ایسی جگہ جہاں لوگ پیسے دے کر تھپڑ کھاتے ہیں

گاہک کھانے کے ساتھ ہوٹل سٹاف سے تھپڑ کھاکر بل ادا کرتے ہیں۔

اگر آپ کو یہ پتا چلے کہ دنیا میں ایک جگہ ایسی بھی ہے جہاں لوگ خود پیسےدے کر تھپڑ کھاتے ہیں تو آپ یقیناً حیران ہوں گے۔ عام  طور پر ریستوران کھانا اور پرسکون ماحول فراہم کرتے ہیں مگر دنیا میں ایسے ریستوران بھی موجود  ہیں جوکھانوں کے ساتھ تھپڑ بھی مہیاکرتے ہیں۔ حیرت انگیز بات  یہ ہے کہ  یہاں پر آنے والے گاہک کھانے کے ساتھ ہوٹل سٹاف سے تھپڑ کھاکر بل ادا کرتے ہیں۔ اس طرح کے زیادہ تر ہوٹل جاپان میں پائے جاتے ہیں۔ جاپان کے جنوبی ساحل پر واقع  ناگویا کے ایک ریستوران میں خواتین پر مشتمل عملہ گاہکوں کے چہرے پر تھپڑ رسید کرتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے  کہ گاہک جانتے ہیں کہ اس ہوٹل میں تھپڑ رسید کیے جائیں گے، اس کے باوجود وہ آتے ہیں اوراپنی  مرضی سے سخت سے سخت تھپڑ کھاتے ہیں۔ خبر رساں ادارے العربیہ اردو کے مطابق  کیمونو پہنے فی میل ویٹرز باربار صارفین کے چہرے پر تھپڑ مارتی ہیں۔ پہلے ویٹرس صارفین کے چہرے پر تھپڑ مارتی ہیں جس کے بعد پورے رستوران میں لوگ تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے بعد ویٹرس  اور صارفین دونوں جھک کر ایک دوسرے کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔  تھپڑوں کے عوض انھیں 300  ین دیے جاتے ہیں ۔ 1 جاپانی ین  1.83 پاکستانی روپے کے برابر ہے۔ ہوٹل عملے میں سے من  پسند ویٹرس  سے گال لال کروانے پر 500 ین کی فیس دینی پڑتی ہے۔ ازاکیا اور جاپان کےاکثر شراب خانوں میں تھپڑ رسید کیے جاتے ہیں جوکہ اتنے زوردار ہوتے ہیں  کہ گاہک کبھی کبھار اپنی نشستوں سے دور جاگرتے ہیں۔ گزشتہ سالوں میں سوشل میڈیا پر کئی  ویڈیو وائرل ہوئیں جس میں ویٹرس کو گاہکوں کو نہایت بےدردی سے تھپڑ مار تے ہوئے دیکھا گیا۔ جنوبی ساحل پر واقع ناگویا کے اس ریستوران کا نام شاچیہوکویا ہے۔ہوٹل کی مالکن  بتاتی ہیں  ابتدامیں  یہ ہوٹل خسارے میں رہا اور بند ہونے کا خطرہ لاحق ہوگیا، ہم نے ہوٹل بچانے کی بہت کوششیں کیں مگر کوئی فائدہ نہ ہو سکا۔ آخر میں ہم نے  یہ عجیب  و غریب چال چلی، یہ منفرد طریقہ اتنا کامیاب ثابت ہوا کہ ہمیں  مزید ویٹریس کو ہائر کرنا پڑا۔ ہوٹل کے گاہک کہتے ہیں کہ یہ ایک دلچسب تجربہ ہے۔ ہمیں خوبصورت لڑکی تھپڑ مارتی ہے جس سے ہم محظوظ ہوتے ہیں اور بہتر محسوس کرتے ہیں۔ یہ ہمارے ذہن کو بھی اچھا لگتا ہےجس سے ہم اپنے کاموں پر زیادہ توجہ دے سکتے ہیں۔  ہوٹل عملہ اپنے منفرد ملبوسات کی وجہ سے پہچان رکھتا ہے،  میل عملہ  نےسونے سےبنےباڈی سوٹ اورمچھلی کے سائز کے ہیڈڈریس   جبکہ فی میل عملہ نے کیمونیا پہنا ہوتا ہے۔ جاپان میں مارکیٹنگ کے نت نئےمنفرد طریقے دیکھنے کو ملتے ہیں جوکہ عوام کو اپنی جانب راغب کرنے میں ہمیشہ کامیاب رہے ہیں۔ کھانے کے حوالے سے بڑے پیمانے پرآئے روز نئے عجیب وغریب تجربات کیے جاتے ہیں۔ جاپان کےایک ہوٹل میں گاہکوں کو سیل میں ہتھکڑیاں لگا کر بند کیا جاتا ہے جہاں انھیں ویٹرس کھانا مہیا کرتی ہیں ۔ ٹوکیو میں موجودایک ریستوران   کو ایلیمنٹری سکول کے کلاس روم کی طرح سجاکرگاہکوں کو بٹھایا جاتا ہےاور عملہ انھیں اساتذہ کے لباس میں کھانا مہیا کرتا ہے۔  

