کیا دالیں گوشت جتنی توانائی رکھتی ہیں؟

سائنس کی ترقی کی بدولت دنیا میں جہاں انسان نے تمام مسائل پر قابو پایا ہے، وہیں نت نئی ابھرنے والی بیماریوں نے انسان کو ذہنی کشمکش میں ڈال دیا ہے۔ ان بڑھتی ہوئی تبدیلیوں کی بدولت دنیا بھر میں خوراک کے رجحانات میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں اور پاکستان بھی ان تبدیلیوں سے مستثنیٰ نہیں رہ سکا۔ تیزی سے بدلتی ہوئی طرزِ زندگی، صحت کے بڑھتے ہوئے خدشات، جانوروں کی ختم ہوتی نسل، بڑھتی ہوئی انسانی آبادی اور مہنگائی کی وجہ سے لوگ گوشت کی بجائے دالوں پر انحصار کرنے لگے ہیں، جس کی وجہ سے ایک اہم سوال نے جنم لیا ہے کہ کیا دالیں واقعی پروٹین کا بہترین متبادل ہیں یا پھر محض یہ ایک غذائی انتخاب ہے؟ انسانی جسم کے لیے پروٹین ایک بنیادی جزو ہے، جو پٹھوں کی مضبوطی، مدافعتی نظام کو بہتر بنانے اور خلیوں کی نشوونما میں مدد دیتا ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ پروٹین کا سب سے مؤثر ذریعہ گوشت ہے، لیکن غذائی ماہرین کہتے ہیں کہ دالوں میں پروٹین کے ساتھ فائبر، آئرن اور دیگر ضروری وٹامنز بھی پائے جاتے ہیں، جو انسانی صحت کے لیے بے حد فائدہ مند ہیں، اس لیے گوشت کی نسبت دالیں بہترین متبادل ہیں۔ ‘پاکستان میٹرز’ کو غذائی ماہر ڈاکٹر انجم اکبر نے بتایا ہے کہ ”اگرچہ دالیں کم چکنائی والے پروٹین اور معدنیات کی بھرپور فراہمی کا ذریعہ ہیں، مگر یہ گوشت کے تمام غذائی اجزاء کا مکمل متبادل نہیں بن سکتیں، کیونکہ گوشت میں پائے جانے والے اجزاء دالوں میں اتنی مقدار میں نہیں پائے جاتے، لیکن ایک متوازن غذا میں دالوں کو شامل کر کے گوشت کی مقدار کو کم کیا جا سکتا ہے۔” پاکستان میں گوشت کی بجائے دالوں کا کثرت سے استعمال اس لیے نہیں کیا جاتا کہ یہ گوشت کے متبادل ہے، بلکہ یہ گوشت کی نسبت سستی ملتی ہیں، تو سفید پوش طبقے کی ایک بڑی تعداد اکثر دالوں پر گزارہ کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے، جہاں مہنگائی عروج پر ہے اور گوشت ہر شہری کی قوتِ خرید میں نہیں، جس کی بدولت دالیں ایک سستا اور غذائیت سے بھرپور متبادل بنتی جا رہی ہیں۔ دنیا بھر میں دالوں کے استعمال کی ایک اور وجہ دالوں میں پروٹین کے ساتھ ساتھ فائبر، آئرن، کیلشیم اور مختلف وٹامنز کا پایا جانا ہے، جو جسمانی صحت کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ واضح رہے کہ ایک کپ دال میں تقریباً 15-18 گرام پروٹین پایا جاتا ہے، جو اسے گوشت کے قریب ترین پروٹین کا ذریعہ بناتا ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے غذائی ماہرِ ڈاکٹر فہد سلیمان نے کہا ہے کہ ” پروٹین حاصل کرنے کے لیے دالوں کے علاوہ انڈے، دہی، گری دار میوے اور بیجوں کو بھی خوراک میں شامل کرنا ضروری ہے ،تاکہ جسم کے لیے ضروری تمام امائنو ایسڈز کو پورا کیا جا سکے۔” خیال رہے کہ گوشت میں پائے جانے والے پروٹین میں تمام ضروری امائنو ایسڈز شامل ہوتے ہیں، جب کہ دوسری جانب دالوں میں بعض امائنو ایسڈز کی کمی ہوتی ہے، اسے لیے کہا جاتا ہے کہ متوازن غذا صحت کے لیے انتہائی ضروری ہے اور اسے روزانہ کی بنیاد پر کھایا جائے۔ دالوں پر کی جانے والی مختلف تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دالیں دل کے لیے بے حد مفید ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ دالوں میں فائبر اور کم چکنائی پائی جاتی ہے، جس سے یہ کولیسٹرول لیول کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں اور ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول کرتی ہیں۔ دالوں کا استعمال محض صحت بڑھانے کے لیے ہی نہیں، بلکہ وزن کم کرنے میں بھی مددگار ہے، ایسا اس لیے ہے کیونکہ دال کھانے سے دیر تک پیٹ بھرے رہنے کا احساس ہوتا ہے، جس کی وجہ سے بندہ کم کھاتا ہے۔ ڈاکٹر فہد سلیمان کے مطابق دالوں کو سبزیوں، دودھ کی مصنوعات اور مکمل اناج کے ساتھ کھانے سے متوازن غذا حاصل کی جا سکتی ہے، جو صحت کے لیے زیادہ مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ مزید یہ کہ دالیں ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بھی مفید مانی جاتی ہیں، کیونکہ ان میں کم گلیسیمک انڈیکس پایا جاتا ہے، جو بلڈ شوگر لیول کو مستحکم رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ جانوروں کے گوشت کے زیادہ استعمال سے کولیسٹرول بڑھنے کا خدشہ، ہائی بلڈ پریشر اور دیگر امراض ہونے خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ دالوں کا زیادہ استعمال بیماریوں سے بچاؤ میں بھی مددگار ہے۔ ڈاکٹر انجم اکبر کے مطابق دالوں میں پودوں سے حاصل شدہ پروٹین ہوتا ہے، جو فائبر سے بھرپور اور ہاضمے کے لیے مفید ہے، اس کے برعکس گوشت میں موجود پروٹین جانوروں سے حاصل ہوتا ہے، جو بعض اوقات زیادہ چکنائی اور کولیسٹرول کا باعث بن سکتا ہے۔ یاد رہے کہ دالوں کے زیادہ مقدار میں استعمال سے بعض افراد میں معدے کی تکلیف، گیس اور ہاضمے کے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ جہاں ہر چیز کے زیادہ استعمال سے فوائد ملتے ہیں، وہیں اس کے نقصانات بھی ہوتے ہیں، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ہر چیز کو ضرورت کے مطابق متوازن مقدار میں استعمال کیا جائے۔ دالیں گوشت کی نسبت سستی اور مفید ہیں، مگر پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے میں ان کی مقدار میں کمی آئی ہے، جس کی وجہ سے ان کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے۔ ڈاکٹر فہد سلیمان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دالوں کی پیداوار میں کمی، کاشتکاری کے جدید طریقوں کی عدم دستیابی اور درآمدات پر انحصار بڑے مسائل ہیں، جنہیں بہتر پالیسیوں کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب ڈاکٹر انجم اکبر نے دالوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ دالوں کے زیادہ استعمال سے گوشت کی پیداوار میں کمی ہو سکتی ہے، جس کے نتیجے میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بھی کمی آئے گی، جو ماحولیاتی تحفظ کے لیے مثبت قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں دالوں کا استعمال خوراک کا لازمی جزو ہے، مگر گزشتہ چند دہائیوں میں گوشت کا استعمال کچھ حد تک بڑھ گیا تھا، جس کی وجہ سے مسائل بھی دیکھے گئے، مگر حالیہ ہونے والی
رات کو جنک فوڈ کی شدید خواہش: ایک دلچسپ سائنسی حقیقت جو آپ کو حیران کر دے گی!

کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ دن کے ابتدائی حصے میں آپ جنک فوڈ کی طرف اتنی توجہ کیوں نہیں دیتے؟ اور رات کو اچانک ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کچھ کھانے کا دل کر رہا ہو خاص طور پر وہ کھانے جو چکنائی اور مٹھاس سے بھرپور ہوں؟ یہ معمول کی سی بات ہے لیکن اس کے پیچھے پیچیدہ سائنسی راز چھپے ہیں جو ہماری جسمانی اور ذہنی حالتوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ یہ سوال اس وقت ذہن میں آتا ہے جب ہم اپنی رات کی خواہشات کو روک نہیں پاتے اور جنک فوڈ کی طرف بے قابو ہو جاتے ہیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ رات کو ہمیں جنک فوڈ کی شدید خواہش ہوتی ہے؟ آئیے اس راز کو کھولتے ہیں۔ صبح کے وقت جنک فوڈ کی خواہش کیوں نہیں ہوتی؟ سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ صبح کے وقت ہمارا جسم نیند سے بیدار ہونے کے بعد خود کو بحال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب ہم سو کر اٹھتے ہیں تو ہمارے خون میں شکر کی سطح کم ہوتی ہے جس کے نتیجے میں جسم ایسی غذا کا خواہش کرتا ہے جو پروٹین، فائبر اور پیچیدہ کاربوہائیڈریٹس پر مشتمل ہو تاکہ توانائی بحال کی جا سکے۔ اس کے علاوہ ہمارے ہارمونی نظام میں بھی توازن آتا ہے اور لیپٹین (جو بھوک کو کم کرتا ہے) کی سطح زیادہ ہوتی ہے جبکہ گھریلن (جو بھوک بڑھاتا ہے) کی سطح کم ہوتی ہے جس کے باعث ہم صبح کے وقت زیادہ صحت مند غذاؤں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ لیکن جب رات آتی ہے تو صورتحال بدل جاتی ہے۔ دن بھر کی مصروفیات کے بعد ہمارے جسم کی توانائی کی سطح کم ہو جاتی ہے اور بلڈ شوگر لیول گرنے لگتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمارا جسم فوراً توانائی کے لیے جنک فوڈ کی طرف مائل ہو جاتا ہے جو چینی اور چکنائی سے بھرپور ہوتا ہے۔ اگر نیند کی کمی ہو تو یہ ایک اور عنصر بن جاتی ہے جو جنک فوڈ کی خواہش کو بڑھا دیتی ہے۔ جب ہم پوری نیند نہیں لیتے تو گھریلن (جو بھوک بڑھاتا ہے) کی سطح بڑھ جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی کورٹیسول (اسٹریس ہارمون) بھی زیادہ مقدار میں خارج ہوتا ہے۔ یہ دونوں عوامل مل کر جنک فوڈ کے لیے ہمارا رجحان بڑھا دیتے ہیں۔ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اگر آپ کی خوراک میں میگنیشیم، پروٹین یا فائبر کی کمی ہو، تو جسم ان اجزاء کی کمی کو پورا کرنے کے لیے غیر صحت بخش کھانوں کی طرف مائل ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر رات کے کھانے میں اگر پروٹین، فائبر اور پیچیدہ کاربوہائیڈریٹس کا توازن نہ ہو، تو خون میں گلوکوز کی سطح میں اچانک اضافہ اور پھر کمی آتی ہے، جس کے نتیجے میں جنک فوڈ کی شدید خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ صرف جسمانی عوامل ہی نہیں بلکہ ہمارے جذباتی عوامل بھی اس خواہش میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کئی افراد جنک فوڈ کو ایک طرح کا انعام سمجھ کر کھاتے ہیں جو دماغ میں خوشی کے ہارمون، یعنی ڈوپامائن کو خارج کرتا ہے۔ دن بھر کی تھکن اور دباؤ کے بعد ہم اپنی ذہنی حالت کو بہتر بنانے کے لیے جنک فوڈ کا سہارا لیتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ رات کو جنک فوڈ کی خواہش کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ اس کے لیے چند سادہ مگر مؤثر تجاویز پر عمل کیا جا سکتا ہے: متوازن رات کا کھانا: رات کے کھانے میں پروٹین، فائبر اور پیچیدہ کاربوہائیڈریٹس کو شامل کریں تاکہ بلڈ شوگر لیول مستحکم رہے اور جنک فوڈ کی خواہش کم ہو۔ نیند کا خیال رکھیں: کم از کم 7 سے 8 گھنٹے کی نیند لیں تاکہ آپ کا ہارمونی نظام متوازن رہے اور آپ کا جسم زیادہ توانائی کے لیے جنک فوڈ کی طرف نہ جائے۔ ورزش کی عادت ڈالیں: دن بھر کی تھکن کو دور کرنے کے لیے جسمانی سرگرمیاں ضروری ہیں، کیونکہ یہ نہ صرف شوگر لیول کو مستحکم رکھتی ہیں بلکہ ذہنی دباؤ کو بھی کم کرتی ہیں۔ پانی کی مقدار بڑھائیں: پانی پینے کی عادت ڈالیں کیونکہ کبھی کبھی پانی کی کمی کو ہم بھوک سمجھ بیٹھتے ہیں، جس سے غیر صحت بخش کھانے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔ ذہنی دباؤ سے بچیں: ذہنی دباؤ اور اسٹریس کو کم کرنے کے لیے چہل قدمی یا میڈیٹیشن جیسے طریقے اپنائیں تاکہ آپ غیر ضروری کھانے سے بچ سکیں۔ رات کے وقت جنک فوڈ کی خواہش صرف ایک عادت نہیں ہے بلکہ یہ جسمانی اور ذہنی عوامل کی پیچیدہ آمیزش کا نتیجہ ہے۔ اس خواہش کو روکنے کے لیے ہمیں اپنے خوراک کے انتخاب، نیند کی مقدار، اور روزمرہ کی روٹین پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان عوامل پر قابو پا کر ہم جنک فوڈ کی خواہش کو کم کر سکتے ہیں اور ایک صحت مند طرز زندگی کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔ لہٰذا اگر آپ رات کو جنک فوڈ سے بچنا چاہتے ہیں تو ان سادہ مگر مؤثر تجاویز کو اپنی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنائیں اور اپنی صحت کا خیال رکھیں۔ یہ بھی پڑھیں:انسانی آنکھ کی حیرت انگیز ریزولوشن: کیا ہماری نظر جدید کیمروں سے زیادہ طاقتور ہے؟
مرغی کے گوشت اور پانی سے پھیلتا وائرس جو انسانی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے

پچھلے ماہ انڈیا کے شہر پونے میں ایک سکول ٹیچر کی زندگی میں ایک ایسا لمحہ آیا جس نے ان کی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ جب ان کے چھ سالہ بیٹے نے ہوم ورک کرنے کے دوران پینسل درست طریقے سے پکڑنے سے انکار کر دیا تو انہوں نے سوچا کہ شاید بچہ مجھ سے ناراض ہو گیا ہے، لیکن یہ حقیقت کچھ اور تھی۔ ان کے بیٹے کا پینسل نہ پکڑ پانا دراصل ایک نایاب اور جان لیوا بیماری ‘گلین برے سنڈروم’ (GBS) کی علامات میں سے تھا جو انسان کے جسم کے ٹشوز اور پٹھوں پر حملہ آور ہو کر انسان کو مفلوج کر دیتی ہے۔ چند دنوں میں یہ چھ سالہ بچہ انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں داخل تھا جہاں اس کی حالت بگڑ چکی تھی۔ وہ اپنے ہاتھوں اور پیروں کو ہلا نہیں پا رہا تھا اور اس کے سانس لینے میں مشکلات پیش آ رہی تھیں۔ بعد ازاں اسے وینٹیلیٹر پر منتقل کر دیا گیا لیکن خوش قسمتی سے اس کی حالت اب بہتر ہو رہی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق پونے شہر میں جنوری سے لے کر اب تک ایسے 160 کیسز سامنے آ چکے ہیں اور اب تک پانچ افراد کی جان جا چکی ہے۔ اس وقت 48 افراد انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں زیر علاج ہیں جبکہ 21 مریضوں کو وینٹیلیٹر پر رکھا گیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 38 افراد صحتیاب ہو کر اپنے گھروں کو واپس جا چکے ہیں۔ گلین برے سنڈروم (GBS) ایک نایاب بیماری ہے جو جسم کے پٹھوں اور اعصابی نظام پر حملہ کرتی ہے اور انسان کو کمزور یا مفلوج کر دیتی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: سمندر کی گہرائی میں انسانیت کا نیا سفر: سائنسدانوں نے منصوبہ تیار کر لیا اس کی ابتدائی علامات میں ہاتھوں اور پیروں کا سن ہونا یا ان میں سنسناہٹ کا احساس شامل ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بیماری شدت اختیار کرتی ہے اور مریض کو اپنے جسم کے حصے حرکت دینے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ اگر یہ بیماری مزید بڑھ جائے تو مریض کو سانس لینے میں بھی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں وینٹیلیٹر کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ پونے میں جی بی ایس کے پھیلاؤ کی وجہ “کیمپیلوبیکٹر جیجونی” نامی جرثومہ ہے جو دنیا بھر میں کھانے پینے کی اشیاء کے ذریعے پھیلتا ہے۔ یہ جرثومہ مرغی کے گوشت اور پانی سے انسانوں میں منتقل ہو سکتا ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں اس جرثومے سے متعلق کیسز دنیا کے مختلف حصوں میں سامنے آ چکے ہیں اور اب انڈیا کے شہر پونے میں یہ بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے۔ کیمپیلوبیکٹر جیجونی ایک خطرناک جرثومہ ہے جو مرغی کے گوشت اور پانی کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ 1990 کی دہائی میں چین کے دیہی علاقوں میں اس جرثومے کا پھیلاؤ دیکھا گیا تھا جہاں بارش کے موسم میں بطخیں، مرغیاں اور بچے ایک ہی پانی میں کھیلتے تھے اور یہ جرثومہ اس پانی کے ذریعے منتقل ہوتا تھا۔ لازمی پڑھیں: پاکستانی خاندان کی منفرد صلاحیت سے واقف محقیقین کی دوا ایف ڈی اے نے منظور کر لی اس جرثومے سے جی بی ایس کا تعلق 1990 کی دہائی میں پہلی بار سامنے آیا تھا اور اب یہ جرثومہ انڈیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ پونے شہر میں حالیہ دنوں میں کیمپیلوبیکٹر جیجونی کے سبب جی بی ایس کے کیسز بڑھ رہے ہیں اور ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اس جرثومے کی قسم اس وقت پونے میں گردش کر رہی ہے جس کے سبب اتنی بڑی تعداد میں جی بی ایس کے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ خطرناک بات یہ ہے کہ جی بی ایس کا کوئی مستقل علاج موجود نہیں ہے، مریضوں کے جسم میں کیمپیلوبیکٹر جیجونی کے خلاف اینٹی باڈیز بنتی ہیں اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ‘پلازما ایکسچینج’ جیسے طریقوں سے بیماری کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، یہ طریقہ بھی ہر مریض پر موثر نہیں ہوتا۔ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ جی بی ایس کی تشخیص کسی ایک ٹیسٹ سے نہیں کی جا سکتی۔ اس بیماری کی تشخیص مختلف مراحل میں ہوتی ہے اور اکثر اس کی غلط تشخیص یا تاخیر سے بیماری مزید بڑھ سکتی ہے۔ انڈیا کے دیہی علاقوں میں اس بیماری کی درست تشخیص کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں جس کے سبب بیماری کے پھیلاؤ کو روکنا مشکل ہو رہا ہے۔ پونے میں جی بی ایس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومتی اقدامات جاری ہیں۔ حکام نے 60 ہزار گھروں کا معائنہ کیا اور پانی کے نمونے جمع کیے۔ لوگوں کو احتیاطی تدابیر اپنانے کی ہدایت دی گئی ہے جیسے کہ پانی کو اُبال کر پینا، تازہ کھانا کھانا اور باسی یا ادھ پکے گوشت سے پرہیز کرنا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کیمپیلوبیکٹر جیجونی کے جرثومے کا پھیلاؤ پوری دنیا میں جاری ہے اور انڈیا میں اس کا تیزی سے پھیلنا ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ ان کی یہ بھی رائے ہے کہ اگر مناسب احتیاطی تدابیر نہ اپنائی گئیں تو یہ بیماری اور زیادہ شدت اختیار کر سکتی ہے۔ پونے میں جی بی ایس کے بڑھتے ہوئے کیسز اور کیمپیلوبیکٹر جیجونی کے خطرے نے انڈیا سمیت پوری دنیا میں ایک سنگین صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اس وائرس کے پھیلاؤ کے باعث نہ صرف لوگوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے بلکہ اس سے نمٹنے کے لیے حکومت اور ماہرین صحت کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی پیدا ہو چکا ہے۔ ان اقدامات کے باوجود اس بیماری کی روک تھام اور علاج میں مشکلات سامنے آ رہی ہیں جس سے شہریوں میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے۔ مزید پڑھیں: انسانی آنکھ کی حیرت انگیز ریزولوشن: کیا ہماری نظر جدید کیمروں سے زیادہ طاقتور ہے؟
انسانی آنکھ کی حیرت انگیز ریزولوشن: کیا ہماری نظر جدید کیمروں سے زیادہ طاقتور ہے؟

ہم سب روزمرہ کی زندگی میں کیمروں کا استعمال کرتے ہیں چاہے وہ اسمارٹ فون کا کیمرہ ہو یا پروفیشنل کیمرا، ہمیشہ ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ہمیں بہترین کوالٹی کی تصاویر ملیں۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ قدرت نے انسانوں میں جو ’کیمرہ‘ فٹ کیا ہے، اس کی ریزولوشن کتنی ہوگی؟ یقیناً، اس سوال کا جواب جان کر آپ حیران رہ جائیں گے! جدید سائنسی تحقیق کے مطابق انسانی آنکھ کی ریزولوشن تقریباً 576 میگا پکسلز ہے۔ جی ہاں، آپ نے بالکل درست پڑھا! یہ وہ ریزولوشن ہے جو آج کے جدید ترین اسمارٹ فون کیمروں سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ تاہم، اس حیرت انگیز حقیقت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہ جانیں کہ انسانی آنکھ اور ڈیجیٹل کیمرے میں بنیادی فرق کیا ہے۔ ڈیجیٹل کیمروں کی ریزولوشن ہر پکسل کی ایک فکسڈ سائز ہوتی ہے، جبکہ انسانی آنکھ کا نظام اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور قدرتی ہے۔ انسانی آنکھ میں موجود فوٹوریسپٹرز کی تعداد اس حد تک زیادہ ہوتی ہے کہ یہ دنیا کو انتہائی تفصیل سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن اس کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ ہم کس جگہ اور کس زاویے سے دیکھ رہے ہیں۔ انسانی آنکھ کا سب سے زیادہ تفصیلی حصہ ’فویا‘ (Fovea) کہلاتا ہے۔ فویا ایک مخصوص حصہ ہوتا ہے جو ہماری آنکھ کے مرکزی نقطے پر واقع ہوتا ہے اور یہاں پر فوٹو ریسیپٹرز کی تعداد انتہائی زیادہ ہوتی ہے۔ فویا میں تقریباً 1 لاکھ 50 ہزار فوٹو ریسیپٹرز فی مربع ملی میٹر موجود ہوتے ہیں، جو اس نقطے کو انتہائی واضح اور تفصیلی طور پر دیکھنے کی صلاحیت فراہم کرتے ہیں۔ اگر ہم کسی چیز کو براہ راست فوکس کرتے ہیں تو فویا کی ریزولوشن اس حد تک زیادہ ہوتی ہے کہ وہ تصویر کی کیفیت کو انتہائی بڑھا دیتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس، جب ہم اپنی نظر کو کسی اور طرف موڑتے ہیں تو ہمارے آس پاس کی تصاویر کی ریزولوشن کم ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی آنکھ مسلسل حرکت میں رہتی ہے اور دماغ تمام بصری معلومات کو جوڑ کر ایک مکمل اور واضح تصویر بناتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: پاکستانی خاندان کی منفرد صلاحیت سے واقف محقیقین کی دوا ایف ڈی اے نے منظور کر لی یہ کسی بھی ڈیجیٹل کیمرے سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ انسانی آنکھ اتنی حیرت انگیز صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ روشنی اور اندھیرے کے فرق کو بہت بہتر طور پر سمجھ سکتی ہے، اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم قدرتی ماحول کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ انسانی آنکھ تقریباً 10 ملین مختلف رنگوں کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جو کسی بھی جدید کیمرے سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دنیا کو رنگوں کی ایک وسیع تر اور متنوع رینج میں دیکھ سکتے ہیں، جو ایک کیمرے کے لیے ممکن نہیں۔ اگرچہ ٹیکنالوجی نے بے شمار طاقتور کیمرے تیار کر لیے ہیں لیکن یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کہ انسانی آنکھ کا نظام اب بھی ایک ناقابلِ یقین تخلیق ہے۔ مزید پڑھیں: آپ کی ایک گوگل سرچ بھی ماحول کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ مگر کیسے؟ یہ نہ صرف دنیا کو ایک وسیع زاویے سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ روشنی، رنگ، حرکت، اور گہرائی کو بھی انتہائی تفصیل سے محسوس کرتی ہے۔ انسانی آنکھ کا یہ پیچیدہ اور حیرت انگیز نظام اس بات کا ثبوت ہے کہ قدرت نے اس میں ایک ایسی طاقت رکھی ہے جو کسی بھی مصنوعی نظام سے کہیں زیادہ موثر اور حیران کن ہے۔ اس کی گہرائی اور پیچیدگی ابھی تک سائنسدانوں کے لیے ایک معمہ بنی ہوئی ہے اور وہ اس کی مکمل تفصیلات کو سمجھنے کے لیے تحقیق کر رہے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ انسانی آنکھ قدرت کا ایک شاہکار ہے، جو ہر لمحہ دنیا کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کی ریزولوشن اور صلاحیتیں آج کے ڈیجیٹل کیمروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں، اور شاید یہی وجہ ہے کہ یہ کبھی بھی مکمل طور پر بدل نہیں سکتی۔ اگرچہ ٹیکنالوجی نے ہمیں شاندار کیمروں سے لیس کیا ہے لیکن انسانی آنکھ کا نظام ہمیشہ ہی سب سے بہترین اور حیرت انگیز رہے گا۔ ضرور پڑھیں: چوہوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی انسانوں کے لیے وبال جان بن گئی
امریکی امداد کی بندش: دنیا بھر میں ہیلتھ کرائسز بڑھنے لگے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 جنوری کو دیے گئے حکم کے بعد دنیا بھر میں انسانی امداد کی فراہمی روک دی ہے جس نے دنیا کے مختلف حصوں میں افرا تفری کی لہر دوڑادی ہے۔ اس فیصلے کے اثرات غریب اور متاثرہ ملکوں میں فوری طور پر نظر آنے لگے ہیں جہاں زندگیاں بچانے والے پروگراموں کی بندش سے لاکھوں افراد کی تقدیر داؤ پر لگ چکی ہے۔ گھانا اور کینیا میں ملیریا کے خلاف ہونے والی مہم رک گئی ہے کیونکہ کیڑے مار ادویات اور مچھر دانیاں گوداموں میں پڑی ہیں۔ ان ممالک میں، جہاں ملیریا ایک خطرناک بیماری ہے اور ہر برس ہزاروں افراد اس کا شکار ہوتے ہیں، امداد کے بغیر لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ امریکی حکام نے ان مہمات کے دوبارہ آغاز کی اجازت دینے میں تاخیر کی ہے، جس سے ان کی افادیت ختم ہونے کا خدشہ ہے۔ اس کے علاوہ ہیٹی میں ایچ آئی وی کے مریضوں کو علاج فراہم کرنے والے گروہ بھی اس بندش کے شکار ہیں۔ لازمی پڑھیں:امریکی ریاست الاسکا سے لاپتہ طیارے کا ملبہ مل گیا، تمام مسافر ہلاک خاص طور پر وہ ادویات جو ماؤں کو اپنے بچوں میں ایچ آئی وی کی منتقلی سے بچاتی ہیں، وہ گوداموں میں پھنس چکی ہیں۔ اس بحران کے باعث سینکڑوں افراد کا علاج رک چکا ہے۔ دوسری جانب میانمار میں صورتحال اور بھی سنگین ہے جہاں امداد کی فراہمی کا انحصار امریکا پر ہے۔ وہاں کے انسان دوست کارکنوں نے صورتحال کو ‘تباہی’ قرار دیا ہے۔ میانمار میں قحط اور خانہ جنگی کے درمیان لاکھوں افراد کی زندگیاں بچانے والے پروگراموں کی بندش سے لوگوں کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے 20 جنوری کو ‘زندگی بچانے والی امداد’ کے لیے استثنیٰ کا اعلان کیا تھا جس میں طبی خدمات، خوراک، پناہ گزینی اور دیگر اہم امدادی سرگرمیاں شامل ہیں، مگر اس استثنیٰ کے باوجود امدادی کارکنوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ کون سی سرگرمیاں اس کی زد میں آئیں گی۔ یہ بھی پڑھیں: جنوبی میکسیکو میں بس حادثہ: 41 افراد جاں بحق، بس مکمل جل گئی اس افراتفری کا ایک اور سبب امریکی حکام سے رابطے کا فقدان ہے۔ امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ امریکی حکام کی طرف سے دی جانے والی معلومات بہت کم اور متضاد ہیں۔ کئی امدادی تنظیموں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ انہیں اب تک یہ واضح طور پر نہیں بتایا گیا کہ امدادی پروگراموں کے کون سے حصے جاری رہ سکتے ہیں اور جب تک انہیں درست معلومات نہیں ملیں گی، وہ دوبارہ کام شروع نہیں کر سکتے۔ یو ایس ایڈ، جو دنیا کے مختلف حصوں میں انسانیت کی خدمت کرنے والی سب سے بڑی امریکی ایجنسی ہے، اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔ ایجنسی کے عملے کے اندر بے چینی اور اضطراب کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ٹرمپ کے فیصلے سے ایجنسی کے ملازمین میں سے 611 افراد کی نوکریاں خطرے میں ہیں۔ خصوصاً افریقہ میں، جہاں ملیریا اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے لاکھوں افراد کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں، اس بندش کا انتہائی سنگین اثر پڑا ہے۔ امریکا کی امدادی سرگرمیوں کے بغیر افریقی ممالک میں صحت کے پروگراموں میں شدید خلل آیا ہے۔ ضرور پڑھیں:ایلون مسک کے “ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی” پر فیڈرل جج کا بڑا فیصلہ، امریکی ٹریژری ڈیپارٹمنٹ کے حساس ریکارڈ تک رسائی روک دی گئی امریکا کی جانب سے فراہم کردہ امداد سے ملیریا کے خلاف جنگ میں کامیابیاں حاصل کی گئی تھیں، مگر اب یہ خطرہ پیدا ہو چکا ہے کہ اس امداد کی بندش سے پوری دنیا میں بیماریوں کے پھیلنے کا امکان ہے۔ بنگلہ دیش میں پناہ گزینوں کی حالت انتہائی سنگین ہو چکی ہے جہاں امریکی امداد کا 55 فیصد حصہ فراہم کیا جاتا ہے۔ ان پناہ گزینوں میں سے اکثر روہنگیا ہیں جو میانمار میں بدترین تشدد کا شکار ہو کر بنگلہ دیش پناہ گزین ہوئے تھے۔ اس امداد کی بندش نے ان کے لیے زندگی گزارنا مزید مشکل بنا دیا ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی حکومت کی ‘امریکا فرسٹ’ پالیسی کے تحت، یہ جائزہ لیا جا رہا ہے کہ غیر ملکی امداد امریکی مفادات کے ساتھ کس حد تک ہم آہنگ ہے۔ تاہم، امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے دنیا بھر میں لاکھوں افراد کی زندگیاں خطرے میں ہیں اور امریکی حکومت کو فوری طور پر امدادی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنی چاہئیں۔ اس صورتحال میں ایک بات صاف ہے کہ اگر فوری طور پر اقدامات نہ کیے گئے تو دنیا بھر میں نہ صرف صحت کی ہنگامی صورتحال مزید بگڑ جائے گی، بلکہ بے شمار افراد کی زندگیوں کا خطرہ بھی بڑھ جائے گا۔ انسانی ہمدردی کے کارکن اس بحران کو ایک سنگین آزمائش کے طور پر دیکھتے ہیں، اور ان کا ماننا ہے کہ اس وقت امریکا کے فیصلے نے عالمی امدادی نظام کو درہم برہم کر دیا ہے۔ مزید پڑھیں: “یوکرین میں جاری اس تباہ کن جنگ کو ختم کرنا چاہتا ہوں” ٹرمپ کا پیوٹن سے رابطہ
