ڈیجیٹل دور کا نیا ‘ڈبل شاہ،’ ٹریثر این ایف ٹی کیا چیز ہے؟

پاکستان میں ایک نئی ڈیجیٹل اسکیم Treasure NFT تیزی سے مقبول ہو رہی ہے، جسے ماہرین ایک جدید پونزی اسکیم قرار دے رہے ہیں، اس اسکیم میں لوگ رقم جمع کرواتے ہیں اور مزید افراد کو شامل کرنے پر کمیشن حاصل کرتے ہیں۔ جوں جوں نیٹ ورک بڑھتا جاتا ہے، ابتدائی سرمایہ کاروں کو منافع ملتا رہتا ہے، ایپ مالک کو لاکھوں سے کروڑوں اور کروڑوں سے اربوں روپے ملتے جائیں گے، وہ ان میں سے تھوڑا تھوڑا کمیشن دیتا جاتا ہے تاکہ مزید لالچی لوگ شامل ہوتے جائیں ، جب اس کا ہدف پورا ہو جائے گا تب وہ کھربوں روپے لے کر اڑن چھو ہو جائے گا اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ دینِ اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ پیسہ اس طریقے سے کمائے جائیں؟ آج کل لوگ پیسہ کمانے کے لیے اندھا دھند دوڑ رہے ہیں، اس میں مفتی مولوی پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہیں۔ یہ ایپ بنانے والا بھی ایک پڑھا لکھا ڈاکٹر اور بزنس مین ہے، اسی کو آپ اربوں کا فائدہ دے رہے ہیں لگے رہو مسلمانو لگے رہو۔ اصل افسوس اس بات کا ہے کہ اب پیسے کو ایمان بنا لیا گیا ہے، یعنی لوگوں کو پرواہ ہی نہیں کہ کمائی کا ذریعہ حلال ہے یا حرام؟ جن لوگوں کو وقتی فائدہ ہو رہا ہے، وہ خوش ہو رہے کہ ہم کامیاب ہو گئے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہی فلاح ہے؟ اسے کامیابی کہتے ہیں؟ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے، جس میں ایک عالم دین Treasure NFT کی کمائی کو “جائز” قرار دے رہے ہیں۔ اس بیان پر عوامی ردِعمل سامنے آیا اور کئی لوگوں نے اسے اسلامی اصولوں کے منافی قرار دیا۔ اب تک حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اس اسکیم پر کوئی واضح ردِعمل سامنے نہیں آیا۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر اس معاملے پر بروقت کارروائی نہ کی گئی، تو ہزاروں افراد کی زندگی بھر کی جمع پونجی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ جب ایسی اسکیمیں پاکستان میں مقبول ہوئی ہوں، ماضی میں ڈبل شاہ اسکینڈل سمیت کئی پونزی اسکیموں نے عوام کو کروڑوں کا نقصان پہنچایا، لیکن اس کے باوجود لوگ بغیر تحقیق کے ایسی اسکیموں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی عوام ایک بار پھر لالچ کے جال میں پھنس رہی ہے؟ اور کیا حکومت اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے، کوئی عملی قدم اٹھائے گی؟
تونسہ میں ایڈز کے بڑھتے کیسز پر مریم نواز کا سخت نوٹس، فوری اقدامات کا حکم

تونسہ میں ایڈز کے مبینہ پھیلاؤ پر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف نے سخت نوٹس لیتے ہوئے فوری اور ٹھوس اقدامات کا حکم دے دیا۔ وزیراعلیٰ کی زیر صدارت خصوصی اجلاس میں ایڈز کے پھیلاؤ کی وجوہات اور ذمہ داروں کا تعین کرنے پر غور کیا گیا۔ مریم نواز نے محکمہ صحت پنجاب کو ایڈز کے سدباب کے لیے آپریشنل پلان پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ حکومت نے یونیسف، عالمی ادارہ صحت (WHO) اور محکمہ صحت پنجاب پر مشتمل جوائنٹ مشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو 7 سے 14 اپریل تک متاثرہ بچوں کی ہسٹری ٹریسنگ کرے گا اور ایڈز کنٹرول کے لیے وزیراعلیٰ کو تجاویز پیش کرے گا۔ متاثرہ علاقوں میں ہاؤس ہولڈ اسکریننگ کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے، جب کہ تونسہ تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال اور دیگر طبی مراکز میں ایڈز کے علاج کے لیے خصوصی مراکز قائم کر دیے گئے ہیں۔ مزید پڑھیں: سول و عسکری قیادت کی بیٹھک، ملک دشمن مہم کا مؤثر جواب دینے کا فیصلہ وزیراعلیٰ مریم نواز نے واضح کیا کہ ایڈز سے متاثرہ بچوں کے علاج میں کوئی غفلت یا کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی اور تمام مریضوں کو مکمل فری علاج فراہم کیا جائے گا۔
جیف بیزوس کی شادی، امبانی خاندان کی شادی سے 3 گنا زیادہ خرچ ہوگا؟