ویپنگ کا بڑھتا رجحان، کیا یہ واقعی محفوظ ہے؟

بھائی میں تو سموکنگ نہیں کرتا میں تو ویپنگ کرتا ہوں۔ میرا بھائی، میرا بیٹا ویپنگ کرتا ہے۔ سموکنگ چھوڑنی ہے تو ویپنگ شروع کر دو۔ نہیں نہیں ویپنگ صحت کے لئے خطرناک نہیں ہے۔ یہ وہ تمام جملے ہیں جو ہمیں عام سننے کو ملتے ہیں۔ کیا آپ کو بھی ویپنگ کرنے کا شوق ہے؟ منہ سے دھواں نکالتے ہوئے ویڈیوز بنانا اور دوستوں کے ساتھ شیئر کرنا آج کل فیشن بن چکا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں تمباکو نوشی کو صحت کے لئے ایک سنگین خطرہ سمجھا جاتا ہے۔  لاکھوں لوگ اس لت کے باعث زندگیاں گنوا رہے ہیں اورکروڑوں مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔لیکن کیا جانتے ہیں سگریٹ نوشی زیادہ خطرناک ہے یا پھر ویپنگ؟ ویپنگ انسانی صحت پر کیا اثرات مرتب کرتی ہے؟ کیا ویپنگ یا ای سگریٹ تمباکو نوشی چھوڑنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے یا پھر تمباکو نوشی کی لت کا باعث بنتی ہے؟ حکومت پا کستان نے 2015 میں سگریٹ کے پیکٹس پر خوفناک تصاویر شائع کرنا بھی لازم قرار دیا تھا تاکہ تمباکونوشی کے نقصانات آگاہ کیا جا سکے۔ خبر رساں ادارے ‘آزاد اردو’ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں یومیہ 460 افراد تمباکو نوشی کی وجہ سے زندگیاں گنوا رہے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے ‘بی بی سی’ کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 39 لاکھ سے زائد افراد تمباکو نوشی کے عادی ہیں، جن میں سے ایک کروڑ 60 لاکھ افراد سیگریٹ کے ذریعے تمباکو نوشی کرتے ہیں جبکہ باقی افراد تمباکو نوشی کے لئے دیگر ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ حقہ اور بیڑی تو تمباکو نوشی کے پرانے طریقے ہیں جن سے ہر کوئی واقف ہے لیکن ویپنگ ایک ایسا طریقہ ہے جس کا استعمال آج کل کی نوجوان نسل اور خاص کر شہری علاقوں میں بہت عام ہوتا جا رہا ہے۔ ویپنگ ایک ایسا فعل ہے جس میں نکوٹین یا دیگر محلولات کو بخارات کی شکل میں ای سگریٹ یا الیکڑانک سگریٹ کے ذریعے جسم میں داخل کیا جاتا ہے۔  اب سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا یہ جدید طریقہ روایتی طریقوں کی طرح ہی خطرناک ہے یااس کا کوئی خطرہ نہیں؟ کیا ویپنگ کو سگریٹ نوشی چھوڑنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اور ویپنگ انسانی صحت پر کس طرح کے اثرات مرتب کرتی ہے؟ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک ماہ تک تحقیق کی گئی جس میں 114 سگریٹ نوشوں نے حصہ لیا۔  