پاکستان میں غذائی قلت: ”یہ بھوک نہیں، نسلوں کی بقا کا مسئلہ ہے”

پاکستان میں غذائی قلت ایک ایسا بحران ہے جو آہستہ آہستہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس وقت ملک کی ایک بڑی آبادی بنیادی غذائی اجزا سے محروم ہے، جس کے نتیجے میں بچے اور خواتین سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ نیوٹریشن انٹرنیشنل کی ایک حالیہ ورکشاپ میں سامنے آنے والے اعداد و شمار انتہائی تشویش ناک ہیں۔ پاکستان میں ہر تین میں سے ایک بچہ غذائی قلت کا شکار ہے اور اگر صورت ِحال یہی رہی تو آنے والے سالوں میں اس کے اثرات ناقابلِ واپسی ہو سکتے ہیں۔ “میرے بچے کی ہڈیاں نکل آئی ہیں، ڈاکٹر کہتے ہیں اچھی خوراک دو، پر کہاں سے لاؤں؟” پنجاب کے ضلع مظفرگڑھ میں رہنے والی شبانہ بی بی کا چھوٹا بیٹا کمزور ہو کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا ہے۔ “ڈاکٹر کہتے ہیں کہ بچے کو دودھ، گوشت اور پھل دیں، مگر ہم تو دن میں ایک بار دال روٹی پوری کر لیں تو بڑی بات ہے۔” یہ کہانی صرف شبانہ بی بی کی نہیں، بلکہ ملک کے لاکھوں والدین کی ہے جو اپنے بچوں کو متوازن خوراک دینے سے قاصر ہیں۔ پاکستان میں غذائی قلت کے چونکا دینے والے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، جن کے مطابق 34 فیصد بچے (پانچ سال سے کم عمر) پست قد کا شکار ہیں۔ 22% نومولود بچے کم وزن کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ 53% بچے خون کی کمی کا شکار ہیں۔ 41% حاملہ خواتین آئرن کی کمی میں مبتلا ہیں، جس سے ان کے بچوں کی صحت متاثر ہو رہی ہے۔ نیوٹریشن انٹرنیشنل، یونیسف، ورلڈ بینک، پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کے مطابق غذائی قلت کے باعث پاکستان کی معیشت کو سالانہ 17 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مسئلہ صرف خوراک کی کمی نہیں بلکہ غیر متوازن خوراک بھی ایک بڑا سبب ہے۔ ملک میں زیادہ تر لوگ سادہ کاربوہائیڈریٹس (چاول، آٹا، چینی) پر گزارا کرتے ہیں، جب کہ پروٹین، وٹامنز اور منرلز کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ غذائیت ڈاکٹر زین نے کہا کہ یہ لوگ بھوکے نہیں، بلکہ غذائی اجزاء کی کمی کا شکار ہیں۔ ڈاکٹر زین نے کہا ہے کہ ‘پاکستان میں ہر سال ہزاروں بچے اس لیے کمزور پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ان کی ماؤں کو دورانِ حمل مناسب خوراک نہیں ملتی۔ آئرن، کیلشیم اور وٹامن ڈی کی شدید کمی کے باعث مائیں بیمار پڑ جاتی ہیں اور بچے بہتر نشوونما نہیں کر پاتے۔” جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی بتول بی بی نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ حمل کے دوران انہیں کبھی گوشت، دودھ یا پھل کھانے کو نہیں ملے۔ گھر میں جو کھانے کو ہوتا، وہی انھیں کھانا پڑتا تھا۔ اب ان کا بیٹا کمزور پیدا ہوا ہے، وہ بیمار بھی بہت رہتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں 41 فیصد حاملہ خواتین آئرن کی کمی کا شکار ہیں، جس کے نتیجے میں کم وزن بچوں کی پیدائش عام ہوتی جا رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صرف غذائی قلت کا معاملہ نہیں، یہ پورے معاشرتی نظام کی ناکامی ہے۔ بچوں کو اسکولوں میں صحت مند کھانے کا نظام دینا ہوگا، حاملہ خواتین کے لیے سپلیمنٹس کو سستا اور آسانی سے دستیاب بنانا ہوگا۔ اس کے بغیر ہم آنے والی نسلوں کو بچا نہیں سکتے۔ مزید یہ کہ غذائی قلت پاکستان کی معیشت کو بھی نگل رہی ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کی معیشت کو سالانہ 17 ارب ڈالر کا نقصان غذائی قلت کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق غذائی قلت کے شکار بچے بڑے ہو کر جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور رہتے ہیں، جس سے ان کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور وہ ایک پیداواری شہری کے طور پر معیشت میں اپنا بھرپور کردار ادا نہیں کر پاتے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور یہاں ہر سال لاکھوں ٹن گندم، چاول، دالیں اور دیگر غذائی اجناس پیدا ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے عام طور پر ایک سوال جنم لیتا ہے کہ پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود غذائی قلت کا شکار کیوں ہے؟ ماہرین نے اس کی تین بڑی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ مہنگائی کے سبب معیاری اور متوازن خوراک عام آدمی کی پہنچ سے باہر جا چکی ہے۔ غلط ترجیحات کی وجہ سے خوراک کی تقسیم اور غذائی اجزاء کی شمولیت پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ مزید یہ کہ پاکستان میں 70 فیصد سے زائد پانی آلودہ ہے، جس کی وجہ سے بچوں میں اسہال اور دیگر بیماریاں عام ہو رہی ہیں، جو غذائی قلت کو مزید بڑھا رہی ہیں۔ پاکستان میں غذائی قلت ایک ایسا بحران بن چکا ہے جو صرف غربت یا مہنگائی کی وجہ سے نہیں، بلکہ حکومتی پالیسیوں کی ناکامی کا نتیجہ بھی ہے۔ یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان کی بڑی آبادی غذائی کمی کا شکار کیوں ہے؟ پاکستان میں ہر حکومت غذائی قلت پر بڑے بڑے دعوے تو کرتی ہے، لیکن عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ‘احساس نشوونما پروگرام’، ‘فوڈ سیکیورٹی پالیسی’ اور مختلف فلاحی اسکیموں کا اعلان کیا گیا، لیکن یہ پروگرام یا تو بیوروکریسی کی نذر ہو گئے یا ناکافی ثابت ہوئے۔ ماہر خوراک ڈاکٹر زین کا کہنا ہے کہ حکومت غذائی قلت کے اعداد و شمار تو جمع کرتی ہے، لیکن ان پر عملی اقدامات نہیں کیے جاتے۔ بچوں کو متوازن خوراک دینے کے بجائے حکومتی سطح پر سبسڈی کم کی جا رہی ہے، جس سے صحت مند خوراک مزید مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان میں غذائی قلت ایک ایسی تباہی لا سکتی ہے جس کا اثر دہائیوں تک محسوس کیا جائے گا۔ یہ بحران پانی کی کمی، غربت اور مہنگائی سے جڑا ہوا ہے۔ اگر حکومت نے صحت مند خوراک کو سستا اور آسانی سے دستیاب نہ کیا، تو پاکستان میں آنے والی نسلیں مزید کمزور ہوں گی اور ہم ایک صحت مند قوم بنانے کے خواب کو کھو دیں گے۔” پاکستان کو بھوک کے خلاف نہیں، بلکہ غذائی کمی
