات کو متاثر کرسکتا ہے جبکہ یہ معلوم ہوا کہ پھیپھڑوں اور آنتوں کے نمونوں میں یہ وائرس تیزی سے اپنی تعداد بڑھاتا ہے۔ مزید تجربات میں محققین نے ایسی اینٹی باڈیز اور اینٹی وائرل ادویات کو بھی دریافت کیا جو اس وائرس کو ہدف بناتی ہیں۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ فی الحال یہ نیا وائرس انسانوں کو متاثر کرنے کے حوالے سے کووڈ 19 کا باعث بننے والے کورونا وائرس جتنا مؤثر نہیں۔ تحقیق کے مطابق اس وائرس سے کووڈ 19 جیسی عالمی وبا کا خطرہ بہت کم ہے کیونکہ کووڈ ویکسینز سے انسانوں میں پیدا ہونے والی مدافعت بیماری سے تحفظ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن کا اجلاس: برٹش وفد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی فیصل آباد کا دورہ کرے گا

صوبائی وزیر صحت کی زیر نگرانی میں محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن میں اہم اجلاس منعقدہوا، جس میں فیصل آباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں برٹش وفد کے دورہ کے حوالہ سے انتظامات کا جائزہ لیا گیا اورمتعلقہ حکام نے اس حوالہ سے بریفننگ دی۔ صوبائی وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق کی صدارت میں اجلاس منعقد ہوا ،جس میں سیکرٹری صحت پنجاب عظمت محمود، چیئرمین وزیر اعلیٰ ٹاسک فورس ڈاکٹر فرقد عالمگیر، سپیشل سیکرٹری ڈویلپمنٹ ذیشان شبیر رانا، ڈی جی پروٹوکول انعام الرحمن، ایڈیشنل سیکرٹری محکمہ داخلہ اور ایڈیشنل سیکرٹری ایڈمن سجاد خان نے شرکت کی۔ اجلاس میں مزید کمشنر فیصل آباد ڈویڑن مریم خان، وائس چانسلر یونیورسٹی آف چائلڈ ہیلتھ سائنسز پروفیسر مسعود صادق اور فیصل آباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے ذمہ داران نے وڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔ صوبائی وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق نے اجلاس کے دوران فیصل آباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں برٹش وفد کے دورہ کے حوالہ سے انتظامات کا جائزہ لیا۔متعلقہ حکام نے اس حوالہ سے بریفننگ بھی دی۔ صوبائی وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق نے کہاکہ 24 فروری کو برٹش وفد یونیورسٹی آف چائلڈ ہیلتھ سائنسز کا دورہ کرکے فیصل آباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی روانہ ہو جائے گی، برٹش وفد میں ایڈن لٹل ہارٹس تنظیم سے پروفیسر عمران سعید، ڈاکٹر عمر اور ڈاکٹر سندیپ شامل ہوں گے۔ صوبائی وزیر صحت کا کہناہے کہ غیر ملکی کارڈیک سرجنز فیصل آباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں معصوم بچوں کی ہارٹ سرجریز کریں گے۔ خواجہ سلمان رفیق نے کہاکہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف بھی فیصل آباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ان کارڈیک سرجنز کے زیر نگرانی ہونے والی ہارٹ سرجریز کو مانیٹر کریں گی، اس حوالے سے ہارٹ سرجریز کروانے والے معصوم بچوں کی فہرست تیار کر لی گئی ہے۔ ڈاکٹر فرقد عالمگیر کے توسط سے یہ برٹش وفد پاکستان کا دورہ کر رہا ہے، برٹش وفد میں شامل کارڈیک سرجنز کا پاکستان میں پانچ روزہ دورہ ہو گا۔ وزیرصحت پنجاب نے کہاکہ فیصل آباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ڈاکٹر رزاق اور ڈاکٹر ضیغم سے اس حوالہ سے مکمل کوارڈی نیشن ہو رہی ہے۔ برٹش وفد کو یونیورسٹی آف چائلڈ ہیلتھ سائنسز میں کارڈیک سرجری سے متعلق مکمل بریفننگ دی جائے گی۔
کیا غذائی عادات اور ماحولیاتی عوامل بچپن کے کینسر میں اضافہ کر رہے ہیں؟