تحقیق کے نتائج کے مطابق ویپنگ سے دل کے دورے اور فالج کے خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے لیکن مکمل طور پر صحت کے لئے محفوظ نہیں ہے۔اس سے پتا چلتا ہے کہ سگریٹ نوشی کے تمام طریقوں کوہی  ترک کرنا صحت کے لئے محفوظ ہے۔ سگریٹ کے دھوئیں میں موجود کیمیائی مادے خون میں شامل ہو کر شریانوں سے گزرتے وقت چربی کے ساتھ چپک جاتے ہیں جس سے شریانیں تنگ ہو جاتی ہیں۔  شریانوں کی پھیلنے کی صلاحیت سے ہی ان کی صحت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ برٹش جنرل آف کارڈیالوجی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق شریانوں کے پھیلنے اور ہارٹ اٹیک کے طویل مدتی خطرات کے درمیان مثبت تعلق پایا گیا ہے، صحت مند اور سگریٹ نوشی نہ کرنے والوں کا سکور 7.7 فیصد، سگریٹ نوشی کرنے والوں کا سکور 5.5 فیصد جبکہ ویپنگ کرنے والوں کا سکور 6.7 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ نوائے وقت کی رپورٹ کے مطابق ویپنگ کے بہت سے نقصانات ہیں، ای سگریٹ میں موجود نکوٹین دماغی نشو و نما پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے جو کہ عادی بنانے کا باعث بن سکتی ہے۔  اس کے محلول میں موجود کیمیائی مادے پھیپھڑوں اور دل کی صحت کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ منصورہ ہسپتال لاہور میں خدمات سرانجام دینے والے ڈاکٹر  عمیر احمد صدیقی نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ”ویپنگ معاشرے میں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔  نوجوان نسل اس کو فیشن  سمجھ کرچھوٹی عمر سے ہی تیزی سے اپنا رہی ہے۔ گو کہ  ویپنگ سیگریٹ نوشی سے کم نقصان پہنچاتی ہے لیکن پھر بھی  انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ دل اور پھیپھڑوں پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتی ہے۔ پھیپھڑوں پر اس کے اثرات سے دمہ اور  پیرینچیمل جیسی مہلک بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ  ویپنگ انسان کی شریانوں کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہے”۔ انہوں نے مزید  کہا کہ “نوجوان نسل  میں ویپنگ اس لیے  بڑھ رہی ہے کیوں کہ اس کو فیشن کے طور پر  اپنایا جا رہا ہے۔  اس  کے علاوہ ویپنگ مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اور نوجوانوں تک آسان رسائی  اس کے استعمال کو بڑھا رہی ہے۔ حکومت کو ویپنگ پہ بھی قانون سازی کرنی چاہیے تا کہ اس کےاستعمال کو محفوظ  بنایا جا سکے۔ جس طرح سیگریٹ پہ پابندیاں لگائی گئی ہیں اسی طرح ویپنگ پہ بھی لگائی جانی چاہیے”۔   ماہرین کی رائے اور دنیا بھر میں ہونے والی تحقیقات کے مطابق ویپنگ تمباکو نوشی سے کم نقصان دہ ہے تاہم انسانی صحت کے لئے مہلک ہے۔ فیشن کے طور پر ویپنگ کرنے والے افراد آہستہ آہستہ تمباکو نوشی کی لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں جو زندگی بھر کا روگ بن جاتی ہے۔

ڈیجیٹل ہیلتھ کئیر سنٹرز: اب آپ کو ڈاکٹر کے پاس جانےکی ضرورت نہیں!