کیا صرف طرزِ زندگی بدلنے سے کینسر سے بچاؤ ممکن ہے؟

کینسر ایک ایسی بیماری ہے جس میں جسم کے خلیے بے قابو ہو کر بڑھنے لگتے ہیں اور جسم کے دوسرے حصوں میں پھیل جاتے ہیں۔ یہ بیماری عام طور پر جینیاتی تغیرات کی وجہ سے ہوتی ہے اور مختلف اقسام میں پائی جاتی ہے۔ لاہور کے نجی ہسپتال کے سرجن ڈاکٹر عاصم رضا کا کہنا ہے کہ “کینسر کی متعدد اقسام ہیں، جن میں بریسٹ کینسر، پھیپھڑوں کا کینسر، خون کا کینسر (لیوکیمیا)، اور کولون کینسر شامل ہیں۔ کینسر عام طور پر جینیاتی تبدیلیوں، تمباکو نوشی، غیر صحت بخش خوراک، موٹاپے اور ماحولیاتی عوامل جیسے ریڈی ایشن یا زہریلے کیمیکلز کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جلد تشخیص اور مناسب علاج سے اس کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔” کینسر کی علامات میں غیر معمولی گلٹیاں، وزن میں اچانک کمی یا اضافہ، مسلسل تھکاوٹ، جلد پر غیر معمولی تبدیلیاں، مستقل کھانسی، آواز میں تبدیلی، کھانے میں دشواری، ہاضمے کے مسائل، خون بہنا، زخموں کا نہ ٹھیک ہونا اور مستقل جسمانی درد وغیرہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر عاصم رضا کے مطابق “کینسر کی علامات اس کی نوعیت پر منحصر ہوتی ہیں، لیکن عام طور پر مسلسل تھکن، بغیر کسی وجہ کے وزن میں کمی، کسی بھی جگہ غیر معمولی گلٹی یا سوجن، طویل عرصے تک کھانسی یا خون آنا، اور زخموں کا دیر سے بھرنا شامل ہیں۔ اگر یہ علامات برقرار رہیں تو فوری طور پر ڈاکٹر سے معائنہ کروانا ضروری ہے۔” عالمی سطح پر کینسر کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جس کی بنیادی وجوہات میں موروثی (جینیاتی) عوامل، ماحولیاتی آلودگی، تابکاری اثرات، غیر صحت مند خوراک، موٹاپا، تمباکو نوشی، شراب نوشی اور دیگر مضر صحت عادات شامل ہیں۔ ماہر جینیٹکس ڈاکٹر خدیجہ قمر نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ” تمباکو نوشی اور شراب نوشی میں موجود مضر کیمیکل خلیوں کے ڈی این اے کو نقصان پہنچاتے ہیں، جس سے کینسر پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ تمباکو میں شامل نکوٹین اور دیگر زہریلے اجزا خاص طور پر پھیپھڑوں، منہ، گلے اور مثانے کے کینسر کا سبب بن سکتے ہیں، جبکہ شراب نوشی جگر، معدے اور بریسٹ کینسر کے خطرے کو بڑھاتی ہے۔ ان عادات سے پرہیز کر کے کینسر سے بچاؤ ممکن ہے۔” کینسر یا سرطان کی کئی اقسام ہیں اور ان سے بچاؤ کے طریقوں پر سبھی ماہرین متفق بھی نہیں ہیں، تاہم محققین اس بات پر ضرور اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ طرزِ زندگی بدلنے سے کینسر کی نصف سے زائد اقسام سے بچاؤ ممکن ہے۔ ڈاکٹر خدیجہ کے نزدیک “صحت مند خوراک اور باقاعدہ ورزش کینسر کے خطرے کو نمایاں طور پر کم کر سکتی ہیں، لیکن یہ خطرہ مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ جینیاتی عوامل، ماحولیاتی آلودگی، اور کچھ وائرس بھی کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس لیے احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ باقاعدہ طبی معائنہ بھی ضروری ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے کو بروقت پہچانا جا سکے۔” طبی ماہرین کے مطابق طرزِ زندگی میں مثبت تبدیلیاں جیسے متوازن خوراک، باقاعدہ ورزش، وزن کو کنٹرول میں رکھنا اور نشہ آور اشیا سے پرہیز کینسر کے خطرے کو نمایاں حد تک کم کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ابتدائی تشخیص، جدید علاج اور احتیاطی تدابیر اپنا کر اس مہلک بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر عاصم رضا کا کہنا ہے کہ “متوازن خوراک، باقاعدہ ورزش، اور وزن کو کنٹرول میں رکھ کر کینسر کے خطرے کو نمایاں حد تک کم کیا جا سکتا ہے، لیکن اسے مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ صحت مند طرزِ زندگی مدافعتی نظام کو مضبوط بناتی ہے اور جسم کو ان عوامل سے بچاتی ہے جو کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔ تاہم جینیاتی عوامل اور ماحولیاتی اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے باقاعدہ طبی معائنہ بھی ضروری ہے۔” متوازن اور صحت مند خوراک جیسے نامیاتی غذا، سبزیاں، پھل اور کم چکنائی والے کھانے جسمانی قوت مدافعت کو مضبوط بناتے ہیں۔ باقاعدہ ورزش اور جسمانی سرگرمیاں موٹاپے، دل کی بیماریوں اور کینسر کے امکانات کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ خاص طور پرتمباکو اور الکحل سے پرہیز صحت مند طرزِ زندگی کا لازمی جزو ہے۔ ذہنی دباؤ اور نیند کی کمی نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ ڈاکٹر خدیجہ قمر کے مطابق “ذہنی دباؤ اور نیند کی کمی جسم کے مدافعتی نظام کو کمزور کرتی ہیں، جس سے کینسر کے خلیے بڑھنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ مسلسل تناؤ کی حالت میں ہارمونز کی عدم توازن پیدا ہو سکتی ہے، جو کینسر کے خطرے کو بڑھاتی ہے۔ اس لیے ذہنی سکون اور مناسب نیند صحت کے لیے ضروری ہیں۔” طبی ماہرین کے مطابق طرزِ زندگی میں مثبت تبدیلیاں بیماریوں کے خطرے کو کم کر سکتی ہیں، مگر جینیاتی عوامل بھی کینسر کے امکانات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جن پر طرزِ زندگی کا زیادہ اثر نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر عاصم رضا کا کہنا ہے کہ “جینیاتی عوامل بعض صورتوں میں اتنے طاقتور ہو سکتے ہیں کہ صحت مند طرزِ زندگی اپنانے کے باوجود بھی کینسر ہونے کے امکانات رہتے ہیں۔ کچھ مخصوص جینیاتی تغیرات (mutations) موروثی طور پر منتقل ہوتے ہیں، جو کینسر کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔ تاہم متوازن غذا، باقاعدہ ورزش، اور نقصان دہ عادات سے پرہیز کرنے سے اس خطرے کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔” دوسری طرف قدرتی جڑی بوٹیاں اور روایتی ادویات بھی مریضوں کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہیں، مگر ماہرین انہیں مکمل علاج کا متبادل نہیں سمجھتے۔ پاکستان میں بھی بہت سے افراد اس بیماری کی علامات کو نظرانداز کرتے ہیں اور روایتی ٹوٹکوں پر انحصار کرتے ہیں جس سے یہ بیماری جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر خدیجہ قمر کے نزدیک ” متبادل طریقہ علاج جیسے ہربل میڈیسن یا ہومیوپیتھی بعض کیسز میں مدافعتی نظام کو بہتر بنا سکتے ہیں، لیکن سائنسی تحقیقات کے مطابق یہ کینسر کے مکمل علاج یا بچاؤ میں مؤثر ثابت نہیں ہوئے۔ کینسر کا مؤثر علاج جدید طبی طریقوں جیسے کیموتھراپی، ریڈیوتھراپی، اور سرجری سے ممکن ہے، اس لیے مریضوں کو مستند طبی ماہرین سے رجوع کرنا چاہیے اور بغیر تحقیق کے
