پاکستان میں پولیو کے کیسز میں اضافہ، ویکسی نیشن ٹیموں پر حملے بھی بڑھ گئے

پاکستان میں پولیو کے کیسز ایک بار پھر بڑھتے جا رہے ہیں اور یہ خطرہ ملک کے سب سے غیر مستحکم اور شورش زدہ علاقوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ 2021 میں صرف ایک کیس رپورٹ ہونے کے بعد 2022 میں 73 کیسز سامنے آچکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ پولیو کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان ایک بار پھر شکست کے دہانے پر کھڑا ہے۔ پاکستان کے صوبوں بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں سیاسی کشمکش اور دہشت گردی کی وجہ سے پولیو ویکسی نیشن ٹیموں پر حملے بڑھ گئے ہیں۔ جیسا کہ 2024 میں بھی کئی ٹیموں اور ان کے محافظوں کو نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ یہ پولیو زدہ علاقے افغانستان کی سرحد سے ملتے ہیں جہاں پولیو کے کیسز بڑھ رہے ہیں اور یہاں عالمی پولیو مہم کو سب سے زیادہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ دوسری جانب تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور افغان طالبان کے درمیان گہرے تعلقات کے بعدٹی ٹی پی نے پولیو ویکسی نیشن ٹیموں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال پولیو ٹیموں پر 25 سے زائد حملے ہو چکے ہیں۔ ایک طرف جہاں ملک کی حکومت پولیو کے خلاف لڑنے والے ہیروز کو تحفظ دینے کی کوششیں کر رہی ہے وہیں دوسری طرف دہشت گردگروپ سمجھتے ہیں کہ یہ مہم کسی عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے جس کا مقصد ان کی لڑائی کے خلاف جاسوسی کرنا ہے۔ نجی خبر رساں ادارے ‘دا واشنگٹن پوسٹ’ کے مطابق 2011 میں امریکی سی آئی اے نے اس مہم کو اس لیے بدنام کیا تھا کہ اس نے اسلحہ کی تلاش میں ایک جعلی ہیپاٹائٹس ویکسی نیشن مہم چلائی تھی۔ اس اقدام نے دہشت گردوں میں یہ تاثر پیدا کیا کہ یہ ویکسی نیشن مہم ایک قسم کی جاسوسی ہے۔ پولیو ویکسی نیشن ٹیموں کے کارکنان جنہیں روزانہ صرف 18 ڈالر ملتے ہیں ،وہ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر کام کر رہے ہیں۔ دا واشنگٹن پوٹ کے مطابق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ایک علاقے میں 24 سالہ احمد بھٹانی نے اپنے جان کے خوف سے پولیو ویکسی نیشن کے کام سے استعفیٰ دے دیا۔ اس نوجوان نے بتایا کہ وہ اور اس کے ساتھی پولیس کی حفاظت میں ویکسین دینے جا رہے تھے جب ایک حملہ آور گروپ نے ایک پولیس افسر کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد اس کے لیے اپنے ہی گاؤں جانا بھی خطرے سے خالی نہیں رہا۔ احمد بھٹانی کا مزید کہنا تھا” کہ اب میں اپنے گاؤں بھی نہیں جا سکتا کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ دہشت گرد مجھے مار ڈالیں گے”۔ ٹی ٹی پی کی نظر میں اگر ویکسی نیشن ٹیمیں پاکستانی فوج کی بجائے ان کے ساتھ تعاون کریں تو وہ ان کی مکمل حفاظت فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پولیو کے حوالے سے ایک اور پریشان کن بات یہ ہے کہ پولیو ویکسی نیشن ٹیموں کو دہشت گردوں کے حملوں کا سامنا تو ہے ہی اس کے ساتھ ہی ساتھ پولیو ویکسین کی ترسیل میں درپیش مشکلات بھی بڑھ رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سردی کی حالت میں ویکسین کی حفاظت میں نقائص اور ویکسین کی ناکافی فراہمی ان مسائل میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ گاؤں دیہات میں صاف پانی کی کمی بھی ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ پولیو وائرس آلودہ پانی پینے سے پھیلتا ہے۔ پاکستان کے مشہور معالج ڈاکٹر نسیر رانا کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ پولیو ویکسی نیشن ٹیموں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ صحت کے کارکنوں کے لیے بہتر مراعات فراہم کرے۔انہوں نے کہا کہ “یہ کارکنان قومی ہیروز ہیں جو اپنی جان خطرے میں ڈال کر لوگوں کی زندگی بچا رہے ہیں، ان کا احترام کیا جانا چاہیے۔” پاکستان اور افغانستان میں پولیو کی وبا کا بڑھنا ایک عالمی بحران بن سکتا ہے۔