آپ میں سے اکثر لوگ سمجھتے ہوں گے کہ انڈیا میں امبانی خاندان کی شادی دنیا کی سب سے مہنگی شادی تھی۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس سے تین گنا مہنگی شادی اسی سال اٹلی کے شہر وینس میں ہونے جا رہی ہے۔ مکیش امبانی کے بیٹے اننت امبانی کی شادی میں 200 ایمازون کے بانی اور دنیا کے دوسرے امیر ترین شخص، جیف بیزوس، اس موسم گرما میں اپنی منگیتر لورین سانچیز سے اٹلی کے شہر وینس میں شادی کرنے جا رہے ہیں۔ یہ شادی ان کی مئی 2023 کی منگنی کے تقریباً دو سال بعد منعقد ہو رہی ہے۔ 61 سالہ بیزوس اور 55 سالہ سانچیز نے اپنی سابقہ شادیوں کا اختتام بالترتیب 2019 اور 2023 میں کیا تھا۔ رپورٹس کے مطابق، جوڑے نے شادی کے دعوت نامے بھیجنے کا عمل شروع کر دیا ہے، اگرچہ حتمی تاریخ ابھی ظاہر نہیں کی گئی، لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تقریب ممکنہ طور پر جون میں منعقد ہو سکتی ہے۔ افواہوں کے مطابق، جوڑا اپنی شادی جیف بیزوس کے لگژری 500 ملین ڈالر کے سپر یاٹ “کورو” پر کرے گا، جو اٹلی کے ساحل کے قریب موجود ہو گا۔ یہ وہی مقام ہے جہاں بیزوس نے سانچیز کو پرپوز کیا تھا اور بعد میں اپنی منگنی کی تقریب بھی یہیں منائی تھی۔ اس ہائی پروفائل شادی کی مہمانوں کی فہرست میں ٹیکنالوجی اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی کئی نامور شخصیات کی شرکت متوقع ہے۔ ان کی منگنی کی تقریب میں مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس اور ان کی ساتھی پاؤل ہرد سمیت کئی مشہور شخصیات نے شرکت کی تھی۔ تاہم، یہ بات قابل ذکر ہے کہ دسمبر 2024 میں ایسی خبریں سامنے آئیں جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بیزوس اور سانچیز کی شادی پر 600 ملین ڈالر خرچ ہوں گے۔ جیف بیزوس نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے انہیں “مکمل طور پر غلط” قرار دیا تھا۔ لورین سانچیز 1969 میں امریکی شہر البوکرکی میں پیدا ہوئیں۔ وہ ایک سابق براڈکاسٹ جرنلسٹ ہیں، جنہوں نے بطور انٹرٹینمنٹ رپورٹر اور نیوز اینکر کام کیا۔ 2016 میں سانچیز نے “بلیک اوپس ایوی ایشن” کے نام سے اپنی کمپنی قائم کی، جو اپنی نوعیت کی پہلی خاتون کی ملکیت والی فضائی فلم اور پروڈکشن کمپنی ہے۔
یورپ میں ٹی بی کا بڑھتا ہوا خطرہ، بچوں کی زندگیاں داؤ پر لگ گئیں

دنیا بھر میں ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجی ہے جب ٹی بی جیسی بیماری جو دنیا کی سب سے بڑی مہلک بیماریوں میں سے ایک ہے اور اس بیماری نے یورپ میں ایک نئے خطرے کی شکل اختیار کر لی ہے۔ عالمی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ 2023 میں یورپ کے 53 ممالک کے بچوں میں ٹی بی کیسز میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے جس سے 7,500 سے زائد بچے متاثر ہوئے ہیں۔ یہ رپورٹ WHO کی یورپی ریجن کی جانب سے جاری کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 2023 میں 15 سال سے کم عمر کے بچوں میں ٹی بی کے کیسز میں 650 سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ WHO کے یورپی ریجن کے ڈائریکٹر ‘ہانس ہنری کلوگے’ نے اس خطرے کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ “یہ بڑھتا ہوا رجحان اس بات کی علامت ہے کہ ٹی بی کے خلاف کی جانے والی پیشرفت اب بھی کمزور ہے۔” ٹی بی جو ایک خطرناک بیکٹیریل بیماری ہے اور عام طور پر پھیپھڑوں کو متاثر کرتی ہے اور بچوں میں اس بیماری کے پھیلاؤ میں اضافے نے عالمی ادارہ صحت کو ایک نئی فکر میں مبتلا کر دیا ہے۔ WHO کے ایڈوائزر ‘اسکار یڈلبایف’ نے اس معاملے کو مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ یہ اضافہ ایک طرف تشخیص کے بڑھتے ہوئے امکانات کو ظاہر کرتا ہے لیکن دوسری طرف یہ ممکنہ طور پر یوکرین اور روس کی جنگ کے سبب سرحدوں کے پار لوگوں کی نقل و حرکت میں اضافے کا بھی نتیجہ ہو سکتا ہے جہاں اس بیماری کی شرح پہلے ہی بہت زیادہ ہے۔ یہ بھی پڑھیں: آگمینٹڈ ریئلٹی انقلاب: یہ صحت، تعلیم اور کھیلوں کو کس طرح تبدیل کر رہا ہے؟ یہ رپورٹ ایک اور اہم مسئلے کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ بچوں میں ٹی بی کے کیسز میں مسلسل اضافے کا تیسرا سال ہے۔ WHO نے اس صورتحال کو ‘تشویش ناک’ قرار دیا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ اسی دوران WHO نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی ہے کہ عالمی سطح پر ٹی بی کی روک تھام کے لیے فنڈنگ میں کمی آ رہی ہے۔ یہ کمی خاص طور پر کم آمدنی والے ممالک میں خطرناک ثابت ہو سکتی ہے جہاں ٹی بی کی روک تھام کے پروگرامز کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس فنڈنگ میں کمی کے سبب بیماری کی روک تھام کے لیے درکار ٹیسٹ، علاج اور ضروری وسائل کی فراہمی میں مشکلات آ رہی ہیں جو بالآخر ٹی بی کے مہلک اور مشکل سے علاج ہونے والے اقسام کے پھیلاؤ کا باعث بن سکتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ یورپی یونین میں بچوں کے یہ کیسز تمام ٹی بی کے کیسز کا 4.3 فیصد ہیں جو کہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔ ٹی بی کے خلاف جنگ کو کامیاب بنانے کے لیے عالمی سطح پر مربوط اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ اس خطرناک بیماری کے پھیلاؤ کو روک کر لاکھوں جانوں کو بچایا جا سکے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی یہ رپورٹ ایک بار پھر اس بات کا ثبوت ہے کہ ٹی بی جیسے پھیلنے والے بیماریوں کا مقابلہ عالمی سطح پر تعاون سے ہی ممکن ہے۔ مزید پڑھیں: صدقہ فطر کن لوگوں پر لازم ہے، یہ کب اور کیسے دیا جاتا ہے؟
انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اٹھنے والی آوازیں کیوں خاموش ہورہی ہیں؟

انسانی حقوق کی پامالی آج کے جدید دور میں بھی جاری ہے، فلسطین سے شام تک نسل کشی ہورہی ہے، طاقت کے نام پر انسان انسان کو کاٹ رہا ہے، مگر انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے بھی ہرجگہ موجود ہیں۔ 24 مارچ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور متاثرین کے وقار کے حق کے طور پر منایا جاتا ہے، یہ دن ہمیں ان لوگوں کی یاد دلاتا ہے جو ناانصافی، جبر اور ظلم کا شکار ہوئے۔ دنیا کے ہر کونے میں ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں جنہیں انصاف کے لیے برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے، اور بعض اوقات وہ انتظار کبھی ختم نہیں ہوتا۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی صرف ایک فرد یا ایک قوم کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ پوری دنیا کا چہرہ داغدار کرتی ہے۔ تاریخ میں کئی ہولناک واقعات گزرے ہیں جو انسانیت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں اور دیگر اقلیتوں کا قتل عام، روانڈا میں محض سو دن میں آٹھ لاکھ افراد کی بے رحمانہ نسل کشی، بوسنیا کے سربرینیکا میں ہزاروں معصوم مسلمانوں کا قتل عام، شام میں خانہ جنگی کے دوران بے شمار بے گناہوں کا خون، اور سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم، یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ ظلم کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں، مگر یہ ختم نہیں ہوتا۔ جب کسی انسان کے بنیادی حقوق چھین لیے جاتے ہیں تو یہ نہ صرف اس کی زندگی کو برباد کرتا ہے بلکہ پورے معاشرے کو بھی متاثر کرتا ہے۔ متاثرین کے وقار کا تحفظ محض ہمدردی کا تقاضا نہیں بلکہ انصاف کا تقاضا بھی ہے۔ ان کی بحالی، ان کے زخموں پر مرہم رکھنا اور انہیں وہ عزت دینا جس کے وہ مستحق ہیں، یہ سب انسانیت کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ دنیا میں ایسے قوانین اور معاہدے موجود ہیں جو انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے بنائے گئے ہیں، جیسے کہ انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ اور جنیوا کنونشن۔ لیکن اگر قوانین بنانے سے ہی سب کچھ ٹھیک ہو جاتا تو آج ہم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بات نہ کر رہے ہوتے۔ اصل مسئلہ ان قوانین پر عملدرآمد کا ہے۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں شعبہِ سیاسیات سے منسلک پروفیسر اکرام اللہ کا کہنا تھا کہ”متاثرین کے وقار کے حق کا تحفظ ریاستوں، عالمی اداروں اور سماجی تنظیموں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ بین الاقوامی قوانین اور معاہدے جیسے کہ انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ، جنیوا کنونشن، اور دیگر بین الاقوامی معاہدے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اہم بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ ان معاہدوں کے تحت ریاستوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکے، ان کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں، اور متاثرین کو انصاف فراہم کریں”۔ متاثرین کے لیے انصاف حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ کہیں عدالتی نظام کمزور ہے، کہیں سیاست انصاف پر بھاری ہے، اور کہیں مظلوموں کی آواز دبانے کے لیے انہیں دھمکایا جاتا ہے۔ ایسے میں انسانی حقوق کی تنظیمیں، میڈیا اور عام شہری ایک امید کی کرن ثابت ہو سکتے ہیں۔ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ مظلوموں کی کہانی دنیا کے سامنے لائے، تاکہ طاقتور ظالموں کو بے نقاب کیا جا سکے۔ معاشرے میں شعور اجاگر کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا انصاف کی فراہمی۔ اگر ہر فرد انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی سطح پر کردار ادا کرے، چاہے وہ کسی ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا ہو، کسی مظلوم کی مدد کرنا ہو، یا اپنے ارد گرد لوگوں کو آگاہ کرنا ہو، تو دنیا کو ایک بہتر جگہ بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیئر ٹیکر تنظیم کے سربراہ اسفندیار کا کہنا تھا کہ “متاثرین کے وقار کو بحال کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ سب سے پہلے، انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ مجرموں کو سزا دینا نہ صرف متاثرین کے لیے تسلی بخش ہوتا ہے بلکہ یہ دوسروں کے لیے بھی ایک مثال بنتی ہے تاکہ وہ ایسے جرائم سے باز رہیں۔ دوسرا اہم پہلو متاثرین کی نفسیاتی اور جسمانی بحالی ہے۔ تشدد، جنگ یا جبر کا” شکار ہونے والے افراد کے لیے طبی سہولیات، ذہنی صحت کی خدمات اور روزگار کے مواقع فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اپنی زندگی کو دوبارہ بہتر انداز میں گزار سکیں”۔ یہ دن ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم واقعی ایک ایسے معاشرے کا حصہ بننا چاہتے ہیں جہاں ظلم کے خلاف خاموشی کو ہی بہتر سمجھا جائے؟ یا ہم اس سوچ کو بدلنے کے لیے کچھ عملی اقدامات اٹھا سکتے ہیں؟ انصاف، برابری اور انسانی وقار کے لیے کی جانے والی ہر چھوٹی کوشش دنیا میں ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر ہم واقعی ایک منصفانہ اور پرامن دنیا چاہتے ہیں تو ہمیں ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا، کیونکہ خاموشی اکثر ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف ہوتی ہے۔
ہر بوند قیمتی ہے: وزیرِاعلیٰ پنجاب کا عالمی یومِ آب کے موقع پر پیغام

پانی کے عالمی دن پر وزیرِاعلیٰ پنجاب مرین نواز نے قوم کو پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ پانی کی ہر بوند قیمتی ہے، روزمرہ زندگی میں پانی کا ضیاع روکنے کے لیے عوامی شعور بیدار کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ پانی زندگی کی علامت اور آئندہ نسلوں کے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے۔ بنی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پانی کے ضیاع سے منع فرمایا، پانی نعمت ہے جس کا تحفظ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ مریم نواز نے کہا کہ ہر بوند قیمتی ہے، روزمرہ زندگی میں پانی کا ضیاع روکنے کے لیے عوامی شعور بیدار کرنا ہوگا۔ بڑھتی ہوئی آبادی،موسمیاتی تبدیلیوں اور بے احتیاطی کے باعث آبی ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ مزید پڑھیں: مریم نواز کی اسپیشل بچوں کے لیے اسپیشل عیدی انہوں نے کہا کہ آبی ذخائر کے تحفظ کے لے اقدامات نہ کیے تو آنے والی نسلیں قلت کا شکار ہو سکتی ہیں۔ پانی کے مناسب استعمال اور تحفظ کے لیے عملی اقدامات ناگزیر ہیں، بارشی پانی کے ذخائر اور زیر زمین ٹینک بنا کر آبپاشی کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ وزیرِاعلیٰ پنجاب نے اپنے پیغام میں واضح کیا ہے کہ پانی بچائیں یہ عمل کرنے کا وقت ہے۔ آئندہ نسل کی بقا کے لیے پانی ذمہ داری سے استعمال کریں۔