پاکستانی خاندان کی منفرد صلاحیت سے واقف محقیقین کی دوا ایف ڈی اے نے منظور کر لی

ایک حیران کن میڈیکل بریک تھرو کے طور پر امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے ایک نئی غیر اوپیئڈ درد کش دوا سوزیٹریجین کی منظوری دے دی ہے، جو درد کے علاج میں کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ منظوری اس شاندار سائنسی دریافت کا نتیجہ ہے جس میں ایک پاکستانی خاندان کی منفرد جینیاتی خصوصیات کو مدنظر رکھا گیا، جن کے افراد جلتی ہوئی آگ پر بے درد چلنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس خاندان کے افراد کے جسم میں ایک ایسا جین موجود نہیں تھا جو درد کے سگنلز کو فعال کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ شدید گرمی اور جلنے کے احساس سے بچ جاتے تھے۔ سوزیٹریجین پچھلے بیس سالوں میں درد کی پہلی نئی قسم کی دوا ہے۔ ایف ڈی اے کی جانب سے جمعرات کو اس دوا کی منظوری ایک تاریخی سنگ میل ہے، جو اوپیئڈز کے متبادل کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اوپیئڈز عام طور پر درد کو کم کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں لیکن ان میں نشے کی لت اور انحصار کا خطرہ ہوتا ہے۔ سوزیٹریجین کا طریقہ کار مختلف ہے، یہ دوا درد کے سگنل دینے والی اعصابی رگوں کو فعال ہونے سے روکتی ہے جس سے دماغ تک درد کا پیغام ہی نہیں پہنچتا۔ یہ بھی پڑھیں: چوہوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی انسانوں کے لیے وبال جان بن گئی اس دوا کی دریافت کا آغاز ایک شاندار جینیاتی مشاہدے سے ہوا۔ پاکستانی خاندان کے افراد کو دیکھ کر محققین نے پایا کہ یہ لوگ آتش چمچوں اور گرم کوئلوں پر چلنے میں کامیاب ہیں، جبکہ ان میں معمولی ترین درد کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ ان افراد کے جسم میں وہ جین نہیں ہے جو درد کے سگنل کو فعال کرتا ہے۔ یہی جینیاتی خصوصیت اس دوا کی بنیاد بنی، جس نے اس مخصوص سوڈیم چینل کو ہدف بنایا جو درد کی ترسیل میں ملوث ہوتا ہے۔ سوزیٹریجین کی تشکیل کے بعد اس کے کلینیکل ٹرائلز 600 سے زائد مریضوں پر کیے گئے، جس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ دوا سرجری کے بعد درد کو مؤثر طریقے سے کم کرتی ہے۔ اگرچہ یہ معجزاتی علاج نہیں ہے تاہم اس نے درد کی شدت کو 0-10 کے پیمانے پر تقریباً 3.5 پوائنٹس تک کم کر دیا، جو ویکوڈن جیسے عام اوپیئڈ درد کش دوا کے اثرات کے مساوی تھا۔ تاہم، یہ دوا دائمی درد جیسے سیاٹیکا کے لیے اتنی موثر ثابت نہیں ہوئی۔ سوزیٹریجین کی ترقی ایک امید کی کرن بن کر سامنے آئی ہے، خاص طور پر اس وقت جب امریکا اوپیئڈ بحران سے دوچار ہے۔ تقریباً 80 ملین امریکی ہر سال درد کش ادویات استعمال کرتے ہیں، جن میں سے نصف سے زیادہ اوپیئڈز ہیں، جو اکثر نشے کا سبب بنتے ہیں۔ سوزیٹریجین کی منظوری ایک قدم آگے کی جانب ہے کیونکہ یہ اوپیئڈز کا ایک محفوظ متبادل پیش کرتی ہے۔ اس دوا کی قیمت 15.50 ڈالر فی گولی رکھی گئی ہے جو کہ مریضوں کے لیے ایک چیلنج ہو سکتی ہے۔ تاہم، اس کی افورڈبیلٹی اور انشورنس کوریج اس کے استعمال میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ضرور پڑھیں: دس سال کے بعد ٹیکنالوجی دنیا کو کون سا نیا روپ دے گی؟ خوش قسمتی سے مریضوں کے لیے معاونت کے پروگرامز بھی موجود ہیں جو دوا کی قیمتوں میں کمی فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ سوزیٹریجین کی منظوری نے درد کے علاج کے ماہرین کو امید کی ایک نئی کرن دکھائی ہے کیونکہ یہ ایک اور آپشن فراہم کرتی ہے جو اوپیئڈز کے خطرات سے بچا سکتی ہے۔ اس کی کامیابی نہ صرف درد کش ادویات کی دنیا میں ایک نئی تبدیلی لائے گی بلکہ ممکنہ طور پر اوپیئڈ بحران کے خاتمے کی جانب بھی ایک اہم قدم ہو سکتی ہے۔ اس دوا کی جینیاتی بنیاد پاکستانی خاندان کی منفرد صلاحیتوں سے جڑی ہوئی ہے اور اس نے عالمی سطح پر درد کش ادویات کے لیے ایک نئی راہ ہموار کی ہے۔ آنے والے سالوں میں، سوزیٹریجین مزید تحقیق کے ذریعے دوسرے درد کے مسائل جیسے ذیابیطس کی نیوروپیتھی کے لیے بھی ایک موثر علاج بن سکتی ہے۔ ایک نئی اور محفوظ درد کش دوا کے طور پر سوزیٹریجین کی آمد کا مطلب ہے کہ درد کے علاج کے لیے مریضوں کے پاس اب ایک بہتر، غیر اوپیئڈ آپشن ہوگا، جو نہ صرف درد کو کم کرے گا بلکہ انحصار اور نشے کے خطرات سے بھی محفوظ رکھے گا۔ مزید پڑھیں: آپ کی ایک گوگل سرچ بھی ماحول کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ مگر کیسے؟
چوہوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی انسانوں کے لیے وبال جان بن گئی

دنیا بھر میں چوہوں کا پھیلاؤ ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف شہری انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ صحت کے لیے بھی خطرات پیدا ہو رہے ہیں۔ حالیہ تحقیق نے یہ واضح کیا ہے کہ چوہوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا تعلق صرف زیادہ آبادی یا کھانے کی کمی سے نہیں بلکہ ایک اور سنگین عنصر آب و ہوا کی تبدیلی سے ہے۔ یونیورسٹی آف رچمنڈ کے پروفیسر جوناتھن رچرڈسن نے دنیا میں چوہوں کے بڑھتے ہوئے رجحانات پر تحقیق شروع کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے بتایا کہ ان کی ٹیم نے امریکا کے 200 بڑے شہروں سے چوہوں کے اعداد و شمار جمع کیے لیکن صرف 13 شہروں میں طویل المدت ڈیٹا دستیاب تھا جو ان کی تحقیق کے لیے ضروری تھا۔ اس کے بعد تحقیق میں بین الاقوامی شہروں ٹورنٹو، ٹوکیو اور ایمسٹرڈیم کو بھی شامل کیا گیا تاکہ جغرافیائی تنوع حاصل کیا جا سکے۔ مزید پڑھیں:مصر میں 5 ہزار سال بعد اسپوٹڈ ہائینا کی واپسی، ماہرین کو حیرت میں مبتلا کردیا اس تحقیق کے نتائج شائع ہونے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ دنیا کے 16 میں سے 11 شہروں میں چوہوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جن میں واشنگٹن ڈی سی، سان فرانسسکو، نیو یارک، ٹورنٹو اور ایمسٹرڈیم جیسے شہر میں شامل ہیں۔ رپورٹس کتے مطابق ان شہروں چوہوں کی تعداد میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ جبکہ صرف تین شہروں میں کمی دیکھنے کو ملی جن نیو اورلینز، لوئس ویل اور ٹوکیو شامل ہیں۔ رچرڈسن نے کہا کہ یہ چوہے چھوٹے ممالیہ جانور ہیں جو سردیوں میں پناہ لینے کے لئے محدود ہوتے ہیں لیکن گرم درجہ حرارت، خاص طور پر موسم سرما میں، ان کی افزائش کو بڑھا دیتا ہے۔ رچرڈسن کے بقول، گرم موسم چوہوں کو سال بھر افزائش نسل کا موقع فراہم کرتا ہے اور اس کے علاوہ یہ موسم انہیں شکار سے محفوظ رکھنے کے لیے زیادہ وقت دیتا ہے۔ اس کے علاوہ ماہر ماحولیات اور جنگلی چوہوں کے ماہر ‘مائیکل پارسنز’ نے کہا کہ گرم موسم چوہوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا سبب بن سکتا ہے۔ جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو چوہے کھانے کے ذرائع اور پناہ گاہوں کے لیے مزید مواقع حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ موسم کی گرمی سے کھانے اور کچرے کی بو دور تک پھیلتی ہے جس سے چوہے آسانی سے شہروں میں پھیل جاتے ہیں۔ شہری چوہوں کی بڑھتی ہوئی تعداد شہر کے لیے بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ چوہے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچاتے ہیں، کھانے کو آلودہ کرتے ہیں اور تاروں کو کاٹ کر آگ بھی لگا سکتے ہیں، اس سے امریکا میں ہر سال 27 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ چوہے مختلف بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بھی بنتے ہیں۔ کارنیل یونیورسٹی کے ماہر انسیکٹس ‘میٹ فرائی’ کے مطابق چوہے 50 سے زائد جراثیموں کو منتقل کرتے ہیں جن میں لیپٹوسپائروسس جیسے سنگین امراض شامل ہیں جو انسانوں میں گردے اور جگر کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور علاج کے بغیر موت کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں پولیو کے کیسز میں اضافہ، ویکسی نیشن ٹیموں پر حملے بھی بڑھ گئے واشنگٹن ڈی سی میں چوہوں پر قابو پانے کی مہم کے ذمہ دار ‘جیرارڈ براؤن’ کہتے ہیں کہ کوڑے دان میں کھانا نہ ڈالنے سے چوہوں کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سردی کے موسم میں چوہوں کی تعداد میں کمی آتی ہے اور یہی وہ وقت ہے جب چوہوں کی آبادی پر قابو پانے کی کوششیں کامیاب ہو سکتی ہیں۔ رچرڈسن اور ان کی ٹیم نے تحقیق کے دوران یہ نتیجہ اخذ کیا کہ شہروں کو چوہوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے حکام کو مشورہ دیا کہ وہ مہلک کنٹرول کے بجائے چوہوں کی افزائش کو روکنے کے لیے مناسب تدابیر اختیار کریں، جیسے کھانے کے فضلے اور کچرے تک رسائی کو کم کرنا۔ اگر شہروں نے چوہوں کے بڑھتے ہوئے مسئلے پر قابو نہ پایا تو یہ بات صاف ظاہر ہے کہ صورتحال بدتر ہو جائے گی۔
سٹریس اور انزائٹی: خاموش قاتل جو زندگی کو متاثر کرتے ہیں

نئے سال کی پہلی صبح، ایک معمولی دن میں کچھ ایسا ہوا جس نے ہر انسان کی زندگی میں خوف اور دباؤ کی ایک نئی لہر دوڑا دی۔ یہ صرف ایک رپورٹ نہیں بلکہ حقیقت ہے جو ہمارے سامنے روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کے ذہن کی بے چینیاں، آپ کی زندگی کو کیسے تہس نہس کر سکتی ہیں؟ اسٹریس اور انزائٹی! یہ دونوں لفظ شاید آپ نے کئی بار سنے ہوں گے، لیکن کیا آپ ان کے درمیان فرق کو سمجھ پاتے ہیں؟ آج کی دنیا میں ہر انسان کہیں نہ کہیں اسٹریس کا شکار ہے۔ یہ وہ تناؤ ہوتا ہے جو ہم اپنی روزمرہ زندگی میں محسوس کرتے ہیں۔ کسی امتحان کی تیاری، یا دفتر کے کام کا دباؤ، گھر میں مسائل یا پھر زندگی کے بڑے فیصلوں کا خوف۔ یہ سب اسٹریس کے مختلف پہلو ہیں جو مختلف حالات میں ہمیں گھیر لیتے ہیں اور پھر ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ کیفیت وقتی ہوگی جیسے ہی وہ پریشانی ختم ہوگی اسٹریس بھی ختم ہو جائے گا۔ اسٹریس کا ردعمل جب جڑ پکڑ لیتا ہے تو وہ اس سے آگے بڑھ کر انزائٹی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ انزائٹی! یہ وہ خوف ہے جو ہماری زندگی کے ہر حصے میں سرایت کر جاتا ہے اور ہم یہ سمجھ نہیں پاتے کہ ہمارے دماغ میں یہ کیا ہو رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسٹریس اور انزائٹی کے درمیان ایک باریک سا فرق ہے لیکن حقیقت میں یہ دونوں ہمارے دماغ پر اتنی گہری چھاپ چھوڑتے ہیں کہ ہم ان سے نجات پانے کے لیے اکثر ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اسٹریس وہ مشکل لمحات ہیں جو وقتی طور پر آ کر ہمیں پریشان کر دیتے ہیں۔ آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ آپ کسی امتحان کے قریب آ کر شدید پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں؟ یا پھر کسی اہم کام کی تکمیل سے پہلے آپ کا دل دھڑکنے لگتا ہے؟ یہ وہ لمحے ہیں جب اسٹریس آپ کی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے لیکن جوں ہی وہ امتحان یا کام ختم ہو جاتا ہے اسٹریس بھی ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن انزائٹی کا معاملہ مختلف ہے۔ انزائٹی اُس خوف کا نام ہے جو مسلسل آپ کے اندر بڑھتا رہتا ہے چاہے آپ کے ارد گرد کوئی خطرہ نہ ہو۔ یہ خوف آپ کے دماغ میں ایک عذاب بن کر بیٹھا رہتا ہے، اور یہ وقت کے ساتھ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ ایک لمحے کے لیے بھی سکون نہیں ملتا، اور آپ کی زندگی جیسے ایک مسلسل غمگینی کے سائے تلے ڈوب جاتی ہے۔ انزائٹی آپ کے دماغ کے اس پیچیدہ عمل کا نتیجہ ہوتی ہے جو اسٹریس کی شدت کو دلی خوف میں بدل دیتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان دونوں کے اثرات سے بچا کیسے جا سکتا ہے؟ ماہرین کہتے ہیں کہ اس پر قابو پانے کے لیے سادہ لیکن اہم باتوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا ضروری ہے۔ ایکسرسائز، یوگا، نیند کا مکمل دورانیہ، اور صحت مند غذا ان مسائل کا مقابلہ کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ آپ کو اسٹریس اور انزائٹی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے ذہنی سکون کی ضرورت ہے اور اس کے لیے اپنے خیالات کو لکھنا بھی ایک بہترین طریقہ ہو سکتا ہے۔ تاہم یہ سب تدابیر تب تک مفید رہیں گی جب تک آپ کی زندگی میں اسٹریس یا انزائٹی کی شدت نہ بڑھے۔ اگر آپ ان عوامل پر قابو پانے میں ناکام رہتے ہیں تو ماہرِ نفسیات کی مدد ضرور حاصل کریں۔ یہ حقیقت ہے کہ انزائٹی اور اسٹریس جیسے مسائل جسمانی اور ذہنی صحت پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ مسلسل پریشانی، سر میں درد، جسمانی تھکاوٹ، ہائی بلڈ پریشر، اور نیند کی کمی جیسے مسائل ان کا حصہ بنتے ہیں۔ اور جب یہ مسائل ایک دن یا ایک ہفتے تک نہ رکیں، تو انسان کی زندگی مکمل طور پر بدل جاتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا آپ انزائٹی اور اسٹریس کو اپنی زندگی کی کمزوری سمجھ کر ان سے فرار اختیار کریں گے؟ یا پھر ان کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کو نئے سرے سے ترتیب دیں گے؟ فیصلہ آپ کا ہے لیکن اسٹریس اور انزائٹی کو شکست دینے کے لیے خود کو سمجھنا ضروری ہے۔ ان کی حقیقت کو جاننا ضروری ہے اور اس کے بعد ایک ایسا راستہ تلاش کرنا ضروری ہے جو آپ کو سکون کی طرف لے جائے۔ یاد رکھیں اسٹریس اور انزائٹی کا مقابلہ ایک جنگ ہے لیکن اگر آپ اپنی زندگی میں کچھ اہم تبدیلیاں کریں تو یہ جنگ جیتنا ممکن ہے۔