اور اگر عالمی سطح پر اس مسئلے کا فوری حل نہ نکالا گیا تو پولیو کا وائرس پوری دنیا میں پھیل سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں امریکہ نے پاکستان کو پولیو کے خلاف مہم کے لیے تقریباً 7 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی تھی لیکن اگر اس امداد میں کمی آئی تو یہ پاکستان اور افغانستان کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ پاکستان کے سابق پولیو پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر رانا محمد صفدر نے خبردار کیا ہے کہ “اگر پاکستان اور افغانستان میں پولیو کے خلاف اس وقت کے اقدامات میں کمی آئی تو اس کے اثرات بہت سنگین ہو سکتے ہیں اور یہ نہ صرف ان دونوں ملکوں بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرہ بن جائے گا۔” اگر یہ سلسلہ نہ روکا گیا تو نہ صرف بچے مفلوج ہو سکتے ہیں بلکہ یہ وائرس دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی پھیلنے کا خطرہ بن سکتا ہے۔ حکومت اور عالمی برادری کو اس بحران کا فوری اور مؤثر حل نکالنے کی ضرورت ہے تاکہ مزید بچوں کی زندگی کو محفوظ بنایا جا سکے۔
سڑکوں پر’کش‘ لگانے پر پابندی، جاپان ایسا کیوں کررہا ہے؟

جاپان کے شہر اوساکا میں 2025 کی ورلڈ ایکسپو کی تیاریاں جاری ہیں، عالمی ایونٹ سے قبل ہی سڑکوں پر تمباکو نوشی پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ یہ ایکسپو اپریل میں شروع ہوگی، جس میں تقریباً 160 ممالک اور علاقے حصہ لیں گے۔ سیگریٹ نوشی پر پابندی لگانے کا مقصد شہر کو صاف اور دھوئیں سے پاک بنانا ہے۔ پابندی پیر27 جنوری سے نافذ کردی گئی ہے۔ جب کہ اوساکا اسٹیشن کے قریب پہلے سے کچھ علاقوں میں پابندیاں تھیں۔ پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں کو 1,000 ین (6.40 ڈالر) جرمانہ ہوگا۔ اوساکا کے میئر ہیڈی یوکی یوکویاما نے کہا کہ پابندی کا مقصد شہر کو دنیا بھر سے آنے والے لوگوں کے لیے خوشگوار اور محفوظ ماحول فراہم کرنا ہے۔ اگرچہ جاپان کے دوسرے علاقوں میں سڑکوں پر تمباکو نوشی پہلے ہی ممنوع ہے، کچھ قانون سازوں کی مزاحمت کی وجہ سے ملک بھر میں مزید سخت قوانین نافذ نہیں ہو سکے۔ اوساکا میں اب بھی کچھ ریستورانوں میں مخصوص کمروں میں تمباکو نوشی کی اجازت ہے، مگر اپریل سے 30 مربع میٹر سے زیادہ جگہ والے کھانے پینے کے مقامات کے اندر تمباکو نوشی پر پابندی ہوگی۔ اوساکا کے لیے 2025 کا ایکسپو ایک بہت اہم ایونٹ ہے، لیکن ٹکٹوں کی فروخت میں سستی کی وجہ سے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ جنوری کے اوائل تک 7.5 ملین ٹکٹ فروخت ہو چکے تھے، جو 15 ملین کے ہدف سے کم ہیں۔ اس کے علاوہ، ایونٹ کے لیے تعمیراتی بجٹ پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ 2018 میں ٹوکیو اولمپکس کی تیاری کے دوران، ٹوکیو نے بھی تمام ریستورانوں میں تمباکو نوشی پر پابندی عائد کی تھی، مگر کچھ علاقوں میں باہر تمباکو نوشی کی اجازت اب بھی ہے۔ جاپان کی معیشت میں تمباکو کی فروخت اہم کردارادا کرتی ہے، کیونکہ حکومت سگریٹ ٹیکس سے تقریباً دو ٹریلین ین (13 بلین امریکی ڈالر) کماتی ہے اور جاپان ٹوبیکو کمپنی میں حکومت کا ایک تہائی حصہ ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں جاپان میں تمباکو نوشی کی شرح کم ہو رہی ہے، اور 2023 میں صرف 15.7 فیصد لوگ تمباکو نوشی کرتے ہیں، جو عالمی رجحان کی عکاسی ہے۔
دنیا بھر میں’پیدائش کا انقلاب‘ کیسے آرہا ہے؟

دنیا بھر میں ‘جڑواں بچوں کی پیدائش’ کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے اور یہ رجحان موجودہ دور میں اس قدر تیز ہوا ہے کہ اسے تاریخ کا سب سے بڑا ’پیدائش کا انقلاب‘ کہا جا رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب جڑواں بچوں کا پیدا ہونا ایک نادر بات سمجھی جاتی تھی مگر اب وہ دور گزر چکا ہے۔ ماہرین کی تازہ ترین رپورٹس کے مطابق جڑواں بچوں کی پیدائش کی شرح گزشتہ چند برسوں میں تین گنا بڑھ چکی ہے اور اب یہ رجحان تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق ہر 60 میں سے ایک حمل جڑواں بچوں کا ہوتا ہے اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ شرح مزید بڑھ سکتی ہے۔ جڑواں بچوں کی پیدائش میں اضافہ کی سب سے بڑی وجہ ’عمر‘ ہے۔ جی ہاں! وہ خواتین جو 35 سال یا اس سے زیادہ عمر کی ہوتی ہیں ان میں جڑواں بچوں کے پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ سائنسی جوہات اس سب کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ خواتین کے ہارمونز میں تبدیلیاں آتی ہیں جس کے نتیجے میں ایک سے زیادہ انڈے بیضہ دانی سے خارج ہوتے ہیں اور اس طرح جڑواں بچوں کی پیدائش کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔دنیا بھر میں آئی وری ایف کا استعمال بڑھتا جارہا ہے جو جڑواں بچوں کی پیدائش میں اضافے کا باعث بھی بن رہا ہے۔ سائنسی نقطہ نظر سے یہ رجحان ایک جزو ہےلیکن سماجی اور معاشی عوامل بھی اس میں شامل ہیں۔ دنیا بھر میں خواتین کا بچہ پیدا کرنے کا رجحان دیر سے ہو رہا ہے خواتین اب پہلے کی نسبت زیادہ عمر میں بچے پیدا کر رہی ہیں اور یہ عمل جڑواں بچوں کی پیدائش کی شرح میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ ایک حالیہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ 2050 سے 2100 تک تمام ممالک میں جڑواں بچوں کی پیدائش کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو گا۔ اس سب کا بڑا سبب وہ سماجی تبدیلیاں ہیں جن کے تحت خواتین کا اپنے کیریئر اور ذاتی زندگی پر زیادہ توجہ دینے کا رجحان بڑھا ہے جڑواں بچوں کی پیدائش میں اضافہ ایک قدرتی تبدیلی ہے، مگر اس کے ساتھ پیچیدگیاں اور ماؤں کی صحت پر اضافی بوجھ بھی آ سکتا ہے۔ اس پر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ محض خوش آئند نہیں بلکہ اس کے نتیجے میں صحت کی سہولتوں اور طبی طریقہ کار ضرورت ہوگی۔
ویپنگ کا بڑھتا رجحان، کیا یہ واقعی محفوظ ہے؟

“بھائی میں تو سموکنگ نہیں کرتا میں تو ویپنگ کرتا ہوں۔ میرا بھائی، میرا بیٹا ویپنگ کرتا ہے۔ سموکنگ چھوڑنی ہے تو ویپنگ شروع کر دو۔ نہیں نہیں ویپنگ صحت کے لیے خطرناک نہیں ہے۔” یہ وہ تمام جملے ہیں جو ہمیں عام سننے کو ملتے ہیں۔ کیا آپ کو بھی ویپنگ کرنے کا شوق ہے؟ منہ سے دھواں نکالتے ہوئے ویڈیوز بنانا اور دوستوں کے ساتھ شیئر کرنا آج کل فیشن بن چکا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں تمباکو نوشی کو صحت کے لئے ایک سنگین خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ لاکھوں لوگ اس لت کے باعث زندگیاں گنوا رہے ہیں اورکروڑوں مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔لیکن کیا آپ جانتے ہیں سگریٹ نوشی زیادہ خطرناک ہے یا پھر ویپنگ؟ ویپنگ انسانی صحت پر کیا اثرات مرتب کرتی ہے؟ کیا ویپنگ یا ای سگریٹ تمباکو نوشی چھوڑنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے یا پھر تمباکو نوشی کی لت کا باعث بنتی ہے؟ حکومت پا کستان نے 2015 میں سگریٹ کے پیکٹس پر خوفناک تصاویر شائع کرنا لازم قرار دیا تھا تاکہ تمباکو نوشی کے نقصانات سے لوگوں کو آگاہ کیا جا سکے۔ طبی ماہرین کے مطابق اس وقت پاکستان میں یومیہ 460 افراد تمباکو نوشی کی وجہ سے زندگیاں گنوا رہے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے ‘بی بی سی’ کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 39 لاکھ سے زائد افراد تمباکو نوشی کے عادی ہیں، جن میں سے ایک کروڑ 60 لاکھ افراد سگریٹ کے ذریعے تمباکو نوشی کرتے ہیں جبکہ باقی افراد دیگر ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ حقہ اور بیڑی تو تمباکو نوشی کے پرانے یا روایتی طریقے ہیں جن سے ہر کوئی واقف ہے لیکن ویپنگ ایک ایسا طریقہ ہے جو نوجوانوں خصوصا شہری علاقوں میں تیزی سے عام ہوا ہے۔ ویپنگ ایک ایسا فعل ہے جس میں نکوٹین کو دھویں کی شکل میں ای سگریٹ یا الیکڑانک سگریٹ کے ذریعے جسم میں داخل کیا جاتا ہے۔ برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک ماہ تک تحقیق کی گئی جس میں 114 سگریٹ نوشوں نے حصہ لیا۔ تحقیق کے نتائج کے مطابق ویپنگ سے دل کے دورے اور فالج کے خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے لیکن یہ مکمل طور پر صحت کے لیے محفوظ نہیں ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ سگریٹ نوشی کے تمام طریقوں کو ترک کرنا ہی صحت کے لئے محفوظ ہے۔ سگریٹ کے دھوئیں میں موجود کیمیائی مادے خون میں شامل ہو کر شریانوں سے گزرتے وقت چربی کے ساتھ چپک جاتے ہیں جس سے شریانیں تنگ ہو جاتی ہیں۔ شریانوں کی پھیلنے کی صلاحیت سے ہی ان کی صحت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ برٹش جنرل آف کارڈیالوجی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق شریانوں کے پھیلنے اور ہارٹ اٹیک کے طویل مدتی خطرات کے درمیان مثبت تعلق پایا گیا ہے، صحت مند اور سگریٹ نوشی نہ کرنے والوں کا سکور 7.7 فیصد، سگریٹ نوشی کرنے والوں کا سکور 5.5 فیصد جبکہ ویپنگ کرنے والوں کا سکور 6.7 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ طبی ماہرین کے مطابق ای سگریٹ میں موجود نکوٹین دماغی نشوونما پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے جو کہ عادی بنانے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کے محلول میں موجود کیمیائی مادے پھیپھڑوں اور دل کی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ پاکستان میٹرز نے منصورہ ہسپتال لاہور کے ڈاکٹر عمیر احمد صدیقی سے اس معاملے پر سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ”ویپنگ معاشرے میں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ نوجوان اسے فیشن سمجھ کر چھوٹی عمر سے ہی اپنا رہے ہیں۔ ویپنگ سیگریٹ نوشی سے کم نقصان پہنچاتی ہے لیکن پھر بھی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ دل اور پھیپھڑوں پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتی ہے۔ پھیپھڑوں پر اس کے اثرات سے دمہ اور پیرینچیمل جیسی مہلک بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ویپنگ انسان کی شریانوں کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “نوجوان نسل میں ویپنگ اس لیے بڑھ رہی ہے کیوں کہ اس کو فیشن کے طور پر اپنایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ویپنگ مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اور نوجوانوں تک آسان رسائی اس کے استعمال کو بڑھا رہی ہے۔ حکومت کو ویپنگ پہ بھی قانون سازی کرنی چاہیے تا کہ اس کے استعمال کو محفوظ بنایا جا سکے۔ جس طرح سگریٹ پہ پابندیاں لگائی گئی ہیں اسی طرح ویپنگ پہ بھی لگائی جانی چاہیے”۔ ماہرین کی رائے اور دنیا بھر میں ہونے والی تحقیقات کے مطابق ویپنگ تمباکو نوشی سے کم مگر نقصان دہ اور انسانی صحت کے لیے مہلک ہے۔ فیشن کے طور پر ویپنگ کرنے والے افراد کی بڑی تعداد تمباکو نوشی کی عادی ہو جاتی ہے جو مزید طبی نقصانات کا باعث ہوتا ہے۔
ڈیجیٹل ہیلتھ کئیر سنٹرز: اب آپ کو ڈاکٹر کے پاس جانےکی ضرورت نہیں!

ڈاکٹر یا ہسپتال جانے کا جھنجھٹ ختم ،ایک کال پر ڈاکٹر خود آپ کے پاس حاضر ہوگا،کیا ایسا ممکن ہے؟جی ہاں ،سائنس اور ٹیکنالوجی نے ایسا انقلاب برپا کیا ہے کہ اب اس کے بغیر رہنا ناممکن ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں عالمی سطح پر صحت کی فراہمی اور دیکھ بھال کے لیے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ دنیا کا ساتھ دیتے ہوئے پاکستان نے قابلِ قدر کوشش کی ہے کہ صحت کے مراکز میں بہتری لائی جائے۔ صحت کی دیکھ بھال کرنے والی جگہوں کوہیلتھ کئیر سنٹرز کہا جاتا ہے جبکہ انٹرنیٹ کی مدد سے صحتِ عامہ کی خدمات کو مؤثر بنانا ڈیجیٹل ہیلتھ کئیر سسٹم کہلاتا ہے۔ ڈیجیٹل ہیلتھ کئیرسسٹم صحت عامہ کے مسائل پر بروقت مدد فراہم کرتا ہے۔ ڈیجیٹل سائٹ ہیلتھ وائرکےاعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 2022 سے 2023 تک آن لائن ریکارڈ مریضوں کی تعداد میں 40 سے 55 لاکھ تک کا اضافہ ہوا ہے۔ 195 ممالک کی فہرست میں صحت کے اعتبار سے پاکستان کا122واں نمبر ہے ۔کورونا کے بعد حکومتِ پاکستان کی جانب سے صحت کو لے کر بہت سے اقدامات کیےگئے۔صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے ٹیلی میڈیسن جیسی ڈیجیٹل سہولتیں متعارف کرائی گئیں، ٹیلی میڈیسن گھر بیٹھ کر انٹرنیٹ کے ذریعے علاج کا نام ہے۔ فیصل آباد میڈیکل یونیورسٹی میں ٹیلی میڈیسن مرکز قائم ہے جو ویڈیو کال کے ذریعے مفید مشورے دیتا ہے۔ آغا خان یونیورسٹی کی جانب سے ٹیلی میڈیسن پلیٹ فارمز اور الیکٹرانک ہیلتھ ریکارڈ سسٹمز جیسے ڈیجیٹل سلوشنز تیار کرنےپرکام کیا جارہا ہے۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی آیشن (پیما) کی ہیلتھ لائن پروجیکٹ کی سربراہ ڈاکٹر حوریہ نے مئی 2020 میں نجی چینل ڈان نیوز کو بتایا تھا کہ پیما ٹیلی کلینک سروس کا اجراء اس لیے کیا گیا ہےکہ لوگ کورونا کے دوران گھروں سے کم سے کم نکلیں اور اگر انھیں صحت کا کوئی مسئلہ درپیش ہو یا فوری طبی مدد چاہئے ہو تو وہ آسانی سے کال کر کے مشورہ لے سکیں۔ ہیلتھ لائن کی سروس ملک بھر میں بالکل مفت ہے اورصبح 9 بجے سے رات 9 بجے تک رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ امن ٹیلی ہیلتھ سروس کے انچارج شیخ نادر نےڈان نیوز کو بتایا کہ یہ سروس گزشتہ 10 سال سے فعال ہے اور ہیلپ لائن نمبر 9123 ہے۔ 2020 میں نفسیاتی پریشانیوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے امن ٹیلی اور پاکستان برائے ایکسیلینس ان سائیکالوجی کی جانب سے مل کر ایک فون کال سروس کا آغاز کیا گیا جس کے اوقات کار دوپہر 2 سے شام 4 بجے تک مختص کیے گئے۔ ڈان نیوز کے مطابق خواتین مریضوں کی پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر سارہ سعید اور ڈاکٹر عفت ظفر کی جانب سے 2019 میں صحت کہانی ٹیلی میڈیسن ایپ سروس کا آغاز کیا گیا ۔ ایپ کا مقصد تھا کہ خواتین بنا کسی جھنجھٹ اور پریشانی کے خواتین ڈاکٹروں کو اپنے مسائل بتاسکیں۔ منصورہ ہسپتال لاہور سے ڈاکٹر عمیراحمد صدیقی نے پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “جو بھی سسٹم شروع کیا جاتا ہے اس کی فائدے و نقصان ہوتے ہیں۔ جب تک مریض آپ کے سامنے نہیں ہے آپ مکمل طور پر اس کا معائنہ نہیں کرسکتے۔ ہمارے دوستوں میں بھی جب کوئی بیمار ہوتا ہےتو ایک حد تک ہم ان کو موبائل پہ ٹریٹ کرتےہیں لیکن اس کے بعد ہم اس کو ہمارے پاس آنے کا کہتے ہیں تا کہ بہتر طریقے سے معائنہ کیا جائے۔ جب مریض آپ کے پاس ہوگا تو آپ اس کی حرکات و سکنات کو دیکھتے ہوئے بہتر معائنہ کر سکتے ہیں”۔ پاکستان کا 195 مین سے 122ویں نمبر پہ ہونے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ “پاکستان میں آگاہی کی بہت کمی ہے۔ لوگوں کو اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے بارے میں آگاہی نہیں ہے۔ دنیا بھر میں لوگوں کو بیماریوں کی علامات کے بارے میں مکمل علم ہوتا ہے جب کہ پاکستان میں ایسا کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ ہماری گھریلو تربیت میں شامل ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ ہمارے اسپتالوں میں بھی بہتری کی بہت گنجائش باقی ہے”۔
یوگا : اپنے آپ سے ملاقات کی مشق

ورزش انسانی زندگی کا ایک اہم ساتھی ہے۔ روزانہ ورزش کرنا انسان کو بہتر زندگی اور بیماریوں سے نجات بخشتا ہے۔ دنیا بھر میں ورزش کے کئی طریقے پائے جاتے ہیں جن میں سب سے مشہور اور یوگا ہے جو ورزش سے بہت بڑھ کر ہے۔ کیا آپ نے کبھی اپنے آپ سے ملاقات کی ہے؟ دنیا کے تمام کاموں اور پریشانیوں کو ایک طرف رکھ کر خودکو محسوس کرنا ، یوگا کے زمرے میں آتا ہے۔ ہم اپنی زندگی میں روزانہ کئی طرح کے جذبات سے گزرتے ہیں۔ ہماری زندگی کے تجربات ہمیں مختلف جذبات سے روشنائی حاصل کرواتے ہیں۔کچھ جذبات ہمارے ذہن کو خوش جب کہ کچھ ہمارے ذہن کو غمگین کر دیتے ہیں۔ ہمارا خوش یا غمگین ہونا ہمارے دماغ پہ منحصر ہوتا ہے۔ اگر آپ اپنے دماغ کو فتح کر لیں تو آپ ٹینشن، پریشانی، تناؤ اور دباؤ جیسے احساسات سے نکل کرتے ہیں۔ یوگا اور مراقبہ کرنا آپ کو ایسے ہی خوشگوار احساسات سے ملواتا ہے۔ یوگا سنسکرت کے لفظ “یوج” سے نکلا ہے جس کا مطلب “جوڑنا” یا “ملانا” کے ہیں۔ یہ ذہنی سکون کے لیے انتہائی مؤثر عمل ہے۔ یوگا کی شروعات قدیم انڈیا میں آج سے تقریباً 5000 سال پہلے وادیِ سندھ کی تہذیب سے ہوئی۔ وادیِ سندھ کی تہذیب سے جو مجسمات ہمیں ملے ہیں ان میں سے بہت سے مجسموں پہ انسان کو یوگا کرتے ہوئے بنایا گیا ہے جو ہمیں اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ وادیِ سندھ میں لوگ یوگا کیاکرتے تھے۔ اس دور کو ویدوں سے پہلے کا دور بھی کہا جاتا ہے ۔ وید ایسے لکھے ہوئے نسخوں کو کہا جاتا ہے جو ہندومت کے ابتدائی عرصے میں لکھے گئے اور اس کی تعلیمات کا ذکر کرتے ہیں۔ 1500 سے 500 سال قبل مسیح میں یوگا کو خدا سے ملنے کے لیے کیا جاتا تھا۔ قدیم ویدوں میں ابتدائی مراقبہ، گیتوں اور رسومات کا ذکر ہے جو یو گا کے دوران کیے جاتے تھے۔ ریگ وید ، جو کہ ویدوں کی ایک قسم ہے، میں ایسے اشعار بھی ملے ہیں جس میں خود(آتمان) اور برہمن(اعلی حقیقت)کے درمیان تعلق کو بیان کیا گیا ہے۔ یوگا ، مراقبہ اور عبادت کی مشقوں سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ 800 سے 400 سال قبل مسیح میں ہندومت کی بنیار رکھنے والے نسخے “اپنشد” تخلیق کیے گئے۔ ان نسخوں میں روحانی طور پہ مراقبہ کرنے اورخود پر قابو پانے پر زور دیا گیا تا کہ علم حاصل کیاجا سکے اور بری طاقتوں سے آزادی حاصل کی جا سکے۔ ہندومت کے کلاسیکی دور میں پہلی مرتبہ ہندومت کے مشہور فلسفی پتنجلی نے یوگا کو باقاعدہ متعارف کروایا ۔ اسی دورمیں ہندوں کی مقدس کتاب گیتا ابھری جس میں یوگا کا ذکر بھی ملتا ہے۔ یوگا اجتمائی طور پہ مختلف مشقوں کا نام ہے جس سے انسانی جسم اور دماغ سکون حاصل کرتا ہے۔یوگا کے دوران انسان خود کو قدرتی مناظر سے جوڑتا ہے۔ اس میں گہری سانس لینا، ورزش کرنا، اورمختلف پوزیشنز میں اپنے جسم کو لے کر جانا شامل ہیں۔ جب کہ مراقبہ یوگا میں سے لی گئی ایک مشق کا نام ہے۔ مراقبہ میں انسان ایک جگہ بیٹھ کر اپنی توجہ کسی ایک نقطے پہ مرکوز کر لیتا ہے جس سے وہ سکون حاصل کرتا ہے۔ مراقبہ کا بنیادی مقصد ذہن کی خاموشی کو سننا اور خود کو جاننا ہے ۔ ہر انسان کچھ عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے یوگا اور مراقبہ کو اپنے طریقے سے کر سکتا ہے ۔ یہ مکمل طور پرایک انفرادی عمل ہے ۔ آپ خود اپنا اور اپنے ارد گرد موجود قدرت کا تعلق روحانی طور پہ جوڑ سکتے ہیں۔ آج کے دور میں دنیا میں کروڑوں لوگ روزانہ یوگا کرتے ہیں۔ یوگا اور مراقبہ دونوں انسانی زہن اور دماغ میں توازن پیدا کرتے ہیں جس سے انسان میں سٹریس کم ہوتا ہے اور تناؤ سے آزادی ملتی ہے۔ اس سے انسان کے جسم میں لچک اور طاقت پیدا ہوتی ہے۔ انسان اپنے اندر کی روح کو پہچانتا ہے اوراپنے جذبات کو بہتر طریقے سے کنٹرول کرتا ہے۔ ان سب سے بڑھ کر یوگا انسان کی خود سے ملاقات کراتا ہے۔
ویپنگ کا بڑھتا رجحان، کیا یہ واقعی محفوظ ہے؟

بھائی میں تو سموکنگ نہیں کرتا میں تو ویپنگ کرتا ہوں۔ میرا بھائی، میرا بیٹا ویپنگ کرتا ہے۔ سموکنگ چھوڑنی ہے تو ویپنگ شروع کر دو۔ نہیں نہیں ویپنگ صحت کے لئے خطرناک نہیں ہے۔ یہ وہ تمام جملے ہیں جو ہمیں عام سننے کو ملتے ہیں۔ کیا آپ کو بھی ویپنگ کرنے کا شوق ہے؟ منہ سے دھواں نکالتے ہوئے ویڈیوز بنانا اور دوستوں کے ساتھ شیئر کرنا آج کل فیشن بن چکا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں تمباکو نوشی کو صحت کے لئے ایک سنگین خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ لاکھوں لوگ اس لت کے باعث زندگیاں گنوا رہے ہیں اورکروڑوں مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔لیکن کیا جانتے ہیں سگریٹ نوشی زیادہ خطرناک ہے یا پھر ویپنگ؟ ویپنگ انسانی صحت پر کیا اثرات مرتب کرتی ہے؟ کیا ویپنگ یا ای سگریٹ تمباکو نوشی چھوڑنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے یا پھر تمباکو نوشی کی لت کا باعث بنتی ہے؟ حکومت پا کستان نے 2015 میں سگریٹ کے پیکٹس پر خوفناک تصاویر شائع کرنا بھی لازم قرار دیا تھا تاکہ تمباکونوشی کے نقصانات آگاہ کیا جا سکے۔ خبر رساں ادارے ‘آزاد اردو’ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں یومیہ 460 افراد تمباکو نوشی کی وجہ سے زندگیاں گنوا رہے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے ‘بی بی سی’ کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 39 لاکھ سے زائد افراد تمباکو نوشی کے عادی ہیں، جن میں سے ایک کروڑ 60 لاکھ افراد سیگریٹ کے ذریعے تمباکو نوشی کرتے ہیں جبکہ باقی افراد تمباکو نوشی کے لئے دیگر ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ حقہ اور بیڑی تو تمباکو نوشی کے پرانے طریقے ہیں جن سے ہر کوئی واقف ہے لیکن ویپنگ ایک ایسا طریقہ ہے جس کا استعمال آج کل کی نوجوان نسل اور خاص کر شہری علاقوں میں بہت عام ہوتا جا رہا ہے۔ ویپنگ ایک ایسا فعل ہے جس میں نکوٹین یا دیگر محلولات کو بخارات کی شکل میں ای سگریٹ یا الیکڑانک سگریٹ کے ذریعے جسم میں داخل کیا جاتا ہے۔ اب سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا یہ جدید طریقہ روایتی طریقوں کی طرح ہی خطرناک ہے یااس کا کوئی خطرہ نہیں؟ کیا ویپنگ کو سگریٹ نوشی چھوڑنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اور ویپنگ انسانی صحت پر کس طرح کے اثرات مرتب کرتی ہے؟ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک ماہ تک تحقیق کی گئی جس میں 114 سگریٹ نوشوں نے حصہ لیا۔ تحقیق کے نتائج کے مطابق ویپنگ سے دل کے دورے اور فالج کے خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے لیکن مکمل طور پر صحت کے لئے محفوظ نہیں ہے۔اس سے پتا چلتا ہے کہ سگریٹ نوشی کے تمام طریقوں کوہی ترک کرنا صحت کے لئے محفوظ ہے۔ سگریٹ کے دھوئیں میں موجود کیمیائی مادے خون میں شامل ہو کر شریانوں سے گزرتے وقت چربی کے ساتھ چپک جاتے ہیں جس سے شریانیں تنگ ہو جاتی ہیں۔ شریانوں کی پھیلنے کی صلاحیت سے ہی ان کی صحت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ برٹش جنرل آف کارڈیالوجی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق شریانوں کے پھیلنے اور ہارٹ اٹیک کے طویل مدتی خطرات کے درمیان مثبت تعلق پایا گیا ہے، صحت مند اور سگریٹ نوشی نہ کرنے والوں کا سکور 7.7 فیصد، سگریٹ نوشی کرنے والوں کا سکور 5.5 فیصد جبکہ ویپنگ کرنے والوں کا سکور 6.7 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ نوائے وقت کی رپورٹ کے مطابق ویپنگ کے بہت سے نقصانات ہیں، ای سگریٹ میں موجود نکوٹین دماغی نشو و نما پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے جو کہ عادی بنانے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کے محلول میں موجود کیمیائی مادے پھیپھڑوں اور دل کی صحت کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ منصورہ ہسپتال لاہور میں خدمات سرانجام دینے والے ڈاکٹر عمیر احمد صدیقی نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ”ویپنگ معاشرے میں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ نوجوان نسل اس کو فیشن سمجھ کرچھوٹی عمر سے ہی تیزی سے اپنا رہی ہے۔ گو کہ ویپنگ سیگریٹ نوشی سے کم نقصان پہنچاتی ہے لیکن پھر بھی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ دل اور پھیپھڑوں پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتی ہے۔ پھیپھڑوں پر اس کے اثرات سے دمہ اور پیرینچیمل جیسی مہلک بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ویپنگ انسان کی شریانوں کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “نوجوان نسل میں ویپنگ اس لیے بڑھ رہی ہے کیوں کہ اس کو فیشن کے طور پر اپنایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ویپنگ مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اور نوجوانوں تک آسان رسائی اس کے استعمال کو بڑھا رہی ہے۔ حکومت کو ویپنگ پہ بھی قانون سازی کرنی چاہیے تا کہ اس کےاستعمال کو محفوظ بنایا جا سکے۔ جس طرح سیگریٹ پہ پابندیاں لگائی گئی ہیں اسی طرح ویپنگ پہ بھی لگائی جانی چاہیے”۔ ماہرین کی رائے اور دنیا بھر میں ہونے والی تحقیقات کے مطابق ویپنگ تمباکو نوشی سے کم نقصان دہ ہے تاہم انسانی صحت کے لئے مہلک ہے۔ فیشن کے طور پر ویپنگ کرنے والے افراد آہستہ آہستہ تمباکو نوشی کی لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں جو زندگی بھر کا روگ بن جاتی ہے۔
ڈیجیٹل ہیلتھ کئیر سنٹرز: اب آپ کو ڈاکٹر کے پاس جانےکی ضرورت نہیں!