زمین کی بڑھتی پیاس: کیا ہم خشک سالی کو دعوت دے رہے ہیں؟

دنیا بھر میں ہر سال 22 مارچ کو پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس کا مقصد میٹھے پانی کے بحران اور اس کے حل کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین برسوں میں گلیشیئرز کی اب تک کی سب سے زیادہ کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 1975 سے اب تک گلیشیئرز سے 9,000 گیگاٹن برف کا نقصان ہو چکا ہے، جو جرمنی کے سائز کے برفانی بلاک کے برابر ہے اور اس کی موٹائی 25 میٹر ہے۔ عالمی گلیشیئر مانیٹرنگ سروس کے ڈائریکٹر مائیکل زیپ نے جنیوا میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ “یہ منظرنامہ انسانیت کے لیے ایک اہم اشارہ ہے۔” گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کے باعث دنیا کے مختلف خطوں، جیسے قطب شمالی، الپس، جنوبی امریکا اور تبت کی سطح مرتفع میں سیلابوں کے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق، یہ عمل موسمیاتی تبدیلی کے باعث شدت اختیار کر رہا ہے، جس کے نتیجے میں زراعت اور توانائی کے شعبے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ مائیکل زیپ کے مطابق پچھلے چھ برسوں میں سے پانچ میں سب سے زیادہ برف کا نقصان ریکارڈ کیا گیا ہے، جب کہ 2024 میں اب تک 450 گیگاٹن برف پگھل چکی ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کی رپورٹ کے مطابق دو ارب سے زائد افراد صاف پانی کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں اور ہر دو منٹ میں ایک پانچ سال سے کم عمر کا بچہ آلودہ پانی اور ناقص صفائی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔” اس کے علاوہ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ “دنیا کے تین میں سے ایک اسکول میں پانی کی بنیادی سہولت نہیں ہے جو کہ اس مسئلے کی اہمیت کو مزید واضح کرتا ہے۔ پاکستان میں پانی کی کمی ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق پروونشنل ہیڈ واٹر ایڈ یوکے، فراقت علی نے کہا کہ پاکستان میں بارشیں تو ہوتی ہیں، مگر ہم اسے محفوظ نہیں کرتے، جس کی وجہ سے وہ رحمت کے بجائے زحمت بن جاتی ہیں۔ پانی اور موسم کا بھی آپس میں گہرا تعلق ہے اور گلیشیئرز اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جب کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے ان دریاؤں کا موسمی بہاؤ متاثر ہو رہا ہے، جو لاکھوں افراد کی زراعت، پینے کے پانی کی فراہمی اور ہائیڈرو پاور کے لیے بہت ضروری ہیں۔ فراقت علی نے کہا ہے کہ ہماری ناقص منصوبہ بندی اور پانی کے غیر مؤثر استعمال نے ہمیں اس نہج پر پہنچایا ہے۔ جنوبی افریقہ کے بعد دنیا کا دوسرا ملک ہے جہاں پانی کا بحران شدت اختیار کرنے والا ہے۔ عالمی اکانونمک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ “گلیشیئرز کی پگھلنے کے عمل کو روکنا یا اس سے بچنا ممکن نہیں ہے مگر ہم ان کے پگھلنے کے اثرات کو کم ضرور کر سکتے ہیں۔ ہمیں گلیشیئرز کے پانی کو زیادہ مستحکم اور پائیدار طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لاکھوں افراد کو محفوظ پانی کی فراہمی ممکن ہو سکے۔” پاکستان میں پانی کے غیر ضروری استعمال پر بات کرتے ہوئے فراقت علی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر شخص پانی کا ضیاع کرتا ہے، چولستان میں لوگ پانی کی ایک ایک بوند کو ترستے ہیں، لیکن لاہور کی ہر گلی میں گاڑیاں دھوتے لوگ نظر آتے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ہم نے پانی کی قدر نہ کی تو ساؤتھ افریقہ کے بعد پاکستان کا نمبر ہوگا۔ آج کے دور میں عالمی اکانومک فورم کا ‘اپ لنک پلیٹ فارم’ ایسے انٹرپرینیورز کی حمایت کرتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی، ماحولیاتی انحطاط اور غربت جیسے عالمی چیلنجز کے حل کے لیے کام کر رہے ہیں۔ فراقت علی کے مطابق پاکستان میں صرف 16 فیصد پانی پینے کے قابل ہے، جب کہ 84 فیصد آلودہ پانی استعمال ہو رہا ہے، جو صحت عامہ کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ انہوں نے سندھ میں پانی کی قلت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں جانور اور انسان ایک ہی تالاب سے پانی پینے پر مجبور ہیں، جب کہ پنجاب کے بہاولپور، خانیوال اور جھنگ کے کچھ علاقوں میں بھی پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں پانی کے ضیاع کی وجہ سے خشک سالی کا تخمینہ لگایا جارہا ہے۔ فراقت علی نے کہا ہے کہ مستقبل میں جنگیں پانی کے لیے ہوں گی، یہ صرف پاکستان یا ایشیا کا نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی پانی کے معاملے پر تنازع شدت اختیار کر سکتا ہے، کیونکہ بھارت پانی کے ذرائع پر کنٹرول کر رہا ہے۔ پاکستان میں جہاں ایک طرف سندھ سے نکالی جانے والی نہروں کا مسئلہ تنازعے کا شکار ہے، وہیں دوسری جانب ڈیمز میں پانی کی خطرناک حد تک ہوتی کمی نے تشویش پیدا کردی ہے۔ فراقت علی کے مطابق پاکستان میں بارشوں کی کمی کے باعث ڈیموں میں پانی کا لیول خطرناک حد تک کم ہو چکا ہے اور جب بھی کوئی نیا ڈیم بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، تو سیاسی انتشار شروع ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے واٹر اینڈ جوڈیشل کمیشن قائم کیا ہے تاکہ پانی کے تحفظ کے لیے مؤثر حکمت عملی ترتیب دی جا سکے، لیکن عملی اقدامات اب بھی ناکافی ہیں۔ عالمی سطح پر چند ایسے اقدامات کا ہونا نہایت ضروری ہے جن سے ان پگھلتے ہوئے گلیشیئرز کو بچایا جاسکے اور پانی کے وسائل کو محفوظ کیا جا سکے۔ ان گلیشیئرز کے پگھلنے کے عمل سے پانی کے وسائل غیر متوقع اور غیر یقینی ہوتے جارہے ہیں، جس کے نتیجے میں طویل خشک سالی، مٹی کی نمی میں کمی اور پانی کے ذخیروں کی سطح میں کمی جیسے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ فراقت علی نے کہا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ بڑے پیمانے پر پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے اقدامات کرے، عوامی سطح پر
بچے اپنے والدین اور اساتذہ کرام کے نام پر درخت لگائیں، مریم نواز کا عالمی یوم جنگلا ت کے دن پر پیغام

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف نے کہا ہے کہ حکومت ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے اور آنے والی نسلوں کو صاف ستھرا ماحولیاتی نظام دینے کے لیے پرعزم ہے۔ عوام سے اپیل ہے کہ درخت ضرور لگائیں، چاہے اس کے سائے میں بیٹھنے کی توقع ہو نہ ہو۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے جنگلات کے عالمی دن پر اپنے پیغام میں کہا کہ بچے اپنے والدین اور اساتذہ کرام کے نام پر درخت لگائیں۔ جنگلات کا وجود ماحول، معیشت اور شہریوں کے لیے لائف لائن ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لئے شجرکاری ناگزیر ہیں، درخت لگائیں اور سموگ کے اندھیرے مٹائیں۔ مریم نوازشریف نے کہا کہ عالمی یوم جنگلا ت پر صوبے بھر میں 15 لاکھ پودے لگائے جائیں گے۔ موسم بہار شجرکاری مہم کے دوران مجموعی طور پر ڈیڑھ کروڑ پودے لگانے کا ٹارگٹ دیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ ”پلانٹ فار پاکستان“ مہم کے تحت 44 لاکھ پودے لگائے جائیں گے۔ ”گرین پاکستان“ پروگرام کے تحت 34 لاکھ سے زائد پودے لگائے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ صوبہ بھر کے زرعی جنگلات میں 14 لاکھ سے زائد پودے لگائے جائیں گے۔ ہیلتھ، ایجوکیشن اور دیگر اداروں کو شجرکاری کے لیے 55 لاکھ پودے فراہم کیے گئے ہیں۔ پہلی مرتبہ بے آباد سرکاری اراضی پر بھی درخت لگائے جائیں گے۔ راجن پور، مظفرگڑھ اور سرگودھا میں دریائے سندھ سے متصل 3700 ایکڑ پر شجرکاری کی جائے گی۔ ان کے علاوہ غازی گھاٹ اور مظفر گڑھ میں 1500 ایکڑ رقبے پر شجرکاری ہوگی۔ شیخوپورہ اور لاہور راوی کنارے پر 444 ایکڑ رقبے پر درخت لگائے جائیں گے۔ گجرات میں دریائے چناب سے متصل علاقوں میں بھی شجرکاری ہوگی۔ گوجرانوالہ، چھانگا مانگا، چیچہ وطنی، اٹک، جھنگ اور ڈی جی خان میں خالی اراضی پر شجرکاری کی جائے گی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ پنجاب میں 161 سال سے قائم محکمہ جنگلات کو انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لیس کیا جارہا ہے۔ فارسٹ ڈیپارٹمنٹ میں جی آئی ایس ریموٹ سینسنگ، ہائی ریزولوشن میپنگ اور ڈرون ٹیکنالوجی متعارف کروائی گئی ہے۔ سیٹلائٹ اور ڈورن ٹیکنالوجی سے جنگلات میں وقوع پذیر تبدیلیوں کی بروقت نشاندہی ممکن ہوگی۔ مری اور جھانگا مانگا کے جنگلات کی ہائی ریزولوشن اورتھری ڈی میپنگ مکمل کر لی گئی ہے۔ مریم نوازشریف نے کہا کہ ڈرون ٹیکنالوجی سے جنگلات میں تجاوزات کی مانیٹرنگ اور فارسٹ ہیلتھ مانیٹرنگ ممکن ہوگی۔ جنگلات اور جنگلی حیات کی حفاظت کے لیے تھرمل سینسرکی مدد لی جائے گی۔ جنگلات کی حدود کے تعین کے لیے کمپارٹمنٹ لیول فارسٹ میپنگ کی جارہی ہے۔ فارسٹ ڈیپارٹمنٹ کے فیلڈ سٹاف کی مانیٹرنگ اور انسپیکشن کے لیے موبائل ایپ لانچ کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگلا ت میں لگنے والی آگ کے بروقت سدباب اور ڈی ٹیکشن انٹیلی جنس سسٹم کوجلد فعال کر دیا جائے گا۔ جنگلات سے متعلق ہنگامی صورتحال کے لیے خصوصی ہیلپ لائن 1084 بھی قائم کر دی گئی ہے۔
نئی نسل اور شاعری: روایت سے بغاوت یا جدت کی تلاش؟

شاعری ایک ایسا فن ہے جو انسانی جذبات، خیالات اور احساسات کو نہایت خوبصورتی سے الفاظ میں پروتا ہے۔ شاعری کے ذریعے نہ صرف محبت، دکھ، خوشی اور امید کا اظہار کیا جاتا ہے بلکہ یہ ایک طاقتور ذریعہ بھی ہے سماجی مسائل پر روشنی ڈالنے کا۔ ہر سال 21 مارچ کو عالمی یومِ شاعری منایا جاتا ہے، جس کا مقصد شاعری کے فن کو خراجِ تحسین پیش کرنا اور نئے شاعروں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ یہ دن 1999 میں یونیسکو کی جانب سے منظور کیا گیا تاکہ شاعری کو ایک ثقافتی اظہار کے طور پر تسلیم کیا جا سکے اور زبان و ادب کے فروغ میں اس کے کردار کو اجاگر کیا جا سکے۔ شاعری صدیوں سے دنیا بھر میں مختلف ثقافتوں اور زبانوں میں ایک اہم مقام رکھتی ہے، لیکن جب بات اردو شاعری کی ہو تو اس کی جڑیں انتہائی گہری اور اس کی تاثیر وسیع ہے۔ اردو شاعری کی بنیاد فارسی اور عربی ادب سے متاثر ہو کر رکھی گئی۔ امیر خسرو کو اردو کا اولین شاعر کہا جاتا ہے، جنہوں نے دہلی کی گلیوں میں پروان چڑھتی ہوئی اس زبان کو اپنے اشعار میں جگہ دی۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں میر تقی میر، مرزا غالب، سودا اور ذوق جیسے عظیم شعراء نے اردو غزل اور نظم کو نیا آہنگ بخشا۔ ان کی شاعری میں محبت، فلسفہ، درد اور سماجی حقیقتیں نمایاں نظر آتی ہیں۔ مرزا غالب کے بعد علامہ اقبال کی شاعری نے اردو ادب کو ایک نئی روح عطا کی۔ اقبال نے اپنی شاعری میں خودی، آزادی، روحانی بیداری اور اسلامی فلسفے کو اجاگر کیا۔ ان کے بعد فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، ناصر کاظمی اور پروین شاکر جیسے شعراء نے اردو شاعری میں نئے موضوعات کو متعارف کرایا۔ اردو شاعری آج بھی زندہ ہے، مگر اس کا دائرہ کار بدل چکا ہے۔ پہلے شاعری محافل، مشاعروں، دیوانوں اور کتابوں تک محدود تھی، مگر آج سوشل میڈیا نے شاعری کو نئی جہت دی ہے۔ انسٹاگرام، فیس بک اور یوٹیوب پر “انسٹا پوئٹری” کا رجحان بڑھ رہا ہے، جہاں نوجوان شعراء مختصر اشعار اور نثری شاعری کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ معروف شاعر خرم آفاق اس حوالے سے کہتے ہیں کہ آج کی شاعری میں روایت سے جڑت کم ہوتی جا رہی ہے۔ جدید شاعر جذبات کو بیان تو کر رہے ہیں، مگر ان کے ہاں وہ فنی پختگی اور فکری گہرائی کم نظر آتی ہے جو میر، غالب، اقبال اور فیض کی شاعری میں تھی۔ دوسری جانب نوجوان شاعر امین چوہدری کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا نے شاعری کو عام کیا ہے، اب شعر کہنے کے لیے کسی دیوان کی ضرورت نہیں، بس ایک پوسٹ یا ٹویٹ کافی ہے۔ لیکن اس آسانی کے باعث معیار بھی گرتا جا رہا ہے، کیونکہ ہر شخص شاعر بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں شاعری کو آج بھی ایک اہم ادبی صنف سمجھا جاتا ہے۔ انگریزی شاعری میں ولیم ورڈز ورتھ، شیلے، کیٹس اور ٹی ایس ایلیٹ جیسے شعرا نے ادب کو نئی راہیں دکھائیں۔ عربی شاعری میں نزار قبانی، فارسی میں حافظ اور رومی کی شاعری آج بھی مقبول ہے۔ لیکن ڈیجیٹل دور میں، شاعری کے قارئین کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ شعری مجموعے کم چھپ رہے ہیں، مشاعروں میں پہلے جیسی رونق نہیں، اور لوگ نثری ادب کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔ یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیا شاعری کا مستقبل روشن ہے؟ کچھ نقادوں کا کہنا ہے کہ شاعری کا معیار زوال پذیر ہے، مگر دوسرے کہتے ہیں کہ یہ صرف ایک ارتقائی مرحلہ ہے۔ آج کے نوجوانوں کے پاس اظہار کے بےشمار طریقے ہیں، اور وہ روایتی شاعری سے زیادہ آزاد شاعری کو پسند کرتے ہیں۔ اردو کے معروف شاعر عقیل عباس کا کہنا ہے کہ شاعری کبھی ختم نہیں ہو سکتی، کیونکہ انسانی جذبات کبھی ختم نہیں ہو سکتے۔ بس وقت کے ساتھ اس کا انداز اور ذریعہ بدل رہا ہے۔ شاعرہ عروج زہرا کہتی ہیں کہ یہ سچ ہے کہ روایتی شاعری کے قارئین کم ہو رہے ہیں، مگر شاعری آج بھی ہر دور کی طرح ایک طاقتور ذریعہ اظہار ہے۔ اگر ہم اس کے معیار کو برقرار رکھیں تو یہ ہمیشہ زندہ رہے گی۔ عالمی یومِ شاعری ہمیں یہ موقع دیتا ہے کہ ہم اس عظیم ادبی ورثے کی حفاظت کریں، نئے شاعروں کی حوصلہ افزائی کریں، اور شاعری کو نئے زمانے کے مطابق ڈھالیں۔ اگر ہم شاعری کی اصل روح کو برقرار رکھیں اور اس میں موجود فکری گہرائی کو نظرانداز نہ کریں، تو شاعری کا مستقبل یقیناً روشن ہے۔ شاعری کبھی نہیں مرتی، بس اسے سننے والے بدل جاتے ہیں۔
امانت میں خیانت کا الزام، اداکارہ نازش جہانگیر کے گرفتاری وارنٹ جاری

امانت میں خیانت کے الزام میں اداکارہ نازش جہانگیر کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے گئے۔ نجی نشریاتی ادارے 24 نیوز کے مطابق کینٹ کچہری کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے اداکارہ کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔ ڈیفنس سی پولیس کو گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اداکارہ کے خلاف ڈیفنس کے اسود ہارون نامی شخص نے مقدمہ درج کروا رکھا ہے۔ مقدمہ امانت میں خیانت، فراڈ اور دھمکیاں دینے کی دفعات کے تحت درج ہے۔ عدالت نے مقدمے میں نامزد نازش جہانگیر ،سکندر خان اور دیگر ملزمان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔ مدعی مقدمہ نے وارنٹ گرفتاری ڈیفنس سی پولیس میں جمع کروا دیے ہیں۔ عدالت نے اداکارہ اور ملزمان کو 22 مارچ کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ مزید پڑھیں: 540 ملین روپے کی خرد برد، اداکارہ نادیہ حسین مشکل میں پھنس گئیں واضح رہے کہ گزشتہ سال ابھرتے ہوئے اداکار اذان اسود ہارون نے دعویٰ کیا کہ معروف اداکارہ نازش جہانگیر نے انہیں شوبز انڈسٹری میں متعارف کرانے کا جھانسہ دے کر ان سے رقم بٹوری، گاڑی لی اور پھر تشدد کروایا۔ ایک نجی شو میں اسود ہارون نے دعویٰ کیا کہ نازش جہانگیر نے پہلے ان سے 15 لاکھ اور پھر مزید رقم کا مطالبہ کیا، بہانے سے گاڑی مانگی اور انہوں نے اداکارہ کو 55 لاکھ روپے مالیت کی ہونڈا کار دے دی، مزید یہ کہ ان سے ایئرٹکٹس بھی منگواتی رہی تھیں۔ اسود ہارون نے دعویٰ کیا کہ پیسوں کے واپسی کے مطالبے پر اداکارہ نے انھیں ایک فارم ہاؤس میں بلایا، جہاں متعدد اسلحہ بردار افراد نے انہیں یرغمال بنا کر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا، جس کے بعد اس نے نازش کے خلاف ڈیفینس سی تھانےمیں فراڈ کا مقدمہ درج کروایا، جس میں پیسوں اور گاڑی کا بھی ذکر کیا گیا۔