ڈاکٹر یا ہسپتال جانے کا جھنجھٹ ختم ،ایک کال پر ڈاکٹر خود آپ کے پاس حاضر ہوگا،کیا ایسا ممکن ہے؟جی  ہاں ،سائنس اور ٹیکنالوجی نے ایسا انقلاب برپا کیا ہے کہ اب اس کے بغیر رہنا ناممکن ہے۔  گزشتہ چند برسوں میں عالمی سطح پر صحت کی فراہمی اور دیکھ بھال کے لیے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ دنیا کا ساتھ دیتے ہوئے پاکستان نے قابلِ قدر کوشش کی ہے کہ صحت کے مراکز میں بہتری لائی جائے۔ صحت کی دیکھ بھال کرنے والی جگہوں کوہیلتھ کئیر سنٹرز کہا جاتا ہے جبکہ  انٹرنیٹ کی مدد سے  صحتِ عامہ کی خدمات کو مؤثر بنانا ڈیجیٹل ہیلتھ کئیر سسٹم کہلاتا ہے۔ ڈیجیٹل ہیلتھ کئیرسسٹم صحت عامہ کے مسائل پر بروقت مدد فراہم کرتا ہے۔ ڈیجیٹل سائٹ ہیلتھ وائرکےاعدادوشمار کے مطابق  پاکستان میں 2022 سے 2023 تک آن لائن ریکارڈ مریضوں کی تعداد میں 40 سے 55 لاکھ تک کا اضافہ ہوا ہے۔ 195 ممالک کی فہرست میں صحت کے اعتبار سے پاکستان کا122واں نمبر ہے ۔کورونا کے بعد حکومتِ پاکستان کی جانب سے صحت کو لے کر بہت سے اقدامات کیےگئے۔صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے ٹیلی میڈیسن جیسی ڈیجیٹل سہولتیں متعارف کرائی گئیں، ٹیلی میڈیسن گھر بیٹھ کر انٹرنیٹ کے ذریعے علاج کا نام ہے۔ فیصل آباد میڈیکل یونیورسٹی میں ٹیلی میڈیسن مرکز قائم ہے جو ویڈیو کال کے ذریعے مفید مشورے دیتا ہے۔ آغا خان یونیورسٹی کی جانب سے ٹیلی میڈیسن پلیٹ فارمز اور الیکٹرانک ہیلتھ ریکارڈ سسٹمز جیسے ڈیجیٹل سلوشنز تیار کرنےپرکام کیا جارہا ہے۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی آیشن (پیما) کی ہیلتھ لائن پروجیکٹ کی سربراہ ڈاکٹر حوریہ نے مئی 2020 میں نجی چینل ڈان نیوز کو بتایا تھا کہ  پیما ٹیلی کلینک سروس کا اجراء اس لیے کیا گیا ہےکہ لوگ کورونا کے دوران گھروں سے کم سے کم نکلیں اور  اگر انھیں صحت کا کوئی مسئلہ درپیش ہو یا فوری طبی مدد چاہئے ہو تو وہ آسانی سے کال کر کے مشورہ لے سکیں۔ ہیلتھ لائن کی سروس ملک بھر میں بالکل مفت ہے اورصبح 9 بجے سے رات 9 بجے تک رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ امن ٹیلی ہیلتھ سروس کے انچارج شیخ نادر نےڈان نیوز کو بتایا کہ یہ سروس گزشتہ 10 سال سے فعال ہے اور ہیلپ لائن نمبر 9123 ہے۔ 2020 میں نفسیاتی پریشانیوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے امن ٹیلی اور پاکستان برائے ایکسیلینس ان سائیکالوجی کی جانب سے مل کر ایک فون کال سروس کا آغاز کیا گیا جس کے اوقات کار دوپہر 2 سے شام 4 بجے تک مختص کیے گئے۔ ڈان نیوز کے مطابق خواتین مریضوں کی پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر سارہ سعید اور ڈاکٹر عفت ظفر کی جانب سے 2019 میں صحت کہانی ٹیلی میڈیسن ایپ سروس کا آغاز کیا گیا ۔ ایپ کا مقصد  تھا کہ خواتین بنا کسی جھنجھٹ اور پریشانی کے خواتین ڈاکٹروں کو اپنے مسائل بتاسکیں۔ منصورہ ہسپتال لاہور سے ڈاکٹر عمیراحمد صدیقی نے پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “جو بھی سسٹم شروع کیا جاتا ہے اس کی فائدے و نقصان ہوتے ہیں۔ جب تک مریض آپ کے سامنے نہیں ہے آپ مکمل طور پر اس کا معائنہ نہیں کرسکتے۔   ہمارے دوستوں میں بھی جب کوئی بیمار ہوتا ہےتو ایک حد تک ہم ان کو موبائل پہ ٹریٹ کرتےہیں  لیکن  اس کے بعد ہم اس کو ہمارے پاس آنے کا کہتے ہیں تا کہ بہتر طریقے سے معائنہ کیا جائے۔ جب مریض آپ کے پاس ہوگا تو آپ اس کی حرکات و سکنات کو دیکھتے ہوئے بہتر معائنہ کر سکتے ہیں”۔ پاکستان کا 195 مین سے 122ویں نمبر پہ ہونے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ “پاکستان میں آگاہی کی بہت کمی ہے۔ لوگوں کو اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے بارے میں آگاہی نہیں ہے۔ دنیا بھر میں لوگوں کو بیماریوں کی علامات کے بارے میں مکمل علم ہوتا ہے جب کہ پاکستان میں  ایسا کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔  یہ ہماری گھریلو تربیت میں شامل ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ ہمارے اسپتالوں میں بھی بہتری کی بہت گنجائش باقی ہے”۔