ہر سال 4 فروری کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں سرطان (کینسر) سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد عوام میں اس خطرناک اور جان لیوا مرض سے آگاہی اور اس سےبچاؤ کے متعلق شعور پیدا کرنا ہے۔ 4 فروری کو وزیرِاعظم پاکستان شہباز شریف نے اپنے پیغام میں کہا کہ عالمی سطح پر سرطان موت کی دوسری بڑی وجہ ہے، پاکستان نے کینسر کی تحقیق، علاج اور مریضوں کی دیکھ بھال میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس بیماری کی روک تھام اور مؤثر طریقے سے علاج کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ اقوامِ متحدہ خبرنامے کے مطابق دنیا بھر میں روزانہ 1000 سے زائد بچوں میں سرطان کی تشخیص ہوتی ہے، اگرچہ طبی میدان میں حالیہ ہوئی ترقی سے بہتر آمدنی والے ممالک میں اس بیماری سے صحت یابی کے امکانات بڑھے ہیں، جس سے 80 فیصد سے زائد بچوں کی جان بچائی جا سکتی ہے، مگر کم آمدنی والے ممالک میں اس کی شرح صرف 20 فیصد تک ہی رہنے کا امکان ہے۔ بچوں میں کینسر کی روک تھام کے لیے مضبوط طبی نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق کینسر میں مبتلا بچوں کی صحت یابی کا بڑی حد تک دار و مدار ایسے طبی نظام پر ہوتا ہے، جو ان میں بیماری کی بروقت تشخیص اور ابتدائی مرحلے میں ہی موزوں علاج مہیا کر سکے۔ بچپن میں کینسر کے بڑھتے ہوئے کیسز نے دنیا بھر کو تشویش میں ڈال رکھا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ جدید طرزِ زندگی، غیر متوازن غذا اور آلودہ ماحول نے بچوں کی صحت پر منفی اثر ڈال دیا ہے۔ مزید یہ کہ کیمیکل زدہ خوراک اور فاسٹ فوڈ کے بڑھتے ہوئے استعمال سے موٹاپا، الرجی اور دیگر بیماریوں میں اضافہ ہو ا ہے۔ دوسری جانب فضائی آلودگی اور زہریلے کیمیکلز نے سانس اور جلدی امراض میں اضافہ کر دیا ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ کو ماہر امراض ِ اطفال ڈاکٹر خدیجہ افضل نے بتایا ہے کہ بچوں میں عام طور پر لیوکیمیا، برین ٹیومر اور لمفوما جیسے کینسر پائے جاتے ہیں۔ ان کی وجوہات میں جینیاتی عوامل، ماحولیاتی آلودگی، تابکاری اور بعض وائرس شامل ہو سکتے ہیں۔ جدید تحقیق یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ قبل از پیدائش ماحولیاتی عوامل بچے میں کینسر کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔ جدید دور میں فاسٹ فوڈ کا ہر جگہ استعمال عام ہے، والدین آئے روز باہر سے کھانا منگواتے ہیں اور اسے بچوں کی بھی ساتھ کھلا دیتے ہیں، جس سے سرطان سمیت کئی بیماریاں بچوں میں جنم لے رہی ہیں۔ ڈاکٹر خدیجہ افضل کا کہنا ہے کہ فاسٹ فوڈ اور پروسیسڈ فوڈ میں موجود مصنوعی اجزاء، پریزرویٹوز اور کیمیکل بچوں کے مدافعتی نظام کو کمزور کر سکتے ہیں۔ ان کھانوں میں موجود ٹرانس فیٹس اور ہائی فریکٹوز کارن سیرپ موٹاپے اور ہارمونی عدم توازن کا سبب بنتے ہیں، جو بعض اقسام کے کینسر کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے۔ خدیجہ افضل نے کہا ہے کہ تحقیق کے مطابق بازاری کھانوں میں پائے جانے والے کیمیکلز جیسے سوڈیم نائٹریٹ، بی ایچ اے اور بی ایچ ٹی کارسینوجینک اثرات رکھتے ہیں۔ مصنوعی رنگ اور فلیورز بھی بچوں کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں اور طویل مدتی استعمال کینسر کے امکانات بڑھا سکتا ہے۔ بچوں میں سرطان کی ایک بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی کو مانا جاتا ہے، حکومتی ادارے اور عالمی تنظیمیں اس کے بچاؤ کے لیے اقدامات کرنے میں لگی ہیں، جس کی وجہ سے عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کیسے بچوں میں کینسر کا سبب بن سکتی ہے؟ ڈاکٹر خدیجہ افضل نے پاکستان میٹرز کو اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ فضائی آلودگی، آلودہ پانی اور زہریلے کیمیکل بچوں کے جسم میں زہریلے مادے جمع کرنے کا سبب بنتے ہیں، جو کینسر کا خطرہ بڑھا سکتے ہیں۔ خاص طور پر صنعتی علاقوں میں رہنے والے بچوں میں سانس اور خون کے کینسر کے کیسز زیادہ دیکھے گئے ہیں۔ ماہر امراضِ اطفال نے کہا ہے کہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کیڑے مار ادویات، پلاسٹک میں موجود زہریلے اجزاء (بی پی اے) اور آلودہ پانی بھی مدافعتی نظام کو کمزور کر کے کینسر کا باعث بن سکتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں سائنسی ترقی کی بدولت علاج میں بہتری آئی ہے، مگر اس کے ساتھ بچوں میں کینسر کی شرح میں بھی اضافہ دیکھا گیاہے. عالمی ادارہ صحت کی گلوبل کینسر آبزرویٹری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2022 میں 185,748 کیسز رپورٹ ہوئے، 118, 631 اموات ہوئیں، جب کہ 5 سال سے کم عمر 390,443 مروجہ مقدمات درج ہوئے۔ ماہر صحتِ عامہ ڈاکٹر قمر ایوب نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ پاکستان میں غذائی آلودگی، کمزور مدافعتی نظام، آلودہ پانی اور ناقص صحت سہولیات کی وجہ سے بچوں میں کینسر کے کیسز بڑھ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے وقت پر تشخیص نہ ہونے اور مالی وسائل کی کمی بھی بیماری کی شدت میں اضافہ کرتی ہے۔ کینسر سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ بچوں میں صحت مند غذائی عادات پروان چڑھائی جائیں، قمر ایوب کا کہنا ہے کہ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو تازہ اور گھریلو کھانوں کی طرف راغب کریں، جن میں پھل، سبزیاں اور پروٹین سے بھرپور غذا شامل ہو۔ جنک فوڈ کی جگہ صحت مند اسنیکس متعارف کروا کر اور کھانے کے اوقات مقرر کر کے صحت مند عادات پروان چڑھائی جا سکتی ہیں۔ حکومتی سطح سے اقدامات کے حوالے سے ڈاکٹر قمر ایوب نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ غذائی اشیاء میں ملاوٹ کے خلاف سخت قوانین نافذ کرے اور عوام میں آگاہی مہم چلائے۔ نجی ادارے بھی کینسر ریسرچ، علاج کی سہولتوں اور صحت مند غذا کی فراہمی میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی خوراک پر توجہ دیں، بازاری اور پروسیسڈ فوڈ سے گریز کریں اور انہیں جسمانی سرگرمیوں میں شامل کریں۔ اس کے علاوہ، بچوں کا باقاعدہ طبی معائنہ کروانا اور کسی بھی غیرمعمولی علامات کو نظرانداز نہ کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ ماہرین کی رائے ظاہر کرتی ہے کہ بچوں کی صحت کے لیے متوازن غذا، صاف ستھرا ماحول اور بروقت طبی معائنہ کینسر
پاکستان میں رواں سال کا دوسرا پولیو کیس سامنے آگیا

پاکستان میں جنگلی پولیو وائرس ٹائپ 1 ( ڈبلیو پی وی ) 2025 کا دوسرا کیس رپورٹ کیا گیا ہے، جو کہ سندھ کے علاقے بدین میں تصدیق ہوا ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ ( این آئی ایچ) نے پولیو کے لیے ریجنل ریفرنس لیبارٹری نے سندھ کے ضلع بدین سے 2025 میں پاکستان کے دوسرے جنگلی پولیو وائرس ٹائپ 1( ڈبلیو پی وی ) کیس کی تصدیق کی ہے۔ یہ کیس تحصیل ٹنڈو باگو کی یونین کونسل (یو سی) مٹھی سے تعلق رکھنے والی 48 ماہ کی بچی میں سامنے آیا ہے۔ جبکہ اس سے پہلے2025 میں پولیو کا کیس خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے میں رپورٹ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب گزشتہ روز نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ ( این آئی ایچ) نے سندھ کے ضلع شکارپور میں پولیو کا 2024 کا ایک اور کیس کی تصدیق کی ہے اور شکارپور سے 2024 میں پولیو کا یہ دوسرا کیس رپورٹ کیا گیا ہے۔ گزشتہ سال یعنی 2024 کے اب تک 74 جنگلی پولیو کے کیس رپورٹ ہو چکے ہیں، ان میں سے 27 بلوچستان میں، 23 سندھ میں، 22 خیبرپختونخوا میں، اور ایک ایک پنجاب اور اسلام آباد میں رپورٹ کیے گئے ہیں۔ پاکستان پولیو پروگرام ہر سال متعدد بڑے پیمانے پر ویلسینیشن مہم چلاتا ہے ، جس سے ویکسین براہ راست بچوں کی دہلیز تک پہنچ جاتی ہے۔ واضح رہے کہ نمونے کے لیے انکیوبیشن کی مدت تقریباً تین ہفتے ہے، جو سردیوں کے موسم میں مزید بڑھ سکتی ہے۔
کیا دالیں گوشت جتنی توانائی رکھتی ہیں؟

سائنس کی ترقی کی بدولت دنیا میں جہاں انسان نے تمام مسائل پر قابو پایا ہے، وہیں نت نئی ابھرنے والی بیماریوں نے انسان کو ذہنی کشمکش میں ڈال دیا ہے۔ ان بڑھتی ہوئی تبدیلیوں کی بدولت دنیا بھر میں خوراک کے رجحانات میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں اور پاکستان بھی ان تبدیلیوں سے مستثنیٰ نہیں رہ سکا۔ تیزی سے بدلتی ہوئی طرزِ زندگی، صحت کے بڑھتے ہوئے خدشات، جانوروں کی ختم ہوتی نسل، بڑھتی ہوئی انسانی آبادی اور مہنگائی کی وجہ سے لوگ گوشت کی بجائے دالوں پر انحصار کرنے لگے ہیں، جس کی وجہ سے ایک اہم سوال نے جنم لیا ہے کہ کیا دالیں واقعی پروٹین کا بہترین متبادل ہیں یا پھر محض یہ ایک غذائی انتخاب ہے؟ انسانی جسم کے لیے پروٹین ایک بنیادی جزو ہے، جو پٹھوں کی مضبوطی، مدافعتی نظام کو بہتر بنانے اور خلیوں کی نشوونما میں مدد دیتا ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ پروٹین کا سب سے مؤثر ذریعہ گوشت ہے، لیکن غذائی ماہرین کہتے ہیں کہ دالوں میں پروٹین کے ساتھ فائبر، آئرن اور دیگر ضروری وٹامنز بھی پائے جاتے ہیں، جو انسانی صحت کے لیے بے حد فائدہ مند ہیں، اس لیے گوشت کی نسبت دالیں بہترین متبادل ہیں۔ ‘پاکستان میٹرز’ کو غذائی ماہر ڈاکٹر انجم اکبر نے بتایا ہے کہ ”اگرچہ دالیں کم چکنائی والے پروٹین اور معدنیات کی بھرپور فراہمی کا ذریعہ ہیں، مگر یہ گوشت کے تمام غذائی اجزاء کا مکمل متبادل نہیں بن سکتیں، کیونکہ گوشت میں پائے جانے والے اجزاء دالوں میں اتنی مقدار میں نہیں پائے جاتے، لیکن ایک متوازن غذا میں دالوں کو شامل کر کے گوشت کی مقدار کو کم کیا جا سکتا ہے۔” پاکستان میں گوشت کی بجائے دالوں کا کثرت سے استعمال اس لیے نہیں کیا جاتا کہ یہ گوشت کے متبادل ہے، بلکہ یہ گوشت کی نسبت سستی ملتی ہیں، تو سفید پوش طبقے کی ایک بڑی تعداد اکثر دالوں پر گزارہ کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے، جہاں مہنگائی عروج پر ہے اور گوشت ہر شہری کی قوتِ خرید میں نہیں، جس کی بدولت دالیں ایک سستا اور غذائیت سے بھرپور متبادل بنتی جا رہی ہیں۔ دنیا بھر میں دالوں کے استعمال کی ایک اور وجہ دالوں میں پروٹین کے ساتھ ساتھ فائبر، آئرن، کیلشیم اور مختلف وٹامنز کا پایا جانا ہے، جو جسمانی صحت کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ واضح رہے کہ ایک کپ دال میں تقریباً 15-18 گرام پروٹین پایا جاتا ہے، جو اسے گوشت کے قریب ترین پروٹین کا ذریعہ بناتا ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے غذائی ماہرِ ڈاکٹر فہد سلیمان نے کہا ہے کہ ” پروٹین حاصل کرنے کے لیے دالوں کے علاوہ انڈے، دہی، گری دار میوے اور بیجوں کو بھی خوراک میں شامل کرنا ضروری ہے ،تاکہ جسم کے لیے ضروری تمام امائنو ایسڈز کو پورا کیا جا سکے۔” خیال رہے کہ گوشت میں پائے جانے والے پروٹین میں تمام ضروری امائنو ایسڈز شامل ہوتے ہیں، جب کہ دوسری جانب دالوں میں بعض امائنو ایسڈز کی کمی ہوتی ہے، اسے لیے کہا جاتا ہے کہ متوازن غذا صحت کے لیے انتہائی ضروری ہے اور اسے روزانہ کی بنیاد پر کھایا جائے۔ دالوں پر کی جانے والی مختلف تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دالیں دل کے لیے بے حد مفید ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ دالوں میں فائبر اور کم چکنائی پائی جاتی ہے، جس سے یہ کولیسٹرول لیول کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں اور ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول کرتی ہیں۔ دالوں کا استعمال محض صحت بڑھانے کے لیے ہی نہیں، بلکہ وزن کم کرنے میں بھی مددگار ہے، ایسا اس لیے ہے کیونکہ دال کھانے سے دیر تک پیٹ بھرے رہنے کا احساس ہوتا ہے، جس کی وجہ سے بندہ کم کھاتا ہے۔ ڈاکٹر فہد سلیمان کے مطابق دالوں کو سبزیوں، دودھ کی مصنوعات اور مکمل اناج کے ساتھ کھانے سے متوازن غذا حاصل کی جا سکتی ہے، جو صحت کے لیے زیادہ مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ مزید یہ کہ دالیں ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بھی مفید مانی جاتی ہیں، کیونکہ ان میں کم گلیسیمک انڈیکس پایا جاتا ہے، جو بلڈ شوگر لیول کو مستحکم رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ جانوروں کے گوشت کے زیادہ استعمال سے کولیسٹرول بڑھنے کا خدشہ، ہائی بلڈ پریشر اور دیگر امراض ہونے خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ دالوں کا زیادہ استعمال بیماریوں سے بچاؤ میں بھی مددگار ہے۔ ڈاکٹر انجم اکبر کے مطابق دالوں میں پودوں سے حاصل شدہ پروٹین ہوتا ہے، جو فائبر سے بھرپور اور ہاضمے کے لیے مفید ہے، اس کے برعکس گوشت میں موجود پروٹین جانوروں سے حاصل ہوتا ہے، جو بعض اوقات زیادہ چکنائی اور کولیسٹرول کا باعث بن سکتا ہے۔ یاد رہے کہ دالوں کے زیادہ مقدار میں استعمال سے بعض افراد میں معدے کی تکلیف، گیس اور ہاضمے کے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ جہاں ہر چیز کے زیادہ استعمال سے فوائد ملتے ہیں، وہیں اس کے نقصانات بھی ہوتے ہیں، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ہر چیز کو ضرورت کے مطابق متوازن مقدار میں استعمال کیا جائے۔ دالیں گوشت کی نسبت سستی اور مفید ہیں، مگر پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے میں ان کی مقدار میں کمی آئی ہے، جس کی وجہ سے ان کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے۔ ڈاکٹر فہد سلیمان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دالوں کی پیداوار میں کمی، کاشتکاری کے جدید طریقوں کی عدم دستیابی اور درآمدات پر انحصار بڑے مسائل ہیں، جنہیں بہتر پالیسیوں کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب ڈاکٹر انجم اکبر نے دالوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ دالوں کے زیادہ استعمال سے گوشت کی پیداوار میں کمی ہو سکتی ہے، جس کے نتیجے میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بھی کمی آئے گی، جو ماحولیاتی تحفظ کے لیے مثبت قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں دالوں کا استعمال خوراک کا لازمی جزو ہے، مگر گزشتہ چند دہائیوں میں گوشت کا استعمال کچھ حد تک بڑھ گیا تھا، جس کی وجہ سے مسائل بھی دیکھے گئے، مگر حالیہ ہونے والی
رات کو جنک فوڈ کی شدید خواہش: ایک دلچسپ سائنسی حقیقت جو آپ کو حیران کر دے گی!

کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ دن کے ابتدائی حصے میں آپ جنک فوڈ کی طرف اتنی توجہ کیوں نہیں دیتے؟ اور رات کو اچانک ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کچھ کھانے کا دل کر رہا ہو خاص طور پر وہ کھانے جو چکنائی اور مٹھاس سے بھرپور ہوں؟ یہ معمول کی سی بات ہے لیکن اس کے پیچھے پیچیدہ سائنسی راز چھپے ہیں جو ہماری جسمانی اور ذہنی حالتوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ یہ سوال اس وقت ذہن میں آتا ہے جب ہم اپنی رات کی خواہشات کو روک نہیں پاتے اور جنک فوڈ کی طرف بے قابو ہو جاتے ہیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ رات کو ہمیں جنک فوڈ کی شدید خواہش ہوتی ہے؟ آئیے اس راز کو کھولتے ہیں۔ صبح کے وقت جنک فوڈ کی خواہش کیوں نہیں ہوتی؟ سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ صبح کے وقت ہمارا جسم نیند سے بیدار ہونے کے بعد خود کو بحال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب ہم سو کر اٹھتے ہیں تو ہمارے خون میں شکر کی سطح کم ہوتی ہے جس کے نتیجے میں جسم ایسی غذا کا خواہش کرتا ہے جو پروٹین، فائبر اور پیچیدہ کاربوہائیڈریٹس پر مشتمل ہو تاکہ توانائی بحال کی جا سکے۔ اس کے علاوہ ہمارے ہارمونی نظام میں بھی توازن آتا ہے اور لیپٹین (جو بھوک کو کم کرتا ہے) کی سطح زیادہ ہوتی ہے جبکہ گھریلن (جو بھوک بڑھاتا ہے) کی سطح کم ہوتی ہے جس کے باعث ہم صبح کے وقت زیادہ صحت مند غذاؤں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ لیکن جب رات آتی ہے تو صورتحال بدل جاتی ہے۔ دن بھر کی مصروفیات کے بعد ہمارے جسم کی توانائی کی سطح کم ہو جاتی ہے اور بلڈ شوگر لیول گرنے لگتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمارا جسم فوراً توانائی کے لیے جنک فوڈ کی طرف مائل ہو جاتا ہے جو چینی اور چکنائی سے بھرپور ہوتا ہے۔ اگر نیند کی کمی ہو تو یہ ایک اور عنصر بن جاتی ہے جو جنک فوڈ کی خواہش کو بڑھا دیتی ہے۔ جب ہم پوری نیند نہیں لیتے تو گھریلن (جو بھوک بڑھاتا ہے) کی سطح بڑھ جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی کورٹیسول (اسٹریس ہارمون) بھی زیادہ مقدار میں خارج ہوتا ہے۔ یہ دونوں عوامل مل کر جنک فوڈ کے لیے ہمارا رجحان بڑھا دیتے ہیں۔ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اگر آپ کی خوراک میں میگنیشیم، پروٹین یا فائبر کی کمی ہو، تو جسم ان اجزاء کی کمی کو پورا کرنے کے لیے غیر صحت بخش کھانوں کی طرف مائل ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر رات کے کھانے میں اگر پروٹین، فائبر اور پیچیدہ کاربوہائیڈریٹس کا توازن نہ ہو، تو خون میں گلوکوز کی سطح میں اچانک اضافہ اور پھر کمی آتی ہے، جس کے نتیجے میں جنک فوڈ کی شدید خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ صرف جسمانی عوامل ہی نہیں بلکہ ہمارے جذباتی عوامل بھی اس خواہش میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کئی افراد جنک فوڈ کو ایک طرح کا انعام سمجھ کر کھاتے ہیں جو دماغ میں خوشی کے ہارمون، یعنی ڈوپامائن کو خارج کرتا ہے۔ دن بھر کی تھکن اور دباؤ کے بعد ہم اپنی ذہنی حالت کو بہتر بنانے کے لیے جنک فوڈ کا سہارا لیتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ رات کو جنک فوڈ کی خواہش کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ اس کے لیے چند سادہ مگر مؤثر تجاویز پر عمل کیا جا سکتا ہے: متوازن رات کا کھانا: رات کے کھانے میں پروٹین، فائبر اور پیچیدہ کاربوہائیڈریٹس کو شامل کریں تاکہ بلڈ شوگر لیول مستحکم رہے اور جنک فوڈ کی خواہش کم ہو۔ نیند کا خیال رکھیں: کم از کم 7 سے 8 گھنٹے کی نیند لیں تاکہ آپ کا ہارمونی نظام متوازن رہے اور آپ کا جسم زیادہ توانائی کے لیے جنک فوڈ کی طرف نہ جائے۔ ورزش کی عادت ڈالیں: دن بھر کی تھکن کو دور کرنے کے لیے جسمانی سرگرمیاں ضروری ہیں، کیونکہ یہ نہ صرف شوگر لیول کو مستحکم رکھتی ہیں بلکہ ذہنی دباؤ کو بھی کم کرتی ہیں۔ پانی کی مقدار بڑھائیں: پانی پینے کی عادت ڈالیں کیونکہ کبھی کبھی پانی کی کمی کو ہم بھوک سمجھ بیٹھتے ہیں، جس سے غیر صحت بخش کھانے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔ ذہنی دباؤ سے بچیں: ذہنی دباؤ اور اسٹریس کو کم کرنے کے لیے چہل قدمی یا میڈیٹیشن جیسے طریقے اپنائیں تاکہ آپ غیر ضروری کھانے سے بچ سکیں۔ رات کے وقت جنک فوڈ کی خواہش صرف ایک عادت نہیں ہے بلکہ یہ جسمانی اور ذہنی عوامل کی پیچیدہ آمیزش کا نتیجہ ہے۔ اس خواہش کو روکنے کے لیے ہمیں اپنے خوراک کے انتخاب، نیند کی مقدار، اور روزمرہ کی روٹین پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان عوامل پر قابو پا کر ہم جنک فوڈ کی خواہش کو کم کر سکتے ہیں اور ایک صحت مند طرز زندگی کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔ لہٰذا اگر آپ رات کو جنک فوڈ سے بچنا چاہتے ہیں تو ان سادہ مگر مؤثر تجاویز کو اپنی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنائیں اور اپنی صحت کا خیال رکھیں۔ یہ بھی پڑھیں:انسانی آنکھ کی حیرت انگیز ریزولوشن: کیا ہماری نظر جدید کیمروں سے زیادہ طاقتور ہے؟
مرغی کے گوشت اور پانی سے پھیلتا وائرس جو انسانی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے

پچھلے ماہ انڈیا کے شہر پونے میں ایک سکول ٹیچر کی زندگی میں ایک ایسا لمحہ آیا جس نے ان کی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ جب ان کے چھ سالہ بیٹے نے ہوم ورک کرنے کے دوران پینسل درست طریقے سے پکڑنے سے انکار کر دیا تو انہوں نے سوچا کہ شاید بچہ مجھ سے ناراض ہو گیا ہے، لیکن یہ حقیقت کچھ اور تھی۔ ان کے بیٹے کا پینسل نہ پکڑ پانا دراصل ایک نایاب اور جان لیوا بیماری ‘گلین برے سنڈروم’ (GBS) کی علامات میں سے تھا جو انسان کے جسم کے ٹشوز اور پٹھوں پر حملہ آور ہو کر انسان کو مفلوج کر دیتی ہے۔ چند دنوں میں یہ چھ سالہ بچہ انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں داخل تھا جہاں اس کی حالت بگڑ چکی تھی۔ وہ اپنے ہاتھوں اور پیروں کو ہلا نہیں پا رہا تھا اور اس کے سانس لینے میں مشکلات پیش آ رہی تھیں۔ بعد ازاں اسے وینٹیلیٹر پر منتقل کر دیا گیا لیکن خوش قسمتی سے اس کی حالت اب بہتر ہو رہی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق پونے شہر میں جنوری سے لے کر اب تک ایسے 160 کیسز سامنے آ چکے ہیں اور اب تک پانچ افراد کی جان جا چکی ہے۔ اس وقت 48 افراد انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں زیر علاج ہیں جبکہ 21 مریضوں کو وینٹیلیٹر پر رکھا گیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 38 افراد صحتیاب ہو کر اپنے گھروں کو واپس جا چکے ہیں۔ گلین برے سنڈروم (GBS) ایک نایاب بیماری ہے جو جسم کے پٹھوں اور اعصابی نظام پر حملہ کرتی ہے اور انسان کو کمزور یا مفلوج کر دیتی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: سمندر کی گہرائی میں انسانیت کا نیا سفر: سائنسدانوں نے منصوبہ تیار کر لیا اس کی ابتدائی علامات میں ہاتھوں اور پیروں کا سن ہونا یا ان میں سنسناہٹ کا احساس شامل ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بیماری شدت اختیار کرتی ہے اور مریض کو اپنے جسم کے حصے حرکت دینے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ اگر یہ بیماری مزید بڑھ جائے تو مریض کو سانس لینے میں بھی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں وینٹیلیٹر کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ پونے میں جی بی ایس کے پھیلاؤ کی وجہ “کیمپیلوبیکٹر جیجونی” نامی جرثومہ ہے جو دنیا بھر میں کھانے پینے کی اشیاء کے ذریعے پھیلتا ہے۔ یہ جرثومہ مرغی کے گوشت اور پانی سے انسانوں میں منتقل ہو سکتا ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں اس جرثومے سے متعلق کیسز دنیا کے مختلف حصوں میں سامنے آ چکے ہیں اور اب انڈیا کے شہر پونے میں یہ بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے۔ کیمپیلوبیکٹر جیجونی ایک خطرناک جرثومہ ہے جو مرغی کے گوشت اور پانی کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ 1990 کی دہائی میں چین کے دیہی علاقوں میں اس جرثومے کا پھیلاؤ دیکھا گیا تھا جہاں بارش کے موسم میں بطخیں، مرغیاں اور بچے ایک ہی پانی میں کھیلتے تھے اور یہ جرثومہ اس پانی کے ذریعے منتقل ہوتا تھا۔ لازمی پڑھیں: پاکستانی خاندان کی منفرد صلاحیت سے واقف محقیقین کی دوا ایف ڈی اے نے منظور کر لی اس جرثومے سے جی بی ایس کا تعلق 1990 کی دہائی میں پہلی بار سامنے آیا تھا اور اب یہ جرثومہ انڈیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ پونے شہر میں حالیہ دنوں میں کیمپیلوبیکٹر جیجونی کے سبب جی بی ایس کے کیسز بڑھ رہے ہیں اور ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اس جرثومے کی قسم اس وقت پونے میں گردش کر رہی ہے جس کے سبب اتنی بڑی تعداد میں جی بی ایس کے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ خطرناک بات یہ ہے کہ جی بی ایس کا کوئی مستقل علاج موجود نہیں ہے، مریضوں کے جسم میں کیمپیلوبیکٹر جیجونی کے خلاف اینٹی باڈیز بنتی ہیں اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ‘پلازما ایکسچینج’ جیسے طریقوں سے بیماری کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، یہ طریقہ بھی ہر مریض پر موثر نہیں ہوتا۔ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ جی بی ایس کی تشخیص کسی ایک ٹیسٹ سے نہیں کی جا سکتی۔ اس بیماری کی تشخیص مختلف مراحل میں ہوتی ہے اور اکثر اس کی غلط تشخیص یا تاخیر سے بیماری مزید بڑھ سکتی ہے۔ انڈیا کے دیہی علاقوں میں اس بیماری کی درست تشخیص کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں جس کے سبب بیماری کے پھیلاؤ کو روکنا مشکل ہو رہا ہے۔ پونے میں جی بی ایس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومتی اقدامات جاری ہیں۔ حکام نے 60 ہزار گھروں کا معائنہ کیا اور پانی کے نمونے جمع کیے۔ لوگوں کو احتیاطی تدابیر اپنانے کی ہدایت دی گئی ہے جیسے کہ پانی کو اُبال کر پینا، تازہ کھانا کھانا اور باسی یا ادھ پکے گوشت سے پرہیز کرنا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کیمپیلوبیکٹر جیجونی کے جرثومے کا پھیلاؤ پوری دنیا میں جاری ہے اور انڈیا میں اس کا تیزی سے پھیلنا ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ ان کی یہ بھی رائے ہے کہ اگر مناسب احتیاطی تدابیر نہ اپنائی گئیں تو یہ بیماری اور زیادہ شدت اختیار کر سکتی ہے۔ پونے میں جی بی ایس کے بڑھتے ہوئے کیسز اور کیمپیلوبیکٹر جیجونی کے خطرے نے انڈیا سمیت پوری دنیا میں ایک سنگین صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اس وائرس کے پھیلاؤ کے باعث نہ صرف لوگوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے بلکہ اس سے نمٹنے کے لیے حکومت اور ماہرین صحت کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی پیدا ہو چکا ہے۔ ان اقدامات کے باوجود اس بیماری کی روک تھام اور علاج میں مشکلات سامنے آ رہی ہیں جس سے شہریوں میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے۔ مزید پڑھیں: انسانی آنکھ کی حیرت انگیز ریزولوشن: کیا ہماری نظر جدید کیمروں سے زیادہ طاقتور ہے؟