ڈاکٹر یا ہسپتال جانے کا جھنجھٹ ختم ،ایک کال پر ڈاکٹر خود آپ کے پاس حاضر ہوگا،کیا ایسا ممکن ہے؟جی ہاں ،سائنس اور ٹیکنالوجی نے ایسا انقلاب برپا کیا ہے کہ اب اس کے بغیر رہنا ناممکن ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں عالمی سطح پر صحت کی فراہمی اور دیکھ بھال کے لیے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ دنیا کا ساتھ دیتے ہوئے پاکستان نے قابلِ قدر کوشش کی ہے کہ صحت کے مراکز میں بہتری لائی جائے۔ صحت کی دیکھ بھال کرنے والی جگہوں کوہیلتھ کئیر سنٹرز کہا جاتا ہے جبکہ انٹرنیٹ کی مدد سے صحتِ عامہ کی خدمات کو مؤثر بنانا ڈیجیٹل ہیلتھ کئیر سسٹم کہلاتا ہے۔ ڈیجیٹل ہیلتھ کئیرسسٹم صحت عامہ کے مسائل پر بروقت مدد فراہم کرتا ہے۔ ڈیجیٹل سائٹ ہیلتھ وائرکےاعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 2022 سے 2023 تک آن لائن ریکارڈ مریضوں کی تعداد میں 40 سے 55 لاکھ تک کا اضافہ ہوا ہے۔ 195 ممالک کی فہرست میں صحت کے اعتبار سے پاکستان کا122واں نمبر ہے ۔کورونا کے بعد حکومتِ پاکستان کی جانب سے صحت کو لے کر بہت سے اقدامات کیےگئے۔صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے ٹیلی میڈیسن جیسی ڈیجیٹل سہولتیں متعارف کرائی گئیں، ٹیلی میڈیسن گھر بیٹھ کر انٹرنیٹ کے ذریعے علاج کا نام ہے۔ فیصل آباد میڈیکل یونیورسٹی میں ٹیلی میڈیسن مرکز قائم ہے جو ویڈیو کال کے ذریعے مفید مشورے دیتا ہے۔ آغا خان یونیورسٹی کی جانب سے ٹیلی میڈیسن پلیٹ فارمز اور الیکٹرانک ہیلتھ ریکارڈ سسٹمز جیسے ڈیجیٹل سلوشنز تیار کرنےپرکام کیا جارہا ہے۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی آیشن (پیما) کی ہیلتھ لائن پروجیکٹ کی سربراہ ڈاکٹر حوریہ نے مئی 2020 میں نجی چینل ڈان نیوز کو بتایا تھا کہ پیما ٹیلی کلینک سروس کا اجراء اس لیے کیا گیا ہےکہ لوگ کورونا کے دوران گھروں سے کم سے کم نکلیں اور اگر انھیں صحت کا کوئی مسئلہ درپیش ہو یا فوری طبی مدد چاہئے ہو تو وہ آسانی سے کال کر کے مشورہ لے سکیں۔ ہیلتھ لائن کی سروس ملک بھر میں بالکل مفت ہے اورصبح 9 بجے سے رات 9 بجے تک رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ امن ٹیلی ہیلتھ سروس کے انچارج شیخ نادر نےڈان نیوز کو بتایا کہ یہ سروس گزشتہ 10 سال سے فعال ہے اور ہیلپ لائن نمبر 9123 ہے۔ 2020 میں نفسیاتی پریشانیوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے امن ٹیلی اور پاکستان برائے ایکسیلینس ان سائیکالوجی کی جانب سے مل کر ایک فون کال سروس کا آغاز کیا گیا جس کے اوقات کار دوپہر 2 سے شام 4 بجے تک مختص کیے گئے۔ ڈان نیوز کے مطابق خواتین مریضوں کی پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر سارہ سعید اور ڈاکٹر عفت ظفر کی جانب سے 2019 میں صحت کہانی ٹیلی میڈیسن ایپ سروس کا آغاز کیا گیا ۔ ایپ کا مقصد تھا کہ خواتین بنا کسی جھنجھٹ اور پریشانی کے خواتین ڈاکٹروں کو اپنے مسائل بتاسکیں۔ منصورہ ہسپتال لاہور سے ڈاکٹر عمیراحمد صدیقی نے پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “جو بھی سسٹم شروع کیا جاتا ہے اس کی فائدے و نقصان ہوتے ہیں۔ جب تک مریض آپ کے سامنے نہیں ہے آپ مکمل طور پر اس کا معائنہ نہیں کرسکتے۔ ہمارے دوستوں میں بھی جب کوئی بیمار ہوتا ہےتو ایک حد تک ہم ان کو موبائل پہ ٹریٹ کرتےہیں لیکن اس کے بعد ہم اس کو ہمارے پاس آنے کا کہتے ہیں تا کہ بہتر طریقے سے معائنہ کیا جائے۔ جب مریض آپ کے پاس ہوگا تو آپ اس کی حرکات و سکنات کو دیکھتے ہوئے بہتر معائنہ کر سکتے ہیں”۔ پاکستان کا 195 مین سے 122ویں نمبر پہ ہونے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ “پاکستان میں آگاہی کی بہت کمی ہے۔ لوگوں کو اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے بارے میں آگاہی نہیں ہے۔ دنیا بھر میں لوگوں کو بیماریوں کی علامات کے بارے میں مکمل علم ہوتا ہے جب کہ پاکستان میں ایسا کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ ہماری گھریلو تربیت میں شامل ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ ہمارے اسپتالوں میں بھی بہتری کی بہت گنجائش باقی ہے”۔